خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍جولائی 2022ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…مرتدین باغیوں کے خلاف کارروائیوں اور آخری جنگوں کا ذکرجس کے بعد عرب سے بغاوت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوا

٭…مولانا مودودی صاحب کا لکھنا کہ صحابہ ؓنے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اقوالِ صحابہؓ کے خلاف ہے

٭…اسلام کی خدمت مدِنظر رکھتے ہوئے سچ کو سب سے بڑا مقام دیں اور غلط بیانی سے کلی طور پر احتراز کریں

٭…فتنہ مرتدین کا جس منصوبہ بندی اور سرعت کے ساتھ قلع قمع کیا وہ حضرت ابوبکر ؓکی اعلیٰ صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے

٭…عراق کے عرب کاشتکاروں کے سلسلے میں حضرت ابوبکرؓ کی حکمت عملی نے مسلمانوں کی آئندہ فتوحات کے لیے آسانیاں پیدا کیں

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍جولائی 2022ء بمطابق 15؍؍ وفا 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 15؍جولائی 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ،اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

مسلمانوں کی مرتدین باغیوں کے خلاف کارروائیوں کا ذکر ہو رہا ہے۔حضرت مہاجرؓ کو جب صنعاء میں مرتدین کے خلاف کامیابیوں کے بعد استقرار حاصل ہوگیا تو حضرت ابوبکرؓ کو ان کارروائیوں سے مطلع کیا۔ حضرت ابوبکر ؓنے معاذ بن جبل ؓ اور یمن کے دیگر عمال کو اختیار دیا کہ چاہیں تو یمن میں رہیں یا اپنی جگہ کسی کو مقرر کرکے مدینہ واپس آجائیں جس کے بعد تمام ہی لوگ مدینہ واپس آگئےجبکہ حضرت مہاجر ؓکو حکم ملا کہ عکرمہ ؓ کے ساتھ مل کر حضرمَوت میں زیاد بن لبید ؓ کا ساتھ دو۔کندہ قبیلہ کے مرتدین اور زکوٰۃ دینے سے انکاری لوگوں کے خلاف حضرت زیاد بن لبید ؓ کسی کارروائی کرنے سے رُکے رہے تاکہ حضرت مہاجر بن ابو اُمیّہ وہاں آجائیں۔حضرت مہاجر بن ابو اُمیّہ صنعاءسے اور حضرت عکرمہؓ ابین سے حضرت ابوبکر ؓکے ارشاد کی تعمیل میں حضرمَوت کے ارادے سے روانہ ہوئے اور مآرب کے مقام پر دونوں مل گئے۔

کندہ کے ایک نوجوان نے حضرت زیادؓ کو غلطی سے اپنے بھائی کی اونٹنی زکوٰۃ کے لیے پیش کردی ۔حضرت زیادؓ نے اُس کو آگ سے داغ کر زکوٰۃ کا نشان لگادیا۔ بعد ازاں اُس نوجوان نے اونٹنی کے بدلنے کا مطالبہ کیالیکن حضرت زیاد راضی نہ ہوئے۔نوجوان نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو مدد کے لیےپکارا۔ابوسمیط اور اُس کے ساتھیوں نے زبردستی اونٹنی کھول دی ۔حضرت زیاد ؓنے ابوسمیط اور اُس کے ساتھیوں کو قید کرلیا اور اونٹنی کو بھی قبضہ میں لے لیا۔ان لوگوں نے دوسرے قبیلے کے لوگوں کو بھی مدد کے پکارا۔ حضرت زیاد ؓنے حملہ کرکے ان کے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا جبکہ کچھ لوگ فرار ہوگئے۔حضرت زیاد نے ان کے قیدی بھی رہا کردیےمگر انہوں نے واپس جاکر جنگ کی تیاری شروع کردی۔ چنانچہ بنو عمرو اور بنو حارث اور اشعث بن قیس اور سمط بن اسود نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا اور ارتداد اختیار کر لیا۔حضرت زیاد ؓنے بنو عمرو پر حملہ کر دیا ۔ان کے بہت سے آدمی قتل کیے اور ایک بڑی تعداد کوقید کر کے مدینہ روانہ کر دیا۔ راستے میں اشعث اور بنو حارث کے لوگوں نے حملہ کر کے مسلمانوں سے اپنے قیدی چھڑوا لیے۔اس واقعے کے بعد اطراف کے کئی قبائل بھی ان لوگوں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے بھی ارتداد کا اعلان کر دیا۔

کندہ کے لوگ حضرمَوت کے قریب نجیرنامی ایک قلعے میں محصور ہوگئے۔حضرت زیادؓ ، حضرت مہاجر ؓاور حضرت عکرمہ ؓکا لشکر پانچ ہزار مہاجرین اور انصار صحابہؓ اور دیگر قبائل پر مشتمل تھا۔ قلعہ نجیرکے محصورین اتنا بڑا لشکر دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے۔محصورین کے سردار اشعث نےاپنے اور اپنے نو ساتھیوں کے لیے امان کی شرط پر قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔زبردست جنگ کے بعد مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔حضرت عکرمہ ؓ فتح کی خبر اور قیدیوں کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میںحاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں عراق اور شام کی جنگوں میں اشعث نے کارہائے نمایاں انجام دیے جس کی وجہ سے اس کا وقار پھر بلند ہوگیا۔ حضرت مہاجرؓاور حضرت عکرمہؓ پوری طرح امن و امان قائم ہونے تک حضرمَوت اور کندہ میں ہی مقیم رہے۔ مرتد باغیوں کے ساتھ یہ آخری جنگیں تھیں ان کے بعد عرب سے بغاوت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا اور تمام قبائل حکومت اسلامیہ کے زیر نگیں آ گئے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ مولانا مودودی صاحب کا یہ لکھنا کہ صحابہ نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا صحابہ کے اقوال کے خلاف ہے۔ مولانا کو اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا بہت بڑا دعویٰ ہے۔ کاش وہ اس امر کے متعلق رائے ظاہر کرنے سے پہلے اسلامی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح بنت حارث اور طلیحہ بن خویلد اسدی یہ سب کے سب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مدینہ کی حکومت کی اتباع سے انکار کر دیا تھا اور اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومتوں کا اعلان کر دیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ صحابہ نے جن لوگوں سے لڑائی کی تھی وہ حکومت کے باغی تھے۔ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا اور مدینہ پر حملہ کر دیا تھا۔ حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا کہ جو لوگ توڑ مروڑ کر اسلام کی تاریخ پیش کرتے ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں کر رہے۔ اگر ان کے مدِنظر اسلام کی خدمت ہے تو وہ سچ کو سب سے بڑا مقام دیں اور غلط بیانی اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کلی طور پر احتراز کریں۔

ایک تاریخ نگار نے لکھا ہے کہ اب عرب کی تمام بغاوتوں کا خاتمہ ہو چکا تھا اور تمام مرتدین کی سرکوبی کی جاچکی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ملک گیر فتنہ کا جس منصوبہ بندی اور سرعت کے ساتھ قلع قمع کیا وہ آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح قدم قدم پر آپ کو الٰہی تائید و نصرت حاصل تھی۔ ایک سال سے بھی کم مدت میں فتنہ ارتداد اور بغاوت پر قابو پا لینا سرزمین عرب پر اسلام کی حاکمیت کو دوبارہ قائم کر دینا ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلام کے غلبہ سے بے حد خوشی تھی لیکن اس مسرت میں غرور اور تکبر کا نام تک نہیں تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے ہوا۔ ان کی یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ مٹھی بھر مسلمانوں کے ذریعہ سے سارے عرب کے مرتدین کی جرار فوجوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دے کر اسلام کا علم نہایت شان و شوکت سے دوبارہ بلند کر سکتے۔

مرتد باغیوں کی جنگوں اور مہمات کے ختم ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئندہ کے اقدامات کے متعلق غور و فکر میں مشغول تھے کہ عر ب اور اسلام کی دیرینہ دشمن ایران اور روم کی سلطنتوں سے مستقل طور پر محفوظ رہنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی یہ دونوں طاقتیں عرب کو اپنے زیر نگیں رکھنا چاہتی تھیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور بہت سے علاقوں اور قبائل میں ارتداد اور بغاوت کی آگ نے ریاست مدینہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو بعض جگہوں پر اس کے پیچھے ایک ہاتھ انہی طاقتوںکا بھی تھا اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہرقل کی فوجیں شام میں اور ایران کی فوجیں عراق میں جمع ہونے لگیں۔ حضرت ابوبکر ؓنے حضرت خالد بن ولیدؓ کو لکھا کہ عراق پہنچ کر لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیں۔ اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جزیہ وصول کریں اور اگر وہ انکار کریں تو پھر ان سے قتال کریں۔

حضرت خالد بن ولیدؓ کے لشکر کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ایک تو اس کا بہت حصہ جنگ یمامہ میں کام آ چکا تھا دوسرے حضرت ابوبکر ؓنے ہدایت کی تھی کہ لشکر میں شامل ہونے کے لیے کسی سے زبردستی نہ کی جائے اور نہ ہی کسی سابق مرتد کو جو دوبارہ اسلام لے بھی آیا ہو خلیفہ کی اجازت کے بغیر اسلامی لشکر میں شامل کیا جائے ۔چنانچہ حضرت خالدؓ کی مزید کمک کی درخواست پر حضرت ابوبکر ؓنے صرف ایک شخص قعقاع بن عمرو کو روانہ فرمایااور لوگوں کے تعجب پر فرمایا کہ جس لشکر میں قعقاع جیسا شخص شامل ہو وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔ پھر حضرت خالد ؓکو لکھا کہ وہ ان لوگوں کو اپنے لشکر میں شامل ہونے کی ترغیب دیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بدستور اسلام پر قائم رہے اور جنہوں نے مرتدین کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا۔یہ خط موصول ہونے پر حضرت خالدؓ نے اپنے لشکر کو ترتیب دینا شروع کر دیا۔

عراق کے کاشتکاروں کے سلسلے میں حضرت ابوبکرؓ کی حکمت عملی کے بارے میں لکھا ہے کہ عرب عراق کی زمینوں میں بطور کاشتکار کام کرتے تھے۔ایرانی زمیندارغریب عربوں پر بےحد ظلم کرتے اور ان کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کیا کرتے تھے۔حضرت ابوبکرؓ نے حکم دیا کہ جنگ کے دوران میں عرب کاشتکاروں کو کوئی تکلیف نہ دی جائے اور کسی قسم کی بدسلوکی نہ کی جائے۔انہیں اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ یہاں عربوں کی حکومت قائم ہونے سے ان کی مظلومانہ زندگی کے دن ختم ہو جائیں گے اور اب وہ اپنے ہم قوم لوگوں کی بدولت حقیقی عدل و انصاف اور جائز آزادی و مساوات سے بہرہ ور ہو سکیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس حکمت عملی نے مسلمانوں کو بےحد فائدہ پہنچایا۔ ان کی فتوحات کے راستے میں آسانیاں پیدا ہو گئیں اور انہیں یہ خدشہ نہ رہا کہ پیش قدمی کرتے وقت کہیں پیچھے سے حملہ ہو کر ان کا راستہ مسدود نہ ہو جائے۔

حضور انور نے آخر میں فرمایا کہ بعد کی جنگوں اور فتوحات کا تذکرہ انشاء اللہ آئندہ ہو گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button