مختصر تاریخ مجلسِ مشاورت (ضمیمہ سالانہ نمبر)

(’م م محمود‘)

سیّدناحضرت خلیفۃ ا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کامجلس مشاورت (پاکستان) 2022ء کے لیے بصیرت افروز خصوصی پیغام

’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیمْ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وعلیٰ عَبْدِہٖ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ

خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ

ھُوَالنَّاصِرُ

 ممبران مجلس مشاورت پاکستان                                          

                                                  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالیٰ آپ کو اس سال شوریٰ منعقد کرنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔گذشتہ دو سالہ شوریٰ کا انعقاد Covidکی وبائی بیماری جس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا کی وجہ سے نہیں ہوا۔

اس سال بھی انجمن کی یہی تجویز تھی کہ شوریٰ کا انعقاد نہ کیا جائے لیکن میں نے انجمن کو کہا کہ عید کے بعد چاہے د و دن کی شوریٰ ہو ضرور کریں کیونکہ بیماریوں اور حالات کا تو ہمیں نہیں پتہ کہ کب تک ایسے رہنے ہیں جو معمول کے مطابق نہ ہوں۔اگر اس بات پر ہم اپنے کام ملتوی کرتے رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ پھر نظام کو معمول کے مطابق چلانا مشکل ہوجائے گا۔اور پھر ایسی انتظامی دِقّتیں اورجماعت اور مرکز کے رابطے اور آپس کے اعتماد میں کمی کی ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جسے دوبارہ انہی بنیادوں پر چلانا مشکل ہوجائے گا جو اعلیٰ نظام کی بنیادیں ہونی چاہئیں۔ بے شک جماعت کا انتظامی ڈھانچہ مقامی طور پر اور مرکز کا جماعتوں سے رابطہ قائم ہے لیکن پھر بھی جب ایک جاری نظام میں کمزوری آتی ہے یا کسی وجہ سے جاری نہیں رہ سکتاتو آہستہ آہستہ جماعتوں اور مرکز اور پھر اس وجہ سے خلافت کے ساتھ تعلق میں بھی کمزوری پیدا ہونی شروع ہوسکتی ہے۔شوریٰ کا نظام خلافت اورجماعت کے درمیان ایک ایسا نظام ہے جس میں جماعتوںکو یہ احساس رہتا ہے کہ ان کے مشورہ اور آراء اور جماعت کی ترقی اور اندرونی تربیت کے لئے کوششوں کی منصوبہ بندی کے بارہ میں جماعت کی خواہشات ان کے نمائندوں کے ذریعہ خلیفہ ٔ وقت تک پہنچ رہی ہیں۔اور جن منصوبوں اور پروگراموں کی منظوری ان نمائندوں کی آراء کو دیکھتے ہوئے یا عدم منظوری اور متبادل پروگرام یا بعض تبدیلیوں کے ساتھ کسی کام کے کرنے کی منصوبہ بندی کی ہدایت خلیفہ ٔ وقت کی طرف سے آتی ہے تویہ ایک ایسی منصوبہ بندی ہوتی ہے جس میں جماعت ذمہ دار بن جاتی ہے کہ ان فیصلوں پرعملدرآمد کروائے۔اور یہی وہ ذریعہ ہے جو اعلیٰ نظام کے چلانے کی بنیاد ہے۔شوریٰ وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ جماعت کے خیالات اور ان کی سوچیں خلیفہ ٔ وقت تک پہنچتی ہیں۔اور پھر خلیفہ ٔ وقت کو ان آراء اور ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے جو خلیفہ ٔ وقت کے سامنے مختلف ذریعوں سے علم میں آتے ہیں بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق ملتی ہے۔

پس یہاں جو نمائندگان اس وقت موجود ہیں وہ اس سوچ کے ساتھ اپنے مشورے دیں کہ خلیفہ ٔ وقت نے ان مشوروں کو سامنے رکھتے ہوئے شوریٰ کے مشوروں پر اپنا فیصلہ کرنا ہے۔یہ سوچ ہو کہ ہم نے اپنی ترقی کے لئے حالات کے مطابق کس طرح کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔اگرملکی قانون ہمیں تبلیغ یا پیغام پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا تو ہم اپنے تربیتی منصوبوں پر توعمل کرسکتے ہیں۔ہم یہ تو دیکھ سکتے ہیں کہ ہم اس عرصہ میں کس طرح اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے ایسے سامان کریں کہ جماعت کی تربیتی حالت کے اعلیٰ ترین معیار قائم ہوجائیں۔ہم اپنی عبادتوں کے معیار کس طرح بڑھائیں کہ ہمارا ہربوڑھا، جوان،مرد،عورت،بچہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والا بنائے۔کس طرح ہم اعلیٰ اخلاق کے وہ معیار قائم کریں کہ جس کی مثال نہ ملتی ہو۔کس طرح ہم ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اپنے جائزے لینے والے ہوں۔

اس سال شوریٰ منعقد کرنے پر زور دینے کا میرا ایک یہ مقصد بھی تھاکہ اس سال شوریٰ کے نظام کو قائم ہوئے سوسال پورے ہوگئے ہیں۔یہ جائزہ ہم لیں کہ شوریٰ کا نظام جس مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا کیا وہ مقصد حاصل کرنے کے لئے ہم نے اپنی پوری کوششیں کی ہیں ؟اپنی عبادتوں کو ان معیاروں تک لے جانے کی کوشش کی ہے جن معیاروں تک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے جانا چاہتے تھے ؟حقوق العباد کی ادائیگی کے وہ معیار ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جن معیاروں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں دیکھنا چاہتے تھے ؟اگر نہیں تو ہر شوریٰ ممبر اور ہر عہدیدار کا یہ کام ہے کہ پہلے اپنی مثالیں قائم کرے اور پھر جماعت کے ہر ممبر کو اس معیار کو حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائے۔

پس شوریٰ کے ممبران یہ دو دن بھی دعائیں کرتے ہوئے اور اپنے جائزے لیتے ہوئے یہاں گزاریں اور اپنی جماعتوں میں واپس جا کر بھی اپنے قول وفعل سے جماعتوں کو اس کی طرف توجہ دلاتے رہیں۔اگرہم یہ کرلیں تو یقینا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے مشن کو پورا کرنے والے ہوں گے ورنہ ہمارایہاں اٹھنا بیٹھنا اور مشورے دینا ایک وقت گزاری اوربے مقصد ہوگا۔اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اورتمام عہدیداران کو بھی اپنے عہدوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین                                                                                                                                                   والسلام۔ خاکسار                                                                                        (دستخط)مرزا مسرور احمد     خلیفۃ المسیح الخامس  2022-05-11’’

عرضِ حال

امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جانب سے مجلس مشاورت پاکستان 2022ء کے لیے بھجوایا گیا مندرجہ بالا پُرمعارف پیغام جماعت احمدیہ میں نظامِ شوریٰ کی اہمیت اور اس کے بنیادی مقاصد کو واضح کرنے کے لیے نہایت درجہ ااہمیت کا حامل ہے۔ اللہ کرے کہ اس بابرکت نظام کو ہمیشہ خلافتِ احمدیہ کا سلطانِ نصیر بنے رہنے کی سعادت نصیب رہے۔ آمین

ادارہ الفضل انٹرنیشنل کی جانب سے نظامِ شوریٰ کے باقاعدہ قیام پر سو سال پورے ہونے پر جماعت احمدیہ میں مجلسِ مشاورت کی تاریخ کو اعداد و شمار کی صورت مختصر طور پر یکجا کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ مجلسِ شوریٰ میں پیش ہو کر امامِ وقت سے شرفِ قبولیت پا جانے والی تجاویز و آرا جماعت احمدیہ مسلمہ کے سالانہ لائحہ عمل کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے جماعت احمدیہ کا کردار مترشح ہوتا ہے چنانچہ اس ضمیمہ کو تیار کرنے کا ایک مقصد مسیح محمدی کے پیروکاروں اور دیگر افراد پر جماعت احمدیہ کے قیام اور اس کے دائرۂ عمل کے مقاصد واضح کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ کاوش جہاں متبعینِ خلافتِ حقہ اسلامیہ کے ایمان و ایقان اور علم میں اضافے کا موجب بنے وہاں دیگر احباب اس سے جماعت کا حقیقی تعارف حاصل کرنے والے ہوں۔ آمین

ادارہ الفضل انٹرنیشنل کی درخواست پر برادرم مصباح الدین محمود نے اس طویل اور مشکل کام کو سرانجام دینے کی حامی بھری اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد اور اس کے پیارے خلیفہ کی دعاؤں کے سہارے اسے بروقت پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ادارہ الفضل انٹرنیشنل مرتب ضمیمہ ہٰذا کے ساتھ ساتھ ان تمام احباب و ادارہ جات کا بھی شکر گزار ہے جنہوں نے اس کارِ خیر میں محض لوجہِ اللہ معاونت کی اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر و حسناتِ دارین سے نوازے۔ آمین (مدیر)

پیش لفظ

اسلام کے ذریعہ جس حسین اور خوبصورت اسلامی معاشرے کا قیام ہوا اُس کا ایک بنیادی اصول آپس میں مشاورت بھی ہے۔چنانچہ خداتعالیٰ قرآنِ کریم میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ اَمۡرُھُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَھُمۡ (الشوریٰ:39)یعنی اُن کا طریق یہ ہے کہ وہ اپنے معاملہ کو باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں۔اسی طرح ایک اور مقام پر خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو وَشَاوِرْهُمْ فِىْ الْاَمْرِ(آل عمران:160) کا ارشاد فرما کرمومنین سے مشورہ کی ہدایت فرمائی۔

لہٰذا قرآنِ کریم کے مذکورہ بالا ارشادات کے عین مطابق ا ٓنحضرتﷺ ہراہم معاملہ میں اپنےصحابہؓ سے مشاورت فرمایا کرتے تھے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہم نےحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے صحابہ سے مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔(سنن الترمذی،ابواب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی المشورۃ)۔مشورہ لینے سے متعلق رسولِ کریمﷺ کے اسوہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:‘‘آنحضرتﷺ کے اسوۂ مبارک کو دیکھا جائے تو آپ کے زمانہ کے حالات کے مطابق آپ نے دس پندرہ آدمیوں سے لے کر ایک ہزار تک کی شورٰی بلائی۔ تاریخ نے آنحضرتﷺ کے بعض ایسے مشورے بھی ریکارڈ کیےہیں جن میں مشورہ دینے والے دس پندرہ آدمیوں سے زیادہ نہیں تھے اور بعض مواقع پر مشورہ دینے والے اس سے زیادہ تھے۔ پس معلوم ہوا کہ دس پندرہ آدمیوں سے لے کر ایک ہزار تک آدمیوں سے مشورہ لینے کی سنّت قائم کی ہے۔’’( رپورٹ مجلس شوریٰ1967ء غیر مطبوعہ صفحہ 65)

آنحضرتﷺ کے غلامِ کامل امام الزماں سیدنا حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ بھی قرآن و سنت کے مطابق مشاورت کے طریق پر عمل پیرا تھے۔حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت میں داخل تھا کہ اپنے دوستوں سے مشورہ لیا کرتے تھے۔طبّی معاملات میں حکیموں، ڈاکٹروں سے،قانونی باتوں میں وکلاء سے۔فقہی مسائل میں علماء سے۔مکان کی تعمیر ہو تو اوورسیروں یا راجوں مستریوں سے، گھر کا معاملہ ہو تو اہل بیت سے۔اردو زبان کے کسی لفظ کے متعلق کوئی بات ہو تو ہماری والدہ صاحبہ اور میر صاحب مرحوم سے۔ غرض آپ کی عادت تھی کہ چھوٹی بڑی ہر بات میں ایک یا زیادہ اہل لوگوں کو بلا کر مشورہ اور تبادلہ خیا ل کر لیا کرتے تھے۔ اسی طرح بہت سے معاملات مجلس احباب میں بعد مشورہ طے پاتے تھے۔ غرض آپ حتی الوسع ہر معاملہ میں مشورہ لیا کرتے تھے۔ پھر جس بات پر انشراح ہو جاتا اسے قبول کر لیا کرتے تھے۔ ’’ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 21روایت نمبر 494)

اسی طرح حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی روایت ہے کہ ‘‘ حضرت مسیح موعود ؑکے زمانہ میں بعض امور جب پیش آتے تو آپ سال میں دو تین چار بار بھی اپنے خدام کو بلا لیتے کہ مشورہ کرنا ہے۔’’(رپورٹ مجلس مشاورت 1927ء صفحہ 144)

سیدنا حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نےاپنی تصنیف ‘‘آسمانی فیصلہ’’ میں مجوزہ انجمن کی تشکیل پر غور کرنے کے لیے جماعت کے دوستوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ27؍دسمبر 1891ء کوقادیان پہنچ جائیں۔لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق احبابِ جماعت 27؍دسمبر کو مسجد اقصیٰ قادیان میں جمع ہوئے۔اس موقع پر حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے حضورؑ کی تازہ تصنیف ‘‘نشانِ آسمانی’’ پڑھ کر سنائی اور بعدازاں یہ تجویز رکھی گئی کہ مجوزہ انجمن کے ممبران کون سے افراد ہوں۔اسی طرح اگلے سال بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر دوسرے روز28؍دسمبر1892ء کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بابرکت موجودگی میں یورپ اور امریکہ میں تبلیغِ اسلام کے لیے ایک مجلسِ شوریٰ منعقد کی گئی جس میں یہ طے پایا کہ ایک رسالہ بغرضِ تبلیغِ اسلام یورپ اور امریکہ میں مفت تقسیم کیا جائے۔اسی طرح یہ تجاویز بھی پیش ہوئیں کہ قادیان میں سلسلہ کا ایک اپنا مطبع ہو نیز اشاعتِ اسلام کے لیے ایک اخبار جاری کیا جائے۔اسی طرح اس رائے پر بھی غور کیا گیا کہ مولانا سیدمحمد احسن صاحب امروہی سلسلہ کے واعظ مقرر ہوں۔اس مشاورت کا مختصر احوال حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے اپنی تصنیف آئینہ کمالاتِ اسلام میں جلسہ کے ذکر میں درج فرمایا۔(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ615)

حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعدپہلا شورائی اجتماع، جلسہ سالانہ 1908ء کے موقع پر 26؍دسمبر رات 8سے 10بجے تک مسجد مبارک میں منعقد ہوا۔ اس میں انجمن کے ممبران کے علاوہ جماعتوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس کے انعقادکا مقصدیہ تھا کہ مدرسہ دینیہ کو جاری رکھا جائے یا اسے بند کر دیا جائے۔ (تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 247)

اسی طرح 31؍ جنوری1909ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے چالیس احباب کو قادیان طلب فرمایا۔اس کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے گئے جن میں حضرت خلیفۃ المسیح کے اختیارات سے متعلق ذکر تھا۔چنانچہ جن احباب کو مشورہ کے لئے بلایا گیا تھا وہ مقررہ تاریخ پرمسجد مبارک کی چھت پر جمع ہوئے۔ان نمائندگان کی تعداد دو اڑھا ئی سو تھی۔ (تاریخ ِاحمدیت جلد چہارم صفحہ 271تا281)

1922ء کا سال جماعتِ احمدیہ میں اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہےکہ اس سال حضرت مصلح موعودؓ نے جماعتِ احمدیہ میں باقاعدہ نظامِ شوریٰ کا ا ٓغاز فرمایا۔حضرت مصلح موعودؓ نے اس تاریخی موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا کہ‘‘سب سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مجلس جس کو پُرانے نام کی وجہ سے کارکن کانفرنس کے نام سے یاد کرتے رہے ہیں کیا چیز ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ اپنے معاملات میں مشورہ لے لیا کریں۔ مشورہ بہت ضروری اور مفید چیز ہے ا ور بغیر اِس کے کوئی کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ اِس مجلس کی غرض کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ ایسی اغراض جن کا جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے ان کے متعلق جماعت کے مختلف لوگوں کو جمع کر کے مشورہ لے لیا جائے تاکہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے یا ان احباب کو ان ضروریات کا پتہ لگے جو جماعت سے لگی ہوئی ہیں تو یہ مجلس شوریٰ ہے۔میں پورے طور پر تو نہیں کہہ سکتا کہ باہر کی کانفرنسیں کن اغراض کے لیے منعقد ہوتی ہیں مگر یہ مجلس شوریٰ ہے۔’’(خطاب 15؍اپریل 1922،خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ4،3)

ایک موقع پر مجلسِ مشاورت کے بانی سیدناحضرت مصلح موعودؓ نے اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:‘‘ہماری جماعت کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مجلس شوریٰ کی عزّت ان بنچوں اور کرسیوں کی وجہ سے نہیں ہے جو یہاں بچھی ہیں بلکہ عزت اُس مقام کی وجہ سے ہے جو خداتعالیٰ کے نزدیک اسے حاصل ہے۔ بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد ﷺکی عزت اُس لباس کی وجہ سے تھی جو آپ پہنتے تھے۔ آپ ﷺکی عزت اُس مرتبہ کی وجہ سے تھی جو خداتعالیٰ نے آپﷺکو دیا تھا۔ اِسی طرح آج بے شک ہماری یہ مجلس شوریٰ دُنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹوں کے ممبروں کو وہ درجہ حاصل نہ ہو گا جو اِس کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہو گا کیونکہ اِس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمنٹیں آئیں گی۔ پس اس مجلس کی ممبری بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اِس پر فخر کرتا۔ اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اِس پر فخر کریں گے۔ پس ضرورت ہے کہ جماعت اس کی اہمیت کو اور زیادہ محسوس کرے اور ضرورت ہے کہ سال میں دو دفعہ ہو تاکہ زیادہ مسائل پر غور کیا جا سکے۔‘‘( خطاب6؍اپریل1928ء، خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 276،275)

 خلافتِ احمدیہ کے ہاتھوں سوسال قبل 1922ء میں بیاسی نمائندگان کے ذریعہ جس مجلسِ شوریٰ کا ا ٓغاز ہواا ٓج خداتعالیٰ کے فضل اور برکاتِ خلافت کے ذریعہ خلافتِ خامسہ کے مبارک دور میں یہ نظام دنیا کے چاروں کونوں میں اور ملکوں ملکوں رائج ہو چکا ہے۔حکمِ خداوندی،اسوۂ رسولﷺ اور شیوۂ مسیحِ موعود علیہ السلام کی تتبع میں غلامانِ خلافت اپنے آقا حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمتِ اقدس میں اس مجلس کے انعقاد کے ذریعہ اپنی آرا پیش کرتے ہیں اور خدائی فراست،نورِ الٰہی اور حکمِ ربّانی کے ذریعہ حضرت خلیفۃ المسیح ان تجاویز اور سفارشات پراپنے صوابدیدی اختیار کے تحت فیصلہ جات صادر فرماتے ہیں۔

سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیزمجلسِ مشاورت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘دنیا میں حکومتیں اور تنظیمیں اپنے دنیاوی کاموں کے لیے مختلف ناموں کے ساتھ مجالسِ مشاورت منعقد کرتی ہیں۔ لیکن جماعت احمدیہ کی مجلسِ شوریٰ قرآنِ کریم کے حکم شَاوِرْ ھُمْ فِی الْاَمْرِ (سورۃ آل عمران :160) کی تعمیل میں منعقد کی جاتی ہے۔ یہ ادارہ خلافتِ احمدیہ کے لیے سلطانِ نصیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے بھی اشارہ ملتا ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ لَاخِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ۔ پس مشاورت ہماری جماعت کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے اور جزوِ لاینفک ہے۔’’(پیغام برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ پاکستان2008ء،روزنامہ الفضل7؍اپریل2008ء صفحہ5)

ادارہ الفضل انٹرنیشنل کے زیرِ سرپرستی مرتب کی جانے والی مختصر تاریخ مجلسِ مشاورت اس سو سالہ دور کا ایک اجمالی احاطہ ہے۔محدود صفحات پر مشتمل اس ضمیمہ میں ہر سال مجلسِ مشاورت کی تجاویز کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں پیش کی جانے والی تفصیلی سفارشات شامل کرنا ممکن نہ تھا۔اسی طرح بعض سالوں کی رپورٹ مہیا نہ ہونے کے باعث اس سال کے ایجنڈے کی تجاویز،رد شدہ تجاویز،یاتعداد نمائندگان شامل نہ کی جا سکی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس ادنیٰ مساعی کو قبول فرمائے اور خلافت کے حضور پیش کیے جانے والی ہماری تمام تجاویز، جملہ آرا اور سب مشورے ہمیشہ خداتعالیٰ کی نظر میں مقبول ٹھہرتے رہیں اور ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لیے باعثِ فرحت اور قرار کا موجب ہوں۔اللّٰھم آمین

خاکسار۔ مصباح الدین محمود

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button