از مرکز

The God Summit زیراہتمام The Review of Religions (قسط دوم۔ آخری)

اس کے بعد مختلف مذاہب میں خدا کے تصور پر ایک پروگرام پیش کیا گیا۔ بعد ازاں ایک پروگرام مولانا اظہر حنیف صاحب نے پیش کیا جس کا نام My Mercy encompasses everything تھا جس میں انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا۔ اس کے بعد ایک بہن رابعہ چودھری نے A Muslim Women‘s Identity کے بارے میں اپنی روزمرہ زندگی کے حوالے سےتجربات سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد ایک پروگرام Fulfillment of a Great Warning پیش کیا گیا جو ’’جنگ عظیم اول‘‘ کے بارے میں تھا۔ پھر ایک پروگرام جس کا عنوان صباح الدین احمدی اور ملیسا احمدی تھا اس میں تین شادی شدہ جوڑوں سے پانچ مختلف سوالات پوچھے گئے جن میں انہوں نے اپنے اپنے تجربات بتائے۔ اس کے بعد چند پروگرام یو ایس سٹوڈیوز سے براہ راست نشر کیے گئے جس کی میزبانی سرمد نوید اور عبداللہ ڈیبا نے کی۔ اس میں پہلا پروگرام ایک ڈاکومنٹری فلم تھی جو عبدالوحید وڑائچ صاحب کی زندگی اور ان کے کارہائے نمایاں اور وفات کے بارے میں A mountaineer‘s oath کے نام سے تھی۔ اس کے بعد ایک پروگرام ’’مختلف مذاہب اور زبانوں میں خدا کا نام‘‘ مکرم منصور ڈاہری صاحب نے پیش کیا۔جس کے بعد سوال و جواب پر مشتمل ایک محفل منعقد کی گئی جس کے شرکائے گفتگو میں مکرم سرمد نوید صاحب ،مکرم اظہر حنیف صاحب اور مکرم صباحت علی صاحب شامل تھے جنہوں نے مختلف پہلوؤں سے ہستی باری تعالیٰ کے دلائل پیش کیے۔ اس کے بعد ایک پروگرام میں مکرم منیر عودہ صاحب نے خلافت کے ساتھ اپنی کچھ یادیں شیئر کیں اس پروگرام کا عنوان تھا Inspiring Accounts: How God Guides the Khalifa۔ اس پروگرام کے میزبان شہزاد احمد صاحب تھے۔

اس کے بعد ایک پروگرام

Science & Faith : Worlds Apart?

پیش کیا گیا۔اس میں کرسٹین شریف صاحبہ نے اپنی کہانی بیان کی جنہوں نے 2013ء میں اسلام قبول کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں زیادتی کےشکار لوگوں کی مدد کرتی ہوں۔ میں ایک عیسائی گھرانے میں پلی بڑھی تھی جن میں مذہبی تقریبات بہت ذوق و شوق سے منائی جاتی تھیں۔ مگر ان میں مذہب کی روح نہیں تھی۔ میں سائنس کی طالبہ تھی اورہر چیز کو سائنس کے معیار پر پرکھتی تھی۔ میرا یقین تھا کہ خدا ہے۔ لیکن میرے پاس اس کی ہستی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور میں سائنس کو ہی ہر چیز پر حاوی سمجھتی تھی۔ اسی دوران میں نے ایک سنی مسلم پاکستانی سے شادی کر لی اور کچھ عرصہ پاکستان رہی۔ وہاں قیام کے دوران میں نے سوچا کہ میں اسلام کے بارے میں مزید تحقیق کروں۔ جب میں وہاں مقیم تھی اور اسلام پر مزید تحقیق کر رہی تھی تو چند ایک واقعات ایسے ہوئے کہ مجھے لگا کہ میں ایسے معاشرے میں رہ رہی ہوں جو مرد کی برتری کا قائل ہے۔ جبکہ اس کے برعکس میں عورتوں کے حقوق کی علمبردار تھی اور سمجھتی تھی کہ دونوں جنس میں مساوات ہونی چاہیے۔ اس لیے مجھے یہ کچھ اچھا محسوس نہیں ہوا مگر میں نے پھر سوچا کہ شاید یہ یہاں کی تہذیب میں ہے۔ جب میں یوکے واپس آئی تو میں نے اسلام کے بارے میں مزید لٹریچر پڑھا۔ اگرچہ مجھے محسوس نہیں ہوا مگر یہ میری لاشعوری دعا تھی کہ میں سچائی کی تہ تک پہنچ سکوں۔ اور جب میں تحقیق کر رہی تھی تو مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی معرکہ آرا کتاب الہام، عقل، علم اور سچائی پڑھنے کو ملی۔ یہ پڑھ کر میرا خدا پر یقین پختہ ہوگیا۔ پہلی دفعہ مجھے محسوس ہوا کہ سائنس اور مذہب اکٹھے ہو سکتے ہیں اور اس کتاب میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان دونوں موضوعات پر بات کی گئی ہے۔ اس وقت یہ شواہد میرے لیے ناقابل تردید تھے۔ اگرچہ میں نے باقاعدہ دعا تو نہیں کی تھی مگر میرے اندر چونکہ سچائی کی تلاش تھی تو اللہ تعالیٰ نے میری مخفی خواہش کو قبول کرتے ہوئے میری مدد کی اور مجھے احمدیت کے بارے میں معلومات ملیں۔ میں باتوں کو سوچ سمجھ کرہی قبول کرتی ہوں۔ میں شواہد کو دیکھتی تھی اور خدا تعالیٰ نے مجھے ایسے طریق پر شواہد دیے کہ جس کے ذریعے سے میں اس کو قبول کر سکوں۔ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں غور وفکر کرنا چاہیے پھر خدا تعالیٰ ہم پر حقائق اور معارف کھولتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے اگر آپ خدا تعالیٰ کی طرف ایک قدم آئیں تو و ہ آپ کی جانب دو قدم آئے گا اور اگر آپ چل کر آئیں گے تو وہ دوڑ کر آئے گا۔ اور یہی مجھے محسوس ہوا۔

اس کے بعد ایک پروگرام پیش کیا گیا جس کا عنوان The Timeless Question of Suffering تھا۔ اسے مکرم ایاز محمود خان (مربی سلسلہ شعبہ تصنیف مرکزیہ) نے پیش کیا۔ جس میں ایسے سوالات مثلا اگر خدا رحیم ہے تو وہ تکلیف کیوں دیتا ہے؟، کو موضوع بحث لایا گیا تھا۔ آخر میں ارجنٹائن میں مبلغ سلسلہ مکرم مروان سرور گل صاحب سے گفتگو دکھائی گئی جس میں ان سے ارجنٹائن کے لوگوں میں خدا کا تصور ان کے خیالات اور وہاں پر جماعت کے قیام کے دوران پیش آنے والی مشکلات پر گفتگو کی گئی۔ اور انہوں نے اپنے ذاتی مشاہدات بیان کیے۔ اس کے بعد پہلے دن کی نشریات کا اختتام ہوا۔

The God Summit کا دوسرا روز

پہلے دن کی طرح دوسرے روز کا پروگرام بھی نہایت احسن طریق پر پیش کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز حسب معمول تلاوت قرآن کریم سے کیا گیا مکرم باسل رضا بٹ صاحب نے سورۃ الحدید کی آیات 1-5کی تلاوت پیش کی۔ دوسرے روز بھی لائیو چیٹ اور لائیو پولز سے تمام حاضرینِ پروگرام کی دلچسپی اور توجہ آخر تک اس پروگرام میں قائم رہی۔ آج کے پروگرام میں بھی افراد جماعت کے لیے مختلف طرح کے واقعات، قبولیت دعا کے معجزات، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اقتباسات وقتاً فوقتاً پروگرام کا حصہ بنتے رہے اور پوری دنیا کے احمدی افراد نے ان سے گھر بیٹھے حظ اٹھایا۔ الحمد للہ۔ دوسرے روز پیش ہونے والا پہلا پروگرام تھا God Where are you یعنی

اے خدا! تو کہاں ہے ؟

ایک نومبائعہ بہن مکرمہ آمنہ ملک جو سنی فرقے سے تعلق رکھتی تھیں اپنے خدا کی تلاش کے سفر کو بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کس طرح وہ سخت پریشانی میں مبتلا رہتی تھیں اور خدا سے ایک پختہ تعلق بنانا چاہتی تھیں جو نہیں بن پا رہا تھا جس کے لیے وہ سجدوں میں روتی گڑگڑاتی اور اس سے اس کا قرب اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق مانگتی تھیں۔ پھر انہوں نے احمدیت کے بارے میں تحقیق شروع کی اور اس کے حق میں لکھا ہوا اور مخالف لکھا ہوا دونوں طرح کا لٹریچر پڑھا اور علمی طور پر تو وہ مطمئن ہو گئیں لیکن ایمانی طور پر وہ تذبذب کا شکار تھیں۔وہ اپنی والدہ کو بھی یہ سب بتاتی تھیں ان کے ساتھ مل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھتی تھیں وہ مزید بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق باللہ کے واقعات اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کے بارے میں جان کر وہ ان صفات کے حوالے سے خدا سے مدد طلب کرتی رہیں اور انہیں مدد ملتی رہی۔ اسی دوران انہوں نے خواب دیکھا کہ لندن کی گلیوں میں پھر رہی ہوں اور رات کا وقت ہے اور میں بہت سارے لوگوں کو دیکھ رہی ہوں کہ ان کی جو جلد ہے وہ گویا جلنے کی وجہ سے اتر رہی ہے اور ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ جہنم سے ہو کر آئے ہیں اور جہنم کی آگ نے یہ جلایا ہوا ہے۔اور وہ سارے ایک گروپ کی شکل میں تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ نبی نہیں ہے، یہ نبی نہیں ہے۔ میں ان لوگوں کے درمیان سے گزر کر جا رہی تھی اور مجھے ایسا نظر آیا کہ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کا نور وہاں ہے اور مجھے اس نور و جمال کو دیکھ کر یہی لگا کہ واقعی آپ ایک نبی ہیں۔ اور مجھے ایسا لگا کہ پتا نہیں میں کیسے یہ سب دیکھ رہی ہوں اور جو حلیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا میں نےدیکھا تھا وہ ایک بزرگ کا حلیہ تھا اور احادیث میں جو باتیں ہم پڑھتے ہیں تو میں نے آنحضرتؐ سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔لیکن وہاں جو لوگ تھے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ نبی نہیں ہیں اور ان کی اپنی حالت ایسی تھی جیسے کہ وہ جہنم کی آگ سے گزر کر آئے ہوں۔ پھر میں بیت الفتوح میں داخل ہوگئی اور اچانک مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے آفس میں ہوں اور میں نے ان کو یہ کہا کہ آنحضرتؐ یہاں ہیں میں کیا کروں میں بہت جذباتی ہو رہی تھی۔ خواب میں ہی میں نے دیکھا کہ حضور انور، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ان کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہاں ایسا نظارہ نظر آیا کہ لوگ ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہیں گویا ساری جماعت احمدیہ جو پوری دنیا میں ہے اس کا تعلق ایک دوسرے سے پیدا ہو گیا ہےچنانچہ پھر مجھے بیعت کا نظارہ نظر آیا اور وہ بیعت حضور انور نہیں کروا رہے تھے بلکہ آنحضرتؐ کروا رہے تھے جب مجھے یہ نظارہ نظر آیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے بھی یہ بیعت کرنی چاہیے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑی تھی اور میں بھی بیعت میں شامل ہو گئی کہتی ہیں مجھے اتنا یاد ہے کہ میں بھاگ کر اپنی والدہ کے پاس گئی اورانہیں کہا کہ مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا ہے اور جو ایک فیصد روحانی معاملہ رہ گیا تھا وہ حل ہو گیا ہے علمی معاملات تو پہلے ہی حل ہو چکے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سورج اور چاند گرہن کی پیشگوئی تھی وہ سب تو حل کر چکی تھی۔ تحقیقی طور پر ہر طرح سے تسلی کر لینے کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی تو پھر بس اللہ تعالی سے دعا کرتی تھی تو اللہ نے روحانی طور پر اس خواب کے ذریعے ان کی راہنمائی کی گویا کہ یہ اللہ کی طرف سے ان کے لیے نشان تھا۔ تو وہ اور ان کا خاندان جماعت احمدیہ میں داخل ہو گیا۔الحمد للہ۔

کیا خدا اب بھی بولتا ہے؟

اس پروگرام میں آسڑیلیا کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد سے یہ سوال پوچھا گیاتھا۔ اور ان سے اس سوال کا جواب لیا گیا۔جو کہ مکرم کامران مبشر صاحب مشنری نے آسٹریلیا سے پیش کیا۔ پھر افریقہ اسٹوڈیو سے spoken word کے نام سے ایک پروگرام مکرم عبد المومن مسلم صاحب نے پیش کیا۔ پھر محترم منیر الدین شمس صاحب جو ریویو آف ریلیجنز کے چیئر مین ہیں انہوں نے ریویو آف ریلیجنز کا تعارف اس کی ابتدا اور اس کے مقاصد بیان کیے۔ اس کے بعد ایم ٹی اے کا مقبول پروگرام little legends پیش کیا گیا جس میں چھوٹے بچوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ پروگرام کے درمیان میں وقفے وقفے سے میزبان حضرات پوری دنیا سے موصول شدہ پیغامات بھی پڑھتے رہے کہ لوگ کس قدر ذوق و شوق سے یہ سمٹ دیکھ رہے ہیں اور کس طرح مختلف افراد کے واقعات اور ذاتی تجربات ان کے ازیاد ایمان کا موجب بن رہے ہیں۔ الحمد للہ۔اس کے بعد جامعہ احمدیہ قادیان کے پرنسپل محترم عطاء المجیب لون صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعلق باللہ اور خاص کر اس الہام I love you پرروشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی۔ اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک وڈیو کلپ دکھایا گیا۔ اس کے بعد ایک پروگرام جس کا عنوان تھا ’’وہ خواب جس نے کسی کی جان بچائی‘‘پیش کیا گیا

وہ خواب جس نے کسی کی جان بچائی

کے نام سے نائیجیریا سے ایک پروگرام دکھایا گیا۔ اس میں ایک احمدی ڈاکٹر حمیدہ عبدالسلام صاحبہ جو کہ گائناکالوجسٹ ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے ایک ہاسپٹل کھولا۔ وہ بتاتی ہیں کہ بعض اوقات رات ہاسپٹل میں مریضوں کی تیمارداری کے لیے گزارنی پڑتی ایسی ہی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک پانچ سال کے بچے کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری ان پر تھی لیکن اس بچے کی وفات ہو گئی۔ خواب میں ہی ان کو معین ہدایات دی گئیں کہ اس طرح کرو جیسے یہ انجیکشن لگاؤ یہ دوائی دو اور ان ہدایات پر عمل کرنے سے وہ بچہ دوبارہ زندہ ہو گیا۔ وہ بہت حیران تھیں کہ کیوں مجھے اس ترتیب سےایسا کرنے کو کہا جا رہا تھا چند دن بعد جب وہ کلینک میں تھیں تو ان کے پاس ایک بچے کو لایا گیا جو ہوش میں نہیں تھا بچے کو سخت بخار تھا ان کو اپنا چند دن پہلے والا خواب یاد آیا۔اس بچے کو ملیریا بخار تھا جس کے لیے ایک خاص انجیکشن ہوتا ہےاور اسے لگانے کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے۔ اس بچے کو غلط طریقے سے وہ انجیکشن لگ گیا جس کی وجہ سے بچے کے دل کی دھڑکن رک گئی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بچہ مر گیا ہے اس بچے کو CPR بھی کیا اور دیگر طریق بھی اپنائے گئے لیکن امید کی ہر کرن ختم ہو گئی تھی. اس وقت انہوں نے اللہ سے دعا کی کیونکہ وہ اس کلینک کی مالک اور سارے حالات کی ذمہ دار تھیں۔ دروازے کے باہر اس بچے کے لواحقین بہت شور مچا رہے تھے۔ وہ بہت خوف زدہ تھیں اس خواب میں جو ہدایات ان کو دی گئی تھیں کہ کون سی دوائی پہلے دینی ہے اور کیاکیا طریق اپنانے ہیں وہ اپنے خواب کے مطابق سب عمل کرتی رہیں ان کو یہی لگا کہ اللہ تعالی نے انہیں اس سب عمل کے لیے پہلے سےتیار کیا اور وہ خود مدد کرنے آیا ہے۔ اس بچے کی ماں بہت خوش تھی اور وہ ڈاکٹر صاحبہ بھی بہت حیران تھیں کہ یہ سب کیا ہوا ہے۔ ایسے غیر معمولی واقعہ سے خداتعالیٰ پر ان کا مزید یقین بڑھا اور اس کی ذات پر ایمان اور پختہ ہوا۔

اس کے بعد پروگرام “Coffee Shop Conversations: The London Youthکے نام سے مکرم صباح الدین احمدی صاحب نے پیش کیا۔ جس میں لندن کے خدام سے گفتگو کی گئی۔ پھرریویو آف ریلیجنز کے مدیر اعلیٰ مکرم عامر سفیر صاحب سے The God Summit کے اجراء کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ اس پروگرام کا خیال کیسے آیا اور کس طرح یہ اتنا کامیاب پروگرام منعقد ہوا۔انہوں نے اس کا تمام احوال بیان کیا کہ کس طرح شب وروز کی محنت سے یہ پروگرام تیار ہوا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی یہ ہدایت ہےکہ اس پروگرام کو ہر سال منعقد کیا جائے۔

اس کے بعد مکرم عبدالغنی جہانگیر خان صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور انچارج فرنچ ڈیسک نے تقدیر کے حوالے سے ناظرین کی جانب سے موصول ہونے والےسوالات کا جواب دیا۔ اس کے بعد لندن کے ایک نوجوان کا واقعہ بیان کیا جن کا نام مکرم کمال آفتاب مرحوم تھا۔ جو 1982ء میں پیدا ہوئے اور 2015ء میں وفات پائی۔ اپنی مختصر سی عمر میں انہوں نے جماعت کا نام بہت روشن کیا اور بہت چیریٹی کا کام کیا۔ سو سے زائد انٹرویوز میں انہوں نے لوگوں کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ ان کو انگلینڈ میں مختلف تنظیموں کی طرف سے بےشمار ایوارڈز ملے ملکہ برطانیہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان کو اچانک کینسر کا موذی مرض ہوا جس کا انہوں نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا اور اس بیماری میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات بھی کی اور ان کو مسلسل دعاؤں کے پیغام بھی پہنچاتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک جنازہ ہے مکرم کمال آفتاب صاحب کا جو 7 اگست 2015ء کو لیڈز اسپتال میں Leukemia کے مرض کی وجہ سے 33 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ اپنی بیماری کے آخری دنوں میں بھی اسپتال سے ہی اس مرض کی ریسرچ کرنے کے لیے 50،000۔£کی مہم چلا رہے تھے۔ زندگی کے آخری سانس تک بے نفس ہو کر مختلف پراجیکٹس میں انسانیت کی خدمت اور تبلیغ میں مصروف رہے۔ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بوڑھے والدین کو بھی حوصلہ عطا فرمائےاور ان کی تسکین و تسلی کے سامان پیدا فرمائے۔ ان کے باقی بھائی وغیرہ جو ہیں اور قریبی عزیز ان سب کو بھی اللہ تعالیٰ صبر و حوصلہ دے۔ آمین۔

ایک پروگرام جس میں ایک کمپنی کے CEO مکرم مجیب اعجاز صاحب سے کچھ سوالات کیے گئے پیش کیا گیا۔

اگلا پروگرام ایک گفتگو پر مشتمل تھا۔ مکرم حافظ مولوی اسماعیل احمد ادوسی صاحب مشنری اکرا گھانا اور مکرم مولوی عمر گیاسی صاحب نے پیش کیا۔ شرکائے گفتگو میں منیر سعید صاحب اورعثمان لے صاحب شامل تھے۔ جس میں مذہب اور کا میابی پر بات چیت کی گئی۔

اس کے بعد ایک پروگرام جس کا عنوان تھا wearing Faith on my sleeve پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر سارہ وسیم اس پروگرام کی میزبان تھیں۔جس میں حجاب کے موضوع پر گفتگو کی گئی۔ شرکائے گفتگو میں ڈاکٹر فریحہ خان لندن سٹوڈیو سے شامل تھیں یہ لجنہ اماء اللہ انگلینڈ کی صدر ہیں اور ڈاکٹر بھی ہیں اور منال عودہ صاحبہ حائفہ کبابیر سے شامل تھیں جو ٹیچر ہیں۔ اور گھانا سے ایک بہن زکیہ بن صالح تھیں جو کہ پبلک سروس کمیشن میں کام کرتی ہیں اور وہاں کے لوکل جماعتی رسالے خدیجہ کی مدیرہ بھی رہ چکی ہیں۔ آخری مہمان بہن محترمہ خولہ ہیوبش صاحبہ تھیں جو جرمنی سے شامل تھیں۔یہ ایک جرنلسٹ ،مصنف ،تجزیہ نگار ہیں۔ اس میں سب بہنوں نے حجاب کے حوالے سے اپنے اپنے تجربات بیان کیے۔ ڈاکٹر فریحہ خان نےاپنے حجاب کے بارے میں اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے پاکستان سے اپنی میڈیسن کی تعلیم مکمل کی تھی اور شادی کے بعد میں انگلینڈ آگئی تھی۔ اس ملک میں میڈیسن کی پریکٹس کے لیے آپ کو مختلف امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے اور سب سے آخری اور مشکل مرحلہ کلینیکل ایگزام کا ہوتا ہے۔ جب میں اس ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھی تو میری ایک ساتھی جو میرے ساتھ اسی امتحان کی تیاری کر رہی تھی اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ میں امتحان والے دن کیا پہن کر جاؤں گی؟ اس کا سوال سن کر مجھے تھوڑی سی حیرت ہوئی۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ ظاہر ہے میں اپنا حجاب اور کوٹ ہی پہن کر جاؤں گی جیسا کہ میں ہمیشہ کرتی ہوں۔ اس نے کہا کہ اگر تم یہ پہن رہی ہو پھر تو تم پاس نہیں ہو گی۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا لیکن میں تھوڑی سی اپ سیٹ ہو گئی۔ میں اس لیے اپ سیٹ ہو گئی کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں اپنا حجاب کبھی بھی نہیں اتاروں گی اور اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب ہوگا کہ مجھے اپنا کیریر ختم کرنا پڑے گا جو کہ میرا شوق اور جذبہ بھی ہے لیکن میں اپنا حجاب نہیں چھوڑوں گی۔ میں ساتھ ساتھ دعا بھی کر رہی تھی میں اپنا امتحان حجاب اور کوٹ کے ساتھ ہی دینے گئی اور جب رزلٹ آیا تو میں پاس ہو گئی الحمدللہ لیکن وہ لڑکی پاس نہیں ہو ئی۔ میں ہمیشہ محسوس کرتی تھی کہ میں نے اپنا امتحان اس لیے پاس نہیں کیا کہ اس میں میری کوئی کوشش شامل تھی بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان تھا کہ اگر ہم خدا کی رضا کی خاطر کوئی قدم اٹھاتے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں تو وہ ہمارے دنیاوی معاملات کو خود دیکھ لیتا ہے اور اگر میں اپنے حجاب پر کمپرومائز نہیں کرتی تو اللہ خود میرا ساتھ دے گا۔ یہ میرا پہلا قدم تھا کلینیکل یا میڈیکل کی دنیا میں اس مغربی دنیا میں جس کا مجھے پہلے کچھ تجربہ نہ تھا اور اس بات کو آج بیس سال گزر گئے ہیں میں ابھی بھی محسوس کرتی ہوں کہ یہ بہت انسپائرنگ ہے۔ مکرمہ خولہ ہیوبش نے خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق کے حوالے سے اپنے بہت سے ایمان افروز واقعات بیان کیے کہ کس طرح مختلف مواقع پر خدا تعالیٰ کی غیبی تائید نے ان کی راہنمائی اور مدد کی۔اس کے بعد وہاب آدم سٹوڈیو گھانا سے دوبارہ ایک پروگرام پیش کیا گیا جس میں لوگوں کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔ اس کے بعد فلاڈیلفیا یو ایس اے سے ایک پروگرام بعنوان Allah is your Friend خدا آپ کا دوست ہے پیش کیا گیا۔جو کہ ایک امریکن احمدی دوست رفیق فرائینڈ صاحب کے خدا سے ذاتی تعلق کے واقعات کے حوالے سے تھا۔جس میں انہوں نے بیان کیا کہ جب میں کسی سے سوال کرتا تھا کہ کیا آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو اکثر لوگوں کا جواب ہاں ہوتا تھا مگر جب میں ان سے پوچھتا کیا آپ کا خدا سے ذاتی رشتہ ہے تو ان کا رویہ استفہامیہ اور عجیب سا ہوتا تھا۔ جبکہ انہوں نے نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں خدا کی دوستی سے لطف اٹھایا بلکہ معجزے کی حقیقت کو بھی جانا۔اگلا پروگرام Making Sense of Faith تھا۔اس پروگرام کے میزبان مکرم Jonathan Butterworth جو ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹوریل بورڈ ممبر ہیں اور مکرم ڈاکٹر عمر نصیر نے پیش کیا۔جس میں ایمان کیا ہے اور اس سے کیا مراد ہے اس کے کیا مدارج ہیں و دیگر پہلوؤ ں سے اس موضوع کو بیان کیا گیا۔اس کے بعد گھانا سٹوڈیو سے ایک اور گفتگو پر مبنی پروگرام تھا جس میں دعا کے موضوع پر موصول ہونے والے مختلف سولات کے جوابات دیے گئے۔شرکائے گفتگو مکرم مولوی عمر گیاسی ، مکرم حافظ مولوی حفیف ابراہیم اور مکرم مولوی اسماعیل احمد آدوسی صاحب تھے۔

اگلا پروگرام مستجاب دعا کے بارے میں تھا۔ جو کہ مکرمہ Nada Al Shendaghli(کینیڈا) نے اپنے بارے میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا ’’میں اپنی بیعت کی کہانی سے شروع کرتی ہوں۔آج میں 32سال کی ہوں اور خود کو پہلے سے بہت زیادہ طاقتور محسوس کرتی ہوں۔ میں 19سال کی تھی جب میں نے احمدیہ مسلم جماعت کے بارے میں ریسرچ کرنا شروع کی۔ میں نے اس وقت پہلی دفعہ اس جماعت کے بارے میں سنا تھا۔ سب سے پہلے میں نےجماعت کے بارے میں انٹر نیٹ پر ریسرچ تھی۔ لیکن بد قسمتی سے انٹر نیٹ پر سب سے پہلے جماعت احمدیہ کی مخالف ویب سائٹس ہی نظر آتی ہیں۔ لیکن امام مہدی حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں غلط الفاظ مجھے آگے بڑھنے سے روک نہ سکے اور میں نے سوچا کہ میں اس جماعت کے بارے میں اور ریسرچ کروں گی۔ میں جماعت احمدیہ کی جو اصل ویب سائٹ تھی اس کی تلاش میں تھی۔ میں اس وقت سیریا میں تھی جہاں وہ ویب سائٹ سب کے لیے بند تھی اور اس تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ پھر میں نے ان لوگوں سے بات کی جن کا جماعت احمدیہ سے کچھ تعلق تھا۔ انہوں نے مجھے کچھ کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔اس طرح میں نے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ اور ’’حمامۃ البشریٰ ‘‘ پڑھنی شروع کیں۔

مجھے یہ پڑھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اسلام کا مطلب بالکل مختلف بیان کیا گیا تھا جو ہم بڑے ہوتے تک پڑھتے آئے تھے۔ میرے خاندان والوں نے سوچا کہ جماعت احمدیہ کے بارے میں اس چھوٹی عمر میں مطالعہ کرنا میرے لئے ایک بڑی غلطی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی تعلیم پر زیادہ دھیان دینا چاہیے بجائے مذہب پر ریسرچ کرنے کے۔ لیکن مجھے کوئی چیز روک نہ سکی۔ میں نے اپنی تحقیق اور مطالعہ جاری رکھا جس کی وجہ سے میں خدا تک پہنچ گئی۔ اور میری سچائی کی طرف راہنمائی کی گئی۔ ایک دن میں نے ایک خواب دیکھا جو میری بیعت کرنے کا سبب بنا۔میں نے دیکھا کہ میرے مرحوم والد مجھے حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک تصویر دکھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہی مسیح موعود اور مہدی موعود ہیں۔ میری بیٹی ان کی پیروی کرو۔ میں نے بیدار ہونے کے بعد اور زیادہ جماعت کے بارے میں ہر جگہ سے پتا کرنا شروع کیا۔ میں نے عربک ڈیسک کو ایک ای میل کی اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے سیریا میں کسی احمدی عورت کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ الحمد للہ اس کوشش کے بعد ایک خاتون مجھے ملیں مجھ سے بات کی اور میں اپنا بیعت فارم سائن کر کے احمدیت میں داخل ہو گئی۔ میں نے ان سے بیعت کو خفیہ رکھنے کا کہا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری فیملی کو پتہ چلے۔ کس طرح ایک یتیم لڑکی اپنے خاندان کے سامنے کھڑی ہو گی اور ان کو بتائے گی کہ آج میں ایک دوسرے عقیدے اور مذہب سے منسلک ہو گئی ہوں اور ایک دوسری جماعت میں شامل ہو گئی ہوں اور میں احمدی ہو گئی ہوں۔ ایک دن میرے لیے ایک رشتہ آیا جو کہ کسی احمدی کا تھا۔ لیکن میرے خاندان نےاس لیے منع کر دیا کیونکہ وہ احمدی تھا۔ ان لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ میں بھی اب احمدی ہوں۔ گو کہ وہ اچھا انسان تھا اچھے اخلاق کا تھا لیکن ان کی ایک شرط یہ تھی کہ وہ جماعت احمدیہ کو چھوڑ دے اور ان کو غیر مسلم قرار دے لیکن اس نے کہا کہ اگر اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری بیٹی میری بیوی بنے تو خدا تعالیٰ اسے میرے لیے ممکن بنا دے گا۔ اس کے بعد میں نےاللہ تعالیٰ سے دعا کرنی شروع کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایک اچھا احمدی خاوند عطا کرے۔ میری زندگی کی یہ خواہش تھی کہ میرا تعلق ایک احمدی خاندان سے ہو جس کا خلافت سے تعلق ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے خاندان کا ڈر بھی تھا۔ ایک دن میرے بھائی نے مجھ سے کہا کہ جس دن میں نے احمدی ہونے کا سوچا تو وہ میرا آخری دن ہو گا۔ اللہ تمہاری بھی راہنمائی کرے اور ہماری بھی۔ جوں جوں دن گزرتے گئے میں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں جاری رکھیں- اور کون ہے اللہ کے سوا جس سے دعا کی جائے؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میں تمہارے نزدیک ہوں۔ تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ اللہ تعالیٰ ہماری ماؤں سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اللہ ہم سے کتنا نزدیک ہے ؟ اللہ ہمارے والد سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ میں تہجد اور فجر کی نماز میں بار بار رورو کر دعا کرنے لگی۔ ایک دن میں نے فجر کی نماز ختم کی اور قرآن کی تلاوت کے بعد کچھ دیر کے لیے سو گئی۔ میں نےایک خواب دیکھا جو کہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ اس خواب میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے میرے خاندان کو بلایا اور انہوں نے میری والدہ کو کہا کہ وہ ہمارے گھر آئیں گے اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ میری والدہ نے ان کا استقبال کیا اور مجھے بتایا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ ہیں جنہوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ کل ہم سے ملنے اپنی بیگم کے ساتھ آئیں گے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ آئیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’’ہاں ‘‘۔میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے انہیں روکا نہیں۔تو انہوں کہا کہ نہیں ہم مہمان کو روکتے نہیں۔ میں نے اپنے گھر کی دیواریں دیکھیں جن کی ابتر حالت تھی اور ہماری غربت کو ظاہر کر رہی تھیں۔ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ ہم انہیں کیا کھانے میں پیش کریں گے۔ انہوں نےکہا کہ کچھ فرنچ فرائز اور دال کا سوپ۔ میں نے کہا کہ یہ تو سادہ سا کھانا ہے جو کھانے کی شروعات میں Appitizerکے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ وہ تو کھانے پر آرہے ہیں۔میری والدہ نے کہا ہمارے پاس یہی کچھ ہے ہم کچھ اور پیش نہیں کر سکتے۔ میں بہت روئی کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا اپنے گھر میں کس طرح استقبال کروں گی اور کیسے وہ کھانا ان کے سامنے رکھوں گی جو ان کے معیار کے مطابق نہیں۔ اگلے دن میں حضور کا استقبال کرنے گلی میں گئی تو دیکھا کہ گلی میں بچے بڑے عورتیں سب گلی کے دونوں اطراف میں موجود تھے۔سب نے ان کا ستقبال ’’ ہم پرچاند نکلا ‘‘ گا کر اور تکبیرات کے ساتھ کیا۔ وہ ان کے درمیان سے گزر کر ہمارے گھر پہنچ گئے۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ تشریف لے آئے ہیں۔ ہمارا گھر عورتوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ ہم انہیں کہاں بٹھائیں گے۔ یہاں تو کوئی جگہ نہیں۔ مگر وہؑ آرام سے ایک شخص کے ساتھ بیٹھ گئے جو ان سے محبت کرتا تھا پھر ہم بھی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ میری والدہ نے انؑ کو فرنچ فرائز اور دال کا سوپ پیش کیا۔میں بہت رو رہی تھی کہ یہ کھانا کیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے لیے پورا ہو گا۔آپؑ اور آپ کی اہلیہ نے اس میں سے تھوڑا سا کھایا اور پھر پلیٹ تمام لوگوں کے پاس جاتی رہی اور سب نے اس میں سے پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’ اے میری بیٹی ڈرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ایک اچھا اور نیک خاوند ڈھونڈنے میں آسانیاں پیدا کرے گااور اللہ تعالیٰ آپ کو ایک بیٹا دے گا جس کا نام آپ احمد رکھنا۔‘‘ میں نے انکار کر دیا کیونکہ اس وقت مجھے احمد نام پسند نہیں تھا۔انہوں نے پھر کہا کہ ’’ آپ کو ایک بچے سے نوازا جائے گا جس کا نام احمد ہوگا۔‘‘ لیکن میں نے پھر انکار کر دیا کہ مجھے یہ نام پسند نہیں۔انہوں نے تیسری دفعہ پھر دہرایا اور میں نے دوبارہ انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بیٹے سے نوازے گا اور اس کانام احمد ہوگا جس پر آخر کار میں نے کہا سمعنا و اطعنا۔ اس کے بعد خواب ختم ہوگیا جب میں اٹھی تو میں کانپ رہی تھی اور رو رہی تھی اور مجھے یہ آج بھی یاد ہے۔ دو دن گزرے تو میں باورچی خانہ میں کھڑی تھی کہ میرا بڑا بھائی آیا جس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں احمدی ہوئی تو وہ مجھے قتل کر دے گا ، اس نے مجھے کہا کہ میں نے سیریا میں ایک امام سے پوچھا ہے کہ اگر میری بہن کسی احمدی سے شادی کرنا چاہے تو کیا ہو گا ؟ اس نے کہا کہ یہ کوئی مسٔلہ نہیں کیونکہ احمدی بھی مسلمان ہیں۔ میں نے کہا کہ سبحان اللہ سبحان اللہ آج میرا وہ بھائی جس سے میں خوفزدہ تھی اور میری کسی احمدی سے شادی کا مخالف تھا آج وہی مجھے احمدی سے شادی کی نوید دے رہا ہے۔ اور اس طرح میری رؤیا کا پہلا حصہ پورا ہوا کہ میں کسی احمدی سے شادی کروں گی اور الحمد للہ میری شادی ایک احمدی سے ہو گئی۔ شادی کے کچھ سال گزرنے کے بعد ہمیں بچے کی خواہش ہوئی۔ میرا پہلا حمل دو ماہ بعد ختم ہو گیا۔ میں بار بار دعا کرتی رہی اور 2015ء میں ہم نے اعتکاف کیا اور اس میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر سے نوازا اور میں نے ایک بہت ہی خوبصورت خواب دیکھا۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ایک چھوٹے سے بچے کو اٹھائے ہوئے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ ’’ اسے پکڑو‘‘میں نے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا ’’ یہ تمہارے لیے ہے۔‘‘میں نے بچہ گود میں لیا اور یہ میری زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ تھا۔ مجھے لگا جیسے وہ میرا بیٹا ہو۔ اور یہاں خواب ختم ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد میں دوبارہ حاملہ ہوئی ڈاکٹر ز نے مجھے کہا کہ میں جب بھی حاملہ ہوں گی میرا بچہ ضائع ہو جائے گا اور وہ میرا کیس لینے سے انکار کر دیتے تھے۔ لیکن میں دعا کرتی تھی اور مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ جب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میں تمہارے قریب ہوں تو وہ ضرور میری دعائیں سنے گا۔ میں نے اپنے حمل کے ابتدا میں حضرت خلیفۃ المسیح کو خط لکھا کہ وہ میرے لیے دعا کریں۔ تو حضور نے فرمایا کہ وہ میرے حمل کے مکمل ہونے کے لیے دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ میری تمام مشکلات آسان کرے اور مجھے ایک صحت مند بچے سے نوازے۔ حضور نے دو نام تجویز فرمائے کہ اگر لڑکی ہو تو نام ’’امۃ الحئی ‘‘ اور اگر لڑکا ہو تو اس کا نام ’’عبد الحئی‘‘ رکھنا۔ الحمد للہ امۃ الحئی پیدا ہوئی اللہ تعالیٰ اس کو ہماری آنکھوں کا نور بنائے۔ اب میں یہاں دوسری خوشخبری کا ذکر کرنا چاہوں گی جو میں نے اپنے خواب میں دیکھی تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے تین دفعہ مجھے بیٹے کے بارے میں خبردی تھی جس کا نام احمد ہو گا اور اس نام کی وجہ سے میں نے انکار کر دیا تھا۔ اس لیے میرے تین حمل ضائع ہوئے مگر چوتھی مرتبہ کے حمل سے مجھے اللہ تعالیٰ نے بیٹے سےنوازا الحمد للہ۔ باوجود ڈاکٹرز کے انتباہ کے اللہ تعالیٰ نے مجھے تین بچوں سے نوازا جو میری زندگی کی خوشی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام بہنوں اور ان کے خاوندوں کو نیک اولاد سے نوازے اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول کرتا چلا جائے۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘ میں انسان کو اس بات کا یقین دلا سکتا ہوں کہ خدا ہونا چاہئے۔خدا تعالیٰ کا یقین رکھنا کہ وہ ہے اس کا انسان کو اپنے تجربہ سے پتہ چلتا ہے۔ اس کے بعد ایک پروگرام The case for God´s Existence کے حوالے سے پیش کیا گیا جس میں کتاب ہمارا خدا سے تین مضامین بیان کیے گئے۔ اس کے بعد گھانا سے ایک اور پروگرام مکرم عمر گیاسی صاحب نے پیش کیا جس میں اوہام کے تصورات اور لوگ کس طرح ان سے متاثر ہوئے ہیں پیش کیا گیا۔وہم کیا ہے ؟پر مکرمہ ہبہ فرخ صاحبہ نے روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ صرف تیس فیصد لوگ ہیں جو اوہام سے متاثر نہیں ہوتے۔مگر کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو مختلف اوہام کو مانتے ہیں۔اس بارے میں کئی لوگوں سے آرا بھی لی گئیں۔اس کے بعد ایک پروگرام جو کہ مشنری صباحت علی صاحب نے پیش کیا جس کا نام تھا God in silicon Valley جس میں مختلف طالب علموں سے ہستی باری تعالیٰ پر ایمان کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس کے بعد ایک پروگرام سوالات و جوابات پر جو ہستی باری تعالیٰ کے موضوع سے تعلق رکھتے ہیں مکرم عبد القدوس صاحب کےساتھ جو صدر خدام الاحمدیہ یوکے ہیں لائیو نشر کیا گیا۔ اس پروگرام کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ سوال گوگل سے لیے گئے تھے۔پروگرام کے آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خصوصی پیغام نشر کیا گیا۔جس کے بعد یہ دو دن کی نشریات اپنے اختتام کو پہنچیں۔الحمد للہ۔

[حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی پیغام کے مکمل متن کے لیے ملاحظہ ہو الفضل انٹرنیشنل 24؍تا30؍مئی2022ء(خصوصی اشاعت برائے یوم خلافت)صفحہ10تا11]

(رپورٹ: درِثمین احمد آصف۔ عنبرین نعیم جرمنی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button