آسٹریلیا (رپورٹس)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خدام الاحمدیہ Brisbane آسٹریلیا کی (آن لائن) ملاقات

خلیفہ وقت تو روحانی پیشوا ہے وہ کہیں بھی ملک کی حکمرانی نہیں کرے گا…خلیفہ وقت کا کام ہے روحانی تربیت کرنا

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 19؍جون 2022ء کو خدام الاحمدیہ Brisbane، آسٹریلیا سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ خدام الاحمدیہ نے مسجد مبارک Brisbaneسے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ اس کےبعد خدام کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک خادم نے پوچھا کہ حضور جماعت کے کام اور دفتر کی مصروفیت کے ساتھ اپنے گھر والوں کے لیے کیسے وقت نکالتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب میں کھانے پر بیٹھتا ہوں اس وقت میرے ساتھ گھر والے آ جاتے ہیں اور وہیں باتیں ہو جاتی ہیں۔ گھریلو باتیں بھی ہو جاتی ہیں دوسری باتیں بھی ہوجاتی ہیں، کوئی تربیت کی باتیں بھی ہو جاتی ہیں، کوئی علمی باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور وہی سب سے بہترین وقت ہوتا ہے۔

ایک خادم نے عرض کیا کہ اگر مستقبل میں جماعت کی کسی ملک میں اکثریت ہوجائے اور وہاں جماعت کی حکومت قائم ہوجائے تو کیا خلیفہ وقت اس ملک کی حکمرانی کریں گے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ خلیفہ وقت تو روحانی پیشوا ہے۔ وہ کہیں بھی ملک کی حکمرانی نہیں کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:

مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا

مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار

خلیفہ وقت کا کام ہے روحانی تربیت کرنا۔ ایک ملک میں ہوجائے گی تو دوسرے ملک میں بھی ہوجائے گی۔ دوسرا ملک کہے گا آپ سے تو میں اختلاف کر ہی نہیں سکتا۔ خلیفہ وقت سے بیعت کی ہوئی ہے پھر تیسرا ملک ہوجائے گا چوتھا ملک ہو جائے گا۔ تو یہ جو پولیٹیکل سسٹم ہے یا گورنمنٹل سسٹم ہے یہ تو اپنا ایک علیحدہ نظام چلتا جائے گا اور خلیفہ وقت سب کو روحانی طور پر گائیڈ (guide)کرنے والا ہوگا۔ اس کو حکومتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے بھی اس طرح کی ایک بات کہہ دی کہ اگر دو مختلف گروپ مسلمانوں کے یا حکومتیں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ، مل کے صلح کرائیں اور ان کی جنگ کو روکیں اور اگر وہ نہ رکیں تو سختی کریں اور جب وہ باز آجائیں پھر ظلم نہ کرو، انصاف سے کام کرو اور ان کو establish ہونے دو۔ اور یہاں مسلمان حکومتوں کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومتیں قائم رہیں گی۔ اُس زمانے میں جب قرآن شریف نازل ہوا تو ایک حکومت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں ایک تھی۔ پھر جو بعد میں مسلمانوں میں ملوکیت کا زمانہ بھی آیا تب بھی بڑی حکومت بڑا عرصہ تک ایک رہی۔ اس کے بعد پھر چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ لیکن یہ پیشگوئی تھی کہ حکومتیں اس طرح قائم ہو جائیں گی۔اس وقت روحانی پیشوا کے طور پر مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کے بعد جو خاتم الخلفاء ہیں خلیفہ وقت کا کام ہو گا کہ سب کی روحانی تربیت کرے اور روحانی طور پر گائیڈ کرے۔ اور اگر کہیں آپس میں ان کے اختلافات ہوں، لڑپڑیں، ہمسائے لڑ پڑتے ہیںآپس میں،دو بھائی بھی لڑ پڑتے ہیں ،تو پھر ان میں صلح کرا دیں۔ اس لیے خلیفہ وقت کا حکومت کرنے کاکوئی کام نہیں ہے ۔

ایک خادم نے عرض کیا کہ ٹیٹو (tattoo)بنوانا قدیمی آسٹریلیا کی قبائلی ثقافتوں میں اہم ہے۔ کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے جیسے بھی انسان کو بنایا ہے انسان کو وہ تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبصورت شکل، صورت، بدن، صحت وغیرہ سب عطا فرمایا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو اپنے بدن پر تصاویر لگاکر کیوں تبدیل کرنا چاہتاہے؟ آنحضورﷺ فرماتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ لیکن بہرحال، وہ لوگ جو یہ کام پہلے سے ہی کرچکے ہیں اور بعد میں اسلام قبول کرتے ہیں، ہم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، انہیں ہمارے نظام میں مکمل طور پر شامل کیا جائے گا۔ اس کے متعلق کچھ خدشات کا اندیشہ بھی ہے کہ ایک معین عمر کے بعد لوگوں کے ٹیٹو مسخ ہوجاتے ہیں، پھر وہ انہیں مٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتے۔ بعض ٹیٹو ایسے ہیں جو مستقل طور پر لگے رہتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو عارضی طور پر لگے رہتے ہیں۔ دونوں قسم کے ٹیٹو اسلام میں جائز نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، وہ لوگ جنہوں نے ٹیٹو بنوائے ہیں اور وہ بعد میں اسلام اور احمدیت قبول کرلیں تو انہیں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان ٹیٹو کی وجہ سے آپ کا اسلام قبول نہیں ہوسکتا۔ وہ جو کچھ کرچکے ہیں وہ سب ماضی میں ہوچکا ہے۔ لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تخلیق کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کو اس تخلیق کو اسی طرح قبول کرنا چاہیے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔

ایک نومبائع خادم نے عرض کیا کہ پیارے حضور میں نے پچھلے سال بیعت کی تھی اور میرے والدین نے میرے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ خود نہیں سمجھتے کہ وہ اسلام میں داخل ہوں گے۔ میرا دل ہے کہ مستقبل میں میرا احمدی گھرانہ ہو اور حضورانورسےراہنمائی طلب کرنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے والدین کو اپنے عقائد کے متعلق کیسے تعلیم دے سکتا ہوں تاکہ مستقبل میں نااتفاقیوںسے گریز کیا جاسکے؟

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، جب آپ ایک احمدی لڑکی سے شادی کریں گے اور آپ کے بچے ہوں گے اور جب آپ ایک ایسے ماحول یا جگہ پر رہ رہے ہوں گے جہاں آپ کے والدین بھی رہتے ہیں پھر بجائے اس کے کہ آپ چھوٹی موٹی باتوں پر ان سے بحث کریں، آپ صرف انہیں اتنا بتائیں کہ ہمارے درمیان جو بنیادی اخلاق کی باتیں ہیں، وہ بعینہٖ ایک ہی ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ، ہر قسم کی بری بات سے بچو۔ اور اگر آپ کے والدین احمدی نہیں ہیں تب بھی وہ اس سے اتفاق کریں گے۔ ماحول بھی آپ کے بچوں پر اثر انداز ہوگا اگر آپ ان کی تربیت کے بارے میں محتاط نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کو خاص خیال رکھنا ہوگا کہ ان کی ایسے ماحول میں تربیت کی جائے جہاں وہ اپنے مذہب کے بارے میں جانتے ہوں۔ چنانچہ آپ کو پہلے باعمل مسلمان بننا ہوگا، آپ کی بیوی کو بھی باعمل مسلمان بننا ہوگا، یہ بنیادی ضرورت ہے۔ اور اس طرح آپ اپنے بچوں کے سامنے اپنا نمونہ قائم کرسکیں گے۔ اور پھر انہیں پڑھائیں اور بتائیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور ہم کیوں مسلمان ہیں؟ اور اگر وہ آپ سے پوچھیں کہ ہمارے دادا، دادی کیوں مسلمان نہیں ہیں؟ تو آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔ چنانچہ جس مذہب کو بھی انہوں نے پسند کیا انہوں نے اسے اپنا لیا، لیکن جس مذہب کو ہم عمدہ محسوس کرتے ہیں ہم نے اس مذہب کو اختیار کرلیا، اور انہیں بتائیں کہ ہم نے کیوں یہ مذہب اپنایا ہے؟ ہمیں اسلام کیوں پسند ہے؟ چنانچہ اس طرح آپ اپنے بچوں کی تربیت کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ اپنے والدین کو اسلامی تعلیمات کی خوبصورتی کے بارے میں بتائیں، جب انہیں اسلامی تعلیمات کی خوبیوں کا علم ہوگا تو وہ ہمیشہ اس بات کو سنیں گے جو آپ کہہ رہے ہوں گے۔ جب وہ آپ میں خاص تبدیلی دیکھیں گے اور آپ اپنی سابقہ زندگی سے مختلف ہوں گے پھر وہ جان جائیں گے کہ ہمارا بیٹا صراط مستقیم پر ہے۔ ان کے لیے دعا بھی کریں، جیسے والدین کی دعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے،اسی طرح سے بچوں کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں اگر وہ اپنے والدین کے لیے دعا کرتے ہیں۔ تو اس لیے ان کے لیے دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو کھول دے، مگر اس کے لیے آپ کو سب سے پہلے اپنے نفس کا تزکیہ کرنا ہوگا، ایک باعمل مسلمان بننا پڑے گا پھر اپنے بچوں کے سامنے ایک نیک نمونہ پیش کریں، پھر ان کی تربیت کریں اور اس کے لیے آپ کو ایک مجاہدہ کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ کے بچوں پر اس معاشرے کا اثر ہوگا اور وہ اسلام کی تعلیمات سے دور ہوجائیں گے۔

ایک خادم نے سوال پوچھا کہ ہم جنریشن گیپ کو کس طرح ختم کرسکتے ہیں جو فیملیز اور جماعتوں کے نقصان کا باعث بن رہا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ بچپن سے ہی آپ کو اپنے بچوں کی تربیت کرنا ہوگی۔ انہیں بتائیں کہ مذہب کیا ہے۔ انہیں بتائیں کہ وہ احمدی مسلمان کیوں ہیں۔ تو اگر انہیں مذہب کے ساتھ لگاؤ ہوگا، آپ ان میں مذہب کی اہمیت کو اُجاگر کریں گے، تو وہ مذہب کے بارے میں زیادہ سیکھنا چاہیں گے اور جب وہ مذہب کے بارےمیں، باوجود جنریشن گیپ ہونے کے، مذہب کے متعلق سیکھیں گے، تو اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ تو ایک چیز تو یہ ہے کہ انہیں مذہب کے ساتھ جوڑنا ہوگا اور یہ صرف اور صرف تب ہوگا جب آپ ان کی تربیت کریں گے اور اپنا نیک نمونہ ان کے سامنے پیش کریں گے۔ دیکھیں، وہ تعلیم یافتہ ہیں۔ جب وہ آپ سے سوالات کرتے ہیں تو بجائے یہ کہنے کے کہ نہیں اس قسم کا سوال نہ کرو، اسلام تو کہتا ہے کہ یہ تو آپ کا فرض ہے کہ آپ ان کے معاملات میں تسلی کروائیں۔ اور اگر آپ کے پاس دینی علم نہیں ہے تو پھر مربی سے پوچھ سکتے ہو کہ میرے بچوں کا یہ سوال ہے اس کا جواب دے دیں۔ اور اگر سوال دنیاوی علم کے بارے میں ہے کہ ہم کس طرح دنیا اور دین کی مصالحت کرسکتے ہیں تو ہوسکتا ہے کچھ کتب کا مطالعہ کرنا پڑے، تو انہیں کہو کہ وہ بھی پڑھیں۔ جماعت کے لٹریچر میں بھی ایسی کتابیں موجود ہیں جو پڑھی جاسکتی ہیں۔ تو اس طرح سے تم نسلوں میں فاصلے کو کم کرسکتے ہو۔ لیکن بچوں کے ساتھ ایک بہت دوستانہ تعلق ہونا چاہیے۔ آج کل بچوں کی یہ عادت ہے اور یہ اچھی عادت ہے کہ وہ پوچھتے ہیں ’’کیوں؟‘‘ اور آپ کو اس ’’کیوں ‘‘کا جواب دینا ہے۔ آیا مذہب کے بارے میں ہو یا دنیاوی امور کے متعلق ہو۔ تو ان کا جواب دینے کے لیے اپنے علم کو بھی بڑھانا ہوگا۔ اس بات کا سارا بوجھ جماعت پر نہیں ڈال دینا، خود بھی اُٹھانا ہوگا۔

ایک خادم نے سوال پوچھا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توقعات پر کس طرح پورا اتر سکتا ہوں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ باقاعدگی سے پنجوقتہ نماز ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقام کے مطابق بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی جماعت سے توقعات ہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کریں۔ اس کے معانی جانیں۔ اوامر اور نواہی سے باخبر ہوں اور ان پر عمل کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کے حوالے سے جو بھی لٹریچر میسر ہو اس کو پڑھنے کی کوشش کریں۔ تو اس طرح سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توقعات پر پورا اتر سکتے ہو اور ایک اچھے احمدی بن سکتے ہو۔

ایک اور خادم نے عرض کیا کہ کچھ خدام غیر احمدی لڑکیوں سے شادی کرلیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی نسلیں بھی غیر احمدیوں سے ہی شادی کرتی ہیں۔ہم کس طرح اس سے بچ سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ اپنی نسل کو بچانا چاہتے ہو اور اپنی نسلوں کو جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنا چاہتےہو اور ان کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے جوڑے رکھنا چاہتےہو تو پہلی چیز یہ ہے کہ آپ خود اپنی دینی تعلیم کو بڑھانے کی کوشش کرو۔ آپ کو خود اس بات کا علم ہو کہ مذہب کیا ہے۔ اور پھر آپ کو یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ آپ کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ اگر آپ کی خواہشات اور ترجیحات صرف دنیا کے لیے ہیں تو پھر نتیجہ یہی ہوگا جو بعض لڑکے کر رہے ہیں کہ وہ غیر از جماعت کے ساتھ شادی کر رہے ہیں۔ اگر آپ کی ترجیح دین ہے جس کا آپ اپنے عہد میں اقرار کرتے ہیں کہ میں دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا تو پھر آپ کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ آپ ایک احمدی لڑکی سے شادی کریں۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے، (گزشتہ ملاقات میں مَیں نے یہی بات کی تھی )کہ انسان کسی عورت سے اس کے حسن، اس کے مال، اس کے خاندان کی وجہ سے شادی کرتا ہے۔ لیکن انسان کو ان عورتوں سے شادی کرنے کی ترجیح دینی چاہیے جو نیک اور دین دار ہوں اور جو روحانی لحاظ سے اچھی ہوں۔ چنانچہ اگر لڑکے ایسی لڑکیوں کو ترجیح دیں تو لڑکیاں بھی نیک بننے کی کوشش کریں گی، وہ اپنے دینی علم کو بڑھانے کی کوشش کریں گی اور یوں آپ اپنی آئندہ نسل کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب آپ شادی کرنے جارہے ہوں تو صرف دنیاوی خواہشات ہی آپ کی ترجیح نہ ہوں۔ مثلاً اپنے دین، اپنے ماحول، اپنی حیثیت اور اپنی آئندہ نسل کو کبھی نہ بھولیں۔ چنانچہ اسی لیے خطبہ نکاح کے موقع پر جن آیات کی ہم تلاوت کرتے ہیں ان میں سے ایک آیت میں ہے کہ آپ کو دیکھنا چاہیے کہ آپ اپنے مستقبل میں کیا آگےبھیج رہے ہیں اور مراد یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کی کیسے تربیت کریں گے۔ اور اگر آپ کی بیوی دیندار نہیں یا اس کا کوئی اور دین ہے یا اس کے مذہب کے بارے میں مختلف تصوّرات ہیں یا اس کا کوئی روحانی معیار نہیں تو آپ کی نسل بھی خراب ہوجائے گی نہ صرف جماعت سے باہر شادی کرتے وقت بلکہ جماعت میں رہتے ہوئے بھی۔ آپ کو ایسی لڑکیوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو اچھی فطرت رکھتی ہوں، نیک ہوں اور دیندار ہوں۔ سو اس طرح ہم اپنی آئندہ نسل کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

ایک اور خادم نے عرض کیا کہ آجکل لوگ قرض لے کر گھر کی اور کاروبار کی اشیاء خریدتے ہیں جیسے کہ گاڑی فرنیچر اور دیگر سامان وغیرہ۔ اسی طرح کچھ احمدی احباب بطور finance broker اس طرح کے قرض دلانے کا کاروبار کرتے ہیں تو کیا یہ دونوں طریق جائز ہیں؟

اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اس طرح کے قرض لے کر خریداری کرنا تو اپنے آپ کو پھنسانے والی بات ہی ہے ناں۔ پھر قرضہ میں انسان فوت ہو جاتا ہے قرضہ میں مر جاتا ہے۔ قرضہ تو اترتا کوئی نہیں۔ جب جاتا ہے تو کریڈٹ کارڈ کا ایک انبار چھوڑ کے جاتا ہے۔ اگر انسان بھوکا مر رہا ہو تواللہ تعالیٰ نےوہاں اجازت دی کہ تم سؤر کا گوشت بھی کھا سکتے ہو، مردار بھی کھا لیتے ہو بعض دفعہ۔ لیکن جب ایسی حالت نہیں ہے تو صرف یہ کہ میرے فلاں دوست کے پاس نئی کار ہے تو میں قرض لے کے نئی کار خرید لوں۔ یہ چیز بالکل غلط ہے یا یہ کہ اس کے گھر میں فرنیچر آیا ہے، نیا صوفہ سیٹ لے کے آیا ہے، نئے بیڈ لے کے آیا ہے، نئی ڈائننگ ٹیبل لے کے آیا ہے اور لوگ اس کی بڑی تعریفیں کر رہے ہیں تو میں بھی لوں۔ بیوی کہتی ہے تم کیوں نہیں لے سکتے تم بھی تو آخر بینک سے قرض لے کے لے سکتے ہو تو یہ چیزیں جو ہیں یہ غلط ہیں اور پھر انسان اسی طرح قرضہ میں ڈوبتا ہوا دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس لیے سوائے اس کے کہ کوئی جائز ضرورت ہے اس کے علاوہ اس طرح کے قرض جائز نہیں۔ ہاں اگر انسان ایک مثلاً گھر ہے اس کا اپنا نہیں ہے کرائے پہ گھر لیا ہوا ہے وہ کرایہ دے رہا ہے اس گھر کا اور بینک سے loan لے کے وہ گھر خریدتا ہے اور کیونکہ وہ paymentنہیں کر رہا ہوتا اس لیے بینک والے کہتے ہیں اچھا اس مکان کی اگر اتنے عرصہ میں تم paymentکرو گے یہ قیمت ہو گی تو وہ جو اپنے کرائے کی رقم ہے وہ اس کو mortgage کے طور پہ ادا کر دیتا ہے تو اس میں یہ ایک جائز ضرورت ہے۔ رہنے کی ضرورت ہے تو اس میں وہ ادا کر دے اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر کسی سستی کار سے یا سستے فرنیچر سے گزارہ ہو سکتا ہے تو پھر بلا وجہ اپنے آپ کو قرضہ میں ڈالنے کی ضرورت کیا ہے اور پھر سود پہ قرضہ لینا۔ تو ان چیزوں کے لیے سود تو ویسے ہی اس طرح حرام ہے اس کے بغیر گزارہ بھی ہو جاتا ہے۔ گھر میں یہ ہے کہ آپ کرایہ بنک کو دے رہے ہیں، قیمت لگانے کی وجہ سے۔ گو ایک لحاظ سے یہ بھی جائز ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے مثلاً کہ اگر کوئی شخص اتنی قیمت مقرر کرتا ہے کسی چیز کی اورکہتا ہے اگر تم اتنے مہینے کے بعد ادا کرو گے تو اس کی قیمت اتنی ہو گی وہ اس حد تک جائز ہے لیکن یہ دیکھنے والی بات ہے کہ ضرورت کیا ہے۔ اگر صرف دنیا دکھاوے کی ضرورت ہے تو ناجائز ہے اگر گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہے تو پھر وہ جائز بن جاتی ہے۔ اسی لیے آجکل کا جو سسٹم ہے بینکنگ کا وہ بھی اتنا upset ہو گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بھی زیر و زبر ہوا ہوا ہے، اس کو نئے اجتہاد کی ضرورت ہے لیکن یہاں پھر وہی بات کہ دنیاوی خواہشات اگر مقدم ہو رہی ہیں جیسے پہلے میں نے کہا تھا اپنی preferenceکو دیکھنا ہو گا تو پھر وہ چیز غلط بن جاتی ہے۔ اگر ضروریات ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے کرنا ہے تو پھر وہ چیزجائز ہو جاتی ہے۔ (مزید وضاحت کے لیے آئندہ شمارہ الفضل انٹرنیشنل ملاحظہ فرمائیں)

ایک خادم نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً فرمایا تھا کہ ’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اِس نشاں کی پنج بار‘‘۔ اس بارہ میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ الہام دو بار جنگ عظیم کی صورت میں پورا ہو چکا ہے تو کیا باقی تین دفعہ پورے ہونے کا مطلب بھی جنگ عظیم کا ہونا ہے یا وہ کسی اور صورت میں پورا ہو گا؟

حضور انورنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو زلزلے کو بہت بڑانشان قرار دیا ہے ۔ پھر دو جنگ عظیم بھی ہو چکی ہیں۔ پھر طاعون ہے وہ بھی ہو چکا ہے، وہ بھی نشان تھا۔تو ہوسکتا ہے کوئی تیسری جنگ عظیم ہو جو پانچواں نشان ہو۔ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ یہ جنگ کی صورت میں ہو گا ویسے تو کوئی بڑا واضح قسم کا ایسا نشان جس کی اپنی ایک طاقت ہو نظر آ رہا ہو۔ جس طرح طاعون ہوا، جنگ عظیم ہوئی یا زلزلے بعض دفعہ آئے۔ لیکن اگر زلزلے بعض علاقوں میں آئے تو ان کو بھی نہ گنو تو ہو سکتا ہے یہ pandemic کووڈ کا جو پھیلا تھا یہ بھی تو ایک نشان ہی ہو سکتا ہے۔ یا اگلی جو جنگ آنی ہے یہ بھی نشان ہو سکتا ہے۔ تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ جنگ عظیم بھی ایک نشان میں سے ہو گا۔

ملاقات کے آخر میں حضور انور نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو فرمایا کہ گھنٹے سے زیادہ ہو گیا۔ …اللہ حافظ،السلام علیکم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button