بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(نمبر38)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…کیاعیدالاضحی کے موقع پر وفات شدگان کے نام پر جانور کی قربانی کی جا سکتی ہے؟

٭…کیاحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام حقیقی بھائی تھے۔ نیز یہ کہ جب فرعون بنی اسرائیل کے سب لڑکوں کو قتل کروا دیتا تھا تو حضرت ہارون علیہ السلام کیسے زندہ بچ گئے؟

٭…مراقبہ اور اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات اور طریق کےمتعلق راہنمائی

٭…اگر ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جائے تو کیانماز کےلیے دوبارہ وضو کرنے سے پہلے استنجا کرنا ضروری ہوتا ہے؟

سوال: انڈونیشیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا عیدالاضحی کے موقع پر وفات شدگان کے نام پر جانور کی قربانی کی جا سکتی ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 08؍جون 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب:وفات شدگان کی طرف سے قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو حضور ﷺ کی سنت ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ عیدا لاضحی کے موقع پر ایک قربانی اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے دیا کرتے تھے اور ایک قربانی اپنی امت کی طرف سےکیا کرتے تھے۔ اور آپ کی امت میں بہت سے ایسے صحابہ بھی شامل تھے جو حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں شہید ہو چکے تھے اور وہ بھی حضور کی طرف سے کی جانے والی اس قربانی میں شامل ہوتےتھے۔(صحیح مسلم کتاب الاضاحی۔مسند احمد بن حنبل، مسند الانصار مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ حَدِيثُ أَبِي رَافِعٍ۔ حدیث نمبر25937)

علاوہ ازیں حدیث میں یہ بھی روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو جانوروں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو اس کا سبب پوچھا۔ جس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ حضورﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں حضورﷺ کی طرف سے قربانی کیا کروں۔اس لیے میں ایک جانور آپ کی طرف سے قربان کرتا ہوں۔(سنن ابی داؤد کتاب الضحایا بَاب الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا جو مقام اور مرتبہ اور آپ کےلیے جو محبت تھی، اس کا اظہار کرتے ہوئے ایک موقع پرآپؓ فرماتے ہیں:’’حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات پر 42 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میں ہر قربانی کے موقع پرآپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں…پھر جب میں حج پر گیا تو اس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سے قربانی کی تھی اور اب تک ہر عید کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں۔‘‘(انوار العلوم جلد 25 صفحہ 468)

پس وفات شدگان عزیزوں اور پیاروں کی طرف سے عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کرنا عین سنت رسول ﷺ ہے۔

سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیاحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام حقیقی بھائی تھے۔ نیز یہ کہ جب فرعون بنی اسرائیل کے سب لڑکوں کو قتل کروا دیتا تھا تو حضرت ہارون علیہ السلام کیسے زندہ بچ گئے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13؍جون 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب:بائبل کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام حقیقی بھائی تھے۔ چنانچہ لکھا ہے:’’اور عمرام نے اپنے باپ کی بہن یوکبد سے بیاہ کیا جس سے اس کے بیٹے ہارون اور موسیٰ پیدا ہوئے۔اور عمرام ایک سو سینتیس برس زندہ رہا…اور یہ وہی ہارون اور موسیٰ ہیں جنہیں خداوند نے فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل کو ان کے جتھوں کے مطابق مصر سے نکال لے جاؤ۔یہ وہ ہیں جنہوں نے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جانے کےلئے فرعون شاہ مصر سے بات کی تھی۔ ‘‘(خروج باب 6 آیت 20اور 27،26)

بائبل کے مطابق حضرت ہارونؑ حضرت موسیؑ سےبڑے تھے۔چنانچہ لکھا ہے کہ ’’موسیٰ اسی برس کا اور ہارون تراسی برس کا تھا جب وہ فرعون سے ہمکلام ہوئے۔‘‘(خروج باب 7 آیت 7)

فرعون نے حضرت موسیٰؑ کی پیدائش کے وقت اپنے خواب کی وجہ سے نجومیوں اور جوتشیوں کے مشورہ پر عبرانیوں کے لڑکوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ حضرت ہارون چونکہ پہلے پیدا ہو چکے تھےاس لیے وہ زندہ بچ گئے۔

حضرت ہارونؑ کے زندہ بچنے کی ایک وجہ بائبل میں یہ بھی لکھی ہے کہ حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ کا زمانہ گزر جانے کے بہت عرصہ بعد جب بنی اسرائیل کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ ملک ان سے بھر گیا تو اس وقت کے بادشاہ نے ان کی تعداد سے خوف کھا کے ان پر طرح طرح کی سختیاں شروع کر دیں۔ لیکن وہ جس قدر ستائے گئے اسی قدر ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔چنانچہ شاہ مصر نے دائیوں کو حکم دیا کہ اگر اسرائیلی عورتوں کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو اسے مار دینا اور اگر لڑکی پیدا ہو تو اسے زندہ رہنے دینا ۔لیکن دائیوں نے بادشاہ کے حکم پر عمل نہ کیا۔(ماخوذ ازخروج باب 1آیت 7 تا17)

علاوہ ازیں تفاسیر میں بھی لکھا ہے کہ مصری چونکہ بنی اسرائیل سے بےگار کا کام لیتے تھے اس لیے ایک سال اسرائیلیوں کے لڑکوں کو زندہ رکھتے تھے اورایک سال قتل کروا دیتے تھے تاکہ بنی اسرائیل کی تعداد زیادہ نہ بڑھ سکے لیکن مصریوں کو محنت مزدوی کےلیے لیبر ملتی رہے۔ چنانچہ حضرت ہارون علیہ السلام کی پیدائش اس سال ہوئی جس سال بنی اسرائیل کے لڑکوں کو زندہ رکھا گیا تھا۔(معالم التنزیل(تفسیر البغوی) مؤلفہ ابو محمد الحسین بن مسعود۔ زیر آیت نمبر 50 از سورۃ البقرہ)

پس حضرت ہارون علیہ السلام کے زندہ رہنے کی یہ مختلف وجوہات ہیں جو بائبل اور تفاسیر کی کتب میں بیان ہوئی ہیں۔

سوال:ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مراقبہ اور اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات اور طریق کے بارہ میں دریافت کیا ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 13؍ جون 2021ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ہدایات سے نوازا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:مراقبہ کے معانی عام طور پر دھیان لگانے، توجہ دینے اور اپنے اعمال پر غور و فکر کرنے کو کہتے ہیں۔ جس کی عادت انسانوں کے علاوہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ فرمایا کرتے تھے، میں نے مراقبہ بلی سے سیکھا ہے۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 147 مطبوعہ 2016ء)

مراقبہ کا عمل جہاں مسلمان اولیاء اور صوفیاء کا ایک خاص شغل رہا ہے ،اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی اپنے اپنے طریق کے مطابق اس کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ یہود کے اسینی فرقہ جنہیں فریسی بھی کہا جاتا تھا کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ لوگ روزے رکھتے اور بڑی پاک زندگی بسر کرتے تھے۔ اور غیب کی خبریں بتاتے تھے اور …عبادت کے وقت مراقبہ کرتے تھے تا ان کی ارواح کا تعلق آسمانی باپ سے پیدا ہو جائے۔ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 384، کالم نمبر 2)

اسلامی عبادات کی بڑی غرض یہی ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان گہرا تعلق پیدا ہو۔ چنانچہ حضور ﷺ نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں احسان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ۔یعنی انسان کو چاہیےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے لیکن اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو کم سے کم یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الایمان بَاب سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

عبادت کی یہ دونوں کیفیات مراقبہ کی ہی صورتیں ہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’درحقیقت نماز میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ انسانی روح کے کمال کےلئے دوسرے کے ساتھ تعاون، وعظ و تذکیر اور مراقبہ یہ تین چیزیں ضروری ہیں۔مراقبہ کا قائم مقام خاموش نمازیں ہوتی ہیں جن میں انسان اپنے مطلب کے مطابق زور دیتا ہے۔‘‘(روز نامہ الفضل قادیان 5؍ستمبر 1936ء صفحہ 4)

مراقبہ کا طریق اور اس کا فائدہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ہمارے ملک میں یہ کیفیت ہے کہ ہم ہر چیز کے متعلق اس طرح کُودتے ہیں جس طرح بندر درخت پر کُودتا ہے۔ ابھی ایک خیال ہوتا ہے پھر دوسرا خیال ہوتا ہے پھر تیسرا خیال ہوتا ہے پھر چوتھا خیال ہوتا ہے ایک جگہ پر ہم ٹکتے ہی نہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ قرآنی تعلیم اور حدیثی تعلیم ہمارے اندر جذب نہیں ہوتی کیونکہ ہم جھٹ اس سے کُود کر آگے چلے جاتے ہیں۔(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج مراقبہ بتایا ہے اور مختلف شکلوں میں صوفیائے کرام نے اس پر عمل کی تدابیر نکالی ہیں مگر اس مادی دور میں اس کو پوچھتا کون ہے)…ہمارے علماء نے وہ علاج اختیار نہیں کیا۔ اور وہ یہ تھا کہ قرآن کی تعلیم اور حدیث کی تعلیم جو ان امور کے متعلق ہے اس کو بار بار ذہن میں لایا جائے جسے مراقبہ کہتے ہیں۔ اور پھر بار بار لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ مگر ہمارے ہاں تو بجائے یہ کہنے کے کہ اخلاق کی درستی ہونی چاہیے بس یہی ہوتا ہے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، یوں سجدہ کرو، یوں ڈھیلا استعمال کرو۔ کم سے کم سات دفعہ جب تک پتھر سے خاص خاص حرکات نہ کرو تمہارا ڈھیلے کا فعل درست ہی نہیں ہو سکتا۔ غرض یا قشر پر زور دیا جاتا ہے یا رسم پر زور دیا جاتا ہےا ور جو اصل سبق ان احکام کے پیچھے ہے اسے بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے۔(انوار العلوم جلد 24 صفحہ 515)

احباب جماعت کو مراقبہ کی نصیحت کرتے ہوئے حضورؓ فرماتے ہیں:’’تمہیں ہر روز کچھ وقت خاموشی کے ساتھ ذکر الٰہی یا مراقبے کےلئے خرچ کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔ ذکر الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ علاوہ نمازوں وغیرہ کے روزانہ تھوڑا سا وقت خواہ وہ ابتدا میں پانچ منٹ ہی ہو اپنے لئے مقرر کر لیا جائے جبکہ تنہائی میں خاموش بیٹھ کر تسبیح و تحمید کی جائے۔ مثلاً سُبْحَانَ اللّٰہ،اَلْحَمْدُلِلّٰہِ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ اور اسی طرح دیگر صفات الہٰیہ کا ورد کیا جائے اور ان پر غور کیا جائے۔

مراقبے کے یہ معنے ہیں کہ روزانہ کچھ دیر خلوت میں بیٹھ کر انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اس سے کون کونسی غلطیاں سر زد ہوگئی ہیں۔آیا وہ انہیں دُور کر سکتا ہے یا نہیں ۔ اگر کر سکتا ہے تو اب تک کیوں نہیں کیں۔ اگر دُور نہیں کر سکتا تو اس کی کیا وجوہ ہیں اور کیا علاج ہو سکتا ہے۔ پھر اس کے آگے وہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے عزیزوں اور ہمسایوں کی اصلاح کی کیا صورت ہے۔ تبلیغ کے کیا مؤثّرذرائع ہیں۔ کیا رکاوٹیں ہیں اور انہیں کس طرح دُور کیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے محاسبہ کا جو نتیجہ نکلے اسے ڈائری کے رنگ میں لکھ لیا جائے اور پھر اسی سلسلے کو وسیع کرنے کی کوشش کی جائے۔

اگر اس رنگ میں ذکرِ الٰہی اور مراقبہ کی عادت ڈالی جائے تو یقیناً اس سے روحانیت ترقی کرے گی، عقل تیز ہو گی اور امام وقت کی ہدایات و تقاریر پر زیادہ غور و تدبر کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق مل جائے گی۔ ایسا شخص آہستہ آہستہ ایک حد تک دنیا کے لئے ایک روحانی ڈاکٹر اور مصلح بن جائے گا۔‘‘(انوار العلوم جلد 23 صفحہ61تا62)

حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے متبعین کےلیے مراقبہ کا حقیقی طریق اور اس کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آپ اپنے سارے جسم وجان روح ورواں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہو جاویں ۔پھر خدا تعالیٰ خود بخود تم سب کا حافظ وناصر معین وکار ساز ہو جاوے گا۔چاہیے کہ انسان کے تمام قویٰ آنکھ، کان، دل، دماغ، دست وپا جملہ متمسک باللّٰہ ہو جاویں۔ان میں کسی قسم کا اختلاف نہ رہے اسی میں تمام کا میابیاں ونصرتیں ہیں یہی اصل مراقبہ ہے اسی سے حرارت قلبی وروحانیت پیدا ہو تی ہے اور اسی کی بدولت ایمان کا مل نصیب ہو تا ہے ۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 320،ایڈیشن 2016ء)

سوال:ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ اگر ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جائے تو کیانماز کےلیے دوبارہ وضوکرنے سے پہلے استنجا کرنا ضروری ہوتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 22؍جولائی 2021ء میں اس مسئلے کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا:

جواب:حضور ﷺ کے اسوہ سے یا جہاں حضورﷺ نے وضو کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں، ان میں کہیں پر بھی وضو سے پہلے استنجا کرنے کا ذکر نہیں ہے۔اس لیے صرف ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹنے پر نماز کےلیے دوبارہ وضو کرتے وقت وضو سے پہلے استنجا کرنے کی ضرورت نہیں البتہ اگر اخراج ریح کے ساتھ غلاظت یا پیشاب بھی نکل جائے تو پھر وضو سے پہلے استنجا کرنا ضروری ہے تا کہ اخراج ریح کے ساتھ جو گندگی نکلی ہے پہلے اسے دھویا جا سکے۔ورنہ ایک دفعہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر استنجا کر کے جب وضو کر لیا جائے تو اس کے بعد صرف ہوا کے خارج ہونے پر وضو تازہ کرتے وقت استنجا کرنا ضروری نہیں۔

سوال:ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کی آیت وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُممیں کونسی عورتیں مراد ہیں اور کیا ان کے خاوندوں کے ہوتے ہوئے بھی ان سے شادی ہو سکتی ہے، یا یہ آیت مخصوص زمانہ کےلیے تھی اور کیا اب یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ 22؍جولائی 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل اصولی ہدایات سے نوازا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:آپ مربی بھی ہیں اور آپ کو یہ بھی علم نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہو سکتی۔ آپ کے سوال سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا اور نہ ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔اور نہ ہی آپ خلفائے احمدیت کے خطبات و خطابات سنتے ہیں، بلکہ آپ کو تو جماعت کے بنیادی عقائد کا بھی علم نہیں جو آپ یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا قرآن کریم کی یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے؟ کیونکہ جماعت احمدیہ کا بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا ایسا کلام ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا تعالیٰ نے لے رکھی ہے اور اس کی بسم اللہ کی ’’ب‘‘سے والناس کی’’س‘‘ تک ساری عبارت خدا تعالیٰ کے اذن کے تحت محفوظ اور غیر مبدل ہے اور اس کا ایک نقطہ بلکہ ایک شوشہ بھی قابل منسوخ نہیں اور جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم قابل عمل تھا،اب بھی اسی طرح قابل عمل ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک ا سی طرح قابل عمل رہے گا۔

ہاں یہ بات درست ہے کہ قرآن کریم کے بعض احکام بعض مخصوص حالات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ آنحضورﷺ کے زمانے میں جب وہ حالات تھے تو یہ احکام ان پر لاگو ہوتے تھے، آئندہ کسی زمانہ میں اگر ویسے ہی حالات دوبارہ پیدا ہوتے ہیں تو پھر ان احکامات کا ان حالات پر نفاذ ہو گا۔اس آیت میں بیان لونڈیوں کے متعلق احکامات بھی اسی قسم کے حالات کے ساتھ مخصوص ہیں۔

ایک مربی کا صرف یہ کام نہیں کہ وہ صرف سوال کر کے اپنےمسائل حل کر لے۔یا کوئی بات معلوم کرنے کےلیے صرف Google Search کا سہارا لے۔بلکہ ایک مربی کو خود تحقیق کر کے اپنے علم میں اضافہ کرنے کی عادت ہونی چاہیے اور اس کا علم پختہ اور گہرا ہونا چاہیے۔اس کی علمی اور جماعتی کتب کے مطالعہ پر گہری نظر ہونی چاہیے، اسے سوچنے اور غور کر کے نئے نئے علمی نکات نکالنے کی عادت ہونی چاہیے۔

باقی جہاں تک مذکورہ بالا آیت میں بیان عورتوں سے متعلق سوال ہے تو اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں جبکہ دشمنان اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔چنانچہ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوریٰ:41) کی قرآنی تعلیم کے مطابق دشمن اسلام کی ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کےلیے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کےقید کر لی جاتی تھیں۔ اور پھر دشمن کی یہ عورتیں تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کےجب آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو چونکہ اس زمانے میں ایسے جنگی قیدیوں کو رکھنے کےلیے کوئی شاہی جیل خانے وغیرہ نہیں ہوتے تھے اس لیے انہیں مجاہدین لشکر میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔اوریہ مجاہدین جب اپنے حصہ میں آنے والی ایسی لونڈیوں کی جہاں رہائش،خوراک اورلباس وغیرہ کی ضروریات پورا کرتے تھے تو بدلے میں اس زمانہ کے دستور کے مطابق ان مجاہدین کو ان عورتوں سے فائدہ اٹھانے کا بھی پورا پورا حق ہوتا تھاجس میں ان کے ساتھ جسمانی تعلق استوار کرنا بھی شامل تھا۔ پس اس آیت میں دشمن کی اسی قسم کی عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر وہ مذکورہ بالا حالات میں مسلمانوں کے قبضہ میں آتی ہیں تو قطع نظر اس کے کہ وہ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ، لونڈی کی حیثیت میں ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت ہے۔

یہاں پر میں یہ بھی واضح کر دوں کہ قرآن کریم ، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میرا موقف ہے کہ ایسی عورتوں سےایک قسم کے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے۔ لیکن اس نکاح کےلیے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی۔ اور نہ ہی اس نکاح کےلیے اسلامی دستور کے مطابق ولی کی رضامندی ضروری ہوتی تھی، بلکہ جس طرح بہت سے قبائل اور معاشروں میں یہ طریق رائج رہا اور اب بھی بعض ممالک میں یہ طریق موجود ہے کہ معاشرہ میں صرف یہ بتا دیا جاتا ہے کہ ہم میاں بیوی ہیں اور یہی ایک قسم کا اعلان نکاح ہوتا ہے، اسی طرح مذکورہ بالا قسم کی لونڈیوں کا جنگ کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں کسی مجاہد کے حصے میں آنا ان دونوں کا ایک طرح کا اعلان نکاح ہی ہوتا تھا۔ایسی لونڈی سے اس قسم کے نکاح کے نتیجے میں مرد کےلیے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا تھا۔ البتہ اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ ام الولدکے طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button