پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(اے آر ملک)

پاکستان میں احمدی ہونے کے خطرات

لاہور،29؍مئی 2021ء: روزنامہ ڈان نے درج ذیل رپورٹ شائع کی جس میں سے بعض حصے پیش ہیں:

شہزاد اکبر نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے بیان پر ترین گروپ کے ایم پی اے کے خلاف مقدمہ درج کردیا۔

وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر کی شکایت پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایم پی اے نذیر چوہان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) ہفتہ کو درج کی گئی۔نذیر چوہان تحریک انصاف پارٹی سے الگ ہوئےجہانگیر خان ترین گروپ کا حصہ ہیں۔

لاہور کے ریس کورس تھانے میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق کے جس کی ایک کاپی ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود ہے ۔شہزاد اکبر نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر نذیر چوہان پر مذہبی عقائد سے متعلق غلط الزامات لگانے کا الزام لگایا اور مزید کہا کہ ان بیانات نے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 506 (دھمکی کی سزا)، 189 (سرکاری ملازم کو ضرر پہنچانے کی دھمکی)، 298 (جان بوجھ کر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے بیان دینا) اور 153 (فساد پر اکسانا) کے تحت درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ جرم درخواست گزار کی ساکھ، جسم، جائیداد اور دماغی حالت کو نقصان پہنچانے اور اس کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔‘‘

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ چوہان نے ’’درخواست گزار کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے اس مذموم فعل کا خاص پلان کے مطابق ارتکاب کیا ہے‘‘۔

اکبر نے ایف آئی آر میں الزام لگایا ہے کہ چوہان کا مقصد پاکستان میں بدعنوانی کو روکنے اور احتساب کو یقینی بنانے میں فعال کردار ادا کرنے سے ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’’درخواست گزار پر ماضی میں بھی اسی طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں کیونکہ وہ چوکس اور ذمہ دارانہ انداز میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہے اور ملزم کا ارادہ درخواست گزار کو اپنے قانونی کاموں کے استعمال سے روکنا ہے۔‘‘

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ چوہان کے ’’بے بنیاد، جھوٹے اور پریشان کن‘‘ الزامات ’’مذہبی نفرت‘‘ کو ہوا دیں گے اور اکبر کی زندگی کو خطرے میں ڈالیں گے۔

ایف آئی آر کے اندراج اور اکبر کی جانب سے پی ٹی آئی ایم پی اے کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست کے جواب میں، چوہان نے اپنا موقف برقرار رکھا ہے کہ وہ مقدمہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

اس پیش رفت کے بعد وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں اکبر کی حمایت کا اظہار کیا۔

انہوں نے ٹویٹ کیا، ’’ذاتی انتقام کے لیے مذہب کارڈ کا استعمال قابل نفرت ہے [اور] لاہور پولیس کو نذیر چوہان ایم پی اے کے خلاف نیچ حربے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کرنی چاہیے۔‘‘

اس پر اکبر نے چودھری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’منافقت اور مذہبی تعصب بالخصوص جو کرپٹ لوگوں کی طرف سے پھیلایا جائے اس کی عوام میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

پی ٹی آئی کے جہانگیر خان ترین گروپ جس کا چوہان ایک حصہ ہیں، نے محض شوگر اسکینڈل کیس میں ترین کو نشانہ بنانے کی وجہ سے اکبر کا نام لیا ہے۔

سادہ زبان میں اگر کہا جائے تو مسٹر چوہان نے اپنے ہدف مسٹر اکبر پر احمدی ہونے کا الزام لگایا تاکہ بڑے پیمانے پر اور نہایت آسان طریق سے ان کا تاثر خراب کیا جا سکے۔ مسٹر اکبر نے پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی۔اسے اس رپورٹ کے ضمیمہ کے طور پر دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔ اپنی شکایت میں، مسٹر اکبر نے کہا کہ’’(ملزم) کا جرم یہ ہے کہ اس نے درخواست دہندہ کی ساکھ، جسم، جائیداد اور دماغی حالت کو نقصان پہنچانے کا ارتکاب کیا ہے اور درخواست دہندہ کے خلا ف اس فعل سے عوام میں بڑے پیمانے پر نفرت پھیلنے کا باعث بنی ہے جس سے درخواست دہندہ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔… اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ بے بنیاد، جھوٹے، اور گھناؤنے الزامات درخواست گزار کے خلاف مذہبی منافرت کو ہوا دیں گے اور اس کی جان کو خطرے میں ڈالیں گے۔‘‘

وزیر اعظم کے مشیر کے مطابق ظاہر ہے کہ جعلی ہوں یا اصلی، احمدی مذکورہ بالا خطرات سے دوچار ہیں۔

اس واقعے نے میڈیا میں خوب ہنگامہ برپاکیا۔ مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں وزیر اعظم کے نمائندہ حافظ طاہر اشرفی، چیئرمین پاکستان علماء کونسل پھر اپنے ساتھی ’’وزیر‘‘ کی مدد کو پہنچے اور ایک قسم کا فرمان یا بیان جاری کیا:’’کسی بھی مسلمان کو قادیانی کہنا یا کسی قادیانی کو مسلمان کہنا شرعی اور قانونی طور پر درست نہیں ۔ شرعی احکامات کے مطابق کسی مسلمان کو کافر کہنے والا خودکافر ہو جاتا ہے۔قادیانی شریعت اسلامیہ اور آئین پاکستان کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج ہیں لہٰذا کسی مسلمان کو سیاسی مقاصد کے لیے قادیانی کہنا کسی بھی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ شہزاد اکبر نے جب اپنے عقیدے کی وضاحت کر دی تو اس کے بعد ان پر قادیانی ہونے کا الزام لگانا کسی بھی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الزام لگانے والوں کو اپنے اس عمل پر معذرت کر لینی چاہیے۔‘‘

جناب نذیر چوہان ایم پی اے نے ایک ویڈیو کلپ میں اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے مذہب کے استعمال کی تائید میں کہا کہ ’’یہ سوال چیف آف آرمی سٹاف اور وزیر اعظم پاکستان کے سامنے بھی رکھا گیا تھا اور( دھرنے کے دوران) انہیں دنوں میں انہیں اپنا موقف واضح کرنا پڑا تھا کہ یہ (الزام) درست نہیں ہے اور یہ ان کے خلاف من گھڑت بات منصوب کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو پھر شہزاد اکبر کون ہے! شہزاد اکبر 100% قادیانی ہے۔ میں آج اس پروگرام میں کھل کر کہہ رہا ہوں، جو میں نے پہلے نہیں کہا تھا۔ شہزاد اکبر قادیانی ہے۔ وہ قادیانی ہے اس کا سارا ریکارڈ ربوہ میں موجود ہے۔ آپ اس سے مرزا قادیانی کے بارے میں اس کی رائے پوچھیں۔ یہ میرا پاکستان ہے۔ یہ محمدی پاکستان ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاکستان ہے ۔ہم کبھی بھی قادیانیوں کو اس پر حکمرانی کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘

جناب شہزاد اکبر شاید اپنی حفاظت کے لیے گھبرانے اور پولیس کو اس فعل کی اطلاع دینے میں حق بجانب ہیں۔ لیکن اس شخص کے بارے میں تصور کریں جو حقیقت میں ایک احمدی ہے، اور اپنی شناخت چھپانے کو تیار نہیں ہے۔

29؍مئی کو بول ٹی وی نے اپنی بریکنگ نیوز میں اس کہانی کو رپورٹ کیا اور مسٹر چوہان کو ایک ویڈیو کلپ میں یہ کہتے ہوئے دکھایا:’’میں نے تو سیدھی سی بات کی تھی۔ اب یہ ایک ایشو (افسانہ) بنتا جا رہا ہے۔ میں اسی طرح آخر تک جنگ لڑوں گا۔‘‘

اسی بریکنگ نیوز میں نیوز ریڈر نے ’سینئر تجزیہ کار‘ جناب سمیع ابراہیم سے ان کی رائے پوچھی۔ انہوں نے جس طرح اس واقعہ کا رخ موڑا گیا اس پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے معاشرے کے لیے خطرہ قرار دیا، کیونکہ اس سے انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔ تاہم، انہوں نے ایک عجیب و غریب تجویز پیش کی کہ اب چونکہ یہ مسئلہ لائیو ہو چکا ہے، اکبر کو چاہیے کہ وہ (میڈیا پر) اعلان کریں یا بیان جاری کریں کہ وہ قادیانی نہیں ہیں، نہ ہی ان کا قادیانیوں سے کوئی تعلق ہے، اور وہ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ کیا ہی ناقابل یقین سمجھوتہ ہے!

ضلع اوکاڑہ سے تازہ ترین

چک 3/SP، ضلع اوکاڑہ؛ مئی 2021ء: منصور احمد طاہر پر ایف آئی آر نمبر 217; 16 ایم پی او کے تحت پولیس کیس درج کیا گیا۔ 31؍مارچ 2021ء کو تھانہ حویلی لکھاضلع اوکاڑہ میں گرفتار کیا گیا۔ مدعی نے الزام لگایا کہ موصوف نے ان کی مذہبی تقریب کے بارے میں منفی تبصرہ کیا۔

اپوزیشن کے احتجاج اور مارچ کے جواب میں، ایس ایچ او نے چارج شیٹ میں مزید خوفناک دفعہ 295-A کا اضافہ کیا۔ اس میں دس سال قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

اس واقعے کے بعد سے گاؤں میں احمدیوں کی مخالفت زور پکڑ گئی ہے۔ مقامی لوگوں نے ڈاکٹر محمد اقبال اور ان کے بھائی جاوید انور کے اہل خانہ کا سماجی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

واقعے کے بعد ایک ہفتے تک گاؤں والوں نے ڈاکٹر اقبال اور جاوید انور کو گاؤں سے نکالنے کے لیے پلاننگ کی۔ پولیس نے صورت حال کے پیش نظر ڈاکٹر اقبال کو کلینک بند کرنے کا مشورہ دیا۔

مخالفین نے مزید مقدمات درج کرنے اور احمدیوں کو گاؤں سے نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ یکم مئی 2021ء کی رات کچھ نامعلوم افراد احمدی مشنری کے گھر میں گھس گئے اور گھر سے کپڑے اور سامان چرا لیا۔ تاہم، کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا، کیونکہ چوری کرنے کے لیے کچھ زیادہ سامان نہیں تھا۔

2؍مئی 2021ء کو ایک شخص مبینہ طور پر علاج کے لیے ڈاکٹر اقبال کے گھر آیا اور ان سے دروازہ کھولنے کو کہا۔ جب انہوں نے اس کے پاس جانا محفوظ نہیں سمجھا تو وہ دھمکیاں دیتے ہوئے چلا گیا۔

اس صورت حال میں احمدیوں نے ڈی پی او سے رابطہ کیا جنہوں نے متاثرین کو سیکیورٹی فراہم کرنے اور ڈاکٹر اقبال کا کلینک کھولنے میں سہولت فراہم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ پولیس نے سیکیورٹی کی یقین دہانی کرائی۔

میاں ایاز ناصر جنڈیکا کھرل ایڈووکیٹ نے منصور احمد طاہرکی ضمانت کی اپیل کی۔ جس کے بعد دیپالپور بار میں شرپسندوں نے یکجا ہو کر ان کی مخالفت شروع کر دی۔ ان کے خلاف بے بنیاد پولیس مقدمات درج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

موصوف31؍مارچ 2021ءسے جیل میں ہیں۔ مجسٹریٹ نے ان کی ضمانت مسترد کر دی ہے۔ اب انہوں نے سیشن کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button