تعارف کتاب

’’خلیج کا بحران اور نظام جہانِ نو ‘‘پر طائرانہ نگاہ

(اواب سعد حیات)

آج اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کے پورے ہوتے بابرکت ارشادات

حضور ؒنےخداداد نہایت گہری نظر سے اس عالمی سطح کی سیاسی کشمکش اور خونریز جنگ کے پس پردہ عوامل اور محرکات کا تجزیہ فرمایا اور عالم اسلام کے خلاف مشترکہ دشمنان کا مہیب خطروں سے بھرا بے رحم ایجنڈابتا کر سازشوں پر سے پردہ اٹھایا

جماعت احمدیہ کے چوتھے امام حضرت مرزا طاہر احمدصاحب، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1990ءکی دہائی میں ہولناکی اور سفاکیت سے عبارت خلیجی جنگ کے متعلق خطبات جمعہ کا ایک سلسلہ ارشاد فرمایا تھا جن کو مذکورہ بالا عنوان کے تحت کتابی شکل میں شائع کیا گیا تھا۔

براعظم ایشیاکے اہم ترین خطے میں لڑی جانے والی یہ جنگ ایک خاص شہرت کی حامل تھی اور اس جنگ کو دوسرے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے، جیسے خلیج فارس کی جنگ، پہلی خلیجی جنگ، کویت جنگ، پہلی عراق جنگ وغیرہ۔ اور اس جنگ کے پس منظر میں ملتا ہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا پر حکمرانی کے لیے لڑی جانے والی سرد جنگ کے دوران، عراق سوویت یونین کا ہی حلیف رہا تھا اور اشتراکی نظریات کا حامی تھا، یوں عراق اور امریکہ کے مابین تنازعہ کی پہلی اینٹ تو تب ہی رکھی گئی۔ مزید برآں یہودی ریاست اسرائیل اوراہل فلسطین کے معاملات پر بھی عراق اور امریکہ کی باہم چپقلش ہی رہی۔ مثلاًامریکہ نے عسکریت پسند گروپوں کے لیے عراق کی حمایت کو بھی ناپسند کیا،اور اسی کو بنیاد بنا کر امریکہ نے عراق کواواخردسمبر 1979ء میں دہشت گردوں کی معاونت کرنے والی ریاستوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

مزید آگے بڑھیں تو ملتا ہے کہ 1980ء میں عراق پر ایران کے حملے کے بعد امریکہ غیر جانبدار رہا، جو بعد میں مشہور زمانہ ایران عراق جنگ بن گئی تھی، حالانکہ تب امریکہ نے عراق کوایران کے خلاف جنگ میں وسائل، سیاسی مدد اور کچھ ’’غیر فوجی‘‘ طیارے بھی مہیا کیے تھے۔

ایک مسلمان ملک کی دوسرے برادر اسلامی ملک سے جنگ کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ جب اگست 1988ء میں ایران کے ساتھ جنگ بندی پر دستخط ہوئے تو عراق بہت زیادہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا تھااور اس وجہ سے عراقی معاشرے کے اندر تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔عراق نے زیادہ تر قرض سعودی عرب اور کویت کو واپس کرنا تھا۔ کویت کو واپس کرنے والے عراق کے قرضوں کی مالیت 14 ارب ڈالر تھی۔ عراق نے دونوں ممالک پر قرضوں کو معاف کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، لیکن انہوں نے انکار کردیا۔

الغرض یہ سلسلہ چلتا ہے اور مزید تفصیلات کی تلاش کریں تو ملتا ہے کہ خلیج کے بحران کے دوران ہونے والی اس جنگ کا آغازاگست 1990ء میں ہوا اور فروری 1991ء تک یعنی 6ماہ سے بھی زیادہ وقت تک یہ خونریزی باقاعدہ شدت کے ساتھ جاری رہی۔ ایشیا کے نقشہ پرخلیج فارس کے کناروں پر عراق، کویت، سعودی عرب اور اسرائیل کے خطوں پر اس جنگ کے دوران خون کی ہولی کھیلی گئی۔ جس کے متفرق نتائج میں سے ایک تھا کہ کویت کی خودمختاری بحال کرتے ہوئے اس کی سرزمین سے عراق کی فوجی قوت کو نکال باہر کیا گیا، گو اس کارروائی کے دوران کویت اور خود عراق بھی ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے۔ جنگ کے بے رحم اور ادلتے بدلتے محاذوں کے دوران عراق نے سعودی عرب کی طرف سے میزائل داغے جو امریکہ کا اتحادی بن کر عراق کے مخالف گروہ میں کھڑا تھا۔ عالم اسلام کے مرکز کے علاوہ عراق کی طرف سے اسرائیل کے خلاف بھی میزائل حملے کیے گئے کیونکہ اتحادی قوتوں کے مقابل پر عراق کے پاس اپنی فوجی برتری دکھانے کے میدان کم سے کم ہوتے جاتے تھے۔ تب اقوام متحدہ کے تعاون سے عراق کے اوپر نو فلائی زون کا اعلان کرکے بزور طاقت اس کا اطلاق بھی کیا گیا۔جب اتحادیوں نے اپنے پہلے سے طے شدہ عزائم کی تکمیل کی راہ آسان ہوتی دیکھی تو اسی اقوام متحدہ کو استعمال کرتے ہوئے عراق اور اس کی عوام کے خلاف سخت اقتصادی ومعاشی پابندیوں کی راہ اپنائی گئی۔ عراق کو دفاع کے حق سے محروم کرتے ہوئے اس کو غیر مسلح کرنے کی قراردادیں پاس ہوئیں۔

خلیج کی جنگ کے اخراجات کے ضمن میں ملتا ہے کہ امریکی کانگریس میں جمع کروائے گئے اعداد و شمار کے مطابق ریاستہائے متحدہ امریکہ اس جنگ کے اخراجات کی مد میں سے اپریل 1992ء تک 61.1 بلین ڈالرخرچ کرچکا تھا۔ جبکہ اس رقم کا بہت بڑا حصہ دوسرےاتحادی ممالک نے ادا کیاتھااوران اتحادیوں میں کویت، سعودی عرب اور خلیج فارس کی دیگر عرب ریاستوں نےایک مسلمان ملک کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے ایندھن میں ایک غیر معمولی حصہ ڈالا تھا۔اور الکفر ملۃ واحدۃ کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اس خلیجی جنگ میں جرمنی اور جاپان نے 16 بلین ڈالرفوجی اخراجات کی مد میں ادا کیے جبکہ ان عالمی طاقتوں نے بوجوہ کوئی اپنی فوجی قوت نہیں بھیجی تھی۔ سعودی عرب کی شراکت کا تقریباً 25٪ حصہ فوجیوں کو غیر فوجی خدمات مثلاً خوراک اور آمدورفت کے ساتھ ادا کیا گیا تھا۔ امریکی فوجیوں نے مشترکہ فوجی اتحاد کی تقریباً 74٪ نمائندگی کی۔

اس جنگ کے دیگر اثرات میں ملتا ہے کہ خلیج فارس کی عرب ریاستوں پر اس جنگ کے گہرے اثرات کے علاوہ، بحران کے بعد پیدا ہونے والی معاشی رکاوٹوں نے بہت ساری دیگر ریاستوں کو بھی متاثر کیا۔

جیسا کہ آج روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ یہ پہلی خلیج فارس کی جنگ تو محض ایک تجربہ تھا۔ جس کی کامیابی کودیکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی پیش گوئیوں کے عین مطابق مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کو عادت بنالیا گیا، جس اسلامی ملک کی ترقی، استحکام اور خودمختاری کا دَور شروع ہوتا اس کے خلاف آستینیں چڑھا کر یہ دجالی طاقتیں چڑھ دوڑتی رہیں۔ اسرائیل کی حفاظت اور خودمختاری کے نام پر ہر جائز و ناجائز حربہ اور ہر نوع کا ظلم روا رکھا گیا ہے۔

حضور ؒنےخداداد نہایت گہری نظر سے اس عالمی سطح کی سیاسی کشمکش اور خونریز جنگ کے پس پردہ عوامل اور محرکات کا تجزیہ فرمایا اور عالم اسلام کے خلاف مشترکہ دشمنان کا مہیب خطروں سے بھرا بے رحم ایجنڈا بتا کر سازشوں پر سے پردہ اٹھایا۔ اس حوالے سے آپؒ نے اس سلسلے کا پہلا خطبہ جمعہ 3؍اگست 1990ء کو ارشاد فرمایاتھا۔ ذیل میں حضور ؒکے الفاظ کے قریب ترین رہتے ہوئے صور ت حال کا تجزیہ اور وقوع پذیر ہونے والے امو رپر کچھ لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً آپؒ نےاس سلسلہ کے پہلے خطبہ کے آغاز میں فرمایاکہ دس سال سے زائد عرصہ ہوگیا کہ عالم اسلام پر بہت سی بلائیں وارد ہور ہی ہیں اور عالم اسلام مسلسل مختلف قسم کے مصائب کا شکار ہے۔جس میں عراق ایران جنگ ایک حصہ تھا۔شیعہ سنی مسلک کو بنیاد بنا کر شروع کیے گئے اس تنازع کے انگارے ٹھنڈے ہونے میں قریباً آٹھ سال لگے اور اناؤں کی جنگ میں فریقین کے لاکھوں نوجوان لقمہ اجل بنے۔

حضورؒ نے بتایا کہ اگر تو یہ مصائب اور تکلیفیں غیروں کی طرف سے عالم اسلام پر نازل کیے جار ہے ہوتے تو یہ بھی ایک بہت ہی تکلیف دہ امر تھا لیکن اس سے بڑھ کر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عالم اسلام خودا یک دوسرے کے لیے مصیبتوں کا ذمہ دار ہے اور دوحصوں میں بٹ کر مسلسل سالہا سال سے عالم اسلام کا ایک حصہ دوسرے عالم اسلام کے لیے مصیبتیں اورمشکلات پیدا کرتا چلا جارہا ہے۔

مسلمان ممالک کی ترقیات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ تیل کی دولت نے بہت سے مسلمان ممالک کو فوائد کے ساتھ ہی کچھ نقصانات بھی پہنچائے ہیں۔ نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ ان میں رفتہ رفتہ تقویٰ کی روح گم ہوگئی اور دنیا کی دولت نے ان کے رجحانات کو یکسر دنیا کی طرف پلٹ دیا۔ یہ بات آج کے مختلف مؤرخین بھی اپنی کتب میں لکھتے رہے ہیں اور آج بھی لکھ رہے ہیں کہ جب تک عالم اسلام غر یب تھا اس میں تقویٰ کے آثار پائےجاتے تھے لیکن اس تیل کی دولت نے گویا ان کے تقویٰ کو پھونک کر رکھ دیا ہے اور محض دنیادار حکومتوں کی شکل میں وہ مسلمان حکومتیں ابھری ہیں جن کا اول مقام یہ تھا کہ خدا کا تقویٰ اختیار کرتیں، اپنے ملک کے رہنے والوں کو تقویٰ کی تلقین کرتیں اور عالم اسلام کے باہمی تعلقات کو تقویٰ کی روح پر قائم کرتیں اور مسائل کو تقویٰ کی روح کے ساتھ مل کرتیں مگر ایسا نہیں۔

پھر حضور رحمہ اللہ نے قرآنی حکم ’’اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا …‘‘ کی روشنی میں توجہ دلائی اور بتایا کہ یہ حالیہ عراق اور کویت کی لڑائی کا جو واقعہ ہے یا عراق کے کویت پر حملے کا،اس کے پس منظر میں بہت کی بد دیانتیاں اور عہد شکنیاں ہیں،صرف عربوں کے آپس کے اختلاف نہیں ہیں بلکہ تیل پیدا کر نے والے دوسرے اسلامی مما لک بھی اس معاملے میں ملوث ہیں۔ چنانچہ انڈو نیشیا ہے، مثلاً اس کو اپنے عرب مسلمان بھائیوں سے شدید شکوہ ہے کہ Opec کے تحت جو معاہدے کرتے ہیں ان معاہدوں کو خود بصیغہ راز توڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اجتماعی طاقت سے جو فوائد حاصل ہونے چاہیں وہ نقصانات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور ہر ملک جس طرح چاہتا ہے اپنا تیل خفیہ ذرائع سے بیچ کر زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کر نے کی کوشش کرتا ہے۔ پس اس پس منظر میں بھی تقویٰ ہی کی کمی ہے۔

حضور ؒنے امت مسلمہ کی ہمدردی میں ان کو نصائح سے نوازا تاکہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلوں میں احتیاط برت سکیں۔اور از راہ ہمدردی بتایا کہ جب دنیا داری ہی تمام معاملات پر حاوی ہوجائے تو یہی کچھ ہی ہوا کرتا ہے۔

حضور رحمہ اللہ نے امت مسلمہ کے مسائل کی جڑ کو پکڑتے ہوئے بتایا کہ جب زمانے کا امام آجائے جسے خود خدا نے مقرر کرکے کھڑا کیا ہو تو اس سے منہ موڑنے والوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے، اور امام وقت کی عدم شناخت اوراس کے زیر سایہ نہ چلنے کا ہی نتیجہ ہواکرتا ہے کہ امت کے اندر تقویٰ کی راہ گم ہوجایا کرتی ہے۔ ان کے اندر اسلام کا نام تو ہے لیکن تقویٰ کا راستہ باقی نہیں رہا۔ وہ درست راہ اور راہنمائی کرنے والے ہاتھ سے کھوئے گئے ہیں۔ اور جب تقویٰ کی راہ گم ہو جائے تو پھر جنگلوں اور بیابانوں میں ہی بھٹکتا پھرتا ہے۔اور خونخواروں جنگلی درندوں کے رحم و کرم پر ہی رہتا ہے۔ اور اس کے پاس بھٹکنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔

حضور ؒنے سمجھایا کہ مَیں جماعت احمدیہ کے سربراہ کے طور پر اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو خواہ وہ ہمیں بھائی سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ پرزور اور عاجزانہ نصیحت کرتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی امت کو شد ید خطرات درپیش ہیں۔ تمام عالم اسلام کی دشمن طاقتیں آپ کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی دخل اندازی کے بہانے ڈھونڈتی ہیں اور ایک لمبا عرصہ ہوا کہ آپ ان کے ہاتھ میں نہایت ہی بے کس اور بے بس مہروں کی طرح کھیل رہے ہیں اور ایک دوسرے کو شدید نقصان پہنچارہے ہیں۔ اس لیے تقویٰ کو پکڑیں اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی امت کو جو آج دنیا میں ذلت کی نظر سےدیکھا جارہا ہے۔ اس کا سدباب کرنے کی اجتماعی سعی کریں۔ کیونکہ موجودہ صورت حال تو ایک نہایت ہی شرمناک معاملہ ہے اور عالم اسلام پر داغ پر داغ لگاتا چلا جارہا ہے۔اسلام کی عزت اور وقار مجروح ہوتے چلے جار ہے ہیں۔ اس لیے خدا کی خاطرتمام مسلمان ممالک ان منفی حرکات سے رک جائیں اور اسلام کی تعلیم کی طرف واپس لوٹیں اس کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے۔

آپؒ نے امت محمدیہ پر ان بار بار نازل ہونے والے مصائب کی وجہ کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اد بار اور تنزل کا دَور اور یہ بار بار کے مصائب حقیقت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انکار کا نتیجہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور آخری پیغام میرا یہی ہے کہ وقت کے امام کے سامنے سر تسلیم خم کرو۔ خدا نے جس کو بھیجا ہے اس کو قبول کرو۔

اپنے انہی خطبات میں حضورؒ نے قبل از وقت خبردار کردیا تھا کہ امریکہ کا پیش کردہ ورلڈ آرڈر (World Order)دنیا میں امن کا ضامن نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی بنیاد خودغرضی، برتری کے احساس اور اخلاق سے عاری سیاست پر ہے۔اور مغربی اقوام اوران کے اتحادیوں کے مشرق وسطیٰ پر حملوں کے حوالے سے مسلمانوں کی تشویش لازمی ہے اور چونکہ وہ مقدس مقامات جو مسلمانوں کو دنیا میں ہر دوسری چیز سے زیادہ پیارے ہیں یعنی مکہ اور مدینہ جہاں کسی زمانے میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدم پھرا کرتے تھے اور جن کی فضاؤں کو آپ کی سانسوں نے معطر اور مبارک کردیا ہے۔ جبکہ موجودہ صورت حال میں یہ صرف ایک عراق کی حدود کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ساری ارض مقدسہ بھی ہر طرف سے خطروں اور سازشوں میں گھری ہوئی ہے۔ پس اس لحاظ سے آج سارا عالم اسلام گہرا کرب محسوس کرتا ہے لیکن سب سے زیادہ گہرا کرب در حقیقت جماعت احمد یہ ہی کو ہے کیونکہ آج دنیا میں اسلام کی سچی اور مخلص نمائندگی کرنے والی جماعت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے۔

لیکن یاد رہے کہ جب یہ کہاجاتا ہے کہ عالم اسلام کی سچی اور مخلص نمائندہ جماعت صرف جماعت احمد یہ ہی ہے تو ہوسکتا ہے کہ کوئی بے خبر انسان اس سے یہ خیال کرے کہ ایک جھوٹی تعلّی ہے، ایک دعویٰ ہے اور ایک ایسی بات ہے جو دوسرے مسلمان فرقوں کو متنفر کرنے والی ہو گی اور وہ یہ سمجھیں گے کہ یہی اسلام کے علمبر دار اور ٹھیکے دار بنے پھرتے ہیں۔ گویا ہمیں اسلام سے سچی ہمدردی نہیں لیکن حالات کا تجزیہ لوگوں کو اس اقرار پر مجبور کردے گا کہ اس وقت عالم اسلام کی سچی ہمدرد صرف جماعت احمدیہ ہی ہے۔

اپنے ان قیمتی خطبات میں حضورؒ نے بتایا کہ آج کل کی عالمی اور علاقائی سیادت تو محض انصاف اور تقویٰ سے عاری سیاست ہے۔ کیونکہ آج کے زمانے کی سیاست گندی ہو چکی ہے۔انصاف اور تقویٰ سے عاری ہے۔ وہ مسلمان ریاستیں جو اسلام کے نام پراپنی برتری کا دعویٰ کرتی ہیں ان کی وفا بھی آج اسلامی اخلاق سے نہیں اور اسلام کے بلند و بالا انصاف کے اصولوں سے نہیں بلکہ اپنی اغراض کے ساتھ ہے۔ اسی وجہ سے عالم اسلام کے طرز عمل میں آپ کو تضاد دکھائی دے گا اور سوائےجماعت احمدیہ کے جتنے بھی دنیا کے فرقے ہیں آج وہ کسی نہ کسی اسلامی ریاست کے ساتھ دھڑے بنا چکے ہیں اور کسی نہ کسی ایک کواپنی تائید کے لیے اختیار کر چکے ہیں حالانکہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسلامی اقدار سے وفا کی جائے۔اگر اسلام سے سچی محبت ہو تو محض ان تقاضوں سے وفا کی جائےجو اسلام کے تقاضے ہیں جو قرآن کے تقاضے ہیں، جو سنّت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہٖ وسلم کے تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کی روشنی میں جب ہم موجودہ سیاست پرغور کرتے ہیں تو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خارق عادت نمونہ نظر آتا ہے کہ آپ نے کس طرح سیاست و سیادت میں اعلیٰ ترین اخلاق اور اسوۂ حسنہ کو قائم فرمایا۔

خلیج کی جنگ سمیت ہر موقع پر مغربی ممالک اور ہر غاضب و ظالم کی طرف سے انصاف کے دوہرے معیار نظر آتے ہیں اور سب لوگ ہی اپنے مقاصد کےحصول کے لیے ظالمانہ اور جھوٹے پراپیگنڈا کو جائز اور درست خیال کرلیتے ہیں۔اس کی مثال میں حضورؒ نے بتایا کہ کس طرح یورپی ممالک کا میڈیا ایسے اِکا دُکا واقعات کو مصالحہ لگا کر دن رات عوام کے سامنے پیش کرتا ہے جہاں کسی یورپین شخص پر ادنیٰ سا بھی ظلم ہوا ہو۔ جبکہ اس کے مقابل پر حضرت اقدس محمد ﷺ کی ساری زندگی اور اس زندگی میں ہونے والے تمام غزوے گواہ ہیں کہ ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہواکہ جس قوم کے ساتھ اسلام کی فوجیں برسرپیکار تھیں، ان کے آدمی جو مسلمانوں کے قبضہ قدرت میں آئے ان سے ایک بھی، ادنی ٰ سی بھی زیادتی ہوئی ہو۔ پس مظلوموں پر ظلموں کے پہاڑ توڑنا، ہر گز اسلامی تعلیم نہیں ہے۔

خلیج کے بحران پر گہری نظر رکھتے ہوئے حضور ؒنے صرف جنگ اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے مسائل پر ہی احمدیوں کو درست معلومات اور معقول طرز فکر مہیا نہیں فرمائی بلکہ جنگ اور بحران کے اصل ذمہ داروں کی تعین کرتے ہوئے اپنوں اور غیروں کے طرز عمل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً آپؒ نے بتایا کہ مسلم دنیا میں شرق اردن ایک ایسا ملک ہے جو ہمیشہ مغرب کا وفادار رہا ہے بلکہ قابل شرم حد تک وفادار رہا ہے اور سب سے زیادہ وفا دار اس علاقے میں جو اسلامی ریاست تھی وہ یہی ریاست تھی۔ویسے تو وفا میں سعودی عرب ان سے بڑھ کر ہے لیکن اس کا معاملہ صرف وفا کا نہیں۔سعودی عرب کے تمام مفادات امریکن مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکے ہیں اور ایک ہی چیز کے دو نام بنے ہوئے ہیں اس لیے وہاں وفا کا سوال نہیں مگر شرق اردن جو ایک چھوٹا ملک ہے، یہ واقعہ ایک لمبے عرصے سے مغربی دنیا کا مشہور وفا دار ملک چلا آ رہا ہے۔انگریزوں کے ساتھ بھی گہرے دوستانہ بلکہ برادرانہ مراسم،امریکنوں کے ساتھ بھی اور اب تک ان کی اپنی فہرستوں میں اس ملک کا نام ہمیشہ وفا داروں میں سر فہرست رکھا جا تا رہا۔ شرق اردن کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ عراق کے ساتھ اقتصادی بائی کاٹ کرے تو خود مرتا ہے اور اس کے لیے زندگی کا کوئی اور چارہ نہیں رہتا اور پھر اگر اس کے نتیجے میں عراق اسے بہانہ بنا کر اس پر قبضہ کرنا چاہے تو شرق اردن میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ از خود اس حملہ کو سہ سکے اور اس کا کماحقہ دفاع کرسکے۔

صورت حال کے انتہائی مہلک مضمرات کا جائزہ لیتے ہوئے حضورؒ نے احمدیوں کو بتایا کہ اس لیے سوال یہ ہے کہ کہاں انصاف ہے؟ مغربی دنیا چونکہ ڈپلومیسی جس کو اسلامی اصطلاح میں دجل کہا جا تا ہے، دجل میں ایک درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہے، آج تک بنی نوع انسان میں بھی دجل کو اس بلندی تک نہیں پہنچایا گیا جس بلندی تک آج کی مغربی دنیا ڈپلومیسی اور سیاست کے نام پر دل کو اپنے عروج تک پہنچا چکی ہے اس لیے ان کے جرائم ہمیشہ پردوں میں لپٹے رہتے ہیں، ان کی زبان میں سلاست ہوتی ہے اور پرو پیگنڈے کے زور سے اپنی باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان میں کچھ معقولیت دکھائی دینے لگتی ہے۔ بہر حال ایک طرف تو یہ حال ہے کہ یہ جو بحران ہے وہ دن بدن گہرا ہوتا چلا جار ہا ہے اور بہت سے خطرات ایسے ہیں جو سر اٹھا کر ظاہر ہونے لگے ہیں اور بہت سے ایسے خطرات ہیں جو ابھی سرتونہیں اٹھا سکے کہ عام انسانی نظر ان کو کچھ کہہ یا سمجھ سکے لیکن اگر آپ گہری نظر سے مطالعہ کریں تو آپ کو وہ دکھائی بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ خلیج کی جنگ عالم اسلام کے خلاف ایک انتہائی گہری سازش ہے۔ اور ان مغربی قوتوں کی طرف سے جو عزائم ظاہر کیے جارہے ہیں وہ تو دراصل بہت معمولی حصہ ہیں دراصل بحری ناکہ بندی، ہوائی قوت میں اضافہ، سمندری افواج کی پیش قدمی، زمینی دستوں کی تعداد اور استعداد میں روز افزوں بتاتے ہیں کہ نہاں در نہاں کچھ اور ہی ارادے ہیں۔

حضور ؒ نے فرمایا کہ ’’دوسرے مسلمان ممالک اگر چاہیں بھی تو الگ ہوکر اسرائیل کے مقابلے کے لئے عراق کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ اگر یہ نہ ہوتو اس کے علاوہ بھی یہ خطرہ بڑا حقیقی ہے کہ عراق سے ایسا خوفناک انتقام لیا جائے گا کہ اسے پرزہ پرزہ کردیا جائے گا اور جب تک اِن کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوگی، جب تک یہ ابھرتا ہوا مسلمان ملک جو اس علاقے میں ایک غیرمعمولی طاقت بن رہا ہے اسے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود نہ کردیا جائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍اگست 1990ءمطبوعہ کتاب خلیج کا بحران صفحہ 23)

حضورؒ نے عالمی سیاست کے اس اہم اور گھمبیر مسئلہ پر نئے پہلو اجاگر کیے جو عام دنیا کی نظروں سے اوجھل رہ رہے تھے، اس کی بنیاد حضورؒ کے گہرے مشاہدے، وسیع مطالعہ اور معلومات کے متنوع ماخذوں پر تھی۔ آپؒ دنیا بھر کے اخبارات و رسائل پر بھی نظر رکھتے تھے، مثلاً بتایا کہ میں اسرائیل کے بیانات پڑھ رہا تھا، فلاں نے یہ کہا اور فلاں ارادہ اور پالیسی پہلے پہل فلاں ملک سے شروع ہوئی تھی، وغیرہ وغیرہ۔ الغرض حضور ؒ مسلم امہ کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈا کے اولین ماخذوں پر نگاہ رکھتے ہوئے اس کے اثرات و شدت کے رخ بتایا کرتے تھے۔

ایک موقع پر آپؒ نے مسلمان ممالک میں ہونے والے بعض واقعات کا تسلسل بتاتے ہوئے فرمایا:’’یہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن ایسے وقت اتفاقی نہیں ہوا کرتے اور ان کے پیچھے کچھ محرکات ہوتے ہیں، کچھ زیر زمین سازشیں کام کر رہی ہوتی ہیں، کہیں .C.I.A کے ایجنٹ ہیں، کہیں دوسرے ایسے غدار ملک کے اندر موجود ہیں جو غیر ملکی بڑی بڑی طاقتوں کی خواہشات کو ملی جامہ پہنانے میں نہایت حکمت کے ساتھ دبی ہوئی خفیہ کارروائیاں کر تے ہیں اور ان کا رروائیوں کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الناس میں موجود ہے کہ خناس وہ طاقتیں ہیں جو ایک شرارت کا بیج بو کر خود پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور کچھ پتا نہیں لگتا کسی کو کہ کہاں سے بات شروع ہوئی، کیوں ہوئی، کوئی بڑی حماقت سرزد ہوئی ہے تو کون ذمہ دار ہے؟ لیکن در حقیقت ان کے پیچھے بڑی بڑی قو میں ہوا کرتی ہیں۔پس اس پہلو سے ہی حالات نہایت ہی خطر ناک صورت اختیار کر چکے ہیں۔‘‘

حضور ؒنے عالم اسلام پر اس کڑے وقت کے دوران مختلف پہلوؤں سے مسلمانوں کو توجہ دلانے کا سلسلہ جاری رکھا اور کہا کہ عالم اسلام کا تاریخی پس منظر میں جائزہ لے کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کبھی بھی اسلام کی قوت کو بعض مسلمان ممالک کے شامل ہوئےبغیر نقصان نہیں پہنچایا جا سکا۔ ساری اسلامی تاریخ کھلی کھلی اس بات کی گواہ پڑی ہے کہ جب بھی مغربی طاقتوں نے مسلمان طاقت کو اکھٹے ہو نے سے روکا ہے یا ویسے کسی ظاہری یا مخفی جنگی کارروائی کے ذریعے ان کو پارہ پارہ کیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے تو ہمیشہ بعض مسلمان ممالک کی تائیدان لوگوں کو حاصل رہی۔اس کے بعد حضور ؒنے اپنے اسی سلسلہ خطبات میں اس تاریخ کا مختصر ذکر نکات کی صورت میں سامنے رکھا۔

بعدازاں حضور ؒنے عالم اسلام کے ان معاملات پر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی تحریرفرمودہ تفسیر کبیرمیں سے بعض نکات بتائے اور واضح کیا کہ امت مسلمہ کے لیے دشمنان حق کی یہ عداوت پیشگوئی کے رنگ میں قرآن کریم کے اندر پہلے سے ہی مذکور تھی اورحضرت مصلح موعود ؓنے روشنی ڈالی ہے کہ عالم اسلام کے انحطاط کی بنیادیں کھودی گئیں اور آئندہ بھی جب جب عالم اسلام میں افتراق پیدا ہوئے اور مختلف جگہ انحطاط اور کمزوری کے آثار پیدا ہوئے،ان کے نکتہ آغاز کا عرصہ اور دیگر اساسی معلومات قرآن کریم پر غور کرنے سے مل جاتی ہیں۔

اور اب اِس زمانے میں بھی مسلمان ممالک کے خلاف ہونے والی کسی بھی تحریک، سازش اور اتحاد کو وقتی اور معمولی نہ سمجھاجائے کیونکہ یہ ایک ملک کو سبق سکھانے سے بڑھ کر دیگر ایسی مسلمان اکائیوں کو آئندہ وقتوں میں آگے بڑھنے سے روکنے کی سبیل ہوا کرتی ہے۔ اسرائیل کا مشرق وسطیٰ میں بیٹھ کر کسی ہمسایہ عرب ملک کی طرف سے خطرے کا ماحول بتا کر دیگر مغربی قوتوں کو جمع کرلینا ان دجالی قوتوں کا عام حربہ بن چکا ہے۔ دراصل یہ ان اقوام کے مفادات کی جنگیں ہیں۔

لیکن اس مشکل گھڑی میں بھی حضور ؒ نے برادران اسلام کو اکیلا چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور اپنی درویشانہ اپیل اور اپنی غریبانہ نصیحت کو تر ک نہ کیا۔ کیونکہ سب جانتے تھے کہ اس جنگ میں معصوم عوام مارے جائیں گے، جنگ کے ایندھن بھی وہی بنیں گے اور جنگ کے بعد کے انتقامات کا نشانہ بھی انہیں کو بنایا جائے گا اس لیے سوائے اس کے کہ عراق کی حکومت تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیم کی طرف لوٹے اس کے لیے امن کی کوئی راہ کھل نہیں سکتی۔ یہ قدم اٹھائے اور دوسرے عالم اسلام کو یہ پیغام دے کہ میں پوری طرح تیار ہوں تم جو فیصلہ کرو میں اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہوں اور ہر گارنٹی دیتا ہوں کہ کویت سے میں اپنی فوجوں کو واپس بلاؤں گا۔امن بحال ہوگا لیکن شرط یہ ہے کہ فیصلہ عالم اسلام کرے اور غیروں کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔

چونکہ یہ وقت ہر لحاظ سے کڑا وقت تھا اور اسی دجال اور مغربی طاقتوں کی عالم اسلام کے خلاف مہم جوئی کے ایک بالکل نئے دَور اور نہج کا دروازہ کھل رہا تھا حضور ؒنے فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ خطرات کے بادل عراق کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ اور اگررعونت کی راہ سے ہماری اس نصیحت کورد کر دیا گیا تو میں آج آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اتنے بڑے خطرات عالم اسلام کو در پیش ہونے والے ہیں کہ پھر مدتوں تک سارا عالم اسلام نوحہ کناں رہے گا اور روتا رہے گا اور دیواروں سے سر ٹکرا تا رہے گا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا،کوئی پیش نہیں جائے گی کہ ان کھوئی ہوئی طاقتوں اور وقار کو حاصل کر لیں جواس وقت عالم اسلام کا دنیا میں بن رہا ہے اور بن سکتا ہے۔ عملاً اس وقت مسلمان مما لک ایک ایسی منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ لیکن ہماری تو ایک درویشانہ اپیل ہے، ایک غریبانہ نصیحت ہے اگر کوئی دل اسے سنے اور سمجھے۔

آپؒ نے توجہ دلائی کہ اب احمدی درددل سے دعائیں کر یں۔ بہت ہی سنجیدگی اور درد دل کے ساتھ دعائیں کریں۔ کیونکہ ہمارے مسلمان بھائی ایک ہی سوراخ سے بار بارڈسے جار ہے ہیں۔قرآن کریم نے جہاں فرمایا ہے کہ غیروں کو دوست نہ بناؤ اس سے بھی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں اور اس کے نتیجے میں بعض وسطی زمانوں کے مسلمان علماء نے اسلام کومزید بد نام کر وایا۔ اسلام نے متفرق مواقع پر سمجھایا ہے کہ غیروں سے دوستی نہ کرو۔ اسلام اور انصاف کے تقاضوں کو بیچتے ہوئے دوستیاں نہ کرو۔

لیکن اس صورت حال اور اس کی حساسیت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوجانا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کا تجویز کردہ علاج ہی اب قابل عمل ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی اس آخری زمانے کے متعلق مختلف بڑی لمبی پیشگوئیاں ہیں ان میں سے ایک ٹکڑا یہ بھی ہے کہ آخری زمانے کا ذکر کر تے ہوئے فرمایا کہ یا جوج ماجوج دنیا پر قابض ہو جائیں گے اورموج در موج اٹھیں گے اور تمام دنیا کوان کی طاقت کی لہر میں مغلوب کر لیں گی۔اس وقت دنیا میں مسیحؑ نازل ہوگا اور مسیحؑ اپنی جماعت کے ساتھ ان کے مقابلے کی کوشش کرے گا، ان کے مقابلے کا ارادہ کرے گا۔ تب اللہ تعالیٰ مسیح ؑسے فرمائے گا کہ ’’لَا یَدَانِ لِاَحَدٍ لِقِتَاھِمَا…‘‘

بس اس دجالی حملہ کا واحد دفاع مسیح موعود ؑکی دعاؤں سے ہوگا۔ اور اس کی جماعت بھی دعاؤں کے حصار میں ہی ہر دشمن سے محفوظ رہ سکےگی۔

حضور ؒنے آئندہ کے لیے دنیا کے مسائل کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ اب تقویٰ کی راہیں ہی دنیا میں امن و آشتی کی ضامن ہے۔ اور یہ تقویٰ ہی معجزے کرے گا۔ جب دنیا میں تقویٰ شعاری عام ہوگی تو گویا تقویٰ انگلستان کے باشندے کو ویلز کے باشندے سے ملا دے گا اور ویلز کے باشندے کو اسکاٹ لینڈ کے باشندے سے ملا دے گا اور اسکاٹ لینڈ کے باشندے کو آئر لینڈ کے باشندے سے ملا دے گا اور اسی طرح افریقہ کے باشندوں سے بھی ان کو ہم آہنگ کر دے گا اور عرب کے باشندوں سے بھی ان کو ہم آہنگ کر دے گا اور روس کے باشندوں سے بھی ہم آہنگ کر دے گا اور چین کے باشندوں سے بھی ہم آہنگ کر دے گا اور جاپان اور امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے بھی تقویٰ رکھنے والے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے اور یہی وہ قومی نظر یہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اس کے سوا اور کوئی قومی نظر یہ نہیں۔ تقویٰ کی بنا پر عزتیں کی جائیں گی، تقویٰ ہی اس لائق ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے اور ہم مزاج لوگ جو نیکی کے نام پر اکٹھے ہوں وہ نیکوں کی ایک قوم بنانے والے ہوں گے مگر اس قوم کا سیاسی تفریق اور سیاسی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کے بعد حضورؒ نے یورپ میں ابھر نے والے نسلی تعصبات کا ذکر کرکے اس کے ثبوت اور شواہد پیش فرمائے۔ اور بتایا کہ اب دنیا میں انہی تعصبات کی بنا پر بڑی بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ نیز اب آئندہ کا ایک منصوبہ یہ ہے کہ اس جنگ کا تمام خرچ عرب مسلمان قوموں سے وصول کیا جائے گا اور یہ مسلمان ریاستیں ایسے معاہدات میں شامل کیے جاچکے ہیں۔ اور اس جنگ کے اخراجات کا بل سعودی عرب سے لیا جائے گا اور بہت سی اور دوسری مسلم قو میں بھی شامل ہیں ان سے اس کی قیمت وصول کی جائے گی۔ خاص طور پر سعودی عرب کو سب سے زیادہ بل ادا کر نے پرمجبور کیا جائے گا۔

الغرض علاوہ دیگر امور کے آپؒ نے اپنے خطبات جمعہ میں کھول کھول کر بتایا کہ دنیا کا پائدار امن، بنی نوع انسان کی حقیقی آزادی اور خوشحالی کا راستہ صرف اور صرف اسلام کا پیش کردہ نظام عدل ہی ہے۔

آپؒ نے حبل اللہ کومضبوطی سے پکڑنے کے قرآنی حکم کی اہمیت اور اس سے روگردانی کے قبیح اور عرصہ دراز تک چلنے والے مضر اثرات پر روشنی ڈالی۔آپؒ نے اپنے ان خطبات میں مغربی طاقتوں کےمتضادطرز عمل کی قلعی کھولی اور احمدیوں کے لیے اس خلیج کی جنگ کی تاز ہ صورت حال اور ضروری اعدادو شمار بھی پیش فرمائے۔ اور سمجھایا کہ یہ تو شدید بدامنی کے بیج بونے والی جنگ ہے۔

حضورؒ نے لوگوں کے ممکنہ سوالات کے جوابات بھی مہیا فرماتے ہوئے بتایا کہ سیاسی جنگوں اور جہاد میں مابہ الامتیاز امور کونسے ہیں اور کیا کیا ہیں۔ امریکہ کے صدر بش سینئر کے ’’ نظام جہان نو‘‘ کی حقیقت بھی کھول کر رکھی اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام کے پس منظر اور اس کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے عالم اسلام اور تیسری دنیا کے لیے نصائح بہم مہیا فرمائیں۔

اور امن و آشتی کے شہزادے، مسیح آخر الزمانؑ کے جانشین ہونے کے ناطے امن عالم کا خواب حقیقت میں ڈھالنے والے ہمہ گیر مشورے دیتے ہوئے عالم اسلام کے لیے دعا کی تحریک فرمائی۔

یادرہے کہ جب ان قیمتی خطبات جمعہ کو کتابی شکل دی گئی تو اس میں قارئین کی سہولت کے لیے مضامین کی مناسبت سے عناوین اور ذیلی عناوین بھی لگائے گئے اور آخر پر انڈیکس بھی مہیا کیا گیا۔ یہ کتاب الاسلام ویب سائٹ پر مطالعہ کے لیے میسر ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button