از مرکزجلسہ سالانہ

سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جلسہ سالانہ برطانیہ کے اجلاس مستورات سے ولولہ انگیز خطاب فرمودہ06؍اگست2022ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

مسلمان خواتین کی جانب سے دورِ اوّل اور دورِآخر میں پیش کی جانے والی قابل تقلید قربانیاں

ایمان افروز واقعات کو سن کر انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی تلقین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ مالی قربانی اور دعاؤں کا زمانہ ہے

(حدیقۃ المہدی 6؍ اگست 2022ء، ٹیم الفضل انٹرنیشنل)آج جلسہ سالانہ برطانیہ کا دوسرا روز ہے۔ آج کے روز حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مستورات سے نیز بعد دوپہر کل ملا کر دو خطاب فرمائے ۔ مستورات سے خطاب کے لیے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا قافلہ قیام گاہ سے روانہ ہوا تو بارہ بج کر آٹھ منٹ پر ایم ٹی اے کی سکرین پر دکھائی دینے لگا۔ دو منٹ بعد حضورِ انور خواتین کی جانب سے لگائے جانے والے والہانہ نعروں کی گونج میں جلسہ گاہ مستورات میں رونق افروز ہوئےاور السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ بعدازاں اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرمہ صبیحہ خان نے سورۃ الحدید کی آیات اکیس تا چوبیس کی تلاوت اور اردو ترجمہ از تفسیر صغیر پیش کرنے کی سعادت پائی۔ مکرمہ رضوانہ احمد صاحبہ کوحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا منظوم کلام

بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے

حاصل ہو تم کو دید کی لذت خدا کرے

میں سے منتخب اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنے کی سعادت ملی۔

اس کے بعد حضورِانور کی با برکت موجودگی میں تعلیمی میدان میں اعزازات پانے والی طالبات کی فہرست محترمہ سیکرٹری صاحبہ تعلیم لجنہ اماء اللہ یوکے نے پیش کی جس میں امسال انگلستان بھر سے درج ذیل 190خوش قسمت طالبات شامل تھیں:

1: عزیزہ فریال ناصر،2: عزیزہ امة الرافع،3: عزیزہ مناہل محمود،4: عزیزہ عطیۃ الحئی بٹ، 5: عزیزہ صوفیہ انصر، 6: عزیزہ فضا سہیل، 7: عزیزہ عنایہ احمد کھوکھر، 8: عزیزہ ماریہ مجید،9: عزیزہ فاریہ انصاری، 10: عزیزہ رامین مسعود، 11: عزیزہ مہوش بشیر، 12: عزیزہ وردہ فردوس،13: عزیزہ درعدن عدنان، 14: عزیزہ نہایہ احمد، 15: عزیزہ عطیہ المصور، 16: عزیزہ یسریٰ شاہد،17: عزیزہ جاذبہ سلیم ایمنی، 18: عزیزہ فائزہ انور، 19: عزیزہ حلیمہ احمد، 20: عزیزہ کنول شاہد، 21: عزیزہ عفہ احمد،22: عزیزہ درِ نایاب مرزا، 23: عزیزہ نوشابہ احمد، 24:عزیزہ زینب محمود، 25: عزیزہ رخمہ مبارکہ، 26: عزیزہ وردہ برہان، 27: عزیزہ فاطمہ(زنیرہ) دانیال، 28: عزیزہ منزہ رانا، 29: عزیزہ نبیلہ شنواری، 30: عزیزہ زویا دانیال، 31: عزیزہ ماہرا احمد، 32: عزیزہ صبیحہ سیف، 33: عزیزہ ایمن سیٹھ، 34: عزیزہ طاہرہ محمود، 35: عزیزہ بریرہ شمس، 36: عزیزہ سمرین ناصر، 37: عزیزہ ماہم کاشف،38: عزیزہ شمائلہ نعمان محمد، 39: عزیزہ سدرہ نعمان محمد، 40: عزیزہ ملیحہ رفیع، 41: عزیزہ زارہ ماہ نور احمد، 42: عزیزہ عروہ روہین، 43: عزیزہ مائرہ شاہد، 44: عزیزہ ماریہ صفا احمد، 45: عزیزہ تحریم احمد، 46: عزیزہ غزالہ غفار، 47: عزیزہ نہال ملک، 48: عزیزہ سائرہ سید، 49: عزیزہ ثنا ڈار، 50: عزیزہ ازکیٰ چودھری، 51: عزیزہ رباب وسیم، 52: عزیزہ ماریہ اکبر، 53: عزیزہ ربیتہ گل، 54: عزیزہ تسنیمہ رحیم، 55: عزیزہ ثانیہ بٹ، 56: عزیزہ عائشہ بنت احمد، 57: عزیزہ فاتحہ خواجہ، 58: عزیزہ وریشہ علی رانجھا، 59: عزیزہ فزرا محمود، 60: عزیزہ زینہ بٹر، 61: عزیزہ باسمہ احمد، 62: عزیزہ عزہ ساجد، 63: عزیزہ امینہ خان، 64: عزیزہ عائشہ قمر، 65: عزیزہ نوشین ملک، 66: عزیزہ عائلہ کنول بھٹی، 67: عزیزہ خلود احمد، 68: عزیزہ سحر نواز، 69: عزیزہ ریحانہ امین، 70: عزیزہ صوفیہ محمد،71: عزیزہ سمل انعام، 72: عزیزہ سلمانہ عرفان بشیر، 73: عزیزہ زینب فاطمہ،74: عزیزہ زوہا قیصر، 75: عزیزہ انعم منور، 76: عزیزہ جاذبہ احمد، 77: عزیزہ شانزے اختر، 78: عزیزہ کاشفہ ادریس، 79: عزیزہ مسکان کاشف، 80: عزیزہ فاکہہ رانا، 81: عزیزہ یسریٰ شاہد، 82: عزیزہ نازش نعیم، 83: عزیزہ کنول ناصر، 84: عزیزہ ایشا شبیر، 85: عزیزہ زینب محمود، 86: عزیزہ سلمانہ ندیم، 87: عزیزہ نتاشا کارمائیکل، 88: عزیزہ علیشہ خان، 89: عزیزہ صبیحہ سیف، 90: عزیزہ وجیہہ عمر، 91: عزیزہ صبیحہ خان، 92: عزیزہ لائبہ مبشر، 93: عزیزہ مہوش محمود، 94: عزیزہ سویرا وقاص، 95: عزیزہ صوفیہ ایمان احمد، 96: عزیزہ زوہا سہیل،97: عزیزہ رباب وسیم، 98: عزیزہ زارا ماہ نور احمد، 99: عزیزہ ہبة النور ربانی، 100: عزیزہ نیہا یاسین، 101: عزیزہ ہالہ اکبر، 102: عزیزہ ناجیہ احمد، 103: عزیزہ آمنہ احمد، 104: عزیزہ نہال ملک، 105: عزیزہ دانیہ چودھری، 106: عزیزہ انوشہ ناصر، 107: عزیزہ لبنیٰ لطیف، 108: عزیزہ عالیہ مبشر، 109: عزیزہ ربیتہ گل، 110: عزیزہ تسمینہ رحیم، 111: عزیزہ طیبہ طاہر، 112: عزیزہ یسریٰ ڈاہری،113: عزیزہ عائشہ بنت احمد،114: عزیزہ عائلہ نور سلام، 115: عزیزہ فاتحہ خواجہ، 116: عزیزہ باسمہ احمد، 117: عزیزہ ماہم نعمان،118: عزیزہ ہبة المصور ملک،119: عزیزہ تبسم ملک، 120: عزیزہ مشائم بخاری، 121: عزیزہ مہوش ملک، 122: عزیزہ ارسہ نور،123: عزیزہ ہالہ باجوہ، 124: عزیزہ سیدہ نور سحر احمد،125: عزیزہ زنیرہ خان، 126: عزیزہ کشف جان، 127: عزیزہ خافیہ محبوب، 128: عزیزہ ماہم جاوید،129: عزیزہ ثمامہ ملک، 130: عزیزہ سطوت مرزا، 131: عزیزہ حسنیٰ بٹ، 132: عزیزہ شوازالنور احمد، 133: عزیزہ طیبہ ناصر، 134: عزیزہ عفت مرزا،135: عزیزہ تہمینہ صدف مرزا، 136: عزیزہ مہوش سید،137: عزیزہ سوہا احمد،138: عزیزہ فائزہ احمد،139: عزیزہ راحیلہ کاشف،140: عزیزہ علیزہ بٹ،141: عزیزہ مہک طارق،142: عزیزہ حنانہ کنول کریم،143: عزیزہ پرنیہ جاوید،144: عزیزہ طوبیٰ عبدل، 145: عزیزہ خلت ساقی، 146: عزیزہ عافیہ احمد، 147: عزیزہ فرخندہ اکبر، 148: عزیزہ حبیبہ سیف، 149: عزیزہ عالیہ منظور، 150: عزیزہ طوبیٰ لودھی، 151: عزیزہ ماہ نور شہزاد، 152: عزیزہ باسمہ ابڑو،153: عزیزہ حفصہ رباب، 154: عزیزہ ارم نصر اللہ، 155: عزیزہ در شہوار ہاشمی، 156: عزیزہ ہانیہ یاسین،157: عزیزہ فرحین خالد،158: عزیزہ سُنہ احمد، 159: عزیزہ ماریہ احمد، 160: عزیزہ نِجاب ساجد، 161: ڈاکٹر ماہرہ الیاس،162: ڈاکٹر سائرہ چغتائی،163: عزیزہ طوبیٰ عبدل،164: عزیزہ ماہدہ رحمٰن،165: عزیزہ صدف رشید،166: عزیزہ ندا عاصم،167: عزیزہ عاتکہ حفیظ،168: عزیزہ سیدہ ہبة الحئی،169: عزیزہ ثنا احمد،170: عزیزہ سائرہ احمد،171: عزیزہ حمیرہ احمد،172: عزیزہ فضا تسکین احمد، 173: عزیزہ فریدہ احمد سندھو، 174: عزیزہ نعیمہ ہما خان، 175: عزیزہ منال رحیم، 176: عزیزہ تنزیلہ انعم، 177: عزیزہ فریحہ ظفر، 178: عزیزہ لبنیٰ احمد، 179: عزیزہ عائشہ احمد، 180: عزیزہ شمائلہ انجم، 181: عزیزہ راحیلہ روحی جاوید، 182: عزیزہ یاسمین الجیرودی، 183: ڈاکٹر صاعقہ رؤوف،184: ڈاکٹر ثنا خالد، 185: ڈاکٹر منزہ چو، 186: ڈاکٹر شازیہ نذیر، 187: ڈاکٹر سنبل نورین بھٹی، 188: ڈاکٹر شبینہ حیات، 189: ڈاکٹر عدیلہ محمود، 190: ڈاکٹر متینہ حکیم،191عزیزہ زینت بٹ(ان کا نام اعلان ہونے سے رہ گیا تھا انتظامیہ کی طرف سے بعد میں شامل کروایا گیا ہے۔)

بعد ازاں بارہ بج کر اٹھاون منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منبر پر تشریف لائے اور پنڈال میں موجود مستورات نیز دنیا بھر میں بسنے والے ناظرین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی دعا کا تحفہ عطا فرمایا۔ باقاعدہ خطاب کا آغاز کرنے سے قبل حضور انور نے اعزاز حاصل کرنے والی طالبات کو دعا دیتے ہوئے فرمایا: جن کے نام پڑھے گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو یہ ایوارڈزمبارک کرے۔

بعد ازاں حضور انور نےباقاعدہ خطاب کا آغاز فرمایا۔ تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج مَیں آپ کے سامنے بعض عورتوں کی ایسی مثالیں پیش کروں گا جن سے ایک حقیقی مسلمان عورت کی دینی اور روحانی حالت، اسلام کے لیے غیرت، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے اور تربیتِ اولاد کا پتا چلتا ہے۔ یہ واقعات مَیں نے آنحضرتﷺ کی صحابیات، حضرت مسیح موعودؑاورآپؑ کے بعد کے زمانے کی خواتین اور آج کے دَورسےبھی لیےہیں۔ تاریخِ احمدیت میں ایسے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ اگر کسی ایک دَور کے واقعات بھی بیان کیے جائیں تو اس کے لیے کئی گھنٹے درکارہیں، اگر کتابیں لکھی جائیں تو کتابوں کی کئی کئی جلدیں بن جائیں۔

اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ عورت کو کوئی مقام نہیں دیتا۔ اسلامی تاریخ میں عورتوں کی عبادتوں کے معیار، جان مال کی قربانی اور بچوں کی تربیت کی مثالیں جو اب تک زندہ ہیں، اور ان پر جو عمارتیں استوار ہو رہی ہیں، وہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے۔ دنیا کی تاریخ میں تو عورتوں کی چند ایک مثالیں ہی محفوظ ہیں لیکن اسلام کی تاریخ میں عورتوں کی نیکی، تقویٰ اور قربانی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن ان واقعات کو سننے کا فائدہ تب ہی ہے جب ان نیک نمونوں کو اپنی زندگیوں کا حصّہ بنانے کی کوشش کی جائے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ عبادتوں اور تعلق باللہ کے معیار قائم کرنے کے لیےصحابیاتؓ کی کوششوں کا عِلْم اس بات سے ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنی والدہ امِ فضلؓ کےبارے میں کہتےہیں کہ میری والدہ کوروزے سے اتنی محبت تھی کہ ہر پِیر اور جمعرات کو وہ روزہ رکھا کرتی تھیں۔ ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ کے متعلق حضورﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: اے عمر!انہیں چھوڑ دو وہ تو ‘اوّاہ’ یعنی خوفِ خدا اور محبتِ الٰہی کی وجہ سے بہت آہیں بھرنے والی ہیں۔

جان و مال اور اولاد کی قربانی کی مثال میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت عمّارؓ کے والدین کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت عمّارؓ کی والدہ سمیّہ کی ران میں ابوجہل نے ایک روز اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ ان کی ران کو چیرتاہوا پیٹ سے نکل گیا اور یوں انہوں نے شہادت پائی۔ حضرت امِ شریکؓ کے مشرک رشتے داروں نے ان پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ آپؓ کے ہوش و حواس گُم ہو گئے۔ ایسے میں جب آسمان کی طرف اشارہ کرکے انہیں کہا گیا کہ توحید کو چھوڑ دو تو انہوں نے اس حالت میں بھی یہی جواب دیا کہ مَیں توحید پر قائم ہوں۔ جس دن حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو شہید کیا گیا اس روز ان کی والدہ حضرت اسماءؓ نے انہیں نصیحت کرتےہوئے فرمایا بیٹا! قتل ہونے کے ڈر سے کوئی ایسا راستہ اختیار نہ کرنا جس میں ذلّت ہو کیونکہ عزت کے ساتھ تلوارکا وار قبول کرنا ذلّت کے کوڑوں سے بہتر ہے۔

قرونِ اولیٰ کی مسلمان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ حضرت مصلح موعودؓ یہ بیان فرماتے ہیں کہ احد کی جنگ سےواپسی پر حضرت سعد بن معاذؓ کی بوڑھی والدہ، جن کی بینائی انتہائی کمزور ہوچکی تھی، ان کا ایک بیٹا احد کی جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ جب وہ رسول اللہﷺ سے ملیں تو آپؐ نے ان سے ان کے بیٹے کا افسوس کیا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہﷺ! جب مَیں نے آپؐ کو دیکھ لیا توآپ سمجھیں کہ مَیں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔ حضرت زنیرہؓ جو ایک لونڈی تھیں جب انہوں نے اسلام قبول کیا توکفار، بالخصوص ابوجہل انہیں اذیتیں دیا کرتا۔ اتفاق سے ان کی بینائی چلی گئی تو کفار نے کہنا شروع کردیا کہ یہ لات اور عزّیٰ کی طرف سے بطور سزا ہے۔ اس پر زنیرہؓ نے جواب دیا کہ لات اورعزّیٰ کو تو یہ بھی نہیں پتا کہ ان کی عبادت کون کیا کرتا ہے۔ خدا کا سلوک بھی دیکھیں کہ اگلے روز انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ ان کی بینائی واپس آچکی تھی۔

مسلمان خواتین کی بہادری کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا حضرت ابوبکرؓ نے ایک مرتبہ دیکھا کہ حضرت عمر بن خطابؓ جبکہ وہ اسلام نہیں لائے تھے ایک مسلمان لونڈی پر سختی کررہے تھے۔ وہ حضرت عمرؓ کو جواب دیتیں کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُنہیں خرید کر آزاد کردیا تھا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی کسی نیکی پسند آنے پر اُن کو بھی اسلام لانے کی توفیق دے دی تھی۔

حضورِانور نے مسلمان عورتوں کے اپنی اولاد کی تربیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جنگ قادسیہ میں مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک ہم دشمن کو شکست نہیں دیں گے ہم میدان جنگ سے نہیں ہٹیں گے۔ ایک عورت حضرت خنساء اپنے چار بیٹوں کو میدان جنگ میں لےکر آئی تو انہیں نصیحت کی کہ تمہارے باپ نے ہمارے لیے کوئی جائیداد نہیں چھوڑی لیکن میں نے اپنی تمام عمر نیکی سے گزاری۔ اس جنگ میں کفر اور اسلام میں مقابلہ ہوگا اگر تم فتح کے بغیر واپس آئے تو میں خدا تعالیٰ کو کہوں گی کہ میں انہیں اپنا کوئی بھی حق نہیں بخشوں گی۔ پھر بیٹوں سے محبت غالب آنے کی وجہ سے خدا کے حضور اپنے بیٹوں کے زندہ واپس آنے کی الحاح کے ساتھ دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے نہ صرف مسلمانوں کو فتح عطا کی بلکہ ان کے چاروں بیٹوں کو بھی زندہ سلامت واپس کردیا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ مسلمان عورتوں کی یہ جرأت اور بہادری ایمان و ایقان کی وجہ سے ہی تھی۔

حضرت عروہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کو ستر ہزار درہم تقسیم کرتے دیکھا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی قمیض کے گلے پر پیوند لگایا کرتی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ خود نہیں کمایا کرتی تھیں لیکن صحابہ کرام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آپؓ کو اکثر تحائف بھجوایا کرتے تھےجوکہ آپؓ غرباء اور مساکین میں تقسیم کردیا کرتی تھیں۔ ایک ایک دن میں ہزارہا روپیہ آپؓ کے پاس آیا لیکن شام تک آپؓ نے سارا مال غرباء میں تقسیم کردیا۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے اپنے بھانجے کے یہ بات کرنے پر کہ حضرت عائشہؓ تو اپنا سارا مال لُٹا دیا کرتی ہیں اُس کو اپنے گھر آنے سے منع کردیا۔ صحابہ کے کہنے پر اُسے جب معاف کیا تو آپؓ نے کفارہ کے طور پر یہ عہد کیا کہ میرے پاس آئندہ جو بھی مال آئے گا میں اُسے تقسیم کردوں گی۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت اُم عمارہ کی بہادری اور ایمان میں بڑھے رہنے کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وادی اقویٰ میں مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد 73تھی۔ اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں۔ یہ لوگ ایمان میں بڑھے ہوئے تھے۔حضرت اُم عمارہ نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کردی کہ اُن کا بیٹاخبیبؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھوں قید ہوگیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دی اور مسیلمہ کذاب کے رسول ہونے کے متعلق کوئی گواہی نہ دی اس پر مسیلمہ نے اُن کے اعضا ایک ایک کرکے کاٹ دیےلیکن خبیبؓ نے اپنےتمام اعضاء کی قربانی دینے کے باوجوداپنے ایمان کو ضائع نہ جانے دیا۔اس طرح حضرت اُم عمارہ نے اپنی اولاد کی تربیت کی تھی۔

حضورﷺ کے زمانے میں عورتیں گھر میں بند نہ رہتی تھیں کیونکہ اسلام کا یہ منشا ہرگز نہیں ہے۔حضورﷺ کے زمانہ میں عورتیں تعلیم،تربیت اورمیدان جہاد میں برابر شریک ہوتی تھیں لیکن یہ بات ملحوظ رہتی کہ مکمل پردہ کی پابندی میں عورتی مسلمان مردوں کے شانہ بشانہ خدمت اسلام میں شامل ہوتیں تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ کو بھی حضورﷺ نے اپنے پیچھے مسجد نبویؐ کے صحن میں کھڑے کر کے فنونِ حرب کے کرتب دکھائے۔ اس میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ تا عورتیں بھی ان فنون سے شناسا ہوں اور ان کے دل میں ڈر یا بزدلی نہ رہے اور وقت آنے پر یہ عورتیں اپنی نسلوں کو جہاد اور قتال کے لیے آگے پیش کریں۔ حضرت ام عمارہ غزوۂ احد میں فوجیوں کوپانی پلاتی رہیں اوراسی غزوہ میں زخمی ہوئیں۔

حضور انور نے حضرت مسیح موعودؑ کے دَور میں مستورات کے نیکی، تقویٰ اور قربانیوں کے واقعات کا ذکر حضرت اماں جانؓ سےشروع کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی ایک روایت بیان فرمائی کہ اس زمانے کا جہاد مالی قربانیوں کا جہاد اور علمی جہاد اور دعاؤں کا جہاد ہے جس سے ہماری جیت ہو گی۔

حضرت اماں جانؓ کی قربانی کا شغف نمازیں اور نوافل اور تہجد تھا اور ایسی عبادات بجا لاتیں کہ اولاد اور جماعت سب کے لیے برابر دعائیں جاری رہتی تھی۔ رمضان المبارک میں اور محرم میں بے حد صدقہ و خیرات کرتیں اور سال کا آغاز اس صدقہ و خیرات سے کرتیں۔

اگلی مثال کا ذکر کچھ اس طرح کیا کہ حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ کی والدہ کی بیعت سے ان کے خاوند کچھ ناراض ہوئے تو کہنے لگیں کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے اس میں آپ کی خفگی کی میں کوئی پروا نہیں کرتی۔ اسی طرح مہر النساء صاحبہ کا واقعہ ہے کہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ سچے ہیں تو اس کے بعد 1900ء میں بیعت کر لی۔ والد صاحب نے مشکلات پیدا کیں لیکن ان کی وفات کے بعد اپنے نمونے سے بقیہ خاندان والوں کو بھی احمدی کر لیا۔ ایک اورعورت نے حضرت مسیح موعودؑ سے سوال کیا کہ نماز مغرب پر گھر والے کھانے کا تقاضاکرتے ہیں کیسے ادا کروں؟ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ مغرب سے قبل کھانا تیار کر لیا کرو مگر بروقت نماز ادا کرنا لازمی ہے۔ چنانچہ اس عورت نے تمام زندگی عبادات میں اس نصیحت پر عمل جاری رکھا۔

حضرت ام طاہر کی مثال دیتے ہوئے حضورِانور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی ایک روایت بیان کی کہ آپ نے حضرت ام طاہر کو ایک حدیث سنائی جس میں ایک صحابی نے رسول اللہﷺ سے قیامت کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہﷺ نے اس کی تیاری سے متعلق دریافت فرمایا۔ اس پر صحابی نے عرض کیا کہ مجھے تیاری کا تو معلوم نہیں لیکن میں دل میں اللہ اور رسول کی سچی محبت رکھتاہوں۔ اس پررسول اللہﷺ نے فرمایا کہ انسان اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا۔ جب ہمشیرہ مرحومہ کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے کہا میں اپنے دل کو بھی ایسا پاتی ہوں۔

حضور انور نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان فرمودہ واقعہ پیش فرمایا کہ ایک جگہ فوج میں بھرتی کے موقع پر سارے لوگ خاموش رہے۔ تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک بیٹا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ احمدی مبلغ بار بار تحریک کر رہا ہے اور لوگ ہچکچانے کے سبب آگے نہیں بڑھتے۔ چنانچہ وہ عورتوں کی طرف سے کھڑی ہوئی اور کہا کہ اے فلانے! تُو بولتا کیوں نہیں۔ تُو نے سنا نہیں کہ خلیفة المسیح کی طرف سے تمہیں جنگ میں شامل ہونے کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ وہ فوراً اٹھا اور نام پیش کر دیا اور اس کو دیکھ کر اَور لوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ اس عورت نے اپنی ذمہ داری محسوس کی جبکہ وہ بیوہ تھی اور اس کا ایک بیٹا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ جب اسلام کے نام پر آواز دی جا رہی ہے تومجھے جواب دینا چاہیے۔ شدید حالات بھی بعض مرتبہ جذبات پیدا کر دیتے ہیں۔ جب یہ واقعہ میں نے پڑھا تو پیشتر اس کے کہ میں خط بند کرتا میں نے خدا سے دعا کی کہ اے میرے رب! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کے لیے یا مسلمانوں کے ملک کی حفاظت کے لیے پیش کر رہی ہے۔ اس پر حضورؓ نے دعا کی کہ اگر انسانی قربانی کی ضرورت ہو تو اس کے بیٹے سے پہلے میرا بیٹا مارا جائے۔

پھر فرماتے ہیں کہ 1953ء کے فسادات میں ایک عورت پیدل سیالکوٹ سے ربوہ پہنچی اوراس نے جماعت کے حالات سے آگاہ گیا۔ تب ایک رخصت پر آئے ہوئے احمدی فوجی کو ایک مقامی احمدی کے ساتھ بھجوایا گیا۔ دیکھ لو کتنی بڑی ہمت کی بات ہے، جہاں مرد قدم نہ رکھ سکے وہاں ایک عورت نے اپنے آپ کو پیش کر دیا جب مرد گھر سے نکلنے سے ڈرتے تھے۔ خدا کے فضل سے ہماری عورتیں مردوں سے زیادہ دلیر ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے دو مبلغین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حکیم فضل الرحمٰن صاحب شادی کے فوراً بعد میدانِ عمل میں چلے گئے۔ وہ ایک نوجوان اور کم عمر بیوی کو چھوڑ کر گئے جب وہ واپس آئیں گے تو انہیں ادھیڑعمر بیوی ملے گی۔ یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں۔ میرے نزدیک تو کوئی انتہائی بے شرم اور بے حیاہو سکتا ہے جو اس قسم کی قربانیوں کو نہ سمجھے اور انہیں نظر انداز کر دے۔

پھر فرماتے ہیں کہ جب قادیان پر حملہ ہوا تو خواتین کو باہر ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک بھیرہ کی عورت کو نگران بنا دیا گیا۔ ان کی خبریں آتی تھیں کہ جب سکھ اور ہندو حملہ آور ہوتے تو ان کو بھگا دیتیں۔ وہ نگران اب بوڑھی ہو گئی ہے اورعورتوں کو سکھاتی تھی کہ کس کس طرح بچنا ہے۔ یہ قوموں کی لڑائیاں تھی گو کچھ مذہبی رنگ بھی تھا۔ جہاں تک احمدیت کا سوال ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا غلبہ لڑائیوں سے نہیں بلکہ عمل سے اور دعاؤں سے ہونا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کوئی کام نہیں جو عورت نہ کر سکے۔ وہ پڑھا بھی سکتی ہے۔ لڑائی میں بھی شامل ہو سکتی ہے۔ جان و مال کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کر سکتی ہے اور مردوں سے کام بھی لے سکتی ہے۔ مرد بھی کمزوری دکھا جاتے ہیں تو عورت اس وقت جوغیرت دکھاتی ہے وہ کوئی اَور نہیں دکھا سکتا۔

اس زمانہ کی مثال پیش کرتے ہوئے حضورِانور نے قرغیزستان کی ایک احمدی خاتون کی مثال پیش کی کہ انہوں نے 2019ء میں بیعت کی۔ قرآن کریم ناظرہ سیکھا، 4-6 ماہ میں پہلا دور مکمل کیا۔ پھر ترجمہ سیکھا۔ اب خوش الحانی سے سیکھ رہی ہیں۔ اپنے بچوں کو ناظرہ سکھا رہی ہیں۔ نیز جماعت کی لجنات کو بھی سکھا رہی ہیں۔ قرغیز ویب سائٹ کے لیے وقت بھی دیتی ہیں۔

دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے۔ اس بارے میں حضور انور نے ایک احمدی ڈاکٹر کا واقعہ بیان فرمایا کہ کس طرح برقع میں رہتے ہوئے انہوں نے ایک اہم امتحان پاس کیا جبکہ کسی نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ حجاب اور پردے میں تمہارا امتحان پاس کرنا نا ممکن ہو گا اس لیے بہتر ہےکہ امتحان کے لیے سوٹ یا سکرٹ پہن کر جاؤ۔ لیکن وہ اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے با پردہ لباس میں گئیں اور امتحان میں پاس ہو گئیں۔ فرمایا کہ یہاں جو خیال ہوتا ہے کہ پردے سے بعض حقوق نہیں ملتے اگرانسان کو اللہ پر یقین ہو اور دعا کرے اور کچھ عرصے کے لیے نقصان بھی اٹھانا پڑے تو پھر اللہ تعالیٰ آخر پر کامیابی عطا فرماتا ہے۔

حضورِانور کا یہ پُرمعارف بصیرت افروز خطاب دو بج کرچار منٹ پر اختتام پذیر ہوا۔ اس کے بعد دعا ہوئی۔دعا کے بعد مستورات نے اردو، عربی، بنگلہ، پنجابی سمیت متعدد زبانوں میں اپنے پیارے امام سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ترانے پڑھے۔

دعا کے بعد حضورِ انور مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے جہاں نمازِ ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ بعد ازاں حضورِ انور جلسہ گاہ سے تشریف لے گئے۔ جس میں گذشتہ سال کے دوران جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے افضال و برکات کا تذکرہ فرمایا۔اس کے کچھ دیر بعد حضور انور نے دوسرا خطاب فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button