از مرکزجلسہ سالانہ

جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کے دوسرے اجلاس کی روئداد

جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کا پہلا اجلاس صبح ٹھیک دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکرم نواب منصور احمد خان صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ نے کی۔ مکرم حافظ طیب احمد صاحب کو سورۃ النورآیات55تا57کی تلاوت کرنے اور اردو ترجمہ پیش کرنے کی توفیق ملی۔ بعد ازاں مکرم شیخ ندیم صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام میں سے درج ذیل اشعار خوش الحانی سے پڑھے:

خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے

جب آتی ہے تو پھر عَالَم کو اک عَالَم دکھاتی ہے

وہ بنتی ہے ہَوا اور ہر خسِ رہ کو اُڑاتی ہے

وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے

کبھی وہ خاک ہوکر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے

کبھی ہوکر وہ پانی اُن پہ اِک طوفان لاتی ہے

غرض رُکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے

بھلا خالِق کے آگے خَلْق کی کچھ پیش جاتی ہے

اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم فرید احمد نوید صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانانے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’الٰہی جماعتوں کی مخالفت ان کی ترقی کا باعث ہوتی ہے‘‘ تھا۔ یہ تقریر اردو زبان میں تھی۔

مکرم فرید احمد نوید صاحب نے سورة الصف آیت 9 کی تلاوت اور ترجمہ پیش کیا۔

یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ۔وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں۔ اور اللہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا خواہ کافر کتناہی نا پسند کریں۔

تاریخ مذاہب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی مامور کو دنیا میں بھیجا جاتا ہے انسانیت ابتدائی طور پر دو اور بعد ازاں تین گروہوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک گروہ کے افراد سچائی کو تسلیم کرکے احسن تقویم بن جاتے ہیں تو دوسری جانب مکذبین اسفل سافلین میں گرا دیے جاتے ہیں۔ جیسے آدم ؑکے مقابلےپر ابلیس، ابراہیمؑ کے مقابل نمرود اور موسیٰ ؑ کے مقابل پر فرعون پوری طاقت کے ساتھ نکل کر سامنے آجاتا ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے مقابل ابو لہب اور ابوجہل جیسے بہت سے کردارحق کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنے منہ کی پھونکوں سے اس آسمانی نور کو مٹا دیں۔لیکن ایسے لوگ ہمیشہ ناکام و نامراد کر دیے جاتے ہیں اور ان کے منصوبے پارہ پارہ کردیے جاتے ہیں۔ ترقیات کے ساتھ ہی ایک تیسر ا گروہ بھی پیدا ہوجاتا ہے جو منافقت اور مداہنت بھری باتوں کے ذریعہ الٰہی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ جیسے عبداللہ بن ابی لیکن انجام کار فتح مومنوں کا ہی مقدر بنی۔ حیرت ہوتی ہے کہ آج کے مکذبین اور فتنہ پردازیہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی مداہنت بھری باتوں سے کسی مومن کو دھوکا دے سکتے ہیں۔

جب اس طرح کے بد قسمت لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر، ذات پر، الہامات پر اور نظام جماعت پر بعض اعتراض اٹھا کرہنسی،ٹھٹھا اور استہزاکرتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں اس قسم کے تمام الزام، اعتراض، تہمتیں اور بہتان سابقہ انبیاء اور ان کی جماعتوں پر بھی لگائے جا چکے ہیں اور قرآن نے ہماری ہدایت کے لیے انہیں محفوظ بھی فرما دیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس مخالفت کی وضاحت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ منہ کی پھونکیں کیا ہوتی ہیں ؟ یہی کہ کسی نے ٹھگ کہہ دیا، کسی نے دکاندار اور کافر اور بے دین کہہ دیا۔ غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں، مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہوجاتے ہیں۔(ماخوذازالحکم جلد 5، مورخہ 24؍جنوری 1901ء)

وہ جماعتیں جو اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب ہوکر الٰہی جماعتیں بن جاتی ہیں، ان کی مخالفت پر بھی اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کی ہر ایک تدبیر کو ناکام کرکے دکھاتا ہے اور اس سنت اللہ میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی کہ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۔ یقیناً اللہ ہی کا گروہ غالب آنے والا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس مخالفت کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اگر آنحضرتﷺ کی بعثت کے دن ہی سارامکہّ آمنّا وصدقنا کہہ کرساتھ ہو لیتا تو پھر قرآن شریف کا نزول اسی دن بندہو جا تا اور وہ اتنی بڑی کتا ب نہ ہو تی۔جس جس قدرزورسے با طل حق کی مخالفت کرتا ہے اسی قدرحق کی قوت اور طاقت تیز ہو تی ہے۔‘‘ ( ملفوظات جلدسوم صفحہ 226)

مقرر نے بتایا کہ اگر ہم اسلام کے دور اول کو دیکھیں تو آج کےمعاملات کا منطقی انجام بھی بڑی وضاحت سے نظر آجاتا ہے۔مسلمانوں کے دین کا نام بگاڑا گیا اور کہا گیا کہ تم مسلمان نہیں بلکہ صابی ہو۔ حضرت ابوبکر ؓ، حضرت خبابؓ، حضرت بلالؓ، حضرت عروہ بن مسعود ؓکی مثال دیتے ہوئے کہا کہ صحابہ کو ان کے اموال اور جائیدادوں سے محروم کردیا گیا۔ ان کے بیوی بچے چھین لیے گئے خود رسول اللہ کے پاک وجود کو بھی مکہ کی گلیوں میں، صحن کعبہ میں اور شعب ابی طالب میں ایسی ہی آزمائشوں میں ڈالا گیا۔آپ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے، جنگیں مسلط کی گئیں لیکن کوئی ایک ابتلا بھی ان پاک وجودوں کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔ اور پھر وہ دن بھی آئے کہ ان مخالفتوں کے طوفانوں کو چیرتے ہوئے مسلمان نہ صرف مکہ کے وارث بن گئے بلکہ پورا عرب ان کے ماتحت آگیا۔قیصر وکسریٰ کی بڑی بڑی بادشاہتیں ان کے قدموں میں ڈھیر کردی گئیں۔وہ مالک الملک کے غلام ملکوں کے مالک بنا دیے گئے۔ وہ گلیوں میں ظالم دشمنوں کے ہاتھوں بے دردی سے ماریں کھانے والے امان کے جھنڈوں کی علامت بن گئے۔اور ہر ظلم کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں ترقیات کی منزلوں کی جانب بڑھاتا چلا گیا۔ مکہ سے اٹھنے والی لاالٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی صدا دنیا بھر میں پھیل گئی۔

پھر وقت بدلا، ایمان ثریا پر جا پہنچا، اور یہیں سے مسلمانوں کے زوال کا دَور شروع ہوگیا۔ حوادث کی آندھیوں نے انہیں خس و خاشاک کی مانند اڑا کر رکھ دیا اور ان کی سب شان و شوکت ماضی کی داستانوں میں تبدیل ہوکر رہ گئی۔ تب اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے رسول ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اپنے مسیح اور مہدی کو بھیجا تاکہ پھر سے ایک الٰہی جماعت قائم کی جاسکے اور اسلام کو دوبارہ عزت، طاقت اور غلبہ عطا کیا۔

چنانچہ اس آسمانی صدا پر لبیک کہتے ہوئے جب 1889ء میں 40افراد نے اللہ تعالیٰ کے مامور کے ہاتھ پر اسلام کی ترقیات کے لیے عہد بیعت باندھا تو پادریوں، پنڈتوں اور علماء کی طرف سے مخالفت کا شدید طوفان شروع ہوگیا۔آپ کے خلاف کفر کے فتوے لگائے گئے اور لوگ آپ کی جان کے درپے ہوگئے۔نبیوں کی مخالفت کی ہمیشہ سے جاری سنت دہرائی جانے لگی۔ لدھیانہ کے ایک مولوی نے بڑے جوش سے یہ تقریر کی کہ جوشخص آپ کو قتل کرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔

آج بھی سوشل میڈیا کے بعض شعبدہ باز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر کوئی آپ کی کتابوں کو مکمل پڑھ لے تو خود بخود احمدیت چھوڑ دے گا۔کیا ان جھوٹ بولنے والوں کو یہ خبر نہیں کہ تاریخ احمدیت اس قسم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ آپؑ یا آپؑ کے خلفاء کی تحریر وں اور تقریروں کے سبب ہزاروں لاکھوں لوگ احمدیت کی آغوش میں آئے ہیں۔ اے معاندین احمدیت! اگر بفرض محال یہ بات واقعی سچ ہے تو کیوں جماعت احمدیہ کی کتابوں پر پابندی لگائی جاتی ہے؟ کیوں مختلف ملکوں میں ایم ٹی اے کی نشریات کو روکا جاتا ہے؟ کیوں جماعتی ویب سائٹس کو بند کیا جاتا ہے؟صرف اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ یہ وہ آسمانی نور ہے جو اگر قبولیت کے کسی لمحے میں ایک متقی دل پر نازل ہوجائے تو اس کی کیفیت ہی بدل دیا کرتا ہے۔

یہ محض کوئی جذباتی نعرہ نہیں ہے بلکہ آج دنیا کے 213؍ ممالک کے کروڑوں لوگ جن تک سچ کا یہ پیغام پہنچ چکا ہےوہ آپ اور آپ کی نیابت میں قائم شدہ خلافت احمدیہ کے ایک اشارے پر ہر قربانی کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔مخالفین جو دلائل کے میدان میں عاجز آچکے ہیں لدھیانہ کے مولوی کی طرح جنت کے جھوٹے پروانے تقسیم کرتے ہوئے لوگوں کو احمدیوں کے قتل پر اکساتے ہیں اور اب تک سینکڑوں احمدی اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کے جرم میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اگر دلائل موجود ہیں تو کیوں معصوم احمدیوں کی جانیں لی جاتی ہیں؟ کیوں انہیں جھوٹے مقدمات بنا کر قید کیا جاتا ہے؟ کیوں ان کے لیے الگ سےقانون سازیاں کی جاتی ہیں؟ ایک صدی گواہ ہے کہ احمدیوں کو شہادتوں کے میدان میں آزما کر دیکھا گیا۔گلیوں اوربازاروں میں، یہاں تک کہ مسجدوں میں احمدی خون یہ سوچ کر بہا دیا گیا کہ شایداس طرح سے اس آسمانی سلسلہ کو شکست دی جاسکے گی۔لیکن ایک دن میں لاہور کی مساجد میں ہونے والی 86؍شہادتیں بھی جماعت کی ترقی کےاس سفر کو روک نہیں سکیں بلکہ خلافت احمدیہ کے زیر سایہ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے آج 70؍ہزار سے زائد وقف نو بچے،سینکڑوں ہزاروںمبلغین اورلاکھوں کروڑوں احمدی قدم آگے سے آگے بڑھانے کے لیے تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔ پس کس میں ہمت ہے کہ سچائی کے اس قافلے کو روک سکے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت کو قید کرنے کے لیےقادیان میں مخالفین احمدیت نے آپ کے گھر کے سامنے راستے میں ایک دیوار کھینچ دی اور یہ خیال کیاکہ شاید وہ اس طرح سے احمدیت کے پیغام کو ایک گاؤں کی چاردیوار ی سے باہر نہیں نکلنے دیں گے۔اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق نہ صرف وہ دیوار گرائی گئی بلکہ احمدیت کی ترقی کی راہ میں حائل ہونے والی ہر دیوار کو اللہ تعالیٰ نے پاش پاش کردیا۔ اور خدا تعالیٰ نے احمدیت کے پیغام کو نہ صرف زمین کے کناروں تک پہنچا دیا بلکہ فضاؤں کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے لیے مسخر کردیا۔ ایم ٹی اے کے چینلز، جماعت کی بے شمار ویب سائٹس، اخبارات و رسائل اور کتابیں،ملکوں ملک پھیلے ہوئے احمدیہ مشن ہاؤسز اور مساجد برصغیر پاک و ہند کی ملکی حدود کی دیواروں سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور سعید روحیں ان کے ذریعے عافیت کے حصار میں داخل ہو رہی ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ربوہ جیسا عظیم الشان مرکز عطا کردیا۔ لیکن پھر جب ایک حاکم وقت نے اس مرکز احمدیت کو مٹانے کے ارادے باندھے تو اللہ تعالیٰ نے برطانیہ میں اسلام آباد جیسا عظیم الشان مقام عطا کرکے سورج مغرب سے طلوع ہونے کی پیشگوئی بھی پوری کردی اور دنیا کو یہ پیغام بھی بڑی وضاحت کے ساتھ دے دیا کہ جماعت احمدیہ کا حقیقی مرکز خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہےاور نظام خلافت ہی وہ مرکز ہے جو اپنے سب متبعین کو متحد رکھتا ہے اور دنیا بھر میں باوجود ہزار کوششوں کے یہ نعمت کسی اور فرقے یا گروہ یا جماعت کا مقدر نہیں بن سکی کیونکہ یہ نعمت صرف اللہ تعالیٰ عطا کرسکتا ہے۔

مجلس احرار نے 1934ء کے فسادات کے دوران خوف کی فضا پیدا کرنے کے لیے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے کیے۔

1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف نہ صرف ملکی بلکہ طاقتور سربراہوں پر مشتمل عالمی جتھے اکٹھے کرلیے گئے۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ عوام کو بھڑکایا گیا۔ جانیں لی گئیں، اموال لوٹے گئے، تحریکات چلائی گئیں اور یہ خیال کیا گیا کہ بس اب احمدیت کو کچل کر رکھ دیا جائے گا۔ دوسری جانب دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے اسی مختصر سےعرصہ کے دوران ایک کمزور جماعت کی ترقیات کی راہوں کو عظیم شاہراہیں بنا دیا ہے۔

1984ء کے ابتلا ؤں کے دوران بہت سے احمدیوں کو صحابہؓ کے نمونوں کے مطابق تکلیفوں سے بھی گزرنا پڑا۔اس دَور میں احمدیت کو کینسر قرار دے کر مٹانے کے دعوے کیے گئے۔ لیکن کون زندہ رہا اور کسے اللہ تعالیٰ نے ریزہ ریزہ کر کے ہواؤں کی نذر کردیا۔اور مؤرخ نے دیکھا کہ ایک جلتے ہوئے طیارے کے ساتھ وہ تمام ارمان اور حسرتیں بھی جل کر راکھ اور خاک کا ڈھیر بن گئیں جو ایک الٰہی جماعت کو مٹانے کے لیے محو پرواز تھیں۔

لیکن ان سب نشانات کے باوجود بھی یہ مخالفت جاری رہی اور پھر مئی 1999ء کے وہ دردناک ایام بھی آئے جب ظلم کی انتہا کرتے ہوئے ہمارے موجودہ امام کو جو اس وقت ناظر اعلیٰ تھے ایک جھوٹا مقدمہ قائم کرکے قید میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس بابرکت اسیر کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس قید سے نکالا، بلکہ کروڑوں دلوں کی سلطنت کا بادشاہ بھی بنا دیا۔اور آج آپ جس جانب بھی جاتے ہیں یہ عزت اور تکریم آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ہر ایک جانب، ہر ایک راستے پر آپ کے ادب اور احترام کےلیے غیر معمولی اہتمام کیا جاتا ہے۔ پس اپنے امام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم میں سے ہرایک احمدی یہ یقین رکھتا ہے کہ دشمن اگر ہمیں قید کر بھی دے۔ اگر وہ ہمارے اموال اور جائیدادوں کو چھین بھی لے۔ اگر وہ ہمیں ملکوں سے ہجرت پر مجبور بھی کردے۔ اگر وہ ہمارے خون بہا بھی لے تب بھی ہم حضرت خبیبؓ کی طرح کے نمونے ہی دکھائیں گے اور وہی شعر پڑھتے ہوئے مقتل کی طرف جائیں گے جو انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے پڑھے تھے کہ

لست ابالی حین اقتل مسلمًا

علیٰ ای شق کان للّٰہ مصرعی

و ذالک فی ذات الالہ و ان یشاء

یبارک فی اوصال شلو ممزع

کہ اے دشمنو!میں تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ جب میں قتل ہوکر زمین پر گروں گا تو کس پہلو پر گروں گا۔ کیونکہ خدا کی قسم !میری یہ موت اس معبود کی خاطر ہے جو اگر چاہے تو میرے ریزہ ریزہ بدن کو بھی برکتوں سے بھر سکتا ہے۔

پس اے معاندین احمدیت یاد رکھو اور کان کھول کر سن لو کہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے جس کی پشت پر اس کی حفاظت کے لیے ایک طاقتورخدا کھڑا ہوا ہے۔ اور خدا کو ہرگز شکست نہیں دی جاسکتی۔ یہ ہمارا ایمان بھی ہے اور گزشتہ سوا سو سال کی تاریخ بھی۔

یہ اللہ تعالیٰ کے وہ فضل ہیں جو ہمیشہ الٰہی جماعتوں کے ساتھ ہوا کرتے ہیں۔ جیسے ابرہہ پر ہونے والی کنکریوں کی بارش کو کوئی نہیں روک سکتا تھا ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی اس بارش کو بھی کوئی روک نہیں سکتا۔تاریخ مذاہب میں یہ دونوں بارشیں ہمیشہ سے جاری ہیں اور ہمیشہ جاری رہیں گی۔ فیصلہ ہر ایک کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ کس بارش کے نیچے کھڑا ہونا چاہتا ہے۔

آخر میں مقرر نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک روح پر ور ارشاد پڑھ کر سنا یاجس میں حضورؑ دشمنوں کی تدبیروں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:کیا کیا مکر ہیں جو کر رہے ہیں اور کیا کیا منصوبے ہیں جو اندر ہی اندر ان کے گھروں میں ہو رہے ہیں۔ مگر کیا وہ خدا پر غالب آجائیںگے اور کیاوہ اس قادر مطلق کے ارادے کو روک دیں گے جو تمام نبیوں کی زبانی ظاہر کیا گیا ہے۔ وہ اس ملک کے شریر اور بد قسمت دولت مند دنیا داروں پر بھروسہ رکھتے ہیں مگر خدا کی نظر میں وہ کیا ہیں ؟صرف ایک مرے ہوئے کیڑے۔ اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دےگا۔ اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائےگا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کوجو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہےنامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی…مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد 20 صفحہ67)

…………………………

اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم محمد ابراہیم اخلف صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ یوکےنے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’ذکرالٰہی‘‘۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔

مقرر نے تقریر کے ابتدا میں سورۃ العنکبوت کی آیت 29 کی تلاوت کی۔ اس کے بعد کہا کہ ذکر الٰہی کا موضوع سب سے اہم ہے کیونکہ یہ اس عظیم ہستی کے ذکر سے متعلق ہے جو آسمانوں اور زمین اور تمام مخلوقات کا رب ہے۔ یہ اس ہستی کے ذکر سے متعلق ہے جو تمام انسانوں کو پیدا کرنے والا ہے۔

بے شک اللہ کا ذکر بہترین عبادت ہے۔ اللہ کے ذکر سے مومنین کے دلوں کو سکون ملتا ہے، ان کی روحیں پرسکون ہوتی ہیں، ان کا یقین بلند ہوتا ہے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ کے ذکر سے مراد خوشی ہے اور وہ راستہ ہے جو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا باعث ہے۔ بلکہ دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی بھلائی، خوشی، لذت اور سکون کا باعث بنتا ہے۔

ہمیں ایک ایسی ہستی پر زندہ ایمان رکھنے کی ضرورت ہے جس کے سامنے انسان کو اپنی موت کے بعد اپنے تمام اعمال کا حساب دینا ہو گا جس کا مقصد انسان میں ایسا ایمان پیدا کرنا ہےجو انسان کی برائیوں پر قابو پانے کے لیے قوی اور موثر ثابت ہو سکے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ کے کچھ اعلیٰ درجے کے فرشتے ہیں جو اللہ کے ذکر کے لیے جمع ہونے والے لوگوں کی تلاش میں ہر وقت سرگرداں رہتے ہیں۔ جب وہ مجلس میں آتے ہیںاللہ تعالیٰ کے ذکر میں فرشتے ان کے ساتھ شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ان پر اپنے پر پھیلا کر ایک دوسرے پر منڈلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ زمین اور آسمان کے درمیان کا خلا ان کی موجودگی سے بھر جاتا ہے۔ جب لوگ منتشر ہو جاتے ہیں تو وہ بھی واپس آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، (جبکہ وہ خوب جانتا ہے کہ کیا ہوا تھا)، تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں، ’ہم تیرے کچھ بندوں کی طرف سے آئے ہیں جو تیری بڑائی کرتے ہیں، تیری عظمت کو بیان کرتے ہیں، تیری توحید کا اعلان کرتے ہیں، تیری تسبیح کرتے ہیں اور تجھ سے دعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے، ’انہوں نے مجھ سے کیا مانگا؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں اے ہمارے رب، انہوں نے تیری جنت نہیں دیکھی۔‘ کیا ہوتا اگر وہ میری جنت دیکھ لیتے! اللہ کہتا ہے ’وہ تجھ سے تیری پناہ بھی مانگتے ہیں، فرشتے مزید کہتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے کہ وہ کس چیز سے میری پناہ مانگتے ہیں؟ ’تیری آگ سے، وہ جواب دیتے ہیں۔ اللہ پوچھتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں،‘ نہیں۔ ’کیا ہوتا اگر وہ میری آگ دیکھ لیتے! اللہ کہتا ہے۔ پھر فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے بخشش مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انہیں پہلے ہی عطا کردی ہے۔ نیز میں نے ان کو وہ سب کچھ دیا ہے جو انہوں نے مجھ سے مانگا تھا اور میں نے انہیں وہ پناہ دی ہے جس کی انہوں نے مجھ سے بھیک مانگی تھی۔ پھر فرشتے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ان میں سے ایک بڑا گناہ گار تھا۔ وہ ابھی وہاں سے گزر رہا تھا اور کچھ دیر ان کے ساتھ بیٹھنے گیا۔ ’’میں نے اسے بھی معاف کر دیا ہے، اللہ کہتا ہے۔ وہ اس قدر بابرکت ہیں کہ ان کی صحبت میں رہنے والا کوئی بھی بد نصیب نہیں رہتا۔‘‘ (مسلم)

ذکر الٰہی کے مقصد سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا بیان

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: غور کرو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافروں پر غالب آئے کیونکہ وہ عیش و عشرت کی زندگی اور نفیس کھانوں اور مشروبات سے مستفید ہوئے تھے ؟ ہرگز نہیں۔ پہلے صحیفوں میں بھی یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ وہ راتوں کو نماز میں کھڑے ہوں گے اور دن میں اکثر روزہ رکھیں گے۔ وہ اپنی راتیں ذکر الٰہی اور غوروفکر میں گزاریں گے۔ اور انہوں نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟

اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائیں

قرآن پاک میں حکم دیا گیا ہے:اے ایمان والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (سورۃ الاحزاب، باب 33، آیت 42)
اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ذکر کی اتنی زیادہ مشق کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ سمجھیں۔‘‘

اس لیے ضروری ہے کہ ہر رکن ہر حال میں ذکر الٰہی کرے خواہ وہ دن ہو یا رات۔ چاہے جنگل میں ہو یا سمندر میں؛ چاہے سفر کر رہا ہو یا رکا ہو۔خواہ امیری میں ہو یا غربت میں؛ چاہے بیماری میں ہو یا صحت میں۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ کو نہ صرف مساجد اور مذہبی اجتماعات میں بلکہ اپنے گھروں میں بھی یاد کرنا ضروری ہے۔

ذکر کی مسخ شدہ شکلیں اور اختراعات

اس دور میں صوفیاء نے ذکر کی بہت سی نئی شکلیں ایجاد کی ہیں، جس سے بہت سے مسلمان اسلام سے اور بھی دور ہو گئے ہیں، کیونکہ ذکر کی ایسی تمام صورتیں اللہ تعالیٰ اور انبیائے کرام علیہم السلام کی ہدایات کے خلاف بدعات ہیں۔

قرآن کریم وہ کتاب ہے جو تمام ہدایتوں پر مشتمل ہے، یہ وہ آخری فیصلہ ہے جس میں ہمیں ہر دلیل ملتی ہے اور جس کی تعلیمات بت پرستی اور بدعت سے بالکل پاک ہیں۔

ہر قسم کے ذکر یعنی اللہ کا ذکر قرآن پاک میں مذکور ہے۔ ان کو چار اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1۔ نماز

2.۔ تلاوت قرآن کریم

3۔اللہ کی صفات کا بار بار ذکر کیا جائے، ان کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہوئے، ان کی تفصیلات پر غور و فکر کرکیا جائے

4۔اللہ کی صفات کا اعلان عام طور پر کریں جیسا کہ کوئی شخص تنہائی میں کرتا ہے۔

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، یہ ذکر کی وہ چار قسمیں ہیں جو قرآن پاک سے ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ذکر کی ان صورتوں کی پیروی ضروری ہے اور اس طرح کے ذکر کو انجام دینا نہ صرف انتہائی ضروری ہے بلکہ روحانیت کے لیے بھی واجب ہے۔

حدیث میں درج ہے:

یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا دوست نفلی عبادت سے میرا ایسا قرب حاصل کرتا ہے کہ میں کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میں وہ آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، میں وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے،۔ میں وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔ جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کی خواہش پوری کرتا ہوں اور جب وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔

ذکر کی دیگر اقسام

• تسبیح [مثلاً سبحان اللہ (اللہ پاک ہے) پڑھ کر خدا کی شان کا اظہار کرنا]

• تحمید [مثال کے طور پر الحمدللہ پڑھ کر اللہ کی حمد کرنا] جسے کوئی شخص تنہا بیٹھ کر یا صحبت میں انجام دے سکتا ہے۔

• تکبیر [خدا کی عظمت کا اظہار، مثال کے طور پر اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) پڑھ کر]

یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ذکر کے بہترین کلمات لا الٰہ الا اللہ ہیں جبکہ بہترین دعا الحمدللہ ہے۔

’’اللہ کے نزدیک سب سے محبوب کلمات چار ہیں: اللہ کی حمد، اللہ کے لیے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔‘‘

نتیجہ

اس تقریر کو خلافت کے نظام کو برقرار رکھنے کی اہمیت کا مختصراً ذکر کر کے ختم کرنا چاہوں گا، کیونکہ قرآن کریم خلافت اور ذکر الٰہی کے درمیان ایک ربط پیدا کرتا ہے۔

یہ الٰہی جماعت کتنی خوبصورت ہے جسے اللہ نے خود قائم کیا ہے۔ خلافت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کے دلوں کو ایسی محبت سے جوڑ دیا کہ وہ ایک جسم ہو گئے۔ خلافت کی برکات اور فضل الٰہی کی بدولت ہی اسلام نے ماضی میں بھی ترقی کی ہے جیسا کہ آج بھی جاری ہے اور آئندہ برسوں اور صدیوں تک کرتا رہے گا، انشاء اللہ۔ آمین

خلافت ہی ہمارے دلوں کو جوڑتی ہے۔ خلافت کے نظام کے بغیر روحانی زندگی ممکن نہیں۔

سورۃ النور میں ذکر ہے جس میں اللہ نے ہم سے خلافت کا وعدہ کیا ہے۔ اس سورہ میں بتایا گیا ہے کہ سچے نیک مومن وہ ہیں جو خلافت کی غیر مشروط اطاعت کرتے ہیں، جو کبھی شکوک نہیں کرتےاور اپنے آپ کو مکمل طور پر پاک کرتے ہیں۔

مزید برآں، یہ سورہ ان لوگوں کو بیان کرتی ہے جو خلافت کے پابند ہیں جو اپنے گھروں میں مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی یاد میں ذکر الٰہی میں ڈوبے رہتے ہیں۔

پس خلافت کے ذریعے ہی دنیا اور ہمارے گھروں میں حقیقی ذکر الٰہی قائم ہو سکتی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ ہمیں خلافت نصیب ہوئی۔ حقیقی خوشی اور اطمینان حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے

…………………………

اس تقریر کے بعد مکرم عبد الحئی سرمد صاحب(متعلم جامعہ احمدیہ یوکے درجہ ثانیہ) نے حضرت مصلح موعودؓ کے درج ذیل اشعار پیش کیے:

مجھ کو تری مخمور نگاہوں کی قسم ہے

اک بار ادھر دیکھ کے مستانہ بنادے

کردے مجھے اسرارِ محبت سے شناسا

دیوانہ بناکر مجھے فرزانہ بنادے

لیں جائزۂ عشق مرے عشق سے عاشق

دل کو مرے عشّاق کا پیمانہ بنادے

جو ختم نہ ہو ایسا دکھا جلوۂ تاباں

جو مَر نہ سکے مجھ کو وہ پروانہ بنادے

دل میں مرے کوئی نہ بسے تیرے سوا اَور

گر تُو نہیں بستا اسے ویرانہ بنادے

اس نظم کے بعد مکرم ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب چیئرمین انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی یوکےنے ’’دنیا کے امن و سلامتی کے قیام کے لیے خلافت احمدیہ کی بین الاقوامی کوششیں‘‘ کے موضوع پر اردو زبان میں تقریر کی۔

آج دنیا میں ایک بے یقینی اور خوف کی فضا ہے اور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔عالم انسانیت کو اس وقت دیگر دنیاوی ضروریات کے ساتھ ساتھ امن و آشتی اور سکون کی جس قدرضرورت ہے وہ شاید اس سے قبل کبھی نہیں رہی۔ تیسری عالمی جنگ کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال میں امن عامہ کی کوششوں کی بجائے، دنیا میں اسلحہ و جنگ کے پھیلاؤ پر کام ہورہا ہے۔ اس تناظر میں دنیا میں انسانیت کا ہمدرد اور اس کی بے لوث خدمت اور دعائیں کر نےوالا ایک مقدس ادارہ خلافت احمد یہ ہے۔ آج دنیا میں امن عامہ کی جس قدر کوششیں خلافت احمدیہ نے کی ہیں اس کی کوئی نظیر موجودنہیں ہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کاوجودہی ہے جود نیا کو تیسری عالمی جنگ سے مدت سے مسلسل خبر دار کر رہا ہے۔ امن، صلح جوئی اور آشتی کی کوششیں کرنے والا ایک ہی عالمی راہنما ہے اور ہماری خوش قسمتی کہ ہم اس کے ماننے والے ہیں۔ مگر وہ جو نہیں مانتے، وہ ان کےلیے بھی ایسے ہی در درکھتا اور دعائیں کرتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امن اور اس کا قیام جماعت احمدیہ کے جملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔ حضرت بانی جماعت احمد یہ مسیح موعودؑ نے امن عالم کے وہ شان دار اصول دنیا کے سامنے رکھے کہ جن پرحقیقی امن اور سچی خوشحالی کی بنا ہے۔ حضرت بانی جماعت احمد یہ نے اس حوالے سے دنیا کے سامنے ایک زریں اصول بیان فرمایا۔

اس شان دار اصول پر اگر آج بھی دنیا قائم ہو جائے تو دنیا کے ایک بڑے حصہ میں امن اور صلح کی فصلیں پھولیں گی اور دنیا سے فساد اور شر کا خاتمہ ہوگا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو امن عالم سے متعلق اتنی فکر تھی کہ آپ نے اپنی وفات سے صرف دو دن پہلے بھی اپنی کتاب میں ہندوستان کی دو بڑی قوموں،مسلمان اور ہندوؤں کو امن وصلح کا یہ پیغام دیا کہ باوجود مذہبی اختلاف کے ہم سب انسان ہیں۔ آپؑ نے فرمایا: اس لئے ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین ودنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایک دوسرے کے اعضاء بن جائیں۔(ماخوذازپیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 439)

حضرت مسیح موعود ؑنے امن عامہ کے لیے جو کوششیں کیں۔ آپ کی وفات کے بعد سے، آپؑ کے خلفاء نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور یہ سلسلہ خلافت خامسہ میں بھی جاری وساری ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی رحلت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے اور حضرت اقدسؑ کے مشن کو جاری رکھا۔

1914ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓجماعت احمدیہ کے خلیفہ ہوئے تو ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔ آپ کے دَور خلافت میں آپ کی شبانہ روز کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں خدا نے بہت سی روحوں کو امن وسکون سے سرفراز فرمایا۔ آپؓ کی شفقت اکناف عالم پر محیط تھی۔ جنگ زدہ علاقوں میں خدمت خلق سے لے کر ظالموں کی قید میں مظلوم جانوں کی گردنیں آزاد کروانے تک، مذاہب عالم کے مابین ہم آہنگی اور باہمی احترام سے لے کر سیاسی کشیدگی میں فریقین کو سمجھانے تک، ہر محاذ پر حضرت مصلح موعودؓ نے گرانقدر خدمات انجام دیں اور امن عالم میں وہ کردارادا کیا جس کی نظیر ملنا محال ہے۔دنیا میں بپا بے چینی اور فساد کی ایک بہت بڑی وجہ مذہبی عدم برداشت ہے۔اگر ایک دوسرے کے بزرگان کا تذکرہ احترام سے کیا جائے تو امن کی ایسی فضا قائم ہوجس سے معاشرہ سکون میں آجائے۔اسی بنیادکو حضرت مصلح موعودؓ نے قائم کیا اور جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ کا آغاز کیا۔

امن عالم کے قیام کے لیے جماعت احمدیہ کا ایک سنہری اصول یہ ہے کہ احمدی اپنے ملک کا وفادار رہے اور اس کی بہتری اور بہبود کے لیے کوشاں رہے اور اپنے ملک کی حکومت کے خلاف کسی بغاوت، فساد یا مظاہرے میں حصہ نہ لے۔ دنیا کے کئی ممالک میں جماعت احمد یہ کوعوامی مخالفت کے علاوہ حکومتی جبر کا بھی سامنا ہے۔ جماعت کو ہرقسم کے انسانی اور شہری حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ جبر واستبداد، قید و بند، قتل و غارت اور تشدد معمول ہے مگر جماعت کی تاریخ کسی بھی قسم کے فساد سے مبرا ہے۔ اگر احمدی حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت کے سکھائے راستوں پہ نہ چلتے تو یہ امن کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔

نصف صدی سے زائد حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز رہے اور ایک عالم نے آپ سے فیض پایا۔ قوموں نے نہ صرف آپ سے برکت پائی بلکہ انہیں امن اور صلح نصیب ہونے کی تمام کوششیں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے مستقل فرمائیں۔سیاست، سماج، مذہب اور دفاع غرض ہر شعبہ میں آپ نے امن اور انصاف کے اصول بیان فرمائے۔ ترقیات اور انقلابات کے سنگ ایک شدید بے سکونی اور بدامنی کی لہر نے بھی دنیا کو گھیرا ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نہ صرف سیاسی حوالوں سے جاری بدامنی ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ مذہبی حوالے سے بھی شان دار خدمات انجام دیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کی زندگیاں بدلنے سے لے کر فلسطین کے باشندوں کی راہنمائی تک اور تقسیم ہندوستان سے لے کر اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹر کے متعلق راہنمائی تک، ہر جگہ آپ امن کے قافلے کے سالار نظر آتے ہیں۔ قیام امن کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی کوششیں اور کا م اس قدر ہیں کہ اس مختصر وقت میں ان کا احاطہ مشکل ہے۔

خلافت ثالثہ میں قیام امن کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے مقرر نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے پیشروؤں کی سنت کو جاری رکھا اور دنیا کو امن وسلامتی نصیب ہونے کے لیے دعاؤں کی تحریک کے ساتھ مسلسل عملی اقدامات بھی فرمائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1967ء میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان امن اور اتفاق پیدا کرنے کی خاطر یہ تجویز دی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے کچھ عرصہ کے لیے اپنے اندرونی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے محض اسلام کی تبلیغ اور تشہیر کے لیے مل کر کوشش کر یں۔ ( تاریخ احمدیت،جلد 24، صفحہ157)

آج جماعت احمد یہ بطور امن پسند جماعت کے دنیا بھر میں معروف و مقبول ہے۔ قیام امن کے لیے دنیا بھر میں جاری جماعتی کاوشوں کو بھی تشکر اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے اور جماعت کے سلوگن Love for all Hatred for none کی بہت تعریف کی جاتی ہے یعنی محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔ یہ نعرہ امن و سلامتی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی زبان مبارک سے ہی ادا ہوا تھا جوحضورؒ نے 1980ء میں سپین کی سرزمین پر فرمایا۔ نفرتوں سے بھری دنیا میں محبت کا یہ اعلان عام تھا جس کے سبب مغرب نے حضور ؒکو سفیر محبت کے نام سے یاد کیا۔لیکن جہاں تک دنیا کو تنبہ کرنے کی بات ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آج سے 56 سال قبل، 28؍جولائی 1967ءکو وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال لندن میں امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ کے عنوان سے ایک تاریخی خطاب فرمایا۔ جس میں حضورؒ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک تیسری عالمی جنگ سے متنبہ کیا۔

پھر خلافت رابعہ کا ذکر کرتے ہوئے مقرر نے کہا کہ خلافت رابعہ میں جماعت احمد یہ کوشدید تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاستی جبر ایک نئے روپ میں سامنے آیا۔ ایسے عالم میں بھی جماعت اپنی امن پسند پالیسی اور تعلیم پہ نہ صرف قائم رہی بلکہ خلافت احمد یہ کے وجود سے عالمگیر امن وسلامتی کی کوششوں کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1990ء میں اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل کے عنوان سے ایک معرکہ الآراء خطاب فرمایا جو بعدازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکا یہ خطاب امن کے حوالے سے ایسا لائحہ عمل لئے ہوئے ہے کہ اس میں امن عالم کی راہ میں رکاوٹ بننے والے تمام مسائل اور ان کے موثر ترین حمل کا ذکرفرمایا۔اس میں جہاں مذاہب عالم کے مابین امن و آشتی اور ہم آہنگی کا طریق بتایا گیا، وہیں معاشرتی امن، اقتصادی امن،قومی و بین الاقوامی امن اور انفرادی امن کے ہر پہلو پہ بات کی گئی۔ خلافت رابعہ میں جماعت احمد یہ کو پہلے سے بڑھ کر عالمگیر شہرت اور کامیابی نصیب ہوئی اور قیام امن کے لیے جماعتی کوششوں اور کاوشوں کو ایک دنیا نے سراہا اور ان سے فیضیاب ہوئے۔ قدرتی آفات و مصائب میں دنیا کو پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے Humanity First کا قیام ہو یا افریقہ کے دور دراز علاقوں میں شفاخانوں کی تعمیر، خلافت احمد میر نے امن وسلامتی اور اس کی ترویج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

موجودہ دَور میں خلافت خامسہ کا ذکر کرتے ہوئے مقرر نے کہا کہ خلافت خامسہ کے آغاز سے ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی و راہنمائی میں امن عالم کے لیے ہمہ جہت کوششیں جاری ہیں۔ آج جب دنیا امن کو ترس رہی اور تیسری عالمی جنگ کے بادل فضاؤں میں منڈلا رہے ہیں، امن کا یہ شہزادہ دنیا کو بار بار امن کی طرف بلا رہا ہے۔

ان کاوشوں کی مختصری جھلک پیش خدمت ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ ہی مختلف مواقع پر اپنے خطبات کے ذریعہ دنیا کو در پیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے افراد جماعت کو بالخصوص اور تمام عالم کو بالعموم مخاطب کرتے ہوئے تمام دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے کوششوں کی تلقین فرمائی۔ اور احباب جماعت کو اسلام کی امن و آشتی کی جوحسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ دنیا کے سامنے رکھنے کی تلقین فرمائی۔ اور مسائل کے حل کے لیے متعدد بار دعاؤں کی تحریک فرمائی۔

قیام امن عالم کی خاطر دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور سر براہوں کو بذریعہ خطوط مخاطب کرنا خلافت خامسہ کے کارہائے نمایاں کا ایک درخشاں اور تاریخی پہلو ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو در پیش عالمی خطرات کے تناظر میں 2012ء میں قیام امن کی خاطر سنجیدہ تعاون اور جدو جہد کے لیے خطوط لکھنے کا اہتمام فرمایا۔ افریقہ میں امن و امان اور افریقن ممالک کی ترقی کےلیے حضور نے بے نظیر کوششیں اور دعائیں فرمائیں۔

گو کہ جماعت احمدیہ نے ہر دور میں دنیا بھر میں امن کا نفرنسز کا اہتمام کیا ہے۔ ان کا نفرنسز کا مقصد آج کی پریشان حال دنیا میں امن کی تدابیر پرغور کرنا ہے۔لیکن دنیا کے موجودہ خطرناک حالات کے پیش نظر خلافت خامسہ کے دور میں ان کا نفرنسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہاں پر ان تمام کانفرنسز کا ذکر تفصیل سے تو کیا مختصراً بھی ناممکن ہے۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کے آغاز سے ہی جماعت احمد یہ برطانیہ کو ایک سالانہ پروگرام امن سمپوزیم کے انعقاد کی طرف توجہ دلائی۔ یہ پروگرام بلاتعطل جماعت احمدیہ برطانیہ کے سالانہ پروگرام کا ایک لازمی اور اہم ترین حصہ رہا ہے۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس شرکت کرتے اور حاضرین سے خطاب فرماتے ہیں۔اس کی پیروی میں دنیا بھر میں جماعتیں امن کا نفرنسز اور سمپوزیم منعقد کرتی ہیں۔ ان پروگراموں میں اعلیٰ حکومتی وزراء، اعلیٰ عہد یداران ملکوں کے سفراء، پارلیمینٹیر نیز،شہروں کے میئر، مذہبی رہنما، تھنک ٹینکس سے تعلق رکھنے والے افراد اور معززین شرکت کرتے ہیں۔ وہ اپنے خطابات میں دنیا میں امن کے قیام کے موضوع پر اسلامی تعلیم کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور خلافت احمدیہ کی امن پسندی اور قیام امن کے لیے کامیابیوں کو سراہتے ہیں۔

جماعت احمدیہ کی عالمی امن کے لیے کی گئی کوششوں میں سے ایک کوشش یہ بھی کی گئی کہ دنیا میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی لیول پر امن کے لیے کی گئی انفرادی یا اجتماعی کوششوں کو سراہا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

خلافت خامسہ میں جماعت احمد یہ برطانیہ نے حضور انور کی اجازت وراہنمائی سے احمدیہ مسلم پیس پرائز کا آغاز کیا۔جو کسی ایسی اہم شخصیت یا ادارے کو دیا جا تا ہے جنہوں نے امن کے قیام کے لیے غیر معمولی کام کیا ہو۔ دنیا میں امن کے قیام کے لیے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کی گئی کوششوں میں ایک بہت بڑا حصہ آپ کے مختلف ممالک کے دورہ جات ہیں۔ ان دوروں میں حضور انور نے سر براہان مملکت سے ملاقاتوں،حکومتی وزراء ممبران پارلیمنٹ،کونسلرز، میئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معززین کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعلیم کے مطابق امن کا پیغام پہنچایا۔حضور انور نے اپنے خطابات میں اسلام کی پرامن تعلیمات کا خوبصورت تذکرہ فرمایا۔ دوسرے ان دورہ جات میں دنیا کے کئی ممالک میں پارلیمنٹس سے حضور انور کے خطابات بھی شامل ہیں۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اعزاز میں برطانیہ کے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں دونوں ایوانوں سے آئے ہوئے متعد دمبران پارلیمنٹ،حکومتی وزراء مختلف ملکوں کے سفراء اور دیگر معززین شامل ہوئے اور حضور انور نے حالات حاضرہ کے تناظر میں نہایت پر حکمت اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ 20؍ستمبر 2011ء کو یورپین پارلیمنٹ کے وسیع ہال میں تقریب کا انعقاد ہوا جس میں 80 سے زائد یورپین پارلیمنٹ کے ممبران،سفارتی شخصیات، اعلیٰ علمی شخصیات اور صحافی حضرات کے علاوہ 16 ممالک کے غیر از جماعت مہمان شریک ہوئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریب میں فرمایا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے انسان کولازما خدا کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور یہی تمام مسائل کا حل ہے۔

27؍جون 2012ء کوکیپیٹل بل (CAPITOL HILL) واشنگٹن ڈی سی میں امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اہم اراکین کانگریس وسینٹ اور میڈیا کے افراد سے خطاب فرمایا۔ حضور انور نے اس موقع پر امریکہ کی حکومت کے ان نمائندگان سے خطاب میں امن کا راستہ بتاتے ہوئے انصاف پر مبنی بین الاقوامی تعلقات پر زور دیا۔ یقینا یہ خطاب پڑھ کر ہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے مقرر کردہ خلفا ءدنیا داروں کو کیسے مخاطب کرتے ہیں۔ اور یہ کہ حضور انور نے کس طرح اتمام حجت کرتے ہوئے ان اعلی ترین ایوانوں میں امن کا پیغام پہنچا یا۔ اور آئندہ کے خطرات سے آگاہ کیا۔

خلفائے احمدیت نے دنیا میں امن کے قیام کے لیے وسائل کی منصفا نہ تقسیم کی طرف تو سب کو توجہ دلائی۔ لیکن جماعت احمدیہ کے افراد کوخصوصاً محروم طبقوں تک بنیادی سہولیات کی فراہمی کی طرف بھی توجہ دلائی۔ تا ان کی تکالیف بھی دور ہوں اور ان طبقات سے احساس محرومی بھی ختم ہو۔ اس ایک پہلو پہ ہی نظر ڈالی جائے تو ہر سال جماعت کو بہت سارے ملکوں میں لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ جن میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ہسپتالوں کا قیام،فری میڈیکل کیمپس، یتیم بچوں کےلیے رہائش گا ہیں، سکولوں اور مختلف ٹیکنیکل تعلیمی اداروں کا قیام،غریب بچوں کے لئے تعلیمی وظائف، غرباء کو مکان مہیا کر نا، بھوکوں کو کھانے کی فراہمی،اور قدرتی آفات کے موقع پر ہرممکن مدد، اور دکھی انسانیت کی ہرممکن طریق سے مدد شامل ہے۔ یقیناً ان کوششوں سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے، جس سے محروم طبقے دنیا میں مفید وجود بن رہے ہیں۔ اور یہ سب کام دنیا بھر میں امن وسلامتی کیلئے خلافت احمد یکی بین الاقوامی کوششوں سے سے ہور ہے ہیں۔

دنیا کے موجودہ حالات میں عالمی جنگ سے خبر دار کرتے ہوئےحضرت امیر المومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد پر مقرر نے اپنی تقریر کو ختم کیا: یہ ایک حقیقت ہے کہ آنے والی عالمی جنگ کے نتائج اور اس کی وسیع تباہ کاریاں صرف اس جنگ تک یا موجودہ نسل تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ اس کے خوفناک نتائج آنے والی کئی نسلوں پر اثر انداز ہوں گے۔ پھر ایسی جنگ کے خوفناک نتائج اور اس کے اثرات نوزائیدہ بچوں پر اور مستقبل میں پیدا ہونے والے بچوں پر بھی پڑیں گے۔ موجودہ جدید ہتھیا راس قدر تباہی مچانے والے ہیں کہ مستقبل میں پیدا ہونے والی کئی نسلوں کے جسموں پر ان کے خوفناک نتائج پڑیں گے۔ پس دنیا کے ممالک کو ان موجودہ حالات پر بہت فکر مند ہونا چاہئے اور ہوش میں آنا چاہئے۔ ورنہ ان کی بداعمالیاں ان کی بدانجا می اور ہلاکت کی وجہ بن جائیں گی۔ ( خلاصہ خطاب حضورانو رنو میں سالانہ امن کانفرنس بیت الفتوح مارون – 24؍مارچ 2012ء، بحوالہ World-Crises and Pathway to Peace صفحہ نمبر 40 456)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button