حضرت مصلح موعود ؓ

خدا کو اپنی ڈھال بناؤ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا :فر ماتا ہے اے مرد اور اے عورتو۔اس خدا کو اپنی ڈھال بنالوجس کا نام لے لے کر تم دنیا میں اپنی اغراض پوری کرتے ہو۔اور جس کے نام کے ساتھ تم لوگوں سے رحم اور انصاف کی اپیل کرتے ہو،اور کہتے ہو خدا کے وا سطےیہ معاملہ یو ں کرو۔خدا کے واسطے یہ معا ملہ یوں کرو۔فر ماتا ہے،جب تم لوگ یہ کہتے ہو کہ خدا کے واسطے ہمارے ساتھ یوں معا ملہ کرو،تو تم ہماری طاقت اور قوت کا اقرار کرتے ہو، لیکن ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ تم جب انسانوں سے خدا کے نام پر اپیل کرتے ہو تو تم کیو ں اسی خدا کے پاس نہیں جاتے اور اسی سے براہ راست اپنا تعلق پیدا نہیں کرتے۔جو تمام تکلیفوں کو دُور کرنے والا ہے۔کیونکہ بہر حال انسانوں میں سے بھی بعض ایسے ہیںجن کے سامنے اگر خدا تعالیٰ کا نام بھی لیا جائےتو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔مثلاً دہریہ ہیں۔اگر ان کے سامنے خدا تعالیٰ کا نام لیا جائے تو وہ ہنستے ہیں۔اسی طرح بعض سنگدل ڈا کو ڈا کہ ڈا لتے ہیں۔یا دشمن کی فو جیں چڑ ھا ئی کر تی ہیں تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اگر اُن کے سامنے فریا د کی جا ئے تو کیا وہ چھوڑ دیتے ہیں۔کیا کبھی ایسا ہو اکہ کہیں ڈا کہ پڑا ہو اور لو گوں نے کہا ہو۔خدا کے واسطے ہمیں چھوڑ دو اور انہوں نے چھوڑ دیا ہو؟یا مثلا ً جرمنوں اورانگریزوں کی لڑ ائی ہو چکی ہے۔اس لڑائی میں کیا وہ گو لیا ں چلا تے تھے۔یا خدا کا نام سُن کر اپنے دشمن کو چھوڑ دیتے تھے ؟ان کے سامنے اگر ہزار دفعہ بھی خدا کا نام لیا جاتاتو وہ چھوڑتے نہیں تھے پس بیشک انسان خدا تعالیٰ کا نام لیتا ہے مگر جس طرح اس نام کا وہ استعمال کرتا ہے وہ غلط ہے۔صحیح طریق یہ ہےکہ انسان خدا تعا لیٰ کے آگے جُھکے اور بجائے انسان یہ کہنے کہ تو خدا کے واسطے مجھے چھوڑ دے۔وہ خدا تعا لیٰ سے ہی کہے کہ اے خدا تو اپنی صفات ِ حسنہ سے کام لے اور اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت سے کام لےکر مجھ پر رحم کر۔اور میری مشکلات کو دور فرمادے۔پس یہ اللہ تعالیٰ کے نام لینے کا غلط طر یق ہےکہ وہ اللہ تعا لیٰ کا نام لے کر انسانوں سے اپیل کرتا ہے۔سنگدل ہوتا ہے اور وہ اللہ تعا لیٰ کے نام کی کو ئی پروا نہیں کرتا۔پس اصل طریق یہی ہےکہ انسان اللہ تعا لیٰ کے سامنے جا ئے۔اور اس کے سامنے اپنی مشکلات کو پیش کرے۔دیکھو اس میں مرد و عورت کا یکساں حق تسلیم کیا گیا ہے۔یہ نہیں کہا گیا کہ مردوں کی دُعا تو سُنی جا تی ہے لیکن عورتوں کی نہیں۔بلکہ فرماتا ہے۔اے مردو اور عورتوتم میرے نام کو اپنی ڈھال بناؤ۔اور اپنی ضرورتوں کے وقت مجھے اپنی مدد کے لئے بلاؤ۔اِنَّ اللّٰہ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔ فرماتا ہے۔دنیا میں بہت سے جھگڑے رقابتوں پر چلتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ محبت کا سب سے گہرا تعلق میاں بیوی کا ہوتا ہے۔ادھر مرد کی ساری زندگی گزر جا تی ہے عورتوں اور بچوں کی پرورش میں اُدھر عورت کی ساری زندگی گزر جاتی ہے مرد کو آ رام پہنچانے اور اس کے کھانےپینے کا خیال رکھنے میں۔مگرباوجود اس کے وہ ایک دوسرے کے رقیب ہو تے ہیں۔ذرابات ہو تو عورت کہے گی کہ مرد ایسے ہوتے ہیں۔اور ذراعورت سے کوئی اختلاف ہو تو مرد کہے گا کہ عورت ایسی ہوتی ہے۔رسول کریم ﷺ نے مثال کے طور پر بیان فرمایاکہ مرد عورت کے لئے ساری عمر قربانی کرتا رہتا ہے۔ساری عمر اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔مگر کسی دن اس کی مرضی کے خلاف بات ہو جائےتو وہ کہے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔جب بھی تونے سلوک کیا بُرا ہی کیا۔مردوں میں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کئی مرد بھی ایسے ہوتے ہیں جو عورت کی تمام قربانیوں کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو تجھ میں کبھی کو ئی خوبی دیکھی ہی نہیں۔آ خر اس کی کیا وجہ ہے ؟وجہ یہ ہے کہ عورت اور مرد میںمقابلہ کے جذبات پیدا کئے گئے ہیں۔جب سے دُ نیا پیدا ہوئی ہے ہمیں یہ نظارہ نظر آ تا ہے۔( اوڑھنی والیوں کے پھول ،مرتبہ سیدہ مریم صد یقہ صا حبہ ،طبع اوّل،دوم صفحہ 91تا 92)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button