متفرق مضامین

مذہب اور سائنس(قسط نمبر 5۔آخری)

(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 3؍مارچ 1927ءبمقام حبیبیہ ہال، لاہور)

کیا قانون قدرت کا علم خدا کے خلاف ہے

بعضوں کا یہ خیال ہے کہ قانون قدرت معلوم ہو گیا اور اس کےمخفی در مخفی اسباب کا علم ہو گیا تو بس خدا باطل ہو گیا اور اس کی ضرورت کی نفی ہو گئی۔ مثلاً بچہ کی تحقیق ہے۔ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ نطفہ سے مختلف شکلیں بدل کر انسان بنتا ہے یا ڈارون Charles Robert Darwin 1809- 1882 ماہر موجودات (Naturalist) جس نے طب اور مذہب کا مطالعہ کیا۔ اس کے انکشافات، مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا وہ نظریہ قائم ہوا جو ڈارونیت (Darwinism) کہلاتا ہے۔ (The New Encyclopedia Britannica (Micropaedia) Vol:III (P:385, 15th editionکی تھیوری نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان نے مختلف ارتقائی دوروں میں سے گزر کر یہ شکل اختیار کی ہے۔ یا اگر یہ معلوم ہو گیا کہ پانی دوگیسوں ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے تو کیا خداباطل ہو گیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ خدا ان چیزوں کا خالق نہیں۔ یہ تو بچوں والا استدلال ہے کیا اسباب آج معلوم ہوئے ہیں؟ کیانطفہ کے اجزاء کا پہلے علم نہ تھا کہ رحم مادر میں جا کر بچہ بنتا ہے۔ تو اب اگر اس میں اسباب کی ایک اور کڑی معلوم ہو گئی تو اس سے خدا کی خالقیت کی کیوں نفی ہو گئی۔ مذہب نے سبب کا انکار کبھی نہیں کیا اور نہ یہ کہا ہے کہ صرف ایک سبب خدا ہی ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ مذہب تو اس بات کو منواتا ہے کہ اسباب کا لمبا سلسلہ ہے اور سب سے آخری سبب جو ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے۔

فرماتا ہے: اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا (النازعات: 45)باریک در باریک اسباب ہیں اور پھر یہ سلسلہ خدا تک جاتا ہے۔ گویا آخری سبب (Final Cause) خدا ہے۔ ان لوگوں کی مثال جن کو اسباب کی تلاش کرنے سے خدا نہیں ملا اور اس کی ذات کا ہی انکار کر دیتے ہیں ایسی ہے، جیسے کوئی شخص دو چار ہاتھ مٹی کھود کر چھوڑ دے اور کہے پانی نہیں نکل سکتا اس زمین کے نیچے پانی ہے ہی نہیں حالانکہ اگر وہ گہرا کھودتا تو اسے ضرور پانی مل جاتا۔ قرآن کریم نے خود اسباب کو تسلیم کیا ہے اوراس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر کام تدریجی ہے۔ اور اس کی نشوونما میں Stages ہیں۔ چنانچہ فرمایا: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّنَ الۡبَعۡثِ فَاِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیۡرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمۡ (الحج: 6) اے لوگو! تم دوبارہ اٹھائے جانے کے متعلق شک میں ہو۔ تم کو معلوم نہیں ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر نطفہ سےپھر اس کو علقہ بنایا پھر مضغہ میں اس کو تبدیل کیا۔

اسباب کا وجود توحقائق کے بیان کے لئے تھا۔ نہ اس لئے کہ ان کی نفی کرے۔ اسباب کے لمبے سلسلہ کی غرض دنیا کی تکمیل کے لئے تھی۔ خواہ کسی قسم کی تکمیل ہو۔ علمی یا عملی اس کے لئے Stages ضروری ہیں۔ مختلف ترقی کے دور تھے۔ جن میں سے دنیا گزری ہے۔ یہ ہماری ترقی کے لئے ضروری تھے اگر یہ دور مختلف نہ ہوتے تو ہم ترقی نہ کر سکتے۔ پھر لمبے سلسلہ کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ اشیاء ایک دوسرے کا اثر قبول کر سکیں۔ اور اپنے گردو پیش کے حالات سے مناسبت (Adaptation) پیدا کر سکیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسباب کا لمبا سلسلہ اور مختلف اشیاء کی ارتقائی Stages ہماری ترقی کی غرض سے ہماری کمزوری کو مد نظر رکھ کر رکھی ہیں۔ ورنہ وہ تو اس بات پر قادر تھا کہ چند دنوں میں دنیا کی تکمیل کر دیتا اور اسباب کاسلسلہ بالکل نہ ہوتا۔

یہ بھی پڑھیے:

مذہب اور سائنس(قسط نمبر 1)

مذہب اور سائنس(قسط نمبر 2)

مذہب اور سائنس(قسط نمبر 3)

مذہب اور سائنس(قسط نمبر 4)

الہام کا ثبوت

کہا جاتا ہے مذہب کی بنیاد الہام پر ہے مگر الہام محض دلی خیال کا نام ہے۔ مذہب کے بانیوں نے سوچا کہ ہماری بات لوگ یوں نہ مانیں گے چلو خدا کی طرف منسوب کر دو تاکہ جلدی مان لیں۔ گویا یہ مخفی ایک مصلحت وقت تھی اور چونکہ اس میں قومی نفع تھا اس لئے اپنے قلبی خیالات کا نام الہام رکھ لیا گیا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ طبعی قانون سے الہام کی تصدیق نہ ہونا اس بات کا ہر گز ثبوت نہیں کہ الہام خدا کی طرف سے نہیں اور محض قلبی خیالات ہوتے ہیں۔ طبعی قانون سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی جبھی تو ا س کا نام الہام ہے۔ ورنہ وہ طبعی اسباب کا نتیجہ ہوا او ر اس کا نام سائنس رکھنا چاہئے نہ کہ الہام۔ الہام کی تصدیق طبعی قوانین سے نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ طبعی قوانین سے بالا ہے اور القاء ہے نہ کہ قلبی خیال۔

اصل سوال یہ ہے کہ الہام لفظی ہو سکتا ہے یانہیں۔ قرآن کریم نے اس کے ثبوت میں خواب اور رؤیا کوپیش کیا ہے۔ جس طرح انسان خواب میں بغیر خارجی محرک کے نظارے دیکھتا ہے اسی طرح یہ خیال بالکل ممکن ہے کہ بولنے کے بغیر الفاظ کان میں ڈالے جائیں اوروہ دل کا خیال نہ ہوں۔ بتاؤ ایسا ممکن ہے یا نہیں کہ انسان اس قسم کا نظارہ دیکھ سکے۔ یقیناً ہرایک نے کبھی نہ کبھی اس قسم کا نظارہ دیکھا ہو گا۔ چاہے وہ بخار کی حالت میں ہی دیکھا ہو۔ اس نظارہ کو تم جھوٹا سمجھو یا سچا۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ واقعہ میں نظارہ ہوتا ہے اور دل کا خیال نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ تم اس کو جھوٹ کہو، تخیل سمجھو یا بیماری کا نتیجہ خیال کرو۔ پس ایسے نظارے دیکھے جاتے ہیں جن کاثبوت شواہد سے ملتا ہے نہ کہ طبعی قوانین سے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دماغ میں ایسی کیفیت ہے جس سے ایسے نظارے معلوم ہو سکتے ہیں۔ اور اگر آنکھ اس دماغی کیفیت سے نظارے دیکھ سکتی ہے تو کیا کان آواز نہیں سن سکتے۔ یہ الگ سوال ہے آیا کہ وہ آواز جھوٹی ہے یا سچی، بیماری کا نتیجہ ہے یا تخیل۔ انسان کمرے میں الگ بیٹھا ہوا ہو تو بعض دفعہ اپنا نام کان میں پڑتا ہے یا جنگل میں اگر اکیلا ہو توایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اس کو بلا رہا ہے۔ گو تم اس کو وہم ہی خیال کرو مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔ پس ان نظاروں اور ان آوازوں کے متعلق ثبوت یہ مانگنا ہو گا کہ یہ وہم ہے یا خدائی الہام۔ مثلاً میں اس وقت کھڑا ہوں اور مجھ کو ایسا معلوم ہو کہ کسی نے باہر سے آواز دی ہے ’’محمود‘‘ ۔تو تم مجھ کو پاگل خیال کر سکتے ہو۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جھوٹ کہہ رہا ہے۔ یا مثلاً یہ کہ آواز کوئی نہیں آئی، محض اس کےدل کا خیال ہے۔

کہا جاتا ہے کیا خدا کی بھی زبان ہے۔ اس کے بھی حلق، دانت اور Vocal Cords وغیرہ ہیں۔ جن کی مدد سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ خدا کی زبان اورہونٹ وغیرہ سے آواز نکل کر ملہم کے کان میں سنائی دیتی ہے ہم تو کہتے ہیں: الہام کے ذریعے کان میں آواز پیدا کی جاتی ہے نہ یہ کہ خدا کے ہونٹ اس کو بناتے ہیں۔ الفاظ تو اسی ہوا کی Vibration لہروں کے ذریعے کان میں جاتے ہیں اور اعصاب کے ذریعے دماغ تک پہنچتے ہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ یہ الفاظ فکر کا نتیجہ نہیں ہوتے، قلبی خیالات نہیں ہوتے بلکہ بنے بنائے الفاظ خدا کی طرف سے کان میں ڈالے جاتے ہیں۔

الہام پانے والوں اور مجانین کی حالت میں فرق

یہ قاعدہ ہے کہ جو خیال باطل ہو یا وہم کا نتیجہ ہو، اس کی تصدیق صرف ایک حس کرتی ہے مثلاً وہ نظارہ جو قلبی خیالات کا نتیجہ ہو یا وہمی ہو اس کی تائید صرف آنکھ کرتی ہے، مگر کان اورہاتھ اس کو جھٹلاتے ہیں۔ مثلاً اندھیرے میں کسی کو کوئی آدمی کمرے کے اندر کھڑا نظر آئے تو اگر یہ نظارہ وہم کا نتیجہ ہو گا تو اس شخص کو ہاتھ سے چھونے سے کچھ معلوم نہ ہو گا۔

قرآن کریم میں آتا ہے: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا (النساء: 165) اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نے زبان سے کلام کی بلکہ یہ لفظ زور دینے کے لئے اور شان کے اظہار کے لئے ہے۔ یعنی وہ ایسا کلام تھا کہ اس کی تصدیق نہ صرف کان بلکہ دیگر حواس بھی کرتے تھے۔ پس الہام کی تصدیق کئی حواس کرتے ہیں اور نہ صرف ملہم کے حواس بلکہ دوسرے لوگ بھی اس کو محسوس کرتے ہیں۔

دوسرا فرق الہام اور وہم میں یہ ہے کہ الہام پانے والوں کو دوسروں پر عقلی برتری حاصل ہوتی ہے۔ مگر وہم تو بدتر عقل والوں کو ہوا کرتا ہے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمام عرب نے گواہی دی کہ یہ شخص سب سے بڑھ کر صاحب عقل و فراست ہے۔ چنانچہ کعبہ کی تعمیر کے وقت جب سنگ اسود کونصب کرنے پر مکہ والوں میں جھگڑاہوا کہ کس قبیلہ کا سردار اس کو اٹھا کر نصب کرے۔ اور قریب تھا کہ کشت و خون سے زمین سرخ ہو جائے۔ اس وقت کسی نے کہا اس نوجوان (محمد رسول اللہ) سے پوچھو۔ تو حضورؐ نے جس عقلمندی اور موقع شناسی سے اس وقت کام کیا وہ تاریخ اسلام کے جاننے والوں پر خوب روشن ہے۔(سیرت ابن ہشام (عربی) جلد 1 صفحہ 79 مطبوعہ بیروت)پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دماغ نہایت اعلیٰ تھا۔ وہم تو ایک اندرونی بات ہے اور جنون کی علامت ہے جو ایسے عقیل کے متعلق وہم و گمان بھی نہیں آسکتا۔

تیسرے الہام پانے والوں کی اخلاقی حالت Normal (درست) ہوتی ہے ۔ ان میں جوش اور ہیجان نہیں ہوتا۔ مگر وہمی کی حالت Abnormal (نادرست) ہوتی ہے۔ اس کی طبیعت میں جوش ہوتا ہے۔ بات کرتے ہوئے کانپتا ہے سرعت اورعجلت سے کام لیتا ہے۔ ایک ہی بات کی دھن لگی ہوتی ہے، ایسے لوگ دوسروں سے مل کر کام نہیں کر سکتے۔ قوم بنانا، جتھ بنانا، سوسائٹی قائم کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہوتا۔ کسی ماہر امراض دماغی (Mental Specialist) سےپوچھو کہ وہمی لوگ بھی وہ کام کر سکتے ہیں جو الہام کے مدعی دنیا میں آ کر کرتے ہیں۔

اس کے مقابل میں الہام پانے والوں کی طبیعت میں صبر ہوتا ہے، سکون کی حالت ہوتی ہے، گھبراہٹ نہیں ہوتی، ان میں رحم اور حلم ہوتا ہے، ان کی ہر طرف نگاہ ہوتی ہے، ہر شعبہ زندگی پر نظر ہوتی ہے۔ ان کی تعلیم میں ہدایات ہوتی ہیں، ان کا کلام پر حکمت ہوتا ہے، وہ دنیا کی رہنمائی کرتے ہیں، کشت و خون سے دنیا کو نجات دیتے ہیں، وہ امن کے شہزادے ہوتے ہیں اور قوموں کے درمیان صلح اور اتحاد کی بنیاد ان کے ہاتھوں سے رکھی جاتی ہے۔ اگر ان صفات والوں کو پاگل کہا جائے تو پھر ایسے پاگل تو دنیا میں سب ہی ہوں۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُوْنَ۔ مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ(القلم: 2-3)

قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔ نہیں ہے تو اپنےرب کے فضل سے دیوانہ۔ قلم کی قسم ہے یعنی قلم کو اور ان علوم کو جو اس زمانہ میں رائج ہیں اس بات پر گواہ ٹھہرایا ہے کہ تیری باتیں مجنونانہ نہیں۔ اس میں ایک پیشگوئی ہے کہ دنیا خواہ کتنی ہی علمی ترقی کر جائے، دماغی امراض کا کتنا ہی باریک مطالعہ کیا جائے، تجھ کو ہر گز مجنون ثابت نہ کر سکیں گے۔ ساری علمی کتابوں کی قسم ہے۔ سارے علوم مقابلہ پر لے آئیں۔ تیرے عمل کو پرکھ لیں، تیری تعلیم پر جرح کر لیں، تجھ کو ہر گز دیوانہ ثابت نہیں کر سکتے۔ تیرا عمل اس کے برعکس ہو گا۔ یعنی اس میں اطمینان ہے، امنگ ہے، شوق ہے، وسطی چال ہے، اعلیٰ تربیت ہے، تو نے دوسروں کی تربیت کی، ہزاروں کاموں کی تجاویز کیں، خدا تعالیٰ کے کلام کے حقیقی معانی بیان کئے۔ کیا یہ سب باتیں مجانین کیا کرتے ہیں؟

چوتھے الہام پانے والوں کی پالیسی ہمیشہ غالب آتی ہے۔ اگر ان میں دماغی نقص ہوتا تو وہ غالب کیوں ہوتے۔ پاگل کے کام کے نتائج نہیں ہوا کرتے۔ جنون کی تصدیق واقعات سے نہیں ہوا کرتی اور پاگلوں (Delusions) کی ایک بڑ سے زیادہ حقیقت نہیں ہوتی۔ مگر یہ کس طرح ہوا کہ ایک مجنون کی تمام دنیا کی تجاویز پر غالب آ گئیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے مخالفوں کو چیلنج دیا کہ تم میرے مقابل پر سارے مل جاؤ، متفق ہو جاؤ، پھر بھی میری پالیسی غالب رہے گی اورمیں ہی جیتوں گا۔ اگر یہ خدا کا کلام نہ تھاتو وہ غالب کیوں ہوا؟

یہ بات عام تجربہ اور مشاہدہ سے پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ وہ افکار جو دماغی کیفیت کا نتیجہ ہوں بڑھاپے میں جا کر کمزور ہو جاتے ہیں۔ اور حسیں عمر بڑھنے سے کم ہو جاتی ہیں۔ مگر انبیاءعلیھم السلام میں اس کے برخلاف بڑی عمر میں جا کر زیادہ شاندار الہام ہوتے ہیں۔ اورالہام بھی زیادہ ہوتا ہے یعنی نہ صرف یہ کہ الہام اکثر دفعہ ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی کیفیت، کمیت، اور جلال میں بھی زیادہ شاندار ہوتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب دماغ کمزور ہو گیا، اس میں فاسفورس مٹ گیا اور اس کے Cells کمزور ہو گئے تو الہام زیادہ ہونے لگ گئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انبیاء کے الہام کسی خاص دماغی کیفیت کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ ورنہ عام قانون طبعی کے ماتحت ان کو بڑھاپے میں کم ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر یہاں بالکل اس کے برعکس ہے۔ ان کا الہام جوانی میں اگر ستارہ کی طرح ہو تو بڑھاپے میں سورج کی مانند ہوتا ہے جو کہ نیچر کے قانون کے خلاف ہے۔ پس ثابت ہوا کہ الہام وہم کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ خدا کا کلام ہوتا ہے۔

نوجوانوں سے اپیل

آخر میں مَیں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ قطع نظر میرے مذہب کے تم بھی چونکہ اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہو اس لئے مذہب اسلام کا مطالعہ کرو۔ قرآن کو ہاتھ میں لو اور اس پر غور کرو۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سائنس مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ کوئی سچی سائنس مذہب کے خلاف نہیں اور کوئی سچا مذہب سائنس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی مسئلہ کے متعلق شک ہو تو اسے میرے سامنے پیش کرو، میں تم کو بتادوں گا کہ کوئی سائنس کا مسئلہ اور کوئی صحیح فلسفہ اسلام کے خلاف نہیں۔ تم کو سب سے اچھا مذہب ملا ہے۔ تم اس کی قدر کرو۔ یہ وہ مذہب ہے جس کے متعلق کفار بھی رشک کرتے اور کہتے تھے کہ کاش یہ ہمارا مذہب ہوتا: رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ (الحجر: 3)

اس کا تاریخی ثبوت یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی اور ایک مسلمان کا جھگڑا تھا اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس فیصلہ کے لئے آئے۔ فیصلہ کے بعد یہودی نے کہا کہ مذہب تو یہ جھوٹا ہی ہے مگر ہے مکمل۔ کوئی مسئلہ نہیں جو اس میں بتایا نہ گیا ہو۔

تم اپنے مذہب کی قدر کرو اور اس کا احترام کرو۔ اسلامی روح اپنے اندر پیدا کرو۔ پھر تمام تدابیر کامیاب ہوں گی۔ تم قرآن کو ہاتھ میں لو اس کا مطالعہ کرو۔ اس کو غور سے Study کرو۔ اس کتاب کا احترام کرو۔ اس کی آیات پر ہنسی نہ کرو۔ صرف كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا (البقرہ: 61) کا مسئلہ ہی یاد نہ ہو بلکہ مذہب بھی سیکھو، یاد رکھو اس میں وہ علوم ہیں جو تمام دنیا کے تمدن کو ہیچ کر دیں گے۔

تم اگر اسلام کا سچا نمونہ اختیار کرو گے تو تم کو روحانی اور جسمانی دونوں امور میں دنیا پر برتری حاصل ہو گی۔ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا نعرہ پھر بلند ہو گا۔ اور اسلام کی حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل کی طرح پھر دنیا پر قائم ہو گی۔ انشاء اللّٰہ۔

(الفضل 2، 5، 7، 9 اگست 1930ء)

(مذہب اور سائنس، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 497 تا 519)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button