پیغام حضور انور

بین الاقوامی وزارتی کانفرنس برائے آزادیٔ مذہب 2022ءکے لیےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کا ویڈیو پیغام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آج ’’آزادی مذہب یا عقیدہ‘‘ کے بارے میں عالمی وزارتی کانفرنس 2022ء منعقد ہو رہی ہے تا کہ مذہب اور عقیدہ کی آزادی کے بنیادی اصولوں کا تحفظ کیا جائے۔ جیسا کہ اس افتتاحی اجلاس کا موضوع ہے یقیناً آزادی مذہب اور عقیدہ اہم انسانی حقوق ہیں جنہیں یقیناً ہر کسی کے لیے اور ہر جگہ تحفظ دیا جانا چاہیے۔ گو ہم تیزی سے مادیت کی طرف بڑھتی ہوئی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں لوگ مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیںتاہم دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اب بھی مذہبی اقدار کو مانتے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔ اس لیے جماعت احمدیہ مسلمہ کے عالمی سربراہ کے طور پر میں بہت اخلاص سے اس بات کی قدر کرتا ہوںکہ آپ اس کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں تا کہ عالمی سطح پر مذہبی آزادی کا دفاع کریں۔

جماعت احمدیہ مسلمہ بذات خود انتہائی مذہبی ظلم و تشدد کا نشانہ رہی ہے یہاں تک کہ ہمارے خلاف ناقابل برداشت قانون بنائے گئے تا کہ ہمارے افراد بنیادی مذہبی عقائد کا نہ اظہار اور نہ ان پر عمل کر سکیں۔ کئی دہائیوں کے عرصہ میں احمدی مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر صرف اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر نشانہ بنایا گیا ہے اور مذہبی دہشت گردوں کے غیر انسانی اور وحشیانہ حملوں کی بنا پر کئی اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔البتہ ہم نے اس ظلم و نفرت کا کبھی بھی ایسے ہی ظلم و تشدد سے نہ جواب دیا ہے اور نہ ہی دیں گے بلکہ ہمارا جواب ہمیشہ وہ ہو گا جو محبت اور امن کے ساتھ ہو۔ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ہم مسلمانوں اور غیر مسلموں سے ایک ہی بات کہتے ہیںکہ تمام افراد لازماً ہمیشہ اپنے پر امن عقائد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہونے چاہئیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے آزادی اور عقیدہ اور سوچ کو اس حد تک رائج کیا ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ طاقت کے استعمال کی اجازت صرف ان لوگوں کے مقابل پر دی گئی ہے جو مذہب کو دنیا سے مٹانا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم واضح کہتا ہے اگر ان لوگوں کو طاقت سے جواب نہ دیا گیاجو مذہب کو طاقت سے ختم کرنا چاہتے ہیں تو کوئی چرچ، یہودیوں کی عبادت گاہ، مندر، مسجد یا عبادت کی کوئی اور جگہ جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے، محفوظ نہ رہے گی۔ چنانچہ قرآن کریم نے اسے مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری قرار دیا ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کریں اور عقیدہ کی آزادی ہمارے مذہب کا اہم ستون قرار دیا ہے۔

مزید یہ کہ یہ بڑی طاقتوں حکومتوں اور عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ تمام ذرائع جو ان کے پاس ہیں ان کا استعمال اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام لوگ اپنے عقائد کی بنا پر آزاد رہ سکیں۔ اس کی روشنی میں مجھے یقین ہے کہ وہ ممالک، راہنما اور تنظیمیں جو اس بابرکت کانفرنس میں حصہ لے رہے ہیں رنگ و نسل سے بالا ہو کر مخلصانہ طور پر کوشش کریں گے کہ تمام ممالک کے لوگ اپنے عقائد کا آزادانہ اظہار اور ان پر بغیر کسی ڈر و خوف کے عمل کر سکیں۔ساتھ ہی ایک مذہبی انسان ہونے کے ناطے میرا یہ دلی عقیدہ ہے کہ دنیا میں حقیقی آزادی اور دیرپا امن اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک انسانیت اپنے خالق کو نہ پہچان لے اور اس کے حقوق کی ادائیگی کرے۔ چاہے ہمارے مذہبی رجحان ہیں یا نہیں ہمیں لازماً ماننا ہو گا کہ ایک خدا ہے جو خالق ہے اور اس کے ہاتھ میں تمام تخلیق ہے۔ چنانچہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کے اور تمام بنی نوع انسان کے حقوق ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ تمام جماعتوں اور لوگوں کے لیے دنیا بھر میں حقیقی مذہبی آزادی اور ہم آہنگی غالب آئے تا وہ اپنی زندگیاں اپنے عقائد کے مطابق گزار سکیں۔

آخر میں آپ سب کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔ اس کانفرنس کے باقی پروگرام کے لیے۔ دعا کرتا ہوں کہ یہ کانفرنس اپنے حقیقی مقاصد، مذہبی آزادی کے دنیا بھر میں اصولوں کے تحفظ کو پورا کرے۔ آمین۔ بہت شکریہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button