یادِ رفتگاں

میری پیاری امی جان محترمہ نذیراں بیگم صاحبہ

(عفت داؤد۔امریکہ)

ماں کا لفظ انسان کی زندگی میں ازل سے ابد تک سکون و طمانیت اور پیار کا علمدار رہا ہے۔یہ پیارا اور میٹھا بول انسان کی زندگی کی تلخیوں ، دکھوں، پریشانیوں میں عافیت اور خوشی کا مظہر ہے ۔اس کی قدر کسی دَور میں بھی کم یا زیادہ نہیں ہوئی اور نجانے کیوں ماں جیسی ہستی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی خوشی ہو یا غم انسان اسی لفظ میں مداوا ڈھونڈتا ہے۔

میری پیاری ماں کو اس دنیاسے رخصت ہوئے کئی سال بیت چکے ہیں مگر ابھی تک یوں محسوس ہوتا ہےکہ یہیں کہیں بیٹھی ہوں ۔ہر آہٹ ان کے ہونے کا احساس دلاتی ہے یا کسی پڑپوتے یا پڑ نواسے کو گود میں لیے پیار کر رہی ہوں۔ اکثرو بیشتر ان کی قرآن مجید کی تلاوت کی پیاری آواز میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت باریک مگر نہایت ہی خوبصورت آواز میں ان کی پکی عادت تھی۔ یوں تو ہر ماں بے لوث محبت کا مجسمہ ہوتی ہے مگر ہماری امی جان اس سے بھی بڑھ کر اور بہت کچھ تھیں۔ان کی زندگی ان کی شخصیت میں کیا کیا اوصاف جمع تھے وہ سب ان کی اولاد میں کم و بیش نظر آتے ہیں۔

امی جان آٹھ بچوں کی ماں تھیں جس میں سے ہم چھ بہن بھائی حیات ہیں۔

کلثوم منور صاحبہ،امۃ القیوم اعجاز صاحبہ،محمد افضل چودھری صاحب،محمد امجد چودھری صاحب،بشریٰ طارق صاحبہ،محمد طاہر چودھری صاحب،طاہرہ منیر صاحبہ،خاکسار عفت داؤد۔

میرے دو بہن بھائی بقضائے الٰہی وفات پا چکے ہیں۔ سب سے بڑی بہن محترمہ کلثوم منور صاحبہ نے سعودی عرب میں اپنے شوہر اور دو بیٹوں کو حج کے موقعہ پر ایک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں کھو دیا اور اپنے موصی شوہر کو واپس لےکر آئیں اور ربوہ لےکر جاتے ہوئے دوبارہ کار ایکسیڈنٹ میں خود بھی اپنے شوہر اور بچوں کے پاس چلی گئیں۔میرے ایک بھائی جو میرےسے چھوٹے اور بھائیوں میں سے سب سے بڑے تھے حال ہی میں وفات پاچکے ہیں۔ان کا دردابھی بہت تازہ ہے۔

اوصاف حمیدہ

ہماری پیاری ماں نے ہمیں اخلاقی،مذہبی،معاشرتی اور ایک دوسرے سے پیار و محبت کا درس دیا۔ماں ہونے کا فرض تو خوب نبھایا،مگر اس سے بڑھ کر عائلی زندگی میں ہر قدم پر ہماری راہنمائی کی۔اپنے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں میں ہر ایک کے حال احوال سے باخبررہنا پسند کرتیں۔ جو بچہ بھی کچھ دن ملنے سے محروم رہ جاتا اس کے لیے بےقرار ہوجاتیں۔کسی نہ کسی طرح ان کے گھر پہنچتیں چونکہ ورجینیا میں ہم سب کے گھرایک دوسرے سے کچھ زیادہ دور نہیں تو امی جان کی یہ خواہش کسی نہ کسی طرح پوری ہو جاتی۔جب پاکستان میں مَیں ایف ایس سی کی طالبہ تھی توایک دفعہ ہماری Biology کی پروفیسرایک botanical garden لےکر گئیں، وہ گارڈن ہزارہا مختلف قسم کے پھولوں اور پودوںسے خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔اس کا نقش آج بھی میرے ذہن پر ہے۔اتنے قسم کے پھول اور پودے تھے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ نجانے کیوں جب بھی مَیں نے امی جان کی شخصیت پر کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا وہ پچاس سال پہلے کا دیکھا ہوا گارڈن میری نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔وہ قسم قسم کے پھول اور پودے امی جان کی شخصیت میں سموئے ہوئے نظر آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بےشمار خوبیوں سے نوازا تھا۔مَیں کیا بیان کروں کہ وہ کیا تھیں، کتنی ہنر مند تھیں، کتنی سلیقہ شعار تھیں، کتنی خدمت گزار،محبت کرنے والی،منکسرالمزاج، صابر، قناعت پسند، خدمت دین کی دلدادہ، خوش پوش، صفائی پسند، جفاکش،پاک باز ،سیدھی اور سادہ اطوار تھیں مگر اپنے مذہب اورعقیدے کے لیے بہت بےباک تھیں۔شایدکوئی میری اس تحریر کو بے جا تعریف سمجھے مگر یہ بات میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جو لوگ ان کو جانتے تھے وہ اس کے گواہ ہوں گے۔

خاندانی تعارف اور ابتدائی تعلیم

امی جان کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا گوجرانوالہ کے قریب فیروزوالہ ان کا آبائی گاؤں تھا۔والد ماجد وکالت کے پیشے سے منسلک تھے اور والدہ صاحبہ بھی زمیندار گھرانے سے تھیں۔والدین کا سایہ تو بہت ہی چھوٹی عمر میں اٹھ گیا تھا۔امی جان اور باقی بہن بھائیوں کی پرورش ان کے دادی دادا نے کی۔امی جان نے ابتدائی تعلیم فیروزوالہ گاؤں میں ایک پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ابھی تیسری یا چوتھی جماعت کی طالبہ تھیں کہ کسی غلطی کی پاداش میں سرزنش کرنے پر امی جان ناراض ہو گئیں اور اسکول جانا چھوڑ دیا اور باقی زندگی کے لیے اسکول کو خیر باد کہہ دیا۔قرآن کریم کی تعلیم گھر میں ہی اپنے بڑے بزرگوں سے حاصل کی۔اصل دنیاوی تعلیم تھی وہی جو پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا مگر امی جان کی تعلیمی استعدادوں کا اندازہ کرنا بہت مشکل تھا۔اپنے فارغ اوقات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھتے رہنا اورالفضل کا مطالعہ کرنا ان کا روز کا معمول تھا۔درثمین کی نظمیں پڑھتے رہنا امی جان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔امی جان نے اپنی تعلیمی کمی کا احساس ساری زندگی کبھی بھی نہیں ہونے دیا ۔ہر کام خوش اسلوبی سے کرتیں۔ جماعتی کتب پڑھتیں اور اس کی پیاری تعلیم سے اپنے بچوں کی تربیت کرنا ،اپنی عام فہم زبان میں خدا کا خوف دلانا امی جان کا تربیت کرنے کا خاص طریق تھا۔جماعت کی محبت اور خلیفہ وقت کی اطاعت ہی ہر تربیت کی کنجی تھی۔

بچوں کی تربیت

امی جان کو کبھی بھی بچوں کی تعلیمی معاونت میں کوئی دشواری پیش نہ آتی۔اپنے سادہ اصولوں سے کام لیتیں ہر کام میں محنت کی طرف توجہ دلاتیں ’’پڑھو اور پھر پڑھو ۔پڑھو گے نہیں تو سمجھ کیسے آئے گی ‘‘ ان کے اس جملے نے ہمیں زندگی میں بار بار کوشش سے کام کرنے کا گر سکھایا۔ ہمیں ہر کام خود کرنے کا عادی بنایا۔اس بچپن کے زمانے میں تو کچھ پلّے نہیں پڑتا تھا اکثر و بیشتر اپنی مرضی کرتے رہتے مگر جب ہم اپنی عملی زندگی میں داخل ہوئے اور اپنے بچوں کی تربیت کا زمانہ آیا تو امی جان کی سب باتیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں۔امی جان کے دیے ہوئے سنہری اصول اپنے اپنے گھروں میں ہمارا راہ عمل بننے لگے۔امی جان نے کبھی بھی اپنے بچوں کو بے جا لاڈ پیار نہیں دیا نہ ہی کسی معاملے میں زیادہ سختی کی۔ہم آٹھ بہن بھائی تھے مگر سب کو ایک نظر دیکھتی تھیں کسی بیٹے یا چھوٹے بڑے ہونے کی وجہ سے کوئی اہمیت نہ تھی سب ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے اور جس کے حصے میں جو کچھ آتا کھا پی جاتے ۔ہر ایک کی ضرورت کے مطابق کپڑے جوتے مل جاتے۔ہم تین بہنوں کے بعد مجھ سے چھوٹے بھائی تھے۔اس سادہ زمانے میں لڑکوں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی ۔لڑکوں کو فیملی کا وارث اور سربراہ سمجھا جاتا تھا مگر امی جان ابا جان کا رویہ بہت مختلف تھا وہ سب کو ایک برابر پیار کرتے اور عزت دیتے ۔

بچوں کی تربیت کی تمام تر ذمہ داری امی جان پر تھی۔ہماری ماں بے حد حساس،شفیق اور بے حد پیار کرنے والی ہستی تھیں۔ہماری تکلیف پر پریشان ہو جانے والی،کسی بچے کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش یا ناراضگی پر بے چین ہو جاتیں، ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہر کام میں خصوصاً تعلیم حاصل کرنے میں ہمیشہ بہت حوصلہ افزائی کرتیں۔امی اباجان کی یہ بڑی خواہش تھی کہ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔مجھے بچپن کا ایک واقعہ آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہے،ایک دن میری طبیعت کچھ خراب تھی مگر میں اسکول گئی ہوئی تھی واپس آنے پر دیکھا کہ میرے لیے دلیہ بنا کر پلیٹ میں نکال کر بیٹھی میرا انتظار کر رہی ہیں۔اسی طرح کے ہزاروں واقعات امی جان کی زندگی کا حصہ ہیں جو وہ ہر روز بجا لاتیں۔جب باجی، میری سب سے بڑی ہمشیرہ کلثوم منور صاحبہ یونیورسٹی جانا شروع ہوئیں اور ہم سب کالج اسکول جاتے یہ وقت امی جان کے لیےبہت کٹھن تھا۔روزانہ باجی کے یونیورسٹی سے واپسی کے ٹائم پر امی جان چہرے پر پریشانی کے آثار لیے گھر میں ادھر ادھر ٹہلنے لگتیں، ان کی نظریں بار بار دروازے کی طرف لگی رہتیں کہ باجی گھر پہنچیں تو امی کی پریشانی ختم ہو اور اگر کبھی باجی کو یونیورسٹی سے واپسی پر دیر ہو جاتی توامی بے چین ہو کر کسی بچے کی انگلی پکڑتیں اور بس سٹاپ پر جا کھڑی ہوتیں اور باجی کو لےکر گھر لوٹتیں۔جب تک سب بچے اپنے اپنے وقت پر گھر نہ پہنچ جاتے امی جان کی پریشانی کا یہ عالم ہوتا کہ انہیں کسی دوسرے کام کا ہوش نہ رہتا ۔کھانا پینا آرام کرنا سب بھول جاتیں۔اس پیاری ماں کا دیا ہوا سنہری اصولوں کا سرمایہ آج بھی ہماری عملی زندگی کا حصہ ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر یادیں ہی یادیں بکھیر دی ہیں۔جس جس پہلو پر غور کروں امی جان کی یادیں ہیں ۔انہوں نے ہمیں محنتی بنایا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرتیں اور ہمیں اس کی ترغیب دیتیں۔کھانا بناناسلائی کڑھائی میں تو وہ ماہر تھیں۔ہر کام بہت سنوار کر کرتیں۔ہمارے بچپن کا زمانہ بہت تنگی ترشی کا زمانہ تھا۔ابا جان کی قلیل آمدنی جو وہ ہر ماہ کے شروع میں امی جان کے ہاتھ میں تھما دیتے اور امی جان صبر شکر سے اس آمدنی میں گزارہ کرنا اپنا فرض سمجھتی تھیں ۔کبھی بھی پیسوں کی کمی پرتکرار نہ کی۔ امی جان بہت وضع دار اور صبر والی تھیں کسی سے کبھی بھی اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کیا۔اس کا اندازہ اس وقت ہوتا جب گھر میں مہمان آتے یا کوئی دوسری ضرورت ہوتی۔

امی جان کی سلیقہ شعاری اور ہمارا بچپن

ابا جان گھر میں سب بہن بھائیوں میں بڑے تھے اور انہیں کچھ ذمہ داریاں ان کی بھی پوری کرنی پڑتی تھیں امی جان کی سلیقہ شعاری اور مہمان نوازی پورے سسرال میں مشہور تھی۔ہمارے گھر اکثر گاؤں سے رشتہ داروں کاآنا جانا رہتاتھا ۔اتنی قلیل آمدنی اور اتنا چھوٹا سا گھر امی جان کے لیے سب کچھ سنبھالنا کسی چیلنج سے کم نہ تھا ۔اکثر جلسہ سالانہ کے دنوں میں گاؤں سے مہمانوں کی آمد تو یقینی تھی ۔گاؤں سے سب رشتہ دار رات کو لاہور پہنچتے اور پھر صبح اٹھ کر ربوہ کے لیے سب روانہ ہوتے۔ان دنوں میں تو ہمارا گھر مہمانوں سے بھر جاتا۔امی جان جو کچھ پکاتیں پہلے مہمانوں کو کھلادیتیں اور پھر بچا کھچا کھانا اپنے بچوں کو کھلاتیں۔سارا گھر مہمانوں کےلیے مختص ہوتا۔ ایک نظارہ تو ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔سارا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا اور سب کے سونے کے لیے جگہ بنانا مسئلہ بن گیا۔امی ابا جان نے ہم بچوں کےلیے چارپائیاں صحن میں بچھا کر سلا دیا۔سردی کے دن دسمبر کا مہینہ چنانچہ سردی کے بچاؤ کے لیے ترپال قسم کی چیز جو کسی tent کے مشابہ تھی مگر tent نہیں تھا وہ ڈال کر سردی کے بچاؤ کا طریقہ کیا گیا۔امی بڑی خوشی خوشی یہ سب کچھ کرتیں مہمانوں کے آنے سے گھر میں رونق آجاتی اور امی جان کے چہرے پر مسکراہٹ۔جو بھی کوئی مہمان آتا ہمارے پوچھنے پر بتایا جاتا کہ تمہارے ماموں ہیں ہم چھوٹے تھے کچھ سمجھ نہ آتی اتنے سارے ماموں کہاں سے آ جاتے ہیں۔جلسے کی تیاری اس شوق سے کرتیں کہ سارا سارا دن گھر میں کام کاج کرتیں اور پھر رات کو ہمارے لیے کپڑے سیتیں۔بڑے کپڑوں کے چھوٹے alterکر کے اتنے پیارے پیارے کپڑے تیار کر لیتیں کہ دیکھنے والے حیران ہوتے کہ اتنے اچھے کپڑے بنا لیے ہیں۔کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس میں امی جان کی ہنر مندی اور سلیقہ شعاری کا کتنا دخل ہے۔کبھی کسی سے اپنی ضرورت بتانا یا کچھ مانگنا پسند نہ کرتیں جو کچھ اپنے پاس ہوتا اسی پر قناعت کرتیں۔امی جان بہت سیدھی اور شرمیلی تھیں کبھی کسی غیر مرد سے یا اپنے ہی رشتہ دار مردوں سے زیادہ بات نہ کرتی تھیں۔ایک دفعہ بہت ہی دلچسپ واقعہ پیش آیا۔امی جان باجی کولےکر بازار کچھ سودا سلف اور کچھ برتن خریدنے گئیں چھوٹا سا شہر چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں ایک دکان کے باہر پڑے ہوئے برتنوں کو پسند نا پسند کررہی تھیں کہ دکاندار بولا ’’ بہن جی اور بھی ہیں آگے اندر آ جائیں ‘‘یہ سننا تھا کہ امی جان باجی کی انگلی پکڑ کرگھسیٹ کر آگے چل پڑیں۔باجی حیران کہ آخر ہوا کیا ہے تو امی جان نے بتایا یہ دکاندار کتنا بےشرم ہے کہتا ہے اندر آجاؤ۔ایک دم تو باجی کو کچھ سمجھ نہ آئی پھر امی جان کی گھبراہٹ بھانپ کر ہنسنے لگیں اور سمجھانے کےلیے امی کو بتایا وہ کچھ اور برتن آپ کو دکھانا چاہتا تھا مگر امی جان کی حالت غیر ہو رہی تھی برتن لیے بغیر ہی گھر واپس آگئیں۔

اقتصادی حالات

ابا جان Forest Department میں ملازم تھے چھوٹے شہروں میں جہاں بھی تقرری ہوتی نوکر ملتا اور گھر وغیرہ کی اچھی سہولتیں ملتیں تو کافی آرام دہ زندگی ہوتی۔جوں جوں ہم بڑےہوئے تو اچھی تعلیم کےلیے اچھے اسکول کالج کی تلاش شروع ہوئی اور پھر ابا جان نے آرام دہ زندگی کو خیر باد کہہ کر لاہور اپنی transferکروالی۔یہاں آفس میں ایک کلرک کے طور پر کام کرنے لگے۔یہاں سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اتنی بڑی فیملی کا settle ہونا کافی مشکل تھا ۔سرکاری ملازمین کےلیے چھوٹے گھروں میں سے ایک ابا جان کو بھی مل گیا۔یہ علاقہ سیٹلا ئٹ ٹاؤن کے قریب واقعہ ہے اور پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس جو ان دنوں نیا تعمیر ہوا تھا قریب ہی واقع ہے۔باجی کلثوم پیدل ہی آ جا سکتی تھیں باقی بچے بسوں پر کالج اسکول آتے جاتے۔

دینی لگاؤ اور خدمت دین

یہ تو مجھے معلوم نہیں احمدیہ مسجد کس طرف تھی لیکن امی جان ابا جان کا مسجد سے دور رہنا ممکن نہ تھا۔آخر ایک حل نکل آیا کہ امی جان کی ایک پھوپھی جان سمن آباد میں رہائش رکھتے تھے اور وہاں ایک احمدیہ مسجد بھی تھی ۔امی جان ہر روز پیدل چل کر پھوپھی جان کے گھر پہنچتیں اور پھر ان کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے جاتیں۔امی جان کا خدمت دین کا شوق آخری عمر تک قائم رہا ۔کچھ عرصے میں ادھر ادھر لوگوں میں واقفیت ہوئی تو احمدی گھرانوں کا پتا چلا اجلاسوں وغیرہ کا پتا چلا اور پھر باقاعدہ اجلاسوں پر جانا شروع کر دیا۔سیکرٹری مال کا عہدہ امی جان کے سپرد کیا گیا۔امی جان سارے محلے میں پیدل چل کر چندہ اکٹھا کرتیں۔بڑی محنت سے اور شوق سے یہ کام سر انجام دیتیں۔امی جان صوم و صلوٰۃ کی پابند تو تھیں ہی مگر تہجد کی عادت بھی بچپن سے ہی تھی میں نے اپنی ماں کو اپنی زندگی میں کوئی ایک دفعہ بھی نماز یا تہجد کی نماز چھوڑتے نہیں دیکھا۔رمضان کے مہینہ سے پہلے ہی تیاریاں شروع ہو جاتیں۔رمضان کا مہینہ تو کسی عید سے کم نہ تھا گھر میں کھانے پینے کی چیزوں کی خریداری پہلے ہی کر لی جاتی۔پورا مہینہ سحری افطاری کا اہتمام اس شوق سے ہوتا کہ کسی کام سے تھکتی نہ تھیں۔ صبح نوافل ادا کرنے کے بعد پورے کنبے کےلیے ناشتہ تیار کرتیں یعنی پراٹھے وغیرہ لسی جو بالٹی بھر کر بنائی جاتی تاکہ سب کےلیے کافی ہو اور پھر ہمیں جگایا جاتا۔کئی دفعہ رمضان میں مہمان بھی آجاتے تو کام اور بھی بڑھ جاتا ۔قربان جاؤں ایسی ماں پر انہوں نے کام کی زیادتی کا بوجھ بچوں پر نہیں ڈالا۔خود ہی سارا کام کر لیتیں اور پھر ہمیں جگا کر روزہ رکھواتیں۔یہ ممکن نہ تھا کہ بچوں میں سے کوئی بلا وجہ روزہ نہ رکھے مگر اباجان جس عمر تک روزہ فرض نہ ہو جاتا بہت پابندی کرواتے۔سحری کے وقت اٹھا کر ناشتہ کروایا جاتا ۔امی جان کی چمکتی ہوئی پیشانی اور مسکراتے چہرےکو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے وہ روزہ رکھ کر اور روزہ رکھوا کر ایک خاص طمانیت محسوس کر رہی ہوں۔ امی جان کو چنبیلی کے پھول بہت پسند تھے۔اکثر گھر میں چنبیلی کےپودے اگاتیں اور صبح صبح گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر چنبیلی کے پھول کانوں میں پہنا کرتیں۔صاف براق لباس کانوں میں چنبیلی کے پھول ہاتھ میں الفضل کا تازہ شمارہ لیے کسی جنت کی حور سے کم نہ تھیں۔

ہمارے والدین کا باہمی تعلق

امی جان ابا جان میں بہت پیار کا رشتہ تھا۔امی جان ایک روایتی بیوی کی طرح ابا جان کی بہت خدمت کرتیں۔ابا جان بھی امی جان کے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے۔ان کی خوشی ان کی مرضی کے مطابق ہر کام کرنا اور سب سے بڑھ کر ان کی دلجوئی کرتے رہتے۔ ابا جان کو معلوم تھا کہ امی اپنے والدین کو یاد کر کے غمزدہ ہو جاتی ہیں۔ ملازمت کے دوران کئی دفعہ ایسے مقامات پر ٹرانسفر ہو جاتی جہاں بیوی بچوں کو ساتھ لے جانا اور ان کا انتظام کرنا مشکل ہوتا مگر ابا جان کسی نہ کسی طور انتظام کروا کر ساتھ لے جاتے۔کبھی کسی معاملے میں تکرار نہیں ہوئی ۔اگر کبھی ہو جاتی تو امی جان تو زیادہ کچھ نہ کہتیں مگر بہت روتیں۔ابا جان کو امی کی اس قدر دل آزاری کسی قیمت پر قبول نہ تھی ۔اپنے office سےچھٹی لےکر واپس گھر آتے معافی مانگتے سمجھاتے مناتے اور خوش کرتے پھرواپس office جاتے۔آخری ایام میں ابا جان گردوں کی تکلیف کی وجہ سے بیمار رہنے لگے۔امی جان انہیں ایک پل کےلیے بھی اکیلا نہ چھوڑتیں۔سب سے دعا کےلیےکہتیں خود بھی بوڑھی ہو رہی تھیں کبھی اپنا خیال دل میں نہ لاتیں۔اکثر یہی فقرہ زبان پر ہوتا مَیں تو ٹھیک ہوں اپنے ابا جان کےلیےدعا کرو جبکہ خود بھی دل کے عارضے میں مبتلا تھیں مگر اپنی ہمت سے ابا جان کے سارے کام کرتیں۔ان کی پسند کا کھانا خود اپنےہاتھ سے بنا کر دیتیں۔کافی تندرست اور ہمت والی تھیں مگر خدا کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔

وفات

خدا تعالیٰ کے کاموں میں کیا حکمت ہے کوئی کیسے یہ راز جان سکتا ہے۔شاید کہ ابا جان کے صبر کا امتحان تھا یا اللہ تعالیٰ کو اس پیاری روح کی ادا پسند آ گئی اور اسے اپنے پاس بلا لیا۔ایک دن تہجد کی نماز کےلیے اٹھیں اور وضو کرنے گئیں تو ادھر ہی گر گئیں۔ایسی آنکھیں بند کیں کہ پھر نہ کھولیں جیسے کہ ہم سے روٹھ گئی ہوں اور اپنے پیارے مولا کے حضور جابیٹھی ہوں جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہو اے پیاری روح تیری تہجد تو ویسے ہی قبول ہو گئی ہے۔

یہ سانحہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ ہمارا اسے قبول کرنا بے حد مشکل تھا۔پورا خاندان ہسپتال کے لان میں امڈ آیا۔ کاش کہ امی جان دیکھ سکتیں ان کی پوتیاں نواسیاں اپنے چھوٹے چھوٹے بچے لےکر سب جمع تھیں۔سب کے چہرے پر ایک ہی سوال تھا یہ کیسے ہو گیا ؟وہ تو بالکل اچھی بھلی تھیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اب وہ امی جان کی جدائی کیسے برداشت کریں گی اور اباجان جن کے ساتھ امی جان کی رفاقت کا یہ حال تھا کہ سوتے جاگتے کھاتے پیتے سائے کی طرح ان کا ساتھ تھا وہ کیا کریں گے۔ مگر

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

امی جان نے ساری زندگی اپنی ہمت طاقت کوشش پہ انحصار کیا، کبھی کسی کو تکلیف دینا پسند نہیں کیا۔اپنی آخرت ایسی مبارک پائی کہ اپنے معمول کے مطابق صبح کے اجالے سے پہلے اپنے مولا کی محبت میں، ہم سب کو روتا چھوڑ کر اس فانی دنیا سے روانہ ہو گئیں۔یہاں کی محبت چھوڑی اس سے زیادہ پیار کرنے والے کے پاس چلی گئیں۔شام تک ہسپتال کے باہر کا نظارہ تو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔پورا خاندان جمع تھا بس صرف ایک بیٹی جو پاکستان میں تھی نہ آ سکی۔آپ ایک ایسی خوش قسمت ماں تھیں جس کی اولاد اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق خدمت دین میں مصروف ہے۔اور یہ جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے۔

خدا کرے کہ ہم بھی اپنی اگلی نسلوں کی اعلیٰ رنگ میں تربیت کرنے والے ہوں اوراپنے بزرگ آباء کی نیکیوں اور خوبیوں کو زندہ رکھنے والے ہوں۔آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button