مضامین

الٰہی جماعتوں کی مخالفت ان کی ترقی کا باعث ہوتی ہے

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل، گھانا)

’’منہ کی پھونکیں کیا ہوتی ہیں ؟ یہی کہ کسی نے ٹھگ کہہ دیا، کسی نے دکاندار اور کافر اور بے دین کہہ دیا۔ غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں، مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہوجاتے ہیں ۔‘‘

تقریر جلسہ سالانہ یوکے2022ء

یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ۔ (سورۃ الصف آیت9)وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں۔ اور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا خواہ کافر کتناہی نا پسند کریں۔

سامعین کرام۔خاکسار کی آج کی گزارشات کا موضوع یہ عظیم الشان حقیقت ہے کہ:

الٰہی جماعتوں کی مخالفت ان کی ترقی کا باعث ہوتی ہے

سامعین۔ تاریخ مذاہب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی مامور کو دنیا میں بھیجا جاتا ہے انسانیت ابتدائی طور پر دو اور بعد ازاں تین گروہوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک گروہ کے افراد سچائی کو تسلیم کرکے احسن تقویم بن جاتے ہیں تو دوسری جانب مکذبین اسفل سافلین میں گرا دیے جاتے ہیں۔آدم ؑکے مقابلےپر ابلیس سر اٹھاتا ہے، ابراہیمؑ کو مٹانے کے لئے نمرود آگ بھڑکاتا ہے، اور موسیٰ ؑ کے مقابل پر فرعون پوری طاقت کے ساتھ نکل کر سامنے آجاتا ہے۔یہاں تک کہ نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھی جب دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو ابو لہب اور ابو جہل جیسے بہت سے کردارحق کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنے منہ کی پھونکوں سے اس آسمانی نور کو مٹا دیں۔لیکن ایسے لوگ ہمیشہ ناکام و نامراد کر دیے جاتے ہیں اور ان کے منصوبے پارہ پارہ کردیے جاتے ہیں۔ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے زمانے میں بھی وہی لوگ غالب آئے جنہوں نے اپنے سر اطاعت کے لئے جھکا دیے اور اپنے ہاتھ غلامی کی بیعت کے لئے آگے بڑھا دئیے۔پس ان سروں پر تاج رکھے گئے اور ان ہاتھوں میں بادشاہوں کے کنگن دےدئیے گئےاور انہیں زمین کا وارث بنا دیا گیا کیونکہ ان ہاتھوں پر خدا کا ہاتھ تھا اور خدا ان کے ساتھ تھا۔ لیکن ان ترقیات کے ساتھ ہی ایک تیسر ا گروہ بھی پیدا ہوجاتا ہے جو منافقت یا مداہنت بھری باتوں کے ذریعہ الٰہی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔عبداللہ بن ابی نے بھی یہی کام کیا تھا ،عبد اللہ بن سبا نے بھی ایسی ہی تحریکات چلائی تھیں لیکن انجام کار فتح مومنوں کا ہی مقدر بنی۔ حیرت ہوتی ہے کہ آج کے مکذبین اور فتنہ پردازیہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی مداہنت بھری باتوں سے کسی مومن کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔جب اس طرح کے بد قسمت لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر، ذات پر ، الہامات پر اور نظام جماعت پر بعض اعتراض اٹھا کرہنسی ،ٹھٹھا اور استہزاء کرتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں اس قسم کے تمام الزام، اعتراض، تہمتیں اور بہتان سابقہ انبیاء اور ان کی جماعتوں پر بھی لگائے جا چکے ہیں اور قرآن نے ہماری ہدایت کے لئے انہیں محفوظ بھی فرما دیا ہے اور یہ بتا دیا ہےکہ:

اگر انسان کے اپنے دل میں نور نہ ہو تو اسے تو قرآن بھی ہدایت نہیں دے سکتا کیونکہ وہ ھدی للمتقین ہے۔

اگر کسی آنکھ میں نفرت کا سمندر موجزن ہو تو اسے تو محمد مصطفیٰﷺ کا نور بھی نظر نہیں آتا حالانکہ آپ سراج منیر یعنی روحانیت کے آسمان کے روشن ترین سورج ہیں۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس مخالفت کی وضاحت کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’منہ کی پھونکیں کیا ہوتی ہیں ؟ یہی کہ کسی نے ٹھگ کہہ دیا، کسی نے دکاندار اور کافر اور بے دین کہہ دیا۔ غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں، مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہوجاتے ہیں۔‘‘(الحکم جلد 5، مورخہ 24؍جنوری 1901ء)

سامعین! ہمارے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺکی ولادت سے چند سال پہلے جب ابرہہ خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادہ سے مکہ پہنچا تو اس کے دستوں نے مکہ کے نواح سے بعض اونٹ اپنی تحویل میں لے لیے جو حضرت عبدالمطلب کی ملکیت تھے۔ عبدالمطلب اس کے لشکر میں گئے اور اس سے کہا کہ آپ کے سپاہی میرے اونٹ پکڑ کر لے آئے ہیں ، انہیں میرے حوالے کردیا جائے۔ابرہہ نےغصہ سے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ تمہیں اپنے اونٹوں کی تو فکر ہے لیکن میں جو تمہارا مذہبی مرکز مٹانے آیا ہوں اس کی تمہیں کوئی بھی پرواہ نہیں ہے؟ حضرت عبدالمطلب نے بڑی جرأت سے جواب میں فرمایاکہ میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اس لیے مجھے ان کی فکر ہے اور میں آ پ کو یہی بتانا چاہتا تھا کہ اس گھر یعنی خانہ کعبہ کا بھی ایک مالک ہے اور وہ مالک اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا۔ اور پھر تاریخ انسانی میں ابرہہ اور اس کے لشکر کی تباہی کی داستان عبرت ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئی۔جبکہ خانہ کعبہ اپنی پوری شان کے ساتھ آج بھی نہ صرف قائم ہے بلکہ ہر دَور میں اس کی ترقیات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔قرآن کریم کی سورۃ الفیل میں اس طاقتور لشکر کی تباہی کا واقعہ چند فقروں میں سمیٹ کر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب کرلے اس کی خاطر وہ ایک غیرت رکھتا ہے اورایک طاقتور بادشاہ کی طرح خود اس کی حفاظت فرماتا ہے،پھر خواہ وہ مِٹی کا بنا ہوا ایک گھر ہی کیوں نہ ہو۔ بالکل اسی طرح وہ جماعتیں جو اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب ہوکر الٰہی جماعتیں بن جاتی ہیں، ان کی مخالفت پر بھی اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کی ہر ایک تدبیر کو ناکام کرکے دکھاتا ہے اور اس سنت اللہ میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی کہاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۔یقیناً اللہ ہی کا گروہ غالب آنے والا ہے۔

پس یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک جماعت جو اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ہو ،وہ مخالفت کی آندھیوں سے ڈر جائے۔وہ دشمن کے مظالم سے گھبرا جائے۔وہ سرکش اور شیطان لوگوں کی سرکشی کے سبب دل ہار دے۔وہ بھوک، پیاس اورخوف کی وجہ سے اپنے بڑھتے قدم روک لے۔اور اپنی جان ومال کی آزمائش کے وقت پیچھے ہٹ جاۓ۔ کیونکہ یہی تو وہ امتحانات ہیں جن سے گزرتے ہوئے الٰہی جماعتیں اپنی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس مخالفت کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اگر آنحضرت ﷺکی بعثت کے دن ہی سارامکہّ آمنّا وصدقنا کہہ کرساتھ ہو لیتا تو پھر قرآن شریف کا نزول اسی دن بندہو جا تا اور وہ اتنی بڑی کتا ب نہ ہو تی۔جس جس قدرزورسے با طل حق کی مخالفت کرتا ہے اسی قدرحق کی قوت اور طاقت تیز ہو تی ہے۔‘‘( ملفوظات جلدسوم صفحہ 226)

سامعین! اگر ہم اسلام کے دَور اول کو دیکھیں تو آج کےمعاملات کا منطقی انجام بھی بڑی وضاحت سے نظر آجاتا ہے۔مسلمانوں کے دین کا نام بگاڑا گیا اور کہا گیا کہ تم مسلمان نہیں بلکہ صابی ہو۔ حضرت ابوبکرؓ نے دین حق قبول کرنے کا اعلان کیا توکفار نے آپ کو اس قدر ماراکہ لوگوں کے لیے آپ کا چہرہ پہچاننا مشکل ہوگیا۔

حضرت خبابؓ جو ایک غریب لوہار تھے انہیں لوہے کی گرم سلاخوں سے داغا گیا۔دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا گیا۔حضرت بلالؓ جو ایک کمزور غلام تھے انہیں تپتی ریت اور جلتے پتھروں پر گھسیٹا گیالیکن ان کی زبان سے نکلنے والی احد احد کی صدائیں نہ روکی جا سکیں۔ عروہ بن مسعودؓ نے اپنی قوم میں جاکر اذان دی تو ظالم قوم کا غیظ و غضب بھڑک اٹھا۔اور نماز سے پہلے ہی ایک بد بخت نے تیر مار مار کر آپ کو شہید کردیا۔صحابہ ؓکو ان کے اموال اور جائیدادوں سے محروم کردیا گیا۔ ان کے بیوی بچے چھین لیے گئے خود رسول اللہ کے پاک وجود کو بھی مکہ کی گلیوں میں ، صحن کعبہ میں اور شعب ابی طالب میں ایسی ہی آزمائشوں میں ڈالا گیا۔آپ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے، جنگیں مسلط کی گئیں لیکن کوئی ایک ابتلا بھی ان پاک وجودوں کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔ اور پھر وہ دن بھی آئے کہ ان مخالفتوں کے طوفانوں کو چیرتے ہوئے مسلمان نہ صرف مکہ کے وارث بن گئے بلکہ پورا عرب ان کے ماتحت آگیا۔قیصر وکسریٰ کی بڑی بڑی بادشاہتیں ان کے قدموں میں ڈھیر کردی گئیں۔وہ مالک الملک کے غلام ملکوں کے مالک بنا دئیے گئے۔ وہ گلیوں میں ظالم دشمنوں کے ہاتھوں بے دردی سے ماریں کھانے والے امان کے جھنڈوں کی علامت بن گئے۔اور ہر ظلم کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ انہیں ترقیات کی منزلوں کی جانب بڑھاتا چلا گیا۔

مکہ سے اٹھنے والی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا دنیا بھر میں پھیل گئی۔

جس اذان کی خاطر عروہ بن مسعودؓ نے اپنی جان دی تھی وہ دنیا کے کونے کونے میں گونجنے لگی۔

وہ نماز جس کے دوران رسول اللہﷺ کے پاک وجود پر آلائشیں ڈال دی جاتی تھیں بستی بستی ادا کی جانے لگی۔

وہ قرآن جس کی تلاوت کی پاداش میں مکہ میں مسلمانوں کا جینا دو بھر کردیا گیا تھا گھر گھر پہنچ گیا۔

اسلام صرف اسلام کہلانے لگا اور کوئی کسی مسلمان کو صابی کہہ کر نہیں پکارسکتا تھا۔

سامعین! پھر وقت بدلا ، ایمان ثریا پر جا پہنچا، اور یہیں سے مسلمانوں کے زوال کا دَور شروع ہوگیا کیونکہ وہ جو الٰہی جماعت ہونے کے سبب دنیا بھر پر غالب آگئے تھے، خداتعالیٰ کا ہاتھ پشت سے اٹھتے ہی دنیا میں بے یارو مددگار ہو کر رہ گئے۔ حوادث کی آندھیوں نے انہیں خس و خاشاک کی مانند اڑا کر رکھ دیا اور ان کی سب شان و شوکت ماضی کی داستانوں میں تبدیل ہوکر رہ گئی۔ تب اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے رسول ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اپنے مسیح اور مہدی کو بھیجا تاکہ پھر سے ایک الٰہی جماعت قائم کی جاسکے اور اسلام کو دوبارہ عزت، طاقت اور غلبہ عطا کیا جائےپس آپ نے بڑے زور سے یہ اعلان فرمایا:’’مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا۔ جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے۔‘‘( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 492)

چناچہ اس آسمانی صدا پر لبیک کہتے ہوئے جب 1889ء میں چند افراد نے اللہ تعالیٰ کے مامور کے ہاتھ پر اسلام کی ترقیات کے لیے عہد بیعت باندھا تو پادریوں، پنڈتوں اور علماء کی طرف سے مخالفت کا شدید طوفان شروع ہوگیا آپ کے خلاف کفر کے فتوے لگائے گئے اور لوگ آپ کی جان کے درپے ہوگئے۔نبیوں کی مخالفت کی ہمیشہ سے جاری سنت دہرائی جانے لگی۔ آپ لدھیانہ تشریف لے گئے تو ایک مولوی نے بڑے جوش سے یہ تقریر کی کہ جوشخص آپ کو قتل کرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ ایک دیہاتی نے جب جنت میں جانے کا یہ آسان ترین نسخہ سنا تو آپ کی قیام گاہ تک پہنچ گیا تاکہ آپ کی جان لے کر جنت میں جا سکے۔ حضور وہاں خطاب فرما رہے تھے۔ یہ شخص موقع کے انتظار میں وہاں بیٹھ گیا لیکن جیسے جیسے آپ کے الفاظ اس کے کانوں میں پڑتے چلے گئے اس کے دل کا زنگ دھل کر صاف ہوتا چلا گیا اور وہ جو آپ کو قتل کرنے نکلا تھا خود سچ کی تلوار سے گھائل ہوگیااورجونہی آپ کی گفتگو ختم ہوئی اس نے آگے بڑھ کر آپ کے ہاتھ کو تھام لیا اور بیعت کرلی۔آج بھی سوشل میڈیا کے بعض شعبدہ باز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر کوئی آپ کی کتابوں کو مکمل پڑھ لے تو خود بخود احمدیت چھوڑ دے گا۔کیا ان جھوٹ بولنے والوں کو یہ خبر نہیں کہ تاریخ احمدیت اس قسم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ آپ یا آپ کے خلفاء کی تحریر وں اور تقریروں کے سبب ہزاروں لاکھوں لوگ احمدیت کی آغوش میں آئے ہیں اور آج بھی یہی تعلیم ہے جو لوگوں کو حقیقی اسلام سے متعارف کروا رہی ہے۔ اے معاندین احمدیت! اگر بفرض محال یہ بات واقعی سچ ہے تو کیوں جماعت احمدیہ کی کتابوں پر پابندی لگائی جاتی ہے؟ کیوں مختلف ملکوں میں ایم ٹی اے کی نشریات کو روکا جاتا ہے؟ کیوں جماعتی ویب سائٹس کو بند کیا جاتا ہے؟صرف اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ یہ وہ آسمانی نور ہے جو اگر قبولیت کے کسی لمحے میں ایک متقی دل پر نازل ہوجائے تو اس کی کیفیت ہی بدل دیا کرتا ہے۔

یہ محض کوئی جذباتی نعرہ نہیں ہے بلکہ آج دنیا کے 200سے زائدممالک کے کروڑوں لوگ جن تک سچ کا یہ پیغام پہنچ چکا ہےوہ آپ اور آپ کی نیابت میں قائم شدہ خلافت احمدیہ کے ایک اشارے پر ہر قربانی کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔مخالفین جو دلائل کے میدان میں عاجز آچکے ہیں لدھیانہ کے مولوی کی طرح جنت کے جھوٹے پروانے تقسیم کرتے ہوئے لوگوں کو احمدیوں کے قتل پر اکساتے ہیں اور اب تک سینکڑوں احمدی اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کے جرم میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اگر دلائل موجود ہیں تو کیوں معصوم احمدیوں کی جانیں لی جاتی ہیں؟ کیوں انہیں جھوٹے مقدمات بنا کر قید کیا جاتا ہے؟ کیوں ان کے لیے الگ سےقانون سازیاں کی جاتی ہیں؟ ایک صدی گواہ ہے کہ احمدیوں کو شہادتوں کے میدان میں آزما کر دیکھا گیا۔گلیوں اوربازاروں میں، یہاں تک کہ مسجدوں میں احمدی خون یہ سوچ کر بہا دیا گیا کہ شایداس طرح سے اس آسمانی سلسلہ کو شکست دی جاسکے گی۔لیکن ایک دن میں لاہور کی مساجد میں ہونے والی 86 شہادتیں بھی جماعت کی ترقی کےاس سفر کو روک نہیں سکیں بلکہ خلافت احمدیہ کے زیر سایہ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے آج 70 ہزار سے زائد وقف نو بچے ،سینکڑوں ہزاروںمبلغین اورلاکھوں کروڑوں احمدی قدم آگے سے آگے بڑھانے کے لیے تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔ پس کس میں ہمت ہے کہ سچائی کے اس قافلے کو روک سکے۔حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’مسیح محمدی کے یہ غلام اپنے ایمانوں اور اپنے عہدوں کی حفاظت ہر طرح قربانی کر کے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اتنے عرصے کی بندش اور مستقل اذیت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن صبر و استقامت کے یہ پیکر مرد، عورت، بوڑھے، بچے یہ قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ ہمیشہ کی قربانیاں نہیں ہیں۔ یہ تین سو سال سے زائد عرصہ تک رہنے والی قربانیاں نہیں ہیں۔ یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ ہمیں کامیابیوں اور فتوحات کے قریب تر لے جاتی چلی جا رہی ہیں۔‘‘( خطبہ جمعہ 24 ستمبر 2010ء)

سامعین!حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت کو قید کرنے کے لیےقادیان میں مخالفین احمدیت نے آپ کے گھر کے سامنے راستے میں ایک دیوار کھینچ دی اور یہ خیال کیاکہ شاید وہ اس طرح سے احمدیت کے پیغام کو ایک گاؤں کی چار دیوار ی سے باہر نہیں نکلنے دیں گے۔اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق نہ صرف وہ دیوار گرائی گئی بلکہ احمدیت کی ترقی کی راہ میں حائل ہونے والی ہر دیوار کو اللہ تعالیٰ نے پاش پاش کردیا۔ اور خدا تعالیٰ نے احمدیت کے پیغام کو نہ صرف زمین کے کناروں تک پہنچا دیا بلکہ فضاؤں کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے لیے مسخر کردیا۔ ایم ٹی اے کے چینلز ، جماعت کی بے شمار ویب سائٹس، اخبارات و رسائل اور کتابیں۔ملکوں ملک پھیلے ہوئے احمدیہ مشن ہاوسز اور مساجد برصغیر پاک و ہند کی ملکی حدود کی دیواروں سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور سعید روحیں ان کے ذریعے عافیت کے حصار میں داخل ہو رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘( فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ34،ایڈیشن 1984ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قتل کی کوششوں کے ساتھ ساتھ آپ کو گرفتار کروانے کے منصوبے بھی بنائے گئے آپ پر اقدام قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا۔ مجسٹریٹ نے اس معاملے کی تحقیق کے بعد جب آپ کو باعزت بری قرار دے دیا تویہ اختیار بھی دیا کہ اگر آپ چاہیں تو عیسائی پادری کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا : میں کسی پر مقدمہ نہیں کرنا چاہتا۔ میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے۔اور پھر ایسا ہی ہوا اور خدا نے خود فیصلے کرنا شروع کئے تو آپ کے دشمن اور مخالفین ایک ایک کرکے ہلاکت کے گڑھوں میں گرتے چلے گئے۔

سامعین!برصغیر کی تقسیم کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ربوہ جیسا عظیم الشان مرکز عطا کردیا۔ لیکن پھر جب ایک حاکم وقت نے اس مرکز احمدیت کو مٹانے کے ارادے باندھے تو اللہ تعالیٰ نے برطانیہ میں اسلام آباد جیسا عظیم الشان مقام عطا کرکےمسیح موعود کے زمانے میں سورج مغرب سے طلوع ہونے کی پیشگوئی بھی پوری کردی اور دنیا کو یہ پیغام بھی بڑی وضاحت کے ساتھ دے دیا کہ جماعت احمدیہ کا حقیقی مرکز خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہےاور نظام خلافت ہی وہ مرکز ہے جو اپنے سب متبعین کو متحد رکھتا ہے اور دنیا بھر میں باوجود ہزار کوششوں کے یہ نعمت کسی اور فرقے یا گروہ یا جماعت کا مقدر نہیں بن سکی کیونکہ یہ نعمت صرف اللہ تعالیٰ عطا کرسکتا ہے۔

مجلس احرار نے 1934ء کے فسادات کے دوران خوف کی فضا پیدا کرنے کے لیے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے کیے تھے جس کے جواب میں امام جماعت احمدیہ نے فرمایا تھا کہ میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتے دیکھ رہا ہوں۔ حضرت مصلح موعود ؓ ہرقسم کے مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’تم سارے مل جاؤ اوردن اور رات منصوبے کرو۔اور اپنے منصوبوں کو کمال تک پہنچا دو ، اور اپنی سار ی طاقتیں جمع کرکے احمدیت کو مٹانے کے لئے تل جاؤ پھر بھی یاد رکھو کہ تم سب کے سب ذلیل و رسوا ہوکر مِٹی میں مل جاؤ گے، تباہ و برباد ہوجاؤگے اور خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا نے جس راستے پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے۔‘‘( تاریخ احمدیت 6،صفحہ 497)

1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف نہ صرف ملکی بلکہ طاقتور سربراہوں پر مشتمل عالمی جتھے اکٹھے کرلیے گئے۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ عوام کو بھڑکایا گیا۔ جانیں لی گئیں ، اموال لوٹے گئے ، تحریکات چلائی گئیں اور یہ خیال کیا گیا کہ بس اب احمدیت کو کچل کر رکھ دیا جائے گا۔ عین اس وقت اس الٰہی جماعت کا محافظ خدا یہ ارشاد فرما رہا تھا کہ وسع مکانک۔اے احمدیو اٹھو اور اپنے مکانوں کو وسیع تر کرنے کی تیاریاں کرو کیونکہ یہ مصائب اور مخالفت کی آندھیاں تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں پس جاؤ اور اپنی آئندہ آنے والی ترقیات کی تیاری کرو۔اگر تاریخ کے ایوانوں میں جھانک کر ان طاقتور حکمرانوں کے ناموں کی فہرست نکالی جائے۔ ان کی تصاویر کو ایک مرتبہ پھر ذراغور سے دیکھا جائے اور ان میں سے ایک ایک کے انجام کے بارے میں تحقیق کی جائے تو معلو م ہوتا ہےکہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان صاحب جبروت بادشاہوں اور سربراہوں کو عبرت کے نشان بنادیا۔اگر ہم پلٹ کر دیکھیں تو ہمیں تاریخ میں تختہ دار پر جھولتے ہوئے مالکان اقتدارنظر آتے ہیں ، گلیوں اور بازاروں میں اپنے عوام کے ہاتھوں مار کھاتے ہوئے لہو لہو چہرے دکھائی دیتے ہیں اورجب ہم ان چہروں کو پہچان کر دوسری جانب دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے اسی مختصر سےعرصہ کے دوران ایک کمزور جماعت کی ترقیات کی راہوں کو عظیم شاہراہیں بنا دیا ہے۔

1984ء کے ابتلا ؤں کے دوران بہت سے احمدیوں کو صحابہؓ کے نمونوں کے مطابق تکلیفوں سے بھی گزرنا پڑا۔اس دور میں احمدیت کو کینسر قرار دے کر مٹانے کے دعوے کیے گئے۔ لیکن کون زندہ رہا اور کسے اللہ تعالیٰ نے ریزہ ریزہ کر کے ہواؤں کی نذر کردیا۔اور مورخ نے دیکھا کہ ایک جلتے ہوئے طیارے کے ساتھ وہ تمام ارمان اور حسرتیں بھی جل کر راکھ اور خاک کا ڈھیر بن گئیں جو ایک الٰہی جماعت کو مٹانے کے لیے محو پرواز تھیں۔

مخالفت کا یہ سفر جاری رہا اور پھر مئی 1999ء کے وہ دردناک ایام بھی آئے جب ظلم کی انتہا کرتے ہوئے ہمارے موجودہ امام کو جو اس وقت ناظر اعلیٰ تھے ایک جھوٹا مقدمہ قائم کرکے قید میں ڈال دیا گیا۔جماعت کے لیے یہ بہت تکلیف دہ وقت تھا لیکن وہ اسیر راہ مولا اپنی اس قید کے حالات یوں بیان کرتے ہیں جنہیں سن کر رشک آجاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:’’میں تمہیں کیا بتاؤں؟ مجھے احساس تک نہیں ہوا کہ خدا کی راہ میں اسیری کے میرے یہ دن کتنی جلدی گزر گئے۔ میں صرف اللہ کی نعمتوں کا مشاہدہ کیا کرتا تھا۔یہ موسم گرما کے ایام تھے اور اللہ تعالیٰ گرمی کو ٹھنڈی ہوا میں بدل دیا کرتا تھا۔ ہم جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہےلیکن میرے دل میں کسی قسم کی پریشانی اور ذہنی دباؤ نہیں تھا۔ ، میں جانتا تھا کہ میرے خلاف لگائے گئے [جھوٹے] الزامات کی سزا یا تو عمر قید ہوسکتی ہے یا سزائے موت اور مجھے ان دونوں میں کوئی ایک سزا ملنے کا امکان تھا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ صرف اللہ ہی ہے جس سے میں مدد مانگوں گا اور اسی کی رضا حاصل کروں گا۔میں نے سوچا کہ اگر مجھے جماعت کی وجہ سے سزا دی جائے گی تو یہ واقعی بہت بڑی نعمت ہوگی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا تھا۔

(virtual mulaqat of the missionaries of Bangladesh with Huzooraa on 8 November 2020)

یہ تھے وہ بابرکت اسیر جنہیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس قید سے نکالا، بلکہ کروڑوں دلوں کی سلطنت کا بادشاہ بھی بنا دیا۔اور آج آپ جس جانب بھی جاتے ہیں یہ عزت اور تکریم آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔پھر چاہے وہ ملکوں کے ائیرپورٹ ہوں یا راستے۔دیوان عام ہوں یا دیوان خاص۔کیپیٹل ہل ہو یا یوروپین پارلیمینٹ۔ملکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں ہوں یا مذہبی راہنماؤں سے۔ہر ایک جانب ، ہر ایک راستے پر آپ کے ادب اور احترام کےلیے غیر معمولی اہتمام کیا جاتا ہے۔ پس اپنے امام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم میں سے ہرایک احمدی یہ یقین رکھتا ہے کہ دشمن اگر ہمیں قید کر بھی دے۔ اگر وہ ہمارے اموال اور جائیدادوں کو چھین بھی لے۔ اگر وہ ہمیں ملکوں سے ہجرت پر مجبور بھی کردے۔ اگر وہ ہمارے خون بہا بھی لے تب بھی ہم حضرت خبیب کی طرح کے نمونے ہی دکھائیں گے اور وہی شعر پڑھتے ہوئے مقتل کی طرف جائیں گے جو انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے پڑھے تھے کہ

لست ابالی حین اقتل مسلما

علیٰ ای شق کان للہ مصرعی

و ذلک فی ذات الالہ و ان یشاء

یبارک فی اوصال شلو ممزع

کہ اے دشمنو۔ میں تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ جب میں قتل ہوکر زمین پر گروں گا تو کس پہلو پر گروں گا۔ کیونکہ خدا کی قسم میری یہ موت اس معبود کی خاطر ہے جو اگر چاہے تو میرے ریزہ ریزہ بدن کو بھی برکتوں سے بھر سکتا ہے۔

پس اے معاندین احمدیت! یاد رکھو اور کان کھول کر سن لو کہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے جس کی پشت پر اس کی حفاظت کے لئے ایک طاقتورخدا کھڑا ہوا ہے۔ اور خدا کو ہرگز ہرگز شکست نہیں دی جاسکتی۔یہ ہمارا ایمان بھی ہے اور گزشتہ سوا سو سال کی تاریخ بھی۔

وہ لوگ جو ہمیں دائرہ اسلام سے نکالنے پر نازاں تھے دنیا میں نکل کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے گا کہ ہم نے کروڑوں لوگوں کو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی غلامی کے دائرے میں شامل کر دیا ہے۔

وہ جو احمدی اذان بند کرنے پر مصر تھے کان کھول کر سنیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں افریقہ سے لے کر یورپ تک اور امریکہ سے آسٹریلیا تک اللہ کا نام بلند کرنے کی توفیق عطا کردی ہے۔

وہ جواحمدی مساجد کو مسمار کرکے خوش تھے انہیں خبر ہوکہ آج ہم دنیا بھر میں سینکڑوں، ہزاروں مساجد بنا چکے ہیں۔

وہ جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا قرآن سے کوئی تعلق نہیں رہا جان لیں کہ ہم وہ جماعت ہیں جو قرآن کریم کے 80 زبانوں میں ترجمے شائع کرچکے ہیں۔

وہ جو ہمیں کلمہ طیبہ کے بیج اپنے سینوں پر سجانے سے روک رہے تھے آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ ہم نےصرف اپنےسینوں پر ہی نہیں بلکہ دنیا کے کروڑوں دلوں کے اندربھی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ اس طرح سے لکھ دیا ہے کہ ہزارکوشش سے بھی اسےنوچا یا مٹایا نہیں جا سکتا۔

یہ اللہ تعالیٰ کے وہ فضل ہیں جو ہمیشہ الٰہی جماعتوں کے ساتھ ہوا کرتے ہیں۔جیسے ابرہہ پر ہونے والی کنکریوں کی بارش کو کوئی نہیں روک سکتا تھا ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی اس بارش کو بھی کوئی روک نہیں سکتا۔تاریخ مذاہب میں یہ دونوں طرح کی بارشیں ہمیشہ سے جاری ہیں اور ہمیشہ جاری رہیں گی۔ فیصلہ ہر ایک کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ کس بارش کے نیچے کھڑا ہونا چاہتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام دشمنوں کی تدبیروں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’کیا کیا مکر ہیں جو کر رہے ہیں اور کیا کیا منصوبے ہیں جو اندر ہی اندر ان کے گھروں میں ہو رہے ہیں۔ مگر کیا وہ خدا پر غالب آجائینگے اور کیاوہ اس قادر مطلق کے ارادے کو روک دیں گے جو تمام نبیوں کی زبانی ظاہر کیا گیا ہے۔ وہ اس ملک کے شریر اور بد قسمت دولت مند دنیا داروں پر بھروسہ رکھتے ہیں مگر خدا کی نظر میں وہ کیا ہیں ؟صرف ایک مرے ہوئے کیڑے۔ اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دیگا۔ اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائیگا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کوجو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہےنامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی…مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘(تذکرۃ الشھادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ67)

06-08-2022

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button