مضامین

بوسنیا کی جنگ اور حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے بصیرت افروزارشادات(قسط اوّل)

(’ایم-ایم-طاہر‘)

ظلم و ستم کی اس داستان سے پردہ اٹھانے اور عالمی ضمیر جگانے کے لیے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بوسنیا کے حقوق،آزادی اور بوسنیا کے مسلمانوں کی خدمت کا علم بلند کیا بوسنیا کے باشندوں سے آپ نے مواخات کی تحریک فرمائی ان کی مالی مدد کے لیے اور ان سے حسن سلوک کرنے کے لیے تحریکات فرمائیں

تو خوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن ہے

گل رنگ شفق، قرمزی جھیلوں کا وطن ہے

خوں بار بلکتے ہوئے جھرنوں کی زمیں ہے

نوخیز جواں سال قتیلوں کا وطن ہے

اک دن تیرے مقتل میں بہے گا دم جلاد

اے بوسنیا، بوسنیا، بوسنیا زندہ باد

بوسنیا کی جنگ عصر حاضر میں ترقی یافتہ تہذیب کے دعوےداروں کے دل یعنی یورپ میں نسل کشی کی بدترین مثال ہے۔انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ناک کے نیچے بوسنیا کے مسلمانوں کے حقوق کی جو پامالی کی گئی اس نے ماضی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ظلم و ستم اور بر بریت کی نئی داستانیں رقم کی گئیں۔جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ میں یہ پہلی نسل کشی تھی اور یہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے ایما پر ہو رہا تھاجوانسانی حقوق کے نام پر مخالف کی سرحدیں پار کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ بوسنیا میں جب مسلمانوں کی بربادی کی تسلی ہو گئی، لاکھوں ہلاک یا زخمی ہو گئے، لاکھوں بے گھر اور بے وطن ہو گئے اورجب یہ یقین ہو گیا کہ اب یہ ملک ہمارا دست نگر ہوکر رہےگا تب جنگ بندی کروا دی گئی۔

ظلم و ستم کی اس داستان سے پردہ اٹھانے اور عالمی ضمیر جگانے کے لیے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بوسنیا کے حقوق،آزادی اور بوسنیا کے مسلمانوں کی خدمت کا علم بلند کیا۔ بوسنیا کے باشندوں سے آپ نے مواخات کی تحریک فرمائی۔ان کی مالی مدد کے لیے اور ان سے حسن سلوک کرنے کے لیے تحریکات فرمائیں۔آپؒ نے صاحب اثر لوگوں کے ضمیر کو جگایا اور بوسنیا کے حق میں آواز بلند کروائی۔بوسنیا کی جنگ کے پیچھے اصل عوامل سے پردہ چاک کیا۔ مسلمان ممالک کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور انہیں بوسنیا کے لیے جہاد کی خاطر احمدیوں کی شمولیت کی بھی یقین دہانی کروائی۔ آپؒ نے بوسنیا کی حالت زار اور اس سے نکلنے کی نوید اپنی ایک نظم میں بھی بیان فرمائی۔

جنگ بوسنیا کے حوالے سے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی راہنمائی بوسنیا کے باشندوں بالخصوص بوسنیائی مسلمانوں کے لیے ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ان ارشادات کو بیان کرنے سے قبل بوسنیا کا مختصر تعارف ہدیۂ قارئین ہے جویقیناً ازدیاد علم کا باعث ہو گا۔

بوسنیا کا مختصر تعارف

’بوسنیا ہرزیگووینا‘کا علاقہ یورپ کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ یورپ کا نیا ملک ہےجو 1990ء کی دہائی میں آزاد ہوا۔ پہلے یہ سابقہ یوگو سلاویہ کا حصہ تھا۔ تین اطراف سے اس کی سرحد کروشیا کے ساتھ ملتی ہے۔ اس کا رقبہ 51129؍مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے پاس صرف 26کلو میٹر کی سمندری پٹی ہے۔ مشرق میں سربیا اور جنوب میں مونٹینیگرو کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں۔ اس کا دارالحکومت سرائیوو ہےجو ملک کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ 1991ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 44 لاکھ تھی جو بتدریج جنگ اور ہجرت کی وجہ سے کم ہوتی گئی۔ 2020ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً 33 لاکھ رہ گئی ہے۔ یکم مارچ 1992ء کو اس ملک کا قیام عمل میں آیا۔

بوسنیا میں اسلام کی آمد 15ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کی آمد کے ساتھ ہوئی۔ عثمانی ترک سلطان محمد فاتح نے بوسنیا کو فتح کر کے اسے عثمانی حکومت کا حصہ بنایا۔ جنگ عظیم اول کے بعد 1918ء میں بوسنیا یوگو سلاویہ کا حصہ بنا دیا گیا۔ اشتراکی ممالک کے زوال کے وقت یوگوسلاویہ بھی کمزور پڑ گیا اور یکم مارچ 1992ء کو بوسنیا میں آزادی کے ریفرینڈم کے بعد اس نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔

بوسنیا کی جنگ

جب بوسنیا نے ریفرینڈم کے بعد آزادی کا اعلان کیا تو بوسنیائی سرب آبادی نے اس ریفرینڈم کا بائی کاٹ کر دیا۔ اور سربیا حکومت کی حمایت یافتہ بوسنیائی سرب فورسز نے نئے ملک پر حملہ کر دیا اور یہاں ایک بین الاقوامی مسلح جنگ 6؍ اپریل 1992ء سے شروع ہو گئی جو 14؍دسمبر 1995ء یعنی تین سال 8 ماہ تک جاری رہی۔ اس جنگ میں سربوں نے بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی شروع کر دی۔اس جنگ میں تقریباً 2لاکھ جانوں کا نقصان ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر بوسنیائی مسلمان تھے۔انہیں اپنا وطن چھوڑنے پربھی مجبور کر دیا گیا۔ چنانچہ لاکھوں بوسنیائی باشندے یورپ و امریکہ میں پناہ گزین ہوئے۔سربوں نے مسلمانوں کی نسل کشی کی تا کہ گریٹر سربیا بنایا جا سکے۔ 14؍دسمبر 1995ء کو پیرس امن معاہدہ پر دستخط ہونے کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوا اورنگرانی کے لیے نیٹو کی فوج تعینات کر دی گئی۔

جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدادا دقیادت کے زیر سایہ جنگ بوسنیا کی وجوہات، ان کی آزادی، ان کے حقوق اور ان کی خدمت کے لیے جو جدوجہد کی گئی اس کی جھلکیاں حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکے مبارک الفاظ میں ہی قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔

بوسنیا کا مسئلہ دراصل اسلام دشمنی ہے

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بوسنیا کا جو معاملہ ہے اس کے پیچھے دراصل اسلام دشمنی ہے۔ میں اسے اس طرح دیکھ رہا ہوں کہ گزشتہ تاریخ میں یورپ میں ترکی نے ایک کردار ادا کیا اور کئی یورپین ریاستوں پر ایک لمبے عرصہ تک اسلام کا غلبہ رہا اور ان طاقتوں کے ٹوٹنے کے باوجود بھی بعض علاقوں میں مسلمانوں کی بھاری تعداد موجود رہی لیکن آزاد ریاست کے طور پر ایک بوسنیا تھی جو بھاری مسلم اکثریت کی تھی اور یورپین تھی اور آزاد تھی اور اب اس کو دوبارہ اس کو وہی پہلی سی سیاسی طاقت کے طور پر قبول کیا لیکن یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یورپ میں اسلام کا کوئی دخل رہ جائے، یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یورپ میں کسی وقت ترکی کو پھر دخل اندازی کا موقع فراہم کیا جائے۔پس یہ جو کھیل کھیلا جارہا ہے یہ عیسائیت کے حق میں نہیں ہے بلکہ اسلام کی دشمنی ہے دہریوں کو بھی اسلام سے دشمنی ہے، یہود کو بھی اسلام سے دشمنی ہے۔ عیسائیوں کو بھی اسلام سے دشمنی ہے یہ بغض معاویہ ہے حُبّ علی نہیں ہے۔ پس اس کی خاطر جتنے چاہو جھوٹے بہانے بنا لواور ساری قوم قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے، ساری مغربی دنیا یا وہ مشرقی دنیا جو ان کے تابع فرمان ہے وہ ان کو قبول کئے چلی جاتی ہے اور مسلمان بے چارے کو کوئی ہوش ہی نہیں ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍اگست1992ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 557)

’’بوسنیا میں جو مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے او ربے انتہا مظالم ہو رہے ہیں اُن میں صرف اسلام وجہ ہے۔چنانچہ مغربی قومیں بھی اور ان کے تمام نشریاتی ادارے بھی بار بار مسلمان کا ذکر کرتے ہیں اور قومی ذکر نہیں کرتے۔چنانچہ بعض دفعہ بعض ناقدین نے ان کو متوجہ بھی کیا۔انہیں کہا تم کیوں بار بار مسلمان کہتے ہو یہ کیوں نہیں کہتے کہ بوسنیا کے خلاف سربزنے حملہ کیا ہوا ہے۔تو جو لوگ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں سربین اور بوسنین کی لڑائی نہیں بلکہ بوسنین کے اسلام کی وجہ سے بوسنین سے نفرت کی جارہی ہے اور جس رنگ کے مظالم وہاں توڑے جا رہے ہیں وہ بلاشبہ Hitler کے دور کو بھی شرماتے ہیں۔بعض ایسے جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے، دنیا کے ظلم کی تاریخ میں ایسے ابواب کا اضافہ ہو رہا ہے، جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے یا سنے گئے تھے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍اکتوبر1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 706تا707)

بوسنین مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ

’’بوسنیاکے مسلمانوں کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔قومی طور پر صفحۂ ہستی سے اُن کو بالکل مٹا دینے کا منصوبہ ہے جو سامنے کھل رہا ہے۔اتنے خوفناک مظالم مسلمانوں پر توڑے جارہے ہیں کہ خود مغربی مفکرین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہٹلر کے مظالم کو بھی ان مظالم نے شرما دیا ہے۔ پوری کی پوری قوم کی نسل کشی کا منصوبہ ہے جو آنکھوں کے سامنے عملی جامہ پہن رہا ہے، کوئی نہیں ہے جو اس کے خلاف کوئی قدم اُٹھائے ان کے پروگرام جو سیاسی تبصروں کے پروگرام ہوتے ہیں وہ آپ سن کر دیکھ لیں۔وہاں آپ کوہر دفعہ آپ کویہی بات دکھائی دے گی کہ سب کہتے ہیں ہم باتیں کررہے ہیں لیکن ان باتوں کے پیچھے ایک بھی عمل ایسا نہیں جو ان باتوں کے بعد ان کو سچا کرنے کے لئے ظاہر ہو لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ جو باتیں کرتے ہیں وہ بھی بالکل معمولی ہیں۔ جتنے بڑے بھیانک جرم ہورہے ہیں ان کا جو علاج باتوں میں تجویز ہورہا ہے وہ علاج ہی کوئی نہیں لیکن اتنا بھی نہیں کرتے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اگست 1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد11صفحہ606تا607)

بوسنیا کی دردناک صورت حال

’’بوسنیا میں تو یہ خطرہ بھی لاحق ہو گیا ہے کہ پوری مسلمان قوم کو بوسنیا کے ملک سے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے اور یورپ میں ٹرکی کے ایک کنارے کے علاوہ جو تنہا ایک اسلامی حکومت رہ گئی ہے اس کو یورپ کے نقشے سے مٹا دیاجائے۔لیکن یہاں بھی آپ اعداد وشمار کی صورت میں جو واقعات اخباروں میں پڑھتے ہیں وہ اور بات ہے اورجو قصے بھی بوسنین سناتے ہیں اپنی آنکھوں دیکھے حال بتاتے ہیں ان کو سننا بالکل ایک اور بات ہے۔سارے یورپ میں جماعت احمدیہ کا بوسنیا کے مہاجروں سے رابطہ ہے اور بڑھ رہا ہے اور اس قدر وہ پیار کے بھوکے ہیں کہ محض محبت کے ساتھ ان سے ملنے جانا ہی ان کے لئے ایک عجیب واقعہ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ساری انسانیت کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اورجو واقعات وہ سناتے ہیں اورجس طرح پورے خاندان کے خاندان ختم کئے گئے ہیں اور بعض انتہائی بہیمانہ حرکتیں ماؤں اور باپوں کے سامنے ان کی اولادوں سے کی گئیں وہ ایسی کہانیاں ہیں کہ ان کا کم سے کم میرے لئے کچھ دیر سننابھی ناممکن ہے،پڑھنا بھی ناممکن ہے۔ کچھ دیر میں پڑھتا ہوں اور اس کے بعد اعصاب بِھنّا جاتے ہیں۔ناممکن ہو جاتا ہے کہ مزید اس بات کو پڑھ سکوں یا جو لوگ واقعات سناتے ہیں ان سے مزید سن سکوں ان کو میں روک دیتا ہوں لیکن ایک ایسی ویڈیو ملی ہے جس کی میں ان لوگوں سے اجازت لے رہا ہوں جن لوگوں نے وہ ویڈیو بنائی ہے اگر وہ ہمیں اجازت دیں تو ہم جماعت کے ذریعہ ساری دنیا میں تمام دنیا کے انسانوں کو وہ ویڈیو دکھائیں اور بتائیں کہ کس قدر خوفناک ظالمانہ کارروائیاں مسلمانوں کے خلاف روا رکھی جا رہی ہیں اور یورپ صرف باتیں کررہا ہے،امریکہ صرف زبانی ہمدردی کے قصے کر رہاہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍جنوری1993ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 43)

جہاد کی صورت حال

’’پس بوسنیا کی صورتِ حال اس آیتِ کریمہ کے تابع ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی سورہ حج کی آیت جس میں اُذِنَ لِلَّذِیْنَ کے ذریعہ مسلمانوں کو،بعض مظلوموں کو،بعض خاص حالات میں تلوار اُٹھانے کی اجازت دی اور اس کو خدا کی خاطر جنگ قرار دیا ہے اور یہ وعدہ فرمایا کہ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُتم کمزور ہو، مظلوم ہو،گھروں سے بے گھر کئے گئے ہو، لیکن ہم تم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تم خدا کی خاطر اس اجازت کے پیش نظر اپنے دفاع میں تلوار اُٹھاؤ گے تو اللہ تمہاری نصرت پر قادر ہے۔وہ جب چاہے گا تمہیں فتح عطا فرمائے گا۔

تعجب کی بات ہے کہ جماعت احمدیہ پر الزام لگانے والے بے محل اور بے موقع جہاد کی باتیں کرتے ہوئے تھکتے نہیں مگرآج جب جہاد کا موقع ہے تو تمام اسلامی حکومتیں اس بارے میں خاموش ہیں اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اُٹھ کھڑی ہو اور سر عام دنیا کو للکار کر کہے کہ یہ موقع ا یسا ہے جہاں اسلام نے جہاد کی اجازت دی ہے اس لئے ہم اس حق کو استعمال کریں گے۔تمام کے تمام ایسی بڑی طاقتوں سے مغلوب ہیں اور ان کے محکوم ہیں، ان کے ساتھ غلامانہ تعلقات رکھتے ہیں کہ جو ان کو خدا سے بھی زیادہ طاقتور دکھائی دیتی ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تقاضے ایک طرف ہوں اور ان حکومتوں کی رضا کے تقاضے دوسری طرف ہوں وہاں خدا کی بالادستی کو ایک طرف چھوڑ کر جس کے قائل ہیں اور بالآخر ہر ایک کو قائل ہونا ہی پڑے گا، ان کی بالادستی کے تابع ہو جاتے ہیں،یہ انہیں نزدیک دکھائی دیتی ہے۔ جیسے پنجابی میں کہتے ہیں اللہ نزدیک ہے، نہایت بیہودہ قسم کا محاورہ ہے مگر ہے کہ خدا نزدیک ہے کہ مکا۔تو جہاں اپنے مطالب دکھائی دیں تو وہاں مکّا نزدیک دکھائی دیتا ہے اور خدا دور دکھائی دیتا ہے۔

اسلامی جہاد انفرادی طورپر شرائط کے بغیر نہیں ہو سکتااور کسی ایسی سرزمین پر نہیں ہو سکتا جس زمین کا قانون وہاں کے رہنے والوں اور باشندوں کو اس کی اجازت نہ دے اس لئے وہ لوگ جو امریکہ میں مسلمان بستے ہیں وہ مجبور ہیں ان کے متعلق یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ خدا کی بالادستی کو ترک کر کے دنیا کی بالادستی کو قبول کر رہے ہیں کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ملکی قانون کے خلاف بغاوت کرو اور پھر جہاد کرو۔چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے مکہ میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نہیں دی۔ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہے۔تمام ظلم کی تاریخ میں جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں بسنے والے مظلوموں کو اجازت دی ہو کہ تم یہیں رہو اور ان کے بالا قانون کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے خلاف تلوار اُٹھاؤ۔ہجرت کا حکم اس لئے ہے کہ جب تم ایک ظالم حکومت کے تابع ہو، اگر تم جہاد کرنا چاہتے ہو تو تمہارا پہلا فرض ہے کہ وہاں سے نکلو اورپھر ایسے آزاد علاقہ میں جہاں وہاں کے قوانین تمہیں اجازت دیتے ہوں یاقوانین خود تمہارے قبضئہ قدرت میں ہوں وہاں اس کا انتظام کرو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍اکتوبر1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 707تا708)

مسلمان ممالک کافرض

’’پس یہ اوّلین فرض مسلمان حکومتو ں کا ہے۔امریکہ میں بسنے والے مسلمان یا یورپ میں بسنے والے مسلمان یا ایسے ممالک میں بسنے والے مسلمان جہاں کے قانون ان کے اس قسم کی جدوجہد کی اجازت نہیں دیتے وہ مبرا ہیں اور قرآن کریم اور سنت کے مطابق ان پر کوئی حرف نہیں لیکن مسلمان حکومتوں پرہے۔اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنی زمین کو ان کے جہاد کے لئے پیش کریں اور کثرت کے ساتھ بوسنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیں،وہاں ان کو پناہ دیں،وہاں ان کی تربیت کریں اور ان کی ہر صورت میں مدد کریں تا کہ وہ اُس سرزمین کو طاقت کے زور سے واپس لیں۔جس سرزمین کو محض از راہ ظلم طاقت کے زور سے ان سے چھینا گیا ہے اوراس کا چھیننے والوں کو کوئی حق نہیں تھا۔اور اختلاف کی بنااسلام ہے،خدا کا نام ہے۔عزت بیگ، جو بوسنیا کے مسلمان صدر ہیں ان کے خلاف جتنی نفرت کی مہم چلی ہے اور جو ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہوا ہے، یہ اس بنا پر ہے کہ انہوں نے جو Electionجیتا بوسنیا کا وہ اسلام کے نام پر جیتا ہے اور شروع سے آخر تک جھگڑا ہی اسلام کا ہے۔

پس پاکستان ہو یا ترکی ہو یا ایران ہو اُن کا اوّلین فرض ہے کہ بوسنیا کے مہاجرین کو قبول کریں بجائے اس کے کہ ان کو یورپ میں جگہ جگہ غیر اسلامی حکومتوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا جائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍اکتوبر1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 708)

پاکستان،ترکی اور ایران کا اولین فرض

’’آج خدا کی رضا کا پہلے سے بڑھ کر تقاضا ہے کہ بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی اُس سے بڑھ کر مدد کی کوشش کرو جو تم نے اپنے افغان بھائیوں کی کی تھی۔وہاں ان کو بلایا جائے، ان کو خوش آمدید کہا جائے، ان کے یتامیٰ کو ایسے خاندانوں میں تقسیم کیا جائے جو محبت کے ساتھ، پیار کے ساتھ، ماں باپ کا حق ادا کر سکیں۔اور پھر ان کے جوانوں کو فوجی تربیت دی جائے،ہر قسم کی مدد دی جائے اور اس سلسلہ میں مَیں سمجھتا ہوں کہ اوّلین فرض پاکستان،ترکی اور ایران کا ہے۔یہ تینوں حکومتیں مل کر یہ پروگرام بنائیں بجائے اس کے کہ ہر ایک اپنے اپنے نہج پرالگ الگ مدد یا تیاری کا سلسلہ شروع کرے اور یہ کرنا نہ صرف یہ کہ اسلام کے منشاء کے عین مطابق ہے بلکہ دنیا کے آج کے قوانین اور United Nationsکے قوانین کے بھی بالکل مطابق ہے اور دنیا کی کسی طاقت کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے افغانستان کے معاملہ یہ مثال پوری طرح قائم ہو چکی ہے۔زیادہ سے زیادہ ان کو یہ خوف ہوگا کہ امریکہ اعتراض کرے گا۔امریکہ کیسے اعتراض کرے گا اُس نے توخود جہاد کے نام پر افغانستان کی مدد کی ہوئی ہے۔امریکہ کی مدد کے سہارے تو پاکستان نے یہ سلسلہ آگے چلایا تھا اور پاکستان کی سرزمین میں جہاد کرنے والے تیار ہوتے تھے اور افغانستان پر حملہ کیا جاتا تھا۔یہ جب نظیر قائم ہو گئی توUnited Nationsکے کسی ممبر نے، کسی بڑی یا چھوٹی حکومت نے اس پر اعتراض نہیں کیااور سب سے طاقتور حکومت جو United Nationsکی ممبر ہے وہ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ذمہ دار تھی۔تو آج کس کا حق ہے کہ اس پر اعتراض کرے اس لئے عقلاً،قانوناً، انصافاً،رواجاً کسی کا حق نہیں ہے۔تو پھر ڈرتے کس سے ہو؟‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍اکتوبر1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 709تا710)

احمدی حکومت پاکستان کی تحریک جہاد پر لبیک کہیں گے

’’جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اگر پاکستان کی حکومت ایسے جہاد کا اعلان کرتی ہے جس میں پاکستانی بھی شریک ہوں تو میں تمام احمدیوں کو تحریک کرتا کہ وہ بڑھ کر اس میں حصہ لیں اوربتائیں کہ ہم اسلامی جہاد میں کسی سے پیچھے رہنے والے نہیں بلکہ صفحہ اول میں آگے بڑھ کر لڑیں گے اور یہ پہلے بھی ہو چکا ہے۔ جب بھی اسلام کے تقاضے کسی جہادکا اعلان کرتے ہیں یا جہاد کی تحریک اسلامی تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے تو جماعت احمدیہ خدا کے فضل سے کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہی بلکہ ہمیشہ آگے بڑھ کر قربانیاں پیش کی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍اکتوبر1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 710)

بوسنیا کی دردناک حالت اور اسلامی ممالک کی بے حسی

’’بو سنیاکے مسلمانوں کی اتنی درد ناک حالت ہے کہ اب تو غیر رونے لگے ہیں،اب تو عیسائی قوموں کے وہ سربراہ یعنی وہ صاحب اقتدار لوگ جو بہت حد تک ان باتوں کے ذمہ دار ہیں،اس غفلت کے مجرم ہیں کہ ایک قوم کو انہوں نے آنکھوں کے سامنے مٹاتے ہوئے دیکھا،ایک قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی نہایت بھیا نک کوشش اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھی، روک سکتے تھے اور نہیں روکا لیکن اب حالت وہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خود وہ بھی ان باتوں کا نوحہ کرنے لگے ہیں کہ بہت ظلم ہو رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کر رہے۔مغربی سیاستدان اب جگہ جگہ اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور بلند آواز سے وہ باتیں کر رہے ہیں جس پر اس شعر کا مضمون صادق آتا ہے کہ

رخصتِ نالہ مجھے دے، کہ مبادا ظالم

تیرے چہرے سے ہو ظاہر، غم پنہاں میرا

(دیوان غالب صفحہ91)

اے ظالم! مجھے اجازت دے کہ میں اپنے غم بیان کروں ورنہ وقت آئے گا کہ تیرے چہرے سے میرا غم ظاہر ہونے لگے گا۔عالم اسلام کی زبان تو انہوں نے کھینچ رکھی ہے یا عالم اسلام کے سربراہوں نے اپنی زبان ان کے ہاتھوں فروخت کر رکھی ہے،بیچ رکھی ہے۔کسی کی کھینچی گئی۔کسی کی بیچی گئی۔عالم اسلام میں تو ان مظلوم بھائیوں کا نوحہ کرنے والا کوئی رہا نہ تھا لیکن حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے چہرے سے ہمارے مظلوم بھائیوں کا غم ظاہر ہونے لگ گیا ہے۔ایسے ایسے دردناک واقعات سننے میں آرہے ہیں۔جو مظلوم وہاں سے لُٹ کر اور بعض اس طرح بچ کر نکلے ہیں کہ خاندان کے سارے افراد کاٹے گئے ایسے ایسے بھیانک نقشے انہوں نے دکھائے ہیں کہ جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔بھٹیاں روشن کی گئیں اور ان کے سامنے ان کے بچے ان بھٹیوں میں جھونکے گئے اور کہا گیا یہ تمہاری آئندہ نسل ہے،دیکھ لو یہ کہاں جارہی ہے۔صاحب دانش لوگوں کو ان کے سامنے پہلے بھوکا رکھا گیا۔پھر ایک آدمی جو تعلیم یافتہ اور سربراہ بننے کی کسی پہلو سے بھی حیثیت رکھتا تھا۔یعنی قوم کا لیڈر بننے کی حیثیت رکھتا تھا اس کو بڑے دردناک طریقوں پر عذاب دے دے کر سب کے سامنے مارا گیا کہ ہم نے تمہارا سر بھی کاٹ دیا ہے،تمہارا مستقبل بھی برباد کر دیا ہے تم واپس آکیسے سکو گے۔اتنی درد ناک حالت ہے لیکن عالم اسلام کو کچھ ذرہ بھی پتا نہیں لگا کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا ہے۔کتنی حسرت اور شرم کا مقام ہے کہ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو کیسے رکھیں، ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں،ہمارے اپنے آدمی بغیر ایمپلائمنٹ کے ہیں پھر بھی یورپ نے اتنا کر دیا مگر کبھی آپ سعودی عرب سے یہ بات نہیں سنیں گے، لیبیا سے یہ بات نہیں سنیں گے، دوسرے اسلامی ممالک جو تیل سے اتنے دولتمند ہو چکے ہیں کہ دولتوں کے پہاڑ لگ گئے ہیں ان کو ادنیٰ بھی حیا نہیں آئی،ادنیٰ بھی اس بات کا خیال نہیں آیا کہ ان غریب بھائیوں کے اوپر وہ خرچ کریں اور عیسائی ملکوں کو کہیں کہ تم اپنے ہاتھ کھینچ لو،ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے تم اس ظلم میں شامل اور شریک ہو ہم اپنے بھائیوں کی خبر گیر ی کرنا جانتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی ایک آواز آپ نے ان سے نہیں سنی ہوگی، کسی حکومت نے اپنے خزانے ان کے لئے نہیں کھولے،خزانے کیا اپنے سودکے اموال کا ایک ہزارواں لاکھواں حصہ بھی ان پر خرچ کرنے کی توفیق نہیں پائی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍نومبر 1992ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 836تا837)

بوسنیا کے حقوق کے لیے بڑوں کو متوجہ کر کے رائے عامہ ہموار کریں

’’بوسنیا کی ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہیں کہ ہم اپنے دل کی طمانیت کی خاطرحسب توفیق کچھ نہ کچھ ضرور کررہے ہیں لیکن جوعظیم ضرورت ہے اس کے مقابل پر وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، نہ ہوسکتاہے۔تواس کا متبادل یہ ہے اور بہتر متبادل کہ جو کچھ توفیق ہے وہ ضرور کرو لیکن توجہ اس بات کی طرف دو کہ دنیا کو بتاؤ کہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور ان کو کیا کرنا چاہیے۔

تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِتم معروف کا حکم عام کرو۔اسی ہدایت کے پیش نظر یعنی قرآن کریم کی اس تعلیم کے پیش نظر میں نے کثرت کے ساتھ ساری دنیا کی جماعتوں کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ دن رات خطوط کے ذریعے،رابطوں کے ذریعے،اخباروں میں کالم لکھوا کر اور بڑے بڑے لوگوں کوذاتی طور پر مل کرمتوجہ کرکے یہ احساس بیدار کریں کہ آج کی تاریخ میں ایک معصوم قوم پر حد سے زیادہ ظلم ہورہا ہے اوراگرآج کے انسان نے اس سے آنکھیں بند رکھیں تو کل وہ ضرور اس جرم کی پاداش میں خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنے گا اور اس سزا سے بچ نہیں سکتا۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ بڑی بڑی قوموں کی طاقت ہے ان کے بغیر ہم کیا کرسکتے ہیں مگرامربالمعروف میں بہت بڑی طاقت ہے۔ امر بالمعروف میں جتنی طاقت ہے دنیا کی کوئی اور طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اگرامربالمعروف کو عام کیا جائے اورتمام زبانوں پر یہ بات جاری ہوجائے کہ ظلم ہورہا ہے اور ہم نہیں برداشت کریں گے یا نہیں پسند کریں گے تو اس کا نفسیاتی دباؤ بڑی طاقتور قوموں پراتنا زیادہ پڑ جاتا ہے کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔پھر امر بالمعروف میں کوئی جغرافیائی قید نہیں ہے جو صاحب حیثیت اور طاقتور قومیں ہیں وہاں بھی توامر بالمعروف کرنا ہے اوران کی رائے عامہ کوتبدیل کرنا ہے۔اس پہلو سے جماعت امریکہ کو میں نے خصوصیت سے توجہ دلائی کہ امربالمعروف پربہت زیادہ زور دیں چنانچہ پتا لگا کہ ہزار ہا خطوط وہاں سے بعض دفعہ روزانہ اور بعض دفعہ ہفتوں میں لکھے گئے اور بڑے چھوٹے مرد عورتیں سب تمام بڑے بڑے سینیٹرز اور کانگریس مین اوربڑے بڑے اخباروں کے ایڈیٹرز اورٹیلی ویژن کے صاحب اختیار لوگوں کو لکھتے رہے اور اس کے نتیجہ میں ایک عام فضا میں یہ احساس بیدار ہونا شروع ہوا۔ان کے جو جوابات ان کو ملے ہیں اور انہوں نے جو مجھے ان کے نمونے بھیجے ہیں ان سے پتاچلتا ہے کہ امربالمعروف کی طاقت کوئی معمولی طاقت نہیں ہے۔ بار بار جب ایک ہی سینیٹر کو مختلف جہتوں سے چھوٹے بڑوں نے بے ساختہ اپنی تکلیف کااظہار کیا اور انسانیت کی خاطر جو ان کے جذبات کچلے گئے ہیں ان کا ذکر کیا تو ایک امریکن کی حیثیت سے انہوں نے اپنے بڑوں سے احتجاج کیا ہے اور اس کا جتنا اثر پڑا ہے وہ ان کے جوابات سے ظاہر ہوتاہے۔کئی جوابات ایسے ہیں جن میں سیکرٹری کی طرف سے جواب نہیں بلکہ بڑے بڑے لوگوں نے اپنے ہاتھ سے دستخط کرکے بھیجے ہیں کہ ہاں ہمیں احساس ہے یہ ہماری قوم کی غلطی ہے کہ جتنی توجہ دینی چاہئے تھی نہیں دی جارہی۔ ہم اپنے بڑوں کو متوجہ کریں گے توامربالمعروفایک بہت عظیم الشان اور بہت بڑی خدمت ہے اور یہی وہ ذریعہ ہے جس کو جنگ کی حالت میں جرمنی نے بہت ہی حکمت اورعقل کے ساتھ استعمال کیا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ستمبر1993ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 712تا713)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button