کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

بہت سے لوگوں کو خداتعالیٰ کی ستّاری نے ہی نیک بنا رکھا ہے

اصل میں انسان کی خدا تعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے کیونکہ وہ ستّار ہے۔ بہت سے لوگوں کو خداتعالیٰ کی ستّاری نے ہی نیک بنا رکھا ہے۔ ورنہ اگر خدا تعالیٰ ستّاری نہ فرماوے تو پتہ لگ جاوے کہ انسان میں کیا کیا گند پوشیدہ ہیں۔انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلّق باخلاق اللہ کرے۔ یعنی جو جو اخلاق فاضلہ خدا میں ہیں اور صفات ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے۔مثلاً خدا تعالیٰ میں عفو ہے۔ انسان بھی عفو کرے۔رحم ہے۔ حلم ہے۔ کرم ہے۔ انسان بھی رحم کرے۔ حلم کرے۔ لوگوں سے کرم کرے۔خداتعالیٰ ستّار ہے۔ انسان کو بھی ستّاری کی شان سے حصہ لینا چاہئے اور اپنے بھائیوں کے عیوب اور معاصی کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی کی کوئی بدی یا نقص دیکھتے ہیں جب تک اس کی اچھی طرح سےتشہیر نہ کر لیں ان کو کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ حدیث میں آیا ہے جو اپنے بھائی کے عیب چھپاتا ہے خدا تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد 10صفحہ 339-340، ایڈیشن 1984ء)

ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں۔ لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں۔ کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے۔

(ملفوظات جلد 7صفحہ 77-78، ایڈیشن 1984ء)

خدا تعالیٰ کی ستاری ایسی ہے کہ وہ انسان کے گناہ اور خطاوٴں کو دیکھتا ہے لیکن اپنی اس صفت کے باعث اس کی غلط کاریوں کو اس وقت تک جب تک کہ وہ اعتدال کی حد سے نہ گذر جاوے ڈھانپتا ہے۔ لیکن انسان کسی دوسرے کی غلطی دیکھتا بھی نہیں اور شور مچاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کم حوصلہ ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات حلیم و کریم ہے۔ ظالم انسان اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتا ہے۔ اور کبھی کبھی خدائےتعالیٰ کے حلم پر پوری اطلاع نہ رکھنے کے باعث بیباک ہوجاتا ہے اس وقت ذو انتقام کی صفت کام کرتی ہے اور پھر اسے پکڑ لیتی ہے۔… وہ (خدا تعالیٰ) ایسا رحیم کریم ہے کہ ایسی حالت میں بھی اگر انسان نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ آستانہٴ الٰہی پر جاگرے تو وہ رحم کے ساتھ اس پر نظر کرتا ہے۔ غرض یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ ہماری خطاوٴں پر معاً نظر نہیں کرتا اور اپنی ستاری کے طفیل رسوا نہیں کرتا تو ہم کو بھی چاہئے کہ ہر ایسی بات پر جو کسی دوسرے کی رسوائی یا ذلت پر مبنی ہو۔ فی الفور منہ نہ کھولیں۔

(ملفوظات جلد 1صفحہ 299-300، ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button