مضامین

پاکستان کی تعمیر و ترقی اور استحکام کی بابت خلفائے احمدیت کی راہنمائی

((’ابو اسد‘))

’’ہم نے پاکستان کی کوئی چیز حتیٰ کہ ایک درخت بھی ضائع نہیں ہونے دینا، ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کا ایک دھیلہ بھی جو ہماری نگرانی میں آجائے گا وہ ضائع نہ ہو‘‘

پاکستان کی تعمیروترقی اور استحکام میںجماعت احمدیہ نےجو کارہائے نمایاں سرانجام دیے وہ بلاشبہ تاریخ میں ہمیشہ یادکیےجائیں گے۔خلفائے احمدیت نے قیامِ پاکستان کے بعدنیزاس کی تعمیر و ترقی اور استحکام کےلیے جہاں افرادِ جماعت میں حب الوطنی کےتقاضوں کواُجاگر کیا وہیںحکومتی راہنماؤں کی بھی مخلصانہ اور پُر حکمت مشوروں اوربیش قیمت تجاویز سےراہنمائی فرماتے رہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےقیام پاکستان کے بعد پاکستان میں پہلے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’پاکستان کا مسلمانوں کو مل جانا اس لحاظ سے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سانس لینے کا موقع میسر آگیا اور وہ آزادی کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اب ان کے سامنے ترقی کے اتنے غیر محدود ذرائع ہیں کہ اگر وہ ان ذرائع کواختیار کریں تو دنیا کی کوئی قوم ان کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی اور پاکستان کا مستقبل نہایت ہی شاندار ہو سکتا ہے۔‘‘(تقریر جلسہ سالانہ 28؍دسمبر 1947ءانوار العلوم جلد 19صفحہ 385)

قیام پاکستان کے بعد اس کی تعمیر و ترقی ، دفاع اور استحکام کے حوالے سےخلفائے احمدیت کے فقیدالمثال اورراہنما ارشادات کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں:

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓی

دفاع پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیےفوجی کلبوں کے اجراکی مفید تجویز

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےدفاع پاکستان کو مضبوط بنیادوں پراستوار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فوجی کلبوں کے اجراکی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’ ہمارے نزدیک ٹیریٹوریل فورس اور فوجی کلبوں کے قیام میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہئے۔ فوج کے مہیاکرنےکایہ ایک بہترین اور سہل ذریعہ ہے۔ اس کا انتظام کلی طور پر فوج کے محکمہ کے ماتحت ہوناچاہئے۔‘‘(الفضل 17؍ اکتوبر 1947ء صفحہ 2)

ملکی پریس کو سچی خبریںچھاپنےکی نصیحت

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےملکی پریس کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’ہمارے نزدیک اس وقت خبر دینے والوں اور خبریں لینے والوں اور خبریں چھاپنے والوں کا سب سے اہم فرض یہ ہونا چاہئے کہ سچی خبریں دیں، سچی خبریں سنیں اور سچی خبریں چھاپیں۔‘‘

نیزفرمایا:’’اخباروں یا دوسرے اداروں کو ہرگز کوئی ایسی خبر نہ بھیجیں جو ثابت شدہ حقیقت نہ ہو اور جس میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہو۔ ایسی خبروں سے قوم کے حوصلے نہیں بڑھتے بلکہ جب ان کی غلطی ثابت ہوتی ہے تو قوم کے حوصلے گر جاتے ہیں اور عارضی طور پر بڑھا ہوا حوصلہ ایک مستقل شکست خوردہ ذہنیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور قوم ایک ایسے گڑھے میں گرجاتی ہے جس میں سے اس کا نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘(الفضل 7؍نومبر 1947ء صفحہ 1، 2)

معاشی حالت کو سدھارنے کے لیے جلد کارخانے جاری کروانے کا مشورہ

تقسیم کے وقت غیر مسلم مالکان اپنے کارخانوں کو یا تو بند کر گئے تھے اور یا پھر ان میں اہم پرزوں کو نکال کر لے گئے تھے۔ نیز چونکہ یہ متروکہ جائیدادیں تھیں،اس لیے انہیں حکومت نے کرائے پر بھی نہیں دیا تھا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا کہ پورے سال میں کارخانے جاری ہی نہ ہو سکتے تھے۔ اس تناظر میں حضر ت مصلح موعودؓ نے ان کارخانوں کو فوری جاری کروانے، ان کے لیے لوہے کی پتیوں اور کوئلہ کے بروقت مہیا کرنے پر خصوصی زوردیا۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الفضل 9؍نومبر 1947ء صفحہ 2)

افراد میں آزادی کی روح پیدا کرنے کے لیے انتظامیہ اور عدلیہ کو علیحدہ کرنے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےقیام پاکستان کے آغاز میں ہی ایک بہت بڑے انتظامی سقم کی طرف توجہ دلائی یعنی عدلیہ اور انتظامیہ کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا چاہیے۔چنانچہ حضورؓ نے فرمایا:’’اسلامی قانون کے مطابق بھی یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایگزیکٹو اور محکمہ الگ ہونا چاہئے اور قضا کا محکمہ الگ ہونا چاہئے۔ جب تک ان دونوں محکموں کو آزاد نہ کیا جائے افراد میں آزادی کی روح پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ ہر شخص کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ قضا کے ذریعہ سے اپنا حق لے سکتا ہے اور ہر افسر کو محسوس ہونا چاہئے کہ اگر وہ کسی کا حق مارے گا تو اسے اس کی جوابدہی بھی کرنی پڑے گی۔‘‘ (الفضل 20؍نومبر 1947ء صفحہ 2، 3)

ملکی اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہنے کی نصیحت

استحکام ملک کی خاطر ایک نہایت بیش قیمت مشورہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےیہ دیا کہ تمام ملکی ادارہ جات کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہیے۔چنانچہ فرمایا:’’ملک کے فائدے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی انجمن پر ملک کے وزراء قابض نہ ہو ں لیکن جس طرح یہ ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کی آئین ساز مجلس، ملک کی وزارت اور اس کے افسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔ ان تین آزاد یا نیم آزاد اداروں کے باہمی تعاونوں سے ہی ملک کی حالت درست ہوا کرتی ہے۔ سیاسی انجمن کو حکومت کے افسروں کے اثر سے آزاد ہونا چاہئے اور حکومت اور حکام کو سیاسی انجمن کی دخل اندازی سے آزاد ہونا چاہئے۔‘‘(الفضل 20؍نومبر 1947ء صفحہ 2، 3)

حکام وقت کو بیرونی ممالک سے قرضہ لینےکی مخالفت

پاکستان کی اقتصادی حالت کمزور تھی اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہ تھی۔اس مرحلے پر امریکہ کی طرف سے پاکستان کو قرضہ دینے کی پیشکش ہوئی۔اس پیشکش پر حضورؓ نے شدید ردعمل کا اظہار اپنے ایک لیکچر میں فرمایا۔جس کی خبردیتے ہوئےاخبار طاقت 9؍دسمبر 1947ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ’’جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد نے آج شب لاء کالج ہال میں ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے اس تجویز کی سخت مخالفت کی ہے کہ حکومت پاکستان امریکہ سے ساٹھ کروڑ ڈالر کا قرضہ حاصل کرے۔ ملک فیروز خان نون نے اس جلسہ کی صدارت کی۔ مرزا بشیر الدین نے کہا کہ اس قرضہ کا مطلب پاکستان پر ساڑھے پانچ کروڑ سالانہ سود کا بوجھ اور ایک غیر حکومت کا معاشی غلبہ ہو گا۔ اس کے مقابلہ میں انہوں نے دوسری سکیم پیش کی ہے کہ حکوت پاکستان غیر ممالک کی فرموں کو اپنا روپیہ پاکستان میں لگانے کی دعوت دے۔ ان فرموں کو سرمایہ کا کل چالیس فی صدی روپیہ لگانے کی اجازت دینی چاہئے اور باقی روپیہ حکومت پاکستان اور باشندگان لگائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ اس کا بھی انتظام کرنا چاہئے کہ باشندگان پاکستان ان فرموں کے ٹیکنیکل آدمیوں سے باقاعدہ کام سیکھیں۔‘‘

صنعتی ، زرعی اور دفاعی ضروریات پر اعلیٰ قومی لیبارٹری کے قیام کی تجویز

حضرت مصلح موعودؓنے ایک ایسی قومی لیبارٹری کے قیام کی تجویز پیش فرمائی جس میں ملک کی صنعتی ، زرعی اور دفاعی ضروریات پر تحقیقات اور ریسرچ کا کام اعلیٰ پیمانہ پہ کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت ایک بھی ایسی لیبارٹری قائم نہ تھی۔ یہ تجویز حضورؓ نے یکم دسمبر 1947ء کو لاء کالج ہال لاہور میں لیکچر دیتے ہوئے پیش فرمائی۔(تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 415)

معدنی وسائل سے بھرپور فائد ہ اٹھانے کی تلقین

حضرت مصلح موعودؓنے یکم دسمبر 1947ء کو لیکچر دیتے ہوئے پاکستان کے معدنی وسائل سے فائدہ اُٹھانے کی تلقین کرتےہوئے فرمایا:’’پاکستان کا علاقہ معدنی دولت سے بھی مالا مال ہے مثلاً کوئلہ، سکہ، پیٹرولیم ، ابرک وغیرہ۔ لوہے کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسری تمام معدنیات موجود ہیں جن سے پاکستان اپنی ضرورت بوجوہ احسن پوری کر سکتا ہے۔ نیز کوئلہ کی کانوں کے لئے جستجو اور تلاش جاری رکھی جائے تو پاکستان اپنی جملہ ضروریات میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ ان سے استفادہ کا کام بالکل ابتدائی مراحل میں ہے اور یہ تمام ذرائع ادھورے پڑے ہیں۔ معدنیاتی وسائل کا مکمل سروے (پیمائش و افزائش) کا کام وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔ حضور نے یہ بات زور دے کر بیان فرمائی کہ بلوچستان کےعلاقہ میں پیٹرولیم کی بہتات تھی لیکن ابھی تک اس کی جانچ پڑتال میں کوئی نتیجہ خیز کوشش نہیں کی گئی۔ اگر کوشش کی جائے تو وہاں اتنا پیٹرول مل سکتا ہے کہ وہ ابادان کو بھی مات کر دے گا۔‘‘(حضور کے اس لیکچر کو ملک کے ممتاز اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا مثلاًنوائے وقت لاہور 4؍دسمبر 1947ء صفحہ 5، ایسٹرن ٹائمز لاہور 3؍دسمبر 1947ء صفحہ 1)

زرعی ترقی کی طرف توجہ دینے کی تحریک

حضورؓ نے اس امر پر بے حد زور دیا کہ ملک کی زرعی ترقی کی طرف توجہ دی جائے۔ اسی طرح حضورؓ نے زراعت کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ ’’زراعت کو پاکستان کی سب سے بڑی دولت سمجھا جا رہا ہے لیکن ہمیں ایک بہت بڑے خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور وہ یہ کہ پاکستان کے زرعی علاقے پچاس سال میں بالکل بیکارہو جائیں گے اور اس کے آثار بھی ظاہر ہو چکے ہیں۔ اس خطرہ کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں ضرررساں نمک بڑی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اس خطرے کے تدارک کے لئے ابھی سے سائنس کے اصولوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘(الفضل 19؍مارچ 1947ء)

سوختنی لکڑی کی پیداوار بڑھانے کا مشورہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےقیام پاکستان کے بعد ایندھن کی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے سوختنی لکڑی کی پیداوار بڑھانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’پاکستانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسا انتظام کرے کہ سوختنی لکڑی کثرت سے تمام دیہات اور قصبات میں مل سکے کہ زمینداروں کو جلانے کے لئے اوپلوں کی ضرورت پیش نہ آئے…. اگر یہ انتظام جاری کیا جائے تو یقیناً سوختنی لکڑی کا سوال حل ہو جائے گا اور گوبر کھاد کے لئے بچ جائے گا۔ جس سے ملک کی زراعت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 417)

تعمیری لکڑی کی پیداوار بڑھانے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےتعمیراتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیےتعمیری لکڑی کی پیداوار میں اضافہ کے منصوبے بنانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:’’جنگلات کے ماہروں کو اس بات کے لئے ہدایت ملنی چاہئے کہ وہ درختوں کی مختلف اقسام پر غور کر کے ایسی اقسام معلوم کریں جو پاکستان کی آب و ہوا میں اگائے جا سکیں اور عمارتوں کی تعمیر اور جہازوں کی ساخت اور ریلوے کی پٹڑیاں بنانے کے کام میں استعمال ہوسکیں۔‘‘(الفضل 19؍دسمبر 1947ء صفحہ 6)

پلاسٹک کے کارخانے جاری کرنے کی تحریک

جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ پاکستان میں آنے والے علاقوں میں سوختنی لکڑی ، تعمیراتی اور نرم لکڑی کی شدید قلت تھی۔ اس موقع پر لکڑی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓنے پاکستان میں فوراً پلاسٹک کے کارخانے جاری کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔(ملاحظہ ہو الفضل 9؍دسمبر 1947ء)

جڑی بوٹیوں سے فائدہ اٹھانے کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےاپنے ایک مضمون میں نباتی دولت سے فائدہ اٹھانے اور جڑی بوٹیاںجمع کر کے ان کے مفید استعمال کی بابت توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’اب پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اس کے لئے موقع ہےکہ اپنی نباتی دولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔ اگر ایک محکمہ بنا دیا جائے جو جڑی بوٹیوں کے الکلائیڈز اور دوسرے کیمیاوی اجزاء دریافت کرے۔ تو تھوڑے ہی عرصہ میں بیسیوں کئی دوائیں پاکستان میں ایجاد ہو جائیں گی جو دنیا کی ساری منڈیوں میں اچھی قیمت پر بک سکیں گی۔‘‘(الفضل 9؍دسمبر 1947ء)

مادری زبان میں تعلیم رائج کرنے کی تجویز

زبان کے مسئلہ پر پاکستان میں اختلافات نمودار ہو نےپر حضوررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ’’خواہ مخواہ اسےپیچیدہ بنایا جا رہا ہے صرف یہ ہے کہ انگریزی کی قائم مقام کون سی زبان ہو اور چونکہ اردو قرآن مجید کو سمجھنے اور اسلامی ممالک میں اتحاد پیدا کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے اس لئے ہمیں مشترکہ طور پر اس سے کام لینا چاہئے۔ یہ سراسر غلط بحث ہے کہ بنگالی کی جگہ اردو کو دی جائے یا سندھی کی جگہ اردو کو دی جائے۔‘‘(الفضل 14؍ دسمبر 1947ء)

ایک نئی ریلوے لائن تعمیر کرنے کی ضرورت

مغربی پاکستان میں ریلوے لائنیں ایسے رخ پر واقع تھیںکہ جو دفاع کے لحاظ سے خطرناک ہیں۔ حضورؓ نے اس سلسلے میں تجویز پیش فرمائی کہ سندھ کے اس پار راولپنڈی سے کراچی تک ایک نئی ریلوے لائن بنائی جائے جس کے ذریعہ خطرہ کے اوقات میں سندھ کا پنجاب سے تعلق قائم رہ سکے۔(تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 295،296)

بحری طاقت بڑھانے کا مشورہ

حضورؓنے یہ تحریک فرمائی کہ مسلمان نوجوانوں کو بحری ملازمتیں کرنے اور سمندری سفر کرنےکا اپنے دلوں میں خاص شوق پیدا کرنا چاہیے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کو بحری ٹریننگ کے لیے کلبیں قائم کرنی چا ہئیںکیونکہ درحقیقت بغیر سمندری طاقت کے صحیح معنوں میں آزادی مل ہی نہیں سکتی۔ نیزپاکستان کو آبدوز کشتیاں، سرنگ بچھانے والے ، سرنگیں صاف کرنے والے ، تبا ہ کن جہاز، ہوائی جہاز بردار جہاز حاصل کرنے کے لیے فوری طور پر قدم اٹھانے کی طرف توجہ دلائی کہ زیادہ سے زیادہ کروڑ دو کروڑ روپیہ ان چیزوں پر خرچ کر کے ہم فوری طور پر کراچی کی بندرگاہ کو محفوظ کر سکتے ہیں۔(تاریخ احمدیت جلد 11 صفحہ 423)

دیگر ملکوں سے سیاسی تعلقات کا قیام

حضورؓ نے دیگر ممالک کےساتھ پاکستان کے سیاسی تعلقات قائم کرنے پربالخصوص زور دیا اور اس سلسلہ میں 13 اہم تجاویز کے ذریعہ راہنمائی بھی فرمائی جن میں ہندوستان سے تعلقات خراب نہ کرنے کی ہدایت اور باعزت صلح کی کوشش،روس کےساتھ امن پسندانہ رویہ ،عرب ممالک سے زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعلقات ،عراق اور شام کے ساتھ ریل کے ذریعہ پاکستان کا اتصال ،برما اور سیلون سے گہرے سیاسی تعلقات قائم کرنےاورسپین، ارجنٹائن، جاپان، آسٹریلیا، ابی سینا اور ایسٹ افریقہ سے بھی دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش وغیرہ کی طرف توجہ دلائی۔(الفضل 11؍جنوری 1948ء صفحہ 1، 8)

تجارت کی طرف توجہ دینے کی تجویز

وطن کی تعمیر وترقی کے لیے تجارت کو فروغ دینے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےفرمایا:’’یہ بات یا د رکھنی چاہئے کہ روزی صرف زراعت میں ہی نہیں ہے تجارت میں بھی ہے۔ بلکہ زراعت سے بہت زیادہ۔ اس لئے لوگوں کو اپنی زمینوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے تجارت کی طرف توجہ دینی چاہئے اور ملک ہمیشہ تجارت سے ہی خوشحال ہوا کرتا ہے۔‘‘(بحوالہ ماہنامہ خالد ربوہ اگست 1997ءصفحہ79)

اسلامی ممالک سے فوری اتحادقائم کرنے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اتحادبین المسلمین کے بھی عظیم داعی تھےچنانچہ آپ نے پاکستان کو اسلامی ممالک سے مضبوط اتحاد قائم کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’ہمارے نزدیک تمام پاکستانی سفراء اور ہائی کمشنروں کو ہدایت جانی چاہئے کہ وہ تمام اسلامی ممالک کے نمائندوں ، سفیروں ،وزیروں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ تعلقات بڑھائیں… ان کے اس کام میں تعاون کریں جس کام کے لئے وہ اس ملک میں آئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمام اسلامی ممالک زیادہ سے زیادہ آپس میں متحد ہوتے جائیں گے اور چند ہی سالوں میں ایک زبردست اسلامی حکومت پیدا ہو جائے گی۔ جسے چھیڑنے کا کسی دشمن کو حوصلہ نہ پڑے گا۔ ‘‘(الفضل لاہور 14؍اکتوبر 1947ء صفحہ 2)اسی طرح حضورؓنےانڈونیشیا، سعودی عرب اور ایبےسینیا سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تحریک بھی فرمائی۔(الفضل 14؍اکتوبر 1947ء صفحہ 1)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ وقت کا استعمال

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نےوقت کے ضیاع سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’وقت کا ضیاع ایک قومی نقصان ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر سارے پاکستانی اپنی استعداد کے مطابق اقتصادی میدان میں اپنا پورا زور لگا دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا معیار زندگی ایک سال کے اندر اندر دُگنا تگنا نہ ہوجائے۔‘‘(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18؍جولائی 1969ء)

منصوبہ بندی کا صحیح طریق

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نےمنصوبہ بندی اور فیصلہ سازی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب تم میری ہدایت کے مطابق اس میدان میں جس میں تمہیں اختیار دیا گیا ہے تدبیر کروگے اور منصوبے بناؤگے پلین(PLAN) تیار کروگے سکیمیں سوچوگے تو تمہیں تین چیزوں کی ضرورت پڑے گی ایک تو STATISTICS یعنی اعدادو شمار تمہارے سامنے ہونے چاہئیں۔ ورنہ تمہارے منصوبہ کی وہ غرض پوری نہیں ہوگی جو میں چاہتا ہوں کہ تمہارےذریعہ پوری کروں۔ پھر جب تم ان اعداد و شمار کو اپنے سامنے رکھو گے تو غور و فکر کرکے تمہیں کچھ فیصلے کرنے پڑیں گے اور تیسرے جب تم کچھ فیصلے کروگے تو تمہارے بہت سے فیصلے جزا کے طور پر ہوں گے لیکن ان کے نتیجے میں کسی فرد کو یا کسی گروہ کو بدلہ مل رہا ہوگا۔ تمہارے یہ تینوں عمل خالصةً میرے لیے ہونے چاہئیں اور اس غرض سے ہونے چاہئیں کہ میرا رنگ تمہاری صفات پر چڑھے اورتم میری صفات کے مظہر بننے کے قابل ہوجاؤ…غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اعداد وشمار جب تمہارے سامنے آئیں گے تو تمہیں اپنے فیصلے کرنے پڑیں گے۔ مثلاً یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کپڑا بننے کے کتنے مزید کارخانوں کی ضرورت ہے۔ شکر کے کارخانے کتنے اور چاہئیں۔ لوہا کتنا چاہیے۔ سیمنٹ کتنا چاہیے۔ ہزا رقسم کی چیزیں ہیں جن کی آج دنیا میں ضرورت پڑتی ہے۔ ان میں سے ہر چیز کے متعلق فیصلہ کرنا پڑے گا اور الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ فیصلہ اس کی صفات کے پَرتَو کے نیچے ہونا چاہیے تا اس کی رحمت کے سایہ تلے رہو اور اس لیے اس کی رحمت کے سایہ تلےرہوکہ اس طرح تم اس کی صفات کے مظہر بن جاؤ۔‘‘(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 18؍ستمبر1969ء)

ملکی معیشت اور کم خوری

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ملکی معیشت کے استحکام اور صحت عامہ کی خاطر قناعت کی روح پیدا کرنے اور کم خوری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ’’کم کھانےسے بدن میں چستی اورجفاکشی کی عادت پیداہوتی ہےچنانچہ دیکھاگیاہےکہ عربی النسل گھوڑوں کی خوراک دوسرے گھوڑوں کی نسبت بہت ہی کم ہےلیکن اُن میں چستی اور جفاکشی دوسرے گھوڑوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے…آنحضرتﷺبھی فرمایاکرتےتھےکہ مومن کوکم کھاناچاہیےاورپُرخوری سےبچناچاہیے، اگر ہماری قوم آنحضرتﷺ کے اس ارشاد پر عمل پیراہوجائےتوعلاوہ اعلیٰ صحت کےملک سےغذائی قلت بھی جاتی رہے گی اورعوام کواکثربیماریوں سےنجات بھی مل جائےگی…اورملک میں ایسی تحریک شروع کرنی چاہیےکہ یہ بات عوام کےذہن نشین کرائی جائےکہ زیادہ کھانےسےنقصان ہی ہوتاہےاپنی صحت کابھی اور قومی معیشت کابھی۔‘‘(روزنامہ الفضل 23؍مئی 1971ء)

وطن سے محبت کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہمارے دلوں میں اپنے ملک کے لئے جو محبت ہے یہ وہی محبت ہے جس پر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مہر لگائی ہے حب الوطن من الایمان یعنی وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے۔ یہ وہ صادق محبت ہے، یہ وہ گناہوں سے پاک محبت ہے ، یہ وہ دکھ دینے کے خیالات سے مطہر محبت ہے، یہ وہ محبت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اقتداء اور آپ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہمارے دلوں میں پیدا کی گئی ہے اور یہی وہ محبت ہے جو ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اگر ہمیںاپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو ہم دریغ نہیں کریں گے۔ لیکن اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ خواہ ہمیں ہر طرف سے برابھلا ہی کیوں نہ کہا جائے۔‘‘

اس کے بعد اسی خطبے میں حضورؒ فرماتے ہیں:’’آج ہمارا ملک ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اے میرے بچو! اے کرہ ارض کے اس حصے میں رہنے والو! میری مضبوطی اور استحکام اور بقا کے لئے اپنی انتہائی قربانیاں پیش کرو۔ دنیا ہمیں جو مرضی کہتی رہے حب الوطن من الایمان کے ارشاد کے مطابق ہمیں آج اپنے ملک کے لئے ہر قسم کی قربانیا ں دے دینی چاہئیں۔ مگر یہ وہ انتہائی قربانیاں ہونی چاہئیں جو خداتعالیٰ کو پیاری اور محبوب بھی ہوں اور جن کے بعد اس قدرتوں کے مالک اور صاحب عزت خدا کے قادرانہ ہاتھ سے نتائج بھی نکلا کرتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍دسمبر 1971ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد3 صفحہ 552)

استحکام پاکستان کے لیےدعاؤں اور صدقات کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے وطن کے لیے پُرسوز دعاؤں اور صدقات کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’ہمارے ملک کے موجودہ حالات ہر صاحب فراست کے دل میں تشویش پیدا کر رہے ہیں۔ اندرونی دشمن دشمنی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بیرونی دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمارا دوست نہیں ہے بلکہ وہ ہمارا دشمن ہے اور ان کی باتیں ، ان کے منصوبے، ان کی خواہشات اور ان کے عمل ہمارے ملک کے خلاف ہیں۔ گو ساری دنیا تو ہمارے خلاف نہیں۔ دنیا کا ایک حصہ ہمارا دوست بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اخلاص سے دوستی نباہنے کی توفیق دے اور اس کی جزا بھی دے لیکن دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمارا دشمن ہے۔ جو عجیب شاطرانہ اور دجالانہ منصوبوں سے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پس اندرونی دشمن بھی اس وقت اپنی شرارتوںمیں تیز ہو رہے ہیں اور بیرونی دشمن تو بہرحال دشمن ہے۔ اس واسطے قوم پر اس وقت ایک ابتلاء کا وقت ہے۔ دعائوں اور صدقات سے ابتلاءدور ہو جایا کرتے ہیں۔ اس لئے آپ دعائیں کریں اور استحکام پاکستان کے لئے آپ کے لئے جس حد تک ممکن ہو صدقات بھی دیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کے باشندوں کو بھی دعا کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جب تک ساری قوم مومنانہ فراست سے حصہ نہیں لیتی اور مومنانہ قربانیوں اور ایثار کا مظاہرہ نہیں کرتی اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل اس رنگ میں تو ہماری دعائوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں ظاہر نہیں ہو سکتے جس رنگ میں اس صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں کہ ساری کی ساری قوم خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ اس کے سامنے عاجزانہ طور پر جھکے اور اسی سے ہر قسم کی خیرو برکت چاہے۔ پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم پر فضل فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍ستمبر1972ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد 4صفحہ 412)

اسی طرح قحط سالی کے خدشے کے پیش نظر خاص دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا:’’دوست یہ یاد رکھیں کہ پاکستان کے استحکام کا جو تعلق دعاؤں کے ساتھ ہے اس کی ذمہ داری ہم پر ڈالی گئی ہے۔ اس وقت ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ خدا نخواستہ کہیں ہمارے ملک میں قحط نہ پڑ جائے۔ کیونکہ بڑی دیر سے بارشیں نہیں ہو رہیں جمعہ میں قبولیت دعا کی ایک گھڑی کی بشارت ہمیں دی گئی ہے۔ سو دوست کثرت سے نماز میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ، ہمارے ملک پر رحم کرے اور ہمیں قحط کے خطرہ سے محفوظ رکھے اور ہر رنگ میں رحمتوں کی بارش ہم پر نازل کرے اور ہماری زمینوں کو یہ قوت بخشے کہ اس بارش کو قبول کرے۔ بہترین کھیتیاں ہمارے لئے اگائے۔ میں دوسری رکعت کے پہلے سجدہ میں خاص طور پر بارش کےلئے دعا کروں گا۔ آپ دوست بھی میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہو جائیں۔(آمین )‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍دسمبر 1965ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد اول صفحہ 78)

ایک اور خطبے میں وطن کے لیے خصوصی دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے حضورؒ فرماتے ہیں:’’پھر دوست دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس ملک پاکستان پر رحم فرمائے اور اس کی مشکلات کو دور کرے اور اس کے شہریوں کو ان کی پریشانیوں سے نجات بخشے اور ان میں جو روحانی ارتقاء کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں جہاں دوسری صلاحیتوں کی نشوونماکی انہیں توفیق ملے وہاں روحانی صلاحیتوں کی نشوونما کی بھی انہیں توفیق عطا ہوتا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے منشا کو سمجھنے لگیں اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہونے کی توفیق عطا ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ اکتوبر 1973ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 249)نیز ملک کی خوشحالی کے لیے دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اس وقت ہمارے ملک پاکستان کو بھی ہماری دعاؤں کی بہت ضرورت ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لئے دعائیں کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔پس پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ پاکستان اور اہل پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے لئے دعائیں کریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍اگست 1975ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد 6صفحہ 125تا126)

ملکی اموال کی حفاظت کی تلقین

ملکی استحکام اور ترقی کے لیے کفایت شعاری اور اموال کےضیاع سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ چونکہ ہم کسی کے دشمن نہیں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے ہم اُسے غلطی خوردہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہم نے اُن لوگوں کو بھی پیار کے ساتھ اپنے سینے کے ساتھ لگانا ہے جو ہمارے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں۔خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ وہ دن دُور نہیں جب یہ مسئلہ اُن کی سمجھ میں آجائے گا کہ وہ بھی ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ ہم تو کبھی اُن کے دشمن نہیں ہوئے اور یہ ملک جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارا ملک ہے…ہم نے پاکستان کی کوئی چیز حتیٰ کہ ایک درخت بھی ضائع نہیں ہونے دینا۔ ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کا ایک دھیلہ بھی جو ہماری نگرانی میں آجائے گا وہ ضائع نہ ہو۔ ہمارا ملک غریب ہے۔ ہم نے اس کے لئے انتہائی قربانیاں دیں اور انتہائی تکالیف برداشت کیں اور غریبانہ زندگی اختیار کی تاکہ ہمارے ملک کی شان وشوکت دُنیا پر ظاہر ہو…اس ملک کو ایک ایسا ملک بنانا ہے کہ جو دُنیا کے لئے ایک نمونہ ثابت ہو۔ ہمارا ملک دُنیا کو ہدایت دینے والا ملک بن جائے۔ دُنیا اس سے ہدایت حاصل کرے کہ دیکھویہ ملک کس طرح غربت سے اُٹھا اور ترقی کر گیا۔ 1947ء میں اس کا کیا حال تھا اور اب اپنی محنت سے کیا سے کیا بن گیا ہے۔ تاہم یہ درست ہے کہ بہت سا وقت ضائع ہو گیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ قوموں کی زندگی میں اگر دس پندرہ سال ضائع بھی ہو جائیں تو قومیں جب اس نقصان کو پورا کرنا چاہتی ہیں تو وہ پھر درجنوں یا بیسیوں سال کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ اپنی محنت، اپنی فراست، اپنے علم اور اپنی دعاؤں سے(کیونکہ ہم مسلمان احمدی ہیں اور ہمارا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے)اس کمی کو پورا کرتی ہیں اور ملک کی ترقی کے سامان پیدا کرتی ہیں۔ انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔

غرض جیسا کہ میں نے بتایا ہے احباب جماعت نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔ حکومت کے افسران سے جو اپنے اپنے علاقہ میں فتنہ وفساد کو دور کرنے کی مخلصانہ کوششیں کرتے ہیں، اُن سے پورا پورا تعاون کرنا ہے اور وہ افسران جو اپنی فرض شناسی کے لحاظ سے غافل اور سست ہیں، اُن کے لئے واعظ اور نگران بنناہے۔ تم اُن سے مناسب رنگ میں یہ کہو کہ تمہارا ملک تم سے اخلاص کا مطالبہ کر رہا ہے اس لئے غفلت کو چھوڑو، سستیوں کو ترک کرو اور ملک کی خدمت کے لئے آگے بڑھو،ہم تمہارے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ فتنہ فساد ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے تم فتنہ و فساد کو دور کرنے کی کوشش کرو اس سلسلہ میں ہم سے جو قربانی لینا چاہتے ہو اس سے ہم دریغ نہیں کریں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍جولائی 1974ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد5 صفحہ 593تا594)

ملکی استحکام کے لیے یکجہتی اور قربانیاں دینے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ذاتی مفادات اور رنجشوں کو پس پشت ڈال کر ملک کی خاطر اتحاد اور یکجہتی کے جذبوں کو پروان چڑھانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:’’اس وقت ہمارے ملک کے دشمنوں کے منصوبے اپنی انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ جو لوگ بظاہر ملک کے دوست ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں بھی وطن کی محبت نہیں پائی جاتی کہ جس کے نتیجہ میں قومیں پنپتی اور ترقی کرتی ہیں چنانچہ ذاتی مفاد اور ذاتی رنجشوں کی پرواہ زیادہ ہے اور ملک کے اتحاد اور یک جہتی کی پرواہ کم ہے۔‘‘

نیز فرمایا:’’ملک کے استحکام کے لئے بہت دعائیں کی جائیں کیونکہ دعائیں کرنے کی اللہ تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈنے کی اس سے مدد مانگنے کی اور اسی کے سہارے کامیابیوں کے حاصل کرنے کی امید اور آخرت میں سرخرو ہونے کی توقع رکھنے کی اصل ذمہ داری جماعتی لحاظ سے ہمارے نزدیک ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ ہمارے جو دوسرے بھائی ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اس کی حفاظت اور پناہ میں آنے کی کوشش کریں۔پس اس وقت حالات بتا رہے ہیں اور ہر صاحب فراست کو یہ نظر آرہا ہے کہ ہماری قوم شعلہ زن آگ کے کنارہ پر کھڑی ہے ان حالات میں ہماری دوہری ذمہ داری ہے۔‘‘

پھر فرمایا:’’ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سارے کے سارے پاکستانی شہریوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ قرآن کریم کی اس تعلیم کو سمجھیں کہ بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانا صرف خدا کا کام ہے۔ پس یہ آگ جو اس وقت ملک میں بھڑک رہی ہے خدا کرے لوگوں کو یہ نظر بھی آنے لگ جائے اور یہ حقیقت بھی ان پر عیاں ہو جائے کہ اس آگ سے سوائے خدا کے اور کوئی نہیں بچا سکتا اور پھر وہ خداتعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ اس کی باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ستمبر1972ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد4صفحہ 416تا424)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

علوم و فنون حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت

سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے وطن کی ترقی کے لیے ایک اہم نکتہ یعنی علوم وفنون کی طرف توجہ مبذول کرواتےہوئے فرمایا:’’ علوم و فنون کی طرف توجہ کرو۔ نعرہ بازیوں میں کتنی صدیاں تم نے گزار دیں۔ تم نعرے لگا کر اور شعر و شاعری کی دنیا میں ممولوں کو شہبازوں سے لڑاتے رہے اور ہمیشہ شہباز تم پر جھپٹتے رہے اور کچھ بھی اپنا نہ بنا سکے۔ دوسری قومیں علوم و فنون میں ترقی کرتی رہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تم پر ہر پہلو سے فتح یاب ہوتی رہیں اور تم پر ہر پہلو سے فضیلت لے جاتی رہیں۔ اب ان سے مقابلے کی سوچ رہے ہو اور وہ آزمودہ ہتھیار جو ان کے ہاتھ میں تمہارے خلاف کار گررہےہیں ان کو اپنانے کی کوئی کوشش نہیں۔ پس بہت ہی بڑی اہمیت کی بات یہ ہے کہ علوم وفنون کی طرف توجہ دو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 1991ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10 صفحہ185تا186)

قرض اورامدادسے بچنےکی تلقین

ملکی سالمیت اور استحکام کی خاطر قرض اور امداد سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’پس سب سے بڑاخطرہ عالم اسلام کو اور تیسری دنیا کو ان کی نفسیاتی ذلتوں سے ہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ بھکاری کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ اگر تم نے اپنے لئے بھکاری کی زندگی قبول کر لی ہے تو ہمیشہ ذلیل و رسوا رہو گے۔ غیرقوموں کے متعلق تو یہ کہہ سکتے ہو کہ ان کو اس کے خلاف کوئی تعلیم نہیں دی گئی، پر تم قیامت کے دن خدا اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دو گے؟ کیا قرآن کی یہ آیت تمہارے خلاف گواہی نہیں کہ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس (سورت آل عمران:111)…اور کیا محمدمصطفیٰﷺ کی یہ نصیحت تمہارے خلاف گواہ بن کر نہیں کھڑی ہو گی کہ الید العلیا خیر من الید السفلیٰ…کہ اوپر کا ہاتھ عطا کرنے والا ہاتھ ہمیشہ نیچے کےیعنی بھیک مانگنے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ پس اپنی خوبیاں تو تم نے خود غیروں کے سپرد کر دیں۔ منگتے،بھکاری بن گئے اور فخر سے اپنی قوم کے سامنے تمہارے سیاستدان یہ اعلان کرتے ہیں کہ امریکہ نے اتنی بھیک منظور کر لی ہے اور امریکہ نے جو بھیک نہیں دی تھی وہ سعودی عرب نے منظور کر لی ہے۔ اگر تمہاری رگوں میں بھیک کا خون دوڑ رہا ہے تو کس طرح قوموں کے سامنے سراٹھا کر چلو گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 1991ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10صفحہ185تا186)

حضورؒ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں امیر ملکوں سےامداد حاصل کرنے کے درج ذیل نقصانات بیان فرمائے:’’اول: امداد دینے والا ملک امداد لینے والے کو ذلیل اور رسوا کر کے امداد دیتا ہے اور متکبرانہ رویہ اختیار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر امداد لینے والا ملک آزادی ضمیر کے حق کو بھی استعمال کرے تو اسے امداد بند کر دیئے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ دوم: امداد کے ساتھ Stringsیعنی ایسی شرطیں منسلک کر دی جاتی ہیں جس سے قومی آزادی پر حرف آتا ہے۔ سوم: امداد کے ساتھ سودی قرضے کا بھی ایک بڑا حصہ شامل ہوتا ہے اور بالعموم بہت بڑی بڑی اجرتیں پانے والے غیر ملکی ماہرین بھی اس کھاتے میں بھجوائے جاتے ہیں جو امداد کا ایک بڑا حصہ کھا جاتے ہیں۔ پس امداد لینے والے اور امداد مانگنے والے ملکوں کو کبھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے دیکھا نہیں گیا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍مارچ 1991ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10صفحہ 205تا206)

اندرونی حالت اوراقتصادیات میں بہتری کی کوشش

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اندرونی حالت اورقتصادیات میں بہتری کی خاطرصوبائیت سے نکل کر قومی جذبہ کو ابھارنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:’’پاکستان کے اندر جو درست ہونے والے توازن ہیں مثلاً سندھی، بلوچی ، پٹھان وغیرہ وغیرہ پھر مذہبی اختلافات ہیں۔ یہ سارے مسائل جو بارود کی طرح ہیں یا آتش فشاں پہاڑ کی طرح ہیں، کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں اور یہی وہ مسائل ہیں جن سے دیگر قومیں فائدہ اٹھایا کرتی ہیں۔پس پیشتر اس کے کہ دیگر قوموں کو فائدے کا موقع ملے آپ اپنے ملک کی اندرونی حالت درست کریں۔ اندرونی حالت کو بھی درست کریں ہمسایوں کے ساتھ تعلقات درست کریں اور اس کے نتیجہ میں آپ کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچے گا کہ توجہ اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی طرف ہو جائے گی۔ آپس میں اشتراک عمل کے ساتھ تعاونوا علی البر و التقوی کی روح کے ساتھ مذہب کو بیچ میں لائے بغیر ہر اچھی چیز پر دوسری قوم کے ساتھ تعاون کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور فوج کا خرچ کم ہو جائے گا اور اقتصادیات جتنا ترقی کرے گی اتنے ہی امکانات پیدا ہو ں گے کہ غریب کی حالت بہتر ہو جائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍مارچ 1991ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد10 صفحہ208تا210)

احتساب کے بارے میں ایک راہنما اصول

28؍فروری1997کے پروگرام ملاقات جو ایم ٹی اے انٹرنیشنل سے براہ راست ساری دنیا میں نشر ہوا اس میں حضورؒ نے پاکستان میں احتساب کے عمل پر گفتگو کرتے ہوئےفرمایا’’احتساب ہر طرف سے ہو اگر، تو سوال یہ ہے کہ پرانی پارٹی کا احتساب کیسے ہو گا…بڑا ہی مشکل کام ہے، مشکل کام کرنے کے لحاظ سے نہیں، صورتحال کے لحاظ سےصورتحال اتنی پیچیدہ ہے، بددیانتی اتنی عام ہے کہ پارٹی پر ہاتھ ڈالنا جبکہ اوپر سے نیچے سارے ہی ملوث ہوں تو ممکن کیسے بنے گا۔ اس لئے احتساب والے حصہ کو تو سردست چھوڑ دیں۔ (یعنی احتساب کرنے کے وہ دعوے اور پروگرام جو حکومت نے آتے ہی کیے تھے کہ سب کا احتساب ہو گا۔ ناقل) لیکن دوسرا پہلووہ ہے قابل توجہ، آئندہ سے توبہ کرنی ہے کہ نہیں؟ یہ ممکن تھا اگر کرنا چاہتے تو، اب وقت بتائے گا۔ اگر وہ دوبارہ ملوث ہوئے تو پھر قوم ہمیشہ کے لئے برباد ہو جائے گی۔ اگر پچھلا دفعہ کریں دفنا دیں اور آئندہ کے لئے یہ عہد کر لیں(کہ) اقرباء اور جو طاقتور لوگ پارٹی کےممبر ہیں ان میں سے کسی سے بھی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ یہ عہد کر لیں تو یہ بہت کافی ہے…اس وقت پاکستان کو ایک تائب وزیر اعظم کی ضرورت ہے جو سچی توبہ کرے اور اپنی پارٹی سے سچی توبہ کروائے۔‘‘(پروگرام ملاقات ایم ٹی اے انٹرنیشنل 28؍فروری 1997ء سے ماخوذ بحوالہ خالد اگست 1997 صفحہ 16)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے حب الوطنی کے جذبات کو ابھارنے اور پاکستان مخالف خیالات کو کچلنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’جماعت احمدیہ کو یہ بھی جہاد کرنا چاہئے کہ پاکستان میں حب الوطن کے احساس کو نمایاں کریںاور بیدار کریں…اور ہر قسم کے ایسے خیالات یاایسے اِزم یا ایسے تصورات جو پاکستان کو کسی طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کے خلاف کوشش کرنا بھی جماعت احمدیہ کا کام ہے۔میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ سلامت رکھے کیونکہ آخر اسلام کے نام پر لیا ضرورگیا تھا۔عمل مخالف ہوچکے ہوں یا نہ ہوں اس سے بحث نہیں ایک ملک ہے آج کے زمانے میں جو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور کونسا ملک ہے دکھائیں جو صرف اسلام کے نام پر بنایا گیا ہو؟ اس لئے اس مقدس نام سے پیاراور محبت ہے تو پھر دنیا کے ہر احمدی کوکوشش کرنی چاہئے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیاجائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍نومبر 1986ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 5صفحہ 799)

ارشادات سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’پاکستان میں بھی 23؍مارچ کو یوم پاکستان منایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے بھی پاکستانی احمدیوں کو میں کہوں گا کہ دعا کریں کہ جس دور سے آج کل ملک گزر رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے۔ احمدیوں کی خاطر ہی اس کو بچائے۔ کیونکہ احمدیوں نے اس ملک کو بچانے کی خاطر بہت دعا ئیں کی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمود ہ 23؍مارچ 2012ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد دہم صفحہ 190)

’’…جو ملک کی حالت ہے وہ بھی ظاہر و باہر ہے۔ اس لئے آج کے، اس دن کے حوالے سے پاکستانی اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ اس کو اس تباہی سے بچائے جس کی طرف یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 13؍اپریل 2012ء صفحہ 5)

8؍اکتوبر 2005ءکو پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں آنے والے ہولناک زلزلہ کے بعدحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نہ صرف صدر اوروزیراعظم پاکستان اور صدر اور وزیراعظم آزاد کشمیر کو ہر ممکن تعاون کی پیشکش اور دعاؤں سے بھرپور خطوط لکھے بلکہ جماعت کو بھی ریلیف کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’ وطن کی محبت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ہر پاکستانی احمدی اس کڑے وقت میں اپنے بھائیوں کی مدد کرے۔ عملی طور پر بھی اور دعاؤں سے بھی۔ اپنی تکلیفوں کو بھول جائیں اور دوسرے کی تکلیف کا خیال کریں۔ جماعت احمدیہ نے پہلے دن سے ہی جب سے کہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے ہمیشہ پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے قربانیاں دی ہیں اس لئے یہ تو کبھی کوئی سوچ نہیں سکتا کہ ایک احمدی کا کوئی مسلمان بھائی تکلیف میں ہو یا ملک پر کوئی مشکل ہو اور ایک احمدی پاکستانی شہری دور کھڑا صرف نظارہ کرے اور اس تکلیف کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پس جماعت احمدیہ نے اس ملک کے بنانے میں بھی حصہ لیا ہے اور انشاء اللہ اس کی تعمیر و ترقی میں بھی ہمیشہ کی طرح حصہ لیتی رہے گی۔ کیونکہ آج ہمیں وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے کا سب سے زیادہ ادراک ہے۔ آج احمدی جانتا ہے کہ وطن کی محبت کیا ہوتی ہے۔ اور جس جس ملک میں بھی احمدی بستا ہے وہ اپنے وطن سے، اپنے ملک سے خالص محبت کی عملی تصویر ہے۔ اس لئے اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہے کہ پاکستانی احمدی ملک کے وفادار نہیں ہیں تو یہ اس کا خام خیال ہے۔جماعت احمدیہ پاکستان بھی اپنے ہموطنوں کی ، جہاں تک ہمارے وسائل ہیں، مصبیت زدوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن میں پھر بھی ہر پاکستانی احمدی سے کہتا ہوں، ان کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ان حالات میں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں، حتی المقدور ان کی مدد کریں، جو پاکستانی احمدی باہر کے ملکوں میں ہیں، ان کو بھی بڑھ چڑھ کر ان لوگوں کی بحالی اور ریلیف کے کام میں حکومت پاکستان کی مدد کرنی چاہئے۔ وہاں کی ایمبیسیوں نے جہاں جہاں بھی فنڈ کھولے ہیں اور جہاں ہیومینیٹی فرست نہیں ہے، ان ایمبیسیز میں جا کر مدد دے سکتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍اکتوبر 2005ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 611تا612)

نیزفرمایا:’’اللہ تعالیٰ رحم کرے اور آئندہ ملک کو ہر آفت سے بچائے۔ یہ سارے لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہوں، حکومت کے ادارے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے ہوں، اور عوام کی خدمت اور بحالی کے کام میں اسی طرح اچھے نمونے قائم کریں جس طرح آج کل اظہار کیا جا رہا ہے۔ جس طرح ایک سیاسی لیڈر نے کہا کہ ان حالات میں سیاسی فائدے نہ اٹھائیں بلکہ ایک ہو کر کام کریں، اور بظاہر عمومی طور پر پروگراموں میں یہ نظارے ایک ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ ایک ہونا ہمیشہ قائم بھی رہے۔ اور یہ اپنے رویے مستقل طور پر ایسے ہی کر لیں۔ ایک قوم ہو کر آفت زدوں کی مدد کریں۔ سیاسی مخالفتیں اور مذہبی منافرتیں ختم کریں۔ علماء ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے بند کریں۔ اس سے باز آئیں۔ استغفار زیادہ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مہربان ہو اور قوم کو آئندہ ہر قسم کی آفت سے محفوظ رکھے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمود ہ 14؍اکتوبر 2005ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 617)

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وطن کے لیے دعاؤں کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’آج 14؍اگست بھی ہے جو پاکستان کا یوم آزادی ہے۔ اس لحاظ سے بھی دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو حقیقی آزادی نصیب کرے اور خود غرض لیڈروں اور مفاد پرست مذہبی رہنماؤں کے عملوںسے ملک کو محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ عوام الناس کو عقل اور سمجھ بھی عطا کرے کہ وہ ایسے رہنما منتخب کریں جو ایماندار ہوں۔ اپنی امانت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ ان سب کو اس بات کی حقیقت سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے کہ اس ملک کی بقا اور سالمیت کی ضمانت انصاف اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں ہے۔ ظلموں سے بچنے میں اس ملک کی بقا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے میں ہی اس ملک کی بقا ہے۔ کہنے کو تو یہ خدا تعالیٰ کا نام لیتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ ہم خدا کی خاطر کر رہے ہیں لیکن رب العالمین اور رحمان اور رحیم خدا کے نام پر ہر طرف ظلم کے بازار گرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃللعالمین ہیں ان کے نام پر ظلم کئے جا رہے ہیں۔احمدی جنہوں نے ملک کے بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، قربانیاں دی ہیں ان پر ظلم کئے جا رہے ہیں لیکن بہرحال پاکستانی احمدیوں نے جہاں بھی وہ ہوں ملک سے وفا کا اظہار ہی کرنا ہے اور اسی لئے دعا بھی کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو سلامت رکھے اور ظالموں اور مفادپرستوں سے اس ملک کو نجات دے۔ ملک کی بقاء اور سالمیت کو خطرہ باہر سے زیادہ اندر کے دشمنوں سے ہے۔ خودغرض اور مفاد پرست لیڈروں اور علماء سے ہے۔

اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ملک کو چلائیں تو کوئی بیرونی طاقت ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ بہرحال پاکستانی احمدیوں کو اپنے ملک کے لئے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستانی احمدیوں کو بھی حقیقی آزادی نصیب فرمائے اور یہ ملک قائم رہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍اگست 2015ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد 13 صفحہ 487تا488)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button