دیکھنا چاہو جو دنیا میں بہشت دیکھ لو باغِ جنانِ قادیاں
برادرم پرویز پروازی صاحب کا ایک مضمون ’’قادیان میں بزرگوں او ر رفقاء مسیح موعودؑ کی کہکشاں ‘‘کے نام سے الفضل ربوہ میں 4؍جولائی 2015ء کو شائع ہوا تھا۔ موصوف خوب لکھتے ہیں اور جب ان کی تحریر میں قادیان کی پرانی یادوں کا ذکر ہو تو دلچسپی اور افادیت میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔
مذکورہ مضمون کے شروع میں مجیب الرحمان صاحب (ایڈوو کیٹ) کی حیرت کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ہم قادیان کے محلہ دار ہیں اور عمروں میں بھی ایک دو برس کا تفاوت ہے مگر یہ عجیب بات ہے کہ تمہیں قادیان کے جن بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے اور متمتع ہونے کا موقع ملا مجھے وہ نصیب نہیں ہوا۔‘‘
یہ مضمون پڑھتے ہوئے خاکسار کو بھی ایک ایسا ہی پرانا واقعہ یاد آیا۔ بہت سالوں کی بات ہے قادیان کے ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر حسن اتفاق سے بزرگ استاد حضرت مولانا محمد احمد جلیل صا حب جو اپنےتبحرعلمی اور سلسلے کی خدمات میں اپنی مثال آپ ہیں کے ساتھ دیارِ حبیب کی زیارت نصیب ہوئی۔ قادیان کی گلیوں میں چلتے ہوئے میں اپنی معلومات کے مطابق ان کو ساتھ ساتھ بتاتا جارہا تھا کہ یہ فلاں صاحب کا گھر ہوتا تھا، یہ راستہ کدھر جاتا ہے وغیرہ۔ تھوڑی دیر تو محترم مجھے برداشت کرتے رہے پھر ایک جگہ رک کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگے کہ
’’جمعہ جمعہ آٹھ دن تمہاری عمر ہے اور تم مجھے قادیان کی ایسی باتیں بتا رہے ہو جو مجھے بھی معلوم نہیں …۔‘‘
خاکسار نے عرض کیا کہ اس کی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آپ باہر محلے میں رہتے تھے اور مجھے شہر کے مرکز میں رہنے کا موقع ملا۔ اسی طرح یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ خاکسار کے والد محترم عبدالرحیم دیانت صاحب کو درویشی کی سعادت حاصل ہوئی اور خاکسار پاکستان سے متعدد دفعہ یہاں آنے کی توفیق پا رہا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور دلچسپ یاد پیش کرتا ہوں۔ خاکسار قادیان گیا ہوا تھا۔ ایک عزیز کے ہم راہ تعلیم الاسلام کالج، مسجد نور وغیرہ سے آگے حضرت نواب محمد علی صاحبؓ کا بنگلہ دیکھ کر واپس آرہا تھا۔ ہائی سکول کے قریب پیچھے سے ایک تانگہ ہمارے پاس آ کر رک گیا۔ اس میں محترم مولانا جلیل صاحب کے چھوٹے بھائی لطیف صاحب اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ پوچھنے لگے کہ آپ اپنا مکان اور دکانیں دیکھ آئے ہیں؟ ہم اس جگہ کے قریب ہی تھے۔ میں نے انہیں واپس جا کر ان کی مطلوبہ جگہ دکھائی تو وہ کہنے لگے کہ میں اپنے گھر والوں کو اپنا مکان دکھانا چاہتا تھا مگر میں اسے تلاش نہیں کر سکا، تاہم آپ کے ہاں سے مجھے اپنے گھر کا راستہ بخوبی یاد ہے اور اب یہاں سے میں بآسانی اپنے گھر پہنچ سکوں گا۔
ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ قادیان کے بہشتی مقبرہ سے دعا کر کے صبح کے وقت (محترم پروازی صاحب کے خسر) کی رفاقت میسر آئی۔ مولانا صاحب مسجدمبارک کی طرف آ رہے تھے۔ پیچھے سے ایک محترمہ کی آواز آ رہی تھی جو غالباً اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کسی قدر بلند آواز سے اپنے خاوند کو بتا رہی تھیں کہ اور سب ملاقاتیں اور زیارتیں تو ہو گئی ہیں، محترم فرزند علی خان صاحب کا مکان نہیں ملا، وہاں بھی جانا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ محترمہ حضرت خان صاحب کی نواسی ہیں۔ خاکسار نے ان کو بھی وہ گھر دکھایا۔
خوبصورت کہکشاں کے جن ستاروں کا محترم پروازی صاحب نے ذکر کیا ہے۔ اس خاکسار کو بھی ان کی زیارت کا شرف حاصل ہے۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے مکان پہلو بہ پہلو تھے۔ حضرت میر صاحب کے زیر علاج رہنے کی وجہ سے ان کے پیار سے خوب حصہ لیا۔ حضرت مولوی صاحب کی ایک بیٹی ہمارے محلہ کی لجنہ کی صدر تھیں اس لیے ان کے ہاں جانے کا اکثر موقع ملتا تھا۔ حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھ کر ان کے ہاں کی لسی پینا بھی یاد ہے۔
میرےابا جان کی دکان مسجد مبارک کے نیچے احمدیہ چوک کی ایک نکڑ پر تھی۔ اس طرح مسجد کے نمازیوں، مدرسہ احمدیہ کے طلباء، دارالشیوخ کے لڑکوں، مرکزی دفاتر کے ناظرصاحبان اور کارکنوں کو روزانہ ہی دیکھنے اور ملنے کی سعادت حاصل ہوتی۔ جن دو بزرگوں کا ذکر کیا ہے وہ تو اباجان پر بہت شفقت فرماتے تھے اور جاتے آتے ایک آدھ مزے کا فقرہ کہتے ہوئے گزر جاتے۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بہت کم گو تھے وہ آہستہ آواز میں کچھ لفظ بولتے اور کچھ اشارہ کرتے ہوئے گزر جاتے۔ ابا جان بتاتے تھے کہ حضرت مولوی صاحبؓ کھاری بوتل برف میں لگانے کے لیے کہہ کر گئے ہیں۔ کھاری بوتل سوڈ ا واٹر کی وہ بوتل ہوتی تھی جس میں میٹھا اور ایسنس نہیں ہوتا تھا اور جو ہاضمہ کے لیے اچھی سمجھی جاتی تھی۔ حضرت مولوی صاحبؓ اس میں برف ڈال کر پینا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لیے ان کے لیے بوتل برف کے ساتھ رکھ دی جاتی تھی جو وہ نماز کے بعد واپسی پر پیتے تھے۔
ابا جان کی دکان حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے شہر والے مکان کا ایک حصہ تھی۔ اس دکان کے پیچھے جو مکان تھااس میں صدر انجمن احمدیہ کے سٹور تھے اور بالاخانے میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ کی رہائش تھی۔ یہ ایک طرح سے ’’الدار‘‘ کا حصہ ہی تھا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب حضرت مصلح موعودؓ کے ذاتی معالج تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت لمبا عرصہ حضورؓ اور خاندان کی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔
ہماری دکان کے پہلو میں حضرت حکیم قطب الدین صاحبؓ کا مطب تھا۔ حکیم صاحب چٹائی پر بیٹھتے تھے۔ ان کی شہرت بہت اچھی تھی۔ دور دور سے لوگ علاج کے لیے آتے تھے مگر ہم بچوں پر کاسٹک ٹچ کی جو مصیبت ٹوٹتی تھی، وہ آج تک بھلائی نہیں جا سکی۔ ایک دوسری دکان غلام رسول افغان صاحب کی تھی۔ یہ بزرگ قادیان کے ایک نواحی گاؤں سے دو بڑی بڑی بالٹیوں میں خالص دودھ لے کر آتے تھے۔ دن بھر گاہک آتے اور دودھ لے جاتے تھے مگر خان صاحب کا طریق یہ تھا کہ میز پر ایک بڑے سائز کا قرآن مجید رکھا تھا۔ گاہک کو سودا دینے کے بعد ادھر ادھر کی کوئی زائد بات نہیں کرتے تھے۔ تلاوت میں مصروف ہو جاتے تھے اور’دست بہ کار و دل بہ یار‘کی تصویر بنے رہتے تھے۔
چند سو گز کے فاصلہ پر وہ چوک آجاتا تھا جس سے ایک گلی قادیان کی پرانی آبادی اور مسجد اقصیٰ کی طرف چلی جاتی تھی اور دوسری طرف قادیان کے نئے آباد ہونے والے محلہ دارالانوار کی طرف نکل جاتی تھی۔ اسی گلی میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ کا مکان تھا۔ حضرت مولوی صاحب پانچوں نمازیں مسجد مبارک میں ادا کرتے تھے اور اس طرح ہم انہیں روزانہ وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ کے ہاتھ میں ایک لمبا عصا ہوتا تھا۔ ان کے ساتھ بالعموم سیدکمال یوسف صاحب اور رشید یوسف صاحب (حضرت مولوی صاحبؓ کے نواسے ) بھی نماز کے لیے جاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ خاکسار کے دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ اور نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ اسی طرح میرے تایا جان حضرت مولوی عبدالغفور صاحبؓ صحابہ کرام میں شامل تھے۔ ہماری دکان کے سامنے شمال کی طرف حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحبؓ کا مکان تھا۔ ان کے پہلو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی رہائش تھی۔ یہ کوئی چند سو گز کی گلی تھی مگر ہم روزانہ وہاں پر ان دو بزرگ صحابہ کے علاوہ حضرت بھائی شیر محمد صاحبؓ کو دیکھتے تھے جن کی وہاں دکان تھی۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کو مدرسہ احمدیہ یا دارالشیوخ سے مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھتے تھے۔ اسی گلی میں ایک عمارت درزی خانہ کہلاتی تھی۔ حضرت مرزا مہتاب بیگ صاحبؓ صحابی وہاں رونق افروز ہوتے تھے۔ درزی خانہ کے ساتھ ایک تنگ گلی بہشتی مقبرہ کی طرف جاتی تھی اس گلی میں حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ کا مکان تھا۔ حضرت قاضی صاحبؓ اپنے گھر سے کم ہی باہر آتے تھے۔ تاہم ان سے استفادہ کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ اسی گلی سے آگے جا کر حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب کا مکان تھا۔ یہ بزرگ جماعت کے پرانے خادم تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ ان کے کام کی اکثر تعریف فرماتے۔ جماعت کے مالی نظام کا ابتدائی ڈھانچہ انہوں نے تیار کیا تھااور لمبا عرصہ بطور ناظر بیت المال خدمت بجا لاتے رہے۔ آپ کو لندن میں بطور امام مسجد لندن خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کمیٹی کے زمانہ میں قیام پاکستان اور آزادیٔ کشمیر کے لیے کام کرنے کی بھی توفیق ملی۔
اور کئی نام ذہن میں آ رہے ہیں۔ کئی نام بھول چکے ہوں گے تاہم یہ چھوٹی سی سڑک دن بھر حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ اور دوسرے بزرگوں کی گزر گاہ بنی رہتی۔ مدرسہ احمدیہ اورحضرت مسیح موعودؑ کا لنگر بھی اسی جگہ پر تھا۔ مسجد مبارک کے نیچے اور مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والی گلی میں جماعت کے دفاتر تھے اور خدا کی حفاظت کے وعدوں کا چمکتا ہوا نشان ’’الدار‘‘ بھی تو اسی جگہ پر ہے۔ مخالفت کی آندھیوں اور تقسیم ملک کے اندوہناک حادثہ کے باوجود آج بھی وہاں سے اعلائےکلمۂ اسلام کا عظیم جہادبرابر جاری اور روز افزوں ہے۔ یہ یادیں ہمیشہ تازہ رہتی ہیں جن کا کما حقہٗ احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
٭…٭…٭