مضامین

عرب سپرنگ کے دنیا پر اثرات اور خلافت احمدیہ کی راہنمائی

(محمد لقمان مجوکہ۔ جرمنی)

جس پہلو سے بھی عرب سپرنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو دیکھیں تو ہر پہلو سے ہی خلافت احمدیہ حکمرانوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور عوام کو امن قائم رکھنے اور اپنے اپنے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتی نظر آتی ہے تاکہ مسلمان و عرب عوام کے مسائل کا حل نکلے اور دنیا میں امن کا قیام ہو

طرابلس کا میدان شہداء یا میدان الاخضر ہر سال یکم ستمبر کے موقع پر خوب سجایا جاتا تھا جہاں اس رو ز کرنل قذافی کے 1969ء میں لائے گئے انقلاب کی خوشی میں فوجی پریڈ اور جدید اسلحہ کی نمائش بڑے شان و شوکت سے کی جاتی۔سال کے باقی دنوں میں اکثر طرابلس کے شہری اس جگہ چہل قدمی کرنے اور تفریح کے لیے آیا کرتے تھے۔ میدان کے ساتھ پرانا قلعہ اور سمند رکا دلکش منظر میری بچپن کی حسین یادوں میں سے ایک ہے۔اس وقت شہر کی مختلف عمارتوں پر کرنل قذافی کی آویزاں تصاویر گویا ہر شہری پر کڑی نظر رکھے ہوئے یہ یاد دلاتی تھیں کہ لیبیا کا یہ ڈکٹیٹر مقتدر العنان حکمران ہے۔اپنے چالیس سالہ دَور اقتدار میں قذافی نے جہاں تیل کی دولت سے ایک طرف معاشی اور معاشرتی ترقی کی بنیاد رکھی تو دوسری طرف ایک جابر حکمران بن کر اپنے تسلط کوبزورطاقت قائم رکھا ،جہاں شہری ہر وقت خفیہ ایجنسیوں مخابرات کے ڈر سے سیاسی اور مذہبی گفتگو سے اجتناب کرتے تھے۔ ہر شخص جو قذافی کے نظریات سے اختلاف کرتا اسے جیل یا موت کا سامناکرنا پڑتا۔ طرابلس سے کچھ باہر ابو سلیم کی جیل میں 90 کی دہائی میں سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو بے دردی سے اسی لیے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔بین الاقوامی طور پر بھی ایک غیر مستحکم خارجہ پالیسی ، ہمسائے ممالک میں سیاسی مداخلت اور مختلف انقلابی تحریکوں کی پشت پناہی اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کی وجہ سے لیبیا دنیا میں ایک rouge state کے طور پر مشہور ہوا۔ 1988ء میں اسی قسم کے ایک بم حملہ کے بعد جب امریکہ کی طرف سے طرابلس اور دوسرے شہروں پر بمباری کی گئی تو اس میں بھی زیادہ تر نقصان عام شہریوں کو ہوا۔ معاشی پابندیوں کی وجہ سے 90 کی دہائی میں جہاں ایک طرف عام عوام کے حالات زندگی مزید خراب ہوئے تو دوسری طرف قذافی کے بیٹے یورپ میں اپنی عیاش طرز زندگی کی وجہ سے بار بار بین الاقوامی پریس کی شہ سرخیوں میں آتے رہے۔ عوام اور حکمران میں خلیج بڑھتی گئی۔ 2011ء کے بعد یہ تمام منظر بدلنا شروع ہوا۔ طرابلس کی گلیوں میں پہلے جلوس اور پھر جنگجو نظر آئے اور ایک خوفناک خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں حکومت اور باغی سب نے اقتدار کی ہوس میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جانیں لیں اور کئی شہر تباہ کیے۔ اس پر مزید یہ کہ بیرونی ممالک نے بھی اپنے مقاصد کے لیے مختلف گروہوں کی پشت پناہی کر کے خانہ جنگی کو مزید طول دے کر افریقہ کے سب سے ترقی یافتہ ملک کو ایک ناکام ریاست بنا کر رکھ دیا۔40 سال سے زائد عرصہ اقتدار میں رہنے والا قذافی اپنے عوام کے ہاتھوں ہی بڑی بے دردی سے مارا گیا۔ آج 11 سال بعد بھی لیبیا میں قبائلی اور سیاسی تفرقہ بازی کے باعث امن کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔یہ سب عر ب سپرنگ کے نتائج ہیں۔ جس نے لیبیا سمیت تمام عرب دنیا میں ایک تہلکہ مچایا۔ اس کا آغاز لیبیا کے ہمسائے ملک تیونس میں بظاہر ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہوتا ہے۔

عرب سپرنگ کی وجوہات

16؍دسمبر 2010ء کی صبح ہرروز کی طرح طارق طیب محمدبن بوعزیزی اپنی سبزیوں اور پھلوں کی ریڑھی کو سڑک کے کنارے لگائے کھڑا تھا تاکہ شام تک کچھ رقم اپنے غریب خاندان کے گزارے کے لیے کما لے۔مگر مختلف رپورٹوں کے مطابق اس دن حسب معمول پولیس والوں نے اسے رشوت کی لالچ میں تنگ کرنا شروع کیا۔ جب بوعزیزی نے رشوت دینے سے انکار کیا تو پولیس نے اس سے بدتمیزی کرتے ہوئے اس کے معاش کی واحد سبیل اس ریڑھی کو ضبط کر لیا۔ اس پر جب بوعزیزی لوکل گورنر کے دفتر گیا اورشکایت کے غرض سے وقت مانگا توگورنر نے بھی بات سننے سے انکار کر دیا۔مایوسی اور غصہ میں غریب طارق بو عزیزی نے گورنر کے دفتر کے سامنے سڑک کے درمیان اپنے آپ کو آگ لگا کر خودسوزی کی اور کچھ دنوں بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔طارق بو عزیزی کی موت سے عوام میں، جو پہلے سے ہی معاشی بدحالی کی وجہ سے تنگ تھے، شدید غم و غصہ پیدا ہوا اور لوگوں نے کھلے عام حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیے۔ شروع کے پر امن احتجاج پر پولیس کی سختی سے مزید اشتعال پیدا ہوا اور وسیع پیمانے پر ملک گیر مظاہرے ہونے لگے۔ مظاہرین کا نعرہ الشعب یرید اسقاط النظام (عوام حکومت کو گرانا چاہتےہیں) عرب سپرنگ کا ماٹو بنا۔ تیونس کے صدر بن علی نے پہلے تو مفاہمت، سیاسی اصلاحات اور بےروزگاری کے ختم کرنے کے وعدے کیے، مگر جب اس کے باوجود عوامی احتجاج ختم نہ ہوا اور فوج میں ہی صدر کے خلاف بغاوت کے اثرات نظر آنے شروع ہوئے تو آخر کار ملک سے فرار کا راستہ اختیار کیا اور سعودیہ میں پناہ لی۔

تیونس میں اس طرح تبدیلی سے دوسرے عرب ممالک میں بھی حکمرانوں کے خلاف عوامی تحریکات کو تقویت ملی جیساکہ لیبیا، مصر، الجزائر، سوڈان، مغرب (مراکش)، عمان، وغیرہ میں۔اور یہ پہلی عوامی تحریک ٹھہری جس میں روایتی میڈیا پر حکومتی پابندیوں کے سبب سوشل میڈیا نے ایک کلیدی رول ادا کیا۔

جب عرب سپرنگ کے مظاہرے شروع ہوئے تو اکثر لوگوں اور تجزیہ نگاروں نے اس تحریک اورعوامی رد عمل کو غیر متوقع سمجھا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر رد عمل کے پیچھے ضرور کچھ دیرینہ اوامر کارفرما ہوتے ہیں جن کی طرف عموماً لوگوں کا دھیان نہیں ہوتا۔ اس لیے کوئی تحریک یا ردعمل یک دم پیدا نہیں ہوتا۔ اور ایسا ہی عرب سپرنگ کا معاملہ ہے۔

اس تحریک کے اٹھنے کی کئی وجوہات ہیں جن کی نشاندہی اس سے کئی سال پہلے بھی بار ہا ہو چکی تھی۔ مثلاً عرب دانشوروں نے 2009ء کی Arab Human Development Report میں توجہ دلائی تھی کہ عرب دنیا کی ترقی اور خوشحالی کو بہتر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل امور پر توجہ کی خاص ضرورت ہے

٭…موسمی تبدیلی کے عرب دنیا پر شدید اثرات کو کم کرنا جیسا کہ پانی کی قلت،زرعی زمین کی دستیابی، اناج کی پیداوار میں کمی وغیرہ

٭…بنیادی حقوق اور وسائل تک تمام عوام کی رسائی، خاص طور پر مظلوم طبقہ مثلاً عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ

٭…معاشی پالیسی میں بہتری اورصرف تیل کی پیداوار پر انحصار میں کمی تاکہ ایک کثیر الجہت معیشت کی بنیاد پڑے، جس سے نوجوان نسل کے لیے بھی کام کے زیادہ مواقع پیدا ہوں خاص طور پر اس پس منظر میں کہ عرب عوام کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

٭…غذا کی کمی کو دور کرنا اور فوڈ سیکیورٹی کے لیے انتظام کرنا تاکہ بھوک کا مقابلہ کیا جا سکے۔

٭…حفظان صحت کا بہتر انتظام کرنا۔

٭…آپس کے سیاسی تنازعات کو ختم کرنا جس میں بین الاقوامی اور علاقائی طاقتیں بھی دخل اندازی کرتی ہیں۔

(Arab Human Development Report 2009 Challenges to Human Security in the Arab Countries)

گویا ان امور کو عرب اقوام کی بقا اور مستقبل کے لیے بنیادی قرار دیا گیا۔ اگر غور کیا جائے تو عرب سپرنگ بنیادی طور پر اوپر بیان کی گئی وجوہات کی ہی وجہ سے شروع ہوا۔ تیونس میں احتجاج معاشی بدحالی اور حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف تھا۔یہی حال لیبیا یا مصر اور دوسرے عرب ممالک میں ہوا جہاں معاشی بد حالی کے علاوہ بنیادی حقوق کی سلبی عوام میں بے چینی کا موجب بنی۔ اس لیے اس تحریک کو غیر متوقع قرار دینا غلط ہو گا۔ اس کے اثرات پہلے بھی نظر آ رہے تھے۔ مگر اس کی پیش بندی نہیں کی گئی۔نوجوان نسل میں بڑھتے ہوئے تعلیمی معیار کے باوجود اپنے ممالک میں روزگار کا نہ ملنا، ایک مایوسی اور غیر یقینی صورت حال کو فروغ دیتا رہا جبکہ معاشی طور پر دن بدن عوام کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی۔ اس کے باوجود حکمرانوں نے اس طرف توجہ نہ دی بلکہ اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور قومی اموال سے اپنی جیبیں بھرنے میں لگے رہے۔ اگر کہیں احتجاج ہوا تو اس کو طاقت کے زور سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح ایک لاوا اند ر ہی اندرپکتا رہا اور بظاہر ایک معمولی ریڑھی والے کی خودسوزی سے پھوٹ پڑا اور پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

جب احتجاج پر متعدد عرب ڈکٹیٹروں نے فوج اور سیکیورٹی فورسز کے ذریعے عوام کو دبانے کی کوشش کی اورسینکڑوں پُر امن مظاہرین کو مار دیا گیا توپُر امن احتجاج مسلح شورش میں بدلنے شروع ہوئے اور اس طرح پیدا ہونے والے نئے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے نئےسیاسی ، مذہبی اور قبائلی دھڑے اپنے اپنے عزائم لے کر ابھرے۔ حکومتوں کو گرانے اور اقتدار کی کشمکش میں ہر گروہ ملکی مفاد سے زیادہ اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش میں لگا رہا ، جبکہ بین الاقوامی طاقتیں بھی اپنے مفاد کی خاطر مختلف تنظیموں کو اسلحہ اور وسائل فراہم کرتی رہیں اور کر رہی ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال ملک شام ہے۔ عرب دنیا میں جب دہائیوں پرانی حکومتیں گرنی شروع ہوئیں تو ہر ملک میں بے یقینی اور افراتفری پھیلی۔ایسے سیاسی بحران سے ہر طاقت نے اپنے اپنے انداز سے فائدہ اٹھایا۔ مثلاًجب مصر میں حسنی مبارک کی حکومت بالآخر گری تو عام انتخابات میں رجعت پسند اخوان لمسلین اکثریت لے کر برسر اقتدار آئے جس سے علاقے میں مذہبی طبقہ اور شدت پسندی کو فروغ ملا۔خاص طور پر یورپین ممالک اس صورت حال سے ناخوش نظرآتے تھے۔جب اس کےکچھ عرصہ بعد فوج نے دوبارہ انقلاب لا کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس وقت دنیا میں کسی نے جمہوریت کے قیام کی بات نہ کی بلکہ آنے والی فوجی حکومت سے مفاہمت کر لی کیونکہ یہ ان کے اپنے مفاد میں تھا۔ ایسا ہی اب تیونس میں ہو رہا ہے۔ عام انتخابات کے بعد یہی توقع کی گئی تھی کہ اب وہاں ایک جمہوری نظام بنے گا مگر جب رجعت پسند مذہبی پارٹی النہدیٰ بر سر اقتدار آئی تو طاقت کے حلقوں میں اندر ہی اندر ایسی سیاسی پارٹی سے نجات حاصل کرنے کے لیے طریق ڈھونڈے گئے جس کے آخر میں تیونس کے اس وقت کے صدر نے جمہوری اور پارلیمانی نظام کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر کے اپنی حکمرانی قائم کر لی ہے۔

عرب سپرنگ اور بین الاقوامی جیو سٹریٹجی

عرب سپرنگ کا ایک پہلو دنیا کے مختلف ممالک کا اس تحریک میں دخل اندازی ہے۔چنانچہ لیبیا اب عملاً دو بڑے دھڑوں بنغازی اور طرابلس کے حکمرانوں میں تقسیم ہے۔ بنغازی میں قائم حکومت کو مصر، امارات اور روس وغیرہ کی پشت پناہی حاصل ہے تو دوسری طرف طرابلس کی حکومت کی ترکی اور دوسرے یورپی ممالک مدد کرتے ہیں۔یہی حال شام یعنی سیریا کا ہے۔ روس اورامریکہ سرد جنگ کے دوران ہی مشرق وسطیٰ خطہ میں تیل، تجارتی راستے اور گرم پانیوں تک رسائی کی وجہ سے دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ علاقہ وسیع تر جیو سٹریجک نقطۂ نگاہ سے دنیا میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد 21 ویں صدی کے وسط تک مشرق وسطیٰ عموماً مغربی استعماری طاقتوں کے قبضے میں رہا۔جس کے اکثر علاقے انگلستان اور فرانس کے مابین تقسیم کیے گئے تھے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یہاں آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں تو بھی مغربی دنیا کی یہ کوشش رہی کہ اپنا اثرو رسوخ اس علاقے پر قائم رکھیں۔ دوسری طرف روس ایسی انقلابی تحریکات کی مدد کرتا رہا جو مغربی اثرو رسوخ کو کم کر کے اس کی طرف مائل ہوں جس کی ایک صورت 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں ابھر نے والی کئی عرب ممالک میں عرب سوشلزم کی تحریکیں اور فوجی انقلابات تھے مثلاً مصر، شام، لیبیا وغیرہ میں۔جبکہ دوسری طرف سعودیہ ، اردن اور خلیج کے اکثر ممالک امریکہ کے طرف دار رہے۔ 2011ء تک عموماً یہی صورت حال رہی۔ دیوار برلن کے گرنے کے بعد روس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جب امریکہ نے 2003ء میں عراق میں حکومت کا تختہ الٹا یا تو اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں روس کا اثرو رسوخ کم ہونا شروع ہوا۔ 2011ء کے عوامی انقلابات کے نتیجے میں اس میں مزید کمی آئی۔ خاص طور پر یہ کشمکش شام میں کھل کر سامنے آئی جہاں روس کا بحری بیڑا لتاکیا کی بندرگاہ میں مقیم ہے۔ اگر وہاں پر عرب سپرنگ کے نتیجے میں حکومت بدلے تو روس مشرق وسطیٰ میں اپنے واحد بیڑے کو رکھنے کی بندرگاہ کھو دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب سپرنگ کے تناظر میں روس نے اپنے حلیف حکمران بشارالاسد کی بھر پور عسکری اور مالی مدد کی جب تک کہ باغیوں سے اکثر علاقے واپس نہ چھین لیے۔ اس دوران عام شہریوں کو جن مظالم کا سامنا کرنا پڑا یہ ایک الگ داستان ہے۔ دوسری جانب کئی مسلمان ممالک سمیت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک جمہوریت کے نام پر ایسی تنظیموں کی پشت پناہی کرتے رہے جو ان کے مفادات کو تقویت دیتی ہیں۔ اسی طرح شام کے ہمسایہ ممالک سعودیہ ، ترکی یا ایران وغیرہ بھی اپنے مفادات کی خاطر دخل اندازی کر رہے ہیں۔ نتیجۃً یہ ایک ایسی خوفناک جنگ ہے جوختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی جس میں اب تک لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔

شام کی آدھی آبادی مہاجر بن کر دوسرے ممالک یا اپنے ہی ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی اور اس افراتفری کے ماحول میں داعش جیسی تنظیم نے جنم لیا جن کا واحد مقصد دنیا میں دہشت اور خوف پھیلا کر اپنا اقتدار قائم کرنا تھا۔ زمانہ جدید میں کم ہی مثالیں ایسی وحشیانہ مظالم کی ملیں گی جو داعش نے اپنے مخالفین، عام شہریوں اور مذہبی اقلیتوں پر ڈھائے۔ داعش کا خاص طور پر ہدف مذہبی اقلیتیں مثلاً یزیدی مذہب کے پیروکار یا شیعہ مسلمان رہے۔

عرب سپرنگ اور شدت پسندی

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ عرب سپرنگ کے نتیجے میں اکثر عرب ممالک میں سیاسی خلا پیدا ہوا جس سے شدت پسندی کو پنپنے کا موقع ملا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس میں ایک وجہ تو یہ ہے کہ جنگ افغانستان کے بعد وہ دہشتگرد عناصر جو عرب ممالک سے افغانستان جا کر لڑتے رہے تھے اپنے آپ کو کافی حد تک منظم کرنے میں کامیاب رہے۔ جس کی ایک صورت القاعدہ کی تنظیم تھی۔ ستمبر 2001ء میں انہیں لوگوں کی طرف سے امریکہ پر حملہ کرنے کے نتیجے میں دنیا میں غلط طور پر ’’اسلامی دہشتگردی ‘‘کی اصطلاح وجود میں آئی۔امریکہ اور نیٹو (NATO)کی افغانستان میں طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے بعد ان میں سے کئی لوگ واپس اپنے ممالک لَو ٹے۔جب مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ پر امن احتجاج سے مسلحہ شورش میں بدلنا شروع ہوا تو ایسے شدت پسند عناصر نے جو پہلے ہی فوجی تربیت اور تجربہ رکھتے تھے جلد ہی مذاحمت کی قیادت سنبھال لی۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 2003ء میں عراق میں امریکی افواج کے قبضہ کے بعد شدت پسند تنظیموں نے ملک کے مغربی حصہ میں از سر نو اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا جہاں زیادہ تر ایسے سنّی قبائل آباد تھے جنہیں ملک کی نئی شیعہ اکثریتی حکومت سے کافی شکایات تھیں۔ ان عناصر نے عراق میں دولت اسلامیہ نام کی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ عرب سپرنگ جب سیریا پہنچا اور مرکزی حکومت کی عملداری عراق سے منسلک سرحدی علاقوں میں کمزور بلکہ ختم ہو گئی تو داعش نے صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرحد پار سیریا کے علاقے میں بھی کارروائیاں کر کے اپنی حکومت قائم کر لی ،جس سے ان کی عسکری صلاحیت بڑھی۔ 2014ء میں ابو بکر البغدادی کے موصل شہر پر قبضہ اور اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا کہ اب دنیا میں ایک ’’اسلامی حکومت‘‘قائم ہو گئی ہے اور تمام دنیا سے مسلمان اس حکومت میں شامل ہونے کے لیے ان علاقوں کا رخ کریں۔چنانچہ اس دہشت گرد تنظیم میں شمولیت کی خاطر کئی لوگ اس پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر سیریا اور عراق آئے۔ نئی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ خاص طور پر یورپ سے وہ نوجوان داعش کے جھانسے میں آئے جن کو معاشی تنگی اور identity crisis یا دیگر مشکلات کا سامنا تھا اور بہت سرسری طور پر ہی اسلامی تعلیمات سے واقف تھے۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے Islamistische Radikalisierung Biografische Verläufe im Kontext der religiösen Sozialisation, Wiesbaden 2018)

داعش نے ایسے لوگوں کو ترقی کے نئے مواقع اور کسی حد تک بہتر معاشی صورت حال کا وعدہ کیا۔ ان میں سے کئی جنگ میں کام آگئے یا پھر داعش کی شکست کے وقت اپنے اپنے ملکوں میں واپس بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ ان میں سے کئی اس وقت جیل میں قید ہیں یا دہشت گردی کے جرائم میں مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

غرض داعش کے آنے سے نہ صرف مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی دہشت گردی بڑھی اور اب تک اس کے اثرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔ داعش گو کہ سیریا اور عراق میں عسکری طور پر مکمل شکست کھا چکی ہے مگر اس کی سوچ اور اس سے متاثر متعدد گروہ افغانستان، لیبیا، نائیجیریا اور مالی وغیرہ ممالک میں آج بھی اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

دوسری بات جو اس ضمن میں قابل ذکر ہے وہ کثیر تعداد میں مشرق وسطیٰ کےجنگ زدہ علاقوں سے مغربی ممالک میں ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کی ہے۔ تھوڑے عرصے میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی یورپی ممالک میں ہجرت کرنے سے ایک نیا بحران پیدا ہوا۔ شروع میں تو جرمنی جیسے ممالک نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے پناہ گزینوں کےلیے اپنے دروازے کھول دیے۔ مگر جب بعد میں بعض پناہ گزینوں کی طرف سے عورتوں کو جنسی ہراسانی اور دوسری غیر اخلاقی حرکات کی خبریں پھیلنا شروع ہوئیں تو عوام الناس کے رویہ میں بھی تبدیلی آئی۔ نتیجۃً مختلف مغربی ممالک میں ایک طرف مسلمانوں کے خلاف قانونی سختیاں کی گئیں تو دوسری جانب ایسی نئی سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں جن کا نصب العین مسلمانوں کو یورپ سے بے دخل کرنا تھا۔ آج بھی یہ پارٹیاں نہ صرف مختلف یورپی ممالک کی پارلیمنٹس میں موجود ہیں بلکہ نسلی تعصب اور اسلاموفوبیا کو اس قدر ہوا دی جس کے نتیجے میں دائیں بازو کے شدت پسند عناصر اور دہشت گرد پیدا ہوئے جنہوں نے مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں پر قاتلانہ حملے کیے۔

مختصر یہ کہ شروع میں معاشی بد حالی اور حقوق کے لیے شروع ہونے والا عرب سپرنگ 11 سال بعد نہ تو کوئی جمہوری نظام لایا نہ ہی معاشی بہتری یا سیاسی استحکام۔ عرب دنیا اس وقت پہلے سے بھی زیادہ بٹی ہوئی، طاقت اور اقتدا ر کی جنگ میں الجھی ہوئی اوربیرونی طاقتوں کے دارومدار پر ہے۔اور اب بھی عام عوام ہی اس افراتفری کے عالم میں مصائب اور مظالم کا شکار اور اس سے دوچار ہیں۔جہاں جمہوریت یا حقوق کے ملنے کی امید بھی تھی تو وہ بھی اب دم توڑتی نظر آتی ہے۔ عالمی طور پر اس سے دہشت گردی میں اضافہ اور بین الاقوامی طاقتوں کا آپس میں ٹکراؤ بھی بڑھا۔ اسی لیے بعض لوگ عرب سپرنگ کو اب عرب وِنٹر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

اس تمام پس منظر میں ہمیں شروع سے ہی خلافت احمدیہ عرب اور مسلمان ممالک کو بار بار راہنمائی اور نصیحت کرتے نظر آتی ہے۔ خلافت احمدیہ نے مسلمانوں اور خاص طور پر عرب اقوام کو ہمیشہ ہی اپنی روحانی اصلاح کے ساتھ ان کے دنیاوی مسائل کو حل کرنے کی بھی بار بار تجاویز اور مشورے دیے ہیں۔ چنانچہ 1940ء کی دہائی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فلسطین کے مسئلہ پر بار بار عرب اور مسلمانوں کو اکٹھا ہونے اور ان مشکلات کامل کر حل نکالنے کی طرف راہنمائی کی۔ آپؓ کی ان کوششوں کو بارہا عرب ممالک کی پریس میں بھی سراہا گیا۔ جب 1990ء کے اوائل میں عراق کی جنگ شروع ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے متعدد خطابات میں اس جنگ کے ہونے والے بد اثرات اور امت مسلمہ کو درپیش خطرات کی طرف توجہ دلائی۔ اسی طرح موجودہ دَور میں حضرت خلیفۃ المسیح لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر عرب اور مسلمان ممالک کو مخاطب کر کے نصیحتیں کیں تا کہ وہ مزید تباہی سے محفوظ رہنے کے لیے مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل نکالیں۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2006ء میں ایک خطبہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’اسلامی دنیا کو اس طرف کسی طرح توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ جماعت کے خلفاء نے ان کو ماضی میں بھی اس بارے میں سمجھانے کی کوشش کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے بڑی تفصیل سے سمجھایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 17-16سال پہلے سمجھایا لیکن ان لوگوں نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، کوئی وقعت نہیں دی۔ بلکہ دنیا کے ہر ملک میں احمدیت کی مخالفت پہلے سے زیادہ بڑھ کے ہونے لگی۔ اگر ہم کوشش کریں بھی تو اب بھی شاید ہماری آواز پر کوئی توجہ نہ دے۔ لیکن ہر احمدی کو دعا کے ساتھ ساتھ مسلمان اُمّت کو سمجھانا چاہئے کہ اُمّت کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے آپس میں ایک ہونے کی کوشش کرو۔ جو بھی زرخیز ذہن کے رہنما ہیں وہ مل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ مختلف وقتوں میں جو کوششیں ہوتی رہیں کہ مسلم اُمّہایک ہو جائے اور مسلمان ممالک کا خیال رکھے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم بھی قائم کی گئی لیکن پھر بھی ہر معاملے میں مغرب کے دست نگر ہیں۔ نہ عرب ایک قوم بن کر عربوں کو اکٹھا کر سکے یعنی اس طرح اکٹھا ہونا جس سے ایک طاقت کا اظہار ہو۔ نہ پھر بڑے دائرے میں مسلمان ممالک ایک ہو کر اپنی حیثیت منو اسکے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں…لیکن اہم وجہ جو ہے اُس طرف یہ لوگ آنا نہیں چاہتے یعنی جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔ اور یہ راہ اب اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانے بغیر ان کو مل نہیں سکتی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍مارچ 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍اپریل2006ءصفحہ6تا7)

عرب سپرنگ جب شروع ہوا تو اس وقت حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ میں اس حوالے سے اس تحریک کے محرکات کو بیان کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ مسلمان حکمران مال اکٹھا کرنے اور طاقت کے زور پر اپنی حکومتوں کو قائم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور عوام کے حقوق اور ان کی بہبود کی طرف توجہ نہیں، اسی لیے عوام الناس میں بے چینی پھیلی ہے اور اس کا رد عمل اب ظاہر ہورہا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’پس ایسے حالات میں پھر ایک ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے جو گو اچانک ظاہر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک نہیں ہوتا بلکہ اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہوتا ہے جو اَب بعض ملکوں میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے اور بعض میں اپنے وقت پر ظاہر ہوگا۔ جب یہ لاوا پھٹتا ہے تو پھر یہ بھی طاقتوروں اور جابروں کو بھسم کر دیتا ہے۔ اور پھر کیونکہ ایسے ردّ عمل کے لئے کوئی معین لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ اور مظلوم کا ظالم کے خلاف ایک ردّعمل ہوتا ہے۔ اپنی گردن آزاد کروانے کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کی جا رہی ہوتی ہیں۔ اور جب مظلوم کامیاب ہو جائے تو وہ بھی ظلم پر اُتر آتا ہے۔ اس لئے مَیں کہہ رہا ہوں کہ احمدی کو اسلامی دنیا کے لئے خاص طور پر بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ہر ملک اس لپیٹ میں آ جائے اور پھر ظلموں کی ایک اور طویل داستان شروع ہو جائے۔ خدا تعالیٰ حکومتوں اور عوام دونوں کو عقل دے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍فروری 2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍مارچ2011ءصفحہ5تا6)

جہاں حکمرانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی وہاں عوام کوبھی اپنے فرائض ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے یکم اپریل 2011 کے خطبہ جمعہ میں بڑی تفصیل سے اس موضوع کو کھولا اور مختلف احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال سے ثابت کیا کہ عوام الناس بغاوت یا فتنہ بازی سے پرہیز کریں۔ فرمایا:’’اِن احادیث میں اُمراء اور حکام کی بے انصافیوں اور خلافِ شرع کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن پھر بھی آپؐ نے یہ فرمایا کہ اِن کے خلاف بغاوت کرنے کا تمہیں حق نہیں ہے۔ حکومت کے خلاف مظاہرے، توڑ پھوڑ اور باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کا طرزِ عمل خلافِ شریعت ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍اپریل2011ءصفحہ5تا6)

مزید فرمایا:

اور دنیاوی حُکاّم کی بابت کیا تعلیم ہے؟ یہ بخاری میں ہی ہے۔ فرمایا کہ’’تم میرے بعد ایسے حالات دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ بے انصافی ہو گی‘‘۔… ’’تمہارے حقوق دبائے جائیں گے اور دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ اور ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم ناپسند کرو گے۔ صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ایسے حالات میں آپ ہمیں حکم کیا دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ اُن کا یعنی ایسے حکمرانوں کا حق اُنہیں دینا اور اپنا حق اللہ سے مانگنا‘‘۔(صحیح بخاری۔ کتاب الفتن۔ باب قول النبیﷺ سترون بعدی امورًا تنکرونہاحدیث نمبر7052)(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍اپریل2011ءصفحہ8)

معاشی کمزوریوں کی اصل وجہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں آپ ارشاد فرماتے ہیں:

’’خوفِ خدا نہ ہونے کی وجہ سے، خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے کی وجہ سے، نااہلی اور جہالت کی وجہ سے اور اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نہ ہی دولت کا صحیح استعمال اپنے ملکوں میں انڈسٹری کو ڈویلپ (Develop) کرنے میں ہوا ہے، نہ زراعت کی ترقی میں ہوا ہے۔ حالانکہ مسلمان ممالک کی دولتِ مشترکہ مختلف ملکوں کے مختلف موسمی حالات کی وجہ سے مختلف النوع فصلیں پیدا کرنے کے قابل ہے۔ یہ مسلمان ملک مختلف قدرتی وسائل کی دولت اور افرادی قوت سے اور زرخیز ذہن سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ مفادات اور ترجیحات مختلف ہیں، اس لئے یہ سب کچھ نہیں ہو رہا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍فروری2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍مارچ2011ءصفحہ6)

یہ وہ امر ہے جس کی طرف 2009ء کی Arab Human Development Report میں بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ معیشت کو کثیر الجہت بنانا اور زراعت یا انڈسٹری کو ترقی دینے سے ہی نوجوانوں کے لیے روزگا کے مواقع پیدا ہو سکتے تھے مگر حکمرانوں نے اس طرف بالکل توجہ نہ دی اور اس طرح خاص طور پر نوجوان نسل میں مایوسی بڑھی۔

عرب سپرنگ کے ابتدا میں دہشت گردی سے متعلق خبردار کرتے ہوئے فرمایا:’’دوسری جو خطر ناک بات ہے وہ یہ کہ اِن حالات سے مذہبی شدت پسند گروپ جو ہے وہ بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے بلکہ کر رہے ہیں۔…بڑی طاقتیں یہ کبھی برداشت نہیں کریں گی کہ بعض مخصوص علاقوں میں اُن کے مفادات متاثر ہوں۔…اور جیسا کہ مَیں نے کہا مسلمان ممالک کا المیہ یہ ہے کہ عموماً جو رہنما ہیں وہ قومی اور ملکی مفادات کی حفاظت کا حق ادا نہیں کرتے۔ اَنا اور تکبر اور ذاتی مفادات کی وجہ سے غیر کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں اور پھر مُلّاں چونکہ تقویٰ سے عاری ہے اس لئے یہ مفاد پرست سیاستدانوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ملکی امن اور دنیا کے امن کے لئے بہت زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ اور یہ صورتِ حال ایسی بھیانک بن رہی ہے جس کے لئے بہت فکر اور دعا کی ضرورت ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍فروری2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍مارچ2011ءصفحہ8)

یاد رہے کہ یہ خطبہ عرب سپرنگ کے شروع میں دیا گیا تھا جب شدت پسند گروہوں نے اس طرح اپنا سر نہیں اٹھایا تھا جیسا کہ بعد کے حالات میں ہوا۔ چنانچہ اگلے سالوں میں مختلف مذہبی انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں، جنہوں نے نہ صرف مشرق وسطیٰ اور مسلمان ممالک بلکہ مغربی دنیا میں بھی دہشت گرد حملے کیے اور ایسی تنظیموں سے جان چھڑانا دنیا کے لیے ایک وبال بن گیا اور بڑی دقت اور مشکل اور بھاری جانی نقصان کے بعد کسی حد تک ایسے دہشتگردوں کو عسکری طور پر شکست دینے میں کامیابی ہوئی جبکہ اب بھی کئی ایسے گروہ سر گرم دکھائی دیتے ہیں۔

اگلے سالوں میں حضور انور دنیا بھر میں مختلف مواقع پر سیاستدانوں، دانشوروں اور عوام الناس کو عرب سپرنگ سے پیدا ہونے والے حالات اور بد امنی کو ختم کرنے کے سنہرے اسلامی اصولوں سے آگاہ کرتے رہے اور توجہ دلائی کہ اگر ایسے حالات کو بہتر نہ کیا گیا تو دنیا مزید تباہی کی طرف جائے گی۔ اس ضمن میں 2012ءمیں اپنے دورۂ امریکہ کے دوران Capitol Hill میں اپنی تقریر میں حضور نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں امن اس لیے بھی قائم نہیں ہو رہا کیونکہ بعض عالمی طاقتوں کا اقوام متحدہ میں دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ اثرو رسوخ ہے جس سے عدل کی بجائے اپنے اپنے مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ مکمل غیر جانبداری سے کام لیتے ہوئے عدل قائم کیا جائے جو امن کی اصل بنیاد ہے۔( خطاب کیپیٹل ہل The Path to Peace: Just Relations between Nations)

2013ء میں شام کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے حضورانور نے پیس سمپوزیم کے دوران یہ معین تجویز دی کہ شام کے ہمسائے اسلامی ممالک مل کر ایک peace force ملک میں متعین کریں اور تمام فریقوں کو جنگ سے روکتے ہوئے امن قائم کریں۔ اور یہی وہ اصول ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے کہ جب دو مسلمان گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دوسرے مل کر ان کے درمیان صلح کروائیں۔(خطاب پیس سمپوزیم 2013ء)

داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے سد باب کے لیے 2016ء میں ٹورانٹو کی یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران آپ نے یہ حل بتایا کہ تمام ممالک کو ایسی تنظیموں کے مالی وسائل کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ان کی ہتھیاروں اور اسلحہ خریدنے کی قوت ہی ختم ہو جائے۔ آپ نے فرمایا:’’دہشت گرد تنظیمیں بھی بڑی تعداد میں ہتھیا ر اور بھاری اسلحہ اور مالی وسائل حاصل کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ داعش جیسے گروہ اتنےمالدار بن گئے ہیں؟ان کو اربوں ڈالر کہاں سے ملتے ہیں؟ان کی فنڈنگ کو اب تک ختم کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کی تیل کی تجارت اور اسلحہ خریدنے کی صلاحیت جاری ہے؟‘‘

اسی خطاب میں آپ نے جہاں دنیا اور خاص مسلمان ممالک کو ان کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی تو دوسری طرف اسلام کی پُر امن تعلیم کو پیش کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ د ہشت گرد اسلام کی تعلیم پر نہیں بلکہ اسلام کے نام کو بدنام کرتے ہوئے اپنے عزائم لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ فرمایا:’’ بطور ایک مسلمان سربراہ کے مجھے اس بات پر بہت دکھ ہے کہ اس وقت دنیا میں پھیلی ہوئی بد امنی نام نہاد مسلمانوں کے گرد مرکوز ہے اور اسے اسلام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ایک طرف اکثر جنگیں اور جانی نقصان ،مسلمان دنیا میں ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف نام نہاد مسلمانوں نے اپنی دہشتگرد نیٹ ورک مزید پھیلا کر مغرب میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ غلط طور پر اپنی نفرتوں اور بری حرکتوں کو اسلام کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ اسلام کی خدمت کی بجائے وہ سب اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں…میں اب آپ کے سامنے اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کروں گا جس کے بعد امید ہے کہ آپ یہ سمجھنے کے قابل ہوں گے کہ کیا یہ تفرقہ اور فساد جو آجکل دنیا میں دیکھا جا رہا ہے اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے یا اس سے دور ہونے کا نتیجہ ہے۔‘‘

(Justice in an Unjust World, York University Toronto 2016)

اس کے بعد آپ نے اسلام کی پر امن تعلیم پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی۔

کینیڈا کی پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران حضور نے مسلمان ممالک میں جاری خانہ جنگی پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر ہم مسلمان دنیا میں جاری تنارع کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ اصول کہ مل کر اُس کے خلاف قدم اٹھایا جائے جو امن کو تباہ کر رہا ہو، اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ اگر ہمسائے ممالک غیر جانبدارانہ انداز سے اپنے مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے صلح کی کوشش کرتے تو صورت حال پر بہت پہلے قابو کیا جا سکتا تھا۔ مگر یہ صرف مسلمان ممالک کی ہی غلطی نہیں ہے بلکہ ہمارے اس گلوبل ویلج میں موجود دوسرے ممالک نے بھی اس فساد میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اگر بڑی طاقتیں عدل کے تقاضے پورا کرتیں اور سنجیدگی سے اقدام اٹھاتیں تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی اور نہ ہی داعش یا دوسرے شدت پسند گروہ شام اور عراق میں ابھرتے۔ افسوس کہ بعض بڑی طاقتوں نے امن کے قیام کے لیے اپنا رول ادا نہیں کیا بلکہ اس کے الٹ ایسی غیر منصفانہ پالیسیوں کو اپنایا جو ان کے اپنے مفاد میں تھیں۔‘‘

(Human Values – The Foundation for a Peaceful World, Canada National Parliament 17.10.2016)

عرب سپرنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خانہ جنگی سے خاص طور پر مہاجرین کا بڑی تعداد میں یورپی اور دوسرے ممالک میں آنا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے بحران کے ضمن میں حضور انور نے 8؍ستمبر 2018ء میں جلسہ سالانہ جرمنی کے مہمانان سے خطاب کرتے ہوئے مہاجرین اور یورپی ممالک دونوں کو اپنے اپنے فرائض ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی تاکہ معاشرےکا امن برقرار رہے۔ فرمایا:’’کوئی پناہ گزیں کسی ملک میں یہ سمجھ کر نہ آئے کہ اسے اس کا استحقاق حاصل ہے بلکہ وہ اس بات پر غور کریں کہ وہ اس نئے ملک کو کیا واپس لٹا سکتےہیں۔ میں نے پہلے بھی متعدد بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مہاجرین کو ان ملکوں کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے انہیں اپنایا ہے۔ ان کو حکومت اور عوام کا شکر گزار ہونا چاہئے اور اس شکر گزاری کا ایک طریق یہ ہے کہ وہ وقت ضائع کئے بغیر حکومتی الاؤنس لینے کی بجائے معاشرہ میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ان کو محنت کر کے روزگار تلا ش کرنا چاہیے۔ چاہے وہ کوئی معمولی مزدوری کا کام ہو …ہر مسلمان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرما یا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے …مہاجرین کے بحران کے سلسلہ میں یہ بھی ہے کہ اگر کہیں پر لوگ اپنے ملکوں میں ظلم کا شکار ہوں تو بین الاقوامی کمیونٹی کا فرض ہے کہ وہ ان کی مدد کرے۔ سب سے پہلے تو یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ایسے ممالک میں جنگ ختم ہو اور دیر پا امن قائم ہو۔ مگر اگر یہ ممکن نہیں تو پھر یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اپنے دلوں کو کھولیں۔‘‘

(Muslim Migrants and Integration held at Jalsa Salana Germany, 8.9.2018)

غرض جس پہلو سے بھی عرب سپرنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو دیکھیں تو ہر پہلو سے ہی خلافت احمدیہ حکمرانوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور عوام کو امن قائم رکھنے اور اپنے اپنے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتی نظر آتی ہے تاکہ مسلمان و عرب عوام کے مسائل کا حل نکلے اور دنیا میں امن کا قیام ہو۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button