خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍جولائی 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…حضرت ابوبکر ؓکے دَور خلافت میں ایرانیوں کے خلاف حضرت خالد بن ولیدؓ کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگوں اوراُن میں فتوحات کا تفصیلی تذکرہ

٭…جنگ ذات السلاسل دُور رس نتائج کی حامل رہی ۔مسلمانوں کی کم تعداد کے مقابلے پر دشمن کی بڑی فوج نہ ٹھہر سکی

٭…جنگ مَذَار کے دن ہر شخص کی زبان پر تھا کہ صفر کا مہینہ آگیا ہے اور اس میں ہر ظالم سرکش قتل ہوگاجہاں دریا اکٹھے ہوتے ہیں

٭…حضرت خالد ؓنے فتوحات کے بعد جزیہ وصول کرنے ، مفتوحہ علاقوں کی حفاظت اور دشمنوں سے خبردار رہنے کے بہترین انتظامات کیے

٭…حضرت ابوبکر ؓنے فتوحات کی اطلاع پاکر فرمایا کہ اب عورتیں حضرت خالد بن ولید ؓجیسا شخص پیدا نہیں کرسکیں گی

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍جولائی 2022ء بمطابق 22؍ وفا 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 22؍جولائی 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

آج حضرت ابوبکر ؓکے دَور خلافت میں ایرانیوں کے خلاف کارروائیوں کا بیان ہوگا۔اس جنگ میں ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑ لیا تھا تاکہ کوئی شخص جنگ سے بھاگ نہ پائے۔زنجیر کو عربی میں سلاسل کہتے ہیں اس لیے اس جنگ کو ذات السلاسل کہتے ہیں۔بعض مورخین اس روایت کو درست تسلیم نہیں کرتے۔یہ جنگ بصرہ سے بحرین جاتے ہوئے سیف البحربستی میں کاظمہ کے مقام کے قریب لڑی گئی تھی اس لیے اس جنگ کو جنگ کاظمہ بھی کہتے ہیں۔حفیر مقام کی وجہ سے اس جنگ کو جنگ حفیر بھی کہا جاتا ہے۔مسلمانوں کے اٹھارہ ہزارکے لشکر کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید ؓتھے جبکہ ایرانیوں کی جانب سےاس علاقے کا حاکم ہُرمز سپہ سالار تھا۔

ایرانیوں میں جس کا رتبہ جتنا زیادہ بلند ہوتا وہ اُتنی ہی قیمتی ٹوپی پہنا کرتا تھااور سب سے قیمتی ٹوپی ایک لاکھ درہم کی ہوتی تھی۔ ہُرمز کا رتبہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی ٹوپی کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی لیکن ہُرمز کا جتنا ایرانیوں میں رتبہ تھا اُتنا ہی عراق کے عرب اس سے نفرت کیا کرتے تھے کیونکہ وہ اُن پر سب سے زیادہ سختی کیا کرتا تھا۔عراقی عرب کسی کی خباثت کو ظاہر کرنے کے لیے ہُرمز کی مثال دیا کرتے تھے کہ فلاں شخص تو ہُرمز سے بھی زیادہ بد طینت ہے۔اسی لیے ہُرمز کو عربوں کے پے درپے چھاپوں اور جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

حضرت خالد بن ولید ؓنے یمامہ سے روانگی سے قبل ہُرمز کو خط لکھا کہ فرمانبرداری اختیار کرلو تو تم محفوظ رہو گےیا جزیہ دینے کا اقرار کرو تو اپنی اور اپنی قوم کے لیے حفاظت کی ضمانت لے سکتے ہو۔میں تمہارے مقابلے کے لیے ایسی قوم لےکر آیا ہوں جو موت کو ایسے پسند کرتی ہے جیسا تم زندگی کو پسند کرتے ہو۔ہُرمز اس خط کی اطلاع شاہ کسریٰ کو دےکر حضرت خالد بن ولید ؓکے مقابلے کے لیے کاظمہ پہنچ گیا۔دونوں طرف کی فوجوں میں شدید لڑائی ہوئی۔ ہُرمز نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو مبارزت کی دعوت دی اور دونوں میں دُو بدو مقابلہ ہوا۔حضرت خالد ؓنے ہُرمز کا کام تمام کردیا۔ایرانیوں کو شکست فاش ہوئی اور وہ جنگ سے بھاگ گئے۔مسلمانوں نے بھاگنے والوں کا تعاقب کیا اور اُنہیں قتل کرتے گئے۔ حضرت خالد ؓنے مال غنیمت جمع کرکے حضرت ابوبکر ؓکو بھجوایا جس میں 375کلو زنجیریں اور ہُرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی بھی تھی۔حضرت ابوبکر ؓنے یہ ٹوپی حضرت خالدؓ کو عطا کردی۔

اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح کی ایک بڑی وجہ حضرت ابوبکر ؓکی عراق کے کاشتکاروں کے بارے میں پالیسی بھی تھی جس کے تحت حضرت خالد ؓنے ان کاشتکاروں سے مطلق تعرض نہ کیا۔جہاں جہاں وہ آباد تھے اُنہیں وہیں رہنے دیا اور جزیے کی معمولی رقم کے علاوہ اُن سے کسی اور قسم کا کوئی ٹیکس نہ لیا۔یہ جنگ دُوررس نتائج کی حامل رہی جس نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں کہ شہرت کی حامل ایرانی فوجیں مسلمانوں کی تھوڑی تعداد کے لشکر کے سامنے نہ ٹھہر سکیں۔

پھر جنگ اُبُّلہ کا ذکر ہے جس کے بارے میں دو روایات مذکور ہیں۔ایک یہ کہ مسلمانوں نےاُبُّلہ کو سب سے پہلے حضرت ابوبکر ؓکےعہد میں فتح کیا لیکن بعد میں یہ دوبارہ ایرانیوں کے قبضے میں چلا گیا اور حضرت عمربن خطابؓ کے زمانے میں مسلمان اس پر پوری طرح قابض ہوگئے۔دوسری روایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس پر حضرت عمر ؓکے زمانے میں فتح حاصل کی۔علامہ طبری ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دَور میں 14؍ہجری میں حضرت عتبہ بن غزوانؓ کے ہاتھوںاُبُّلہ کی فتح عمل میں آئی تھی۔ حضرت عمرؓ کے دَور میں حضرت عتبہ بن غزوان ؓنےاُبُّلہ کے پانچ سو عجمی سپاہیوں کو شکست دی۔پورے شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور مال غنیمت میں بہت سا سامان اور ہتھیار اور دیگر چیزیں حاصل ہوئیں۔

پھر جنگ مَذَارکا ذکر ہےجوصفر 12؍ہجری میں ہوئی۔اس واقعہ کے دن ہر شخص کی زبان پر تھا کہ صفر کا مہینہ آگیا ہے اور اس میں ہر ظالم سرکش قتل ہوگاجہاں دریا اکٹھے ہوتے ہیں۔ہُرمز کے لکھنے پر اُس کے بادشاہ نےقَارن کو ذات السلاسل کی جنگ میں ہُرمز کی مدد کے لیےبھیجا تھا۔ قَارن ابھی مَذَارکے مقام پر پہنچا ہی تھا کہ اُسے ہُرمز کے قتل کی اطلاع ملی جبکہ ہُرمز کی فوج کے بھاگے ہوئے دستے مَذَارمیں قَارن کی فوج سے آملےاور مسلمانوں سے جنگ کی تیاری کرنے لگے۔حضرت خالدؓ کو اس کی اطلاع ملی تو وہ بھی اپنا لشکر لےکر مَذَارپہنچے۔نہایت غیض و غضب کی حالت میں دونوں طرف کی فوجوں کی مڈبھیڑ ہوئی۔قَارن کو حضرت مَعقل ؓنے مقابلہ کرکے قتل کردیا۔ایرانی حوصلہ ہار بیٹھے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ اہل فارس کی بہت بڑی تعداد ماری گئی۔حضرت خالد ؓنے مال غنیمت سپاہیوں میں تقسیم کردیااور خمس کا باقی حصہ اور قیدیوں کو حضرت سعید بن نعمان ؓکی سرکردگی میں مدینہ روانہ کردیا۔ اس فتح کے بعد کاشتکاروں اور تمام لوگوں کو بغیر تکلیف پہنچائے جزیہ کی ادائیگی پر آمادہ کیا گیااور اُنہیں اُن کی زمینوں اور جگہوں پر برقرار رکھا گیا۔بعدازاںحضرت خالدؓ نے انتظامی اُمور کی طرف توجہ کی۔ جزیہ وصول کرنے کے لیے عمال مقرر کیے گئے۔ مفتوحہ علاقوں کی حفاظت کے لیے فوجیں متعین کیں۔دشمنوں کی کارروائیوں سےخبردار رہنے اور بوقت ضرورت مقابلہ کرنے کا انتظام کیا گیا۔

صفر12؍ہجری میں کسکر کے قریب جنگ ولجہ ہوئی۔جنگ مَذَارمیں ایرانیوں کی شرمناک شکست کے بعد ایران کے بادشاہ اَردشیر نے عراق کے سب سے بڑے قبیلے بکر بن وائل کے عیسائیوں کو مسلمانوں سے مقابلے کے لیے آمادہ کیا اور ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکےمسلمانوں سے مقابلے کے لیے ولجہ بھیجا۔ حیرہ اور کسکر کے لوگ بھی اس لشکر کے ساتھ مل گئے۔مسلمانوں کے مقابلے میں فتح کا سہرا مکمل طور پر عیسائیوں کو نہ ملا۔اس بنا پر فارسیوں کا ایک لشکر بہمن جاذویہ کی سربراہی میں بھی روانہ کردیاگیا۔حضرت خالدؓ کو جب اس کی اطلاع ملی تو حیرہ میں حضرت سوید بن مقرنؓ کو اپنا قائمقام مقرر کرکے اپنا لشکر لےکرولجہ پہنچے اور دشمن سے مقابلے کے میدان میں اُترے۔ شدید ترین جنگ ہوئی۔حضرت خالد بن ولید ؓنےاپنی فوج کے ذریعہ دشمن کے دونوں طرف گھات لگا رکھی تھی جنہوں نے ایرانیوں پر حملہ کیا اور اُن کی فوج شکست کھا کر بھاگنے لگی۔سامنے سے حضرت خالد ؓکے دستوں نے اُنہیں قابو کیا اور دشمن کی فوج ماری گئی۔اُن کا سپہ سالار بھی مارا گیا۔یہاں بھی حضرت خالد ؓنے کاشتکاروں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اُن کا طریق تھا۔ صرف جنگجولوگوں اور اُن کے معاونین کو گرفتار کیااور عام لوگوں کو جزیہ دینے پر قائل کیا۔

پھر جنگ اُلیس کا ذکر ہے جو صفر 12؍ہجری میں ہوئی۔حضرت خالد ؓکے ہاتھوں قبیلہ بکر بن وائل کے لوگ اور ایرانی عبرتناک شکست سے غضبناک تھے لہٰذا یہ تمام اُلیس کے مقام پر جمع ہوئے جہاں عبد الاسود عجلی ان کا سردار مقرر ہوا۔ایرانی بادشاہ کے کہنے پر بہمن جاذویہ نے اپنا لشکرایک مشہور بہادر سپہ سالار جابان کی سرکردگی میں اُلیس بھیجا۔حضرت خالد ؓبھی نصرانیوں اور ایرانیوں کے لشکروں کی موجودگی کی اطلاع پاکر اپنی فوج لےکر اُلیس پہنچے۔دونوں طرف سے بڑے جوش اور غضب کے ساتھ شدید ترین لڑائی ہوئی۔حضرت خالد ؓنے مادی اسباب کم ہوتے دیکھ کر انتہائی عاجزی سے دعا مانگی کہ اے اللہ ! اگر تُو مجھے آج فتح عطا فرمائے گا تو میں کسی ایک دشمن کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گااور یہ دریا اُن کے خون سے سُرخ ہوجائے گا۔بعد ازاں حضرت خالدؓ نے جنگی حکمت عملی کے ساتھ دشمن پر تین اطراف سے حملہ کیا اور فتح پائی۔

تاریخ طبری اور اکثر مورخین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد ؓنے اپنی دعا میں کیے گئے عہد کے مطابق ایک رات اور دن قیدیوں کو قتل کرکے دریا میں ڈالا تاکہ اُن کے خون سے دریا کا پانی سُرخ ہوجائےاور اسی لیے یہ نہر آج تک نہر الدم یعنی خون کے پانی کے نام سے مشہور ہے۔ بہرحال لگتا ہے کہ یہ بات ایسے ہی اس واقعہ میں شامل کردی گئی ہےتاکہ دجل اور فریب کے ذریعہ مسلمانوں کے ظلم وستم کو پیش کیا جاسکےجبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ میں قیدیوں کے قتل کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر کسی کو قتل کیا گیا تو اُس کی ٹھوس وجہ موجود تھی۔ایک مصنف تو لکھتے ہیں کہ راویوں نے مبالغہ آرائی کی انتہا کردی ہے۔ایسا بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ زخمی سپاہیوں کے نہر میں ڈوبنے کی وجہ سے اُن کے خون کی وجہ سے نہر کا پانی سُرخ ہوگیا۔

عراق میں ایک مقام ہے امغیشیا جو بغیر کسی جنگ کے صفر 12؍ہجری میں فتح ہوگیا اور مسلمانوں کو اب تک ہونے والی کسی بھی جنگ سے زیادہ مال غنیمت حاصل ہوا۔حضرت خالد ؓنے جندل نامی ایک نمائندے کے ذریعے حضرت ابوبکرؓ کو فتوحات کی اطلاع بھجوائی جس کا عمدہ بیان حضرت ابوبکرؓ کو بہت پسند آیا۔اس موقع پر حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا کہ اب عورتیں حضرت خالد بن ولیدؓ جیسا شخص پیدا نہیں کرسکیں گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button