مضامین

وراثت میں لڑکیوں کا حصہ (قسط اول)

(نجم السحر صدیقی۔ جرمنی)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ اس کو اپنی پیدا کردہ تمام مخلوق پر فوقیت دی۔ اس کی تعلیم و تربیت کے لیے ہر دور میں پیغمبر بھیجے۔ پھر بھی جب انسان اللہ کے بنائے ہوئے راستوں سے بھٹک گیا اور گمراہی کے اندھیروں میں گم ہو گیا تب ایک بار پھر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اُس نے خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا اور قرآن پاک جیسی کامل کتاب آپؐ پر نازل کر کے شریعت کامل کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پاک کلام میں وہ تمام احکام شامل کیے ہیں جن پر عمل کر کے انسان اُن دائمی جنتوں کا وارث بن سکتا ہے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں فرمایا ہے۔

فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔ (الفجر:31-30) پس میرے بندوں میں داخل ہوجا۔اور میری جنت میں داخل ہوجا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن بندوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے حکموں پر عمل کرتے ہوئے گزار دیں اور اللہ نے انہیں اپنی جنتوں میں داخل ہونے کےلیےبلایا۔

اللہ تعالیٰ کا ہم پر خاص فضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق اور اُمّتی نبی مسیح الزماں کی جماعت سے وابستہ کیا جنہوں نے قرآن کریم کی تعلیمات کو اس زمانے میں واضح کرکےپیش فرمایا۔ مگر افسوس آج بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو قرآن کریم میں موجودہ 700احکامات میں سے ایک اہم حکم کی بجا آوری نہیں کرتے۔ اور وہ حکم ہے وراثت میں لڑکیوں کو ان کا جائز حصہ دینا۔

اسلام کا نظامِ وراثت اپنے اعتدال، توازن اور ترتیب حقوق کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ دنیا کا کوئی نظام وراثت خواہ وہ مذاہب عالم کا پیش کردہ ہو یا نظریاتی حکومتوں کا مرتب کردہ، اسلامی وراثت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید میں انسان کی زندگی میں پیش آنے والے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ انسان کی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کی تکمیل کے ذرائع کا بیان قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔‘‘

(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 27)

اسلام نے ترکہ کی تقسیم کے لیے ایک ایسا کار آمد مفید اور قابل عمل نظام وراثت رائج کیا ہے جو ہر ملک، ہر دور، ہر جگہ کے حالات پر پورا اتر سکے۔ غرض اسلامی قانون وراثت قرآن کریم کے علمی معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔

بعض خاندانوں کے لوگ وراثت میں لڑکیوں (بیٹیوں) کو حصہ دینے کے حق میں نہیں ہوتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جہیز کی صورت میں انہیں جو کچھ دیا ہے وہی بہت ہے۔ جب کہ یہ ایک لغو بات ہے۔ وہ ایک دنیاوی رسم تو پوری کر رہے ہیں لیکن جس کا حکم ان کے رب نے دیا ہے وہ اسے پورا نہیں کر رہے اور لڑکیوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کر رہے ہیں۔ یہ سراسر ظلم اور گناہ ہے۔ جس طرح رشتہ داریاں خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ ہیں اس لیے حقوق وراثت بھی اسی کی طرف سے قائم کردہ ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کا کتنا حق بنتا ہے۔

سورۃ النساء میں خدا تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ ترکہ کی تقسیم کے بارہ میں ہدایات بیان فرمائی ہیں اور تمام ورثاء کے حصے مقرر فرما دیے ہیں ۔چونکہ یہ علم خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ حصوں کے بارہ میں ہے اس لئے اسے علم الفرائض کہا جاتا ہے۔ فریضۃً کے معنی ہیں مقرر شدہ، طے شدہ۔ فرائض اس کی جمع ہے۔ تقسیم وراثت کا قانون بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو خبردار کیا کہ ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ فلاں فرد کا حصہ اتنا کیوں ہے ؟ فلاں شخص کا حصہ کیوں نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اٰبَآؤُکُمۡ وَاَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۲﴾(النساء: 2)

ترجمہ: تمہارے آباءاور تمہاری اولاد، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع پہنچانے میں تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) حکمت والا ہے۔(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )

یعنی اللہ تعالیٰ نے جب وراثت میں ہر ایک فرد کا حصہ مقرر کر دیا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کے حکم کی خلاف ورزی کریں۔ ہر فرد اس بات کو بخوبی سمجھ لے کہ لڑکیوں کو ان کے جائز حق اور شرعی ورثہ سے محروم کرنا صرف ایک گناہ ہی نہیں بلکہ کم از کم چھ سنگین گناہوں کا مجموعہ ہے۔ اس کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ ایم اے نے اپنے ایک رسالہ میں بیان فرمایا تھا کہ

1۔ سب سے اوّل نمبرپر شریعت کا گناہ ہےکیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کے ایک واضح اور صریح اور قطعی حکم کی نافرمانی لازم آتی ہے۔قرآن فرماتا ہے اور کن زور دار الفاظ میں فرماتا ہے کہ

وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ﴿۸﴾(النساء: 8)

ترجمہ: اور عورتوں کےلئے بھی اس ترکہ میں ایک حصّہ ہے جو والدین اور اقرباءنے چھوڑا۔ خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ (یہ ایک) فرض کیا گیا حصّہ (ہے)۔

(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ )

2۔ دوسرے نمبر پر یہ حکومت کا جرم بھی ہے۔

…چونکہ حکومت کے قانون کی پابندی اولی الامر کے اصول کے مطابق شریعت کی رو سے بھی لازمی ہے اس لئے یہ گویا دوہرا جرم بن جاتا ہے، شریعت کا بھی اور حکومت کا بھی۔

3۔ تیسرے نمبر پر یہ جماعت احمدیہ میں اپنے امام اور خلیفۂ وقت کے ساتھ بد عہدی بھی قرار پاتی ہے۔

4۔ چوتھے نمبر پر لڑکیوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنا بد ترین قسم کا ظلم بھی ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے ایک کمزور جنس پر جو اپنی کمزوری اور شرم کی وجہ سے والدین اور بڑے بھائیوں کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ایک بھیانک قسم کا ظلم روا رکھا جاتا ہے اور اسے اس کے مال سے محروم کر کے اس کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔

5۔ پانچویں نمبر پر یہ اکل بالباطل اور گویا حرام خوری میں بھی داخل ہےکیونکہ اس کے ذریعہ سے والدین اور لڑکیوں کے بھائی ایک ایسا مال کھاتے ہیں جو دراصل ان کا نہیں بلکہ ان کی بیٹیوں اور بہنوں کا ہے اور وہ محض لوٹ مار یا دھوکے کے ذریعہ اس مال کے مالک بن جاتے اور جائز حقدارواں کو محروم کر کے ان پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔

6۔ چھٹے نمبر پر یہ اپنے خون اور اپنی نسل کی ہتک بھی ہےکہ ایک باپ کے نطفہ سے پیدا ہونے اور ایک صُلب سے نکلنے والی لڑکیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے کہ وہ گویا اپنے باپ کی بیٹیاں اور اپنے بھائیوں کی بہنیں ہی نہیں ۔ اور انہیں عملاً نیچ ذات کی لونڈیوں کی طرح سمجھا جاتا ہے حالانکہ اسلام تو وہ مبارک مذہب ہے کہ سچ مچ کے غلاموں کے لئے بھی آزادی کا پیغام لے کر آیا ہے۔

(ماخوذ از ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ صفحہ 11-9)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب میں عجیب جاہلیت کا دور دورہ تھا۔ وہ لوگ انتہا درجہ کے شرک اور کفر و ظلم میں مبتلا تھے۔ طرح طرح کی بد رسوم، فسق و فجور، لوٹ مار اور قتل و غارت گری روا تھی۔ انسان حیوانیت کے درجے سے بھی نیچے جا گرا تھا۔ عورتوں کو تو وہ انسان ماننے کےلئے تیار ہی نہ تھے۔ جب کسی کے گھر میں لڑکی کی پیدائش ہوتی تو اسے زندہ درگور کر دینا ان کا معمول تھا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک ایسے وجود کو بھیجا جس نے نہ صرف صنف نازک کے حقوق کی حفاظت فرمائی بلکہ اس کو وہ سارے حقوق دلوائے جس کی وہ حقدار تھی۔ اس بات کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے اپنے کلام میں کیا خوب فرمایا ہے۔ ؎

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن ! جب زندہ گاڑی جاتی تھی

گھر کی دیواریں روتی تھیں، جب دنیا میں تُو آتی تھی

کیا تیری قدر و قیمت تھی ،کچھ سوچ! تری کیا عزت تھی

تھا موت سے بد تر و ہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی

وہ رحمت عالم آتا ہے، تیرا حامی ہو جاتا ہے

تو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button