متفرق مضامین

ہمارا جلسہ سالانہ … علمی، روحانی استعدادوں کو بڑھانے اور اخوت و محبت کا شاندار ذریعہ

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)
جلسہ سالانہ کے اختتام کے بعد کارکنان و انتظامیہ کے اعزاز میں ہر سال 30 یا 31 دسمبر کو لنگر خانہ نمبر 1 میں عشائیہ منعقد کیا جاتا تھا ۔ زیر نظر تصویر میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ زمین پر بیٹھ کر احباب کو برکت بخش رہے ہیں۔ یہ دراصل چولہے ہیں جن کو بطور میز تیار کیا گیا ہے، تصویر میں جلسے کے موقعے پر استعمال ہونے والے آب خورے اور مٹی کے برتن بھی موجود ہیں۔

تصویر میں: صوفی بشارت الرحمٰن صاحب۔ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب(خلیفۃ المسیح الرابعؒ)۔ محترم نواب منصور احمد خان صاحب۔ محترم منیر احمد بسمل چٹھہ صاحب۔ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب۔ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب۔حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب۔محترم ظہور احمد باجوہ صاحب۔پروفیسر نصیر احمد خان صاحب۔

دسمبر کا مہینہ آتے ہی ربوہ اور قادیان میں جلسہ کی آمد آمد ہوتی تھی۔ لوگ جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے تیاری تو بہت عرصہ پہلے شروع کر دیتے تھے۔ لیکن دسمبر میں جلسہ کی تیاریاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔

خاکسار نے اپنی ہوش میں پہلا جلسہ سالانہ ربوہ میں 1966ء میں دیکھا جب جامعہ میں داخل ہوا تھا اس کے بعد سے لگاتار خداتعالیٰ کے فضل سے 1977ء تک ربوہ کے جلسوں میں شرکت اور خدمات انجام دینے کی سعادت ملتی رہی۔

ربوہ کے جلسہ سالانہ کی جہاں علمی، روحانی افادیت ہوتی ہے اور ان مقاصد کو پورا کرنے والا ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمائے ہیں وہاں پر اس میں شامل ہونا بھی ایک لذت اور سرور پیدا کرتا ہے۔

جلسہ سالانہ کے دنوں میں مجھے یاد ہے کہ ربوہ میں ہر طرف گہما گہمی، خوشی کی لہر اور تیاری ہو رہی ہوتی تھی۔ ربوہ کی سڑکوں، گلیوں میں وقار عمل، صفائیاں اور پھر ربوہ کے مختلف اطراف میں بڑے بڑے گیٹ بنائے جاتے تھے جن پر اھلاً و سھلاً و مرحبًا لکھا ہوتا تھا اور کہیں ’جی آیاں نوں‘ اور کہیں ’خوش آمدید‘ کے الفاظ ہوتے تھے۔

بڑے تو ڈیوٹیاں دیتے ہی تھے بچے بھی کسی سے پیچھے نہ ہوتے تھے۔ بچوں کے اندر بھی ڈیوٹیوں کا جذبہ سردی کی پرواہ کیے بغیر خصوصاً صبح کو نماز تہجد کے وقت صَلِّ عَلَی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍکی پُرسوز آواز میں ربوہ کے چاروں اطراف میں ایک عجیب روحانی لذت پیدا کرتا تھا اور لوگ جوق در جوق اپنی اپنی مساجد میں نماز تہجد اور نماز فجر اور درس کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ مسجد مبارک تو بالکل بھر جاتی تھی، قناتیں لگتی تھیں، عجیب روحانی منظر ہوتا تھا۔

ربوہ کے تمام کالج، سکول، جامعہ بند ہو جاتے تھے۔ ان عمارتوں کے کمرے جلسہ کے مہمانوں کے لیے رہائشی کمرے بن جاتے تھے۔ بیت الخلا کا بھی الگ انتظام ہوتاتھا۔ ہر گھر میں 20-25 مہمانوں کا ہونا تو عام سی بات ہے مجھے یاد ہے اور کئی دفعہ دوستوں سے بات ہوتی تھی کہ گھروں میں 40-50سے بھی زائد مہمان ٹھہرے ہوتے تھے۔ اور بعض کے گھروں میں تو بالکل گنجائش نہ ہوتی تو صحن میں چھولداری لگادی جاتی جس میں عموماً صاحب البیت اپنے کنبے کے ہمراہ قیام کرتے جبکہ مہمانوں کی خدمت میں گھروں کے کمرے پیش کر دیے جاتے تھے۔ مہمان بھی نیچے پرالی بچھے فرش پر گدے ڈال کر سونے کو غنیمت جانتے تھے۔ ناظم صاحب پرالی بھی اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ جہاں جہاں چھولداریاں لگی ہیں خواہ گھروں میں ہی کیوں نہ ہوں وہاں پرالی پہنچ جائے تا وہاں رہنے والوں کو سہولت میسر آ سکے۔ اس پرالی پر سونے کا بھی عجیب مزا ہوتا تھا۔

گھر کے بچے علی الصبح نماز سے فراغت کے بعد خوراک کی پرچی لے کر لنگرخانے میں جا کر مہمانوں کے لیے کھانا لاتے اور جلسہ شروع ہونے سے قبل ہزاروں لوگ ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر جلسہ گاہ پہنچ جاتے۔

جو مہمان کچھ بیمار ہوتے اور وہ دال روٹی نہ کھا سکتے تو ان کے لیے الگ لنگر پرہیزی چلتا جہاں پر چاول، دال یا آلو گوشت ملتا تھا۔

شعبہ استقبال

جامعہ احمدیہ کے تمام ہی طلباء کی ڈیوٹیاں جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لیے لگتی تھیں۔ چنانچہ میری سب سے پہلی ڈیوٹی شعبہ استقبال میں لگی۔ اس کے ناظم محترم مولانا ابوالمنیرنورالحق صاحب مرحوم تھے۔ شعبہ استقبال میں ڈیوٹی ربوہ ریلوے سٹیشن پر اور ربوہ کے بس اڈہ پر ہوتی تھی۔ ہر دو جگہ پر خیمہ لگ جاتا اور آنے والے مہمانوں کا استقبال کرنے کے لیے انہیں اھلاً و سھلاً و مرحبا لاوٴڈ اسپیکر پر کہا جاتا تھا۔ ڈیوٹی دینے والوں کا کام ہوتا تھا کہ وہ سب مہمانوں کو دیکھیں کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کریں اگر کسی کا سامان اٹھا کر گھر بھی لے جانا پڑے وہ بھی کرنا سعادت سمجھا جاتا تھا۔ ہر قسم کی مدد کو فوری اور یقینی بنانا ہوتا تھا۔ جب گاڑیاں ریلوے اسٹیشن ربوہ پر آتیں اور ان سے مہمان باہر نکلتے وہ منظر دل اور طبیعت پر ایک گہرا اثر چھوڑتا تھا۔ تلاوت ہو رہی ہے، نظمیں پڑھی جارہی ہیں، اھلاً و سھلاً کہا جارہا ہے، مہمانوں کا خوش آمد ہو رہا ہے، ہر ایک دوسرے سے مل کر اتنا خوش کہ جس کا حساب ہی نہیں۔ یہ منظر ایک روحانی کشش اور تاثیر سے پُرہوتا تھا۔

اور یہی کچھ منظر ربوہ بس اڈہ پر ہوتا تھا۔ وہاں بھی بڑی تعداد میں رضاکار ڈیوٹی پر موجود ہوتے تھے قریباً ہر بس سے ہی جلسہ کے ایام میں مسافر اترتے تھے جن کی سامان وغیرہ اتارنے میں مدد کی جاتی تھی اور کارکن، معاون، ہمہ تن اس خدمت میں مصروف ہوتے۔جلسہ کے تمام ہی شعبہ جات کے کارکن اپنے آپ کو خدمت کے لیے ہر وقت تیاررکھتے!

نظم پڑھنے والوں کی آواز میں ترنم کے علاوہ بڑا سوز ہوتا تھا اور سننے والے بھی رقت میں آجاتے تھے۔ خاکسار نے جیسا کہ شروع میں بتایا ہے کہ پہلی دفعہ ہوش میں ربوہ 1966ء میں آیا اور پہلا جلسہ دیکھا اور پہلی مرتبہ جلسہ کے دنوں میں ربوہ کی رونق دیکھی۔ جس کا نقش آج بھی دل پر اسی طرح قائم ہے۔ تمام جماعتی عمارتوں، ادارہ جات اور سکول وغیرہ میں خیمے ہی خیمے لگ جاتے اور بھرپور انداز میں مہمان نوازی کا جذبہ اہالیان ربوہ میں ابھر جاتا۔ خیمے اور چھولداریاں مسجد مبارک کے سامنے والے پلاٹس میں بھی لگ جاتی تھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا کارکنان سے خطاب

جلسہ سالانہ سے دو تین روز قبل گولبازار کی عقبی جانب جہاں دفتر جلسہ سالانہ ہوتا تھا۔ وہاں پہلے اس کی کوئی خاص بڑی عمارت نہ ہوتی تھی صرف دو تین چھوٹے کمروں پر مشتمل عمارت تھی اور باقی کھلی جگہ ہوتی تھی۔ جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تشریف لاتے اور جلسہ کے کارکنان کا معائنہ فرماتے اور ہدایات سے نوازتے۔ اس وقت محترم سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم افسر جلسہ سالانہ ہوتے تھے جو اپنے بازو پر ایک بیج لگاتے جس پر ’’خادم جلسہ سالانہ‘‘ تحریر ہوتا۔ آپ کے ساتھ بہت سارے بزرگ جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدصاحبؒ، صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب، محترم چودھری حمید اللہ صاحب، محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب، محترم صوفی بشارت الرحمان صاحب، پروفیسر نصیر خان صاحب، مکرم سمیع اللہ سیال صاحب، مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب، محترم چودھری بشیر احمد صاحب (سابق صدر عمومی) یاد ہیں۔

دفتر جلسہ سالانہ کے احاطہ میں اور محلوں میں، مساجد میں مختلف جگہوں پر جلسہ سالانہ کے موقع پر ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کے نام ایک بڑے پوسٹر پر لکھے ہوتے تھے۔ ہر شخص، ہر فرد، چھوٹے بڑے کی ڈیوٹی لگتی تھی اور اسے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ڈیوٹی کہاں ہے۔

لنگرخانہ نمبر 1 میں ڈیوٹی

خاکسار کی ڈیوٹی اگلے سال 1967ء میں لنگر خانہ نمبر1 میں لگی۔ اس کے ناظم مکرم محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب مرحوم ہوتے تھے۔ یہاں پر پہلی ڈیوٹی معاون روٹی پکوائی اور روٹیوں کی گنتی پر تھی اور اس کے بعد سے 1978ء تک خداتعالیٰ کے فضل سے اسی لنگر خانہ نمبر1میں ڈیوٹی لگتی رہی۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

صرف ایک سال ناظر صاحب اصلاح وارشاد مولانا عبدالمالک خان صاحب نے اپنے ساتھ جلسہ سالانہ کے سٹیج پرڈیوٹی لگوائی تھی۔ لیکن دوبارہ مکرم محترم مرزا خورشید احمد صاحب نے مجھے واپس لنگر خانہ 1 ہی میں اپنی ڈیوٹی پر لگوالیا۔

لنگر ایک کی منجملہ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ یہ لنگر سب سے پہلے شروع ہوتا تھا اور سب سے آخر میں بند ہوتا تھا۔ جلسہ کے اختتام پر اس لنگر میں آخری دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی شام کے وقت دعوت بھی ہوتی تھی۔ جس میں مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب افسر رابطہ، مکرم میر داوٴد احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ، مکرم چودھری حمیداللہ صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزاطاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابعؒ ) مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب (ناظم لنگر)، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب، مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب مرحوم، مکرم چودھری سمیع اللہ سیال صاحب، مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب مرحوم۔ مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب مرحوم، مکرم چودھری بشیر احمد صاحب سابق صدر عمومی، مکرم چودھری محمد علی صاحب وغیرہم کا شامل ہونا یاد ہے۔

اس وقت خصوصیت کے ساتھ مکرم رانا محمد دین صاحب کھانا بنایا کرتے تھے جس میں مغز، پائے، آلو گوشت، دال، گڑ والے چاول اور گرم گرم تنور کی روٹیاں ہوتی تھیں۔ مٹی کے برتنوں میں کھانا پیش ہوتا تھا جس کا اپنا ہی لطف ہوتا تھا۔

قارئین کے ازدیاد علم کے لیے یہ لکھنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ اس وقت جتنے بھی لنگر چلتے تھے سب میں کھانا پکانے کا کام لکڑیوں کے جلانے سے ہوتا تھا، مثلاً سالن مٹی کے چولہوں پر دیگ میں جب پکتا تو ان چولہوں میں لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ اسی طرح روٹی کے تنوروں میں بھی لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ جب تنوروں میں لکڑی ڈالی جاتی تو اس کی وجہ سے شدید دھواں نکلتا جس سے آنکھوں سے پانی بہناقدرتی بات تھی۔ محترم میر داوٴد احمد صاحب مرحوم نے لنگرخانوں میں گیس کے تنور لگانے کا انتظام کروایا۔ یہ غالباً 1968-69ء کا واقعہ ہے۔ اس کی الگ تفصیل ہے۔ لیکن پہلے تنوروں کی جگہ نئے تنور ڈالنے تھےاور ان کے لیے کھدائی کا کام کرنا تھا۔ ادھر جلسہ بھی نزدیک آگیا تھا اور انہی دنوں عیدالاضحی بھی قریب تھی۔ یہ ساری باتیں اکٹھی ہو گئیں تو میر صاحب مرحوم نے جامعہ کے طلباء کی عید کی چھٹیاں منسوخ کر دیں سب طلباء کو لنگر ایک میں تنوروں کے لیے کھدائی پر وقار عمل پر لگایا۔ عید کے دن بھی عید کی نماز پڑھ کر سب طلباء جامعہ لنگر ایک میں حاضر ہو گئے جن میں خاکسار بھی شامل تھا، سارا دن وقار عمل کیا، زمین کھودی گئی، دوپہر کو محترم میر صاحب مرحوم نے سب کے لیے عید کا کھانا جس میں قورمہ، پلاوٴ اور زردہ تھا سب کو کھلایا ۔جن طلبہ نے بھی اس موقع پر وقارِ عمل میں حصہ لیا وہ یقینا ًاس سعادت پر آج بھی ناز کرتے ہوں گے۔سوئی گیس کے تنوروں اور روٹی کی مشینوں پر ان دنوں خاکسار کو یاد ہے مکرم مرزا لقمان صاحب حال پورٹ لینڈ اور مکرم ملک منور صاحب لاہوری اپنی ٹیم کے ساتھ بڑی تندہی کے ساتھ کام کرتے تھے۔

ایک اور واقعہ جو ذہن میں نقش ہے کہ جب جماعت احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا تو ربوہ کی دیواروں پر جہاں جگہ جگہ کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہتحریر تھا یا قرآنی آیات اور حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات یا تحریرات درج تھیں جن میں نماز کا، ذکر الٰہی کا، درود شریف کا، اچھے اخلاق اپنانے وغیرہ کا ذکر تھا حکومتی کارندوں نے اور مولویوں نے مٹانا شروع کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے یہ بھی تحریک کی کہ غیرممالک سے نمائندگان جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آیا کریں۔ ان غیرملکی نمائندگان کے لیے جلسہ گاہ کی سٹیج پر بیٹھنے کا انتظام ہو تا تھا۔ ایک مرتبہ حضورؒ نے اپنی تقریر میں بڑے جلالی انداز سے فرمایا کہ یہ لوگ کلمہ کو اور دیگر تحریرات کو دیواروں سے مٹا رہے ہیں۔ اس موقعے پر حضورؒ نے سارے نمائندگان کو جو غالباً 18؍ممالک سے تشریف لائے ہوئے تھے کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ دیواروں پر سے تو آپ کلمہ کو مٹاسکتے ہو، مگر ان لوگوں کے دلوں سے کلمہ کو اور اسلام کی صداقت اور محمد رسول اللہﷺ کی صداقت کو کیسے مٹاوٴ گے۔

جلسہ سالانہ ۔سب سے ملاقات کا ذریعہ

جلسہ سالانہ کا ایک اور فائدہ جس کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے وہ احباب جماعت سے ملاقات کرنا ہے۔ یہ جلسہ کے مقاصد میں بھی شامل ہے۔ ایسے رشتہ دار، دوست جو دور رہتے تھے اور ان سے یوں ملنا مشکل ہوتا تھا ان سب سے جلسہ کے دنوں میں ملاقات ہوجاتی۔

مجھے یاد ہے کہ میرے پاس کوارٹر تحریک جدید تھا۔ ہمارے گھر میں بھی جلسہ کے دنوں میں خیمہ/ چھولداری لگ جاتی تھی اور گھر میں خداتعالیٰ کے فضل سے کافی مہمان آئے ہوتے تھے۔ سب سے ملاقات ہو جاتی اور رشتہ محبت و اخوت مزید بڑھ جاتا اور ان سے خاندانی باتیں سن کر اور حالات کا معلوم کر کے جوش اور ولولہ بھی بڑھ جاتا۔

ایک اوربات بھی تھی کہ ہمارے گھر میرے والد محترم سید شوکت علی صاحب جلسہ کےآخری دن سب رشتہ داروں کی دعوت بھی کرتے تھے۔ یہ رشتہ دار خواہ ہمارے گھر ٹھہرے ہوتے یا کہیں اَور سب کو بلایا جاتا اور ایک شام سب اکٹھے ہو جاتے جس سے گھر میں رونق دوبالا ہو جاتی اور سب کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ، ملاقات ہو جاتی۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

قادیان کا جلسہ

خاکسار نےقادیان کا جلسہ دیکھنے کے لیے دو دفعہ کوشش کی۔ ایک دفعہ جب میں امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں خدمت سرانجام دے رہا تھا اور مجھے امریکن شہریت اور پاسپورٹ ملا۔ تو میں نے ارادہ کیا کہ اس پاسپورٹ پر سب سے پہلے عمرہ ادا کروں گا اور پھر ربوہ اور قادیان جاؤں گا۔ یہ سارا ایک ہی ٹرپ میں کرنا تھا۔ غالباً 1994ء کی بات ہے۔ خاکسار خداتعالیٰ کے فضل سے سعودی عرب گیا۔ مکہ و مدینہ کی زیارت اور عمرہ کی توفیق ملی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ اب قادیان کا جلسہ دیکھنے کی شدید خواہش تھی۔ چنانچہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد ربوہ سے ہو کر قادیان کے لیے سفر اختیار کیا۔

جب قادیان کے لیے لاہور اور پھرلاہور سے واہگہ بارڈر کراس کیا۔ اس وقت سے ہی دل کی عجیب کیفیت ہو رہی تھی۔ خداتعالیٰ کے فضل سے عصر سے کچھ دیر پہلے قادیان پہنچ گیا۔ سڑک سے ہی مینارۃ المسیح پر نظر پڑی اور دعائیں شروع کر دیں۔ اور جو کچھ بھی کتابوں میں اور بزرگوں سے قادیان دارالامان کے بارے میں سنا تھا وہ خیالات بھی دل و دماغ میں گھومنے لگے۔ دارالضیافت پہنچے۔ مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم و مغفور سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے خاکسار کا قیام دارالضیافت ہی میں کر دیا اور ہر طرح آرام کا خیال رکھا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ لیکن وہاں ایک دن دیر سے پہنچا۔ جلسہ ختم ہو چکا تھا لیکن دور دراز کے علاقوں اور شہروں سے آنے والے بعض لوگ ابھی وہیں موجود تھے۔ خصوصاً کشمیر کے قریباً تمام احمدی ابھی قادیان ہی میں تھے۔

جیسا کہ بتایا کہ جلسہ سالانہ تو ختم ہو چکا تھا لیکن جلسہ سالانہ کے بہت سے نشانات ابھی اسی طرح تھے۔ لنگرخانہ، مہمانوں کا قیام، بازار میں چہل پہل، مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں لوگوں کا ہجوم، بیت الدعا اور بیت الفکر میں دن رات تانتا بندھا رہتا۔ اس کا اپنا ایک الگ روحانی سرور تھا۔ بہشتی مقبرہ میں، مزار مبارک حضرت مسیح موعودؑ پر ہجوم وغیرہ سب کچھ دیدنی تھا اور دل ہر وقت یہی کرتا کہ بس دعائیں ہی کرتے رہیں۔ یا نماز ہی پڑھتے رہیں۔

میں بات کر رہا تھاکہ کشمیر سے آئے ہوئے احمدی ایک کثیر تعداد میں تھے۔ ایک بات یاد آئی کہ چونکہ سردی بہت تھی اور پھر کشمیر میں ویسے بھی سردی زیادہ پڑتی ہے۔ غالبا ًاسی لیے بعض کشمیری احباب اپنے مخصوص کشمیری چوغے کے اندر بالکل چھوٹی سی مٹی کی دہکتی ہوئی انگیٹھی اٹھائے رکھتے۔یہ بڑا منفرد منظر تھا۔

مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے خاکسار پر ایک اور شفقت یہ فرمائی کہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے(مصنف اصحاب احمد) سے کہہ کر خاکسار کو قادیان کے بارے، بہشتی مقبرہ میں مدفون صحابہؓ، درویشان قادیان اور ان کی اولاد کے بارے معلومات مہیا فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر دو بزرگان کو جزا ئےخیر سے نوازے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

اب ان باتوں سے قریباً قریباً فراغت ہو چکی تھی۔ جمعرات کا دن تھا۔ خاکسار نے سوچا کہ قادیان میں جمعہ ادا کروں گا اور پھر واپس ربوہ کے لیے روانہ ہو جاؤں گا۔

چنانچہ جمعہ کے روز صبح 9؍بجے کے قریب ناشتہ سے فارغ ہوا ہی تھا کہ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا خاکسار کے نام حکم نامہ موصول ہوا کہ آج مسجد اقصیٰ میں جمعہ خاکسار پڑھائے۔ میں تو اس کے لیے بالکل تیار نہ تھا اور ویسے بھی دل یہی چاہتا تھا کہ میں محترم میاں صاحب کی امامت میں ہی جمعہ پڑھوں۔ خاکسار نے معذرت کی کہ میں تو آپ کے پیچھے جمعہ پڑھنے کے لیے رُکا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں میں ہی جمعہ پڑھاؤں۔

چنانچہ مسجد اقصیٰ میں خداتعالیٰ کے فضل سے جمعہ پڑھانے کی سعادت بھی جلسہ سالانہ کی وجہ سے میسر آئی۔

محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب جلسہ سالانہ کے ایام میں انتظامات میں بہت مصروف رہتے تھے۔ پھر ہندوستان اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے وفود کے ساتھ ملاقات اور ان کی مہمان نوازی کرنا، سب کے ساتھ وقت گزارنا، بہت بڑا کام اور ذمہ داری تھی۔ آپ نے اتنی مصروفیات کے باوجود اپنے قیمتی وقت میں سے وافر حصہ خاکسار کو عطا فرمایا۔ روزانہ صبح ناشتہ بھی گھر سے ہی بھجواتے۔ ایک دفعہ آپ شکار کے لیے رات کو تشریف لے گئے اور اگلی صبح فجر سے پہلے ایک بڑی نیل گائے کا شکار کر کے لائے۔ جسے جلسہ کے مہمانوں کے لیے بھی لنگر خانہ میں پکایا گیا۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد

دوسری دفعہ پھر 2008ء میں جب ساری دنیا میں جماعت احمدیہ خلافت جوبلی منارہی تھی اور اکثر جگہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسوں میں شامل ہونے کے لیے بنفس نفیس تشریف لے جارہے تھے اور پروگرام کے مطابق جلسہ قادیان میں بھی حضور انورنے تشریف لانا تھا۔ دنیا کے کونے کونے سے احمدی بھی تیاریوں میں مصروف تھے کہ قادیان کے جلسے میں جائیں گے۔ خاکسار اور خاکسار کی اہلیہ اور اباجان نے بھی انڈیا کے سفارت خانے سے ویزا حاصل کیا۔ الحمد للہ ویزا مل گیا اور قادیان جانے کی اور جلسہ میں شامل ہونے کی تیاری شروع کر دی۔

حضور انور ہندوستان میں تشریف لے آئے تھے لیکن ابھی ہندوستان کے دیگر علاقوں کے دورے میں مصروف تھے۔ ہم نے اس نیت کے پیش نظر کہ ہم حضور کی آمد سے پہلے قادیان پہنچ کر حضور کے عظیم الشان استقبال کے روحانی مناظر سے لطف اندوز ہوں گے قادیان کا سفر جلسہ سے کچھ دن پہلے ہی اختیار کر لیا۔ یہ بھی خیال تھا کہ ایک دفعہ حضور کے استقبال کے موقع پر قادیان پہنچ جائیں اور ایک دو دن رہ کر واپس لاہور اپنے ایک دوست کے گھر قیام کر کے جلسہ سے ایک دن پہلے پھر قادیان چلے جائیں۔

چنانچہ ہم قادیان پہنچے جہاں جلسہ کی تیاریاں عروج پر تھیں، مہمانوں کی آمد کا سلسلہ کچھ شروع ہو چکا تھا۔ ڈیوٹیاں لگ چکی تھیں گویا قادیان میں باقاعدہ جلسے کی چہل پہل اور رونق شروع ہو چکی تھی۔ دیگر ممالک سے بھی وفود وہاں پہنچ رہے تھےجن میں امریکہ کی کچھ فیملیاں بھی شامل تھیں۔ سب سے ملاقات ہو رہی تھیں۔ اس دفعہ اس خیال سے کہ حضور انور کی تشریف آوری کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں عشاق اندرون و بیرون ملک سے امڈ آئیں گے خاکسار نے مکرم ڈاکٹر طارق احمد صاحب انچارج احمدیہ ہسپتال قادیان، جن کو خاکسار گھانا سے جانتا تھا، سے درخواست کی کہ ہم تینوں ان کے گھر قیام کریں گے۔ انہوں نے بخوشی ہمیں اپنے گھر ٹھہرایا اور دو دن خوب مہمان نوازی کی۔ اللہ تعالیٰ ہر دو کو (انہیں اور ان کی اہلیہ صاحبہ) بہت جزادے۔ آمین

ابھی ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد کے لیے انتظار ہی میں تھے کہ خبر پہنچی کہ جلسہ سالانہ بوجوہ ملتوی کیا جارہا ہے۔ نیز یہ کہ سب مہمان جو باہر سے آئے ہوئے ہیں واپس چلے جائیں۔ یہ اطلاع ہمیں غالباً عشاء کے بعد ملی۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی ہم تینوں واپس واہگہ کے راستے لاہور آگئے۔ یہاں راستے میں ایک بڑی دلچسپ بات ہوئی کہ جب ہم واپس آرہے تھے تو بارڈر پرسیکیورٹی اور امیگریشن والوں نے کہا کہ اپنے سامان کی تلاشی دیں۔ میں اپنا کپڑوں کا سوٹ کیس کھولنے ہی لگا تھا کہ افسر نے پوچھا آپ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جانا ہے؟ میں نے کہا قادیان سے آرہا ہوں اور ربوہ جانا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ کہنے لگا کہ آپ سامان نہ کھولیں۔ آپ تو احمدی ہیں۔ آپ تو شراب نہیں لائےہوں گے۔ آپ جائیں۔

ایک اَور بات اس ضمن میں یا دآئی کہ جب ہم جامعہ میں پڑھتے تھے اس وقت ربوہ پاکستان سے ایک خصوصی وفد حکومت کی اجازت سے قادیان جلسہ پر بھی جایا کرتا تھا جس میں جامعہ کے طلباء بھی ہوتے تھے۔ خاکسار کو ایک جلسے پر مکرم سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم کا اور حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب مرحوم کا جانا یاد ہے۔

اس کے علاوہ ایک اَور بات کہ جب قادیان میں جلسہ ہوا کرتا تھا ہندوستان کے ریڈیو پر اس کی خبر اور جلسہ کے تین دن کے پروگرام کی کچھ تقاریر کے حصے بھی نشر ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جامعہ کے کچھ طلباء جن کے پاس چھوٹے چھوٹے ریڈیو ہوا کرتے تھے جامعہ احمدیہ ربوہ میں ہی باہر دھوپ میں بیٹھ کر بڑے شوق سے قادیان کے جلسہ کی خبر اور تقاریر کے جو حصے نشر ہوتے تھے انہیں سنا کرتے تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button