تاریخ احمدیتمتفرق مضامین

مفکر پاکستان،علامہ شیخ محمد اقبال صاحب(نمبر19)

(عمانوایل حارث)

(مارچ1897ء)

چوہدری شہاب الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ نے کہا کہ یہ ضرور سچا ہے ہم تو بیعت کرتے ہیں ۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب، چوہدری شہاب الدین صاحب، ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری اور خاکسار نے بیعت کر لی

حضرت بابو غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ (ولادت: 1860ء، وفات:اپریل 1946ء) روایت کرتے ہیں کہ ’’مارچ 1897ء میں ہم لاہور کے کافی نوجوانوں نے جو سارے کے سارے تعلیم یافتہ تھے اور جن کی صحیح تعداد یاد نہیں رہی، ارادہ کیا کہ حضرت مرزا صاحب کو قادیان جا کر دیکھنا چاہئے کیونکہ باہر تو انسان تصنع سے بھی بعض کام کر سکتا ہے لیکن اگر اس کے گھر میں جا کر اسے دیکھا جائے تو اصل حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ خیر ہم حضرت اقدس کے دعویٰ کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے عازم قادیان ہو گئے ۔ہم میں سے ہرشخص نے الگ الگ اعتراضات سوچ لئے تھے جو وہ کر نا چا ہتا تھا۔ مولوی محمدعلی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر محمد اقبال صاحب، مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری، چوہدری شہاب الدین صاحب، مولوی سعدالدین صاحب ( بی اے ایل ایل بی ) وغیرہ بھی اس قافلہ میں شامل تھے ۔خواجہ کمال الدین صاحب جو1894ء میں بیعت کر کے سلسلہ عالیہ میں داخل ہو چکے تھے۔ مگر آپ چونکہ اس پارٹی اور خصوصاً مولوی محمد علی صاحب کو تبلیغ کیا کرتے تھے اس لئے آپ بھی ہمارے ساتھ گئے تھے۔ جب ہم قادیان پہنچے تو گول کمرہ میں ہمارے لئے ملاقات کا انتظام کیا گیا ۔حضور جب تشریف لائے تو آتے ہی ایک تقریر کے رنگ میں ہمارے ایک ایک اعتراض کو لے کر اس کا جواب دینا شروع کیا۔ حتی کہ ہم سب کے اعتراضات کا مکمل جواب آ گیا ۔ تب ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر تعجب کر نے لگے کہ یہ کیسے ہوا ؟ جب باہر نکلے تو بعض نے کہا کہ یہ سچ مچ مامور من اللہ ہے اور بعض نے کہا یہ جادوگر ہے ۔ چوہدری شہاب الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ نے کہا کہ یہ ضرور سچا ہے ہم تو بیعت کرتے ہیں ۔ چنانچہ مولوی محمد علی صاحب، چوہدری شہاب الدین صاحب، ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری اور خاکسار نے بیعت کر لی ۔ بعض اور لوگوں نے بھی بیعت کی تھی مگر ان کے نام مجھے یادنہیں رہے ۔ اندازاً بارہ تیرہ آدمیوں نے بیعت کی تھی۔

رات کو کھا نا کھانے کے بعد جب چارپائیاں تقسیم ہوئیں تو میں نے مضبوط اور بڑی چارپائی لے لی مگر چو ہدری شہاب الدین صاحب نے (جو بعد میں سر شہاب الدین کہلائے) میرا بستر اس سے اٹھا کر میری چار پائی پر قبضہ کر لیا ۔ حضرت صاحب تشریف لائے ۔ ہر ایک سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ ہر شخص نے کہا کہ حضور مجھے کوئی تکلیف نہیں۔لیکن جب میرے پاس پہنچے تو میں پریشان کھڑا تھا کیونکہ میری چار پائی پر چوہدری شہاب الدین صاحب قبضہ کر چکے تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور! میری چار پائی چوہدری شہاب الدین نے چھین لی ہے اور میں حیران ہوں کہ کہاں سوؤں ۔ فرمایا ۔ ٹھہریئے! میں آپ کے لئے اور چار پائی لاتا ہوں ۔ چنانچہ حضرت صاحب تشریف لے گئے۔ مگر جب کا فی دیر گزرگئی اور چار پائی نہ آئی تو میں نے حضور کے مکان کے صحن کے دروازہ سے اندر جو جھانکا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص جلدی جلدی چار پائی بُن رہا ہے اور حضور اس کے پاس بیٹھےہوئے دیا ہاتھ میں لے کر اسے روشنی کر رہے ہیں۔حضور کی یہ حالت دیکھ کر مجھے بہت شرم آ ئی ۔ میں آگے بڑھا اور عرض کی کہ حضور دیا مجھے پکڑا دیں مگر حضور نے فرمایا کہ اب تو ایک ہی پھیرا باقی ہے ۔ حضور کے یہ اخلاق دیکھ کر مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میرے آنسو نکل آئے۔اس وقت میں حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ یہ چہرہ جھوٹے شخص کا ہر گز نہیں ہوسکتا۔

اس سے پہلے جب ہم مغرب کے بعد حضور کے ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے تو میں چونکہ حضور کے قریب تھا۔ حضور اٹھاتے بٹیر اور فرماتے کہ یہ کھا ئیں۔ دوسرا گوشت اٹھاتے اور میرے آگے رکھ کر فرماتے کہ یہ کھائیں ۔ اس لئے میں حضور کے اخلاق عالیہ سے بہت ہی متاثر تھا۔ مگر رات چار پائی والے واقعہ کو دیکھ کر تو میں دل و جان سے حضور کا غلام بن گیا ۔

چوہدری سر شہاب الدین صاحب اب بڑے آدمی ہیں مگر میرے ساتھ اسی طرح بے تکلفی سے با تیں کرتے ہیں۔ مجھے جب بھی ان سے ملنے کا موقع ملتا ہے یہی کہتے ہیں کہ دیکھا! میں حضرت صاحب کو اب بھی نبی مانتا ہوں ۔ گو اپنے اعمال کی وجہ سے نظام سلسلہ میں داخل نہیں ۔ مگر مولوی محمدعلی صاحب نے انکار کر دیا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ‘‘(لاہور تاریخ احمدیت۔ مرتبہ :شیخ عبدالقادر(سابق سوداگرمل) ایڈیشن اول: فروری 1966ء۔ صفحہ217اور 218)

حضرت بابو غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ آپ 1860ء میں پیدا ہوئے اور مارچ 1897ء میں بیعت کی سعادت پائی اور آپ 25؍اپریل 1946ء کو 86 سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قادیان میں قیام اور گرداسپور، امرتسر ، لاہور اور دہلی کے اسفار کی بہت سی قیمتی روایات کے راوی تھے۔ ان روایات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی، مہمان نوازی، توکل علی اللہ، اور اپنے ماننے والوں سے گہری محبت کا پتا چلتا ہے۔ آپؓ ایک درمیانے قد کے آدمی تھے اور آپ کی آواز بہت زیادہ اونچی تھی۔ چونکہ آپ گھڑیوں کی مرمت کرنا جانتے تھے، اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی گھڑی کی مرمت بھی آپ سے ہی کرواتے تھے۔

آپؓ لاہور میں فوت ہوئے۔ جنازہ قادیان لے جایا گیا، بہشتی مقبرہ میں تدفین سے قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایااور ان کا قابل رشک ذکر خیر فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button