الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر سیّد سلطان محمود شاہد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍ستمبر 2013ء میں شائع ہونے والے مضمون میں مکرم پروفیسر برہان احمد ناصر صاحب نے اپنے والد محترم پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ قبل ازیں 30؍اپریل 2021ءکے شمارے میں مرحوم کا ذکرخیر ہوچکا ہے۔

محترم پروفیسرڈاکٹر سیّد سلطان محمود شاہد صاحب کے والد محترم حضرت سید سردار احمد شاہ صاحبؓ نے 1900ء میں پندرہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ آپؓ کے والد محترم سیّد فرمان شاہ صاحب کی وفات حضرت مسیح موعودؑ کے دعوے سے قبل ہوچکی تھی۔ آپؓ کے گاؤں شاہ مسکین میں احمدیت آپؓ کے چچا حضرت سیّد رمضان شاہ صاحب اور اُن کے بیٹوں کے ذریعے 1897ء میں آئی تھی۔ یہ گاؤں لاہور سے قریباً تیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ قبول احمدیت سے قبل سادات خاندان کی نسبت سے اس خاندان کی گدّی تھی اور پیری مریدی کا سلسلہ جاری تھا۔ ہر سال جولائی کے مہینے میں خاندان کے ایک بزرگ حضرت سیّد دیدار شاہ اور حضرت سیّد شاہ مسکین کے مزاروں پر عرس ہوا کرتا تھا۔احمدیت کے نفوذ کے بعد حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کی تحریک پر شاہ مسکین کے سالانہ عرس کو سالانہ جلسہ سیرۃالنبیﷺ میں تبدیل کردیا گیا جو قریباً باقاعدگی سے 2009ء تک جاری رہا اور جس میں جماعت احمدیہ کے جیّد علماء تشریف لاکر خطاب کرتے رہے جن میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ بھی شامل تھے۔

حضرت سیّد سردار احمد شاہ صاحبؓ 1885ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور میٹرک تک تعلیم بھی لاہور میں حاصل کی۔ بعد ازاں محکمہ انہار میں ملازمت کرلی اور مختلف مقامات پر متعین رہے۔ 1940ء میں آپ نے ملازمت سے فراغت حاصل کرلی اور اپنے آبائی گاؤں شاہ مسکین میں رہائش پذیر ہوگئے جہاں آپ کی دو مربع زرعی اراضی تھی۔ آپؓ کی شادی اپنے چچا حضرت سیّد رمضان شاہ صاحبؓ کی بیٹی محترمہ سیّدہ زیب النساء سے ہوئی تھی۔ اُس وقت آپؓ کے دو بیٹے تھے جب آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کا وہ خطبہ سنا جس میں حضورؓ نے فرمایا کہ جس شخص کے تین بیٹے ہوں وہ کم از کم ایک بیٹا ضرور وقف کرے۔ آپؓ نے نیت کرلی کہ اگر خدا نے ایک اَور بیٹا عطا کیا تو اُسے وقف کردیں گے۔ اس طرح مکرم سلطان محمود شاہد صاحب کو پیدائش سے پہلے ہی آپؓ نے وقف کردیا تھا۔
محترم سلطان محمود شاہد صاحب 16؍اکتوبر 1923ء کو اپنے آبائی گاؤں شاہ مسکین میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد محترم کی جائے ملازمت تبدیل ہوتے رہنے کی وجہ سے آپ بھی مختلف مقامات پر تعلیم حاصل کرتے رہے۔میٹرک لاہور سے کیا اور اسلامیہ کالج لاہور سے بی ایس سی بھی کی۔ آپ والی بال ٹیم کے کیپٹن بھی رہے اور ایک بار قائداعظم کے ہاتھوں بھی انعام حاصل کیا۔بی ایس سی کے بعد آپ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے مزید تعلیم جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ آپ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے اور وہاں سے 1946ء میں ایم ایس سی کیمسٹری کا امتحان پاس کرکے پھر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوگئے تو آپ کا تقرّر تعلیم الاسلام کالج قادیان میں بطور لیکچرار کردیا گیا۔قیامِ پاکستان کے بعد کالج کے ساتھ ہی پہلے لاہور اور 1954ء میں ربوہ منتقل ہوگئے۔ لاہور میں آپ سیکرٹری تبلیغ بھی رہے اور کئی جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کا انعقاد کروانے کی توفیق پائی۔

آپ کی شادی 1953ء میں مکرمہ ثریا جبین صاحبہ سے ہوئی جن کے والد مکرم میاں ولایت محمد صاحب (آف لاہور) زرعی کالج لائل پور میں ڈرافٹس مین تھے۔ لائل پور کی مسجد کا نقشہ بنانے سے لے کر اس کی تعمیر تک انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہ شادی بہت بابرکت ثابت ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بہت احترام اور بہت محبت دی۔ خاندان کے بہت سے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے آپ نے نہایت شفقت سے سالہاسال اپنے گھر میں رکھا۔ آپ کی اہلیہ کی وفات 1995ء میں ہوئی۔

محترم سلطان محمود شاہد صاحب 1956ء میں لندن چلے گئے اور 1958ء میں یونیورسٹی آف لندن سے آرگینک کیمسٹری میں Ph.Dکی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران آپ لندن میں قائد خدام الاحمدیہ بھی رہے۔ پھر ربوہ واپس آکر ٹی آئی کالج میں بطور پروفیسر 1963ء تک پڑھاتے رہے۔ 1963ء میں آپ دوبارہ لندن گئے اور لندن یونیورسٹی میں مزید ریسرچ کی اور رائل انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل سوسائٹی کی فیلوشپ لی۔ پھر واپس ربوہ آکر تعلیم الاسلام کالج سے وابستہ رہے۔ سولہ سال تک کالج یونین کے انچارج رہے۔ کچھ عرصہ نگران پرنسپل بھی رہے۔ آپ کی تصنیف کردہ درسی کتب نے بہت شہرت حاصل کی اور 1974ء تک وہ پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل رہیں۔ ٹی آئی کالج ربوہ کے علاوہ جامعہ نصرت کالج برائے خواتین ربوہ میں سائنس بلاک کی تعمیر آپ کی زیرنگرانی ہوئی۔ 1979ء میں آپ کو گورڈن کالج راولپنڈی میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ بعدازاں گورنمنٹ ڈگری کالج ننکانہ صاحب کے پرنسپل مقرر ہوئے جہاں سے اکتوبر 1986ء میں ریٹائر ہوئے۔ وہاں کے اساتذہ کے ساتھ آپ کا بہت محبت کا سلوک رہا۔ اُن کو ربوہ بھی بلاتے اور بعض برملا کہتے کہ ہم تو آپ کو سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔

ربوہ کے تعلیمی اداروں کے سرکاری تحویل میں جانے کے بعد اُن کے مسائل کو دیکھتے ہوئے آپ نے ربوہ میں ناصر کنڈر گارٹن اور ناصر پبلک سکول جیسے ادارے بنائے۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد الہدیٰ ماڈل کالج بنایا جسے 1998ء تک چلاتے رہے۔ اس طرح آپ کی تعلیمی خدمات نصف صدی کے لگ بھگ محیط ہیں۔

جب مَیں نے بطور لیکچرار ملازمت شروع کی تو آپ نے مجھے یہی نصیحت کی کہ ہمیشہ اپنے طلباء کا خیال رکھنا اور اُن کی عزت کرنا تو وہ تمہیں بہت عزت دیں گے۔اور کسی طالب علم کو کلاس سے نہ نکالنا اور نہ ہی کسی کو Detain ہونے دینا کیونکہ بچے ناسمجھی میں بعض اوقات غلطی کرجاتے ہیں۔

آپ اپنے بچوں کے بہترین دوست بھی تھے۔ ہر ملنے والے کو یہ نصیحت کرتے کہ وہ اپنی تعلیم کو انتہا درجے تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ بہت سے لوگوں نے اس نصیحت پر عمل بھی کیا۔ آپ کے چاروں بچوں نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مَیں نے اردو اور فارسی میں ایم اے کرلیا تو آپ کی حوصلہ افزائی سے پہلے ایم فِل تک تعلیم حاصل کی اور پھر جیوگرافی میں ایم ایس سی بھی کی۔

========================

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اکتوبر 2013ء میں مکرم محمد داؤد طاہر صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے محترم شاہ صاحب کو 1988ء میں نائیجیریا بھی بھجوایا تھا تاکہ وہاں ایک بین الاقوامی نرسری یا پرائمری سکول کے اجرا کے بارے میں جائزہ لے سکیں۔ آپ کے دورے کی رپورٹ انگریزی ہفت روزہ ’’ٹروتھ‘‘ کے حوالے سے الفضل ربوہ میں بھی شائع ہوئی۔

محترم ڈاکٹر صاحب قیامِ پاکستان کے بعد لاہور میں کالج کی حالتِ زار کا نقشہ یوں کھینچا کرتے تھے کہ ڈی اے وی کالج کی متروکہ عمارت تعلیم الاسلام کالج کو الاٹ ہوگئی تو پڑھانے والے تو موجود تھے لیکن سائنس کے پریکٹیکلز کا کوئی سامان نہ تھا۔ اتفاق سے قریب ہی سناتن دھرم کالج کی متروکہ عمارت میں ایم اے او کالج شروع ہوا جہاں سائنس پریکٹیکلز کا بہت سامان پڑا ہو اتھا لیکن پڑھانے والے میسر نہ تھے۔ چنانچہ وہاں کے فزکس کے پروفیسر ہمارے پاس آئے اور تجویز پیش کی کہ ہمارے کالج کے پروفیسر اُن کے کالج کے طلباء کو پڑھا دیا کریں تو اس کے عوض ہمارے طلبہ اُن کے کالج میں پریکٹیکلز کرسکتے ہیں۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ پرنسپل تھے، آپؒ نے یہ تجویز مان لی۔

آپ بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ طلبہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ میرا ایک غریب رشتہ دار میٹرک میں اچھے نمبروں میں کامیاب ہوا تو آگے تعلیم جاری رکھنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ مَیں اُسے حضرت میاں صاحبؒ کے پاس لے گیا اور اُس کی مالی حالت بیان کی۔ آپؒ نے اُس کی نہ صرف فیس معاف فرمادی بلکہ مزید مالی مدد دینے کا وعدہ بھی کیا۔

اسی طرح کالج کے طلبہ ہمہ وقت آپؒ کے دفتر کے سامنے سے گزرا کرتے تھے اس طرح وہاں شور سا رہتا تھا۔ مَیں نے ایک بار تجویز پیش کی کہ آفس کے دروازے کے باہر برآمدے کے دونوں طرف پھولدار گملے رکھوادیے جائیں تو طلبہ کی اس راستے سے آمدورفت بند ہوجائے گی اور پرنسپل صاحب سکون سے اپنا دفتری کام کرسکیں گے۔ آپؒ نے میری اس تجویز کو پسند نہ کیا اور فرمایا کہ اس طرح طلبہ سے میرا براہ راست رابطہ ختم ہوجائے گا۔

ایک دفعہ پرنسپل صاحب دفتر سے نکل کر اپنی رہائش گاہ کی طرف جانے لگے تو برآمدے میں ایک لڑکا سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔ آپؒ اُس کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک قمیص پہنے ہوئے ہیں۔ آپؒ نے اُس بچے کی محرومی کو شدّت سے محسوس کیا اور گھر پہنچتے ہی بازوؤں والا ایک سویٹر میرے ذریعے اُس لڑکے کو بھجوادیا۔ بعد میں کچھ اَور سویٹر منگواکر مستحق لڑکوں میں تقسیم کیے۔ اسی طرح شادی بھی کالج کا ایک جیتا جاگتا کردار تھا۔ چونکہ وہ ہر کس و ناکس کا کام بغیر کسی حیل و حجت کے کردیا کرتا تھا لہٰذا سب لوگ اُسے دن بھر دوڑاتے رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ کالج میں کہیں بھی ہوں، وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ضرور آپؒ کے سامنے سے گزرتا۔ نہایت ہی فرمانبردار تھا۔ پرنسپل صاحب کو وہ ہمیشہ ’’میاں صاحب جی‘‘ کہہ کر بات کرتا تھا۔ اس کے سادہ طرز تکلّم کی وجہ سے آپؒ اُس سے انتہائی شفقت سے پیش آتے اور اُس کی کوئی فرمائش ردّ نہ کرتے۔

ایک بار جب مَیں محترم شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر تھا۔ واپسی کی اجازت چاہی تو آپ نے مجھے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر یہ شعر لکھ کر دیا ؎

اے دوست کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا

بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

………٭………٭………٭………

10؍ڈاؤننگ سٹریٹ

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍جولائی 2013ء میں برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے بارے میں ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔

سنٹرل لندن میں واقع ڈاؤننگ سٹریٹ کے مکان نمبر دس کو 1735ء سے برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس رہائش گاہ کے چاروں طرف کوئی خاص کرّوفر نظر نہیں آتا بلکہ اس کا دروازہ بھی ایسے فٹ پاتھ پر کھلتا ہے جس پر عام آدمی چلتے پھرتے ہیں۔

وزیراعظم انتخابات میں کامیابی کے فوراً بعد اس رہائش گاہ میں منتقل ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی نئے وزیراعظم کی کار اس گھر کے دروازے کے سامنے ٹھہرتی ہے، سابق وزیراعظم پچھلے دروازے سے نکل کر روانہ ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر نئے اور پرانے وزرائے اعظم کی ملاقات نہیں ہوتی۔ اس کارروائی میں وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 30؍نومبر 2013ء میں مکرم ظفر محمد ظفر صاحب کی وہ نظم شامل اشاعت ہے جو محترم فرزندعلی خان صاحب امام مسجد فضل لندن کی قادیان واپسی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہی گئی۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

کیا خوب ہَوا گُلشنِ احمد میں چلی ہے

جس سے کہ شگفتہ ہوئی ہر ایک کلی ہے

بچے ہوں کہ بوڑھے ہوں کہ ہوں مردِ توانا

ہر ایک کی کافور ہوئی مُردہ دلی ہے

ہاں کیوں نہ مسرّت ہو کہ اِک مردِ مجاہد

گفتار میں ، کردار میں اپنے جو ولی ہے

مغرب کہ جہاں باد ضلالت کی چلی ہے

مغرب کہ جہاں کفر ہے اور شرکِ جلی ہے

اُس خطے میں گاڑ آیا ہے اسلام کا پرچم

یہ بندۂ رحمٰن جو فرزندِ علی ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button