مضامین

سوشل میڈیا،ارتقا و اثرات اور امام زمانہ کی بصیرت افروز راہنمائی

(راشدبلوچ)

انٹرنیٹ اور اس سے جڑا سوشل میڈیا ہمارے لیے ازحد مفید اور ازدیاد علم و ایمان کا باعث بن سکتا ہے اگر ہم امام زمانہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس راہنمائی کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کریں۔

کوئی بھی ایجاد فی ذاتہ بُری نہیں ہوتی اس کا استعمال اسے بھلا یا برا بناتا ہے۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔

آئے دن کی ایجادات و انقلابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر نے لکھا تھا کہ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

دنیا فی الحقیقت کیا سے کیا ہوگئی ہے۔اکیسویں صدی کو ایجادات کی صدی کہنا مبالغہ نہ ہوگا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے آسمان سے پرے کی دنیاؤں کا سراغ لگا لیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ قرآن مجید نے آخری زمانے میں برپا ہونے والے انقلابات کی جو خبر دی تھی اور جو امام آخر الزمان کی پہچان کا ایک ذریعہ ٹھہرائی گئی تھیں وہ پوری آب و تاب کے ساتھ پوری ہوتی نظر آتی ہیں۔ صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں ہوتی سعید فطرت اک نشان سے ہی حق کی شناخت کر لیتا ہے۔

اس زمانہ میں جس ایجاد نے انقلاب برپا کیا ہوا ہے اور جس نے دنیا کے ہر فرد کو گویا جوڑ دیا ہے وہ سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا یا سماجی ذرائع ابلاغ سے مراد وہ مختلف پلیٹ فارمز ہیں جن کے ذریعہ ہر کوئی اپنے خیالات و افکار کا اظہار کرسکتا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے حالات و واقعات سے بھی آگاہ رہ سکتا ہے۔ کسی خبریا تبصرےپراپنی رائے کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس سے رابطہ کرنےکی سہولت سے بھی فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ نے گویا دنیا ہی بدل دی ہے۔ روایتی میڈیا یعنی ٹی وی، ریڈیو اور اخبار کی اجارہ داری ختم ہوئی ہر ایک کو اپنی بات کہنے کی ایسی سہولت دی جس کے بارے میں قبل ازیں سوچنا بھی محال تھا۔اگر دنیا کو سماجی رابطوں کے دو ادوار میں تقسیم کیا جائے تو پچھلے دَور کا اختتام 1997ء سے 2000ء کے درمیان سماجی رابطہ کی پہلی ویب سائٹ Six Degrees کی تخلیق سے ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی روایتی میڈیا یعنی ٹی وی ریڈیو اور اخبار کی اجارہ داری بتدریج ختم ہوئی ۔یہاں تک پہنچنے میں انسان کی برسوں کی محنت ہے اور جو کچھ آج ہم اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر سمٹی ہوئی دنیا کو دیکھ رہے ہیں اس کے پیچھے برسوں کی منصوبہ سازی،محنت اور انسانی قوت تخیل کا عمل دخل ہے۔

سال 2000ء کے بعد تیز ترین انٹرنیٹ تک ہر کس و ناکس کی رسائی نے سماجی رابطوں کی فصل کے لیے کھاد کا کام کیا۔ 2003ء میں LinkedIn کے اجرا سے سوشل میڈیا کو نئے آئیڈیا کی بدولت کافی پذیرائی ملی۔ LinkedIn پر اکاؤنٹ بنانے والے صارفین یہاں اپنی CV ڈال سکتے تھے اور کمپنیاں اپنی ضرورت کے مطابق ملازمین تلاش کر سکتی تھیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سو ملین سے زائد افراد سے LinkedIn کے ذریعے انٹرویو کیے جاچکے ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز کو سماجی رابطوں کی دنیا میں گولڈن ایج(Golden Age) کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

سوشل میڈیا نے اپنے بے شمار فوائد کی بدولت پوری دنیا میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔لوگ اس کے ذریعے سات سمندر پار اپنے پیاروں سےReal Timeمیں رابطے قائم کر رہے ہیں اور ملازمت کے متلاشی افراد اپنے کام ڈھونڈ رہے ہیں اور کمپنیوں کو اپنے کارکنان ڈھونڈنے میں سہولت میسر آ گئی ہے۔نت نئے آئیڈیاز کا جنم ہوا اور کئی طرح کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تخلیق کی گئیں۔

2004ء میں فیس بک کی آمد سے سوشل میڈیا کو نئی جہت ملی۔ فیس بک آج دنیا کی مقبول ترین اور سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹ بن چکی ہے اور اس کے صارفین کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ یعنی اس وقت دنیا کا ہر ساتواں شخص فیس بک سے وابستہ ہے۔سماجی ذرائع ابلاغ کے بہت سے نمایاں پلیٹ فارم ہیں جن میں سرفہرست فیس بک،ٹویٹر،انسٹاگرام،یوٹیوب اور سنیپ چیٹ شامل ہیں۔

گذشتہ کچھ برسوں سے ٹک ٹاک کی ایپ نے بھی دنیابھر کے نوجوانوں کو بالخصوص اور دیگر کو بالعموم اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سوشل میڈیا اس قدر ہمہ گیر اور طاقتور ہے کہ دنیا کے کسی دُور دراز کونے میں آباد کسی جاننے والے سے آپ کی ملاقات کروا سکتا ہے بلکہ گھر میں ہی موجود کسی پیارے سے دور بھی کرسکتا ہے۔ ہر چیز کی طرح سوشل میڈیا بھی خیروشر کا مجموعہ ہے۔اس کی خصوصیات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے منفی پہلوؤں سے اپنے آپ کوبچانا ہی عقلمندی ہے۔

سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد چار ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔اب جبکہ یہ ایک لت اور نشہ کی صورت اختیار کرگیا ہے جس کی باقاعدہ سائنسی توثیق موجود ہے تو اس سے اپنے آپ کوبچانا اور محض اس کے فوائد سمیٹنا اور اس کے نقصانات سے بچنا ازبس ضروری ہے۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ خدا کا نمائندہ ہمیں صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کےلیے ہر دم موجود ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں کے متعلق ہماری راہنمائی کرکے ہمیں بہت سے نقصانات سے بچاتے ہیں بلکہ فوائد سے بہرہ ور ہونے کی راہیں بھی سمجھاتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ روایتی میڈیا بھی سوشل میڈیا کا حصہ بن چکا ہے۔دنیا کے تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات ورسائل سوشل میڈیا پہ موجود ہیں۔ٹی وی کی جگہ یوٹیوب چینلز نے لے لی ہےجہاں ٹی وی ہی کی طرح لائیو نشریات کی سہولت موجود ہے۔ گویا سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کو بھی نئے ناظرین تک پہنچایا۔ چنانچہ اب اگر آپ کے پاس ڈش انٹینا،ڈیجیٹل ریسیور اور ٹی وی موجود نہیں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ اپنے سمارٹ فون پہ یوٹیوب کھولیں اورنہ صرف ایم ٹی اے کی لائیو نشریات سے فیضیاب ہوں بلکہ گذشتہ پروگرامز بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

جدید ایجادات کا جماعت احمدیہ سے گہرا تعلق ہے کہ یہ امام زمانہ کے مشن کو آگے بڑھانے میں ممدومعاون ہیں۔آپ علیہ السلام کے ظہور کے زمانہ کو دیکھا جائے تو اس زمانے میں مادی ایجادات کی ایک طویل فہرست ہے اور یہ محض اتفاق نہیں ہے۔قرآن و حدیث میں امام مہدی کے ظہور کے بارے میں مرقوم پیشگوئیوں کے بغور مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس زمانے میں بکثرت ایجادات ہوں گی اور خلق خدا کو ایسے ذرائع رسل و رسائل میسر آئیں گے جو دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیں گے۔آسمان و زمین اپنے راز اگلیں گے اور انسان مادی ترقی کے ایک نئے دَور میں قدم رکھے گا اور اس کے ساتھ ہی امام مہدی کا ظہورہوگا۔چنانچہ ظہور مہدی اور مادی ایجادات کی باہمی نسبت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ورنہ اس قدر تحدی سے پیشگوئیوں میں ان کا ذکرنہ کیا جاتا۔

اس سے ظاہرہے کہ وہ وجود، روحانی فیض رساں تو ہوگا ہی اس کا ظہور خلق خدا کےلیے تن آسانی کا موجب بھی ہوگا۔وہ اور اس کے فرستادے ان ایجادات سے بھرپور فیض حاصل کریں گے، دنیا کے کونے کونے میں پہنچ کر خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے۔زمین کی کلیں اس کے ظہور کی گواہی دیں گے اور آسمان اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاء جَآءَ الْمَسِیْح جَآءَ الْمَسِیْح کی صداؤں سے گونج اٹھے گا۔ریڈیواورٹی وی کی ایجاد نے دور دراز کی خبریں دنیا کے ہر کونے میں اور گھر گھر پہنچائیں تو زمانے کے امام کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا وسیلہ بھی بنا اور آج دنیا کا کوئی خطہ ایم ٹی اے کی پہنچ سے دور نہیں ہے۔

انٹرنیٹ اور اب سوشل میڈیا کی بدولت ایم ٹی اے روزبروز ترقیات کی نئی سے نئی منازل طے کر رہا ہے اور اس کیرسائی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اسی طرح ٹویٹراور فیس بک پہ جماعتی اکاونٹس سے مسلسل رابطے میں رہا جاسکتا ہے،سوالات پوچھے جاسکتے ہیں اور فیڈ بیک دیا جاسکتا ہے۔یہی سوشل میڈیا کا وہ استعمال ہے جس کی طرف حضور انور نے ہمیشہ ہماری راہنمائی کی ہے۔

سوشل میڈیا کے متعلق بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گراں قدر راہنمائی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ مختلف مواقع پہ مختلف حوالوں سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوشل میڈیا کی بابت ہدایات و ارشادات سے نوازاہے۔ ذیل میں انہیں موتیوں سے خوشہ چینی کی گئی ہے۔

انٹرنیٹ کے متعلق عمومی راہنمائی

سوشل میڈیا انٹرنیٹ کی بدولت ہی وجود میں آیاہے۔چنانچہ جہاں اس کے فوائد ہیں وہاں اس کے نفی اثرات بھی ہیں۔ ان سے بچنے کے متعلق راہنمائی کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’برائیوں میں سے آجکل ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ کی بعض برائیاں بھی ہیں۔ اکثر گھروں کے جائزے لے لیں۔ بڑے سے لے کر چھوٹے تک صبح فجر کی نماز اس لئے وقت پر نہیں پڑھتے کہ رات دیر تک یا تو ٹی وی دیکھتے رہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہے، اپنے پروگرام دیکھتے رہے، نتیجۃً صبح آنکھ نہیں کھلی۔ بلکہ ایسے لوگوں کی توجہ بھی نہیں ہوتی کہ صبح نماز کے لئے اٹھنا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں اور اس قسم کی فضولیات ایسی ہیں کہ صرف ایک آدھ دفعہ آپ کی نمازیں ضائع نہیں کرتیں بلکہ جن کو عادت پڑ جائے ان کا روزانہ کا یہ معمول ہے کہ رات دیر تک یہ پروگرام دیکھتے رہیں گے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہیں گے اور صبح نماز کے لئے اٹھنا ان کے لئے مشکل ہو گا بلکہ اٹھیں گے ہی نہیں۔ بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو نماز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔

نماز جو ایک بنیادی چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حالت میں ضروری ہے حتیٰ کہ جنگ اور تکلیف اور بیماری کی حالت میں بھی۔ چاہے انسان بیٹھ کے نماز پڑھے، لیٹ کر پڑھے یا جنگ کی صورت میں یا سفر کی صورت میں قصر کر کے پڑھے لیکن بہرحال پڑھنی ہے۔ اور عام حالات میں تو مردوں کو باجماعت اور عورتوں کو بھی وقت پر پڑھنے کا حکم ہے۔ لیکن شیطان صرف ایک دنیاوی پروگرام کے لالچ میں نماز سے دُور لے جاتا ہے اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ بھی ایک ایسی چیز ہے جس میں مختلف قسم کے جو پروگرام ہیں، پھرایپلی کیشن (applications) ہیں، فون وغیرہ کے ذریعہ سے یا آئی پیڈ (iPad)کے ذریعہ سے، ان میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس پر پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں۔ کس طرح اس کی attractionہے۔ پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں پھر ہر قسم کے گندے اور مخر ّب الاخلاق پروگرام اس سے دیکھے جاتے ہیں۔ کئی گھروں میں اس لئے بے چینی ہے کہ بیوی کے حق بھی ادا نہیں ہو رہے اور بچوں کے حق بھی ادا نہیں ہورہے اس لئے کہ مرد رات کے وقت ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بیہودہ پروگرام دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں اور پھر ایسے گھروں کے بچے بھی اسی رنگ میں رنگین ہوجاتے ہیں اور وہ بھی وہی کچھ دیکھتے ہیں۔ پس ایک احمدی گھرانے کو ان تمام بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی کس قدر فکر ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کی دعائیں سکھاتے تھے اور کیسی جامع دعائیں سکھاتے تھے، اس کا ایک صحابی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا۔ اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقیناً تُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما۔(سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب التشہد حدیث 969)

پس یہ دعاہےجودنیاوی غلط تفریح سےبھی روکنے کے لئے ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍مئی2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون2016ءصفحہ6تا7)

حضور انور نے جس attraction سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے سوشل میڈیا کا سارا بنیادی ڈھانچہ اسی پہ کھڑا ہے کہ کس طرح صارف کو زیادہ سے زیادہ وقت کے لیے باندھ کر رکھا جائے۔ ویڈیو اسٹریمنگ پروگرام Netflix پہ ایک ڈاکومنٹری The Social Dilemma کے نام سے ہے جس میں سوشل میڈیا کی سائنس پہ بات کی گئی ہے۔ اس میں بہت سے ایسے لوگوں نے بات کی جو سوشل میڈیا کمپنیوں کے سابقہ ملازم اور پروگرامرز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تقریبا ًتمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بنیادی ڈھانچہ اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ صارف کو باندھ کر رکھا جائے اور اس کا زیادہ سے زیادہ وقت یہاں گزرے۔ اسی اٹریکشن کی بدولت لوگ گھنٹوں سوشل میڈیا اسکرول (Scroll)کرتے رہتے ہیں اور اس طرح تفریح کے نام پر لوگوں کو باندھ کر رکھنے کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے۔

انٹرنیٹ نے شرافت،حیا اور شرم کے معیار نہ صرف بدل دیے بلکہ بے حیائی کی ترویج میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔ہر چیز اپنے اندر نفع و نقصان سموئے ہوئے ہے ۔یہ سچ ہے کہ اس کے فوائد بھی بہت ہیں اور اس کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا کام بھی سرانجام پارہا ہے۔لیکن وہیں ایسی سائٹس اور ایپس ہیں جن کا مقصد Fun اورEntertainmentکے نام پہ لغویات کی ترویج ہے جس سے بچنا ایک جہاد کا متقاضی ہے۔ حضور انور اس بابت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آج کل کی دنیاوی ایجادات جیسا کہ مَیں نے شروع میں بھی ذکر کیا تھا، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ وغیرہ ہے اس نے حیا کے معیار کی تاریخ ہی بدل دی ہے۔ کھلی کھلی بے حیائی دکھانے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے حیائی نہیں ہے۔ پس ایک احمدی کے حیا کا یہ معیار نہیں ہونا چاہئے جو ٹی وی اور انٹرنیٹ پرکوئی دیکھتا ہے۔ یہ حیا نہیں ہے بلکہ ہوا وہوس میں گرفتاری ہے۔ بے حجابیوں اور بے پردگی نے بعض بظاہر شریف احمدی گھرانوں میں بھی حیاکے جو معیار ہیں، الٹا کر رکھ دئیے ہیں۔ زمانہ کی ترقی کے نام پر بعض ایسی باتیں کی جاتی ہیں، بعض ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جو کوئی شریف آدمی دیکھ نہیں سکتا چاہے میاں بیوی ہوں۔ بعض حرکتیں ایسی ہیں جب دوسروں کے سامنے کی جاتی ہیں تو وہ نہ صرف ناجائز ہوتی ہیں بلکہ گناہ بن جاتی ہیں۔ اگر احمدی گھرانوں نے اپنے گھروں کو ان بیہودگیوں سے پاک نہ رکھا تو پھر اُس عہد کا بھی پاس نہ کیا اور اپنا ایمان بھی ضائع کیا جس عہد کی تجدید انہوں نے اس زمانہ میں زمانے کے امام کے ہاتھ پہ کی ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا واضح فرمایا ہے کہاَلْحَیَآءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِکہ حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔(مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان وافضلھا… حدیث نمبر 59)

پس ہر احمدی نوجوان کو خاص طور پر یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آج کل کی برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ورنہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ انہی بیہودگیوں کا اثر ہے کہ پھر بعض لوگ جو اس میں ملوث ہوتے ہیں تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور اس وجہ سے پھر بعضوں کو اخراج از جماعت کی تعزیر بھی کرنی پڑتی ہے۔ ہمیشہ یہ بات ذہن میں ہو کہ میرا ہر کام خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہے۔

ایک حدیث میںآتاہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:بےحیائی ہر مرتکب کو بد نما بنا دیتی ہےاورشرم وحیا ہر حیادار کو حسن و سیرت بخشتا ہےاور اسے خوبصورت بنادیتاہے۔‘‘(ترمذیکتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی الفحش والتفحش۔حدیث نمبر1974)(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍جنوری2010ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍فروری 2010ءصفحہ7)

انٹرنیٹ کو ایک عالمگیر گاؤں سے تشبیہ دی گئی ہے گویا دنیا نے ایک گاؤں کا روپ دھار لیا ہے۔ فاصلے سمٹنے سے آسانیاں پیدا ہوئیں لیکن ہر ایجاد کے منفی پہلوؤں کی طرح سوشل میڈیا بھی منفی رنگ رکھتا ہے۔اس کے وجود سے قبل لغویات کا پھیلاؤ محدود تھا۔ اب ایک click پہ کسی بھی تصویر،ویڈیو اور آڈیو پیغام وغیرہ کو لامحدود لوگوں تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ اسی سبب سے لغویات کا پھیلاؤاور اس میں پھنسنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ اس بابت خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آجکل جو عملی خطرہ ہے وہ معاشرے کی برائیوں کی بے لگامی اور پھیلاؤہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آزادیٔ اظہار اور تقریر کے نام پر بعض برائیوں کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس زمانے سے پہلے برائیاں محدود تھیں۔ یعنی محلے کی برائی محلے میں یا شہر کی برائی شہر میں یا ملک کی برائی ملک میں ہی تھی۔ یازیادہ سے زیادہ قریبی ہمسائے اُس سے متاثر ہو جاتے تھے۔ لیکن آج سفروں کی سہولتیں، ٹی وی، انٹرنیٹ اور متفرق میڈیا نے ہر فردی اور مقامی برائی کو بین الاقوامی برائی بنا دیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں میلوں کے فاصلے پر رابطے کر کے بے حیائیاں اور برائیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ ‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27 ؍دسمبر 2013ء)

کم عمری میں موبائل فون کے نقصانات کے متعلق راہنمائی

یہ امر ثابت شدہ ہے کہ موبائل فون کا بکثرت استعمال ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت پہ بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ بچوں کو موبائل فون لے دینا تو اور بھی نقصان دہ ہے،خصوصاً سمارٹ فون کیونکہ اس میں نہ چاہتے ہوئے بھی بچے ایسی دنیا میں چلے جاتے ہیں جہاں انہیں نقصان کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کے متعلق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’پھر آجکل یہاں بچوں میں ایک بڑی بیماری ہے، ماں باپ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں موبائل لے کےدو۔ دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ آپ کونسا بزنس کررہے ہیں ؟ آپ کوئی ایسا کام کرہے ہیں جس کی منٹ منٹ کے بعد فون کرکے آپ کو معلومات لینے کی ضرورت ہے؟ پوچھو تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کو فون کرنا ہوتاہے۔ ماں باپ کو اگر فون کرنا ہوتا ہے تو ماں باپ خود پوچھ لیں گے۔ اگر ماں باپ کو آپ کے فون کی فکر نہیں ہے تو آپ کو بھی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ فون سے پھر غلط عادتیں پیدا ہوتی ہیں۔ فونوں سے بعض لوگ رابطے کر لیتے ہیں جو پھر بچوں کو ورغلاتے ہیں، گندی عادتیں ڈال دیتے ہیں،بیہودہ قسم کے کاموں میں ملوث کر دیتے ہیں۔ اس لئے یہ فون بھی بہت نقصان دہ چیز ہے۔اس میں بچوں کو ہوش ہی نہیں ہوتی کہ وہ انہی کی وجہ سے غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں۔اس لئےاس سے بھی بچ کے رہیں۔

ٹی وی کا پروگرام جیسا کہ مَیں نے ابھی بات کی ہے، اس میں بھی کارٹون یا بعض پروگرام جو معلوماتی ہیں وہ دیکھنے چاہئیں۔ لیکن بیہودہ اور لغو پروگرام جتنے ہیں اس سے بچنا چاہئے۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع مجلس اطفال الاحمدیہ جرمنی فرمودہ 16؍ستمبر2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍مارچ 2012ءصفحہ13)

سوشل میڈیا ایپس میں سب سے معروف میڈیم فیس بک ہے جسے اردو والے کتاب چہرہ بھی کہتے ہیں۔ فیس بک اپنی ذات میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ خبریں پڑھ سکتے ہیں،ٹی وی دیکھ سکتے ہیں،مضمون لکھ سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات و افکار دنیا کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں۔کسی کو پیغام بھیجنے اور وصول کرنے کی سہولت بھی موجودہے۔ ان فوائد کے ساتھ ساتھ فیس بک کی کائنات میں بہت سے تاریک گوشے بھی ہیں جہاں نو آموز اور ناتجربہ کار لوگ نقصان اٹھا بیٹھتے ہیں۔ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’آج انٹرنیٹ یا کمپیوٹر پر آپس کے تعارف کا ایک نیا ذریعہ نکلا ہے جسے facebookکہتے ہیں۔ گو اتنا نیا بھی نہیں لیکن بہرحال یہ بعد کی چند سالوں کی پیداوار ہے۔ اس طریقے سے مَیں نے ایک دفعہ منع بھی کیا، خطبے میں بھی کہا کہ یہ بے حیائیوں کی ترغیب دیتا ہے۔آپس کے جوحجاب ہیں، ایک دوسرے کا حجاب ہے، اپنے راز ہیں بندے کے وہ اُن حجابوں کو توڑتا ہے،اُن رازوں کو فاش کرتا ہے اور بےحیائیوں کی دعوت دیتا ہے۔ اس سائٹ کو جو بنانے والا ہے اُس نے خود یہ کہا ہے کہ مَیں نے اسے اس لئے بنایا ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ انسان جو کچھ ہے وہ ظاہر و باہر ہوکر دوسرے کے سامنے آجائے اور اُس کے نزدیک ظاہر و باہر ہوجانا یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی ننگی تصویر بھی ڈالتا ہے تو بیشک ڈال دے اور اس پر دوسروں کو تبصرہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اِنَّاللّٰہ۔ اسی طرح دوسرے بھی جو کچھ کسی بارے میں دیکھیں اس میں ڈال دیں۔ یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا نہیں تو اَور کیا ہے؟ اوراس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی حالت میں ایک احمدی ہی ہے جس نے دنیا کو اخلاق اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار بتانے ہیں۔‘‘(اختتامی خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی فرمودہ 26؍جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍جولائی 2015ءصفحہ13)

اسی طرح سوشل میڈیا کے بداثرات سے بچانے کے لیے نوجوان بچیوں کو متبادل مصروفیات مہیا کرنے کے بارے میں احمدی ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’یہ جو انٹرنیٹ وغیرہ کی میں نے مثال دی ہے، اس میں فیس بک (Facebook) اور سکائپ (Skype) وغیرہ سے جو چیٹ (Chat) وغیرہ کرتے ہیں، یہ شامل ہے۔ کئی گھر اس سے میں نے ٹوٹتے دیکھے ہیں۔ بڑے افسوس سے مَیں کہوں گا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر تمہیں اپنے قبضے میں کر لے گا۔

پس یہ قرآنِ کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اُٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور فحش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اُٹھنا بیٹھنا جو آزادی کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ ہی سکائپ (Skype) اور فیس بُک (Facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اپنے جذبات کی رَو میں زیادہ بہہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجامکار اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر اُس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اگست 2013ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍اگست 2013ءصفحہ5تا6)

فیس بک کے متعلق احتیاط کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’مَیں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑوگے تو گنہگار بن جاؤ گے۔ بلکہ مَیں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے۔ آجکل جن کے پاس facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہوجاتی ہیں۔ لڑکے تعلق بناتے ہیں۔ بعض جگہ لڑکیاں trap ہوجاتی ہیں اور facebook پر اپنی بےپردہ تصاویر ڈال دیتی ہیں۔ گھرمیں، عام ماحول میں، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی، اُس نے آگے اپنی فیس بُک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیویارک(امریکہ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور پھرگروپس بنتے ہیں مردوں کے، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں۔ اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں۔ اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری2012ءصفحہ12)

سوشل میڈیا پہ تبلیغ صرف اپنے ہم جنسوں کو کریں

بسا اوقات تبلیغ کے نام پہ شروع ہوئے روابط بھی بھیانک انجام پہ منتج ہوتے ہیں۔ اس بارے میں راہنمائی کرتے ہوئے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اب انٹر نیٹ کے بارے میں بھی مَیں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی اسی پردہ نہ کرنے کے زمرہ میں آتا ہے کہ chatting ہو رہی ہے۔ یونہی جب آ کے openکر رہے ہوتے ہیں انٹرنیٹ اور بات چیت(chatting) شروع ہوگئی تو پھر شروع میں تو بعض دفعہ یہ نہیں پتہ ہوتا کہ کون بات کر رہا ہے؟یہاں ہماری لڑکیاں بیٹھی ہیں دوسری طرف پتہ نہیں لڑکا ہے یا لڑکی ہے اور بعض لڑکے خود کو چھپاتے ہیں اور بعض لڑکیوں سے لڑکی بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ لڑکیاں سمجھ کر بات چیت شروع ہوگئی، جماعت کا تعارف شروع ہوگیا۔ اور لڑکی خوش ہو رہی ہوتی ہے کہ چلو دعوت الی اللہ کر رہی ہوں۔ یہ پتہ نہیں کہ اس لڑکی کی کیا نیت ہے۔ آپ کی نیت اگر صاف بھی ہے تو دوسری طرف جو لڑکاinternet پر بیٹھا ہوا ہے اس کی نیت کیا ہے،آپ کو کیا پتہ؟ اور آہستہ آہستہ بات اتنی آگے بڑھ جاتی ہے کہ تصویروں کے تبادلے شروع ہو جاتے ہیں۔ اب تصویریں دکھانا تو انتہائی بےپردگی کی بات ہے۔ اور پھر بعض جگہوں پہ رشتے بھی ہوئے ہیں۔ جیسے مَیں نے کہا کہ بڑے بھیانک نتیجے سامنے آئے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر رشتے پھرتھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔

یا د رکھیں کہ آپ نےاگر تبلیغ ہی کرنی ہے، دعوت الی اللہ کرنی ہے تو لڑکیاں لڑکیوں کو ہی دعوت الی اللہ کریں۔ اور لڑکوں کو تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ کام لڑکوں کے لئے چھوڑ دیں۔ کیونکہ جیسے مَیں نے پہلے بھی کہا کہ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے فرمودہ 19؍اکتوبر2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17 ؍اپریل 2015ءصفحہ16)

جعلی اکاؤنٹس کی بابت انذار

سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا مسئلہ جعلی اکاؤنٹس یا شناخت ہے۔یعنی کسی کے نام پہ اکاؤنٹ بنا لینا یا اپنا نام اور پہچان غلط طریق سے دکھانا تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جاسکے یا پھر اپنے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے نام پہ بھی سوشل میڈیا پہ جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے۔ اس حوالے سے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’مجھے پتہ لگا کہ میرے نام سے آج کل انٹرنیٹ وغیرہ پرفیس بک (Facebook)ہے۔ فیس بُک کا ایک اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے جس کا میرے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں۔ نہ کبھی مَیں نے کھولا نہ مجھے کوئی دلچسپی ہے بلکہ مَیں نے تو جماعت کو کچھ عرصہ ہوا اس بارہ میں تنبیہ کی تھی کہ اس فیس بُک سے بچیں۔ اس میں بہت ساری قباحتیں ہیں۔ پتہ نہیں کسی نے بے وقوفی سے کیا ہے۔ کسی مخالف نے کیا ہے یا کسی احمدی نے کسی نیکی کی وجہ سے کیا ہے لیکن جس وجہ سے بھی کیا ہے، بہر حال وہ توبند کروانے کی کوشش ہو رہی ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ بند ہو جائے گا۔ کیونکہ اس میں قباحتیں زیادہ ہیں اور فائدے کم ہیں۔ اور بلکہ انفرادی طور پر بھی مَیں لوگوں کو کہتا رہتا ہوں کہ یہ جو فیس بُک ہے اس سے غلط قسم کی بعض باتیں نکلتی ہیں اور پھر اس شخص کے لئے بھی پریشانی کا موجب بن جاتی ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کو تو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ لیکن بہر حال مَیں یہ اعلان کر دینا چاہتا تھا کہ یہ جو فیس بُک ہے اور اس میں وہ لوگ جن کے اپنے فیس بُک کے اکاؤنٹ ہیں، وہ آ بھی رہے ہیں، پڑھ بھی رہے ہیں، اپنے کمنٹس (Comments) بھی دے رہے ہیں جو بالکل غلط طریقہ کار ہے اس لئے اس سے بچیں اور کوئی اس میں شامل نہ ہو۔ اگر ایسی کوئی صورت کبھی پیدا ہوئی جس میں جماعتی طور پر کسی قسم کی فیس بک کی طرز کی کوئی چیز جاری کرنی ہوئی تو اس کو محفوظ طریقے سے جاری کیا جائے گا جس میں ہر ایک کی access نہ ہو اور صرف جماعتی مؤقف اس میں سامنے آئے اور اس میں جس کا دل چاہے آ جائے۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض مخالفین نے بھی اپنے کمنٹ (Comment) اس پر دئیے ہوئے ہیں۔ اب ایک تو ویسے ہی غیر اخلاقی بات ہے کہ کسی شخص کے نام پر کوئی دوسرا شخص چاہے وہ نیک نیتی سے ہی کر رہا ہو بغیر اس کو بتائے کام شروع کر دے۔ اس لئے جس نے بھی کیا ہے اگر تو وہ نیک نیت تھا تو وہ فوراً اس کو بند کر دے اور استغفار کرے اور اگر شرارتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے خودنپٹے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور جماعت کو ترقی کی راہوں پر چلاتا چلا جائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍دسمبر2010ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍جنوری 2011ءصفحہ8)

بے وجہ شیئرنگ کی مناہی

اسی طرح بسا اوقات سوشل میڈیا پہ لائکس(Likes) اور شیئر یا پھر واہ واہ سمیٹنے کے لیے اپنی طرف سے کوئی نئی یا انوکھی چیز شیئر کرنے کی ریت بھی اکثر لوگوں کو پریشان کرتی ہے جس میں ایسی چیزیں بھی شیئر ہوجاتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں۔ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اپنی تصویر کھنچوائی لیکن جب ایک کارڈ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا (پوسٹ کارڈ تھا) جس پر آپ کی تصویر تھی تو آپ نے فرمایا کہ اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور جماعت کو ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص ایسے کارڈ نہ خریدے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ کسی نے ایسا کرنے کی جرأت نہ کی۔(ماخوذ ازخطباتِ محمود جلد 14 صفحہ 214)

لیکن آجکل پھر بعض جگہوں پر بعض ٹویٹس (Tweets) میں، واٹس ایپ (WhatsApp) پہ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ کہیں سے یہ پرانے کارڈ نکال کر یا پھر انہوں نے اپنے بزرگوں سے لئے یا بعضوں نے پرانی کتابوں کی دوکانوں سے خریدے، اور پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو یہ غلط طریق ہے اس کو بند کرنا چاہئے۔ تصویر آپ نے اس لئے کھنچوائی تھی کہ دور دراز کے لوگ اور خاص طور پر یورپین لوگ جو چہرہ شناس ہوتے ہیں وہ آپ کی تصویر دیکھ کر سچائی کی تلاش کریں گے، اس کی جستجو کریں گے لیکن جب آپ نے دیکھا کہ لوگ کارڈ پر تصویر شائع کرکے یہ کاروبار کا ذریعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا کہیں بنا نہ لیں اور جب آپ نے محسوس کیا کہ اس سے بدعت نہ پھیلنی شروع ہو جائے، یہ بدعت پھیلنے کا ذریعہ نہ بن جائے تو آپ نے سختی سے اس کو روک دیا بلکہ بعض جگہ آپ نے فرمایا کہ ان کو ضائع کروا دیا جائے۔ پس وہ بعض لوگ جو تصویروں کا کاروبار کرتے ہیں، جنہوں نے تصویروں کو کاروبار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور بےانتہا قیمتیں اس کی وصول کرتے ہیں ان کو توجہ کرنی چاہئے۔ پھر بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر میں بعض رنگ بھر دیتے ہیں حالانکہ کوئی coloured تصویر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نہیں ہے۔ یہ بھی بالکل غلط چیز ہے اس سے بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ اسی طرح خلفاء کی تصویروں کے غلط استعمال ہیں ان سے بھی بچنا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍مارچ2016ءالفضل انٹرنیشنل8؍اپریل 2016ء)

انٹرنیٹ اور اس سے جڑا سوشل میڈیا ہمارے لیے ازحد مفید اور ازدیاد علم و ایمان کا باعث بن سکتا ہے اگر ہم امام زمانہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اس راہنمائی کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کریں۔کوئی بھی ایجاد فی ذاتہ بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اسے بھلا یا برا بناتا ہے۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اس کے علاوہ آپ میں یہ کامل اور غیر متزلزل اور ہر شک و شبہ سے پاک یقین ہونا چاہئے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں کے مطابق سچی اور حقیقی خلافت کا نظام قائم کیا جا چکا ہے جس کی کامل اطاعت اور پیروی آپ پر فرض ہے۔ خلافت کی اطاعت اور خلیفۂ وقت کی ہدایات کی تعمیل کا ایک بہت اہم ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم فضل و احسان کی صورت میں قائم کیا ہوا ذریعہ ہے۔ اور وہ ایم ٹی اے ہے۔ اس لئے آپ جہاں کہیں ہوں آپ کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ میرا ہر خطبہ ضرور سنیں خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے ہو۔ چاہے وہ ٹیلی وژن کے ذریعہ ہو، Laptopکے ذریعہ ہویا آپ کے موبائل فون کے ذریعہ ہو۔ اِس دَور میں کوئی بھی یہ جائز عذر نہیں کر سکتا کہ وہ پیغام یا تعلیمات کو موصول کرنے سے قاصر رہا ہے۔ نشر و اشاعت کے جدید وسائل کی بدولت اب ہر چیز تک رسائی باآسانی اور فورًا ایک بٹن کے دبانے سے ممکن ہوچکی ہے۔ اس لئے جہاں تک میرے خطبات کا تعلق ہے ان تک بھی آپ کی رسائی اور دسترس مختلف ذرائع سے ہو سکتی ہے۔ آپ میرے خطبات ایم ٹی اے پر سن سکتے ہیں یا اس کے علاوہ آپ ایم ٹی اے کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں اور ایم ٹی اے کی on demandسروس کے ذریعہ بھی میرے خطبات کو سن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم ٹی اے کے کئی دوسرے پروگرامز بھی آپ کے لئے دیکھنا بہت ضروری ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعہ آپ کا دینی علم بڑھے گا اور اس طرح آپ کا خلافت سے بھی تعلق پختہ اور مضبوط ہوگا۔ اپنے دینی علم کو بڑھانے کا ایک اور ذریعہ alislam ویب سائٹ بھی ہے جہاں وسیع پیمانے پر علمی مواد میسر ہے۔ آپ میں سے جو پختہ عمر کو پہنچ گئے ہیں انہیں جہاں تک بھی ممکن ہو اپنے آپ کو ان تمام مختلف وسائل اور ذرائع سے جوڑ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے جہاں آپ اپنے علم کو بڑھا رہے ہوں گے وہاں آپ کو چاہئے کہ اِن ذرائع کو خلافت کے ساتھ بھی اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال میں لائیں۔ اور اپنی اس ذمہ داری کو نبھائیں کہ آپ دین کو دنیا کی ہر چیز پر مقدم رکھیں گے۔ اس دَور میں بیشمار ایسے پروگرام ہیں جو ٹی وی، ویب سائٹس اور انٹرنیٹ وغیرہ پر دستیاب ہیں جو ایک انسان کی توجہ مسلسل اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ان کااستعمال ایک لامتناہی کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اگر آپ یہ کہیں گے کہ ہمیں پہلے اپنے دنیاوی کاموں کو مکمل کرنا ہے اور پھر ٹی وی پریا streaming کے ذریعہ ایم ٹی اے دیکھیں گے تو آپ کو کبھی ایم ٹی اے دیکھنے کا وقت نہیں ملے گا۔ یہ وسائل اور ذرائع آپ کے علم کو بڑھانے میں فائدہ مند ثابت ہوں گے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو بہرحال اپنے دین کو مقدّم رکھنا ہو گا۔ اور اپنی دنیوی مصروفیات اور پروگراموں پر دین کو ترجیح دینی ہو گی۔‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع واقفین نو،یوکے فرمودہ یکم مارچ2015ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جولائی 2016ءصفحہ4)

اپنی لاکھوں مخلوقات میں سے خالق نے انسان کو سب سے زیادہ تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی اس حیرت انگیز تخلیقی صلاحیت کو مثبت کاموں میں بروئے کار لا کر خلق خدا کے لیے ایک نفع رساں وجود بنتا ہے یا دوسروں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے ساتھ اپنے لیے بھی نجات کے دروازے بند کر دیتاہے۔انسانی تاریخ دریافت و ایجادات سے عبارت ہے۔ماضی کے مقابلہ میں ان ا یجادات نے سہولیات بہم پہنچانے کے ساتھ بہکنے کے سامان بھی مہیا کر رکھے ہیں۔ہم خوش قسمت ہیں کہ وقت کا امام، حاذق طبیب کی طرح زمانے کے امراض کی تشخیص کرتے ہوئے نجات کے راستوں کی طرف ہماری راہنمائی فرماتا رہتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امام کے ارشادات کو توجہ سے سنا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button