حضرت مسیح موعودؑ

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر 111)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

عبادت اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی سے رنگین ہوکر کرو

’’میں دوزخ اور بہشت پر ایمان لاتاہوں کہ وہ حق ہے اور ان کے عذاب اور اکرام اورلذائذ سب حق ہیں لیکن میں یہ کہتاہوں کہ انسان خدا کی عبادت دوزخ یا بہشت کے سہارے سے نہ کرے بلکہ محبت ذاتی کے طور پر کرے۔دوزخ بہشت کا انکار میں کفر سمجھتاہوں اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا حماقت ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی سے رنگین ہوکر کرےجیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے کیا اس امید پر کہ وہ اسے کھلائے گا۔ نہیں بلکہ وہ جانتی ہی نہیں کہ کیوں اس کی پرورش کررہی ہے یہاںتک کہ اگر بادشاہ اس کو حکم دےدےکہ تو اگر بچہ کی پرورش نہ کرے گی اور اس سے یہ بچہ مر بھی جاوے تو تجھ کو کوئی سزا نہ دی جاوے گی۔ بلکہ انعام ملے گا تو وہ اس حکم سے خوش ہوگی یا بادشاہ کو گالیاں دے گی یہ محبت ذاتی ہے۔ اسی طرح خد ا تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے نہ کہ کسی جزا سزا کے سہارے پر۔

محبت ذاتی میں اغراض فوت ہوجاتے ہیں اور خدا تو وہ خدا ہے جو ایسا رحیم وکریم ہے کہ جو اس کا انکار کرتے ہیں ان کو بھی رزق دیتا ہے۔ کیا سچ کہا ہے ؂

دوستاں را کجا کنی محروم

تو کہ با دشمناں نظرداری

جب وہ دشمنوں کو محروم نہیں کرتا تو وہ دوستوں کو کب ضائع کرسکتاہے۔ حضرت داؤدؑ کا قول ہےکہ میں جوان تھا اب بوڑھا ہوگیاہوں مگر میں نے متقی کو کبھی ذلیل وخوار نہیں دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ یہ اخلاص کا نتیجہ ہوتاہے جو خدا تعالیٰ اسی دنیا میں ظاہر کرتاہے اور اخلاص ایک کیمیاہے اور اگر اس میں اور باتیں نکالیں تو اس پاکیزہ اور مصفیٰ چشمہ کو گندے چھینٹوں سے ناپاک کردیتے ہیں وہ خود ہماری حاجتوں سے آگاہ اور واقف ہے۔ اور خوب جانتاہے۔ کہتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں جلا دینے کی کوشش کی گئی اس وقت ان کے پاس فرشتے آئے اور کہا کہ تمہیں کوئی حاجت ہے؟تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کو یہی جواب دیا۔ بَلیٰ وَلٰکِنْ اِلَیْکُمْ فَلَا یعنی ہاں حاجت تو ہے لیکن تمہاری طرف نہیں۔ ایسے مقام پر دعا بھی منع ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام اس مقام کو خوب سمجھتے ہیں۔ ؂

گرحفظِ مراتب نہ کنی زندیقی غرض اصل غرض انسان کی محبت ذاتی ہونی چاہیے۔اس سے جو کچھ اطاعت اور عبادت ہو گی وہ اعلیٰ درجہ کے نتائج اپنے ساتھ رکھے گی۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ107-108،ایڈیشن1984ء)

تفصیل:شیخ سعدی نےاپنی کتاب گلستان سعدی کے دیباچہ میں خدا تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے ایک خوبصورت قطعہ لکھا ہےجس کا ایک شعر مذکورہ بالا ملفوظات میں آیا ہے۔مکمل قطعہ مع ترجمہ ذیل میں درج ہے۔

اَےْ کَرِیْمِےْ کِہْ اَزْ خَزَانَۂ غَیْبْ

گَبْرو ترْسَا وَظِیْفِہْ خُوْرْدَارِیْ

اے وہ داتا جو غیب کے خزانہ سے۔ آتش پرست اور عیسائی کو روزی پہنچاتاہے۔

دُوْستَاںْ رَا کُجَا کُنِیْ مَحْرُوْمْ

تُو کِہْ بَا دُشْمَنَاںْ نَظَرْدَارِی

دوستوں کو تو کب محروم کرے جبکہ تو دشمنوں کی بھی دیکھ بھال رکھتا ہے۔

2:

متذکرہ بالا ملفوظات میں دوسرے نمبر پر آنے والا فارسی مصرع دراصل مولانا نورالدین عبدالرحمان جامی کے شعرکا ایک مصرع ہے۔مکمل شعر اردو ترجمہ کے ساتھ ذیل میں درج کیا جاتاہے۔

ھَرْ مَرْتَبِہْ اَزْ وُجُوْدْ حُکْمِیْ دَارَدْ

گَرْ حِفْظِ مَرَاتِبْ نَکُنِیْ زِنْدِیْقِیْ

ترجمہ :ہر مرتبہ کا احترام بجا لانے کا حکم ہے۔

اگر تو لوگوں کے مرتبہ کا خیال نہیں رکھتا تو تُوبے دین ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button