یادِ رفتگاں

سائبان تھی میری پیاری ماں

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

’’میں نے اپنا بڑا بیٹا اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کیا تو اُ س کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے 8بیٹے عطا فرمائے‘‘

اللہ تعالیٰ نے دنیامیں ’’ماں ‘‘ ایک ایسا وجود بنایا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ایک بچہ اپنی توتلی تا تھوتھلی زبان میں اپنے منہ سے پہلے الفاظ نکالتا ہےتو وہ ماما، مم، ممامماکےہوتے ہیں۔ ماں کا لفظ دنیا کی کئی زبانوں میں خاصا مشترک پایا جاتا ہے۔ جیسےماں، اماں، امی، ممی، ماما، مادر، مُوتر، مامی، مائی، ماتا وغیرہ۔ ویسے’اُم ‘کے معنی کسی چیز کی اصل، بنیاد، اورجڑکے ہوتے ہیں۔ سائبان کے ہم معنی یا مترادف الفاظ چھجّہ، شامیانہ، چھپر، شیلڈ، برآمدہ اور چھتری کے کیے جاتے ہیں۔ لیکن با محاورہ ترجمہ کرتے وقت ’’سائبان ‘‘ایسی پناہ گاہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کے نیچے دھوپ یا بارش کے وقت پناہ لی جاسکے۔ وہ دھوپ کی تپش اور بارش کی بو چھاڑ کوخود تو برداشت کرے لیکن پناہ گزیں کو سلگنےاورٹھٹھرنے سےمحفوظ رکھے۔ ماں ہی وہ سائبان ہے جس کے زیر سایہ بچے پلتےاور کھیلتے کودتے بڑے ہوتے ہیں۔ زندگی کے ہر موڑپر اس کی حمایت و مہربانی، شفقت و سرپرستی کی ضرورت رہتی ہے۔ جس کے بغیر و بنا زندگی کا سفردشوار گذار اور مشکل ہو جاتاہے۔ زندگانی کا سفر اگر آسان ہو جاتا ہے تو ماں کی دُعا سے، جنت کی ٹھنڈی ہوا اگرمحسوس کی جاسکتی ہے تو ماں کی دعا خوانی سے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ سائبان ہے نہ ماں !

ایسی ہی ایک سائبان پناہ گیروں کو اکیلا چھوڑ کر مورخہ 16؍جولائی 2021ء بروز جمعۃ المبارک کی صبح کواپنے مالک حقیقی کے پاس چلی گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کا نام محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ تھا۔ آپ مکرم چودھری محمد سلیمان صاحب مرحوم آف راجن پورشہر پاکستان کی زوجہ تھیں۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والدمحترم چودھری محمد حسین صاحب مرحوم کے ذریعہ آئی جو کہ قادیان کے ساتھ ایک گاؤں ’’نانگل‘‘ کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد صاحب نے 1930ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کرکے احمدیت کو قبول کیا تھا۔ الحمدللہ

اللہ تعالیٰ نےآپ کو 9 بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ بر ملا اِس با ت کا اظہار کرتیں کہ میں نے اپنا بڑا بیٹا اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کیا تو اُ س کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے 8 بیٹے عطا فرمائے۔ خاکسار جب پیداہوا تو آپ نے خواب میں دیکھا کہ مجھے چھری کے ساتھ ذبح کررہی ہیں۔ اِ س خواب کے بعد بہت پریشان رہنے لگیں اورمکرم والد صاحب سے اس خواب کا ذکر کیا۔ انہوں نے آپ کی خواب لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو بھجوائی۔ آپؒ کی طرف سے جواب موصول ہوا کہ جاویداقبال کو وقف کردو۔ چنانچہ خاکسار کو وقف کردیا اورجب میں مربی بنا تو اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت شکر اداکیا۔

صفات حمیدہ وخصال

اللہ تعالیٰ نے میری والدہ محترمہ کے اندر بہت سی خوبیاں اور صفات رکھی تھیں۔ بہترین ماں اور بہترین استاد تھیں۔ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم میں آپ کوبھر پور خدمت کرنے کی توفیق ملی اورصدر لجنہ راجن پور شہر کی حیثیت سے بھی خدمت کرتی رہیں۔ نظام جماعت کی اطاعت آپ کی اہم خوبی تھیں۔ نہ صرف خود اطاعت کرتیں بلکہ اطاعت کرواتی بھی تھیں۔ خلافت کے ساتھ وفا اور محبت کا تعلق تھا۔ جمعہ کے دن بہت پہلے ٹیلی ویژن لگا کرحضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا انتظار کرتیں اور گھر والوں کو بھی بلاتیں۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدکم اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں جس کاانہوں نے کئی بار اظہار بھی کیا۔ ذیا بیطس کی وجہ سے آخری عمر میں بینائی متاثر ہوئی تو ڈاکٹر آنکھوں میں ٹیکہ لگا کر علاج کرتے تھے جو کہ ایک تکلیف دہ علاج تھا۔ بار بار ٹیکہ لگنے سے آپ نے اپنی تکلیف کا اظہارمتعدد بار خاکسار سے بھی کیا۔ اورکہا کرتی تھیں کہ میں اب آنکھ میں ٹیکہ نہیں لگواؤں گی۔ ایک دفعہ جب ڈاکٹرنے آنکھ میں ٹیکہ لگانے کی تجویز دی تو آپ نے صاف انکار کردیا۔ لیکن جب خاکسار نے کہا کہ امّی جان اگر آپ ٹیکہ نہیں لگائیں گئی تو آنکھیں کیسے ٹھیک ہوں گئی۔ اور اگر آنکھیں نہیں ٹھیک ہوں گی تو حضورِ انور کو کیسے دیکھیں گی۔ میرےان الفاظ کا سننا ہی تھا کہ ٹیکہ لگانے کے لیے تیار ہوگئیں اور ٹیکہ لگوا کر مجھے فون کرکے بتایا کہ انہوں نے ٹیکہ لگوا لیا ہے۔

خلیفۃ المسیح کی ہر تحریک پرلبیک کہتیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے وقف نَو کی تحریک کی تو آپ دعاؤں میں لگ گئیں اور اس تحریک میں شامل ہونے کے لیےبے چین رہنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور عزیزم لقمان احمدزاہد سے نوازاجس کو آپ نے تحریک وقف نَومیں شامل کیا اور مربی بنا کر جماعت کے سپرد کردیا۔ الحمدللہ

عبادات کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کریم کا وصف

میری والدہ صاحبہ پانچ وقت نماز کی عادی، دعا گو، تہجدکی ادائیگی میں پوری کوشش کرنے والی تھیں اور قرآن کریم کی تلاوت میں بڑی باقاعدگی تھی۔ ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کیے بغیر ناشتہ کرنے کی اجازت نہ ہوا کرتی تھیں۔

چنانچہ آپ کے بیٹے لقمان احمد زاہدصاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں: ’’فجر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن کریم لازمی کیا کرتی تھیں۔ خاکسار کو قرآن کریم سادہ والدہ صاحبہ سے ہی پڑھنے کی توفیق ملی۔ اگر کبھی خاکسار سے تلاوت کرنے میں سستی ہوجاتی تو بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا کرتی تھیں۔ والدہ صاحبہ نماز وقت پر ادا کرنے کی عادی تھیں۔ گھر میں نمازوں کے اوقات مقرر تھے اور اگر کبھی کسی وجہ سے ان اوقات میں نماز شروع نہ ہوسکتی تو ناراضگی کا اظہار کیا کرتی تھیں۔ آخری ایام میں بھول جانے کا مسئلہ بھی لاحق تھا۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ نماز پڑھنے کے بعد پھر وضو کرلیتیں کہ شاید ابھی نماز پڑھنی ہے۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ نماز کا وقت ابھی نہیں ہوا ہوتا تھا، خاص طور پر نماز مغرب کا، لیکن وضو کرکےبیٹھ جاتیں اور کہتیں لقمان جماعت نہیں کروانی۔ ‘‘

آپ کے بیٹے نعیم احمدصاحب رقم طراز ہیں: ’’خاکسار کی والدہ صاحبہ وقت پر نماز ادا کرنے کی عادی تھیں۔ اگر وقت پر جماعت نہ ہوتی تو ناراضگی کا اظہار کرتیں۔ فجر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن کریم باقاعدگی سے کیا کرتی تھیں۔ اگر کوئی تلاوت کیے بغیر کسی اور کام میں لگ جاتا تو فوری اس کو تلاوت قرآن کریم کرنے کا کہا کرتی تھیں۔ ‘‘

آپ کی بہو مبشرۃ الرحمٰن صاحبہ لکھتی ہیں: ’’ آخری وقت تک جب تک ہوش میں تھیں۔ نماز کا وقت پوچھ کر فورا ًکہتیں کہ مجھے وضو کراؤ اور بستر پر لیٹے لیٹے ہی نماز ادا کرتیں۔ جب تک ہوش میں رہیں دعائیں اور استغفار بہت کرتی رہیں۔ ‘‘

مالی قربانی میں پیش دستی

مالی قربانی میں ہمیشہ صفِ اوّل میں تھیں۔ سیکرٹری صاحب مال کو گھر بلا کر چندہ کی ادائیگی خود بھی کرتیں اور دوسرے گھر والوں سے بھی کرواتیں۔ خاکسار کےوالد صاحب مرحوم اور دوسرے مرحومین کا چند ہ باقاعدگی سے ادا کرتیں یا اداکرواتیں۔ صدقہ کی ادائیگی اس طرح کرتیں کہ کسی کو خبر نہ ہوپاتی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ مو صیہ تھیں اورآپ نے اپنی زندگی میں ہی اپناحصہ جائیداد ادا کر دیا تھاجس کا ہم بھائیوں کو علم نہ تھا۔ جب بیمار ہوئیں تو جائیدادکی تشخیص کرواکر جب مرکزبھجوائی گئی تو مرکز والوں نے بتایا کہ انہوں نے تو پہلے ہی سے اپنی جائیداد کی تشخیص کرواکرادائیگی بھی کردی ہے۔

آپ کے بیٹے لقمان احمد زاہدصاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں: ’’خداتعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے امی جان وصیت کی بابرکت تحریک میں شامل تھیں۔ اسی برکت کی وجہ سے ہی خدا نے یہ بھی خاص فضل کیا کہ ہم سب بہن بھائی اور سب بھابیاں بھی اس بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ امی جان کو ہر ماہ چندہ خود سے ادا کرنے کی فکر ہوتی تھی۔ 2005ء میں اپنی جائیداد کی وصیت اپنے ہاتھوں سے ادا کی۔ صدقہ بھی گاہے بگاہے ادا کیا کرتی تھیں۔ خاکسار کو بھی کہا کرتی تھیں چندہ وقت پر ادا کیا کرو اور صدقہ ہر ماہ نکالا کرو۔ ‘‘

آپ کی بہوھبۃ المصبوح لکھتی ہیں: ’’جماعت میں ہر ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں۔ لجنہ کے پروگرام کے لیے جب بھی کوئی مالی تحریک ہوئی تو شامل ہوتیں اور اکثر پروگرام کے لیے کھانا اپنی طرف سے دے دیتیں۔ اس بات پر یقین تھا کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اورزیادہ ملتا ہے اور اکثر ان کے ساتھ ایسا ہو بھی جاتا تھااس پر بہت خوش ہوتیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتیں۔ ‘‘

جماعتی خدمات

جماعتی خدمات کو سب سے پہلے بجا لانا اپنا ہی فرض سمجھتی تھیں اور اس کے لیے ہر وقت تیار رہتیں اورکوئی بھی ذاتی کام جماعتی کاموں میں رکاوٹ نہ بن سکتا تھا۔

اس سلسلے میں آپ کے بیٹےنعیم احمدصاحب لکھتے ہیں: ’’خداتعالیٰ کے خاص فضل سے میری والدہ محترمہ کو لجنہ کے مختلف عہدوں کے علاوہ بطور صدر لجنہ شہر خدمت کی بھی توفیق ملی۔ بڑی عمدگی کے ساتھ لجنہ کی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ یہ آپ کی دعاؤں اور تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آپ کی بہوؤں کو صدر لجنہ شہر خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور ایک بہو کو بطور صدر لجنہ ضلع خدمت کی توفیق ملی۔ ان کے ساتھ خدمتِ دین میں ان کے شانہ بشانہ حصہ لیتی رہیں اور عمروں کا کبھی بھی فرق آڑے نہیں آنے دیا۔ ‘‘

مہمان داری

مہمان داری کی صفت میں آپ باکمال تھیں۔ آپ کےسب بیٹوں کے پاس کوئی نہ کوئی جماعتی خدمت ہوتی جس کی برکت سے اکثر جماعتی مہمانوں کی گھر میں آمد رہتی۔ خوش دلی سے مہمانوں کی خدمت کرتیں اور اہتمام کرواتیں۔ اگر کسی مربی صاحب کی آمد ہوتی تو مہمان داری میں مادرانہ شفقت وپیار بھی نظر آتا تھا اور کہا کرتی تھیں کہ’’مینوں تے اپنا جاویدای لگدا اے‘‘ یعنی مجھے تو یہ مربی صاحب اپنا بیٹا جاوید ہی نظر آتا ہے۔ خاکسار چونکہ گھر میں سب بہن بھائیوں سے بڑاہے اور کئی سالوں سے گھر سے باہر رہ کرجماعتی خدمت بجا لارہا ہے۔ تو اس طرح کا اظہار کر کے میری پیاری امّی جان اپنی اداسیوں کو دور کرتیں اور میرے لیے دعا کرنے بیٹھ جاتیں۔

آپ کے بیٹےلقمان احمد زاہدصاحب لکھتے ہیں: ’’خداتعالیٰ کے فضل سے آپ کوجماعتی مہمانوں کی خدمت کی بہت توفیق ملی۔ کچھ سال قبل تک جلسہ سالانہ یوکے، کے تینوں ایام میں احمدی احباب اپنے گھروں میں ایم ٹی اے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ میں نے اپنی امی جان کو حسبِ استطاعت خدمت ہی کرتے دیکھا۔ مجھے نہیں یاد کہ امی جان نے کبھی کہا ہو کہ ہم سے نہیں ہوتا۔ مرکزی یا ذیلی تنظیم کےپروگرامز میں اپنی طرف سے کھانا دل کھول کردیا کرتی تھیں۔ ‘‘

آپ کے بیٹے نعیم احمدصاحب لکھتے ہیں: ’’گھر آئے مہمان کی خدمت محبت اور شوق سے کرتی تھیں۔ مشکل حالات میں بھی مہمان کو خوش کرکے بھجوانا آپ کی عادت ہوتی تھی۔ مشکل حالات میں ہمارے گھر میں گوشت اسی وقت پکتا تھا جب گھر کسی جماعتی مہمان کی آمد ہوتی۔ لیکن مہمان کے کھانا کھانے کے بعد ہی گھر والوں کو کھانا ملا کرتا تھا۔ اس کے بعد خداتعالیٰ نے مالی لحاظ سے بہت فضل نازل فرمایا تو والدہ صاحبہ کا ہاتھ بھی دراز ہوتا چلا گیا۔ ہر جماعتی اور ذیلی تنظیم کے پروگراموں کے لیے ہمارا گھر مرکز بن گیا۔ اور والدہ صاحبہ کھانے کا انتظام اپنی بہوؤں کے ساتھ مل کرگھر میں ہی کیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ جماعتی مہمان جب بھی گھر آتے تو نئے بستر نکال کر لگایا کرتی تھیں۔ ‘‘

دوسروں کےغم کو اپنا غم سمجھنا

یہ وصف بھی میری امی جان میں نمایاں طور پر موجود تھا۔ ہم سب نے اس کا اپنے گھر میں خوب مشاہدہ کیا۔

چنانچہ آپ کے بیٹے نعیم احمد صاحب رقم طراز ہیں: ’’اگر کوئی اپنا یا غیر بیمار ہوتا تو تیمارداری کرنے ضرور جایا کرتی تھیں۔ اسی طرح اگر کسی اپنے یا غیر احمدی کے گھر فوتگی ہوجاتی تو افسوس کے لیے جانے کے علاوہ کوشش کیا کرتی تھیں کہ ان کے گھر پہلے وقت کا کھانا ہماری طرف سے ہی جائے۔ ‘‘

غریب پروری کی عادت

غریب پروری بھی آپ کی ایک اہم صفت تھی۔ سوالی کے سوال کو پورا کرنے کی کوشش میں لگی رہتیں۔ اگر کسی ملازمہ کی بیٹی کی شادی ہوتی تو اپنی بیٹی کی شادی کی طرح فکر اور دُعامیں لگ جاتیں۔ گھر میں اکثر اس کا ذکر کرتیں اور کہتیں پیٹی (بستر رکھنے والا بڑا صندوقچہ) تو لے کر ضرور دینا چاہیےاور اس کےساتھ گرم بستر اور برتن بھی ہم ہی لےکر دیں گے۔ ضرورت مند کی اس طرح مدد کرتیں کہ کسی کو خبر نہ ہوتی۔ جو رقم آپ کے ہاتھ آتی خداتعالیٰ کی مخلوق کےہاتھ میں دے کر ڈھیروں اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتیں۔

اس سلسلے میں آپ کے بیٹے لقمان احمد زاہدصاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں: ’’غریبوں کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتی تھیں۔ گھر میں کام کرنے والیوں کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو کوشش کرکے فوری ان کی مدد کیا کرتی تھیں۔ ‘‘

عاجزی و انکساری

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تکبر و غرور سے بہت دور رکھا ہواتھا۔ لیکن عاجزی و انکساری آپ کی ایک اہم صفت تھی۔

نعیم احمدصاحب اس سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں: ’’والدہ صاحبہ خداتعالیٰ کی تعلیم کہ میرے بندے عاجزی و انکساری سے زندگی بسر کرتےہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم کہ سچے ہوکر جھوٹوں کی طرح تذلل کرو کی عملی تصویر تھیں۔ کسی غلطی کو تسلیم کرنے میں پہل کرنےاور معاملے کو ختم کرنے کے لیے ہاتھ باندھ کر معافی مانگنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتی تھیں۔ ‘‘

آپ کی بہومبشرۃ الرحمٰن صاحبہ لکھتی ہیں: ’’آپ بہت نیک اور خدا ترس خاتون تھیں۔ ہمیشہ ذکر و اذکارسے اپنی زبان کو تر رکھتیں آپ نو (9) بیٹوں کی ماں تھیں لیکن کبھی فخر و غرور کا اظہار نہ کرتیں بلکہ یہ بات آپ کو مزید عاجزی و انکساری میں بڑھاتی۔ ‘‘

صبرو حوصلہ کی صلاحیت وقوت

پریشانیوں کے وقت صبرو حوصلہ کرنے والی خاتون تھیں۔ 20سال قبل جب والد صاحب کی اچانک وفات ہوئی، تو اس پر کمال حوصلہ دکھایا اورسب بچوں کو صبراور اللہ تعالیٰ کی رضا پر را ضی رہنے کی تلقین کرتی رہیں۔ اوریہ تمام عرصہ صبراوروالد صاحب کے لیے دُعائیں کرتے ہوئے گزارہ۔ آپ کے 2 بیٹے جوانی میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تو اُس پر بھی آپ نے کمال صبر و حوصلہ دکھایا۔ خاکسار کے ایک چھوٹے بھائی کا نام ظفر اقبال تھا۔ جو شادی کے چند ماہ بعد فوت ہوگئے۔ عزیزم ظفر اقبال صاحب نے اپنی آنکھوں کا عطیہ دینے کی وصیت کی ہوئی تھی۔ جب ان کی آنکھیں نکالی گئیں (چونکہ اُس علاقے میں یہ پہلا واقعہ تھا) تو غیراز جماعت رشتہ دار، خاص طور پر خواتین اور محلے والے یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ مرزائیوں نے(یعنی احمدیوں )نے اپنے بیٹے کی آنکھیں بیچ دی ہیں۔ اِسی طرح اور بھی کئی قسم کی غلط اور فضول باتیں ہوتی رہیں۔ لیکن آپ نے کسی کی کوئی پرواہ نہ کی۔ بہت صبر اور حوصلہ دکھایا اور اپنے بیٹے کی وصیت کو پوراکرنے پرجہاں اللہ تعالیٰ کاشکرادا کیاوہاں یہ بھی بار با ر کہتی ہوئی سنائی دیتی رہیں کہ’’میرا ظفرتے فوت ہوگیا آے پر اُدیاں اکھیاں تےزندہ نیں ‘‘ یعنی میرا ظفر تو فوت ہوگیا ہے لیکن اُس کی آنکھیں تو زندہ ہیں۔

آپ کی بہوھبتہ المصبوح صاحبہ تحریر کرتی ہیں: ’’آپ بہت نیک، صالح اور دعا گو خاتون تھیں، آخری اڑھائی ماہ بیماری میں گذارے، لیکن بہت صبر اور حوصلے سے وقت گذارا۔ تکلیف کی شدت میں اگر بے ساختگی میں منہ سے ہائے نکلتا تو فوراًاستغفار اور دعاؤں میں مشغول ہو جاتیں۔ بہت حوصلہ مند تھیں۔ خداپر توکل کرنے والی اور خلیفہ وقت کی دعاؤں پر یقین کرنے والی تھیں۔ آپ کی بیماری کے دوران بات ہوئی کہ فلاں ڈاکٹر سے دوائی لینی ہے۔ اُس سے ہی آرام آئے گاتوفوراً ٹوک دیا کہ نہیں آرام خدا نے دینا ہے اورخدا کے فضل سے ہی آرام آنا ہے۔ ‘‘

آپ کے بیٹے لقمان احمد زاہدصاحب مربی سلسلہ کہتے ہیں: ’’مجھ سے جب بھی پوچھتیں کہ کیا حال ہے؟ تو خاکسار عموماً کہتا اللہ کا فضل ہے۔ تو آگے سے ہر بار کہتیں بس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی چاہیے۔ خاکسار کی نانی جان، والد صاحب، دو بھائی، ایک بھابی، ایک خالہ اور آپ کے دو بہنوئی والدہ صاحبہ کی حیات میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ خاکسار نے کبھی بھی والدہ صاحبہ کے منہ سے کوئی ایسا لفظ نہیں سنا جس سے بےصبری کا احساس ہوتا ہو۔ اسی طرح بیماری کے دنوں میں بھی کبھی ان کے منہ سےکوئی تکلیف والا یا بےصبری والا لفظ نہیں نکلا۔ اگر کبھی بے اختیاری سےنکلتا بھی تو فوری احساس ہوجاتا اوراللہ تعالیٰ کے حضور معافی کی طلب گار ہوجاتیں۔ ‘‘

رشتوں کے انتخاب میں توکل بخدا

بچوں کےرشتوں کے انتخاب کا طریق بھی بہت سادہ اور اللہ توکل تھا۔ اکثرکہا کرتی تھیں کہ جو رشتہ پہلےگھر آجائے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لیے اُس کا انکار نہ کریں یہ نہ ہو کہ اس کے انکار کے بعد ہمیں پھر دوسروں کے در پر جانا پڑے۔ اپنے عزیزوں، بہن بھائیوں اور اُن کی اولاد سے اس قدر اُنس اور محبت تھا کہ اکثر گھر میں کہا کرتی تھیں کہ اگر میرے اور بچے بھی ہوتے تو اُن کی شادی بھی میں اپنے رشتہ داروں میں کرتی۔ ایک دفعہ ایک بہن کے گھر گئیں۔ جب ان کو دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کے رشتہ کی وجہ سے فکر مند ہیں تو ان کو کہنے لگیں آپ اپنی بیٹی کے رشتہ کی وجہ سے فکر نہ کریں وہ آج سے میری بیٹی ہے۔ اسی پر ہی بات پکی ہوگئی اور بعدمیں اُ س کو بہو بنا کراپنے گھر لے آئیں۔ ایک بیٹے کا رشتہ وہاں دیکھ کر آئیں جن کے ساتھ پہلے کوئی رشتہ داری نہ تھی۔ خاکساربھی اپنی بیوی کے ساتھ لڑکی والوں کے گھربعد میں چکر لگانے گیا۔ گھر آکرخاکسار نے اُن کے بارے میں کوئی بات کرنا چاہی تو آپ نےمیری بات کو پسند نہیں کیا اور فوراًیہ کہہ کرمجھے خاموش کروادیا کہ وہ لڑکی یتیم ہےاوراُس کی والدہ بچپن میں فوت ہو گئی تھی اس لیے ہم نے اسے ہی بہو بنانا ہے۔ اُس کو بہو بنایا اور سب سے زیادہ پیارو شفقت کرتی بھی اُس کے ساتھ نظر آئیں۔

آپ کے بیٹے عزیزم نعیم احمدکہتے ہیں: ’’خداتعالیٰ کے فضل سے آپ کو اپنی زندگی میں ہی اپنے تمام بچوں کی شادی کرنے کی توفیق ملی۔ رشتہ ڈھونڈنے میں ہمیشہ دین داری کو ترجیح دی۔ خود پسندی سے شدید نفرت تھی۔ ‘‘

بہوؤں سے ماں جیسا پیارومحبت

دنیا کی نظر میں ساس اور بہو کا رشتہ ایک کڑوا اورٹیڑھا سا رشتہ ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل کر اس کو نبھایا جائے تو اس رشتے میں بھی مٹھاس اور چاشنی پیداکی جا سکتی ہے۔ اور اس کے بھی شیریں پھل حاصل ہوسکتےہیں۔ خاکسار کی تقرری جب کوسوو(Kosovo)میں تھی تو خاکسار اپنی بیوی اور بچوں کو اپنی والدہ صاحبہ کے پاس راجن پور چھوڑ کر میدان عمل میں آگیا۔ میری والدہ صاحبہ نے ایک واقف زندگی کی ماں کی حیثیت سے میرے بچوں کا ہر طرح خیال رکھا اور تین سال تک سائبان بن کر ہر قسم کی گرمی اور سردی کے آگے فصیل اورحصار بنی رہیں۔ اور مجھے خط کے ذریعہ نصائح بھی کرتی رہیں جس میں اکثر یہ ذکر کرتیں کہ میںاپنے جماعتی کام کی طرف توجہ دوں بیوی اور بچوں کی فکرنہ کروں۔

آپ کی بڑی بہو اور خاکسار کی شریک حیات امۃ المتین ناصر صاحبہ اپنے تاثرات یوں بیان کرتی ہیں: ’’ آپ کا بہوؤں کے ساتھ ایک مثالی تعلق تھا اورہمارے محلے کے لوگ اور خواتین اس کی مثال اپنے گھروں میں دیا کرتے تھےاور کہتےہوئے سنائی دیتےکہ مرزائیوں (احمدیوں )کی بہوئیں اور ساس تواپنے گھر میں ہم سب کے لیے ایک نمونہ ہیں۔

ایک دفعہ عیدکا موقع تھا اور میرے خاوندصاحب جو کہ مربی سلسلہ ہیں وہ کوسوو میں جماعتی خدمت بجا لارہے تھے۔ اور میں نے اس عید کے موقع پر اپنے نئے کپڑے نہیں سلائے تھے۔ میری ساس صاحبہ جو کہ میری خالہ جان بھی تھیں، میرے پاس اپنے نئے اور اچھےکپڑوں کا جوڑا لے کر آئیں اور آکر کہنے لگیں آپ یہ کپڑوں کا جوڑا سلائیں تاکہ ہمارے رشتہ دار یہ نہ کہیں کہ جاوید اقبال یعنی میرا خاوند ادھر نہیں ہے اس لیے متین نے نئے کپڑے نہیں سلائے۔ آپ کے پیارو محبت کی ایک بات جو مجھے ابھی تک یاد ہے وہ یہ ہے کہ جب خلافت جوبلی کا سال تھا تو آپ نے سب بہوؤں کو جوبلی کے ماڈل ونقش کنندہ لاکٹ بنوا کر دیے، سب کو اپنے سامنے پہنوائےاور آپ خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین‘‘

آپ کی بہومبشرۃ الرحمٰن صاحبہ لکھتی ہیں: ’’آپ کااپنی بہوؤں سے سلوک بھی مثالی تھا۔ بحیثیت ساس وہ بہترین تھیں۔ اپنی بہوؤں کی تمام ضرورتوں پر نظر رکھتیں۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو فوراً اس کی ضرورت کو پورا کرتیں اور اسے احساس بھی نہ ہونے دیتیں۔ خود بازار لے جا کر شاپنگ کرواتیں کہ یہ چیز اچھی ہے تم یہ خریدو۔ بلامبالغہ ان کی تمام بہوؤں کا یہ کہنا ہے کہ وہ مجھ سے سب سے زیادہ پیار کرتی تھیں۔ آخری وقت تک اپنے کام خود کرتیں لیکن اگر کوئی کام کوئی بہو کردیتی تو بار بار اس کا تذکرہ کرتیں کہ یہ میرا کام فلاں نے کر کے دیا ہے۔ ہمیشہ سب کی خوبیوں پر نظر رکھتیں اور ان کو بار بار بیان کرتیں۔ بہت سادہ مزاج کی تھیں۔ ایک بیٹی تھی لیکن اس کو کبھی بھی بہوؤں پر ترجیح نہ دیتیں۔ ‘‘

آپ کی بہوھبة المصبوح یوں تحریر کرتی ہیں: ’’ ساری بہوؤں سے بہت پیار، شفقت اور محبت بھرا سلوک تھا۔ آپ کی ایک ہی بیٹی تھی لیکن بیٹی سے زیادہ بہوؤں سے ہر بات شیئر کرنا اور ہر بات کا مشورہ کرتی تھیں۔ ان کی بیٹی نے اکثر مذاق میں کہناکہ بیٹی تومیں ہوں لیکن آپ کو تو بہوؤں سے زیادہ پیارہے۔ ان کو جواب میں کہتیں کہ اب میری بیٹیاں یہی ہیں۔ ہر بیٹے اور بہو کی پریشانی یا مشکل کو بغیر ان کے کہے محسوس کرتیں اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ‘‘

برادرم نعیم احمدصاحب رقم طراز ہیں: ’’تمام بہوؤں سے بیٹیوں والا تعلق تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ بیمار ہوئیں تو آپ کی بہوؤں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر خدمت کرنے اور آرام پہنچانے کی حتی الوسع کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین‘‘

تربیت اولادکے لیے فکر مندی

ایک فکر جو اکثر آپ کو لگی رہتی تھی وہ اولاد کی تربیت کی تھی۔ اس کے لیے آپ سارےحربے بروئےکار لاتیں لیکن سب سے بڑا نسخہ دعا کو سمجھتی تھیں۔

عزیزم لقمان احمد زاہدصاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں: ’’خاکسار تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ خاکسار کی تربیت کرنے میں اور جامعہ آنے کے شوق میں والدہ صاحبہ کا بہت بڑ ا ہاتھ تھا۔ تربیت کے معاملے میں بہت گہری نظر رکھتی تھیں۔ جامعہ آنے سے قبل اگر کبھی مغرب کی اذان کے وقت تک خاکسار باہر کھیل سے نہیں آیا ہوتا تھا، تو باہر گراؤنڈ میں مجھے بلانے آجایا کرتی تھیں۔ حالانکہ گراؤنڈ گھر سے فاصلے پر تھا۔ کھیل کے دوران اگر میں نماز کے وقت کھیل کو چھوڑ کر گھر کی راہ لیتا، تو بھی مجھے کوئی دوست کھیلنے کا اصرار نہ کرتا، کیونکہ ان کو معلوم تھا اگر میں نماز کے وقت گھر نہ گیا تو امی جان بلانےآجائیں گی۔ اسی طرح اگر کبھی خاکسار نے گھر سے باہر زیادہ وقت گزارا ہوتا توبڑے بھائی کو شکایت کیا کرتیں۔ اور کہتیں کہ دیکھو یہ باہر کیا کرتا ہے؟ کہاں جاتا ہے؟ اورکیوں دیر سے گھرآتا ہے؟ ‘‘

عزیزم نعیم احمد لکھتے ہیں: ’’والد صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں صبح سویرے تمام بچوں کو نماز کے لیے جگاتے تھے۔ نماز کے بعد والدہ صاحبہ بچوں کو قرآن کریم پڑھاتیں۔ الحمد للہ تمام بچوں کو قرآن کریم خود پڑھایا بلکہ ہمسایوں کے بچوں کو بھی فجر اور عصر کے بعد قرآن کریم پڑھاتی تھیں۔ اپنے بچے کو جب بھی اسکول داخل کروایا تو کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ قرآن کریم پڑھ چکا ہو۔ آپ نے اپنے بچوں کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ روزانہ نماز کے لیے اٹھانا، تلاوت قرآن کریم کرنا اور کروانا، خطبہ جمعہ کی تلقین کرنا اور جماعتی کاموں کو ترجیح دینے کی تلقین کرنا آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔ یہ والدین کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کے بیٹوں کومحض خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے بطور مربی سلسلہ، امیر ضلع، قائد علاقہ اورناظم علاقہ خدمت کی توفیق ملی اور مل رہی ہے۔ ‘‘

آپ کی بہوھبة المصبوح صاحبہ کہتی ہیں: ’’اپنے پوتے اور پوتیوں سے بھی بہت پیار تھا۔ لیکن تربیت کی بھی بہت فکر رہتی۔ بچوں کو صبح اسکول بھیجتے وقت بار بار تاکید کرتیں کہ کسی بچے کی تلاوت قرآن کریم نہ رہ جائے۔ ‘‘

جماعتی مخالفت میں آپ کا ہمت و حوصلہ

دو سال قبل جماعتی کیس بننے کی وجہ سے ہمارے گھرراجن پورمیں پولیس نےچھاپے مارےاور گھر میں موجود دو بھائیوں کو پکڑ کر لے گئے۔ پھر کیس میں نامزد دوسرے بھائیوں کو مختلف اوقات میں ضمانت خارج ہوجانے کی وجہ سے جیل ہوئی۔ لیکن ان تمام مشکلات میں آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی بلکہ بچوں کو بھی تسلی دی۔ جب اس ابتلااور آزمائش کا وقت لمبا ہونے لگا تو کچھ پریشان رہنے لگیں۔ پریشانی بس یہی تھی کہ کہیں ان مشکلات سے بچے تنگ نہ آجائیں۔

مکرمہ شیریں ثمر صاحبہ بنت مکرم میاں اقبال احمد صاحب شہید سابق امیر ضلع راجن پور بیان کرتی ہیں کہ ’’جماعتی کیس بننے کے بعد میں نے ان سے کہا خالہ جی پریشان کیوں رہتی ہیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ اس پر آپ کہنے لگیں مجھے اور کسی چیزکی فکر نہیں ہے۔ فکر ہے تو بس اتنی کہ میری اولاد اس آزمائش میں ثابت قدم رہے۔ یہ ابتلا ان کے ایمان کو متزلزل نہ کردےاور ان کا خاتمہ ایمان پر ہو۔ ‘‘

برادرم لقمان احمد زاہدصاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں: ’’جولائی 2020ء میں خاکسار کے3 بھائیوں اور ایک ماموں پر جماعتی کیس بنا تو خاکسار اس وقت راجن پور میں اپنےگھر ہی تھا۔ بہت ہمت کے ساتھ وہ وقت گزارا۔ پولیس کے پہلے چھاپے کے وقت خاکسار نے ہی پولیس کو پورے گھر کا وزٹ کروایا۔ اس وقت بھی بہت ہمت دکھائی۔ SHOنے امی جان سے پوچھا کہ آپ کے بیٹے کہاں ہیں۔ امی جان نے سکون سے جواب دیا یہی ہیں جو آپ کے ساتھ پھر رہے ہیں۔ پھر جب بھائی کو پکڑ کر لے گئے تو اس وقت بھی بہت حوصلہ دکھایا۔ اسی طرح دوسرے چھاپے کےو قت بھی بہت ہمت دکھائی۔ ہر چھاپے کے وقت کسی نہ کسی بھائی کوپکڑ کر لے جاتے رہے تو اس وقت بھی بہت صبر دکھایا۔ پھر ایف آئی آر میں نامزد دو بھائیوں اور ایک ماموں کو دو مختلف مواقع پر جیل ہوئی اس وقت بھی کسی قسم کی پریشانی یا خوف کا اظہار نہیں کیا۔ ‘‘

آپ کی بہوھبتہ المصبوح صاحبہ تحریر کرتی ہیں: ’’دو سال قبل آپ کے 3 بیٹوں پر جماعتی کیس ہوا اور سب کو اچانک راجن پور شہرچھوڑ کے جانا پڑا تو بہت ہمت اور حوصلے کا نمونہ دکھا یا۔ پیارے حضور کا خطبہ سنا کہ ایک جنگ میں ایک عورت کے بیٹے اور بھائی شہید ہوئے تو بہت حوصلہ آیا کہ میرے بیٹے خدا کی راہ میں گھرسے گئے ہیں، نہ چوری کی ہے اورنہ ہی کسی سے لڑائی جھگڑا کیا ہےاوراپنے بیٹوں کے ایمان کی مضبوطی کی دعا کی۔ 2 بیٹے گھررہ گئے تھے۔ ایک خاکسار کے میاں تھےان کو بھی باری باری پولیس لے گئی تب بھی بہت باہمت رہیں اور دعائیں کرتی رہیں۔ پولیس نے گھرچھاپے مارے تو اعتماد کے ساتھ پولیس کی ہر بات کا جواب دیااوربالکل نہیں گھبرائیں۔ ہمیں بھی حوصلہ دیا کہ خداسب ٹھیک کرے گا، خلیفہ وقت کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ حضور کی دعاؤں پہ بہت یقین تھا۔ ایک کلاس میں حضورانور نے فرمایا کہ راجن پورکے حالات بھی خراب ہیں، تواس پربہت خوش ہوئیں کہ راجن پور اب پیارے حضور کی دعاؤں میں ہے۔ اب ان شاءاللہ خدا تعالیٰ ضرور فضل فرمائے گا۔ ‘‘

اپنےواقفین بچوں کا خاص خیال

آپ کےدو بیٹے (خاکسار اور عزیزم لقمان زاہد) اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مربی سلسلہ ہیں۔ ہمارے ساتھ تو آپ کا ایک خاص قسم کا پیار تھا جس کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔ اچھی اور قیمتی چیزسنبھال کے رکھی ہوتی تو ہمارے لیے۔ خاص کھانے تیار ہوتے تو ہمارے گھر جانےپر۔ نئے کپڑوں کی تقسیم کرنے کی ابتدا ہوتی تو ہم سے۔ دعاؤں کے لیے سب سےزیادہ ہاتھ اٹھے تو ہمارے لیے۔ صدقے کے بکروں کی قربانی جو دی گئی تو سب سے زیادہ میرے اور میرے بچوں کے لیے۔ راتوں میں سجوداور قیام کو لمبا کیا گیا تو ہمارےپیارمیں۔ ملاقات کی شدید خواہش کی ٹرپ اگرتڑپاتی تو خاکسار کی۔ سب سے زیادہ دعایا خطوط جو کہ خلیفۃالمسیح کو ارسال کیے گئےتو ہمارے لیے۔ پنشن کی رقم سنبھال کر رکھتیں تو میرے لیے۔ سب سے زیادہ نصائح کی گئیں تو ہم دونوں کو۔ سب سے زیادہ مشورہ کرتیں تو میرے ساتھ۔ آخری بیماری میں زیادہ یاد آئی تو میری اور میرے بچوں کی۔ شاید میرے ہی لیے کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مجھے

ماں نے کیا ہوا ہے سپردِ خدا مجھے

آپ کے بیٹےلقمان احمد زاہدصاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں: ’’خداتعالیٰ کے خاص فضل سے خاکسار وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہے اور بطور مربی سلسلہ …خدمت کی توفیق پارہا ہے۔ اسی طرح خاکسار کی اہلیہ بھی وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہےاور … خدمت کی توفیق پارہی ہے۔ والدہ صاحبہ نے ہم پر ہمیشہ شفقت کا ہاتھ رکھا۔ جب بھی راجن پور گھر جانا ہوتا یا وہاں سے آنا ہوتا تو فکر ہوتی کہ پتہ نہیں لقمان کے پاس پیسے ہیں یا نہیں اور ہر بار خاکسار کو پیسے دیتیں۔ سب سے پہلی دفعہ خاکسار نے رقم لینے سےانکار کیا تو ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں کہ میں توایک واقف زندگی کویہ رقم دے رہی ہوں تم کون ہوتے ہو انکار کرنے والے۔ بس پھر تودستِ عنایت و لطف ہمیشہ رہا ہم پر۔ ‘‘

بہترین ازدواجی زندگی

فرمانبردار بیوی ہی بہترین ماں کہلانے کی حق دار ہواکرتی ہے۔ میری امی جان نے اس خوبی سے بہت حصہ پایا اور اپنی ازدواجی زندگی کو بھی جنت نظیر بنانے کی بھرپورکوشش کی۔

آپ کے بیٹےنعیم احمدصاحب لکھتے ہیں: ’’خاکسار نے والدین کی تقریباً 33 سالہ ازدواجی زندگی کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان سالوں میں خاکسار کو بالکل بھی یاد نہیں کہ کبھی والد صاحب کے سامنے اونچی آواز میں کچھ بولا ہو۔ والد صاحب نے جب بھی کوئی کام کہا فوری کرنے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔ ‘‘

ذریّت کے لیےمثل سائبان

اولاد کے لیے ٹھنڈی چھاؤں کی مثل سائبان کی مانند تھیں۔ پیار کرنے والی دادی اور شفقت و محبت سے بھر پور نانی تھیں۔

آپ کی بہومبشرۃ الرحمٰن صاحبہ لکھتی ہیں: ’’پوتے اور پوتیوں سے بھی بہت پیار کرتیں اور وہ بھی ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ سب بچوں کو شوق ہوتا کہ دادی امی ہمارے پاس آکر رہیں۔ میری بیٹی تین سال کی ہے وہ بھی امی کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے آتی اور ان کے آنے پر بہت خوش ہوتی۔ گھر کی ایک ایک چیز لا کر دکھاتی اور ان کے پاس ان کے بستر پر سونے کو ترجیح دیتی۔ ‘‘

آپ کی پوتی عزیزہ نادیہ نعیم تحریر کرتی ہیں: ’’ہم چھوٹے چھوٹے تھے جب میری امی جان کی وفات ہوگئی، تو دادی امی نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ بہت پیار دیا۔ جب امی کی وفات ہوئی تو میں 7 سال کی تھی۔ دادی امی نے ہمیشہ خیال رکھا۔ اگر ابو جان کبھی ہمیں ڈانٹ دیتے یا نماز میں سستی کرنے پہ ناراض ہوتے تو دادی امی ہمیشہ ابو جان سے ناراض ہوتیں اور کہتیں کئی دفعہ کہا ہے کہ بچیاں ہیں پیار سے سمجھاؤ۔ عیدین کے موقع پہ یا کسی بھی فنکشن میں ہمیشہ خود خیال رکھتیں۔ جب بھی دادی امی کی پنشن آتی تو ہمیں جیب خرچ ضرور دیتیں۔ مجھ سے تو بہت پیار کرتیں ان کی بیماری میں مجھے بھی خدمت کی توفیق ملی۔ ہر کام کے لیے مجھے آواز دیتیں کہ نادیہ کو بلاؤ۔ جب طاہر ہارٹ جانے سے پہلے گھر میں بے ہوش ہوئیں تو آخری بات بھی یہ کی کہ ’’نادیہ شاباش‘‘ اس کے بعد فوت ہونے تک کوئی بات نہیں کی۔ جب میرے ابو جان پر جماعتی کیس ہوا اور انہیں گھر سے جانا پڑا تو ہمارے ساتھ رہیں، بہت خیال رکھا، دعائیں کرنے کا کہتیں، حوصلہ اور ہمت دلاتیں۔ دادی امی کی وفات سے ایسے لگا کہ جیسے ہم ایک دفعہ پھر ماں کی شفقت سے محروم ہوگئے ہیں۔ ‘‘

آپ کا جنازہ مکرم و محترم ناظر صاحب اعلیٰ نے پڑھایا۔ اورقبر تیار ہونے پر دعا مکرم و محترم صدر صاحب انصار اللہ پاکستان نے کروائی۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل میں ہو۔ پیارے آقا نے ازراہِ شفقت بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین کی اجازت مرحمت فرمائی اورجلسہ سالانہ یوکے 2021ء کےموقع پر جنازہ غائب پڑھایا۔ آپ نے اپنے پیچھے بہن بھائیوں کے علاوہ 7 بیٹے، 1 بیٹی، پوتے، پوتیاں اور نواسے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ والدہ صاحبہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ اور ہم سب کو آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرماتے ہوئےآپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی اولاد کی اعلیٰ رنگ میں تربیت کرنے کی توفیق دے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button