متفرقمتفرق مضامینمضامین

استخارےکی اہمیت اور اس کا طریق

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے اور اس کے فیصلے پر راضی رہے اور ابن آدم کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے

انسان ایک کمزور اور ناتواں ہستی ہے۔ جس کے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی طاقتیں بہت محدودہیں اور اُس کا علم غیر یقینی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ کل اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور آئندہ کیا پیش آئے گا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اُس کے لیے کیا بہتر اورنفع مندہے اور کیا چیز اُس کے لیے مضر اور نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔ اُسے زندگی میں سینکڑوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ جو فیصلہ وہ کرنے جارہا ہے وہ اُس کے لیے سُودمند ہے یا اُس کے پیچھے شر چھپا ہوا ہے کیونکہ بحیثیت انسان وہ صرف ظاہر کا علم رکھتا ہے: یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا…۔ (الرّوم: 8)وہ دنیا کی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کی ذات علیم وخبیر ہے جس کا علم کائنات کی وسعتوں تک محیط ہے: ہُوَ الۡاَوَّلُ وَالۡاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالۡبَاطِنُۚ وَہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ۔ (الحدید: 4)وہی اوّل اور وہی آخر، وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا دائمی علم رکھتا ہے۔ پس ہرانسان کو چاہیے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے عالم الغیب ہستی کے سامنے جھکے۔ اُس سے مدد واستمداد اور استعانت کا طالب ہو اور اُسی سے راہنمائی کی درخواست کرے کیونکہ تمام قدرت و طاقت اُسی کو حاصل ہے۔ وہی ہے جو کسی بہتر راہ کی طرف ہماری راہنمائی کرسکتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ہی خیر اور بھلائی کا طلبگار ہونا چاہیے: رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ۔ (القصص: 25) اے میرے ربّ! یقیناً میں ہر اچھی چیز کے لئے، جو تُو میری طرف نازل کرے، ایک فقیر ہوں۔

استخارہ کیا ہے؟

استخارہ کے معنی کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی طلب کرنا ہے۔ جبکہ استخارہ کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ ایسی دورکعت نماز جس میں مخصوص دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے میں بھلائی اوربہتر انجام کا سوال کیا جاتا ہے۔ یا دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنے یا چھوڑ دینے میں اُس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ اگرچہ ہر مسلمان اپنی ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ کے ذریعہ اپنی عبودیت اور کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے جودعائیں کرتا ہے وہ ایک رنگ میں استخارہ ہی ہیں لیکن جب کوئی انسان کسی کام کے لیے خاص طوپر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا اور اُس کی انجام دہی سے پہلے ایک خاص طریق پر عالم الغیب ہستی سے مدد اور راہنمائی چاہتا ہے تو اس خاص نماز کو صلاۃ الاستخارہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: وَادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ(الاعراف: 30)اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارو۔

نبی کریمﷺ نہ صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کو استخارہ کی تلقین فرماتے بلکہ آپؐ نے انہیں استخارہ کے آداب، مسائل اور اس کے الفاظ بھی سکھلائے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کَانَ النَّبِیُّﷺ یُعَلِّمُنَا الۡاِسۡتِخَارَۃَ فِی الۡأُمُوۡرِ کُلِّھَا، کَالسُّوۡرَۃِ مِنَ الۡقُرۡآنِ۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات بَاب الدُّعَا عِنۡدَ الۡاِسۡۡتِخَارَۃِ حدیث: 6382)آنحضرتﷺ تمام کاموں میں استخارہ کا طریق اس طرح سکھایا کرتے تھے جیسے کوئی قرآن کا حصہ سکھا رہے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ استخارہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مجھے یہ بات معلوم کرکے بہت تعجب ہوا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ استخارہ کیا ہوتا ہے۔ حالانکہ استخارہ اسلام کے اعلیٰ رکنوں میں سے ایک رُکن ہے اور اتنا بڑا رکن ہے کہ ہر ایک مسلمان کے لیے فرض کیا گیا ہے اور بغیر اس کے اس کی عبادت مکمل ہی نہیں ہوسکتی کہ ایک دن رات میں پانچ وقت اور ہر ایک رکعت میں ایک بار استخارہ نہ کرے۔ تو یہ ایک ایسا ضروری اور لازمی رکن ہے کہ اسلام نے اس کے لیے ایک دن رات میں پانچ اوقات مقرر کئے ہیں۔ اور ہر وقت میں جتنی رکعت پڑھی جاتی ہیں اتنی ہی بار استخارہ کیا جاتا ہے۔ پھر سنن اور نوافل میں بھی استخارہ ہوتا ہے۔ پس جب یہ ایسا ضروری اور اہم ہے تو اس سے ناواقفیت نہایت تعجب اورافسوس کا مقام ہے۔ استخارہ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ چاہنا کہ وہ کام جو میں کرنے لگا ہوں اس کے کرنے کا سیدھا اور محفوظ رستہ دکھایا جائے۔ سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے۔ اس میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ…

اے میرے خدا جس طرح تو اپنے خاص بندوں کی راہ نمائی کیا کرتا ہے۔ اسی طرح میری راہ نمائی فرما۔ اور اس راہ پر چلنے سے مجھے بچا جس پر وہ لوگ چلے جو کہ ایک وقت تک تو تیرے حکم کے ماتحت رہے، لیکن پھر انہوں نے اس راہ کو چھوڑ دیا۔ یہ ہے سورہ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اس کے پڑھنے کے بغیر نماز ہی نہیں ہوسکتی۔ یہی استخارہ ہے۔ صرف نام کا فرق ہے۔ اسی کو سورۃ فاتحہ کہا جاتا ہے اور دوسرے وقت اسی کا نام استخارہ رکھا جاتا ہے۔ استخارہ کے معنی خیر مانگنا ہے اور اس خیر مانگنے کا طریق سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے۔ اس لیے استخارہ کرنا اور سورہ فاتحہ پڑھنا ایک ہی ہے فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھتے وقت ہر ایک بات ہر ایک معاملہ اور ہر ایک کام کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے، مگر استخارہ کرتے وقت کسی خاص معاملہ کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جنوری 1918ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 6صفحہ 14تا15)

کیا استخارے کے بعد خواب آنا ضروری ہے؟

استخارے کے بعد کسی خواب یا استعارہ کا ملنا ضروری نہیں ہے بلکہ استخارہ بھی ایک دعا ہے جس طرح دعا کے بعد ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی آواز آئے یا اس کی قبولیت کے بارے میں بتایا جائے۔ استخارے کے بعداُس کام سے متعلق اگر اللہ تعالیٰ انشراح کر دے تو وہ کام کرلیا جائے اور اگر طبیعت میں انقباض پیدا ہوتو نہ کیا جائے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’بعض لوگوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ جب کسی امر کے متعلق استخارہ کیا جائے تو ضرور ہے کہ اس کے بارے میں خدا کی طرف سے انہیں آواز کے ذریعہ بتایا جائے کہ کرو یا نہ کرو، لیکن کیا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد انہیں کوئی آواز آیا کرتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس میں برکت ڈالی جاتی ہے اور جو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں۔ ان سے روکا جاتا ہے۔ یہی بات استخارہ میں ہوتی ہے خدا تعالیٰ سے دعا کی جاتی ہے کہ اگر فلاں کام میرے لیے مفید اور فائدہ بخش ہے تو اس کے کرنے کی توفیق دے اور اگر نہیں تو اس سے مجھے باز رکھ لے۔ مَیں نہیں جانتا کہ اس کے متعلق تیری کیا مرضی ہے ممکن ہے مَیں اسے تیری رضا کے ماتحت سمجھوں اور ہو اس کے خلاف۔ اس لیے میں تیری رضا کے آگے اپنے آپ کو ڈال دیتا ہوں۔ جس طرح تیری مرضی ہے اس کے مطابق مجھے چلا۔ یہ استخارہ ہوتا ہے۔ اس پر خدا تعالیٰ کبھی بتا بھی دیتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ بتائے کیونکہ خدا تعالیٰ انسانوں کے ماتحت نہیں۔ بلکہ آقا ہے اور آقا کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ نوکر کو ہر ایک کام کے متعلق کہے۔ تب وہ کرے ورنہ نہ کرے اکثر اوقات آقا کی خموشی ہی حکم ہوتا ہے۔ تو استخارہ کے لیے کسی خواب یا الہام کے آنے کی ضرورت نہیں ہوتی …یہ تو ایک دعا ہے۔ اس کے کرنے کے بعد جو خدا دل میں ڈالے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اگر خدا تعالیٰ اس کام کے متعلق انشراح کردے تو کرلیا جائے۔ اور اگر قبض پیدا ہوتو نہ کیاجائے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جنوری 1918ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 6صفحہ 15تا16)

استخارہ کتنی بار کیا جائے

استخارہ ایک دعا ہے جس طرح دعا کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔ اس لیے کسی کام کے انجام بخیر کے لیے استخارہ بھی کئی بار کیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ جب آپؐ دعا کرتے تو تین مرتبہ دعا کرتے اور جب (اللہ سے)مانگتے تو تین مرتبہ مانگتے۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیربَاب: مَالَقِیَ النَّبِیُّﷺ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَالۡمُنَافِقِیۡنَ)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مسلمان کا کوئی کام استخارہ کے بدوں نہیں ہونا چاہئے۔ کم ازکم بسم اللہ سے ضرور شروع ہو اور طریق استخارہ یہ ہے کہ دعائے استخارہ پڑھی جائے۔ ایک دفعہ کم ازکم ورنہ سات دن تک عموماً صوفیاء نے چالیس دن رکھے ہیں۔ اس کی بہت برکات ہوتی ہیں جن کو ہر ایک شخص جس کو تجربہ نہ ہو نہیں سمجھ سکتا۔‘‘ (خطبہ نکاح فرمودہ 9؍فروری 1921ءمطبوعہ خطبات محمود جلد سوم صفحہ 92تا93)

مرزا دین محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہوگئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور بخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں۔ اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پو چھ لیا کرو۔ اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے دعا کرکے ’’ یَا خَبِیۡرُ اَخۡبِرۡنِیۡ‘‘ پڑھا کرو۔ اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرو۔ اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا۔ اور حضرت صاحب کو آکر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اور مَیں سب کو جاکر اطلاع دیتا۔‘‘

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ اس روایت کے متعلق وضاحتی نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے۔ اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں سارا خاندان تقسیم شدہ تھا…استخارہ کی اصل مسنون دعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لیے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دیئے ہوں گے۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ 628تا629 روایت نمبر682۔ ایڈیشن فروری 2008ء)

استخارے کی اہمیت وبرکات

کسی انسان کا اپنے پروردگار کے حضور دعا کرنا اور اپنی حاجات کے لیے اُس کے آگے قیام کرنا، رکوع وسجود بجالانا اور اپنی ضرورتوں کواس کے حضور پیش کرنا، سعادت مندی کی علامت اور خیروبرکت کا موجب ہے۔ اس ذریعہ سے اُس شخص کا اپنے پیدا کرنے والے سےپیوند مضبوط ہوتا ہے اور اسے قرب کے لمحات میسر ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے ہر کام کے بہتر انجام کے لیے اُسی سے خیر اور بھلائی کا خواستگار ہوتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے اور اس کے فیصلے پر راضی رہے اور ابن آدم کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے۔ (مُسۡنَد احمد بن حنبل مُسۡنَدالعشرۃ المُبشرہ، مُسۡنَدُ أَبِی اِسۡحَاقَ سَعۡدِ بۡنِ أَبِی وَقَّاصٍ رضی اللّٰہ عنہ حدیث: 1444)

رسول کریمﷺ نے جس وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ فرمایا اور اُن کی طرف نکاح کا پیغام بھجوایا توآپﷺ کا پیغام سن کرجو فوری ردّ عمل انہوں نے دکھایااُس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ کا اللہ تعالیٰ پر ایمان کس قدر مضبوط اور پختہ تھا اور وہ توکّل کے کس اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ چنانچہ حضرت زینبؓ نے پیغام لانے والے سے فرمایا: میں کوئی بھی کام نہیں کرتی یہاں تک کہ اپنے ربّ سے دعا نہ کرلوں۔ پھر وہ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر کھڑی ہوئیں۔ (صحیح مسلم کتاب النکاح بَاب زَوَاجِ زَیۡنَبَ بِنۡتِ جَحۡشٍ وَنُزُوۡلِ الۡحِجَابِ…)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام استخارہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سُنّت کو ترک کر دیا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے۔ سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا۔ چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ اپنے علم وفضل پر نازاں ہوکر کوئی کام شروع کرلیتے ہیں اور پھر نہاں در نہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اصل میں یہ استخارہ ان بدرسومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتداء سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اُسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقلِ سلیم عطاہوتی ہے۔ جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 230، ایڈیشن 2003ء)

ایک مرتبہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےایک خطبہ نکاح کے دوران استخارہ کی برکت کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک شخص روئی کا بہت بڑا سودا کرنے لگا۔ حضرت خلیفہ اوّل سے مشورہ لیا آپ نے فرمایا استخارہ کرو۔ انہوں نے کہا اس میں یقینی فائدہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا حرج ہے استخارہ کے معنے بھی خیر طلب کرنے کے ہیں۔ آخر انہوں نے استکراہ [ناخوشی]سے استخارہ کیا۔ جب وہ سودا کرنے لگے اللہ تعالیٰ نے ایسا سبب ان کے لیے بنایا کہ وقت پر ان کو علم ہوگیا اور وہ سودا کرنے سے رُک گئے اور کئی ہزار کے نقصان سے بچ گئے۔ تو اس کے بہت سے فوائد ہیں اس لیے اس معاملہ میں ضرور استخارہ کرنا چاہئے۔‘‘ (خطبہ نکاح فرمودہ 9؍فروری 1921ءمطبوعہ خطبات محمود جلد سوم صفحہ 93)

نوکری کی تلاش میں استخارہ

نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کو ہر معاملے میں استخارے کی تعلیم دی ہے۔ یہی صحابہ اورسلف صالحین کا طریق تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے صحابہ کو مختلف معاملات میں استخارہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ ایک مرتبہ ایک دوست نے نوکری سے متعلق مشورۃً استفسار کیا تو آپؑ نے فرمایا: ’’استخارہ مسنونہ کے بعد جس طرف طبیعت کا میلان ہو وہ منظور کرلو۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 226، ایڈیشن 2003ء)

سفر سے پہلے استخارہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ کسی دوست کو سفر سے پہلے استخارہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ’’استخارہ اہل اسلام میں بجائے مہورت کے ہے چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہوکر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لیے اہل اسلام نے ان کو منع کرکے استخارہ رکھا۔ اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو نفل پڑھے۔ اوّل رکعت میں سورۃ قُلۡ یٰٓاَیُّھَا الۡکٰفِرُوۡنَ پڑھ لے اور دوسری میں قُلۡ ھُوَاللّٰہُ التحیات میں یہ دعا کرے۔ ’’یا الٰہی میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے ہی سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور توہی چھپی باتوں کا جاننے والا ہے الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے حق میں بہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے تو تُو اسے میرے لیے مقدر کردے اور آسان کردے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے لیے دین اور دنیا میں شر ہے تو تُو مجھ کو اس سے باز رکھ۔‘‘ اور اگر وہ امر اس کے لیے بہتر ہوگا تو خدا تعالیٰ اس کے لیے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض پیدا ہوجائے گی۔ یہ دل بھی عجیب شئے ہے جیسے ہاتھوں پر انسان کا تصرف ہوتا ہے کہ جب چاہے حرکت دے۔ دل اس طرح اختیار میں نہیں ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ ایک وقت میں ایک بات کی خواہش کرتا ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے نہیں چاہتا۔ ہوائیں اندر سے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلتی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 604، ایڈیشن 2003ء)

شادی بیاہ میں استخارہ کی اہمیت اور طریق

نکاح کا معاملہ انسانی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ اس کا خاتمہ چند سال میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے اس میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ دعاؤں اور استخارہ کی طرف خاص توجہ ہونی چاہیے اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور بہتر فیصلے کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’بیاہ کے معاملہ میں ایک بڑی غلطی ہو رہی ہے …وہ یہ ہے کہ اس کے لیے ضروری امر یہ ہے کہ بہت استخارہ کئے جاویں اور خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی جاوے۔ ہم انجام سے بے خبر ہوتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے۔ اس لیے اوّل خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو۔‘‘ (خطبہ نکاح فرمودہ 26؍اگست 1910ء قادیان مطبوعہ خطبات نور صفحہ 478)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ شادی بیاہ کے معاملات میں استخارہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پھر ایک دفعہ اپنی جماعت کو ادھر متوجہ کرتا ہوں کہ تم نکاح کے معاملات درست کرو اور آئندہ درستی کے لیے احتیاط اور استخارہ سے کام لو تاکہ آپس میں محبت بڑھے اور ہماری نسلیں ترقی کریں اور نسلیں نیک ہوں۔ دعا سے پہلے کوئی فیصلہ مت کرو بلکہ دعا اور استخارہ کرتے وقت اپنی تمام آراء اور فیصلوں سے علیحدہ ہوجاؤ۔ کیونکہ اگر تم فیصلہ کرنے کے بعد دعا اور استخارہ کرو گے تو وہ بابرکت نہیں ہوگا۔ استخارہ اور دعا وہی بابرکت ہوگی جس میں تمہاری رائے اور فیصلہ کا دخل نہ ہو۔ تم خدا پر معاملہ کو چھوڑ دو اور دل ودماغ کو خالی کرلو اوراس کے حضور میں عرض کرو کہ خدایا جو تیری طرف سے آئے گا وہی ہمارے لیے بابرکت ہوگا اور ہماری بہتری کا موجب ہوگا۔‘‘ (خطبہ نکاح فرمودہ 31؍دسمبر 1920ء مطبوعہ خطبات محمود جلد سوم صفحہ 86تا87)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شادی بیاہ کے معاملات میں استخارہ سے متعلق احباب جماعت کی راہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بعض عورتیں اور مرد پانچ گھنٹے، چھ گھنٹے میں استخارہ کرکے جواب دے دیتے ہیں۔ اپنی مرضی کے رشتے کروا دیتے ہیں اور اس کے بعد جب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ تمہارا قصور ہے ہمارا استخارہ ٹھیک تھا۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ خود دعائیں نہیں کرتے۔ خود توجہ نہیں۔ خود نمازوں کی پابندی نہیں اور ایسے لوگوں پر اندھا اعتقاد ہے جنہوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے۔ احمدیوں کو اس قسم کی چیزوں سے خاص طور پر بچنا چاہئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍فروری 2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍مارچ2009ءصفحہ8)

رسول کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے: اَلۡأَرۡوَاحُ جَنُوۡدٌ مُّجَنَّدَۃٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنۡھَا ائۡتَلَفَ وَمَا تَنَاکَرَ مِنۡھَا اخۡتَلَفَ (صحیح البخاری کتاب احادیث الأنبیاء بَاب2: اَلۡأَرۡوَاحُ جَنُوۡدٌ مُّجَنَّدَۃحدیث: 3336)روحیں بھی فوجیں ہیں جو الگ الگ دستہ بند ہیں۔ اس لیے ان میں سے جنہوں نے ایک دوسری کو پہچان لیا، ایک دوسری سے مانوس ہوگئیں۔

اس ارشاد کی روشنی میں رشتہ تلاش کرتے وقت شادی کی عمر کے بچوں بچیوں کو خاص طورپر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا ہمیں ایسا جوڑا عطا فرمادے جو ہمارے لیے جُنُوۡدٌ مُجَنَّدَۃٌ ہو۔ صلاۃ استخارہ ایک دعا ہے جسے ایک سے زائد بار بھی کیا جاسکتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ شادی بیاہ کے معاملہ میں استخارہ کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نکاح سے قبل استخارہ کرلینا چاہئے استخارہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک استخارہ عام ہوتا ہے اور ایک استخارہ خاص۔ استخارہ عام پہلے کیا جاتا ہے اور استخارہ خاص بعد میں۔ مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ پہلے ایک عورت کو پسند کرلیتے ہیں اور پھر استخارہ کرتے ہیں ایسے استخارہ میں عموماً خیال کا اثر پڑجاتا ہے اور وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ استخارہ ٹھیک ہوا لیکن اگر ان کا رحجان نہ ہو تو وہ اپنے خیال کے ماتحت سمجھتے ہیں کہ استخارہ الٹ پڑ گیا حالانکہ استخارے سیدھے اور الٹ نہیں پڑتے بلکہ ان کا خیال سیدھا یا الٹ پڑتا ہے جس سے وہ غلط نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔ استخارہ عام یہ ہوتا ہے کہ قطع نظر کسی خاص شخصیت کے دعا کی جائے کہ اے خدا ہمارے لیے ایسا جوڑا مہیا فرما جوجُنُوۡدٌ مُجَنَّدَۃٌ ہو۔

دوسرا استخارہ خاص اس وقت کیا جائے جب اس کا موقع آئے اور نام لے کر استخارہ کیا جائے اس طرح استخارہ عام استخارہ خاص کا محافظ ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ پہلا استخارہ کرلیتے ہیں مگر دوسرا نہیں کرتے اور بعض دوسرا کرتے ہیں اور پہلا نہیں کرتے۔ چاہئے کہ دونوں استخارے کئے جائیں اس صورت میں نتیجہ صحیح نکلتا ہے۔ اس طرح شادی کرنے سے سو میں سے ساٹھ فیصدی فائدہ ہوتو میرے نزدیک 90فیصدی کمی کو اولادیں پورا کردیں گی اور وہ دس فیصدی فائدہ نوے کی حفاظت کا ذریعہ ہوجائے گا۔‘‘ (خطبہ نکاح فرمودہ 26؍جولائی 1937ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 3صفحہ 435)

طریق استخارہ

استخارہ کا مناسب طریق یہ ہے کہ مکروہ اوقات کے علاوہ کسی وقت دو رکعت نفل پڑھے جائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃالاخلاص پڑھی جائے۔ قعدہ میں تشہد، درود شریف اور ادعیہ مسنونہ کے بعد عجزوانکسار کے ساتھ رسول اللہﷺ کی بتائی ہوئی دعا پڑھیں: عَنۡ جَابِرِبۡنِ عَبۡدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡھُمَا قَالَ کَانَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَاالۡاِسۡتِخَارَۃَ فِی الۡأُمُوۡرِ کُلِّھَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوۡرَۃَ مِنَ الۡقُرۡآنِ یَقُوۡلُ اِذَا ھُمَّ أَحَدُکُمۡ بِالۡأَمۡرِ فَلۡیَرۡکَعۡ رَکۡعَتَیۡنِ مِنۡ غَیۡرِ الۡفَرِیۡضَۃِ ثُمَّ لِیَقُلِ…حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما (انصاری) نے کہا: رسول اللہﷺ ہمیں تمام کاموں کے متعلق استخارہ کرنے کی تعلیم دیا کرتے تھے، اسی طرح جس طرح قرآن کریم کی سورت کی تعلیم دیتے۔ فرماتے: جب تم میں سے ایک شخص کوئی کام کرنے لگے تو نفل کے طور پر دو رکعتیں پڑھ لے۔ پھر وہ (اس طرح ) دعا کرے: اَللَّھُمَّ اِنِّی أَسۡتَخِیۡرُکَ بِعِلۡمِکَ، وَأَسۡتَقۡدِرُکَ بَقُدۡرَتِکَ وَأَسۡأَلُکَ مِنۡ فَضۡلِکَ الۡعَظِیۡمِ فَاِنَّکَ تَقۡدِرُ وَلَا أَقۡدِرُ وَتَعۡلَمُ وَلَا أَعۡلَمُ وَأَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ اَللَّھُمَّ اِنۡ کُنۡتَ تَعۡلَمُ أَنَّ ھَذَا الۡأَمۡرَ خَیۡرٌ لِیۡ فِیۡ دِیۡنِیۡ وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ أَمۡرِی أَوۡقَالَ فِی عَاجِلِ أَمۡرِی وَآجِلِہِ فَاقۡدُرۡہُ لِی وَیَسِّرۡہُ لِی ثُمَّ بَارِکۡ لِی فِیۡہِ وَاِنۡ کُنۡتَ تَعۡلَمُ أَنَّ ھَذَا الۡأَمۡرَ شَرٌّ لِیۡ فِی دِیۡنِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ أَمۡرِی أَوۡ قَالَ فِی عَاجِلِ أَمۡرِی وَآجِلِہِ فَاصۡرِفۡہُ عَنِّیۡ وَاصۡرِفۡنِیۡ عَنۡہُ وَاقۡدُرۡ لِیَ الۡخَیۡرَ حَیۡثُ کَانَ ثُمَّ أَرۡضِنِیۡ بِہِ قَالَ وَیُسَمِّی حَاجَتَہُ۔ (صحیح البخاری کتاب التھجد بَاب مَاجَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثۡنَی مَثۡنَیحدیث: 1162)اے میرے اللہ ! میں تجھ سے تیرے علم کے طفیل بہتری چاہتا ہوں اور تیری قدرت کی بدولت طاقت چاہتا ہوں اور تیرے بہت ہی بڑے فضلوں کا تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ تجھ کو قدرت ہے مجھے قدرت نہیں اور تجھ کو علم ہے مجھے علم نہیں اور تو پوشیدہ باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے دین میں اور میری روزی میں اور میرے اس کام کے انجام کے لحاظ سے بہتر ہے یا فرمایا: اس وقت یا آئندہ کے لیے بہتر ہے تو مجھے یہ نصیب کر اور اس کو میرے لیے آسان کردے اور پھر اس میں میرے لیے برکت ڈال اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے میرے دین میں اور میری روزی میں اور میرے اس کام کے انجام کے لحاظ سے نقصان دہ ہے یا فرمایا: اس وقت یا آئندہ کے لیے نقصان دہ ہے تو اس کو مجھ سے ہٹا دے اور مجھے بھی اس سے ہٹا دے اور جہاں میرے لیے بھلائی مقدر ہو، وہاں مجھ کو عطا کر۔ پھر مجھے اس پر راضی رکھ اور (دعامیں ) اپنے کام کا نام لے۔

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ (933ء۔ 1014ء)نے اپنی صحیحین میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک روایت درج کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے اُن سے فرمایا: تَوَضَّآ فَاَحۡسِنۡ وُضُوۡئَکَ، ثُمَّ صَلِّ مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکَ، ثُمَّ احۡمَدۡ رَبَّکَ وَمَجِّدۡہُ، ثُمَّ قۡلِ: اچھی طرح وضو کرو اور وہ نماز پڑھو جو اللہ نے تیرے لیے مقدر کی ہے۔ پھر اس کی حمد اور بزرگی بیان کرو، پھر یوں دعا مانگو: اللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَقۡدِرُ وَلَا أَقۡدِرُ، وَتَعۡلَمُ وَلَا أَعۡلَمُ، وَأَنۡتَ عَلَامُ الۡغُیُوۡبِ، فَاِنۡ رَأَیۡتَ لِی فُلَانَۃً تُسَمِّیۡھَا بِاسۡمِھَا خَیۡرًا لِی فِی دِیۡنِی وَدُنۡیَایَ وَآخِرَتِی، فَاقۡدُرۡھَالِی، وَاِنۡ کَانَ غَیۡرُھَا خَیۡرًا لِی مِنۡھَا فِی دِیۡنِی وَدُنۡیَایَ وَآخِرَتِی، فَاقۡضِ لِی بِھَا أَوۡ قُلۡ: فَاقۡدُرۡھَالِی۔ (المُسۡتَدۡرَکۡ عَلی الصَّحیۡحَیۡنۡ مِنۡ کِتَابِ صَلَاۃِ التَّطَوُّعِ حدیث: 1181)اے اللہ ! تو قادر ہے، میں قادر نہیں، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیب جانتا ہے۔ اگر فلاں چیز میرے حق میں تیری بارگاہ میں میرے دین، دنیا اور آخرت کے حوالے سے بہتر ہے تو وہ میرے لیے مقدر کردے اور اگر اس کے علاوہ (کوئی دوسری چیز) میرے دین، دنیا اور آخرت کے حوالے سے میرے لیے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ کردے یا (کہے کہ ) وہ میرے مقدر میں کردے۔

جب کوئی انسان اپنی طاقت، علم، تجربہ، ہنر اور اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو حقیقی کارساز جانتا ہے اور اُس میں فنا ہوکر اُس کے حضور گریہ وزاری کرتا اور آہ وبقا کرتے ہوئے اپنے جسم اورروح کا ذرّہ ذرّہ اُس کے حضور جھکا دیتا ہے تو وہ مولا کریم اُس پر رجوع برحمت ہوتا ہے اور اُس کی مشکل کشائی فرماتاہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے لیکن نہ صرف خشک ہونٹوں سے بلکہ چاہئے کہ تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہو کہ ہر ایک برکت آسمان سے ہی اُترتی ہے تم راست باز اُس وقت بنو گے جبکہ تم ایسے ہوجاؤ کہ ہرایک کام کے وقت ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرو کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے اپنے فضل سے مشکل کشائی فرما تب روح القدس تمہاری مدد کرے گی اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لئے کھولی جائے گی۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 23)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک دوست کے لیے حصولِ بشارت کے لیے درج ذیل استخارہ تجویز فرمایا: ’’حصولِ بشارت کے لیے دو رکعت نماز وقت عشاء پڑھ کر اکتالیس دفعہ سورۂ فاتحہ پڑھے اور اس کے اوّل اور آخر گیارہ گیارہ دفعہ درود شریف پڑھے اور اپنے مقصد کے لئے دعا کرکے رُو بقبلہ باوضو سور ہے۔ جس دن سے شروع کریں۔ اسی دن تک اس کو ختم کریں۔ ان شاء اللہ العزیز وہ امر جس میں خیر اور برکت ہے حالتِ منام میں ظاہر ہوگا۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ 645 روایت نمبر708، ایڈیشن فروری 2008ء)

ایک قدیم عربی محاورہ ہے کہ مَا خَابَ مَنِ اسۡتَخَارَ، وَلَا نَدِمَ مَنِ اسۡتَشَارَ، وَلَا عَالَ مَنِ اقۡتَصد یعنی استخارہ کرنے والے کو ناکامی نہیں اور مشورہ کرنے والے کو ندامت نہیں اور جس نے میانہ روی اختیار کی اسے محتاجی نہیں۔ پس استخارہ ایک ایسا عمل ہے جس کے اندر سراسر انسان کا اپنا ہی فائدہ اور خیر ہی خیر پنہاں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جو بھی فیصلہ کرے گا وہی اس کے لیے بہتر ہوگا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے: مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کا معاملہ سراسر خیر ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کے لیے نہیں۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ (بھی) اس کے لیے خیر ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق بَاب: الۡمُؤۡمِنُ اَمۡرُہُ کُلُّہُ خَیۡرٌ)اس لیے اپنے تمام کاموں کی بہتر انجام دہی کے لیے استخارہ جیسی اہم سنت کو رائج کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اوراُس کی نصرت ہمارے شامل حال رہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button