حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مومن کا ایک خاصہ: عاجزی و انکساری

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍ جون 2013ء)

خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے جس بنیادی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت (وَاسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوۃِؕ وَاِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ۔(البقرہ:46))میں توجہ دلائی ہے اور یہ قرآنِ کریم میں اَور جگہوں پر بھی ہے، وہ عاجزی اور انکساری ہے۔ یعنی قرآنِ کریم کے تمام احکامات، تمام اوامر و نواہی جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں، اُن کی بنیاد عاجزی اور انکساری ہے۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا عاجزی اور انکساری کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک حقیقی مومن اگر احکامات پر عمل کررہا ہے تو یقیناً اُس میں عاجزی اور انکساری پیدا ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعاً‘‘ (بنی اسرائیل: 110) کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے۔(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1صفحہ578)

پس ایک مومن جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان لانے والا، اُس کو پڑھنے والا اور اُس پر عمل کرنے والا ہوں تو پھر لازماً قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق اُس کی عبادتیں بھی اور اُس کے دوسرے اعمال بھی وہ اُس وقت تک نہیں بجا لا سکتا جب تک اُس میں عاجزی اور انکساری نہ ہو یا اُس کی عاجزی اور انکساری ہی اُسے ان عبادتوں اور اعمال کے اعلیٰ معیاروں کی طرف لے جانے والی نہ ہو۔ انبیاء اس مقصد کا پرچار کرنے، اس بات کو پھیلانے، اس بات کو لوگوں میں راسخ کرنے اور اپنی حالتوں سے اس کا اظہار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آتے رہے جس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں نظر آتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ

’’اﷲ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔ وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا اور اس پر رحم کرتا ہے اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مُرسَلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہلِ دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں۔ مگر تکبر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لیے روحانی موت ہے‘‘۔ فرمایا: ’’مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبّر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لیے مومن کی یہ شرط ہے کہ اُس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصّہ ہوتا ہے‘‘۔ (یعنی سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اُن کی عاجزی انتہا کو پہنچی ہوتی ہے) فرمایا: ’’اُن میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔‘‘ (یعنی آپؐ کیسا سلوک کرتے ہیں؟) تو ’’اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں۔ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّم‘‘۔ فرمایا: ’’یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا۔ اور یہ بات سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردوپیش حاضر رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد4صفحہ437-438)

پس یہ ہے اُس شارع کامل کا نمونہ جس کا اُسوہ اپنانے کی امّت کو بھی تلقین کی گئی ہے۔

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں عاجزی اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ فرمایا: خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا اگر اپنے آپ کو لا شیٔ محض سمجھتے ہوئے عاجزی کے انتہائی معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرو گے۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چلا جا سکتا اور اُس کے احکامات پر عمل نہیں ہو سکتا اگر عاجزی سے اُس کے فضل کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اس لئے فرمایا کہ عاجز ہو کر اُس کی مدد، اُس کے فضل کے حصول کے لئے مانگو۔ اللہ تعالیٰ مختلف قوموں کے ذکر میں بھی جو مثالیں بیان فرماتا ہے، بعض دفعہ براہِ راست حکم دیتا ہے، بعض دفعہ قوموں کا ذکر کرتا ہے، لوگوں کے پرانی قوموں کے حالات بیان کرتا ہے۔ بعض لوگوں کے حالات بیان کرتا ہے کہ وہ ایسے ہیں، اگر ایسے نہ ہوں تو اُن کی اصلاح ہو جائے۔ اُس میں مومنین کے لئے بھی سبق ہے کہ براہِ راست صرف تمہیں جو حکم دیا ہے، وہی تمہارے لئے نصیحت نہیں ہے بلکہ ہر ایک ذکر جو قرآنِ کریم میں آتا ہے وہ تمہارے لئے نصیحت ہے۔

پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ عاجزی اختیار کرو اور اُس کے فضل کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو۔ فرمایا کہ اُس کے فضل کے حصول کے لئے عاجز ہو کر اُس کی مدد مانگو۔ جب تک ’’وَاسْتَعِیْنُوْا‘‘ کی روح کو نہیں سمجھو گے، نیکیوں کے راستے متعین نہیں ہو سکتے اور ’’وَاسْتَعِیْنُوْا‘‘کی روح اُس وقت پیدا ہو گی جب خشوع پیدا ہو گا، جب عاجزی پیدا ہو گی، جب صرف اور صرف یہ احساس ہو گا کہ میری کوئی خوبی مجھے کسی انعام کا حق دار نہیں بنا سکتی۔ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اگر مجھ پر ہوا تو میری دنیا و عاقبت سنور سکتی ہے۔ پس خدا تعالیٰ سے یہ مددنہایت عاجز ہو کر مانگنی ہے کہ اے خدا! تو اپنی رحمت و فضل سے ہماری مدد کو آ اور وہ طریق ہمیں سکھا جس سے تو راضی ہو جائے۔ عبادتوں کے بھی اور صبر کے بھی وہ طریق ہمیں سکھا جو تجھے پسند ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان فضلوں کے حصول کے لئے تم مجھ سے مدد مانگ رہے ہو تو پھر عاجزی دکھاتے ہوئے صبر کے معیار بھی بلند کرو۔

اس زمانے میں تو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں‘‘۔(تذکرہ صفحہ595ایڈیشن چہارم)

یہ عاجزانہ راہیں تھیں جنہوں نے ترقی کی نئی راہیں کھول دیں۔ پس ہم جو آپ علیہ السلام کے ماننے والے ہیں، ہم نے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے، ہم نے اگر خدا تعالیٰ کی مدد سے حصہ لینا ہے، ہم نے اگر اپنے صبر کے پھل کھانے ہیں، ہم نے اگر اپنی دعاؤں کی مقبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو پھر عاجزی دکھاتے ہوئے اور مستقل مزاجی سے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا ضروری ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں شیطانی اور طاغوتی طاقتوں سے بھی بچا کے رکھے گی اور یہی چیز ہے جو ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرے گی اور یہی چیز ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بنائے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ عاجزی کوئی آسان کام ہے۔ بہت سی اَنائیں، بہت سی ضدیں، بہت سی سستیاں، بہت سی دنیا کی لالچ، بہت سی دنیا کی دلچسپیاں ایسی ہیں جو یہ مقام حاصل کرنے نہیں دیتیں۔ فرمایا اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ۔ یہ آسان کام نہیں ہے، یہ بہت بوجھل چیز ہے۔ وہ تمام باتیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جو صبر اور صلوٰۃ کو اُس کی صحیح روح کے ساتھ اور عاجزی دکھاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے بجا لانے سے روکتی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ اُس کا بندہ اُس صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرے اور ایسی عبادت کے معیار بنائے جس میں ایک لحظہ کے لئے بھی غیر کا خیال نہ آئے۔ دنیاوی کاموں کے دوران بھی دل خدا تعالیٰ کے آگے جھکا رہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button