مضامین

مسئلہ فلسطین کا حل خلفائے احمدیت کے موقف اور ارشادات کی روشنی میں

(شمس الدین مالاباری ۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل کبابیر)

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب تقسیم فلسطین کا ظالمانہ فیصلہ ہوا تو اس سے پہلے وہ کونسی آواز تھی جس نے سارے عالم کو خبر دار اور متنبہ کیا تھا اور جس سےعرب دنیا میں بھی اور عرب سے باہر بھی ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ یہ دردمندانہ انتباہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی آواز تھی

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت خاتم النبیین محمد عربی ﷺ کے مشن کی تکمیلِ اشاعت کے لیےمبعوث فرمایا۔ آپؑ جس نبی عربیﷺ کے خادمِ اکمل اور عاشق صادق بن کر آئے تھےاس سے نسبت رکھنے والی عرب قوم اور بلاد عربیہ کی ہدایت کے لیے آپؑ کے اندر غیر معمولی محبت اور ایک تڑپ تھی۔

1893ء میں آپؑ نے اپنی ایک عربی کتاب حمامۃ البشریٰ تصنیف فرمائی اور اس میں خدائی بشارت اور حکم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’وإن ربي قد بشّرني في العرب، وألهمَني أن أمونهم وأُريهم طريقهم وأُصلح لھم شؤونهم، وستجدوني في هذا الأمر إن شاء اللّٰه من الفائزين۔‘‘(حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 182)یعنی میرے رب نے عربوں کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہام کیا ہے کہ میں ان کی خبرگیری کروں اور ٹھیک راہ بتادوں اور ان کے معاملات کو درست کروں، اور اس کام میں تم مجھے ان شاء اللہ کامیاب پاؤگے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپ علیہ السلام کے خلفائےکرام آپؑ کے نقش قدم پر آپؑ کی خواہش کی تکمیل میں مصالح عرب کے لیے انتہائی درجہ کی جد وجہد کرتے رہے اور آج حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد سعید میں ہم ان امور کو بچشم خود مشاہدہ کرتے جا رہے ہیں۔

فلسطین کی اہمیت

بیت المقدس ہمارا قبلہ اوّل ہے۔ اس سرزمین میں لوگوں کی اصلاح کی خاطر بہت سے انبیاء بھیجے گئے، اس مبارک زمین پر وہ چلے، عبادات بجالائے، ان کی دعائیں سنی گئیں اور دینی مہمات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں فائز المرامی عطا فرمائی۔ پھر خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم فرماکر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے مقامات بلند فرمایا اور انبیاء بنی اسرائیل کو خاتم النبیینؐ کے تابع فرماکر بیت المقدس کو مکہ مدینہ کے تابع کردیا گیا۔ بہر حال ارض فلسطین کا ایک مقام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ارض مقدسہ کے نام سے پکارا ہے۔

مسئلہ فلسطین کا پس منظر

مسئلہ فلسطین کو سمجھنے کے لیے اس کا مختصر پس منظر تاریخ احمدیت سے پیش کیا جاتا ہے۔

فلسطین کو یہودیت کا مرکز بنانے کی تحریک انیسویں صدی کے آخر (۱۸۹۷ء) میں شروع ہوئی اور ہرزل نے عالمی صیہونی انجمن کی بنیاد ڈالی۔اور طے پایا کہ فلسطین میں یہودیوں کا ایک وطن بنایا جائے۔ صیہونی تحریک کے لیڈروں نے پہلے تو سلطان ترکی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ یہودی وطن کے قیام کی اجازت دی جائے۔ مگر ترکی حکومت نے انکار کر دیا۔۱۹۰۳ء میں حکومت برطانیہ نے تجویز پیش کی کہ یہودی کینیا (افریقہ) کو اپنا وطن بنالیں۔ لیکن یہودی رضامند نہ ہوئے۔۱۹۱۴ء میں جب پہلی عالمگیر جنگ چھڑی تو یہودیوں نے جرمنی اور برطانیہ دونوں سے جوڑ توڑ شروع کردیے۔جنگ عظیم کے دوران حالات نے پلٹا کھایا۔ ترک جنگ میں اتحادیوں کے خلاف جرمنی کا ساتھ دے رہے تھے۔ ادھر برطانیہ کو عربوں کی (جو اس وقت ترکی حکومت سے مطمئن نہ تھے) ضرورت محسوس ہوئی۔ انگریزوں نے حسین شریف مکہ کو پیغام بھیجا کہ اگر فلسطین کے عربوں نے جنگ میں ان کاساتھ دیا تو ترکوں کے عربی مقبوضات آزاد کر دیے جائیں گے۔ ان مقبوضات میں فلسطین بھی شامل تھا۔ عرب برطانیہ کی سازشوں کے نتیجہ میں اسے منظور کر لیا اور جنگ میں ترکوں کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔ چنانچہ عربوں کی مدد سے انگریز نے ۱۹۱۷ء میں ترکوں کو شکست دے کر یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ صیہونی تحریک کے لیڈر بھی خاموش نہیں بیٹھے تھے، فلسطین کو اپنا قومی گھر بنانے کی پرانی خواہش از سر نو تازہ ہوگئی۔ ادھر جنگ کے مصارف کی وجہ سے انگریزوں کو یہودی سرمایہ کی سخت ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسی سال برطانوی وزیر امور خارجہ لارڈ بالفور اور یہودی لیڈر لارڈ روسچائیلڈ کے مابین ایک خفیہ معاہدہ ہوا جس کے ذریعہ طے پایا کہ یہودی جنگ میں برطانیہ کی مدد کریں۔ اس کے عوض میں برطانیہ اختتام جنگ پر فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنادے گا۔یہ معاہدہ ۱۹۲۰ء یعنی اختتام جنگ کے ایک سال بعد تک خفیہ رکھا گیا۔ لہٰذجنگ کے بعد ایک سال تک سکون قائم رہا اور عرب یقین کرتے رہے کہ عنقریب فلسطین ایک آزاد ملک ان کےسپرد کر دیا جائے گا۔ لیکن ۱۹۲۰ء میں عربوں کو پہلی بار محسوس ہوا کہ برطانیہ کسی صورت میں بھی ان کوفلسطین کا اقتدار سونپنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ دوسری طرف اسی عرصے میں یہود بڑی تعداد میں فلسطین پہنچ گئے(یادرہے کہ۱۹۱۴ء میںفلسطینی یہودیوں کی آبادی صرف نوے ہزار تھی مگر۱۹۱۸ء تا ۱۹۳۶ء کے دوران بیرونی ممالک سے یہاں آکر آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد قریبا ًدو لاکھ اسی ہزار رہی)۔ یہودی اعلانیہ طور پر فلسطین کو اپنا ملک بنانے پر مصر رہے۔ عربوں کی آنکھیں کھلیں اور فسادات کا دور شروع ہوا۔ پھر۱۹۲۴ء،۱۹۳۳ء اور ۱۹۳۶ء کےسالوں میں یہ فسادات شدت اختیار کر گئے بہت کچھ مالی وجانی نقصان ہوا۔ یہ اختلاف بڑھتا رہا۔ پندرہ سال کے کشت وخون کے بعد جب حالت قابو سے باہر نظر آنے لگی تو برطانیہ نے ایک شاہی کمیشن کے ذریعہ عرب اور یہودی دونوں کے ساتھ کی ہوئی وعدہ خلافی کا اعتراف کرکے فلسطین کو یہودی اور عربوں کے مابین تقسیم کرنے کی پیشکش کی کہ ملک کا بحری اور زرخیزی علاقہ یہودیوں کو اور فلسطین کا بیشتر حصہ جو عموماً ریتلا صحرا اور بنجر ہے عربوں کو دیا جائے نیز بیت المقدس کے علاقے میں انگریزی حکومت کی عملداری رہے۔ مگر عرب اور یہودی دونوں نے اس تجویز کی سخت مذمت کی۔ اور فلسطین میں فریقین کی طرف سے منظم فسادات اٹھ کھڑے ہوئے۔عربوں کا نشانہ پہلے تو یہودی ہوا کرتے تھےمگر پھر انگریزی فوجوں پر یورش شروع کردی گئی۔ اس پر ملک میں مارشل لانافذ کردیا گیا۔حریت پسند عرب لیڈر گرفتار کیےگئے۔ مسئلہ مزید سخت ہوتا گیا۔پھر یہودی عربی باہمی مفاہمت کے لیےحکومت برطانیہ نے ایک تجویز سوچی کہ لندن میں دونوں فریقین کی ایک مشترکہ کانفرنس منعقد کی جائے۔چنانچہ فروری۱۹۳۹ءمیں یہ کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی جس میں سعودی عرب، مصر اور عراق کے مندوبین نے شرکت کی۔مگر یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔(تفصیل کے لیے دیکھیں تاریخ احمدیت جلد۷صفحہ۵۵۳ تا ۵۵۶)

حضرت مصلح موعودؓ اور مسئلہ فلسطین

حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں احمدیہ پریس اور سلسلہ کے مبلغین بلاد عربیہ وغربیہ کی تمام ہمدردیاں شروع سے ہی مسئلہ فلسطین کے بارے میںمسلمانان عالم کے ساتھ تھیں اور وہ یہودیوں کے ناپاک عزائم کو سخت نفرت وحقارت سے دیکھتے اور ان کی سازشوں کو اسلام اور مسلمانوں کے لیےسخت خطرہ سمجھتے اور عرب مفادات اور مطالبات کی ترجمانی کا کوئی موقع فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔

۱۹۳۹ء میں عربی یہودی مشترکہ کانفرنس سے چند دن قبل عید الاضحی کی مناسبت سے ۳۱؍جنوری ۱۹۳۹ءکو جماعت احمدیہ کی طرف سے عید کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں ہر قوم وملت کے بہت سے معززین اور سیاسی اشخاص جمع تھے۔

اس اہم جلسے کی رپورٹ لندن کے ایک با اثر ومقتدر اخبار ساؤتھ ویسٹرن سٹار نے اپنی ۳؍فروری۱۹۳۹ءکی اشاعت میں یہ لکھی کہ’’عید الاضحی کی تقریب پر جو عید قربان ہے مسجد احمدیہ لنڈن میں ایک جلسہ ہؤا۔ لیفٹنٹ کرنل سر فرانسس ینگ ہسبنڈکے سی ایس آئی کے سی آئی ای[Lieutenant Colonel Sir Francis Edward Younghusband, KCSI KCIE]صدر تھے۔ امام مسجد مولوی جلال الدین صاحب شمس نے قیامِ امن کی کوشش کے لئے وزیر اعظم برطانیہ کو خراج تحسین ادا کیا۔ اور مسئلہ فلسطین پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ نے کہا :….اپنی تعداد کے لحاظ سے یہودیوں کا عربوں سے بڑھ جانے اور اس طرح ان پر چھا جانے کا خیال عربوں کے لئے نہایت خوفناک ہے۔ اور وہ اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ جو ڈیلیگیٹ یہاں آئے ہوئے ہیں، ان کو اور حکومت کو چاہئے کہ اس مسئلہ پر اخلاص اور غیر جانبدارانہ رنگ میں غور کریں اور اس کا کوئی حل تلاش کریں۔ کیونکہ اگرآج اس کا کوئی حل نہ ملا تو پھر کبھی نہیں ملے گا۔‘‘ (بحوالہ الفضل ۴؍ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ۴)

امیر فیصل اور عرب نمائندگان کے نام حضرت مصلح موعودؓ کاپیغام

فروری ۱۹۳۹ءمیں برطانوی حکومت نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سےعرب ممالک کے نمائندگان کی موجودگی میں جب ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ امام مسجد فضل لندن نے اس اجتماع کو غنیمت سمجھتے ہوئے مکہ مکرمہ کے وائسرائے اور فلسطین، عراق اور یمن کےنمائندوں کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں شہزادہ امیر فیصل، شیخ ابراہیم سلیمان رئیس النیابۃ العامہ اور بلاد عربیہ کے بعض معروف قاضی صاحبان وغیرہ مندوبین کے علاوہ لندن کے اکابر اور ریٹائرڈ افسران، مختلف ممالک کے چھ سفراء، ممبران پارلیمنٹ، بڑے بڑے عہدیداران اور کئی معزز ہندوستانیوں سمیت دو سو کے قریب معزز افراد شامل تھے۔ اس تقریب میں امیر المومنین حضرت مصلح موعودؓ نے امیر فیصل اور دوسرے عرب نمائندگان کے نام بذریعہ تار برقی مندرجہ ذیل پیغام بھیجا۔جو مولانا شمس صاحب نے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں سنایا۔’’میری طرف سے ہز رائل نس امیر فیصل اور فلسطین کانفرنس کے ڈیلیگیٹوں کو خوش آمدید کہیں۔ اور ان کو بتادیں کہ جماعت احمدیہ کامل طور پر ان کے ساتھ ہے۔ اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی عطاکرے۔ اور تمام عرب ممالک کو کامیابی کی راہ پر چلائے۔ اور ان کو مسلم ورلڈ کی لیڈرشپ عطا کرے۔وہ لیڈرشپ جو ان کو اسلام کی پہلی صدیوں میں حاصل تھی۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحہ ۵۵۶-۵۵۷)

مسئلہ فلسطین یکم دسمبر۱۹۴۷ء کو ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوا، جبکہ امریکہ اور روس دونوں کی متفقہ کوشش سے جنرل اسمبلی نے تقسیم فلسطین کا ظالمانہ فیصلہ کر دیا۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے تقسیم فلسطین کے پس منظر کو بے نقاب کرنے کے لیےدو معرکہ آراءمضامین لکھے جن میں سے ایک فیصلہ تقسیم سے قبل ۲۸؍ نومبر کو شائع ہوا۔ اور دوسرا دس روز بعد ۱۱؍ دسمبر کو۔ حضورؓ نے ان مضامین میں نہایت شرح وبسط سے بادلائل ثابت کیا کہ یہودیوں کی فلسطین میں آبادی روس، امریکہ اور برطانیہ تینوں کی پرانی سازش کا نتیجہ ہے۔ گو یہ طاقتیں اپنے سیاسی اغراض کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آتی ہیں مگر مسلم دشمنی کے مقصد میں سب مشترک ہیں۔ عربوں اور مسلمانوں سے کسی کو ہمدردی نہیں ہے۔مسلمان صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس ضمن میں حضورؓ نے یہ بھی فرمایا کہ’’فلسطین کا معاملہ اسلامی دنیا کے لئے ایک نہایت ہی اہم معاملہ ہے۔ایک ہی وقت میں پاکستان، انڈونیشیا اور فلسطین کی مصیبتیں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تشویشناک صورت پیدا کر رہی ہیں۔ہمیں ان سب مشکلات پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے کوئی ایسا راہ نکالنا ہے جو آئندہ اسلام کی تقویت کا موجب ہو اور ہمیں اس وقت اپنے ذہنوں کو دوسری چھوٹی سیاسی باتوں میں پھنسا کر مشوش نہیں کرنا چاہئے۔ فلسطین کا معاملہ ایک الہٰی تدبیر کا نتیجہ ہے اور قرآن کریم، احادیث اور بائبل میں ان تازہ پیدا ہونے والے واقعات کی خبریں پہلے سے موجود ہیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۱۰ صفحہ ۳۳۴، بحوالہ الفضل ۱۱؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

حضرت امام جماعت احمدیہؓ نے اس سلسلے میں اپنا دوسرا مضمون ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا جس کا عربی ترجمہ عرب ممالک میں کثرت سے شائع کیا گیا جس کو عرب پریس نے بڑے اہتمام اور شکریہ سے شائع کیا۔ اس مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ نےفرمایا: ’’….فلسطین میں یہودیوں کو پھر بسایا جا رہا ہے۔ امریکہ اور روس جو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر آمادہ ہو رہے ہیں اس مسئلہ میں ایک بستر کے دو ساتھی نظر آتے ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہےکہ کشمیر کے معاملہ میں بھی یہ دونوں متحد تھے….آخر یہ اتحاد کیوں ہے؟ یہ دونوں دشمن مسلمانوں کے خلاف اکٹھےکیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کےکئی جواب ہو سکتے ہیں مگر شاید ایک جواب جو ہمارے لئے خوشکن بھی ہے زیادہ صحیح ہو۔ یعنی دونوں ہی اسلام کی ترقی میں اپنے ارادوں کی پامالی دیکھتے ہوں….کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لئے نہایت اہم ہے لیکن فلسطین کا معاملہ سارے مسلمانوں کے لئے نہایت اہم ہے۔ کشمیر کی چوٹ بالواسطہ پڑتی ہے۔ فلسطین کی چوٹ بلاواسطہ پڑتی ہے۔فلسطین ہمارے آقا اور مولیٰ کی آخری آرام گاہ کے قریب ہے جن کی زندگی میں بھی یہودی ہر قسم کے نیک سلوک کے باوجود بڑی بے شرمی اور بے حیائی سے ان کی ہر قسم کی مخالفتیں کرتے رہے تھے….۔عرب اس حقیقت کو سمجھتا ہے۔ عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہے اس لیے وہ اپنے جھگڑے اور اختلاف کو بھول کر متحدہ طور پر یہودیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوگیا ہے۔ مگر کیا عربوں میں یہ طاقت ہے؟ کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے۔….سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے، سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے، سوال زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہﷺ کی عزت کا ہے۔ دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہوگیا ہے۔ کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقعہ پر اکٹھا نہیں ہو گا؟….میں نے متواتر مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ روس مسلمانوں کا شدید دشمن ہے لیکن مسلمانوں نے سمجھا نہیں…حق یہی ہے کہ سب سے بڑا دشمن مسلمانوں کا روس ہے۔ امریکہ یہودیوں کے ووٹ کی خاطربنا پر یہودیوں کی مدد کر رہا ہے۔ اور روس عرب ملکوں میں اپنا اڈہ جمانے کے لئے یہودیوں کی مدد کر رہا ہے۔رویہ ایک ہے مگر بواعث مختلف ہیں اور یقیناً روس کے عمل کا محرک امریکہ کے عمل کے محرک سے زیادہ خطرناک ہے…آج ریزولیوشنوں سےکام نہیں ہو سکتا۔آج قربانیوں سے کام ہوگا۔ اگر پاکستان کے مسلمان واقعہ میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنی حکومت کو توجہ دلائیں کہ ہماری جائیدادوں کا کم سے کم ایک فیصدی حصہ اس وقت لے لے۔ایک فیصدی حصہ سے بھی پاکستان کم سے کم ایک ارب روپیہ اس غرض کے لئے جمع کر سکتا ہے اور ایک ارب روپیہ سے اسلام کی موجودہ مشکلات کا بہت کچھ حل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی قربانی کو دیکھ کر باقی اسلامی ممالک بھی قربانی کریں گے….پس میں مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک وقت کو سمجھیں اور یاد رکھیں کہ آج رسول کریم ﷺ کا یہ فرمان کہ الکفر ملۃ واحدہ لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے۔یہودی اور عیسائی اور دہریہ مل کر اسلام کی شوکت کو مٹانے کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں….آؤ ہم بھی سب مل کر ان کا مقابلہ کریں کیونکہ اس معاملہ میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں۔دوسرے اختلافوں کو ان امور میں سامنے لانا جن میں کہ اختلاف نہیں نہایت ہی بیوقوفی اور جہالت کی بات ہے….۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم اور حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ایک دفعہ پھر فلسطین میں آباد ہوں گے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے آباد ہوں گے۔ فلسطین پر ہمیشہ کی حکومت تو عباد اللّٰہ الصالحون کے لئے مقرر کی گئی ہے۔پس اگر ہم تقویٰ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ کی پہلی پیشگوئی اس رنگ میں پوری ہوسکتی ہے کہ یہود نے آزاد حکومت کا وہاں اعلان کردیا ہے لیکن اگر ہم نے تقویٰ سے کام نہ لیا تو پھر وہ پیشگوئی لمبے وقت تک پوری ہوتی چلی جائے گی اور اسلام کے لئے ایک نہایت خطرناک دھکا ثابت ہوگی….‘‘(الفضل ۲۱؍مئی ۱۹۴۸ء)

مضمون ہذا کی کثرت سے اشاعت ہوئی۔ جماعت احمدیہ فلسطین کی طرف سے هيئة الأمم المتحدة (قرار تقسیم فلسطین) کے نام سے حضورؓ کے مضمون کا عربی ترجمہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ سلسلہ ڈاک کے بند ہونے سے چند روز قبل بلاد عربیہ کی احمدی جماعتوں کے علاوہ سب عربی اخبارات کے ایڈیٹروں کویہ مضمون ارسال کردیا گیا۔ فلسطین کے روزنامہ ’’فلسطین‘‘نے اس پر عمدہ نوٹ لکھا۔ سوڈان جیسے بعض اسلامی ممالک سے بھی اس مضمون کو اپنے اخباروں میں شائع کرنے کی اطلاع ملی۔ الکفر ملۃ واحدۃ کا عربی ترجمہ شائع ہوا۔ اخبار اليوم، ألف باء، الكفاح، الفيحاء، الأخبار، القبس، النصر، اليقظة، صوت الأحرار، النهضة وغیرہ عربی اخبارات میں اس کا ذکر ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ کے مضمون کا اثر استعماری طاقتوں پر بہت زوردار تھا۔ عراق کے ایک مشہور بزرگ صحافی الاستاذ علی الخیاط آفندی جن کا ایک مشہور ومعروف اور موقر اخبار الانباء کے نام سے نکلتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’یہ غیر ملکی حکومتیں ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف نعرے لگواکر منافرت پیدا کی جائے اور بعض فرقے احمدیوں کی تکفیر اور ان پر نکتہ چینی کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں….مجھے اس امر کی پوری پوری اطلاع ہے کہ در حقیقت یہ سب کارروائی استعماری طاقتیں کروا رہی ہیں کیونکہ فلسطین کی گزشتہ جنگ کے ایام میں ۱۹۴۸ءمیں استعماری طاقتوں نے خود مجھ کو اس معاملہ میں آلہ کار بنانے کی کوشش کی تھی….‘‘پھر آگے لکھتے ہیں:یہ ان دنوں کی بات ہے جب ۱۹۴۸ءمیں ارض مقدسہ کا ایک حصہ کاٹ کر صیہونی حکومت کے سپرد کردیا گیا تھا اور اسرائیلی سلطنت قائم ہوئی تھی اور میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا سفارت خانہ کا یہ اقدام درحقیقت ان دو ٹریکٹوں کا عملی جواب تھا جو تقسیم فلسطین کے موقع پر اسی سال جماعت احمدیہ نے شائع کئے تھے۔ ایک ٹریکٹ کا عنوان هيئة الأمم المتحدة وقرار تقسيم فلسطين تھا جس میں مغربی استعماری طاقتوں اور صیہونیوں کی ان سازشوں کا انکشاف کیا گیا تھا جن میں فلسطینی بندرگاہوں کو یہودیوں کے سپرد کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ دوسرا ٹریکٹ الکفر ملة واحدة کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو کامل اتحاد اور اتفاق رکھنے کی ترغیب دی گئی تھی….یہ وہ واقعہ ہے جس کا مجھے ان دنوں ذاتی طور پر علم ہوا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک احمدی لوگ مسلمانوں کی جماعت میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے….جن سے استعماری طاقتوں کی پیدا کردہ حکومت اسرائیل کو ختم کرنے میں مدد ملے تب تک استعماری طاقتیں بعض لوگوں اور فرقوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گی کہ وہ احمدیوں کے خلاف اس قسم کی نفرت انگیزی اور نکتہ چینی کرتے رہیں تاکہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہو سکے۔‘‘(اخبار الانباء (بغداد) ۲۱؍ستمبر۱۹۵۴ء)

مسئلہ فلسطین میں خادمِ خلافت حضرت سرچودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی مساعی

اسلام احمدیت کے ایک فدائی مایہ ناز فرزند حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین کے متعلق ایسی پر شوکت تقریر کی کہ اخبار ’’نوائے وقت‘‘ نے اس اہم خبر کو درج ذیل عناوین سے شائع کیا :

٭…’’سر ظفر اللہ کی تقریر سے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں سکتے کا عالم طاری ہوگیا امریکہ روس اور برطانیہ کی زبانیں گنگ ہو گئیں‘‘

٭…’’فلسطین کے متعلق سر ظفر اللہ کی تقریر سے دھوم مچ گئی عرب لیڈروں کی طرف سے سر ظفر اللہ خان کو خراج تحسین ‘‘(تفصیل اخبار نوائے وقت ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں درج ہے)

پاکستان بنتے ہی اقوام متحدہ میں نمائندگی دلوانے اور دیگر زیر بحث معاملات میں پاکستان کی آواز بلند کرنے کے لیے پہلے پاکستانی وفد کی سربراہی کے لیے قائد اعظم نے سرظفر اللہ خان صاحبؓ کو مقرر فرمایا۔ آپ کی اعلیٰ کارکردگی کے بارے میں امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر حسن اصفہانی صاحب نے محمد علی جناح صاحب کے نام اپنے خط مورخہ 4؍ اکتوبر 1947ءمیں لکھا۔ترجمہ: ’’اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد نے توقع سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر ظفر اللہ خا ن نے جو تقریر کی وہ اقوام متحدہ میں اس مسئلہ پر ہونے والی بہترین تقریروں میں سے ایک ہے….یہ کسی قسم کی تعلّی نہیں ہے کہ ہم نے واقعی عمدہ تاثر پیدا کیا ہے پاکستان نے اپنا آپ منوا لیا ہے۔‘‘

(Quaid-I-Azam Mohammad Ali Jinnah Papers, Vol VI, 1st Oct – 31 Dec 1947. P 101)

( بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردار از پروفیسر محمد نصراللہ راجا صفحہ۱۶۱)

اسی تعلق میں محمد علی جناح صاحب نے حسن اصفہانی صاحب کے نام اپنے خط مورخہ 11 ستمبر 1947ءمیں لکھا:’’ظفر اللہ (نیویارک سے) واپس پہنچ گئے ہیں اور میری ان سے طویل گفتگو ہوئی ہے۔ واقعی انہوں نے اپنا کام عمدگی سے انجام دیا ہے۔‘‘

(Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah Paper,Vol VI,(1 Oct-31Dec1947) P 403,Ministry of Culture, 2001)

(بحوالہ تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا مثالی کردارازپروفیسر محمد نصراللہ راجا صفحہ۱۶۲)

حضرت چودھری صاحبؓ کے تاریخی خطاب نے اقوام عالم کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ حقیقی خدوخال کے ساتھ نمایاں کر دیا اور متعدد ممالک نے تقسیم فلسطین کے خلاف رائے دینے کا فیصلہ کر لیا لیکن بعد میں انہوں نے دنیا کی بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے دباؤ میں آکر اپنی رائے بدل لی۔ اس بارےمیں اخبار نوائے وقت کا بیان ہے:’’….عین آخری وقت رائے شماری بلا وجہ(۲۶؍ نومبر سے) ۲۸؍ نومبر پر ملتوی کردی گئی تاکہ دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال کر فلسطین کے متعلق ان کا رویہ تبدیل کیا جا سکے….اکثر ایسے مندوبین نے جنہوں نے تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے نہایت مجبوری کے عالم میں تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے اور اسی سپرٹ میں تقسیم فلسطین کا فیصلہ ہوا۔‘‘(نوائے وقت ۱۱؍ دسمبر۱۹۴۷ء)

غرض جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا بھر کے مسلمان ممالک کو تقسیم فلسطین کے خلاف منظم ہونے کی پر جوش تحریک کی گئی اور اس فتنہ کبریٰ کے خطرناک مقاصد سےآگاہ کرکے زبردست انتباہ کیا۔

لیکن افسوس صد افسوس! بیسویں صدی کے اکثر دینی وسیاسی مسلم زعماء یہودی فتنہ کی ہلاکت آفرینیوں کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر رہے بلکہ ان میں بعض بلند پایہ دانشوران قوم اور فقہائے زمان کا رویہ یہود کی نسبت مصالحانہ، ہمدردانہ بلکہ مشفقانہ رہا ہے جو ہر درد مند دل رکھنے والے مسلمان کےلیے از حد تشویش انگیز ہے۔

جس کی تفصیل سے فی الحال گریز کیا جا رہا ہے۔ صرف ایک مثال تحریر کرتا ہوں جو مولانا ابو الکلام آزاد کا قول ہے۔ کہتے ہیں:

“…One can sympathize with the aspiration of the Jews for such a national home, as they are scattered all over the world and cannot in any region have any effective voice in the administration”.(India wins freedom, Page143)

یعنی جہاں تک یہودیوں کے قومی وطن کا مطالبہ ہے اس سے ہمدردی کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ ساری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اور کسی علاقہ میں بھی وہاں کے نظم وانصرام پر کوئی اثر نہیں رکھتے۔

بالآخر ۱۶؍ مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین میں حکومت اسرائیل منصہ شہود پر آگئی۔امریکہ، برطانیہ اور روس کی باہمی سازش اور مشترکہ کوشش سے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا گیا۔ اور یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر رہی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کوششیں اور ارشادات

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے منصب خلافت پر متمکن ہونے سے کئی سال پہلے بھی مسئلہ فلسطین کے بارے میں مضامین تحریر فرمائے۔ اس سلسلے میں آپ نے ایک کتاب ’’ربوہ سے تل ابیب تک‘‘ جماعت احمدیہ کے خلاف کیےگئے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی۔پھر عرصہ خلافت میں خطبات جمعہ، سوال وجواب کی مجالس اور مختلف علمی مجالس میں آپؒ نے فلسطین اور مسلمانوں کے لیے ہمدردی کا اظہار فرمایا اور بہترین اسلامی حل پیش فرمایا اور مسلمانوں کو فتنوں اور اختلافات سے نکل کر باہم متحد ہونے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ کشمیر وفلسطین کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان خدمات پر مبنی دو عظیم الشان خطبات جمعہ آپؒ نے مورخہ ۸ اور ۱۵؍ مارچ ۱۹۸۵ء کو مسجدفضل لندن میں ارشاد فرمائے۔ ستم بالائے ستم کہہ کر آپؒ نے فلسطین کی محسن جماعت احمدیہ کے خلاف اٹھنے والے فتنہ کا ذکر فرمایا۔ نہایت مفتریانہ دو اعتراضات کا مدلل جواب دیا۔ چنانچہ ان اعتراضات میں سے ایک یہ تھا کہ نعوذ باللہ، حضرت سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے فلسطین کے مفاد کے خلاف تقریریں کیں۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اسرائیل میں احمدیوں کا مشن قائم ہے جو اسرائیل کے مفاد کے لیے ہے۔

چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں: ’’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب تقسیم فلسطین کا ظالمانہ فیصلہ ہوا تو اس سے پہلے وہ کونسی آواز تھی جس نے سارے عالم کو خبر دار اور متنبہ کیا تھا اور جس سے عرب دنیا میں بھی اور عرب سے باہر بھی ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ یہ دردمندانہ انتباہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی آواز تھی۔ آپ نے دل ہلا دینے والا ایک پمفلٹ لکھ کر کثرت سے شائع کیا جس میں مسلمانوں کو متنبہ کیا اور بتایا کہ تم اس گمان میں نہ رہو کہ آج مغرب تمہارا دشمن ہے تو مشرق تمہارا دوست ہوگا یا مشرق تمہارا دشمن ہے اور مغرب تمہارا دوست ہوگا….۔یہ ایسا مدلل اور مؤثر مضمون تھا کہ اس نے مسلمانوں کو اس طرح جھنجھوڑ کر بیدار کیا کہ اس کی بازگشت مدتوں تک عرب دنیا میں سنائی دیتی رہی….الغرض حضرت المصلح الموعودؓ کے دو ٹریکٹ شائع ہوئے اور ان کا اتنا حیرت انگیز اثر پڑا کہ بڑی بڑی استعماری طاقتیں کانپ گئیں اور سفارت خانوں کو ان کے مراکز سے ہدایتیں ملنے لگیں کہ اخباروں کو پیسے دو اور ان سے تعلقات قائم کردو جس طرح بھی ہو احمدیوں کے خلاف ایک تحریک چلاؤ۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۵؍ مارچ ۱۹۸۵ء مطبوعہ،خطبات طاہر جلد۴صفحہ۲۳۱و ۲۳۳)

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی ذات پر جو الزام لگایا گیا اس کی تردید کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا: ’’….چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کے بارہ میں عرب دنیا کے جو خیالات تھےنہ صرف اس وقت انہیں علم تھا بلکہ آج تک جبکہ احمدیت کی مخالفت زوروں پر ہے انہیں وہ خدمات یاد ہیں اور آج بھی بعض حق پرست ایسے ہیں جو ان خدمات کو تسلیم کرنے میں باک نہیں رکھتے۔ چنانچہ عربوں کی زبانی سنئے۔ عبد الحمید الکاتب رسالہ ’’العربی‘‘ ماہ جون ۱۹۸۳ءکے شمارہ میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’محمد ظفر اللہ خان ہی وہ شخص ہے کہ جو فلسطین کے حق کے دفاع میں مرد میدان ثابت ہوا۔ اس نے فلسطین کے بارےمیں عربوں کے حقوق کے دفاع میں خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی قدرت علی الخطاب اور قانون وسیاست میں قابلیت کے ہر جوہر کو آزمایا۔ اس کے کلام کی نبض حقیقی اسلامی روح کے ساتھ چلتی تھی۔‘‘

ان دنوں جبکہ مسئلہ فلسطین ابھی تازہ تھا اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب اس عظیم جد وجہد میں مصروف تھےجو کہ ایک تاریخی حیثیت کی حامل تھی، عرب لیگ میں ایک بڑی مکروہ کوشش چودھری صاحب کو عالم اسلام سے باہر نکالنے اور ان کی خدمات سے عالم اسلام کو محروم کرنے کی ہوئی۔ شاہ فاروق جو استعماری طاقتوں کے ایجنٹ کے طور پر معروف ہیں اور جن کا بعد میں تختہ الٹ دیا گیا تھا، ان کے ایماء پر فلسطین کے مفتی نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور جماعت احمدیہ کے خلاف ایک بڑا سا فتوی دے دیا….تاکہ عالم اسلام کی خدمات کرنے والا جو بطل جلیل ہے اس سے عالم اسلام محروم رہ جائے۔ چنانچہ جب یہ فتوی شائع ہوا اس وقت اگر چہ وہ دور گزر چکا تھا لیکن چونکہ چودھری صاحب کی خدمات کی یاد ابھی تازہ تھی اس لئے جنرل عبدالرحمن عزام پاشا جو عرب لیگ کے سیکرٹری تھےانہوں نے اس جریدہ کو جس میں وہ فتویٰ چھپا تھا مخاطب کر کے لکھا:’’میں حیران ہوں کہ آپ نے قادیانیوں یا چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان کے متعلق مفتی کی رائےکو ایک مؤثر مذہبی فتوی خیال کیا ہے۔‘‘

پھر لکھتے ہیں:’’اگر یہ اصول مان لیا جائے تو پھر بنی نوع انسان کے عقائد، ان کی عزت و وقار اوران کا سارا مستقبل محض چند علماء کے خیالات و آراء کے رحم وکرم پر آ رہے گا۔‘‘

پھر آگے لکھتے ہیں:’’ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خان اپنے قول اور اپنے کردار کی رو سے مسلمان ہیں۔ روئے زمین کے تمام حصوں میں اسلام کی مدافعت کرنے میں آپ کامیاب رہے اور اسلام کی مدافعت میں جو موقف بھی اختیار کیا گیا اس کی کامیاب حمایت ہمیشہ آپ کا طرہ امتیاز رہا اس لئے آپ کی عزت عوام کے دلوں میں گھر کر گئی اور مسلمانان عالم کے قلوب آپ کے لئے احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہو گئے۔‘‘(جريدة الاخبارالقاهریۃمورخہ۲۳؍جون۱۹۵۲ء)

کیا یہ مسلمانان عالم پاکستان میں نہیں بستے کیا انہیں علم نہیں ہے کہ ایک وقت تھا کہ عالم اسلام اور عالم اسلام کا بھی وہ حصہ جہاں سے اسلام کا نور پھوٹا تھا وہ ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا تھا کہ مسلمانان عالم چودھری ظفر اللہ خان کی ان خادمانہ کوششوں کے ممنون احسان ہیں جو انہوں نے اسلام کی سر بلندی اور مسلمانان عالم کے مفاد میں سرانجام دیں۔ پھر ایک اور اخبار ’’المصری‘‘ 26جون1952ء(بحوالہ :البشری ستمبر ۱۹۵۲ء جلد ۱۸صفحہ ۱۱۹) کی اشاعت میں ’’اے کافر ! خدا تیرے نام کی عزت بلند کرے‘‘کے زیر عنوان لکھتا ہے:’’مفتی نے ظفر اللہ کو کافر و بے دین قرار دیا ہے۔ آؤ سب مل کر چودھری محمد ظفر اللہ خان پر سلام بھیجیں۔ ظفر اللہ خان کافر کے کیا کہنے ان جیسے اور بڑے بڑے دسیوں کافروں کی ہمیں ضرورت ہے۔‘‘مصر ہی کے ایک اور اخبار’’الزمان ‘‘اپنی اشاعت میں ۲۵؍ جون ۱۹۵۲ء(بحوالہ البشریٰستمبر ۱۹۵۲ء جلد ۱۸صفحہ ۱۲۵)

اخبار’’الیوم‘‘ ۲۶جولائی ۱۹۵۲ء میں رقم طراز ہے:’’وہ شخص جو استعماریت کا بڑی قوت، بلاغت اور صدق بیانی سے مقابلہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی جس کی زبان اور دل پر حق جاری کرتا ہے وہ بھی اگر کافر قرار دیا جاسکتا ہے تو نیک لوگوں کی اکثریت ایسے کافر بن جانے کی خواہش کرے گی۔‘‘( بحوالہ رسالہ البشریٰ جلد ۱۸ شماره ستمبر ۱۹۵۲ءصفحه ۱۳۲)(منقول از خطبہ جمعہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۸۵ء)

ارض مقدسہ کاحقیقی وارث

اب چونکہ دجالی فتنہ کے وقت یاجوج ماجوج کی طاقت اور سیاسی اقدام کے زیر سایہ یہود کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ارض مقدسہ میں آباد کردیا ہے تو کیا یہ کوئی ابدی رہائش کا وعدہ ہے؟ ہرگز نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُوْنَ (الانبياء 106)اور یقیناً ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ لکھ رکھا تھا کہ لازماً موعود زمین کو میرے صالح بندے ہی ورثہ میں پائیں گے۔

حضرت مسیح موعودؑ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ یَرِثُھَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے۔ وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعد ہو۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۵۴)

ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ الارض سے مراد جو شام کی سرزمین ہے یہ صالحین کا ورثہ ہے اور جو اب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے۔ خدا تعالیٰ نے یَرِثُھَا فرمایا یَمْلِکُھَا نہیں فرمایا۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر یہ کسی اور کے قبضہ میں کسی وقت چلی بھی جاوے تو وہ قبضہ اس قسم کا ہوگا جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مرتہن کو دے دیتا ہے یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے۔ ارض شام چونکہ انبیاء کی سرزمین ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ غیروں کی میراث ہو۔‘‘(الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ءصفحہ ۷)

آیت وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ(العنكبوت :۱۰)کی تفسیر میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ محمد رسول اللہ ﷺ پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں اور پھر اس ایمان کے مطابق انہوں نے اعمال صالحہ بھی کئے ہیں ہم انہیں یقیناً صالحین میں داخل کریں گے یعنی ان صادق اور راستباز لوگوں میں شامل کریں گے جن کے متعلق زبور میں(زبور باب ۳۷ آیت ۲۹) ہم نے وعدہ کیا تھا کہ انہیں فلسطین کی بادشاہت دی جائےگی۔گویا وہ وعدہ جو بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا اب مسلمانوں کے ایمان اور عمل صالح کرنے کی وجہ سے ان کی طرف منتقل ہو جائےگا۔ چنانچہ جب تک مسلمان صالح رہے فلسطین مسلمانوں کے پاس رہا۔ اور جب ان میں بگاڑ پیدا ہوگیا فلسطین بھی ان سے چھن گیا۔ مگر جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے ظاہر ہے کہ یہ فلسطین کا چھننا عارضی ہے۔ ایک دن اللہ تعالیٰ ان کو پھر اس ملک میں لائے گا اور ان کی موجودہ پسپائی فتح سے بدل جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ….یہود اگر فلسطین میں مستقل طور پر رہنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ وہ صالحین میں شامل ہو جائیں۔ خدا تعالیٰ کو ان سے کوئی دشمنی نہیں۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ اگر وہ صالح بن جائیں تو وہ اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صالح کی تشریح میں فرماتا ہے کہ جو لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کریں وہ صالح اور شہید اور صدیق وغیرہ کا مقام پائیں گے۔ پس صالح بننے کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کی سچی پیروی ضروری ہے۔اگر یہود محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ ان کو اس ملک میں قائم رکھےگا اور وہ اسی طرح مسلمانوں کے بھائی ہوںگے جس طرح اسحاقؑ اسماعیلؑ کا بھائی تھا۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہمت کرکے خدا تعالیٰ کے قانون کو اپنی تائید میں نہ بنالیں۔‘‘(تفسیر کبیرجلد ۷ صفحہ ۵۹۴تا۵۹۵)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس موضوع مزید کھول کر بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو اپنی اصلاح کی طرف کھول کھول کر توجہ دلائی ہے۔چنانچہ ایک درس القرآن کے موقع پر آپؒ نے فرمایا:کہ ایک پیشگوئی ہے بنی اسرائیل سے متعلق وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا (بنی اسرائیل105) کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا اس وقت ہم تمہیں ساری دنیا سے سمیٹ کر اکٹھا کر دیں گے۔اب یہ جو دَور ہے یہ آخَرین کا دَور ہے ….۔ دَور آخَرین سے مراد وہ دوسرا دَور، اور آخِرۃ کہتے ہیں بعد میں آنےوالا، تو بعد کے آنے والے زمانے میں جو عجیب باتیں رونما ہونے والی ہیں ان کی پیشگوئیاں کچھ سائنسی ہیں ،کچھ مذہبی نوعیت کی ہیں، کچھ سیاسی نوعیت کی ہیں سب قرآن کریم میں موجود ہیں۔ یہ جو پیشگوئی ہے یہ مذہبی نوعیت کی ایک پیشگوئی ہے جس میں یہود کے متعلق فرمایا گیا کہ ہم تمہیں تمام دنیا سے اکٹھا کر کے ارض مقدس میں لے آئیں گے۔ اب یہ جو واقعہ ہوا ہے اس میں لوگ کہتے ہیں کہ یہود کی چالاکی ان کی سازشیں ہیں۔ وہ ذریعہ بنے ہیں جس طرح سائنس دان ذریعہ بنتے ہیں مگر یہ مقدر تھا قرآن بتا رہا ہے اور ناممکن تھا کوئی اس کو بدل سکتے۔اب مسلمان علماء کو چاہئے تھا کہ اس آیت کا مطالعہ کر کے ایسی کوششیں نہ کرتے جو تقدیر کو بدلنے کی کوششیں ہوں۔ اس سے ان کو نقصان پہنچنا تھا اور ہر دفعہ جب وہ خدا کی تقدیر سے ٹکرائے ہیں ان کو نقصان پہنچا ہے۔اس تقدیر کو سمجھ کر وہ کوششیں کرنی چاہئیں تھیں جن کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے کہ وہ کوششیں ضرور کامیاب ہونی تھیں ان کی طرف توجہ نہیں کی۔تو میں یہ نہیں کہتا کہ ہاتھ توڑ کر بیٹھ جاتے کہ خدا کی تقدیر نے ظاہر ہونا ہے، میں یہ بتا رہاہوں کہ ایسی مبرم تقدیر تھی کہ جس کے متعلق کوئی تبدیلی ممکن نہیں تھی۔لیکن اس کے بعد ایک اور بھی تقدیر مقدر ہے اس طرف اگر توجہ کرتے تو کم سے کم نقصان پر اسرائیل میں وہ (جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا) والی پیشگوئی بھی پوری ہو جاتی اور آخری فیض مسلمان پاتے اور آخری فتح مسلمانوں کو ہوتی، وہ ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ۔ إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِيْنَ (الانبياء 106-107) کتنا کھول کر خدا تعالیٰ نے یہ پیغام سمجھایا تھا کہ اب اگر تم اس زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہو تو عبادالصالحین بننا پڑے گا، خدا کے پاک نیک بندے بنو گے تو یہ زمین ملے گی ورنہ نہیں ملے گی جو مرضی زور لگا لو إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِيْنَ اس میں ایک بہت بڑا پیغام ہے۔ وہ خدا کے بندے جو محمد رسولﷲﷺ کی اُمت میں ہیں عابدین کہلاتے ہیں ا ن کے لئے اس میں ایک بہت بڑا پیغام ہے، ایک عظیم پیغام ’’بلاغ‘‘ ہے۔ اس کو سمجھیں گے تو فائدہ اٹھائیں گے نہیں سمجھیں گے تو ٹکریں مارتے رہیں گے ان کا کچھ بھی نہیں بنے گا اب تک تو ناسمجھنے والا دَور چل رہا ہے۔پس یہ درس سُن رہےہیں عرب بھی تمام دنیامیں لوگ سن رہےہیں ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ اس پیغام کو سمجھیں یہ بَلَاغاً ہے بہت بڑا عظیم الشان پیغام ہے اس کے تابع اپنی روز مرہ کی زندگی کو صالح بنائیں۔ اور یہ صالح بنانے کا جو مضمون ہے اس کا حکومت کے تختے الٹنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حکومت کے اسلام کے نام پر تختے الٹنے کی کوششیں جو ہیں یہ اسلام کو یا اسلامی دنیا کو مزید کمزور کریں گی، کبھی بھی اس کا فائدہ نہ ماضی میں ہواہے نہ آئندہ ہو گا۔ اس لئے یہ ظلم نہ کریں اپنی جان پر۔(ماخوذ از اردو درس القرآن)

خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےسوال جواب کے ایک موقع پر جرمنی میں مسئلہ فلسطین کا ذکر فرمایا جس کی مختصر رپورٹ ذیل میں ہے:’’فلسطین کے معاملہ میں جماعت احمدیہ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ جس طرح عالم اسلام کو میں ہمیشہ متنبہ کرتا رہا ہوں اسی طرح اہل فلسطین کو بھی صحیح راستہ کی طرف راہنمائی کرتا رہا ہوں لیکن وہ میری بات نہیں مانتے کیونکہ وہ مجھےکافر سمجھتے ہیں حالانکہ اگر میں حکمت کی بات کہتا ہوں تو پھر انہیں میری بات مان لینی چاہئے۔ اگر وہ اُن باتوں پر عمل کرتے تو آج اسرائیل کو اتنا پھیلنے کا موقع نہ ملتا۔ یہ تو اس وقت لڑتے ہیں جب ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ہے۔ سارا مغرب اسرائیل کے پیھچے ہے چنانچہ ہر جنگ میں یہ اپنا کچھ علاقہ اسرائیل کو دے دیتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الارض (فلسطین) کے وارث میرے صالح بندے بنیں گےاس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عبادالصالحین نہیں رہے۔ پس یہ سزا ہے کہ انہوں نے اسلام کی قدروں کی پرواہ نہیں کی۔ … میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور رضاکی راہ پر چلائے اور ہم عبادالصالحین ہو جائیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ فلسطین کو یہود کے قبضہ سے آزاد کروا دے گا۔

حضور نے فرمایا کہ دوسری بات جو ضروری ہے اور جسے سارے مسلمان بھول گئے ہیں یہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت انہی فلسطینیوں کی وجہ سے قائم ہوئی ہے کیونکہ یہود کے پاس زمین نہیں تھی اس لئے ان کی ریاست کو کسی کے تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اُس وقت میرے مرحوم والد نے متنبہ کیا تھا کہ فلسطینی روپے کے لالچ میں زمین یہود کو نہ بیچیں۔ اگر فلسطینی مان جاتے تو آج اس مصیبت کا مونہہ نہ دیکھتے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۵؍جون ۱۹۹۸ء)

یہاں یہ قابل ذکر بات ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فلسطینی احمدیوں کے نام ۱۵؍مئی ۱۹۴۸ء کو یہ ضروری پیغام بھجوایا کہ ’’شام والوں کو لکھا جائے کہ کسی نہ کسی طرح کبابیر والوں کو اطلاع دیں کہ تنگی کے دن ہیں صبر سے گزار لیں اور کسی قیمت پر بھی کبابیر کی زمین یہود کے پاس فروخت نہ کریں۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۲)اللہ کے فضل سے اس نصیحت پر عمل درآمد ہوا اور اللہ کے فضل سے کبابیر کی جماعت اب تک اپنی مسجد اور جائیداد کے ساتھ تنعم کی زندگی گزار رہے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اور مسئلہ فلسطین

ارض مقدسہ اور بیت المقدس کی اہمیت کا ذکر کے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں:’….بیت المقدس کئی صدیوں تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا، اس کے بعد مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے نکل گیا…بیت المقدس کا بہر حال ایک مقام ہے۔ لیکن اس کا مقام مکہ اور مدینہ کے بعد ہے۔بیت المقدس چونکہ پہلے قبلہ تھا بعد میں تحویل قبلہ کا حکم آگیا تو اس حکم کے ساتھ بیت المقدس کا پہلا والا مقام نہیں رہا۔ بلکہ مدینہ منورہ کا مقام بڑا ہوگیا….۔انبیاء کی یہ مقدس جگہ پھر مسلمانوں کے قبضے میں آئیگی، مگر جنگوں سے نہیں بلکہ دعاؤں سے۔ وہ فتح مومنوں کی دعاؤں سے ہوگی۔ اس لئے جتنے زیادہ مومن ہوں گے دعائیں کریں گے اور حق اللہ اور حق العباد ادا کرنے والے ہوں گے اتنی جلدی ان کا قبضہ ہوجائےگا۔ بہر حال یہ مقدس جگہ ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں….‘(فرمودہ دوران آن لائن ملاقات جماعت کبابیر ۵؍جون ۲۰۲۱ء)

ان دنوں ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز مسلمانوں کو قیام وحدت کی طرف بار بار توجہ دلا رہے ہیں۔کیونکہ قیام وحدت اور اتحاد کے بغیر وہ اب کچھ نہیں کر سکتے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:’’آج بڑے افسوس سے ہمیں یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک کی بدقسمتی ہے کہ ان میں اتفاق و اتحادنہیں رہا۔ رعایا رعایا سے لڑ رہی ہے۔ رعایا حکومت سے بھی لڑ رہی ہے اور حکومت رعایا پر ظلم کر رہی ہے۔ گویا نہ صرف اتفاق و اتحادنہیں رہا بلکہ ظلم بھی ہو رہا ہے۔ اور پھر ظلم پر زور بھی دیا جارہا ہے۔ پس اس اتفاق و اتحاد کی کمی کا نتیجہ ہے کہ غیروں کو بھی جرأت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو چاہیں کریں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بھی ظالمانہ طور پر اس وقت معصوم فلسطینیوں کو قتل کرتا چلا جا رہا ہے۔ اگر مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد ہوتا اور وہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے ہوتے تو مسلمان ممالک کی اتنی بڑی طاقت ہے کہ پھر اس طرح ظلم نہ ہوتے۔ جنگ کے بھی کوئی اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے مقابل پر فلسطینیوں کی کوئی طاقت نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حماس والے بھی ظلم کر رہے ہیں تو مسلمان ملکوں کو ان کو بھی روکنا چاہئے۔ لیکن ان دونوں کے ظلموں کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص اپنے ڈنڈے سے ظلم کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک فوج توپیں چلا کر ظلم کر رہی ہے۔ مسلمان ممالک سمجھتے ہیں (گزشتہ دنوں ترکی میں سوگ منایا گیا) کہ سوگ مناکر انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا۔ اسی طرح مغربی طاقتیں بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ دونوں طرفوں کو سختی سے روکا جاتا۔ بہر حال ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں اور معصوموں کو ان ظلموں سے بچائے اور امن قائم ہو۔ اسی طرح مسلمان ممالک کے اپنے اندر بھی جو ایک دوسرے کے اوپر ظلم کئے جا رہے ہیں اور فساد بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے۔ اور کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کے خون سے جو ہاتھ رنگ رہے ہیں اس سے یہ لوگ بچیں۔ آپس میں بھی اتفاق و اتحاد قائم ہو۔ اس کے بغیر نہ ان کی عبادتوں کے حق ادا ہو سکتے ہیں نہ یہ حسرت پوری ہو سکتی ہے کہ ہمیں لیلۃ القدر ملے۔ کیونکہ جب قوم میں اتفاق و اتحاد مٹ جائے، ختم ہو جائے تو لیلۃ القدر بھی اٹھا لی جاتی ہے۔ پھر صرف راتیں اور ظلمتیں ہی، اندھیرے ہی مقدر بنتے ہیں۔ ترقی رک جاتی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍ جولائی 2014ء، الفضل انٹرنیشنل مورخہ15؍اگست2014ء صفحہ 6)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مورخہ 14؍مئی 2021ءکے خطبہ عید الفطر کے موقع پر فلسطین کے مظلوم عوام پر جاری ظلم وستم کے تناظر میں دعا کی تحریک فرمائی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے، یہ عید تو ان کے لیے غموں کے پہاڑ لے کرآئی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے غموں کو خوشیوں میں تبدیل کردے۔ آمین

پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 21؍مئی 2021ء کے خطبہ جمعہ کے دوران فلسطینیوں کے لیے مزید دعا کی تحریک فرمائی۔ حضورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’گزشتہ ہفتہ میں نے کہا تھا کہ مظلوم فلسطینیوں کے لیےدعا کریں۔ گو کہ جنگ بندی ہوگئی ہے لیکن تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کچھ عرصے کے بعد کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی طریقے سے کسی نہ کسی بہانے سے دشمن ان فلسطینیوں کو ظلم کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اور کوئی نہ کوئی وجہ بنتی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور فلسطینیون کے لئے بھی حقیقی آزادی میسر آئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ایسے لیڈر بھی عطا فرمائے جن میں عقل اور فراست بھی ہو اور مضبوطی بھی ہو جو اپنی بات کو کہنے اور حق لینے والے بھی ہوں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۲۱؍جون ۲۰۲۱ءصفحہ۸)

ظالم حکمرانوں کے سامنے حق وانصاف کی بات کہنا بہترین جہاد ہے

ہمارے آقا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ(سنن الترمذي كتاب الفتن عن رسول الله)یعنی ظالم حکمرانوں کے سامنے حق وانصاف کی بات کہنا بہترین جہاد ہے۔

چنانچہ حضرت امیر المو منین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے جہاں سربراہان عالم کے نام امن کا پیغام اور قیام امن کی نصائح پر مبنی خطوط ارسال فرمائے وہاں اسرائیل کے وزیر اعظم نتنیاہو کو اپنے خط میں حکم خداوندی کا خیال کرنے، دوسری قوموں کے ساتھ عدل وانصاف سے کام لینے اور ظلم کو ختم کرنے کی طرف خصوصی رنگ میں نصیحت فرمائی۔ حضورایدہ اللہ نے اپنے اس خط میں بائبل کی تعلیمات کے حوالے سے بھی ہوشیار فرمایا۔چنانچہ ارض مقدسہ کے حقیقی وارثین کی طرف اشارہ کرکے بائبل کا یہ حوالہ تحریر فرمایا: ’’….قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے ۔بیزار نہ ہو۔ ور نہ تجھ سے بدی سرزد ہوگی۔بدکردار کاٹ ڈالے جائیںگے لیکن جن کو خُداوند پر توکل ہے وہ زمین کے وارث ہوں گے۔تھوڑی دیر میں شریر نابُود ہوجائے گا۔ تُو اُس کی جگہ کو غور سے دیکھےگا پروہ نہ ہوگا۔

لیکن حلیم ملک کے وارث ہونگے اور خوب اطمینان سے رہیں گے۔‘‘ (زبور باب ۳۷ آیت ۸۔۱۱)

اور عدل وانصاف کے قیام کی نصیحت کرکے بائبل کا یہ حوالہ بھی تحریر فرمایا:’’تم اپنی ہتھیلی میں ایک ہی طرح کے دو باٹ نہ رکھنا کہ ایک بھاری ہو اور دوسرا ہلکا ہو۔ تم اپنے گھر میں ایک ہی طرح کے دو پیمانے نہ رکھنا کہ ایک کم ماپ کا ہو اور دوسرا زیادہ کا۔ تمہارے اوزان اور پیمانے صحیح اور درست ہوں تاکہ اس ملک میں جسے خداوند تمہارا خدا تمہیں دے رہا ہے تمہاری عمر دراز ہو کیونکہ ایسے لوگ جو دھوکے سے کام لیتے ہیں خداوند تمہارے خدا کی نظر میں مکروہ ہیں۔‘‘(استثناء باب ۲۵ آیت ۱۳ تا ۱۶ )

ایک موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے ایک فلسطینی احمدی کو نصیحت کرکے فرمایا:’’….اور ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے حق کی آواز اٹھانی ہے ہر جگہ۔ اور حق کی آواز کے لیے بعض دفعہ ظلم برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ویسے جب فلسطین کا قیام یا اسرائیل کا قیام ہورہا تھا اس وقت چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے United Nations میں جو تقریر کی تھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ جب تک ان دونوں قوموں کو برابری کے حقوق نہیں مل جاتے یہاں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اور فلسطینیوں کو بھی اور اسرائیلی اگر رہنا ہے تو پھر دو آزاد ملکوں کی حیثیت سے رہیں۔ کہنے کو تو آپ فلسطین سے آئے ہیں، فلسطین میں ایک علیحدہ حکومت ہے لیکن وہ بھی آزاد حکومت تو نہیں ہے۔ اس کو کوئی دنیا کی حکومت تسلیم کرنےکو تیار نہیں ہے۔ نہ اقوام متحدہ اس کو ماننے کو تیار ہے۔ اس لیے فلسطین میں رہتے ہوئے بھی کم و بیش دباؤ کے زیر اثر ہی آپ رہ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اسرائیل میں رہ کر آپ قانون کی پابندی کس طرح کریں، فلسطین میں بھی رہ کے آپ کو سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں بعض۔ اس کے لیے یہی ہے کہ حکمت سے اپنی آواز اٹھائیں اور ایسے لوگ اکٹھے ہوں جو اس آواز کو ایسے فورَم تک لےکر جائیں، بین الاقوامی فورَم تک، جہاں پھر یہ ایک آزاد فلسطینی حکومت قائم ہو۔ نہ یہ کہ دباؤ میں آئی ہوئی ایک فلسطینی حکومت جس کے پاس اختیار ہی کوئی نہیں۔ تو بہرحال ظلم کے خلاف آواز اٹھانا مومن کا ایک بنیادی فرض ہے یا پھر اس ظلم والی سرزمین سے ہجرت کرجانا یہ دوسرا حکم ہے۔ پس یہ دوباتیں ہیں اس کے علاوہ ملک میں بد انتظامی پیدا کرنا، فساد پیدا کرنا یا توڑ پھوڑ کرنا یہ چیزیں ایک حقیقی مومن کو زیب نہیں دیتیں اور نہ اس کی اجازت ہے۔ تو اس کے لیے بہرحال حکمت اور دعا سے کام کرنا پڑے گا۔ دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق پیدا کریں۔ اگر فلسطینی حقیقی رنگ میں ایک ہوکے دعا کرنے والے ہوں اور اپنے اخلاق و عادات اور اپنے ایمان کو اس معیار پہ پہنچائیں جہاں اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے اور مومنین کا مددگار ہوتا ہے تو انشاء اللہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍جون ۲۰۲۱ءصفحہ ۲و۹)

خدا تعالیٰ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعائیں فلسطینیوں کے حق میں قبول فرمائے اور ان کو عباد صالحین میں تبدیل کرکے حصار عافیت امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button