تعارف کتابمتفرق مضامین

برکات الدعا

(ابوسلطان)

تعارف

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سرسید احمد خان کے رسالہ الدعا والاستجابۃ کے جواب میں یہ رسالہ برکات الدعا لکھا جس میں آپؑ نے ان کے پیش کردہ دلائل کو معقولی اور منقولی رنگ میں رد کیا اور خارجی وحی اوردعا کی قبولیت کے متعلق اپنا تجربہ پیش فرمایا۔ پھر اس رسالے کے آخر میں آپؑ نے پنڈت لیکھرام کے متعلق اپنی ایک قبول شدہ دعا کا ذکر بھی فرمایا جو سرسید احمد خان کی زندگی میں ہی پنڈت لیکھرام کی ہلاکت سے متعلقہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر سرسید احمد خان کے دوسرے رسالہ تحریر فی اصول التفسیر میں جو انہوں نے اپنے دوست حریف سے جو اصول مانگے تھے تو فرمایا کہ یہ خدمت بھی میں ہی کر دیتا ہوں اور آپؑ نے تفسیر کے سات اصول تحریر فرماکر لکھا کہ سر سید صاحب کی تفسیر ان ساتوں معیاروں سے اکثر مقامات میں محروم وبے نصیب ہے۔

مضامین کا خلاصہ

سر سید احمد صاحب کے رسالہ الدعا والاستجابۃ میں جو دعا کی حقیقت اور فلاسفی بیان کی گئی ہےاس کا خلاصہ حضور نے یوں تحریر فرمایاکہ سرسید کے نزدیک استجابت دعا کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ دعا میں مانگا گیاہے وہ دیا جائے کیونکہ اس سے دو مشکلیں پیش آتی ہیں اوّل یہ کہ ہزاروں دعائیں کی جاتی ہیں مگر سوال پورا نہیں ہوتا حالانکہ خدا کا وعد ہ ہے کہ ادعونی استجب لکم ۔ دوسری یہ کہ جو امور ہونے والے ہیں اورمقدر ہیں اور جو نہیں ہونے والے وہ بھی مقدر ہیں ۔اور ان مقدرات کے برخلاف ہرگز نہیں ہو سکتا۔ پس استجابت دعا کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ دعا ایک عبادت متصور ہو کر اس پر ثواب مترتب ہوتا ہے۔ گویا سر سید احمد صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ دعا صرف عبادت کے لیے موضوع ہے اور اس کو کسی دنیوی مطلب کے حصول کا ذریعہ قرار دینا طمع خام ہے۔

حضورؑ سرسید احمد خان صاحب کے خیالات کو درج کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ سید صاحب کو قرآنی آیات کے سمجھنے میں سخت دھوکہ لگا ہوا ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ اگر سید صاحب قرآن کریم کے سمجھنے میں فہم رسا نہیں رکھتے تھے تو کیا وہ قانون قدرت جس کی پیروی کا وہ دم مارتے ہیں وہ بھی اس مضمون کے لکھنے کے وقت ان کی نظر سے غائب ہو گیا۔

کیا سید صاحب کو معلوم نہیں کہ اگرچہ دنیا کی کوئی خیر و شر مقدر سے خالی نہیں تاہم قدرت نے اس کے حصول کے لئے ایسے اسباب مقرر کر رکھے ہیں جن کے صحیح اور سچے اثر میں کسی عقلمند کو کلام نہیں ۔ مثلاً مقدر پر لحاظ کرکے دوا کرنا درحقیقت ایساہی ہے جیساکہ دعا یا ترک دعا ۔ کیا سر سید صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ علم طب سراسر باطل ہے۔ پھر سر سید صاحب باوجود ایمان بالتقدیر کے اس بات کے قائل ہیں کہ دوائیں بھی اثرسے خالی نہیں ہیں تو پھر کیوں خدا تعالی کے یکساں اور متشابہ قانون میں فتنہ اور تفریق ڈالتے ہیں؟

کیا سید صاحب کا یہ مذہب ہے کہ خدا تعالیٰ اس بات پر تو قادر تھاکہ تربد اور سقمونیا اور حب الملوک میں ایسا قوی اثر رکھ دے کہ ان کی پوری خوراک کھانے سے دست چھوٹ جائیں لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع سے بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردوں کی طرح رہنے دے۔ افسوس صد افسوس کہ پیرانہ سالی کے باوجود سر سید صاحب یہ نہ سمجھ سکے کہ قضا و قدر کو اسباب سےوابستہ کر دیا گیا ہے۔

استجابت دعا کی حقیقت

استجابت دعا کا مسئلہ در حقیقت دعاکے مسئلہ کی ایک فرع ہے ۔ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا ہی نہیں ہوتا اس کو فرع کو سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں ۔ دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق جاذبہ ہے۔ یعنی پہلے خداتعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس کے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے۔

جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین ،امید ، محبت اور وفا داری کے ساتھ جھکتا ہے اور فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے،پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے… تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر تمام مبادی اسبا ب پر ڈالتاہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ مثلاً اگر بارش کے لیے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبیعہ جو بارش کے لیے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کیے جاتے ہیں۔

جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیاء ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل منبع یہی دعا ہے…وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بےکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللھم صل و سلم و بارک علیہ و الہ بعد دھمہ و غمہ و حزنہ لھذہ الامۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔ اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے۔

بعض دعائیں خطا جاتی ہیں

اور ان کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے۔ کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے۔کیا باوجود اس کے کوئی ان کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہےمگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا بلکہ اگر غور سے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں۔ مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب تقدیر ِعلاج پورے طور پر میسر آجاتے ہیں اور جسم بھی نفع اٹھانے کے لیے مستعد ہوتا ہےتب دوا نشانے کی طرح جا کر اثر کرتی ہے۔ یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے۔ یعنی دعا کے لیے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ الٰہی اس کے قبول کرنے کا ہے۔

بالآخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سید صاحب اپنے اس غلط خیال سے توبہ نہ کریں اور یہ کہیں کہ دعاؤں کے اثر کا ثبوت کیا ہے تو میں ایسی غلطیوں کے نکالنے کے لیے مامور ہوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سید صاحب کو اطلاع دوں گا۔

پھر سید صاحب کا یہ قول ہے کہ گویاقرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے حالانکہ تمام دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو یہ ان کی سخت غلط فہمی ہے اور یہ آیت ادعونی استجب لکم ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ یہاں ادعونی استجب لکم میں بطور امر، جو دعا بجا لانے کے لیے فرمایا گیا ہے، وہ عبادت ہےجو انسان پر فرض کی گئی ہے۔کیونکہ امرکا صیغہ فرضیت پر دلالت کرتا ہےاور کل دعائیں فرض میں داخل نہیں ہیں بلکہ بعض جگہ اللہ تعالیٰ نے صابرین کی تعریف کی ہےجو انا للّٰہ پر کفایت کرتے ہیں۔ پھر اس آیت میں ادعونی استجب لکم میں ادعونیکو عبادت کے لفظ سے یاد کر کے بحالت نا فرمانی عذاب جہنم کی وعید سنائی گئی ہے جبکہ دوسری دعاؤں میں وعید نہیں اور بعض اوقات انبیاء علیھم السلام کو دعا مانگنے پر زجر و توبیخ کی گئی ہے چنانچہ انی اعظک ان تکون من الجاھلین اس پر شاہد ہے۔

استجابت دعا کے لیےشرائط قبولیت کا جمع ہونا لازمی ہے

شرائط قبولیت دعا میں تضرع ،تقویٰ، طہارت، راست گوئی ،کامل یقین، کامل محبت اور کامل توجہ کے ساتھ ساتھ خلاف مصلحت الٰہی نہ ہو اور ارادہ الٰہی شامل ہو تو دعا قبول ہوتی ہے۔

سر سید احمد کے رسالہ استجابت دعا اورتحریر فی اصول التفسیر پر ریویو

سید صاحب نے کسی مدہوشی کی حالت میں یہ دونوں رسالے لکھے ہیں کیونکہ استجابت دعا کے رسالے میں تو تقدیر کو مقدم رکھتے ہیں اور اسباب عادیہ کو گویا ہیچ خیال کرتے ہیں۔نبیوں کے ہاتھ میں بجز دعا کے اور کیا تھا۔دوسرے رسالہ میں گویا سید صاحب تقدیر کو کچھ چیز ہی نہیں سمجھتے کیونکہ تمام اشیاء کو انہوں نے ایک مستقل وجود قرار دے دیا ہے گویا تمام چیزیں خدا کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ گویا خدائی ایک تنگ دائرہ میں محدود ہے اوراشیاء پر جو حالت وارد ہے وہ گویا ان کی ذاتی خاصیت ہے جن پر خدا کا کچھ بھی اختیار نہیں رہا پھر ایسے خواص کو اس کی تقدیر کیونکر کہا جائے ۔

سید عبدالقادر جیلانی ؓ کی کتاب فتوح الغیب کا ایک حوالہ عربی میں درج فرما کر اس کا اردو ترجمہ پیش فرمایا ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ ہر کامل کی دعا اور توجہ کا اثر ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے تجارب سے لکھا ہے۔

تفسیر قرآن کریم کے معیار

سید صاحب نے اپنے دوست حریف سے تفسیر قرآن کریم کا معیار مانگا ہے جس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے مناسب سمجھا کہ کسی قدر میں ہی خدمت کر دوں کیونکہ بھولے کو راہ بتانا سب سے پہلے میرا فرض ہے۔ تو جاننا چاہیے کہ اوّل معیار تفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہے۔ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لیے دوسرے کا محتاج ہو تو اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے معنی کریں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان معنوں کی تصدیق کے لیے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں۔ دوسرا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تفسیر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کریم کے معیار سمجھنےوالے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنھم حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےنوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خدا تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل تھا۔چوتھا معیار خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے کیونکہ نفس مطہرسے قرآن کریم کو مناسبت ہے جیسا کہ فرمایا لا یمسہ الا المطھرون( الواقعہ:80) یعنی قرآن کریم کے حقائق ان پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں۔ پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کر دیے ہیں کہ چنداں لغت عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں، ہاں موجب زیادتی بصیرت بے شک ہے۔ بعض اوقات لغت کھودنے سے توجہ پیدا ہو جاتی ہےاور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے۔ چھٹا معیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لیے سلسلہ جسمانی ہے کیونکہ خداوند تعالیٰ نے دونوں سلسلوں میں تطابق رکھا ہے۔ ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفات محدثین ہیں اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہےکیونکہ صاحبِ وحیِ محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہم رنگ ہوتا ہےاور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں۔ اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہےکیونکہ خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ بجز مطہرین کے علم نبوت کسی کو نہیں دیا جائے گا۔

وحی الٰہی کی حلفاً شہادت

فرمایا :سو اے عزیز سید! مجھے اس اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے ایسے گرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر ۔میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکالمہ الٰہی کا وقت آتا ہے تو اول یک دفع مجھ پر ایک ربودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیلی یافتہ چیز کی مانند ہو جاتا ہوں۔ اس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نےمیرے تمام وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اس وقت میں احساس کرتا ہوں کہ جو کچھ میرا ہے، اب وہ میرا نہیں، بلکہ اس کا ہے ۔جب یہ حالت ہو جاتی ہے تو اس وقت سب سے پہلے خدا تعالیٰ دل کے ان خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتا ہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہوتا ہے۔ تب ایک عجیب کیفیت سے وہ خیالات یکے بعد دیگرے نظر کے سامنے آتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال مثلاً زید کی نسبت دل میں آیا کہ وہ فلاں مرض سے صحت یاب ہو گا یا نہ ہو گا تو جھٹ اس پر ایک ٹکڑا کلام الہی کا ایک شعاع کی طرح گرتا ہے اور بسا اوقات اس کے گرنے کے ساتھ سارا بدن ہل جاتا ہے ۔پھر وہ مقدمہ طے ہو کر دوسرا خیال سامنے آتا ہے۔ ادھر وہ خیال نظر کے سامنے کھڑا ہوا اور ادھرساتھ ہی ایک ٹکڑا الہام کا اس پر گرا…لیکن یہ القا ءصرف اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کے تصرف میں آ جاتا ہے۔

محدثین کی حقیقت اور دعوی مجددیت

محدث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں اور ان کا جوہرِنفس انبیاء کے جوہرِ نفس سے اشد مشابہت رکھتا ہے…یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ انبیاء علیہم السلام دنیا سے بے وارث گزر گئے بلکہ ہر ا یک صدی میں ضرورت کے وقت ان کے وارث پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اس صدی میں یہ عاجز ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس زمانے کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے تا وہ غلطیاں جو بجز خدا تعالیٰ کی خاص تائید کے نکل نہیں سکتی تھیں وہ مسلمانوں کے خیالات سے نکالی جائیں اور منکرین کو سچے اور زندہ خدا کا ثبوت دیا جائے اور اسلام کی عظمت اور حقیقت تازہ نشانوں سے ثابت کی جائے۔سو یہی ہو رہا ہے…جس میں ایک ذرہ حُبُّ اللہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے وہ اٹھے اور آزمائے اور خدا تعالیٰ کی اس پسندیدہ جماعت میں داخل ہووے جس کی بنیادی اینٹ اس نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے۔غرض صحیح تفسیر کے لیے یہ معیار ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ سید صاحب کی تفسیر ان ساتوں معیاروں سے اپنے اکثر مقامات میں محروم اور بے نصیب ہے۔

وحی کی مثال

اگر دنیا کی چیزوں میں سے کسی کے ساتھ دی جائے تو شاید کسی قدرتار برقی سے مشابہ ہے جو اپنے ہر ایک تغیر کی آپ خبر دیتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ وحی کے وقت جو برنگ وحی ولایت میرے پر نازل ہوتی ہےخارجی اور شدید الاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے…میں دیکھتا ہوں کہ میں اس کی طرف ایسا کھنچا چلا گیا ہوں کہ میری کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس تصرف میں کھلا اور روشن کلام سنتا ہوں۔ بعض وقت ملائکہ کو دیکھتا ہوں اور سچائی میں جو اثر اور ہیبت ہوتی ہے،مشاہدہ کرتا ہوں اور وہ کلام بسا اوقات غیب کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ایسا تصرف اور اخذ خارجی ہوتا ہے جس سے خدا تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے۔ اب اس سے انکار کرنا ایک کھلی کھلی صداقت کا خون کرنا ہے۔

خدا جس نے ہمارے نظام جسمانی کو بالواسطہ بنایا ہے اور آنکھوں کو دیکھنے کے لیے آفتاب کی روشنی میسر کی ہے پھر کیوں کر وہ خدا ہمارے روحانی نظام میں اس سلسلہ وسائط کو بالکل منقطع کردیوے۔ توضیح مرام اور آئینہ کمالات اسلام میں خاص کر فرشتوں کی ضرورت میں جس قدر مبسوط بحث ہےاس کی نظیر دوسری کتب میں نہیں پاؤ گے۔

سید صاحب کو صحبت میں رہنے کی دعوت

فرمایا:میرے نزدیک بہتر ہے کہ سید صاحب اپنے آخری دنوں کو یاد کر کے چند ماہ اس عاجز کی صحبت میں رہیں اور چونکہ میں مامور ہوں اور مبشر ہوں اس لیے میں وعدہ کرتا ہوں کہ سید صاحب کے اطمینان کے لیے توجہ کروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالی کوئی ایسا نشان دکھلائے گا کہ سید صاحب کے مجوزہ قانون قدرت کو ایک دم میں خاک میں ملا دیوے۔

اولیاء سے خوارق ظہور میں آنا

اولیاء سے جو خوارق کبھی اس قسم کے ظہور میں آتے ہیں کہ پانی ان کو ڈبو نہیں سکتا اور آگ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی اس میں بھی دراصل یہی بھید ہے کہ حکیم مطلق جس کی بے انتہا اسرار پر انسان حاوی نہیں ہو سکتا اپنے دوستوں اور مقربوں کی توجہ کے وقت کبھی یہ کرشمہ قدرت دکھاتا ہے اور یہ علوم الہٰیہ میں سے خود ایک علم ہے۔یہ معرفت کا ایک آخری بھید ہے جو بغیر صحبت کاملین سمجھ نہیں آ سکتا۔

اشتہار بخدمت امراء و رئیسان و منعمان ذی مقدرت و والیان ارباب حکومت و منزلت

فرمایا:بالآخر میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتاً کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے۔ اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہےاور میں اسی لیے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علمِ قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کیے ہیں۔ سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پاؤ۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔

اس کتاب کے اختتام پر حضور کی معرکہ آراء کتاب براہین احمدیہ کی بابت اشتہار شائع کیا گیا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب میں دین اسلام کی سچائی دو طرح پر ثابت کی گئی ہے ۔اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت وقدرومنزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالفِ اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپے دینے کا اشتہار دیا ہے۔دوم ان آسمانی نشانوں سے کہ جو سچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لیے ازبس ضروری ہیں اس امر دوم میں مؤلف نے اس غرض سے کہ دین اسلام کی سچائی آفتاب کی طرح روشن ہو جائےتین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں ۔

اوّل وہ نشان جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اورآنجناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا اور توجہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے۔

دوم وہ نشان جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائے جاتے ہیں ۔

سوم وہ نشان کہ جو کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت رسولؐ برحق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتی ہیں۔ جن کے اثبات میں اس بندہ درگاہ نے بفضل خداوند یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے سچے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیہ اور اسرار لدنیہ اور کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ جو اس خادم ِدین سے صادر ہوئی ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین گواہ ہیں۔ کتاب موصوف میں درج کیے ہیں اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button