مضامین

خلیفۃ المسیح کے پُر اثر ارشادات

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے فرمودات کا غیروںپر اثر

اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑافضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمیں ایک ایسے عظیم راہنماسے نوازا ہے جس کی باتیں غیروں کے دلوں میں محبتوں کے چراغ روشن کررہی ہیں اورغیر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیںکہ جماعت احمدیہ بہت خوش نصیب ہے کہ ان کو ایسا عظیم راہنما ملا ہے۔

تاریخ عالم گواہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام وہ پاک ہستیاں ہیں جنہوںنے دنیا کے انسانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔یہ وہی مقدس وجود ہیں جو اُن کی زندگیوں میں عظیم روحانی انقلاب کا باعث بنتے رہے۔ یہ وہی مبارک انسان ہیں جنہوں نے بندے اور خالق کے درمیان حائل حجابوں کو دُور کرکے اُنہیں خالق حقیقی کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔جی ہاں یہ وہی بابرکت ہستیاں ہیں جن کی قوت قدسیہ نے بے شمار لوگوں کو عالم روحانی سے آشنا کرکے اُنہیں زمینی سے آسمانی بنا دیا۔ ابتدائے انسانیت سے اللہ تعالیٰ کے یہ فرستادے روحانی مائدہ تقسیم کرنے کے لیے مبعوث ہورہے ہیں۔ نظر بینا رکھنے والے جانتے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں نیکی کا اُجالا،اچھائی کا نور اور پُرخلوص جذبوں کی حکمرانی دکھائی دیتی ہے اُس کے پیچھے انبیائےکرام ؑکی لائی ہوئی تعلیم اور وہ نورِ ہدایت کارفرما ہے جو اُن کے ذریعہ آسمان سے اُتاراگیا۔ ہر ملک اور قوم جہاں نور کی ان روشنیوں کا ظہور ہوا،وہاں آج بھی کسی نہ کسی رنگ میں اُن برکتوںکی کچھ نہ کچھ جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے جوکسی زمانے میں دلوں کی صفائی اور ایمان کی پاکیزگی کا موجب بنی تھی۔

اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمدبھی اُسی آسمانی نظام کا حصہ ہے جو اس سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ذریعہ دنیا میں جاری ہوا تھا۔ یہ نظام امن وآشتی، صلح جوئی اور آپسی نفرتوں کو مٹا نے والا نظام ہے۔ایک ایسا نظام جو بندگانِ خدا کو اُن کے محسن حقیقی کی طرف بلارہاہے جو اُن کا تخلیق کنندہ اور اُن کا محسن ہے۔وہ چاہتا ہے کہ وہ اُسے پہچانیں اور صرف اُسی کی عبادت کریں تاکہ زندگی کے خاتمے پرعالم بالا کے باسی سلام اور سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ اُن کا استقبال کریں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لیے بھیجا گیا ہے تاکہ خدا اور بندوں کے درمیان جو دُوری واقع ہوگئی ہے اُسے دُور کیا جائے اور تا اُ س کی توحید دنیا میں قائم ہو۔ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں :’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرےیہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیامیں بھیجا گیا۔ ‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-302)

قانون قدرت اسی طرح کارفرما ہے کہ جب سورج نکل آئے تو اُجالے نمودارہوہی جایا کرتے ہیں۔دلوں کی گرہیں کھلنا شروع ہوجائیں تو ذہنوں کے زنگ دُورہونے لگتے ہیں تب ابدی سچائیاں اپنا اثر دکھاتی ہیںاور روح کی کثافتیںزائل ہونے لگتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حالات دن بدن تبدیل ہورہے ہیں اور نیک فطرت روحیں بڑی بےتابی سے حق کی تلاش میںسرگرداں ہیں۔ مخبرِ صادق ہمارے ہادی وراہنما نبی کریم ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانے میں سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ (مسلم کتاب الفتن،باب الایات التی تکون قبل الساعۃ)حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس عظیم الشان پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ایسا ہی طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ۔ہم اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں۔لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفروضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منّور کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصہ ملے گا… درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو۔ نبیوں کا سلسلہ بھی اوّل سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے۔ اب خدائے تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے …جب ممالک مغربی کے لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے تب ایک انقلاب عظیم ادیان میں پیدا ہوگا۔ اور جب یہ آفتاب پورے طور پر ممالک مغربی میں طلوع کرے گاتووہی لوگ اسلام سےمحروم رہ جائیںگےجن پردروازہ توبہ کابندہے‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 376تا378)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی صورت میں ایک ایسی قیادت میسر ہے جس کے قیام میں آسمانی ہاتھ کارفرما ہے اور اُس کے تمام کام اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت سے طے پاتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی تقدیر تھی کہ وہ خلافت احمدیہ کو ہجرت کی صورت میں تثلیث کے مراکز میں کھینچ لایا تاکہ مغرب کے لوگوں کو دینی سچائیوں سے حصہ ملے اور وہ بھی ولایت کے کمالات سے حصہ پائیں۔ اس مختصر مضمون میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطابات کا غیروں پر جو اثر ہوتا ہے اس کی ہلکی سی جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس مقصد کے لیے یورپین یونین اور کیپٹل ہل امریکہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابات کو منتخب کیا گیاہے تا کہ معلوم ہوسکے کہ دنیا کے ان ایوانوں میں بیٹھنے والوں نے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بصیرت افروز اور حقیقت پر مبنی خطابات سنے تو اُن پر اِن خطابات کاکیا اثر ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیارے اور محبوب امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جس علاقے اور ملک میں تشریف لے جاتے ہیں آپ کو سربراہان مملکت جیسا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔وہاں کی اسمبلیوں کے ممبرآپ کی خدمت میں مشورے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ آپ کی مجالس میں شامل ہوکر آپ کی باتوں کو بڑے غور سے سنتے ہیں اور اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ ایسی حسین تعلیم اور اسلام کا ایسا خوبصورت چہرہ پہلے دیکھنے کو نہیں ملا اگر یہی اسلام ہے تو اس لائق ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ’’نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا۔ اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا۔‘‘(الاشتہار، تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ 8)

4؍دسمبر 2012ء کا دن ایک خاص اہمیت کا حامل دن تھا جب یورپ کی 28قوموںکو بیک وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے چشمہ سے سیراب ہونے کا موقع ملا۔اُس روز سچائی کا آفتاب ایک نئی شان کے ساتھ مغرب کی طرف سے طلوع ہوا تھا۔اُس روز امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے اعزاز میں یورپین پارلیمنٹ برسلز میں ایک انتہائی اہم تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ یورپین پارلیمنٹ، یورپی یونین کو چلانے کے لیے ایک پارلیمانی ادارہ ہے۔ ہر پانچ سال بعد یورپین پارلیمنٹ کے ممبران کا انتخاب ہوتا ہے۔برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہوجانے کے بعد اس کے موجودہ ممبران کی تعداد 705ہے۔ جنہیں MEPکہا جاتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی یورپین پارلیمنٹ کی عمارت میں تشریف آوری پر پروٹوکول آفیسراورپارلیمنٹ سیکیورٹی آفیشلز نے حضور انور کو خوش آمدید کہا اوراُس VIP دروازہ سے پارلیمنٹ کی عمارت میں لے جایا گیا جو صرف سربراہان مملکت کے لیے مخصوص ہے۔

بعض ممبران کے تاثرات

وہی مغرب جہاں 1894ء میں ایک مشنری کانفرنس میں عیسائی پادریوں کے سامنے ڈاکٹر ہربرٹ (Dr. Herbert) یہ اعلان کررہے تھے کہ ’’فرض کرو لنڈن کےکسی علاقے میں کوئی مسلمان آوارہ ہوجو اجنبی کپڑوں میں ملبوس ہو۔ ٹوٹی پھوٹی انگریز ی بولتا ہو۔ اور وہ ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرے کہ محمدؐ خدا کا سچا رسول ہے اور یہ کہ اب ہم یسوع مسیح کی بجائے اس پر ایمان لائیں۔ ذرا سوچو تو سہی اس مسلمان کا کیا حشر ہوگایہی کہ چھوٹے چھوٹے بچے اس پر کیچڑ اچھالتے پھریں گے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 153)

اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ اب اسی مغرب میں اسلام کو خوش آمدید کہا جارہا ہے۔اسلام پر نفرتوںکے تیر برسانے کی بجائے اُس کے حقیقی نمائندوں پر مسکراہٹوں کے پھول نچھاور کیے جاتے ہیں۔چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے اسلام کی امن پسند تعلیم کو سن کرچرچ کا ایک نمائندہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ’ اب عالم انسانیت کے بہتر مستقبل کی ضمانت اسی پیغام پر عمل کرنے میں ہے۔‘ مسٹر Christian Mirre نے جو چرچ آف سائیٹالوجی یورپ کے ممبرہیں یورپین یونین میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :’’ہم سب کو یہ پیغا م دیا ہے کہ ہم سب مل کر امن کے لئے کام کریں اور آپس کی نفرتوں کو دور کریں۔ حضور کا پیغام حکمت سے پُر تھا اور اب عالم انسانیت کے بہتر مستقبل کی ضمانت اسی پیغام پر عمل کرنے میں ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ء صفحہ 15)

احمدیہ خلیفہ کا پیغام ہر مذہب، نسل اور ثقافت کی تفریق سے بلند

سپین سےMayor of Meco مسٹر Pedro Luis Carlavillaبھی اس تاریخ ساز پروگرام میں شامل تھے۔اس موقع پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :’’میں اپنی طرف سے احمدیہ مسلم جماعت کا بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے ایسا غیر معمولی موقع فراہم کیا۔ جس انداز سے احمدیہ خلیفہ نے آج کل دنیا کو درپیش مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے وہ ہر مذہب، نسل اور ثقافت کی تفریق سے بلند تھا۔ اگر عزت مآب Pope بھی اس تقریب میں شریک ہوتے تو وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے جو احمدیہ خلیفہ نے بیان فرمایا۔(روزنامہ الفضل ربوہ 27؍دسمبر 2012ء)

اس تقریب میں ایک اور مسیحی راہنما جوBishop کے عہدہ پر فائز ہیں جنیوا (سوئٹزر لینڈ) سے تشریف لائے تھے۔موصوف انٹرفیتھ انٹرنیشنل(Interfaith International)کے نمائندہ اور رفاہی تنظیم Feed a Family کے بانی صدر بھی ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :’’یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ د ھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اگر اس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کے حوالے سے اس دنیامیں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دنوں کے اندر برپا ہوسکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ مَیں اسلام کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا۔ آپ کے خطاب نے اسلام کے بارے میں میرے نقطۂ نظر کو کلیۃً تبدیل کردیا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ءصفحہ 14)

رعب پڑتے دلوں پہ دیکھا ہے

حق اترتے دلوں پہ دیکھا ہے

فرانس سے ایک یونیورسٹی کے پروفیسر Mr.Marco Tiani بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں:’’مَیں بہت خوش قسمت ہوںکہ مجھے حضور کی سربراہی میں یورپین پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاس میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ میرے لئے یہ بہت عزت اور برکت کا باعث تھاکہ مَیں ایک حقیقی امن والے، انسانی حقوق کے عظیم لیڈر اور مذہبی آزادی کے ایک حقیقی علمبردار کی موجودگی میں وہاں موجود ہوں۔ میرے لئے یہ ایک فخر کی بات ہے کہ میں ایک مرد خدا سے ملا جو امن اور باہمی تعلقات کا ایک عظیم لیڈر ہے۔ اور ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا نعرہ سب سے طاقتور امن کی ضمانت دینے والا ہے۔ا س نعرہ نے مجھے بہت متأثر کیا ہے۔ تمام شامل ہونے والوں کو بہت عزت ملی ہے۔ لوگ اتنی تعداد میں تھے کہ باہر بھی کھڑے تھے۔ جب مجھے حضور سے ہاتھ ملانے کا موقع ملا تو میرے دل پر اس بات کا گہرا اثر ہے اور یہ میرے لئے باعث فخر ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ءصفحہ 15)

میڈرڈ (سپین )سے Popular Party کی نمائندہ رکن اسمبلی محترمہ Jose Maria Alonso نے اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’عزت مآب جناب خلیفہ ایک عظیم انسان ہیں جن کے وجود سے امن وسکون کی شعاعیں نکلتی ہیں۔ باقی تمام احمدیوں سے مل کر بھی میرے وہی جذبات ہیں جوکہ خلیفہ سے مل کر تھے۔ یہ تمام جماعت بہت مہمان نواز اور پر امن ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ء صفحہ 16)

حضور سے ملاقا ت کو مَیں کبھی فراموش نہیں کرسکتا

سوئٹزر لینڈ سے جاپانی بدھ ازم کے ایک نمائندے Jorge Koho Mello جو راہب بھی ہیں اس تقریب میں شامل ہوئے تھے۔ وہ بھی حضور انور کی بارعب اور مسحور کن شخصیت سے بہت متأثر ہوئے۔اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا :’’آپ کو (یعنی حضور انور کو)جو علم، دانائی اور حکمت ودیعت کی گئی ہے کاش کہ لوگ اس علم اور دانائی سے فائدہ اٹھائیں۔ آپ کا مَیں مشکور ہوں کہ آپ نے اس اہم لیکچر میں شامل ہونے کے لئے مجھے دعوت دی اور اس میں شامل ہونا اور حضور سے ملاقات کا موقع ملنا میرے لئے ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ حضور کے ساتھ ملاقات کے لمحات میرے لئے قیمتی ترین لمحات ہیں جن کو مَیں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ مجھے یہاں دوسرے ممالک کے اہل علم لوگوں سے ملنے کا بھی موقع ملا جس کے لئے مَیں آپ کا ممنون ہوں۔‘‘

ایک ممبرآف پارلیمنٹ Mr.Mass نے اُس موقع پراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’آج ایک بہت بڑی اور اہم روحانی شخصیت یورپین پارلیمنٹ میں تشریف لائی۔ حضور نے دنیا کے لئے جو امن کا پیغام دیا ہے اور ہماری رہنمائی کی ہے اس کے لئے ہم حضور کے بیحد شکر گزار ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ءصفحہ 15)

ملک مالٹا سے آنے والے ایک مہمان Ivan Bartolo تھے ۔آپ کا تعلق میڈیا سے ہے اور آپ دو پروگراموں کے پروڈیوسر اور میزبان ہیں۔ موصوف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :’’درحقیقت عزت مآب خلیفہ امن کے عظیم سفیر ہیں اور مَیں آپ کی شخصیت اور امن اور عالمی بھائی چارہ کے لئے آپ کے مشن اور جدوجہد سے بہت متأثر ہوا ہوں۔‘‘

ناروے سے ایک ممبر پارلیمنٹ اور کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے صوبائی سیکرٹری بھی اس تقریب میں شامل ہوئے تھے۔انہوں نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے برملا کہا:’’جماعت احمدیہ بہت خوش نصیب ہے کہ ان کو ایسا عظیم راہنما ملا ہے۔ حضور انور کا خطاب اور تقریب کا انتظام بہت اعلیٰ تھا۔ بغیر فعال اورمؤثر لیڈر شپ کے ایسا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘

حکومت فرانس سے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے نمائندہ Mr.Ericنے حضور انور کے خطاب کے تمام اہم پوائنٹس نوٹ کیے اور کہا کہ حضور انور کے خطاب میں فرانس کے لیے بہت راہنمائی ہے۔ مَیں واپس جاکر اپنی منسٹری میں رپورٹ پیش کروں گا۔(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 4؍جنوری 2013ء)

U.S.Capitol Hill میں حضور انور کی آمد

سال 2012ء میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی امریکہ تشریف آوری پرآپ کے اعزاز میں U.S.Capitol Hill کے مشہور ہال Gold Room میںایک تاریخ ساز تقریب کا انعقاد ہوا۔امریکہ کی پارلیمنٹ جوکہ House of Representativesکہلاتی ہے اور ایوان بالا سینیٹ کے اجلاسات کیپیٹل ہل کی عمارات میں ہوتے ہیں۔یہاں کے ممبر پارلیمنٹ کانگریس مین (Congressmen) کہلاتے ہیں۔ امریکن حکومت کے تمام اہم دفاتر اور ادارے انہی عمارات میں واقع ہیں۔ اس تقریب میں 29 سینیٹرزکے علاوہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، وائٹ ہائوس اورپینٹاگون(Pentagon)کے نمائندوں think tank، ہیومین رائیٹس کی تنظیموں کے نمائندے،کالجز اور یونیورسٹیز کے پروفیسرز، مختلف ممالک کے سفرا ء، مندوبین اور متعدد دیگر اہم افراد شامل ہوئے۔

اتنے زیادہ کانگریس ممبر ز کو ایک ساتھ نہیں دیکھا

ایک کانگریس مین Ellison کے چیف آف سٹاف نے کہا کہ اسے یہاں پر کام کرتے ہوئے 15سال ہوگئے ہیں اور اس نے آج تک دس سے زیادہ کانگریس ممبرز کو کسی پرائیویٹ تقریب میں اکٹھے نہیں دیکھا اور اگر کبھی آ بھی جائیں تو دس پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں ٹھہرتے۔ اس کے علاوہ یہاں سیاسی رقابت بہت ہے اور یہ لوگ ایک جگہ اکٹھا ہونے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضورانور ایدہ اللہ کے وجود کی برکت تھی کہ ایک بڑی تعداد میں سینیٹرز اور کانگریس مَین نہ صرف شامل ہوئے بلکہ آخر تک بیٹھے رہے اور پھر یہ آپس کی سیاسی رقابتیں بھی بھول گئے۔(ماخوذاز الفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یورپ اور امریکہ کے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے طیاری کررہے ہیں اوروہ اس سلسلہ کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسا کہ ایک سخت پیاسا یا سخت بھوکا جو شدّت بھوک اور پیاس سے مرنے پر ہو اور یکدفعہ اس کو پانی اور کھانا مل جائے۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21صفحہ 107)

مشہور امریکی پادری جان ہنری بیروز (John Henry Barrows) جوکسی زمانے میں شکاگو یونیورسٹی میں مذاہب عالم کے پروفیسر رہ چکے تھے انہوں نے 1896ء میں ہندوستان کا دورہ کیااور مختلف شہروں میں متعدد لیکچرز دیےجو Barrows Lecturesکے نام سے شائع شدہ ہیں۔ یہ پادری صاحب عیسائیت کی ترقی اور اُس کی مقبولیت کے نشہ میں اتنے پرجوش تھے کہ ایک موقع پر انہوں نے اسلام کا ذکر نہایت حقارت آمیز الفاظ میں کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ’’اسلام ایک مشرقی مذہب ہے یہ مغرب کی فضا میں سانس نہیں لے سکتا اور نہ ہی یہ ہمارے مغربی ذہنوں کو کسی صورت راس آسکتاہے۔‘‘(Barrows Lectures page 21)

خدا تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ چند ہی سال بعد ایک اور امریکن مشنری ایچ کریمر قادیان آئے۔انہوں نے اپنی آنکھوں سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ دین اسلام کی ترقی،اس کی ترویج واشاعت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عظیم روحانی انقلاب کو ملاحظہ کیا تو برملا اعتراف حق کرتے ہوئے یہ لکھنے پرمجبور ہوگئے کہ’’ان لوگوں میں قربانی کی روح اور تبلیغ اسلام کا جوش اوراسلام کے لئے سچی محبت کو دیکھ کر دل سے بے اختیار تعریف نکلتی ہے … مَیں جب قادیان گیا تو مَیں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ اسلامی جوش میں اسلام کی آئندہ کامیابی کی امیدوں سے سرشار ہیں۔‘‘(مسلم ورلڈ اپریل 1931ء بحوالہ سلسلہ احمدیہ حصہ اوّل صفحہ 300)

سینیٹر اور کانگریس مین سے ملاقات

عمارت کے اندر آنے کےبعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کمرہ نمبر B-329 میں تشریف لائے جہاں سینیٹر Casey، کانگریس مین Sherman اور کانگریس مین Honda نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی۔کانگریس مین Honda حضور انور سے ملاقات کے لیے آئے تو انہوںنے اپنے گلے میں خدام الاحمدیہ والا رومال پہناہوا تھا۔ سینیٹر Caseyنے دوران ملاقات کہا کہ حضور انور کا امن، رواداری اور وفاداری کا پیغام بہت اچھا ہے اور ہم حضور کے شکر گزار ہیں۔ کانگریس مین Shermanنے بتایا کہ وہ حضور انور کا بہت مداح ہے۔(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ء صفحہ2)

چند اہم شخصیات کے تاثرات

کسی تقریب کا کسی اہم جگہ پر منعقد ہونا اس کی اہمیت پر اتنا دلالت نہیں کرتا جتنا یہ بات کرتی ہے کہ اس میں شاملین نے کیا حاصل کیا اور اس سے ان کے دلوں پر کیا اثر ہوا۔

چنانچہ اس پروگرام کا آغاز ہوتے ہی پہلے مقرر سینیٹر Robert Casey نے سٹیج پر تشریف لاکرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خیر مقدم کیا اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ’’آج حضور کی یہاں آمد کے طفیل ایوان بالا یعنی Senate اور ایوان زیریں یعنی House of Representativesکے نمائندے اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں جو عام طور پر کبھی نہیں ہوتا۔موصوف نے کہا ہم حضور انور کی عظیم لیڈر شپ اور آپ کے امن وسلامتی اور رواداری کے پیغام کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور آج آپ کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ءصفحہ 2)

بعدازاں کانگریس مَین Hon. Brad Shermanنے دنیا میں امن کے قیام کے لیے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ ہم حضور کے امن، رواداری اور بھائی چارہ کے کام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو آپ ساری دنیا میں کررہے ہیں۔ موصوف نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جماعت امریکہ نے 11؍ستمبر 2001ء کے واقعہ پر دس سال گزرنے پر جو مختلف پروگرام ہوئے ان میں اپنے ایک مسلم فار لائف (Muslim for Life)پروگرام کے تحت 12ہزار بلڈ یونٹ (Blood Unit)اکٹھے کئے جو ایک بہت بڑی خدمت ہے اور اس سے ملک کی مدد ہوئی۔(الفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ءصفحہ 2)

کانگریس مین Sherman نے اپنے خطاب کے آخر میں حضور انور کی خدمت میں Congressional Flag پیش کیا۔ یہ امریکہ کا جھنڈا ہے جس کو Capitol Hillکی عمارت پر لہرایا گیا تھا۔ یہ خاص مہمانوں کی عزت افزائی کے لیے دیا جاتا ہے۔(الفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ءصفحہ 14)

آنریبل Dr.Katrina Lautos Sweet نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ Dr.Katrina امریکی حکومت کے ادارہ United States Commission for International religious Freedom کی چیئرپرسن ہیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا Capitol Hillمیں آمد کا سن کر موصوفہ نے جماعت سے درخواست کی تھی کہ وہ آج کے اس Eventکو Co-Sponsorکرناچاہتی ہیں۔ڈاکٹر کترینہ نے بتایا کہ احمدی یہ تقریب اپنے کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے نہیںکررہے بلکہ خلیفۃ المسیح دنیا میں امن کے قیام کے خواہاں ہیں اور اس تقریب کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا میں امن قائم ہوسکے۔ جماعت اس کے بدلہ میں کسی چیز کی خواہاں نہیں ہے۔(الفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ءصفحہ14)

امریکی کانگریس کا ریزولیوشن

یہ بھی تو تقدیر الٰہی ہی ہے کہ امریکہ اُسی عیسائی پادری John Henry Barrowsکا ملک ہے جس نے 1886ء میں یہ اعلان کیا تھا کہ’’اسلام ایک مشرقی مذہب ہے یہ مغرب کی فضا میں سانس نہیں لے سکتا اور نہ ہی یہ ہمارے مغربی ذہنوں کو کسی صورت راس آسکتاہے۔‘‘ اب اُسی ملک کی کانگریس خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی آمد پر ایک ریزولیوشن پیش کرتی ہے اور دنیامیں امن کے قیام، عدل، انصاف، انسانی حقوق کے قیام، جمہوریت اور مذہبی آزادی کے لیے آپ کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے امریکہ میں خوش آمدید کہتی ہے۔یہ ریزولیوشن بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور عام طور پر صرف خاص مقاصد کے لیے دی جاتی ہے۔بہت کم مذہبی راہنما ہیں جن کے لیے اس قسم کی ریزولیوشن دی جاسکتی ہے۔ یہ ریزولیوشن امریکی کانگریس کی طرف سے انتہائی عزت افزائی سمجھی جاتی ہے۔یہ ریزولیوشن 27؍جون 2012ء کو کمیٹی میں پیش کی گئی تھی۔چنانچہ Golden Room میں منعقد ہونے والی اس اہم تقریب کے دوران Congress Woman آنریبل Zoe Lofgren نے سٹیج پر آکر House Resolution No.704 کا متن پڑھ کرسنایا۔اس ریزولیوشن کے چند نکات ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔

٭… عالمگیر جماعت احمدیہ کے روحانی سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو واشنگٹن ڈی سی میں خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ کی دنیامیں امن کے قیام، عدل، انصاف، انسانی حقوق کے قیام، جمہوریت اور مذہبی آزادی کے لیے کوششوں کو تسلیم کرتے ہیں۔

٭…یہ قرارداد تسلیم کرتی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح مسلمانوں کے ایک نمایاں لیڈر ہیں جو قیام امن کے لیے خطبات، لیکچر، کتب اور ذاتی ملاقاتوں میں خدمت انسانیت کے لیے احمدیہ اقدار، عالمگیر انسانی حقوق کے قیام اور امن وعدل والے معاشرہ اور سوسائٹی کے قیام کے لیے ہردم کوشاں ہیں۔

٭…یہ قرار داد اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ احمدیہ مسلم جماعت نے با رہا مصائب اور مظالم کا سامنا کیاہے۔ جس میں یہ لوگ ظلم تشدد اور امتیازی بدسلوکی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

٭…یہ قرارداد اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد جو احمدی مسلمانوں پر ہورہا ہے اس کے باوجود عزت مآب (حضور انور) نے اپنے پیروکاروں کو کسی بھی قسم کا جوابی تشدد کرنے سے روکا ہوا ہے۔

٭… یہ قرارداد اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہے کہ حضورانور جب دنیا کے مختلف ممالک کے دورہ میں ممالک کے صدران، وزرائے اعظم، ملکوں کے سفراء اور دیگر پارلیمانی شخصیات کو ملتے ہیں تو ان میں خدمت انسانیت کے جذبہ کو اجاگر کرتے ہیں اور خدمت انسانیت کے لئے عملی قدم اٹھاتے ہیں۔

٭…27؍جون 2012ء کو حضور انور کیپیٹل ہل کی بلڈنگ Rayburnمیں ایک تقریب میں Keynoteایڈریس پیش کریں گے جس کا عنوان ہے The Path to Peace: Just Relations Between Nations

٭…پس کانگریس یہ قرارداد پاس کرتی ہے کہ وہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کا واشنگٹن ڈی سی میں استقبال کرتی ہے۔ آپ کے قیام امن اور قیام انصاف کی کوششوں کا اعتراف کرتی ہے اور اس بات کا بھی اعتراف کرتی ہے کہ آپ اپنی جماعت کو باوجود ان پر سخت مظالم اور Persecutionکے انہیں امن سے رہنے اور صبر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ءصفحہ14)

سا بق سپیکر آنریبل Nancy Pelosiکا خطاب

اس تقریب میں امریکن پارلیمنٹ کی سابق سپیکر آنریبل Nancy Pelosi نے بھی خطاب کیا۔Nancy Pelosi پریذیڈنٹ Obama کے خاص ساتھیوں میں سے سمجھی جاتی ہیں۔سال 2010ء تک یہ House of Representativesیعنی امریکن پارلیمنٹ کی سپیکر تھیں۔موصوفہ کی اسی دوران ایک اور میٹنگ تھی لیکن اپنی چیف آف سٹاف جو اس کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھی کی طرف سےکئی مرتبہ یاددہانی کے باوجود اپنی اگلی میٹنگ پر نہ گئیں اور نہ صرف یہ کہ میٹنگ پر نہ گئیں بلکہ خود درخواست کرکے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بالکل سامنے آکر بیٹھ گئیں تاکہ حضور انور مکمل طور پر نظر آسکیں۔ پھر انہوںنے وہاں بیٹھ کر مکمل تقریر سنی۔اپنی تقریر میں Nancy Pelosi نے حضور انور کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور خاص طورپرذکر کیاکہ حضور پاکستان کے Anti-Ahmadiyya قوانین کی وجہ سے اسیر راہ مولیٰ رہ چکے ہیں اور آج کل انگلستان میں مقیم ہیں۔

Nancy Pelosiکے ایڈریس کے بعدجب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطاب کے لیے ڈائس پر تشریف لائے تو تمام مہمان احتراماً کھڑے ہوگئے اور دیر تک ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔(ماخوذ ازالفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ء صفحہ 14تا15)

حضور انور کا خطاب وسیع پیمانے پر شائع ہونا چاہیے

حضور انور کے خطاب کے بعد ممبر آف کانگریس Keith Ellison نے کہا :حضور انور کے خطاب کا ان پر بہت اثر ہوا ہے۔ امن اور عدل کے بارے میں حضورانور نے جس طرح دینی تعلیمات پیش کی ہیں وہ بہت ہی خوبصورت ہیں۔ حضور انور کا خطاب شائع کرکے وسیع پیمانہ پر تقسیم کیا جانا چاہیے۔بعدازاں ریڈیو کے ایک نمائندے کو انٹرویودیتے ہوئے Mr.Keith نے کہا کہ حضور جیسا اعلیٰ روحانیت کے درجہ پر فائز مسلمان لیڈر آج امت مسلمہ کی ضرورت ہے اور فرقوں میں بٹے ہوئے مسلمانوں کے لئے حضور کا وجود برکتوں کا موجب ہے۔موصوف نے کہا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دین میں کوئی جبر نہیں ہے اور سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی صحیح تعلیمات بابت امن وعدل کو سمجھیں۔(الفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ء صفحہ 17)

کانگریس میں حضور انور کا خیر مقدم

اس پروگرام کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اور قافلے کے تمام ممبران کو کانگریس کی Visitor`s Gallery میں لے جایا گیا جہاں اس وقت کانگریس کا اجلاس ہورہا تھا۔ کانگریس کے اجلاس کے دوران کانگریس مَین آنریبل Sherman سپیکر کی اجازت سے ڈائس پر آئے اور کانگریس کی طرف سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خیر مقدم کیا اور حضور انور کا تعارف کروایا اور بتایا کہ حضورانور امن کے علمبردار ہیں اور ساری دنیا میں امن کے قیام کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ کانگریس کے اجلاس کے دوران، حضور انور کا یہ خیر مقدمT.V چینل C-Spanکے ذریعہ سارے ملک میں Live دکھایا گیا۔(ماخوذ ازالفضل انٹرنیشنل 24؍اگست 2012ء)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے کیا خوب فرمایا ہے :’’میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔ اس زمانہ کا حِصنِ حصین مَیں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے! اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ ‘‘(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 34)

پس موجود ہ حالات میںدنیا کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ اس وقت اُن کے تمام مسائل کا حل اگر کسی کے پاس ہے تو وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نمائندے اور خدا تعالیٰ کے تائید یافتہ خلیفۂ وقت کے پاس ہے۔

اے محبت کے بادشاہ ترا

حکم چلتے دلوں پہ دیکھا ہے

ایک وقت تھا کہ اسلام یورپ کے لیے سخت ناپسندیدہ مذہب تھا لیکن اب یہ صورت حال دن بدن تبدیل ہورہی ہے۔خدا تعالیٰ نے ہمیں ہماری زندگیوں میںیہ دن دکھادیے ہیں کہ اسلام کی پُر امن تعلیم نے یورپ کے نیک فطرت لوگوں کومتاثر کرنا شروع کردیا ہے اور وہ اسلام کی آغوش میں پناہ گزیں ہونے کے لیے تیار ہیں۔اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑافضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمیں ایک ایسے عظیم راہنماسے نوازا ہے جس کی باتیں غیروں کے دلوں میں محبتوں کے چراغ روشن کررہی ہیں اور غیر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیںکہ جماعت احمدیہ بہت خوش نصیب ہے کہ ان کو ایسا عظیم راہنما ملا ہے۔

پس اسلام کی ترویج واشاعت، اُس کی ترقی اورحضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺکے امن وآشتی کے جھنڈے کو پوری دنیا میں لہرانے کے لیے اسی فدایانہ جذبے کی ضرورت ہے جو زندہ قوموں کا طرۂ امتیازہوتاہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button