یادِ رفتگاں

ملک بشیر احمد صاحب آف دوالمیال

(ض احمد ملک)

امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع چکوال کی طرف سےتمام احباب ضلع چکوال کو اس روح فرسا خبر کی اطلاع دی گئی کہ نہایت افسوس کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ دوالمیال کے محترم بزرگ ملک بشیر احمد صاحب جو اسلام آباد میں مقیم تھے وہ قضائے الٰہی سے اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ اور تدفین دوالمیال میںہو گی۔ اس خبر کو پڑھ کر دلی صدمہ ہوا ۔ آپ ایک دعا گو وجود تھے دل سے ان کی مغفرت کی دعا نکلی اور ان کی مثالی زندگی کے واقعات دماغ میں گھومنے لگے۔ ملک بشیر احمد صاحب ایک سر گرم عمل انسان، باہمت و حوصلہ، مجاہدِ احمدیت، اعلیٰ قوتِ ارادی کے مالک تھے۔ آپ نے ساری زندگی خدمتِ دین اور اطاعتِ خلفائے احمدیت میں گزاری۔ آپ کی عمر90سال سے زیادہ ہو گئی لیکن آپ کے معمولات اور مصروفیات بالکل ویسی ہی رہیں جیسی کہ پہلے تھیں۔ آپ میں بلا کی استقامت پائی جاتی تھی۔آپ کی صحت آخری وقت تک بہت اچھی تھی۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے آپ گھر میں ہی رہتے تھے اور باہر نکلنا کم کم تھا۔ آپ اپنے مکان لوئی بھیر اسلام آباد میں ہی مقیم تھے ۔ آپ کو کھانسی نزلے اور سانس کی تکلف محسوس ہوئی تو آپ کو ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کروا دیا گیا۔ آپ کامرض بڑھتا ہی گیا اور کوئی خاص افاقہ نہ ہوا۔ اور19؍ اپریل 2021ءکوآپ کا انتقال ہوگیا۔

مسلسل جدوجہد کی حسین داستان۔ روایات کی شانِ امتیاز۔ دلداری اور دل نوازی کا شہابِ ثاقب۔ دھوپ میں روپ کا راستہ۔حسنِ عمل اور حسنِ خیال کا حسین امتزاج۔ شب میں چراغوں کا سلسلہ۔اشک میں اک سیلِ شفا۔ سماجی و معاشرتی انقلاب کی رو۔ انتہائی معاملہ فہم۔زیرک۔ضمیر پاک۔خیال بلند و ذوق لطیف۔ہرے ریشم کی مٹی۔ کھرے سونے کی ریت۔صر صرِ غم میں بادِ صبا۔ پیار کا دریا۔ سخی دل ساگر۔ ہمدردی اور انسان دوستی کا آبِ شافی۔ چاہتوں کا آستان۔برکتوں کی کہکشاں۔روحانی اعجاز کا زندہ نشاں۔عاشقِ رسول ﷺ۔قرآنِ مجید کی تلاوت کا دلدادہ۔تفسیرِ قرآن کا قاری۔احمدیت سے والہانہ عشق، اور روحانی خزائن کو دونوںہاتھوں سے لوٹنے والا۔ خلافتِ احمدیت کا شیدائی۔ جس جگہ بھی ڈیرہ جمایا رونق سمٹ آئی۔ان صفات کا مرقع ملک بشیر احمد صاحب کی ذاتِ گرامی تھی۔

آپ کا جنم اس گھر میں ہوا جنہوں نے وقت کے امام کی آواز پر لبیک کہہ کر خود کو احمدیت کے حصار میں شامل کیا ہوا تھا،معاملہ فہمی بے پایاں۔ تہجد گزاری انتہا کو۔ شدید بحران،سیاسی، سماجی اور عسکری مد و جزر میں بشیر صاحب کی استقامت آپ کی ان گنت خوبیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ دوالمیال اور علاقہ کہون سے آپ کو خصوصی انس رہا اورکیوں نہ ہوتا یہ آپ کی جائے پیدائش تھی۔اسی احساس سے ملک بشیرصاحب نے اس دھرتی کی خدمت کو اپنا اولین فرض بنایا۔

بابا کپتان کی یادوں سے بھر پور بنگلہ۔ڈاکٹر گل محمد کی مسیحائی کی داستانیں۔حضرت مولوی کرم داد صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑپہلے امیر جماعت احمدیہ کی احمدیت کے لیے خدمات۔حضرت حافظ شہباز صاحب ،حضرت مسیح موعود ؑکی صداقت پر برملا آمنا و صدقنا کہنے والوں کے قصے۔میجرجنرل نذیر احمد ملک 1948ء کی جنگِ کشمیر کے ہیرو کی وجاہت اور عسکری کارناموں اور احمدیت کے لیے خدمات نے آپ کو ہمیشہ متاثر رکھا۔بشیر احمد ملک صاحب نے امامِ وقت کو مانا اور پہچانا بھی۔ دعاؤں میں نہ صرف غرق ہوئے بلکہ دعاؤں کے اثر بھی دیکھے۔ خلفائے احمدیت کی اطاعت گزاری میں خود کو غرق کیا۔اپنے من ،تن اور دھن کو احمدیت کے لیے وقف کیا۔آپ ایک درد مند انسان ،اور مخلص دوست بھی تھے۔

ملک بشیر صاحب کے بقول آپ کی گونا گوں کامیابیوں کا راز آپ کے والدین کی شب خوابی کی دعاؤں میں مضمر تھا۔ان کی دعائیں ،ان کی زیارت اور ان کی خدمت در اصل ان کی روحانی تسکین کا موجب رہا۔اور احمدیت کو قبول کرنے کو بھی آپ بہت بڑا متبرک معجزہ سمجھتے تھے۔واقعی اشکوں میں بھیگی مامتا کی تہجد کی دعا۔نیم شب کی دعا کبھی رد نہیں جاتی۔آپ کے جسدِ مبارک کوہسپتال سے بذریعہ ایمبولینس سیدھا اپنے گاؤںدوالمیال لایا گیا ۔ویسے تو آپ موصی تھے اور باقاعدگی سے اپنا حصہ آمد اور دوسرے چندے ادا کرنا آپ کا معمول تھا، اپنی وفات سے تقریباً تین ماہ قبل آپ اپنے بیٹے ذبیح احمد کو ساتھ لے کر ربوہ میں مجلس کارپرداز کے دفتر میںگئے تھے اور اپنا تمام حصہ آمد ادا کر کے اب تک کی اپنی تمام ادائیگیاں جمع کرا دی تھیں۔ لیکن آپ کی خواہش تھی کہ مجھے دوالمیال میں ہی اپنے آبائی قبرستان میں دفن کیا جائے اور یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں نصب کیا جائے۔ اس لیے اسلام آباد سے آپ کے جسدِ مبارک کو دوالمیال تدفین کے لیے لایا گیا۔

آپ کے چہرہ کی آخری زیارت آپ کے آبائی گھر میں صحن میں ہوئی، جس سے آپ کو عقیدت کی حد تک پیار تھا۔کیوں نہ ہوتا یہ وہ گھر تھا جس کے ساتھ آپ کی بچپن کی یادیں وابستہ تھیں جہاں آپ نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ اپنا ماضی گزارہ تھا اس کے ذرے ذرے سے ان کو قدرتی پیار تھا ۔

مکرم مربی صاحب دوالمیال نے نماز جنازہ پڑھائی۔ قبرستان میں پہنچنے کے بعدآپ کو اپنے سوگواروں کے جھرمٹ میںدفن کر دیا گیا۔تدفین مکمل ہونے پر مربی صاحب دوالمیال نے دعا کروائی۔نماز جنازہ اور تدفین میں مقامی احباب کی کثیر تعداد کے علاوہ علاقہ بھر اور اسلام آباد کے لوگوں کی بہت ساری تعداد نے حصہ لیا۔ ملک بشیر احمد صاحب ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔اللہ تعالیٰ آپ کو جنتِ فردوس کا مکین بنائے اور ہم سب کو حوصلہ اور صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را

شجرہ نصب

آپ کا تعلق اعوان قوم سے تھا، وہ اعوان قوم جن کا شجرہ نصب حضرت قطب شاہ عون بابائے قوم اعوان سے ہوتا ہوا حضرت علی ؓ کے بیٹے حضرت عباس علمدارؓ سے جا ملتا ہے۔ دوالمیال گاؤں کی اعوان برادری گل آل (عرف گلوآل) سے آپ کا تعلق تھا۔ آپ کے پڑدادا کا نام مہر محمد ، اور مہر محمد کے والد کا نام گل محمد تھاجوبا بائے گل آل تھے۔آپ کے داداکا نام چوغطہ خان اور دادی کانام راج بی تھا۔آپ کے والد کا نام صوبیدار فتح محمد اور والدہ کا نام راج بی تھا۔ملک بشیر احمد صاحب کی اہلیہ کا نام لالاں بی ، بھائی کا نام نذیر احمدکوثر، بہنوں کے نام بھاگ بھری اہلیہ صوبیدار محمد یعقوب، ثریا بیگم اہلیہ مبارک احمد۔ آپ کے دوبیٹے ذبیح احمد اور سمیع احمد اور پوتوں کے نام ڈاکٹر عماراحمد اور طاہر احمد (پسران ذبیح احمد) اور شہبازاحمد اور محمد عبداللہ (پسران سمیع احمد) ۔آپ کی پوتیوں کے نام سامعہ ثنأ،وجیہہ ملک دختران ذبیح احمد اور مہروش دختر سمیع احمد آپ کی بیٹی کا نام صفیہ تسنیم اہلیہ مسعود احمدہیں ۔آپ کا تمام خاندان ماشاءاللہ جماعت احمدیہ سے منسلک ہے۔

ابتدائی تعلیم

ملک بشیر صاحب نے 1936ء میں گورنمنٹ پرائمری اسکول دوالمیال میں داخلہ لیا۔ دوالمیال گاؤں کی خوش قسمتی اور ہمارے آباءو اجداد کی تعلیم سے رغبت کی حسین مثال کہ ان کی جدو جہد رنگ لائی اور 1857ء میں گورنمنٹ پرائمری اسکول دوالمیال کی ابتدا ہو گئی تھی۔ اس اسکول میں 1941ء میں آپ نے پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد 1941ء میں آپ نے مشن ہائی اسکول ڈلوال جسے بیلجیم مشن نے 1900ء میں ڈلوال گاؤں جو دوالمیال گاؤں سے تقریباََ پانچ میل کے فاصلے پر ہے بنایا تھا میں داخلہ لیاتحصیلِ علم کی خاطر روزانہ پیدل 10 میل کا سفر کیا کرتے تھے ۔آپ نے اس اسکول سے میٹرک کا امتحان 1947ء میں پاس کیا۔ یہ اس وقت کی بہت بڑی کامیابی شمار کی جاتی تھی۔ یہ دوسری جنگِ عظیم کا زمانہ تھا ۔ اس گاؤں کے لوگ فوج میں ملازم تھے اور پیچھے ماؤں کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں اور ان کی دیکھ بھال کریں۔ آپ کی والدہ محترمہ آپ کو روزانہ تیار کر کے مشن اسکول ڈلوال بھیجا کرتیں۔اور ان کی تربیت کا احسن رنگ میں خیال رکھتی تھیں۔

ملازمت

میٹرک کرنے کے بعد آپ نے بھی اپنے آباءو اجداد کی طرح 9؍جنوری 1948ء کو پاکستان آرمی میں ملازمت اختیار کی۔آپ نے احسن رنگ میں ملازمت میں اپنا نام کمایا۔ دورانِ ملازمت 1950ء میں آپ کی شادی آپ کے چچا کی بیٹی محترمہ لالاں بی صاحبہ سے ہوئی۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے ملک ذبیح احمد، ملک سمیع احمد اور ایک بیٹی صفیہ بیگم ہیں۔ 30؍نومبر1968ء کو آرمی سے ریٹائر ہوئے۔آرمی سے ریٹائر ہونے کے فوراََ بعد آپ نے 1968ء میں ہی اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ پشاور میں ملازمت اختیار کی اور نہایت دیانت داری اور محنت سے کام کیا ، 1975ء میں آپ نے اس ملازمت کو خیر باد کہا اور آپ نے 1975ء میں ہیUNO کی FAO (Food &Agriculture Organization) میں اسلام آباد میں ملازمت شروع کر دی اور اپنی دیانت داری اور محنتِ شاقہ سے ترقیات کی منازل طے کرتے رہے۔ رات گئے تک دفتر میں کام سرانجام دیتے۔ جب تک دیے ہوئے کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچاتے اس وقت تک چھٹی نہ کرتے یہی آپ کا طرۂ امتیاز تھا کہ کسی کام کو ادھورا نہیں چھوڑا بلکہ مکمل کر کے اپنے گھر آئے۔ اسی محنت اور بزرگوں کی دعاؤں اور احمدیت کی برکات تھیں کہ آپ ترقی پر ترقی کی منازل طے کرتے رہے اور اور اس آرگنائزیشن میں آپ نے کافی عرصہ پروگرام آفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں اور 1994ء میں پروگرام آفیسر کی پوسٹ سے ہی ریٹائر ہوئےاور آپ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے آپ کو خوشنودی کی سندات سے نوازا گیا۔

پشاور میں پیش آنے والا ابتلا اور صبر کا نمونہ

1974ء میں جب آپ فاریسٹ انسٹیٹیوٹ میں کام کرتے تھے اور وہاں ہی اس کالونی میں آپ کی رہائش تھی۔ اس وقت جب سارے ملک میں شر پسند ملاؤں نے احمدیوں کے خلاف تحریک چلائی ہوئی تھی تو ہر جگہ احمدیوں کے خلاف نہ صرف جلسے جلوس نکال رہے تھے بلکہ احمدیوں کے گھروں پر حملے کر کے بہت سارے احمدیوں کے گھروں کو جلا اور ان احمدیوں کو شہید کر رہے تھے۔ حکومت بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی اور سارے ملک میں ملاؤں کے غنڈے دندناتے پھر رہے تھے۔ احمدیوں کے گھروں کو لوٹ رہے تھے اور نہتے احمدیوں کو شہید کر رہے تھے۔ اس وقت ملک بشیر احمد صاحب اپنے دفتر میں اپنی ڈیوٹی پر تھے تو ملاؤں کے غنڈوں کا جلوس اس فاریسٹ انسٹیٹیوٹ کی کالونی میں داخل ہو گیا۔ وہ جلوس سیدھا دفتر کی جانب آ رہا تھا ۔ لیکن وہاں بیٹھے گارڈز نے انہیں دفترمیں آنے سے روک دیا ۔ پھر جلوس کا رخ کالونی کی طرف ہو گیا اور وہاں جا کر ان غنڈوں نے ملک بشیر صاحب کے گھر پر حملہ کر دیا اور دندناتے ہوئے آپ کے گھر میں داخل ہو گئے۔ خوش قسمتی سے آپ کی اہلیہ اور بچے وہاں موجود نہیں تھے کسی کام سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اب اس جلوس کے ملاؤں اور غنڈوں نے اپنے طور پر اسلام کی خدمت کا یہ طریقہ نکالا کہ آپ کے گھر کے سامان کو باہر پھینک کر آگ لگا دی اور بھنگڑے ڈالنے شروع کر دیے جیسے بہت بڑا معرکہ مارلیا ہے۔بے حسی کی انتہا کہ آپ نے ایک رشین کتیا بھی پال رکھی تھی وہ جب بھاگ کر باہر نکلی تو ان ظالم سفاکوں نے اس کو بھی ان بھڑکتے شعلوں میں ڈال دیا لیکن وہ تھوڑی سی جلی اور بھاگ گئی اور بعد میں آپ کے دوست نے اس کو اپنے گھر رکھا اور وہ ٹھیک ٹھاک ہو گئی ۔ بعد میں ملک بشیر احمد صاحب اس کو گاؤں لے آئے اور کافی عرصہ تک ان کے پاس رہی۔آپ کے گھر کا تمام سامان جل گیا ۔ یہ آپ سب سماں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے لیکن زبان پر کوئی کلمہ ان کی سفاکی کے خلاف ادا نہیں کیا بلکہ زباں پر اللہ کے شکر کے کلمات جاری تھے، اور یہی احساسات تھے کہ اے اللہ تیرا شکر ہےکہ اس آزمائش کے لیے تو نے مجھ کو چنا ۔مجھے صبر عطا کرکہ میں ان آزمائشوں میں تیری جناب میں سرخرو رہوں او راحمدیت کی خاطر ہر قربانی کے لیے مجھے ثابت قدم رکھنا ۔آمین

اس کے بعد جب آپ کے بال بچے آئے تو آپ نے انہیں بھی صبر کی تلقین کی۔ آپ کا سارا سامان ان بے درد لوگوں نے جلا دیا ۔ آپ بازار سے ایک چٹائی ، چولہا، چند برتن اور آٹا اور چند چیزیں پکانے کے لیے لائے اور بستروں کا بندوبست کیا اور یوں رات دعاؤں میں بسر کی۔ اس صبر پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اتنا نوازا کہ آپ کے پاس ہر چیز کی فراوانی ہو گئی۔ یہ سچ ہے کہ جو آزمائشوں میں صبر کا نمونہ دکھاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرتا بلکہ انہیں نوازتا چلا جاتا ہے۔ اور یوں ہی ہوا اور آپ کو دنیا کی ہر نعمت ملی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے کشتی نوح میںفرمایا :’’تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو۔ کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے ‘‘ اور اس مصیبت میںآپ نے جو صبر کا مظاہرہ دکھایا۔یہی آپ کی ترقی کازینہ بنا۔

احمدیت سے والہانہ عشق

احمدیت نے آپ میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور کیوں نہ ہوتا۔کیونکہ آپ نے ایک سچاموتی پہچان لیا تھا۔آپ نے درِثمین کوپا لیا تھا۔آپ نے احمدیت کی حقیقی روح کو اپنے اندر سمو لیا تھا۔اس تعلق باللہ کی وجہ سے آپ نے جوانی میں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیمات کے مطابق رجوع کیا تھا۔آپ نےبتایاکہ تعلیمی ادارے آپ کے اندر جذب کی خاصیت اور انقلاب پیدا نہ کرسکے۔فوج کے ادارے نے نظم و نسق کی تعلیم دی اور سکھلایا۔اور میری تعلیم و تربیت احسن رنگ سے کی۔بعد ازاں احمدیت کے نور نے مجھے خالقِ حقیقی کے انوار سمیٹنے کی طرف مائل کیا اور میرے زندگی کے دھارے بدل دیے۔

ملک بشیر صاحب دعا کی قبولیت اور دعا کی اہمیت و فضیلت پر بہت یقین رکھتے تھے۔آپ توکل علی اللہ کے سہارے زندگی کا سفر طے کرنے کا عزم رکھتے تھے اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میرے لیے بہتری ہو تو اے اللہ مجھے کوئی دین کی خدمت کا کام سونپ دے یا پھر خدمتِ خلق کا کام سونپ دے تا کہ میںتیری خوشنودی کی خاطر یہ کام سر انجام دوں اور تیرا قرب حاصل کر سکوں۔

مسجد بشارت سپین کے افتتاح میں شمولیت

سپین میں مسلمانوں کی حکوت کے خاتمہ کے مدتوں بعد پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے رکھا ۔ جباس مسجد کا افتتاح حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے1982 ء کو فرمایا تو اس موقع پر ملک بشیر احمد صاحب کو افتتاح کی تقریب میں دوالمیال جماعت کی نمائندگی کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ وہی بشیر احمد ملک صاحب تھے ۔ جن کاپشاور میں ظالم ملاؤں نے سارے گھر کا سامان اس خیال سے جلا دیا تھا کہ اب یہ کیسے اپنے گھر کا سامان بنائے گا۔ لیکن انہیں کیا معلوم آج اللہ تعالیٰ نے اس پر ایسی نعمتوں کی بارش کردی کہ وہ آج سپین میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد احمدیہ کے افتتاح کے موقع پر جماعتِ احمدیہ دوالمیال کی نمائندگی کر کے تاریخِ احمدیت دوالمیال کو ایک اور اعزاز دلا رہاتھا۔

جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی خوش نصیبی

آپ نے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے 1942ء,1946ء کے جلسہ سالانہ قادیان دارالامان میں شرکت کی۔ 1942ء میں آپ 6th کلاس کے طالب علم تھے۔ اور 1946 ء کا جلسہ سالانہ قادیان پاکستان بننے سے پہلے کا آخری جلسہ تھا اور اس میں بھی آپ کو شرکت کا موقع ملا اور بعد میں 2014ءاور2017ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور تمام مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کا موقع ملا ۔قادیان میں آپ کے ساتھ بہت اچھے دن گزرے ۔ سردی بہت زیادہ تھی جس وجہ سے آپ کی طبیعت بہت خراب ہو گئی اور اس طرح آپ نے جلسہ میں پہلا دن شرکت کی۔ رات کو زیادہ طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے آپ واپس پاکستان آ گئے۔ اسلام آباد پہنچنے پر آپ نے اپنے فیملی ڈاکٹر کو کنسلٹ کیا اور آپ کی طبیعت سنبھل گئی۔ کئی دفعہ کہا کرتے تھے اس جلسہ کو ادھورا چھوڑ کر آنے کا مجھے بہت دکھ ہے۔

پانچ ہزاری مجاہدین تحریکِ جدید اور دوسرے رشتہ داروں کے ناموں کو زندہ رکھا

پانچ ہزاری مجاہدین تحریکِ جدید اور دوسرے رشتہ داروں کے ناموں کو زندہ جاوید رکھنے کی تحریک پر آپ کو دوالمیال جماعت کے23 مجاہدین کے چندوں کو دمِ آخر تک اداکرنے کی توفیق ملی ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی اولاد کو اس نیکی اور صدقہ جاریہ کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

کتابوں کے عطیات سے نوازنا

جب بھی آپ حضرت مسیح موعودؑ کی کسی کتاب کا یا سلسلےکی کتب کا مطالعہ کرتے تو یہ آپ کا میرے ساتھ شفقت کا سلوک تھا کہ آپ خاکسار کو نہ صرف بتاتے بلکہ اس کو پڑھنے کے بعد ضرور مجھ سے پوچھتے کیا تمہارے پاس یہ کتاب ہے یا اس کی ایک کاپی چاہیے تو پھر شفقت کے طور پر ایک کاپی بھیج دیتے۔ اور جس جگہ بھی دوالمیال یا ضلع چکوال کا ذکر ہوتا تو مجھے ٹیلیفون پر ضرور بتاتے اور ساتھ اس کے نوٹس بھی لے لیتے اور حوالہ بھی نوٹ کر کے میری طرف کسی کے ہاتھ بھیج دیتے یا جب دوالمیال کا چکر لگاتے تو وہ سب نوٹس مجھے دے دیا کرتے تھے۔

سماجی بہبود کے کام

آپ کے اخلاق، مروت اور عوام سے محبت کے نقوش آج بھی گاؤں اور اس وادی میں زندہ ہیں اور لوگوں کے دلوں میں کندہ ہیں۔

آپ نے گاؤں کی بہبود کے انگنت کام کیے جن کا ذکر کبھی آپ اپنی زبان پر نہ لائے۔ آپ ایک خاموش سوشل ورکر تھے۔تاریخِ احمدیت ضلع چکوال میں نہ صرف آپ نے قلمی معاونت کی بلکہ اس کی اشاعت میں آپ کا بہت زیادہ مالی تعاون بھی رہا۔گاؤں کے بڑے تالاب کی مکمل چار دیواری بنانے کے محرک آپ ہی تھے ۔اور آپ کی کوششوں سے ہی یہ پایۂ تکمیل تک پہنچی۔سوئٹزرلینڈ کے سفیر کو دوالمیال میں بلا کر دوالمیال میں شجر کاری کا افتتاح کروا کر ، شجر کاری کی مہم کی تکمیل کرائی۔گاؤں میں مرغبانی کے رجحان کو تقویت دینے کے لیے ، گاؤں کے لوگوں میں مرغیوں کی تقسیم۔گاؤں کے زمینداروں کی خوشحالی کے لیے مفت کھاد اور بیج کی تقسیم ۔ فصلوں کی دیکھ بھال کے لیے دوالمیال گاؤں کو FAO کی ماڈل گاؤںکی سکیم میں شامل کروا کر فیصل آباد زرعی یونیورسٹی سے مختلف ریسورس پرسنز اور ماسٹر ٹرینرز کی سہولیات سے آگہی کے پروگرام مرتب کروائے۔لائیو سٹاک کی نئی نسلوں کادوالمیال میں تعارف اور ان کو پالنے کے پروگرام۔جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کی بیماریوں کے حفاظتی ٹیکہ جات لگوانے کے لیے بارانی انسٹیٹیوٹ خیری مورت کی جانب سے ویٹرنری اسسٹنٹس کی دوالمیال میں ٹریننگ اور خیری مورت میں ٹریننگ۔چھوٹے پیمانے پر زمینداروں کے لیےفراہمی زرعی آلات ۔مفت فراہمی بیج برائے زمینداران۔گھریلو پیمانے پر گھروں میں کام کرنے کے مواقع کو فروغ دینے کے لیے گھریلو خواتین کو ہنر سکھانے کا پروگروم۔UNICEF کی جانب سے عورتوں کو ہنر سکھانے کے لیے ٹرینرز کا دوالمیال میں انتظام، گڑیا بنانے، موڑھے بنانے ،دریاں بنانی وغیرہ۔ غریبوں اور مستحق لوگوں کے لیے مالی امداد کے پروگرام۔ بچوں کی تعلیمی سہولیات کے لیے مالی اور تکنیکی معاونت کے پروگرام۔گاؤں کے لا تعداد غریب مریضوں کو اپنے گھر میں رکھ کر ان کے علاج معالجہ میں مکمل مالی معاونت، زیادہ تر کو تو خود اپنی کار میں لے جا کر ان کا علاج کرواتے۔ لوگوں کو جانور لے کر دیے تا کہ وہ اس سے اپنا گھر چلا سکیں۔

روز مرہ کے معمولات

ملک بشیر احمدصاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد احمدیت ، اسلام اور سماجی بہبود کے کاموںکے لیے اپنے آپ کو وقف کر لیا تھااور صرف اللہ سے لو لگا لی تھی۔

آپ کے روز مرہ کے معمولات کچھ اس طرح سے تھے۔روزانہ تہجد کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتے۔تہجد کی نماز کے بعد فجرکی نماز تک آپ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تھے ۔ فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ پھر قرآنِ مجید کی تلاوت میں مگن ہوجاتے۔قرآن کے خزائن کو دیر تک ڈھونڈتے رہتے اور غورو فکر سے قرآنِ مجید کے مطالب کو سمجھنے کی سعی کرتے۔اور قرآنِ مجید میں ایسے غرق ہوتے کہ دنیا و مافیہا کی خبرتک نہ ہوتی۔

ملک بشیر احمد صاحب کی بعض خصوصیات

آپ نے تقریباََ ساری عمر با وضو گزاری۔پنجوقتہ نماز کی پابندی سے ادائیگی ۔آپ کا کثرت سے روزے رکھنے کا معمول تھا۔جب سے حضورِ انور نے ہفتہ میںایک نفلی روزہ کی تحریک کی تھی تو اس دن سے جمعرات کا نفلی روزہ تو شاید ہی قضا ہوا ہو۔جب تک آپ کی اہلیہ مکرمہ لالاں بی صاحبہ حیات تھیں آپ ان کی سحری کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بہو نے آپ کی اس ڈیوٹی کو بڑے احسن رنگ میںسرانجام دیا اور دعاؤں سے اپنا دامن بھرا۔ آپ کے دمِ آخر تک آپ کی بہو نے حتی المقدور کوشش سے ملک بشیر صاحب کی مثالی خدمت سر انجام دی اوردعاؤں کی وارث بنی اللہ تعالیٰ اسے اس کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین

مذہبی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔دینی کاموں میںہر وقت قدم آگے۔ مہمانو ں کے آنے پر ہمیشہ خوش اور ان کا والہانہ استقبال ۔کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ بھیجنا ۔توکل علی اللہ اور تقویٰ کا کامل وجود۔ ہر وقت اور ہر حال میںخداوندِ قدوس کا شکر۔ہر غمی اور شادی میں شرکت کا پکا معمول۔ دوسروں کے اچھے کام دیکھ کر ،محنت کرتے ہوئے دیکھ کر خوشی کا احساس ہوتا تھا اور ان کے کاموں کو ہمیشہ سراہتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

مکرم ملک بشیر احمد صاحب ان بزرگوں میں سے تھے جو بلا شبہ صداقتِ احمدیت کی چلتی پھرتی تصویریں تھیں۔آپ ایک باعمل بزرگ۔حتی الوسع تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے درویش صفت انسان تھے۔زندگی کا ہر لمحہ احمدیت کے لیے وقف رہا۔فرض کو فرض سمجھ کر نبھایا۔ہر دور میں ثابت قدمی آپ کا شیوہ رہا۔زمانہ عسر و یسر میں خدا کی رضا پر شاکر۔آپ امامتِ احمدیت کے فدائی اور جاں نثار تھے۔اور امامِ وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری آپ کی زندگی کا طرہ امتیاز تھا۔آپ کو دینی اور جماعتی کاموں سے اس قدر پیار تھاکہ سب کچھ اس کے لیے قربان کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔آپ کی وجاہت، طرزِ تخاطب،انتظامی امور میں بلند کرداری،خدمتِ دین میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی جرأت اور پابندی وقت آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز کرتے ہیں۔

آپ ہمیشہ تحریک کرتے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب اور کتبِ سلسلہ احمدیہ کا مطالعہ کیا جائے۔اس سے مطالعہ میں وسعت،شوق اور علم میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔سلسلہ پر یقینِ کامل ہوتا ہے اور اصل اسلام کی دل میں تڑپ پیداہوتی ہے۔احمدیت کی روح پیدا ہونے سے انسان میں روحانی انقلاب رونما ہوتا ہے۔اس کے ذریعہ سے آئندہ نسلوں کی تربیت،ان کے علمی معیار کو بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کا بےانتہاجذبہ آپ کے قلبِ صافی میں موجزن تھا۔ضعیف افراد بلکہ سب کی دلداری اور ان کے جذبات کا آپ تہ دل سے خیال رکھتے تھے۔

آپ کا وجود جماعت ہائے احمدیہ ضلع چکوال،اہلِ دوالمیال اور اہلَ علاقہ کے لیے حقیقی رنگ میں نافع الناس وجود تھا۔آپ کی ایک خاص خوبی یہ تھی کہ دن رات کام کرتے تھے۔ آخری وقت میں بھی آپ زیادہ وقت کام کرتے رہے۔چہرے پر تھکان کے آثار نہیں ہوتے تھے۔ہمیشہ مسکراتے رہتے۔اپنے قول و فعل سے شرفِ انسانیت کابہت لحاظ رکھتے ۔ہر کس و ناکس کو بڑے پیار اور محبت سے ملتے کسی کی دل شکنی نہیں کرتے تھے۔ہر ایک کی خیر خواہی اور راہنمائی فرماتے۔جنازوں میں آپ بڑے اہتمام سے شامل ہوتے اور تدفین میں بھی شرکت کرتے ۔دینی شعار کو اپنانے کے لحاظ سے آپ عمدہ مثال تھے۔نظام کی پابندی کرنے والے اور امامِ وقت کے لیے انتہائی احترام رکھتے تھے۔نظامِ خلافت کی اطاعت ہی آپ کا نصب العین ،آپ کا یقین،آپ کا فکراور آپ کا جنون تھا۔اور اطاعت کو ہی آپ کامیابیوں کا سب سے بڑا اور اہم زینہ سمجھتے تھے۔

جب سانحہ دوالمیال کے چاروں اسیران کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے رہائی ملی تو آپ نے اپنے گھر لوئی بھیر اسلام آباد میں دعوت پر مدعو کیا۔ اور اس دعوت میں امیر صاحب اسلام آبادکو بھی مدعو کیا ۔

گاؤںمیں جس گھر بھی کوئی غمی خوشی کا موقع ہوتا آپ اور آپ کی اہلیہ ضرور آکر شامل ہوتے تھے اور اپنی دعاؤں سے نوازا کرتے تھےاور ہر قسم کا تعاون فرمایا کرتے تھے۔

ملک بشیر احمد صاحب ہم سب کو چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں ۔ہم سے ہمیشہ کے لیے الوداع ہو چکے ہیں۔مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ہیںاور اس عارضی زندگی کو خیر باد کہہ کر ابدی زندگی کی جانب اپنا سفر شروع کرچکے ہیں۔ اس خدا کے پاس لوٹ کر جانے والے وعدہ کے مطابق اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر اس خالقِ حقیقی کی طرف واپس لوٹ چکے ہیںاور منوں مٹی کے نیچے ہم سب سے دور بہت دور چلے گئے ہیں ۔

ملک بشیر صاحب ایک مشن کا نام تھا۔ دکھی انسانیت کی خدمت کا مشن ۔شرافت ، بے لوث مروت کا مشن۔رفاقت کامشن۔ انفاق فی سبیل اللہ کا مشن۔بے کسوں کی کفالت کا مشن۔ حضرت مسیح موعود ؑکی تبلیغ کا مشن۔آپ ایک مثالی احمدی، جنہوں نے اپنی تمام عمر میں کبھی جھوٹ کا سہارا نہیںلیا۔ آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیمات کو ہمیشہ پلے باندھے رکھا۔اطاعتِ خلافت کو ہر رنگ میں ملحوظِ خاطر رکھا اور کامیابیاں ہی کامیابیاں ہمیشہ آپ کا مقدر بنیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button