مضامین

عالمی سطح پر طاقت کا توازن، اس کی اہمیت اور اس کی بابت خلفائے احمدیت کی راہنمائی

(ندیم احمد کرامت۔ لندن)

آج دنیا جس تلاطم خیز دور سے گزر رہی ہے اور جس سرعت سے طاقت کے توازن میں بگاڑ کے باعث تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے اُسی تواتر سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا کو متنبہ فرما کر اِسے اِس بحران سے نکلنے کے لیے راہنمائی فرما رہے ہیں

طاقت کے توازن کی اہمیت اور تعریف

زمین و آسمان کا نظام ایک خاص توازن کے ساتھ چل رہا ہے اور نظامِ کائنات میں اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ یہی ’اصولِ توازن‘ انفرادی سطح سے اجتماعی یا عالمی سطح تک ہر نظام میں کارفرما نظر آتا ہے۔ طاقت کے اس توازن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس کا ذکر فرمایا کہاَلشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ۔(الرحمٰن:6)سورج اور چاند ایک حساب کے مطابق (مسخر) ہیں۔

وَالسَّمَآءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الۡمِیۡزَانَ۔( الرحمٰن: 8)اور آسمان کی کیا ہی شان ہے۔ اُس نے اُسے رفعت بخشی اور نمونۂ عدل بنایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :’’اس سورتِ کریمہ میں ایک میزان کا بھی ذکر ہے اور بیان فرمایا گیا ہے کہ تمام آسمان میں ایک توازن دکھائی دے گا اور دراصل ہر رفعت اسی توازن کی محتاج ہوتی ہے۔‘‘( تعارف سورة الرحمٰن۔ قرآن کریم اردو ترجمہ۔مؤلفہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ 973)

اسی ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ کہ خدا نے اس یونیورس اس عالمین میں توازن بیلنس (Balance) کا اصول قائم کیا ہے خدا نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ اس میزان کوان سیٹ (Unset) کرسکے لیکن اسے حکم یہ دیا ہے کہ تم نے ان سیٹ (Unset) نہیں کرنا ورنہ فساد پیدا ہو جائے‘‘۔ (انوارالقرآن جلد سوم صفحہ 384)

پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں :’’اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ۔( الرحمٰن : 9) ہر چیز۔ہر کام۔ ہر کامیابی کے لیے ایک اندازہ مقرر ہے۔ اس سے باہر نہ جاؤ۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد چہارم، صفحہ41)گویا توازن یا میزان کا یہ اصول ہر چیز پر محیط ہے اور اس کا فقدان ناکامی کا باعث ہے اس لئے توازن کا برقرار رکھنا ضروری ہے۔

عالمی سطح پر طاقت کےتوازن کو سمجھانے کے لیے ماہرین نے متعددنظریات پیش کیے ہیں۔بنیادی طور پر کہا جاتا ہے کہ طاقت کے لیےتوازن کو برقرار رکھنےسے مراد کسی قوم یا قوموں کے گروہ کا اپنی بقا کو محفوظ رکھنے کے لیےکسی ایک ریاست کو اتنی طاقت حاصل کرنے سے روکنا ہے کہ وہ دوسروں پر غلبہ حاصل کر سکے۔مگرکوئی اسے اقتصادی قوت کی برتری بتاتا ہے تو کوئی عسکری قوت کی اور کوئی اسے فکری یا معاشرتی قوت کی برتری سے تعبیر کرتا ہے۔پھر طاقت کے توازن کو یک قطبی، دو قطبی یا کثیر قطبی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اور کچھ ماہرین ،سلطنت ِروم یا سکندرِ اعظم یا کسی دوسرے عہدِ پارینہ میں طاقت کے توازن کی تبدیلیوں کا موازنہ آج کے دَور سے کرکےکوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض طاقت کے توازن کی تعریف کرنا اپنی نوع کا ایک پیچیدہ امر ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے موجودہ دَور میں عالمی سطح پر طاقت کے توازن کے مفہوم کو نہایت لطیف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ آپؓ سورت مریم کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سو یادرکھنا چاہئے کہ طاقت اور قوت بھی ایک نسبتی امر ہے۔مثلا ًایک شخص ایساہے جس کے پاس ہزارروپیہ ہے اور اس کے مخالف کے پاس دوسوروپیہ ہے۔ اور ایک اورشخص ایساہے جس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور اس کے مخالف کے پاس ننانوے لاکھ ننانوے ہزار روپیہ ہے۔ اب گواس کے پاس ہزارروپے والے سے بہت زیادہ روپیہ ہے مگر نسبتی طور پر یہ اس سے طاقت میں کمزور ہے کیونکہ جس دشمن سے ہزار روپے والے کامقابلہ ہے اس سے وہ پانچ گناطاقتورہے اور جس دشمن سے اس کا مقابلہ ہے اس سے صرف ایک ہزار روپیہ اس کے پاس زیادہ ہے۔پس گو اس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور دوسرے کے پاس ایک ہزار مگر دشمن کی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے نسبتی لحاظ سے جس کے پاس ایک ہزارروپیہ ہے وہ زیادہ طاقتور ہے اور جس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے وہ کم طاقتور ہے۔ پس طاقتوں کامقابلہ ہمیشہ نسبتی طور پر ہوتاہے۔ صرف یہی نہیں دیکھا جاتاکہ کسی کے پاس روپیہ کی کتنی مقدار ہے۔ بلکہ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ اس کے دشمن کے پاس کتنا روپیہ ہے اور پھر نسبت کے مطابق فیصلہ کیا جاتاہے۔اس نقطہ نگاہ سے جب ہم تاریخ پر غور کرتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ جس زمانہ میں فرعون کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں دنیا میں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیں تھا جو فرعون کے مقابلہ میں کھڑا ہوسکتا۔ جس زمانہ میں سکندر کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں ساری دنیا میں کسی کو سکندر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ جس زمانہ میں چنگیز خان کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں ساری دنیا میں اور کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جوچنگیز خان کا مقابلہ کرسکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک نقدی اور سامانوں کاسوال ہے یا جہاں تک فوج کی تنظیم کاسوال ہے آج امریکہ یقیناً چنگیز اور سکندر اور نپولین سے ہزاروں گنازیادہ طاقتورہے۔مگر اس کے مقابلہ میں امریکہ کے دشمن کو جو طاقت حاصل ہے وہ بھی سکندر اور چنگیز اور نپولین کے دشمنوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ سکندر یونان سے اٹھا اور چار ہزار میل کا سفر کرکے ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور کوئی حکومت اس کا مقابلہ نہ کرسکی مگر یہاں امریکہ والے کو ریا میں ہی گئے توجان چھڑانی مشکل ہوگئی۔اس کے معنے یہ ہیں کہ آج چین اور روس کی طاقت بھی امریکہ کے برابر برابر ہوچکی ہے۔پس امریکہ آج سارے سازو سامان کے باوجود نسبتی طور پرسکندر سے کمزور ہے۔ نسبتی طور پر وہ چنگیزسے بھی کمزور ہے۔کیونکہ چنگیز اور سکندر کا مد مقابل امریکہ کے مد مقابل سے بہت زیادہ کمزور تھا۔اسی طرح مید اور فارس کے بادشاہوں کو لے لو۔بخت نصر کو لے لو۔ ہزاروں میل تک ان کامقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا جس طرف بھی یہ اپنی فوجوں کو بڑھادیتے تھے لوگ ان کے مقابلہ میں ہتھیار ڈالتے چلے جاتے تھے مگر اب امریکہ ذراقدم بڑھاتاہے توچین سامنے کھڑاہوجاتاہے کچھ اور قدم بڑھاتاہے توروس نکل آتاہے اورایک دوسرے کے مقابلہ میں ایساتوازن قائم رہتاہے کہ یوں معلوم ہوتاہے یہ برابر کی ٹکر ہیں یا اگر کچھ فرق بھی ہے تو دواورپونے دوکا۔ لیکن پہلے زمانہ میں دواور پونے دو کافرق نہیں تھا۔ بلکہ دو اور 1/10کا تھا۔پس بے شک ظاہری شان و شوکت ان میں زیادہ پائی جاتی ہے مگر نسبتی لحاظ سے یہ پہلوں کے مقابلہ میں کمزور ہیں۔ سکند ر ساری دنیا میں نکل جاتاتو کوئی اس کے مقابلہ میں نہیں اٹھتاتھا اور اگر کوئی مقابلہ کے لئے کھڑاہوتا تو شکست کھاتا۔مگر امریکہ میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ساری دنیا پر غلبہ حاصل کر سکے۔پس فرماتاہے جب تم سے زیادہ شان وشوکت رکھنے والی حکومتیں ہم نے تباہ کردی ہیں۔ جب تم سے زیادہ سازوسامان رکھنے والی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں تو تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہوکہ تم تباہ نہیں ہوگے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 5صفحہ 345تا 346)

مامور من اللہ کے ذریعہ طاقت کے توازن کے بگاڑ کی اصلاح

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کےمقاصد میں سے ایک مقصد عالمی طاقت کے توازن کے بگاڑ کی اصلاح بھی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسورة النحل کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’الہام الٰہی صرف عقائد کی اصلاح ہی نہیں کرتا۔بلکہ اس کے علاوہ اس کے ذریعہ سے دنیاوی حکومتوں کے توازن کی بھی اصلاح کی جاتی ہے۔چنانچہ فرماتا ہے کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا بعض افراد یا بعض قوموں پر فضل نازل ہو جا تا ہے اور وہ دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ یہاں تک تو عام قانون ہے اور اگر ایسے لوگ انصاف سے کام لیں اور کسی کی حق تلفی نہ کریں تو قابل اعتراض بات نہیں۔لیکن ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ جن لو گوں کے اختیار میں دنیا آتی ہے وہ کسی صورت میں ان لو گوں کے ساتھ جو ان کا غلام یا بمنزلہ غلام ہوں ان اختیارات کو تقسیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جو انہیں حاصل ہو چکے ہوں۔ ان کے قبضہ سے دنیا کو نکال کر عزت اور رتبہ کو لیاقت اور قابلیت اور بنی نوع انسان کی مساوات کی بنیاد پر رکھنے کا صرف اور صرف ایک علاج ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نبی ارسال فرما کر پھر بنی نوع انسان کو ان کے حقوق واپس دلائے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 4صفحہ 198)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اسی ضمن میں فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کی وجہ سے اور آپ کی صداقت کے ثبوت میں زمین پر ایک حیرت انگیز اور محیر العقول مادی اور روحانی انقلاب ہونا مقدر تھا۔درحقیقت تمام انقلابات اور تمام تاریخی تغیرات اسی ایک انقلاب کے سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں جو آپ کے دنیا میں مبعوث ہونے کے ساتھ شروع ہوا تھا اور جو آپ کی صداقت کے ثبوت کے طور پر بطور گواہ کے ہے۔ مزید برآں یہ سب انقلابات اور انسانی تاریخ کے سب اہم موڑ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور مسیح موعودؑ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہیں۔‘‘(امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ،صفحہ 7)

اسی تناظر میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب دنیا کے ہر حصہ میں تفرقہ اور بدامنی پھیلتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ انسان اور اس کے خالق کے درمیان دوری کا پیدا ہونا ہے۔ ایسے وقتوں میں جب دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہو تب اللہ تعالیٰ اپنے رحم کی وجہ سے اپنے برگزیدہ نمائندے مبعوث کرتا ہے جو انسانیت کو مذہب کی طرف واپس لے کر آتے ہیں․․․ہم احمدی مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو مصلح بنا کر بھیجا تاکہ آپ بنی نوع انسان کو ہدایت دیں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات پر روشنی ڈالیں جو عرصہ سے بھلائی جا چکی تھیں ․․․حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سایہ میں پناہ لیں تاکہ وہ ہر قسم کی جنگ اور خطرہ سے محفوظ رہیں۔ نیز آپ علیہ السلام نے یہ تنبیہ بھی فرمائی کہ اگر لوگ اپنے خالق کو پہچاننے میں ناکام ہوئے تو یہ بڑی خطرہ کی بات ہوگی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ باوجود اپنی طاقت اور دولت کے نہ یورپ، نہ امریکہ، نہ ایشیا، نہ آسٹریلیا ، نہ جزائر اور نہ ہی دنیا کے دوسرے علاقے تباہی سے بچیں گے۔ ‘‘(خطاب بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی (مہمانان سے خطاب) فرمودہ6؍جولائی 2019ءبحوالہ الفضل انٹرنیشنل 30؍اگست 2019ء صفحہ 2)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد گذشتہ صدی کے دوران عالمی طاقت کے توازن کا تاریخی تجزیہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے دورہ یورپ کے دوران 28؍جولائی 1967ء کو لندن میں وانڈزورتھ ٹاؤن ہال میں ایک روح پرور اور عظیم الشان لیکچر ارشاد فرمایا جس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت سے لے کر آئندہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں ہونے والے تغیرات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرمایا :’’آپؑ کے دعویٰ کے وقت مہذب اور فاتح مغربی طاقتوں کے مقابلہ میں کسی مشرقی طاقت کا کوئی وجود نہ تھا لیکن 1904ء میں آپ نے دنیا کو یہ بتایا کہ عنقریب مہذب اور فاتح مغربی طاقتوں کے رقیب کی حیثیت میں دنیا کے افق پر ایسی مشرقی طاقتیں ابھرنے والی ہیں جن کی طاقت کا لوہا مغربی طاقتوں کو بھی ماننا پڑے گا۔ چنانچہ جلد ہی اس کے بعد جنگ روس و جاپان میں جاپان نے فتح پائی اور وہ ایک مشرقی طاقت کے طور پر افق دنیا پر نمودار ہوا۔ پھر دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو چین ایک مشرقی طاقت کی حیثیت سے افق دنیا پر اپنی پوری مشرقیت اور طاقت کے ساتھ نمودار ہوا اور انسانی تاریخ میں ان ہر دو طاقتوں کے عروج کے ساتھ ایک نیا موڑ آیا، جن کے اثرات انسانی تاریخ میں اتنے وسیع اور اہم ہیں کہ کوئی شخص ان سے انکار نہیں کر سکتا۔ اور یہ جو کچھ ہوا الہی منشاء اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہوا۔

ہمارے زمانے کا دوسرا اہم واقعہ جس سے قریباً ساری دنیا کسی نہ کسی رنگ میں متاثر ہوئی ہے زار روس اور شاہی نظام کی کامل تباہی اور بربادی اور کمیونزم کا برسراقتدار آنا ہے۔ روسی انقلاب کا عظیم سانحہ جس نے دنیا کی تاریخ کا رخ ایک خاص سمت موڑ دیا ہے بھی آپ کی پیشگوئی کے عین مطابق منصہ ظہور میں آیا۔ آپ نے 1905ء میں زار روس اور شاہی خاندان اور شہنشاہیت کی کامل تباہی اور زبوں حالی کی خبر دی تھی۔ اور یہ حیرت انگیز اتفاق ہے کہ اسی سال اس پیشگوئی کے چند ماہ بعد ہی وہ سیاسی پارٹی معرض وجود میں آئی جو قریباً بارہ تیرہ سال بعد شاہی خاندان اور شاہی نظام حکومت کی تباہی کا باعث بنی اور اس کے بعد کمیونزم پہلے روس میں اور پھر دنیا کے دیگر مقامات میں بر سرِ اقتدار آیا۔ یہ ایک ایسی کھلی ہوئی بات ہے جس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

زار روس کی تباہی اور کمیونزم کا غلبہ اور اقتدار تاریخ انسانیت کا نہایت دکھ دہ المیہ اور اہم ترین واقعہ ہے جس کے پڑھنے سے گو دل میں درد تو پیدا ہوتا ہے لیکن اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ دنیا کا کوئی ملک بھی بشمول آپ کے ملک کے اس کے اثر سے بچ نہیں سکا لیکن ہمارے لئے ان تبدیلیوں پر حیران ہونے یا تشویش کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیوں کہ ان تغیرات کی سست رفتار اور شدت کے بارے میں ہمیں مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے ہی خبریں دے دی تھیں اور آئندہ اپنے وقت پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کس طرح یہ تغیرات خدائی ارادے کی تکمیل میں ممد ہوئے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں دو طاقتیں ایسی ابھریں گی کہ دنیا ان میں بٹ جائے گی اور کوئی اور طاقت ان کا مقابلہ نہ کر سکے گی، پھر وہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ کر کے اپنی تباہی کا سامان پیدا کریں گی۔ لیکن صرف اس ایک جنگ کے بارے میں ہی پیشگوئی نہیں تھی، بلکہ بانی سلسلہ احمدیہ نے پانچ عالمگیر تباہیوں کی خبر دی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ دنیا سخت گھبرا جائے گی ، مسافروں کے لئے وہ وقت سخت تکلیف کا ہو گا، ندیاں خون سے سرخ ہو جائیں گی ، یہ آفت یکدم اور اچانک آئے گی، اس صدمہ سے جوان بوڑھے ہو جائیں گے، پہاڑ اپنی جگہوں سے اڑا دئیے جائیں گے، بہت سے لوگ اس تباہی کی ہولناکیوں سے دیوانے ہو جا ئیں گے یہی زمانہ زار روس کی تباہی کا زمانہ ہو گا۔ اس زمانے میں کمیونزم کا بیج دنیا میں بویا جائے گا، جنگی بیڑے تیار رکھے جائیں گے اور خطرناک سمندری لڑائیاں لڑی جائیں گی۔ حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے گا، شہر قبرستان بن جائیں گے۔ اس تباہی کے بعد ایک اور عالمگیر تباہی آئے گی جو اس سے وسیع پیمانے پر ہو گی اور زیادہ خوفناک نتائج کی حامل ہو گی ، وہ دنیا کا نقشہ ایک دفعہ پھر بدل دے گی اور قوموں کے مقدر کو نئی شکل دے دے گی۔ کمیونزم بہت زیادہ قوت حاصل کر لے گی اور اپنی مرضی منوانے کی طاقت اس میں پیدا ہو جائے گی اور وہ وسیع و عریض رقبہ پر چھا جائے گی۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا مشرقی یورپ کے بہت سے حصے کمیونسٹ ہو گئے اور چین کے ستر کروڑ باشندے بھی اسی راستےپر چل پڑے اور ایشیا اور افریقہ کی ابھرتی ہوئی قوموں میں کمیونزم کا اثر و نفوذ بہت بڑھ گیا ہے۔ دنیا دو متحارب گروہوں میں منقسم ہو گئی ہے جن میں سے ہر ایک جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس اور اس بات کے لئے تیار ہے کہ انسانیت کو موت و تباہی کی بھڑکتی ہوئی جہنم میں دھکیل دے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہوگی۔ دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخود د رہ جائے گا۔ آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہو گی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر آ رہے گا دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دو تباہ ہو جائیں گے۔ ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی ، ان کی تہذیب و ثقافت برباد اور ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ بچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے۔ روس کے باشندے نسبتاً جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم جو زمین سے خدا کا نام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شوخیاں بگھار رہی ہے، وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی۔

شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں مگر وہ جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے، وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں۔ کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔

پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہاء اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتداء ہو گی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہو گا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہؐ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے۔ ‘‘( امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ، صفحہ 7تا 11)

طاقت کا توازن ابھی خطرناک حالت تک نہیں بگڑا

طاقت کے توازن کے بگاڑ نے دنیا کو ایک عالمگیر تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے اور اس توازن کا پلڑا مستقل تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے بارے میں خلفائے احمدیت با ر بار دنیا کو متنبہ کرتے رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سورۃ التکویر کی آیت 13 وَاِذَا الۡجَحِیۡمُ سُعِّرَتۡ (ترجمہ: اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی۔) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اگر انسان دنیوی خواہشات کے حصول کی خاطر رضائے باری تعالیٰ کو پس پشت ڈال دے تو وہ کتنی ہی مادی ترقی کیوں نہ کر لے، اس کے لئے ایسی ترقی بے سود ہو گی۔ تمام تر مادی قوت و حشمت کے باوجود انسان سزا کی گھڑی سے نہیں بچ سکتا۔ وہ تو بہرحال آ کر رہے گی۔ آسمان سے کوئی عذاب اس پر نازل نہیں ہو گا بلکہ وہ اپنے لئے خود ہی جہنم کی آگ بھڑکائے گا اور اس کی خود غرضی ایسی عالمگیر کشیدگی کو جنم دے گی جو بالآخر ایسی جنگوں پر منتج ہو گی جن پر جہنم کا گمان ہو گا۔ گزشتہ دو عالمگیر جنگوں کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تشریح کو محض قیاس آرائی قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ ایک حقیقی خطرہ کی نشاندہی کرتی ہے۔اس صورت حال نے اسلام کے المناک زوال اور غیر مسلم طاقتوں کے عروج کے مابین پائے جانے والے تضاد کو نمایاں کر دیا ہے۔زیر نظر آیت صاف ظاہر کر تی ہے کہ مادیت کا عالمگیر غلبہ ہمیشہ نہیں رہے گا۔ مادی طاقتوں کا زوال ان کی باہمی دشمنی کے ساتھ شروع ہو جائے گا جو ایسی خوفناک تباہی پر منتج ہو گی جس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔جنگوں پر جنگیں ہوں گی جن کے نتیجہ میں بڑی بڑی طاقتیں خاکستر ہو کر رہ جائیں گی۔دو عالمگیر جنگوں نے پہلے ہی عالمی طاقتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ اس کے برعکس کمزور اور غریب قومیں اپنے وقار کی کسی قدر بحالی کے احساس کے ساتھ ابھری ہیں۔ لیکن طاقت کا توازن ابھی خطرناک حالت تک نہیں بگڑا۔ تاہم حالات آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر عالمگیر انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ وہ انقلاب ہے جس کی قرآن کریم میں پیشگوئی کی گئی ہے اور جو اسلام کا آخری انقلاب ثابت ہو گا۔‘‘(الہام عقل علم اور سچائی،از حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ،صفحہ 529)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ مزید فرماتے ہیں:’’سورۃ القمر میں اس امر کی وضاحت گزشتہ اقوام کی تاریخ کے حوالہ سے کی گئی ہے جنہوں نے اپنے وقت کے انبیاء کے انذار پر کان نہ دھرا۔ وہ اپنے المناک انجام کو پہنچیں جس کا انہیں وعدہ دیا گیا تھا اور وقت گزرنے کے بعد کی توبہ ان کے کسی کام نہ آئی۔ اس انذار سے یہ فائدہ ضرور حاصل ہوا کہ وہ آئندہ نسلوں کے لئے عبرت کا نشان بن گئیں۔ چنانچہ قرآن کریم ان کے المیہ کی طرف اس لئے اشارہ کرتا ہے تا ان کی موت سے آئندہ نسلیں صحیح انداز سے زندگی بسر کرنے کا فن سیکھ سکیں۔

وَلَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنَ الۡاَنۡۢبَآءِ مَا فِیۡہِ مُزۡدَجَرٌ۔ حِکۡمَۃٌۢ بَالِغَۃٌ فَمَا تُغۡنِ النُّذُرُ(سورة القمر: 5-6)ترجمہ: اور ان کے پاس کچھ خبریں پہنچ چکی تھیں جن میں سخت زجرو توبیخ تھی۔ کمال تک پہنچی ہوئی حکمت تھی۔ پھر بھی اِنذار کسی کام نہ آئے۔

اگر کوئی قوم سبق حاصل نہ کرے تو اپنی اس خوفناک تباہی کی وہ خود ذمہ دار ہو گی جو ان کی منتظر ہے۔ جس ایٹمی تباہی کا ہم ذکر کر رہے ہیں، سورۃ طٰہٰ میں بھی اس کے انجام کے بارہ میں کھول کر بیان کیا گیا ہے۔اس آیت پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تباہی دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کا غرور اور رعونت پاش پاش کر کے رکھ دے گی۔انسان کو بحیثیت مجموعی صفحۂ ہستی سے نہیں مٹایا جائے گا۔ متعلقہ آیت میں واضح طور پر یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ یہ موقع بنی نوع انسان کے خاتمہ کا نہیں ہو گا بلکہ متکبر سیاسی طاقتیں سرنگوں کی جائیں گی اور ان کے مقبروں پر نظامِ نو کی بنیادیں اٹھائی جائیں گی۔ پہاڑوں جیسی عظیم عالمی طاقتیں اس طرح خاک میں ملا دی جائیں گی جیسے وہ ایک چٹیل میدان ہو جس میں کوئی نشیب و فراز نہیں ہوتا۔‘‘(الہام عقل علم اور سچائی،از حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ، صفحہ544تا545)

گویا ابھی وقت ہے کہ اگر انسان توبہ و استغفار کرے اور اپنے مالک کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کے احکامات کو مانے تو وہ عذابوں اور تباہیوں سے بچ سکتا ہے۔

ملاّں کا لایا ہوا خونی انقلاب طاقت کے توازن کو نہیں بگاڑ سکتا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عیسٰیؑ کی آمد ثانی سے متعلق پیشگوئیوں کی غلط تفسیر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نزولِ مسیح کے مولویانہ تصور کے تناظر میں، حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اسلام کے نام پر دہشت گردی کے ذریعے عالمی طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوششوں کے بارے میں فرماتے ہیں:’’کسی مسلم ملک میں ملاّں کا لایا ہوا خونی انقلاب دوسروں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ کر دے۔یہ انقلاب کسی طرح بھی طاقت کے توازن کو نہیں بگاڑ سکتا۔سائنسی اور تکنیکی ترقی کے بغیر دنیا پر غلبہ کا خواب، اقتصادیات اور صنعت میں انقلاب لائے بغیر طاقت کے موجودہ توازن کو بدلنے کی خواہش اور اسی طرح جدید ترین اور حساس سامان حرب کو خود بنانے کی قابلیت حاصل کئے بغیر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنا پاگل پن کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ا س مقصد کے حصول کے لئے تمہارے پاس ہے ہی کیا؟

ان ملّاؤں کو خوب جان لینا چاہئے کہ اسلام کے مقدس بانی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان پیشگوئیوں کو دیدہ دلیری سے مسخ کرنے کی اس گھناؤنی حرکت کی سزا انہیں ضرور ملے گی۔ ان ملّاؤں اور ان کے حواریوں کے مقدر میں سوائے ناکامی اور تباہی کے اور کچھ نہیں۔ یہ وہ سزا ہے جو انہیں خدائی حکمت کو مسخ کرنے کی جسارت کی پاداش میں بہرحال بھگتنا ہو گی۔‘‘(الہام عقل علم اور سچائی،از حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ،صفحہ 616)

موجودہ دَور میں عالمی طاقت کے توازن کا بگاڑ اور اس کا حل

آج دنیا جس تلاطم خیز دور سے گزر رہی ہے اور جس سرعت سے طاقت کے توازن میں بگاڑ کے باعث تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے اُسی تواتر سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا کو متنبہ فرما کر اِسے اِس بحران سے نکلنے کے لیے راہنمائی فرما رہے ہیں۔ بقول عبید اللہ علیم صاحب مرحوم:

اتنی ہی اس چراغ کی لو تیز ہو گئی

جتنی بڑھی ہوائے مخالف میں سازباز

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد مواقع پر سیاستدانوں، دانشوروں، صحافیوں، پریس و میڈیا کے نمائندگان، اساتذہ کرام، فوجی افسران، سفارت کاروں، محققین اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ذی علم سامعین کے سامنے اس نہایت دقیق موضوع پر سیر حال بحث فرمائی ہے اور نہایت گہری نظر سے عالمی سطح پر طاقت کے توازن کے فقدان ، سیاسی کشمکش اور اس کے نتیجے میں سر پر منڈلاتی ہوئی ایک عالمگیر جنگ کے خطرہ سے متعلق مختلف عوامل کا تجزیہ فرمایا ہے اور کھول کر بتایا ہے کہ دنیا کا پائیدار امن، بنی نو ع انسان کی حقیقی آزادی اور خوشحالی کا راستہ صرف اور صرف اسلام کا پیش کردہ نظام عدل ہی ہے۔ یہاں حضور انور کی نہایت عمیق اور فہم و ادراک سے پُر راہنمائی کا مکمل احاطہ تو ممکن نہیں صرف چند فرمودات پیش کرتا ہوں:

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ جرمنی کے دوران، 6؍جولائی 2019ء کو مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اس کشمکش کا نہایت جامع مگر مختصر محرک بیان فرمایا جو چند لفظوں میں آج کی کشیدہ صورت حال پر روشنی ڈالتا ہے۔ حضور فرماتے ہیں: ’’عالمی سطح پر دیکھیں تو اکثر ممالک طاقت اور قبضہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ جغرافیائی، سیاسی و معاشی برتری کے حصول کے لیے یا مختلف اقدار اور عقائد کے حامل لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے غیر منصفانہ جنگیں مسلط کی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر اپنا غلبہ قائم رکھنے اور مخالف ممالک کی ترقی کو روکنے کی خاطر اقتصادی اور تجارتی جنگیں شروع ہو چکی ہیں۔ مزید یہ کہ دنیا روایتی خونی جنگوں سے گھر چکی ہے جن میں دوسری قوموں کو کچلنے اور ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل تاریک کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔

ہم اپنی دولت و طاقت کی ہوس میں آج کل کی نوجوان نسل کا مستقبل ایک نہ ختم ہونے والی ناانصافی اور ظلم و ستم کے ذریعہ بڑی بے رحمی سے تباہ کر رہے ہیں۔ خوف اور پریشانی والی بات یہ ہے کہ جس چیز کا آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں وہ کسی بھی وقت ایک عالمی سانحہ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جس کے نتائج ہمارے تصور سے بہت بالا ہونگے۔مختصر یہ کہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہوگا جسے ہم پُرامن اور لڑائی جھگڑوں سے پاک قرار دے سکیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اکثر کمزور ممالک کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی طاقت اور دولت کا استعمال کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ نسبتاً کمزور ممالک بھی طاقتور ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے خطہ میں اپنا غلبہ قائم رکھنے کے لیے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بے انصافی کا سلوک روا رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے تشدد اور قتل و غارت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 30؍اگست 2019ء صفحہ 2)

اسی طرح حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں 22؍اکتوبر 2008ء کے اپنے خطاب میں فرمایا:’’گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ اُن کی جو بھی وجوہات تھیں اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک ہی وجہ سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ عدل کو صحیح رنگ میں قائم نہیں کیا گیا تھا۔ اور پھر وہ آگ جو بظاہر بجھی ہوئی معلوم ہوتی تھی دراصل سلگتے ہوئے انگارے تھے جن سے بالآخر وہ شعلے بلند ہوئے جنہوں نے دوسری مرتبہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

آج بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جا رہے ہیں ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔ موجودہ اقتصادی اور سماجی مسائل اس صورتحال میں اور بھی زیادہ ابتری کا باعث بن رہے ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بعض سنہری اصول عطا فرمائے ہیں۔یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہوس سے دشمنی بڑھتی ہے۔کبھی یہ ہوس توسیع پسندانہ عزائم سے ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی اس کا اظہار قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے سے ہوتا ہے اور کبھی یہ ہوس اپنی برتری دوسروں پر ٹھونسنے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہی لالچ اور ہوس ہے جو بالآخر ظلم کی طرف لے جاتی ہے۔ خواہ یہ بے رحم جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہو جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے حقوق غصب کر کے اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہوں یا جارحیت کرنے والی اَفواج کے ہاتھوں سے ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مظلوموں کی چیخ و پکار کے نتیجہ میں بیرونی دنیا مدد کے لیے آ جاتی ہے۔ بہرحال اس کا نتیجہ جو بھی ہو ہمیں آنحضرت نے یہ سنہری اصول سکھایا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اُس کے ہاتھوں کو ظلم سے روک کر کیونکہ بصورت دیگر اُس کا ظلم میں بڑھتے چلے جانا اُسے خدا کے عذاب کا مورد بنا دے گا۔ پس اُس پر رحم کرتے ہوئے اُسے بچانے کی کوشش کرو۔ یہ وہ اصول ہے جو معاشرہ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اطلاق پاتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم فرماتا ہے: ترجمہ: اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اُس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(سورۃ الحجرات: 10) اگرچہ یہ تعلیم مسلمانوں کے متعلق ہے لیکن اِس اصول کو اختیار کر کے عالمی امن کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ آغاز میں ہی یہ بات وضاحت سے بیان ہو چکی ہے کہ قیام امن کے لیے سب سے ضروری چیز عدل کا قیام ہے۔ اور اصولِ عدل کی پابندی کے باوجود اگر قیام امن کی کوششیں ناکام ثابت ہوں تو مل کر اُس فریق کے خلاف جنگ کرو جو ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ 15تا 16)

27؍جون 2012ء کو کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں امریکی عمائدین اور سرکردہ لیڈروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’خلاصہ کلام یہ کہ اگر ہم عالمی امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں اعلیٰ مقصد کی خاطر ذاتی اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اور اس کی بجائے ایسے باہمی تعلقات قائم کرنا ہوں گے جو مکمل طور پر مبنی بر انصاف ہوں۔بصورت دیگر آپ میں سے بعض مجھ سے اتفاق کریں گے کہ مختلف ممالک کے گٹھ جوڑ اور بلاکس کی وجہ سے جو مستقبل میں بن سکتے ہیں یا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بننے شروع ہو گئے ہیں، بعید نہیں کہ فساد بڑھتا ہی جائے اور بالآخر ایک بڑی تباہی پر منتج ہو۔ ایسی جنگ اور تباہی کے اثرات یقینی طور پر کئی نسلوں تک باقی رہیں گے۔ اس لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کے طاقتور ترین ملک ہونے کے اعتبار سے اپنا کردار حقیقی انصاف کے ساتھ اور ان نیک عزائم کے ساتھ ادا کرنا چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ79)

4؍دسمبر 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یورپین پارلیمنٹ برسلز بیلجیم میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’مظالم کو ختم ہونا چاہیے کیونکہ اگر انہیں پھیلنے دیا گیا تو نفرت کے شعلے لازماً تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور پھر یہ نفرت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ دنیا حالیہ معاشی بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی بھول جائے گی اور اس کی جگہ پہلے سے بھی بڑھ کر ہولناک صورتحال کا سامنا ہوگا۔ اس قدر جانیں ضائع ہوں گی کہ ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ پس یوروپین ممالک، جو دوسری جنگ عظیم میں بڑے نقصان دیکھ چکے ہیں ، ان کا فرض ہے کہ وہ ماضی کے اپنے تجربہ سے سبق حاصل کریں اور دنیا کو تباہی سے بچائیں…اگر ہم اس مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو دنیا کا کوئی بھی حصہ جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کن اثرات سے محفوظ نہ رہے گا۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ96تا98)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں 11؍جون 2013ء کو ممبرانِ پارلیمنٹ سے خطاب میں فرمایا:’’ہم سبھی پچھلی دو عالمی جنگوں کی ہولناک تباہیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بعض ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے ایک اور عالمی جنگ کے آثار دنیا کے افق پر نمودار ہو رہے ہیں۔ اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو مغربی دنیا بھی اس کے دیر تک رہنے والے تباہ کن نتائج سے متاثر ہوگی۔ آ ئیں خود کو اس تباہی سے بچا لیں۔ آئیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو جنگ کے مہلک اور تباہ کن نتائج سے محفوظ کر لیں کیونکہ یہ مہلک جنگ ایٹمی جنگ ہی ہوگی اور دنیا جس طرف جارہی ہے اس میں یقینی طور پر ایک ایسی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے ‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ129)

عالمی طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ جرمنی کے دوران، 6؍جولائی 2019ء کو مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے چند ماہرین کے تجزیے بیان فرماتے ہوئے عالمی طاقت کے توازن کی تبدیلی سے متعلق فرمایا: ’’میں دنیا کی کشیدہ ہوتی ہوئی صورت حال کے بارہ میں گزشتہ کئی سالوں سے بتا رہا ہوں لیکن اب تو دوسرے لوگ بھی دنیا میں موجود عدم تحفظ اور امن کے بارے میں اپنی فکر مندی کا اظہار کرنے لگے ہیں․․․اور دنیا کے امن اور تحفظ کو قائم رکھنے کے لیے فوری اقدامات اور اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز کے ایک حالیہ کالم میں Francois Delattre جو کہ اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر ہیں لکھتے ہیں ’سیکیورٹی کونسل میں میرے گزشتہ پانچ سالوں کے تجربہ کے بعد میں نے اس تلخ حقیقت کو جانا ہے کہ دنیا دن بدن زیادہ خطرناک اور غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے دنیا میں ٹیکنالوجی کے انقلاب اور چین کے اوپر آنے کی وجہ سے طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بڑے ملکوں کے درمیان مقابلہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اب دنیا میں ایک نیا فساد دیکھ رہے ہیں‘․․․ اس کالم میں فرانسیسی سفیر دنیا میں امن کے قیام کے لیے یورپ کے اہم ترین کردار کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’میرا پختہ یقین ہے کہ یورپ کی تاریخی ذمہ داری ہے اور اس قابل بھی ہے کہ دنیا کی مختلف طاقتوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکے۔ یہ یورپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو آپس میں ملانے اور دنیا کی طاقت میں توازن قائم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 30؍اگست 2019ء صفحہ 2)

عالمی طاقتوں کے راہنماؤں کو خطوط

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں عالمی طاقتوں کے راہنماؤں کی خطوط کے ذریعے بھی راہنمائی فرمائی، چند ایک نمونۃً پیش خدمت ہیں:

آپ نے برطانیہ کے وزیر اعظم کو لکھا: ’’اگر بڑی عالمی طاقتوں نے عدل سے کام نہ لیا اور چھوٹی قوموں کی محرومیاں ختم نہ کیں اور دنیا کے وسیع تر مفاد میں پُرحکمت پالیسیاں اختیار نہ کیں تو حالات تدریجاً قابو سے باہر ہوتے جائیں گے۔اور ہمارے اندازوں سے بھی زیادہ تباہی ہوگی۔ دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ جو امن کا خواہاں ہے وہ بھی اس بربادی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ پس میری دلی خواہش اور دعا ہے کہ آپ اور تمام بڑی عالمی طاقتوں کے سربراہان اس خطرناک حقیقت کا ادراک کریں اور جارحانہ پالیسیاں اپنانے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے ایسی پالیسیوں پر عمل کریں جو دنیا میں انصاف کو یقینی بنانے والی ہوں۔

میری درخواست ہے کہ ہم ہر جہت اور ہر ایک پہلو سے اپنی تمام تر سعی بروئے کار لا کر دنیا سے نفرت کو مٹا دیں۔ اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ہماری آئندہ نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی اور ناکامی کی صورت میں ہماری آئندہ نسلیں ہمارے اعمال کی پاداش میں ایٹمی جنگ کی وجہ سے ہر جگہ تباہ کن نتائج کا سامنا کریں گی اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں پھیلنے والی مسلسل تباہی کا تحفہ دے رہے ہوں گے اور یہ نسلیں اپنے ان بڑوں کو جنہوں نے دنیا کو عالمی تباہی میں دھکیل دیا، کبھی معاف نہیں کریں گی۔

میں ایک دفعہ پھر آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ ایک عالمی طاقت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ پس اگر آپ چاہیں تو عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر کے دنیا کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔لہٰذا برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو دنیا میں قیام امن کے لئے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور دیگر عالمی سربراہان کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ ،صفحہ 208)

اسرائیل کے وزیر اعظم کو خط میں لکھا: ’’عالمی جنگ چھڑنے کا خطرہ نہایت سنجیدگی سے سامنے آ رہا ہے جس سے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہود سب کی جانوں کو خطرہ ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسی جنگ چھڑ گئی تو یہ انسانی تباہی کا ایک جاری سلسلہ ہوگا جس کا شکار آنے والی نسلیں ہوں گی جو اپاہج یا معذور پیدا ہوں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلی جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال ہوں گے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ دنیا کو جنگ کے دہانہ پر پہنچانے کی بجائے اپنی انتہائی ممکن کوشش کریں کہ انسانیت عالمی تباہی سے محفوظ رہے۔ باہمی تنازعات کو طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی بجائے گفت و شنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تابناک مستقبل مہیا کر سکیں نہ یہ کہ ہم انہیں معذور یوں کا تحفہ دینے والے ہوں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ160)

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے نام خط میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’آج ہر طرف اضطراب اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے، یعنی دنیا کے کچھ خطوں میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں شروع ہو چکی ہیں جب کہ بعض اور علاقوں میں عالمی طاقتیں قیام امن کے بہانہ سے مداخلت کر رہی ہیں۔ آج دنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کی دشمنی پر کمربستہ ہے یا کسی دوسرے ملک کا حمایتی بنا ہوا ہے، لیکن انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف کوئی متوجہ نہیں۔ عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جاچکی ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ ،صفحہ 167)

امریکہ کے صدر اوباما کو لکھا: ’’آج عالمی حالات پر نظر ڈالنے والا جان سکتا ہے کہ ایک نئی عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جاچکی ہے۔ دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی باہمی دشمنیاں، کینے اور عداوتیں اپنے عروج پر ہیں۔اس گھمبیر صورت حال میں تیسری عالمی جنگ کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ایسی جنگ میں ضرور ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوں گے۔ گویا یقیناً ہم خطرناک تباہی کے دہانہ پر کھڑے ہیں۔ اگر جنگ عظیم دوم کے بعد عدل و انصاف سے پہلو تہی نہ کی جاتی تو آج ہم اس دلدل میں نہ پھنستے جہاں ایک بار پھر خطرناک جنگ کے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ ،صفحہ 175تا176)

عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم کے نام خط میں لکھا: ’’آپ ایک عظیم ملک کے سربراہ ہیں۔ مزید یہ کہ دنیا کی آبادی کا ایک کثیر حصہ آپ کی حکمرانی کے تحت زندگی بسر کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں ضرورت پڑنے پر آپ کو ’’ویٹو‘‘ کی طاقت استعمال کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ اس لئے اس تناظر میں مَیں آپ سے ملتمس ہوں کہ دُنیا کو دَرپیش تباہی سے بچانے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ قوم، مذہب، رنگ و نسل اور ذات پات کے فرق سے قطع نظر ہمیں انسانیت کی بقا ء کے لئے بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ ،صفحہ 200)

متحدہ روس کے صدر کو خط میں فرماتے ہیں: ’’موجودہ حالات کے پیش نظر میں اپنے خطبات اور خطابات میں بلا امتیاز ہر ایک کو خالق حقیقی کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ شام کے تیزی سے بدلتے حالات اور آپ کی قابل تحسین کوشش نے مجھے آپ کو یہ خط لکھنے پر آمادہ کیا جب آپ نے دنیا کو میدان جنگ میں کودنے کی بجائے باہمی بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ کسی ملک کے خلاف جارحیت نہ صرف اس خطہ میں جنگ کا باعث بن سکتی ہے بلکہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اس حوالہ سے ایک مؤقر مغربی اخبار میں آپ کے حالیہ مضمون پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی جس میں آپ نے نشان دہی کی ہے کہ ایسا طرز عمل انتہائی خطرناک اور جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے والا ہوگا۔ آپ کے اس واضح اور امن پسند مؤقف کی وجہ سے بڑی بڑی طاقتیں اس سے باز رہیں اور انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعہ گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ کے اس بر وقت قدم نے دنیا کو درپیش ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ264)

جرمنی کی چانسلر کے نام خط میں آپ فرماتے ہیں:’’دُنیا کی طاقت ور اقوام میں سے بعض کی یہ خواہش ہے کہ وہ کسی طرح چند مخصوص ممالک کی دولت اور وسائل پر اپنی دسترس قائم رکھیں اور دیگر ممالک کو ان وسائل تک رسائی نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک اپنے غیر منصفانہ فیصلوں میں عوام کی مدد یا امن عالم کے قیام کا تصور پیش کرتے ہیں۔ مزید برآں موجودہ سیاسی صورتحال کے پس منظر میں ایک بڑا بھاری عنصر عالمی معاشی انحطاط بھی ہے جو ہمیں ایک اور عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ ،صفحہ 216)

پوپ بینیڈکٹ XVIکو خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اگر ہم دنیا کے موجودہ حالات کا غور سے جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد عدل و انصاف کی راہ اپنائی جاتی تو آج دنیا کی یہ حالت نہ ہوتی جس کی وجہ سے یہ ایک بار پھر آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ متعدد ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے کے باعث بغض و عداوت بڑھ رہی ہے اور دنیا تباہی کے دہانہ پر پہنچ چکی ہے۔ اگر وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے یہ ہتھیار پھٹ جائیں تو آئندہ نسلیں اس غلطی پر ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ ہم نے انہیں معذوری اور اپاہچ پن تحفہ میں دیا ہے…میں دنیا کو بار بار توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ ایک دوسرے کے ساتھ حد سے بڑھی ہوئی عداوتیں اور انسانی اقدار کی پامالی دنیا کو تباہی کی طرف لے جار ہی ہیں۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ 152تا153)

دنیا کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ انسانیت کی خاطر تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز روس یوکرائن کے حالیہ تنازعہ کی بابت فرماتے ہیں:’’گزشتہ کئی سال سے مَیں دنیا کی بڑی طاقتوں کو متنبہ کرتا چلا آیا ہوں کہ انہیں تاریخ سے، بالخصوص بیسویں صدی میں ہونے والی دو تباہ کن عالمی جنگوں سے، سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مَیں نے مختلف اقوام کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر پرزور توجہ دلائی کہ وہ اپنے قومی اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر معاشرے کی ہر سطح پر حقیقی انصاف کو قائم کرتے ہوئے دنیا کے امن و سلامتی کو ترجیح دیں۔

یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ یوکرائن میں جنگ چھڑ گئی ہے اور حالات انتہائی سنگین صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں۔ نیز یہ بھی عین ممکن ہے کہ روسی حکومت کے آئندہ اقدامات اور اس پر نیٹو(NATO)اور بڑی طاقتوں کے ردّعمل کے باعث یہ جنگ مزید وسعت اختیار کر جائے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے نتائج انتہائی خوف ناک اور تباہ کن ہوں گے۔ لہٰذا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مزید جنگ اور خون ریزی سے بچنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیا تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائے۔ مَیں روس، نیٹو اور تمام بڑی طاقتوں کو پُرزور تلقین کرتا ہوں کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں انسانیت کی بقا کی خاطر تنازعات کو ختم کرنے میں صرف کریں اور سفارتی ذرائع سے پُرامن حل تلاش کریں۔

جماعتِ احمدیہ مسلمہ کے سربراہ ہونے کے ناطے مَیں صرف یہی کر سکتا ہوں کہ دنیا کے سیاسی راہنماؤں کی توجہ اس طرف مبذول کروا دوں کہ وہ عالمی امن کو ترجیح دیتے ہوئے ،تمام بنی نوع انسان کی بھلائی کی خاطر اپنے قومی مفادات اور دشمنیوں کو بالائے طاق رکھ دیں۔ اس لیے میری دلی دعا ہے کہ دنیا کے حکمران ہوش سے کام لیں اور انسانیت کی بہتری کے لیے جدوجہد کریں۔

مَیں دعا کرتا ہوں کہ آج بھی اور آئندہ بھی دنیا کے راہ نما جنگ، خون ریزی اور تباہی کے عذاب سے بنی نوع انسان کو محفوظ رکھنے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ اور میں دل کی گہرائی سے دعا گو ہوں کہ بڑی طاقتوں کے سربراہ اور ان کی حکومتیں ایسے اقدامات نہ اٹھائیں جو ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تباہ کرنے والے ہوں۔ بلکہ ان کی ہر کوشش اور جدو جہد اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونی چاہیے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے خوشحال اور پرامن دنیا چھوڑ کر جائیں۔‘‘(پریس ریلیز 24؍فروری 2022ءبحوالہ الفضل انٹرنیشنل یکم مارچ2022ءصفحہ1تا2)

دنیا کو جنگوں کی تباہی اور بربادی سے بچانے کا ذریعہ

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’دنیا اگر جنگوں کی تباہی اور بربادی سے بچ سکتی ہے تو صرف ایک ہی ذریعہ سے بچ سکتی ہے اور وہ ہے ہر احمدی کی ایک درد کے ساتھ ان تباہیوں سے انسانیت کو بچانے کے لئے دعا۔ ․․․ آج غلامانِ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی یہ فرض ہے کہ … ایک درد کے ساتھ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعا کریں۔ جنگوں کے ٹلنے کے لئے دعا کریں۔ دعاؤں اور صدقات سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ اگر اصلاح کی طرف دنیا مائل ہو جائے تو یہ جنگیں ٹل بھی سکتی ہیں۔ ہم اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ دنیا کا ایک حصہ تباہ ہو اور پھر باقی دنیا کو عقل آئے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور آنے والے کو مانیں بلکہ ہم تو اس بات پر خوش ہیں اور کوشش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس کے بداعمال کی وجہ سے تباہی میں نہ ڈالے اور دنیا کو عقل دے کہ وہ بد انجام سے بچیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ30؍جون2017ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍جولائی 2017ء صفحہ8)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button