از مرکز

The God Summit زیراہتمام The Review of Religions (قسط اول)

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے مورخہ 14و15؍مئی 2022ء کو The Review of Religions کے زیر اہتمام یوٹیوب چینل کے ذریعے دوسرے سالانہ پروگرام The God summit کا انعقاد کیا گیا۔ میزبانی کے فرائض رضا احمدصاحب اور عثمان بٹ صاحب نے ادا کیے۔ اس پروگرام میں مختلف لوگوں کی ذاتی زندگی کے واقعات و تجربات، مختلف انٹرویوز اور گفتگو کے پروگرامز، ہستی باری تعالیٰ کے بارے میں بچوں کا پروگرام اور مختلف ڈاکومنٹریز شامل تھیں جن میں خدا تعالیٰ سے تعلق، خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت اور دیگر موضوعات پر بات چیت کی گئی۔ امسال یہ پروگرام اس لحاظ سے خصوصیت کا حامل رہا کہ اس کا رواں ترجمہ مختلف زبانوں میں براہ راست پیش کیا گیا اور دو دن کی نشریات جن کا مجموعی دورانیہ تقریباً تیرہ گھنٹے اور سات منٹ بنتا ہے پیش کی گئیں۔ پروگرام کے اختتام پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اس پروگرام کے حوالے سے ریکارڈ کروایا گیا خصو صی پیغام نشر کیا گیا۔ پروگرام کے میزبان دنیا بھر سے موصول ہونے والے پیغامات بھی پڑھ کر سناتے رہے جس میں ناظرین نے اس پروگرام کی پسندیدگی اور مختلف پروگرامز پر آرا اور تبصرے کیے تھے۔

پہلے دن نشریات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ نائیجیریا سے حافظ عبد الصمد صاحب نے سورۃ النمل کی آیات 60-63 پیش کیں۔ اس کے بعد پہلا جو پروگرام پیش کیا گیا وہ تھا Never say Never۔ یہ مکرم فصیح الدین ملک صاحب کی ذاتی زندگی پر مبنی واقعہ ہے۔

ہمارا بھروسہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے

کیلگری کینیڈا سے فصیح الدین ملک صاحب بیان کرتے ہیں کہ 8؍جولائی 2010ء کو پندرہ سال کی عمر میں میں اپنی زندگی کے اس واقعہ سے گزرا جس نے میری زندگی بدل دی۔ جس نے میرا خدا تعالیٰ سے مزید تعلق قائم کیا۔ ان کے دوست کہتے ہیں اس واقعہ سے چند روز پہلے ہم مل کر تبلیغی پمفلٹ تقسیم کر رہے تھے۔ ہم ریفریشمنٹ کھا رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے اور سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا واقعہ اگلے دن رونما ہو سکتا ہے۔فصیح صاحب کہتے ہیں کہ اگلی صبح میں شدید درد کے ساتھ اٹھا اور اتنی درد تھی جو اس سے قبل میں نے کبھی محسوس بھی نہیں کی تھی۔ میں والدین کے بیڈروم تک رینگتا ہوا گیا۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ وہ اچانک اپنے کمرے سے اٹھ کر آیا، اس نے گردن پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور اس نے بتایا کہ اسے بہت تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔ ایمبولینس آنے تک فصیح کی حالت مزید خراب ہو گئی ۔ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی۔ ایمبولینس میں شفٹ ہونے کے ایک دو منٹ بعد اس نے بولنا بند کر دیا صرف اس کا سانس جاری تھا۔ اسےچلڈرن ہسپتال لے گئے۔ ان کے دوست کہتے ہیں کہ اگلی صبح جب مجھے ان کی بیماری کی اطلاع ملی تو میں بہت پریشان ہوا اور گھر والوں کو بھی اطلاع دی۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ انہوں نے فوراً حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط ارسال کیا تو دل کو اطمینان ہو گیا۔ اور ان کے والد کہتے ہیں کہ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے۔ فصیح صاحب کہتے ہیں کہ جب تین دن بعد میں اٹھا تو گردن سے نیچےمیرا پورا جسم مکمل طور پر مفلوج ہو چکا تھا۔ اس وقت ڈاکٹرز کو بھی معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ایم آر آئی کے بعد معلوم ہوا کہ میری ریڑھ کی ہڈی کے اردگرد جو نس تھی وہ پھٹ گئی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر نے سرجری کی اگر یہ آپریشن کامیاب نہ ہوتا تو ریڑھ کی ہڈی مزید متاثر ہو سکتی تھی اور جب سرجری کے بعد فصیح صاحب کو ہوش آیا توانہوں نے پوچھا کہ کونسی نماز کا وقت ہے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ اگرچہ میں تشویشناک صورت حال میں تھا مگر ہوش آنے کے بعد ابتدائی ری ایکشن یہ تھا کہ میں ہل تو نہیں سکتا تھا مگر میں شکرگزار تھا کہ میں زندہ تھا اور سوچ رہا تھا کہ دنیا میں کتنی نعمتیں ہیں جنہیں ہم اس طرح اہمیت نہیں دیتے جیسے دینی چاہیے اور مجھے احساس ہوا کہ ہمیں ان چیزوں کا کتنا شکر ادا کرنا چاہیے کہ صرف یہ نہیں کہ ہم ہل جل سکتے ہیں، ہم بات کر سکتے ہیں، اپنے احساسات کا اظہار کر سکتے ہیں، اپنے تمام امور بجا لا سکتے ہیں کیونکہ اس سے ایک دو دن پہلے ہی میں پارک میں فٹ بال کھیل رہا تھا، میں فزیکلی ایکٹو تھا اور کھیل کود سکتا تھا مگر اب وہ نہیں کر سکتا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے شکرگزار ہونا چاہیے۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے مجھے اور میری اہلیہ کو بلاکر فصیح کی حالت کے بارہ میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والی جتنی زندگی ہے ساری عمر آکسیجن کا سلنڈر اس کے ساتھ رہے گا اور یہ بول اور چل نہیں پائے گا۔ آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ والدین کے لیے کس قدرپریشانی اور تکلیف والی بات تھی۔ بہرحال ان کو تو میں نے بےساختہ جواب دیا کہ یہ تو آپ لوگوں کی رائے ہے۔ وہ سات ڈاکٹروں پر مشتمل پینل تھا جن میں سے تین سینئر ڈاکٹرتھے باقی ان کے مددگار تھے۔ ان کے والد نے کہا ہونا تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے چاہنا ہے تووہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے۔ انہیں مجھ سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ ان کی والدہ بیان کرتی ہیں کہ ڈاکٹروں کی طرف سے کوئی تسلی نہیں تھی لیکن اس قادر خدا نے ہمیں تسلی دی ہوئی تھی کہ اس نے ہماری دعاؤں کو سننا ہے ان شاء اللہ۔ وہ قائم ہے بادشاہ ہے۔ان کے دوست کہتے ہیں کہ وہ بڑے مشکل دن تھے لیکن جس طرح سے اس نے استقلال دکھایا وہ میرے لیے ایمان افروز تھا۔فصیح صاحب کہتے ہیں تین ہفتے کے بعد میرے جسم میں حرکت ہونے لگی اور یہ دیکھنا میرے لیے جذباتی تھا۔میرا خدا پر توکل تھا۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ اللہ نے ہماری دعاؤں کو سنا اور سب سے بڑھ کرخلیفہ وقت کی دعاؤں کو سنا اور اس نظام سے وابستگی کی بدولت سب کی متضرعانہ دعاؤں کو سنا۔ فصیح صاحب کہتے ہیں کہ ایک سال بعد ڈاکٹرز نے مجھ سے پوچھا کہ میرے کیا گولز ہیں۔ میں نے کہا کہ میں دوبارہ چل سکوں مگر ڈاکٹروں کی طرف سے مجھے مایوسی کا اظہار ملا تھالیکن اس بےبسی میں بھی وہ ثابت قدم رہے۔ فصیح کہتے ہیں کہ مجھے دعاؤں سے جو تسکین ملتی تھی وہ میرے لیے انتہائی ایمان افروز تھا۔ مجھے خدا کی ذات پر کامل یقین تھا۔ مجھے خواب میں کئی بار بشارت ملی کہ میں بالکل صحت مند ہوں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کا مطالعہ کرتا اس سے مجھے مصائب میں استقلال کا مطلب سمجھ آیا۔ میرا خدا سے تعلق مزید بہتر ہوگیا۔ ان کے دوست کہتے ہیں کہ جب ہم خدام الاحمدیہ کے ٹرپ کے ساتھ یوکے گئے تو فصیح نے اس بات کا اظہار کیا کہ دعا کرو کہ میں بہتر ہو سکوں تاکہ میں بھی اس طرح کے ٹرپ کر سکوں تو میرے لیے یہ بڑا جذباتی تھا کیونکہ اس نے ایسی بات کے لیے دعا مانگی کہ وہ جماعت کے کام کر سکے اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی دی۔ فصیح صاحب کہتے ہیں کہ میں جب اپنی آزمائش کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو میں نے اس آزمائش سے سیکھی ہیں۔ میں خدا کے مزید قریب ہو گیا ہوں اور دنیا سے الگ ہو گیا ہوں۔ جماعت کی خدمت کے بارے میں سوچتا ہوں۔ فصیح صاحب نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے گرافک ڈیزائننگ کی تعلیم مکمل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اب مجھے وقف زندگی کی حیثیت سے خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔میرے لیے بہت بڑی برکت کی بات ہے۔ میں حضور کو خط بھی لکھتا رہا، مجھے جواب بھی ملتے رہے میرے لیے وہ موقع بھی بہت یادگار تھا کہ جب حضور انور کینیڈا تشریف لائے تو ہماری حضور انور کے ساتھ کلاس ہوئی تھی تو حضور نے مجھے یاد رکھا اور میری سرجری کے بارے میں پوچھا تو مجھے احساس ہوا کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ حضور انور ہم لوگوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ان کے دوست کہتے ہیں کہ ان کا رویہ ہمیشہ اچھا رہتا ہے۔ روز مرہ زندگی میں وہ ہمیشہ ہنستا نظر آتا ہے۔ میں اس کی بعض باتوں کے بارے میں سوچتا ہوں کہ یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ ایمان و تسکین صرف خدا تعالیٰ بخشتا ہے۔ جب انسان کوشش کے ساتھ دعا کرے تو خدا تعالیٰ ان کاموں اور باتوں میں برکت بھی ڈالتا ہے۔الحمدللہ! اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے میں اس تجربہ کے دوران جن جن چیزوں سے گزرا ہوں اس نے مجھے وہ شخص بنایا ہے جو میں آج ہوں۔اور میں بہت خوش قسمت ہوں کیونکہ کسی بھی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا اور یہ بات درست ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو مشکلات کا سامنا کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اس کے بعد ایک پروگرام پیش کیا گیا جس کا عنوان تھا کیا ہمیں خدا تعالیٰ کی ضرورت ہے ؟جبکہ ہم نے ٹیکنالوجی میں اتنی ترقیات حاصل کرلی ہیں ؟

یہ پروگرام مکرم سرمد نوید صاحب مشنری ایڈیٹر The Review of Religionsآن لائن نے پیش کیا۔ اس پروگرام میں دنیا بھر سے مختلف لوگوں کے انٹرویوز کیے گئے جن میں ان سے ان سوالات کے جوابات لیے گئے ۔

مسیح محمدیؐ کے خلیفہ کا دست شفا

بعد ازاں Khilafat: Our Lifeline کے عنوان سے واقعہ بیان کیا گیا۔ 2018ء میں اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ بشیر عودہ صاحب ابن مکرم شریف عودہ صاحب (امیر جماعت کبابیر) کہتے ہیں کہ میں احمدیہ اسکول کبابیر میں پڑھائی کر رہا تھا۔ مجھے اچانک اپنے سینے میں شدید درد محسوس ہوا۔ میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور انہیں اپنی تکلیف سے آگاہ کیا۔ان کی والدہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں نے بشیر کو دیکھا تو محسوس کیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے اور میں نے اپنے خاوند کو بلایا اور کہا کہ اس کو ہسپتال لے کر جائیں۔ ان کے والد مکرم شریف عودہ صاحب کہتے ہیں کہ میں سکول گیا اور بشیر کو لے کر ہسپتال گیا۔ میں خود حیران تھا کہ بشیر کو 12 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑا ہے۔ ابتدائی چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ ایک خلیہ ہے جو پھیپھڑوں میں سے گزرتا ہے اور نسبتاً چھوٹا تھا اور اس کی وجہ سے دل پر دباؤ پڑتا ہے۔ ایک ہفتے کے بعد ہمیں حائفہ کے ایک بڑے ہسپتال میں جانا پڑا جہاں ایک بڑے مشہور پروفیسر کے ساتھ میٹنگ ہوئی جس نے کہا کہ بشیر کی سرجری کرنی پڑے گی لیکن میری خواہش تھی کہ سرجری سے پہلے حضور سے ملاقات کریں تاکہ حضرت مسیح موعودؑ کی انگوٹھی اور حضور انور کا دست مبارک تو بشیر کے سینے پر پڑ جائے اور پھر دعا ہو۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات ہوئی تو ملاقات کے دوران مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میرا دل بوجھل ہے اور میں صحیح سے بات نہیں کر پا رہی تھی ہم نے منیر عودہ صاحب کو کہا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ آئیں تاکہ وہ حضور کو بشیر کی بیماری کی کیفیت سے آگاہ کر سکیں جب ہم نے ملاقات کا مدعا بیان کیا تو حضور انور نے فرمایا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ میں تو ڈاکٹر نہیں ہوں۔ ہم ملاقات کر کے واپسی کے لیے دروازے پر گئے تو حضور نے بشیر کو بلایا اور حضرت مسیح موعودؑ کی انگشتری کو بشیر کے سینے پر رکھا۔ حضور نے بشیر کی قمیص کھولی اور سینے پر انگوٹھی رکھی۔ ان کے والد فرماتے ہیں کہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کو قبول کیا اور خلیفہ وقت کو الہام کیا کہ اس طرح کریں۔ ان کے بیٹے بشیر کہتے ہیں کہ جب حضور نے انگوٹھی رکھی تو میں نے ایک ٹھنڈک محسوس کی جو پورے جسم میں محسوس ہوئی۔ ایک بہت ہی خوبصورت موقع تھا۔ جب ہم کبابیر آئے تو علی ممتاز جو ایک ڈاکٹر ہیں انہوں نے بشیر کے لیے سٹریس ایم آر آئی (MRI)کا ٹیسٹ تجویز کیا۔ تقریباً ایک مہینے کے بعد ہم سٹریس ایم آر آئی کے ٹیسٹ کے لیے گئے اور اس تمام کارروائی کی رپورٹ جب آئی تو سب کچھ ٹھیک تھا۔ الحمدللہ۔ حضور انور کی دعاؤں کی بدولت بشیر کی صحت اچھی ہو گئی اور یہ محض حضور انور کی دعاؤں کی بدولت ہوا۔ چار سال گزر چکے ہیں، بشیر صاحب بالکل صحت مند اور ٹھیک ہیں۔ روٹین کی ادویات استعمال کرنی پڑتی ہیں اور غذا کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ شریف عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضور انور دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کن کو فیکون کر دیتا ہے۔

ایک اور پروگرام میں دعا کرنے کے چند طریقے بتائے گئے۔ اس کے بعد ایک اور بہن ماریہ ایزابیل لوسا سرینہ کی ذاتی کہانی دکھائی گئی جس کا عنوان تھا۔ Falling in Love with Prayer

خدا تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے

ماریہ ایزابیل لوسا سرینہ کہتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ روزانہ پانچ وقت نمازاداکریں اور نمازمیں لذت پیدا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ لیکن میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ ایک پُر امن عمل ہے جس کے ذریعہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے۔ میں ایک رومن کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئی ہوں۔ اور میرا خاندان مذہبی نہیں تھا۔ وہ صرف مذہبی رسومات مناتے تھے اور انہوں نے میرے اندر خدا تعالیٰ پر یقین پیدا نہیں کروایا۔ میں چرچ کے سکول جاتی تھی جو مشن کے تحت چلتا تھا چنانچہ میرا چرچ سے مضبوط تعلق تھا۔ لیکن اس کے باوجود مجھے کبھی علم نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ سے کیسے ایک مضبوط تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ میں لندن اپنے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے اور زندگی کے مقصد کی تلاش میں آئی، کیونکہ میں یہ سمجھتی تھی کہ ایک خدا تو ہے لیکن عیسائیت نے کبھی بھی میرے اندر اٹھنے والے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔ پھر میں نے خود خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق غور و خوض کرنا شروع کر دیا تو میں نے یہ سمجھا کہ دعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی ہستی کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اسلام کے بارہ میں بھی پڑھا تو جیسا کہ سب جانتے ہیں مسلمان سجدہ ریز ہوکردعا کرتے ہیں تو میں نے سوچا کہ میں بھی اس طرح کروں۔ جب میں نے عیسائیت کا بھی مطالعہ کیا تو مجھے علم ہوا کہ بہت سارے انبیاء اور حضرت عیسیٰؑ سجدہ ریز ہو کر دعا کیا کرتے تھے اور جس طرح آنحضرتؐ نے مسلمانوں کو یہ سکھایا ہے کہ سجدہ ریز ہوں تو بعینہ اسی طرح انبیاء اور عیسیٰؑ بھی سجدہ ریز ہوتے تھے تو میں نے بھی ایک کپڑا بچھا کر دعا شروع کی اور محسوس کیا کہ ایک رقت طاری ہو گئی تھی۔ کیونکہ دنیا میں تو جب ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو بالمشافہ بات کرتے ہیں لیکن جب میں خدا کے حضور حاضر ہوں تو ایک عاجزی کے طور پر خشوع و خضوع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونا پڑے گا۔کیونکہ یہ سب سے زیادہ ادب اور احترام کا مقام ہے۔ مجھے یہ احساس بہت زیادہ پسند آیا اور طبعاً میرے سامنے یہ بات آئی کہ خدا تعالیٰ کے سامنے اس طرح ہمیں دعا کرنی چاہیے۔ جب میں اس طرح دعا کر رہی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی منشا کے مطابق اس کی اطاعت میں سجدہ ریز ہوگئی ہوں اور میں نے محسوس کیا کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی تمام قبضۂ قدرت ہے اور اس کی توجہ اور برکات کو حاصل کرنے کا یہی ذریعہ ہے جس سے ہم اس کو پا سکتے ہیں۔جب میں جماعت احمدیہ میں شامل ہوئی اور دوسروں سے اس بارے میں بات کی تو سب نے کہا کہ جب ہمیں مشکلات یا دشواریاں پیش آتی ہیں تو ہم خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں یہ میرے لیے بہت ہی دلچسپ بات تھی اور جب میں دعا کر رہی تھی تو میں نے دعا کی لذت سے کافی زیادہ حظ اٹھایا۔ 2013ء میں سپین کے حالات خراب ہوئے، بہت سے لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوگئیں۔ میرے والد جو ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں کام کر رہے تھے انہیں بتایا گیا کہ عنقریب ان کی نوکری ختم ہو جائے گی اور کیونکہ وہ پچاس سال سے بڑی عمر کے تھے تو نفسیاتی طور پر ان کے لیے پریشان کن بات تھی اس وقت ان کے گھریلو معاشی حالات پریشان کن تھے۔ اس دوران انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں میں ان کی مدد کروں میں نے ان کے لیے صدق دل سے دعا شروع کر دی تو ایک ہفتے کے اندر اندر معجزانہ طور پر نامساعد حالات ہونے کے باوجود میرے والد کو نوکری مل گئی۔میرا یقین ہے کہ یہ دعا کا معجزہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو نوکری عطا کی اور وہ اب تک کام کر رہے ہیں ۔

اس کے بعد بچوں کے لیے ایک پروگرام Kids Space پیش کیا گیا۔ اس دلچسپ پروگرام کے آخر میں بچوں سے ایک کوئز بھی پوچھا گیا۔ اس کے بعد ایک مختصر سا پروگرام The Many Powers of Prayer کے عنوان سے پیش کیا گیا۔ اس کے بعد منصور مرزا صاحب کی کینیڈا سے ایک ذاتی کہانی پیش کی گئی جس کا عنوان تھا ’’میں جاننا چاہتا ہوں‘‘۔ بعدازاں ایک پروگرام The Great Comet of 1882 پیش کیا گیا یہ حضرت مسیح موعودؑ کی ایک پیشگوئی کے حوالے سے تھا جو مکرمہ منزہ عالم کی طرف سے تھا جو کہ اسٹرونومر اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے سائنس سیکشن کی ڈپٹی ایڈیٹر ہیں ۔ اس کے بعد ایک امریکن احمدی رقیب ولی صاحب کی ذاتی زندگی کے واقعات پر مبنی پروگرامMy 90-Years Journey پیش کیا گیا۔

اگر انسان سچا ہو تو خدا تعالیٰ براہِ راست راہنمائی کرتا ہے

ایک امریکن احمدی رقیب ولی کہتے ہیں جب میں کرسچن تھا تو میں نے کسی سے احمدیت کے بارے میں بات کی۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انشراحِ صدر عطا کرتا ہے۔ اس وقت میں نے احمدیت کے بارے میں جاننا شروع کیا۔ میرے ایک مسلمان بھائی کے ساتھ تعلقات تھے مگر مجھے علم ہی نہیں تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ ان کا نام عبدالرحمٰن تھا۔ میں نے ملاقات پر ان کو شراب پیش کی تو انہوں نے انکار کر دیاپھر میں نے انہیں چرس پیش کی، انہوں نے وہ بھی قبول نہیں کی تو میں نے انہیں نائٹ کلب جانے کی آفر کی مگر انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ اس پر میں نے انہیں کہا کہ تم ہو کون؟ تو انہوں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں اور انہوں نے مجھے پڑھنے کے لیے ایک کتاب دی جبکہ وہ خود احمدی نہیں تھے۔ انہوں نے مجھے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نام سے کتاب اور ایک چھوٹا سا پمفلٹ دیا۔ یہ اسلام کے متعلق میرا پہلا تعارف تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جو میں نے پہلی دعا کی وہ فرینکن پارک میں تھی۔ میں بالکل اکیلا تھا تو میں گھاس پر لیٹ گیا اور آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے میں نے کہا اے خدا! میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں اس سے میں بالکل ناخوش ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تو ہے۔ سیدھے راستے کی طرف میری راہنمائی فرما۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں بالکل تنہا تھا اور میں نے کوئی لٹریچر نہیں پڑھا تھا۔ اس دعا کے دو دن بعد ہی میں نے ایک اور دوست کلیو محمود سے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے کچھ کتب دیں اور میں نے احمدیت کا لٹریچر پڑھنا شروع کر دیا اور میں نے ان سے قرآن کریم بھی لیا۔ ان ہی دنوں مجھے احمدیت قبول کرنے کے بعد مشکلات اور مصائب پیش آئیں، میں بےروزگار تھا اور نوکری کی تلاش میں تھا تو خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے کیلیفورنیا میں ملاقات ہوئی۔ اس کمرے میں تقریباً 99 لوگ تھے اور میں صرف اکیلا تھا جس کو اردو بولنی نہیں آتی تھی وہ اس وقت خلیفہ نہیں تھے کسی نے ان سے کہا کہ کیا آپ اردو میں بات کر سکتے ہیں۔ اور میں انگریزی میں اس کا ترجمہ کر دوں گا انہوں نے کہا نہیں میں رقیب بھائی کی وجہ سے انگریزی میں بات کروں گا اور آپ کو اردو میں ترجمہ کرنا پڑے گا۔ اور اس بات پر میں بہت حیران تھا۔ انہوں نے کہا کیونکہ رقیب بھائی اس جماعت کے صدر ہیں مگراس وقت میں صدر نہیں تھالیکن بعد میں میں جماعت کا صدر بھی بنا اور بعد میں جب وہ جماعت کے خلیفہ بنے تو میں نے نوکری کے لیے دعا کی درخواست کی کیونکہ میں جیل میں کام کرنا چاہتا تھا اور جیل میں وہ احمدیوں کو جاب نہیں دیتے تھے۔تو خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا اور آپ کی دعا سے مجھے اسی جیل میں چار نوکریاں آفر کی گئی تھیں اور یہ خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کے طفیل ہوا۔ انہوں نے مجھے مسلم چیپلن کا صدر بھی تسلیم کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ رقیب بھائی ہر سال ہمارے چرچ میں چیپلن میٹنگ کرتے رہے کیا ممکن ہے کہ اس بار ہم مسجد میں میٹنگ کر سکیں تو اس سلسلہ میں لوکل جماعت احمدیہ نے میری مدد کی اور اس واقعہ پر تمام مذاہب کے نمائندگان خوش تھے۔ بہت سارے اسی طرح کے واقعات ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی میں بےروزگار نہیں ہوا بلکہ 26 سال تک میں نے جیل میں کام کیا۔ مسلمان ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کو اندر سے اچھا ہونا چاہیے۔ اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف یہ نہیں کہ آپ نے خدا کو قبول کیا ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو قبول کیا ہے۔ یہ بہت بڑا سبق ہے جو میں نے احمدیہ جماعت میں سیکھا۔اگر تم گناہگار ہو تو یہی وہ ایک مقام ہے جہاں انسان توبہ کر سکتا ہے۔ اور اگر انسان سچا ہو تو خدا تعالیٰ براہِ راست تمہاری راہنمائی کرے گا۔ اور اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا صرف یہی نہیں کہ مجھے سیدھا راستہ دکھا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میرا ہاتھ تھام کر مجھے منزلِ مقصود تک پہنچا تاکہ میں صراط مستقیم پر چل سکوں۔

اس کے بعد ایک پروگرام The Hearts that Beat for Humanity پیش کیا گیا۔ جو کہ مکرم زبیر حیات صاحب وقف زندگی و نمائندہ ریویو آف ریلیجنز نے پیش کیا ۔

قبولیتِ دعا کا ایک اور نشان

ریویو آف ریلیجنز کی ٹیم نے یوکرائن کے بارڈر کے پاس نصب مہاجر کیمپ کا دورہ کیا جہاں ہیومینٹی فرسٹ کی ٹیم خدمت انسانیت میں مصروف عمل نظر آئی۔ اس مہاجر کیمپ میں کسی اور انسانی حقوق کی تنظیم کا کوئی کیمپ نہیں تھا جس کے پاس اس قسم کی سہولیات میسر ہوں۔ایک والنٹیئر کہتے ہیں کہ مجھے یہاں خدمت کا موقع ملا تو مجھے خدا تعالیٰ کا قرب محسوس ہوا کیونکہ میں انسانیت کی خدمت کر رہا ہوں۔ ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کے انچارج مکرم اطہر زبیر صاحب کہتے ہیں کہ جب ہم نے کام شروع کیا تو میڈیکل سیٹ اپ بنانا تھا جس کے لیے دوائیوں کی ضرورت تھی۔ ہمارے پاس جو ادویات دستیاب تھیں وہ ہم نے افریقہ کے لیے خرید رکھی تھیں۔ اور ایسی دوائیاں یورپ میں ہمارے ڈاکٹرز دے نہیں سکتے۔ کیونکہ یہاں سیل بند دوائی دینے کی ہی اجازت ہے۔ ہمیں فکر لاحق ہوئی کہ اگر ہم یہ دوائیاں الگ الگ خریدنے لگے تو بہت مہنگا ہو جائے گا۔ میں نے اپنے ڈاکٹروں کی ٹیم سے کہا کہ آپ بہرحال میڈیکل سیٹ اپ کی تیاری کریں اور میں حضرت صاحب کی خدمت میں دعائیہ خط ارسال کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی راہ نکال دے گا۔ مجھے یاد ہے کہ اسی شام رپورٹ کے ساتھ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں ایک دعا کا عریضہ لکھا جس میں دوائیوں کا بھی ذکر کیا کہ اس میں کچھ مشکلات در پیش ہیں۔ اگلے ہی روز دو ایسے دوست (میاں بیوی ) جن کو ہم ذاتی طور پر جانتے بھی نہیں تھےہمارے کیمپ میں آئے اور کہنے لگے ہم آپ کے ساتھ مل کر خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا جی ضرور ہم بھی یہاں خدمت کر رہے ہیں آپ بھی ہمارے ساتھ جو خدمت کر سکتے ہیں آجائیں۔ ان کو جب علم ہوا کہ ہمیں ادویات کی ضرورت ہے تو انہوں نے ایسی کوشش کی کہ سپین جہاں سے ان کا تعلق تھا وہاں پر کچھ لوگوں سے رابطہ کیا اور اسی دن شام کو تقریباً وہ ساری دوائیاں جن کی ہمیں ضرورت تھی وہ لے آئے۔ اور ہم حیران رہ گئے کہ ابھی 24 گھنٹے نہیں گزرے تھے دعا کی درخواست کیے ہوئے کہ وہ تمام ادویات جن کی مالیت اندازاً 25 ہزار یورو بنتی ہے وہ ہمارے پاس لے آئے اور کہنے لگے یہ آپ لوگوں کے لیے ہم نے کوشش کی ہے۔ یہ سپین سے آئی ہیں۔ آپ اسے استعمال کریں۔ اس پروگرام کے آخر پرہیومینٹی فرسٹ کے تحت کام کرنے والے مختلف پراجیکٹس کا تعارف بھی کروایا گیا ۔

بعد ازاں Khilafat: A Living Proof of God کے عنوان سے ایک پروگرام پیش کیا گیا ۔ جس میں شریف عودہ صاحب نے انتخاب خلافت کا چشم دید واقعہ بیان کیا ۔

خلافت کا انتخاب ،خلیفہ خدا بناتا ہے

شریف عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کی طرح ہم بھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ پڑھتے ہیں جس میں دائمی خلافت کا وعدہ ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ میں ہم نے اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنا خلیفہ خود چنتا ہے۔ مئی 2002ء میں میں نے ایک دوست جس کا نام امجد کمال تھا جو کہ (جنین) فلسطین میں ہے سے میں نے جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے حوالے سے دریافت کیا۔ جس پر اس نے بتایا کہ میرا پاسپورٹ ایکسپائر ہوچکا ہے اور اس کو ری نیو کروانے کے لیے مجھے اردن جانا پڑے گا۔اور عام حالات ذرا ناسازگار اور مشکل تھے لیکن امجد کمال صاحب کہتے ہیں کہ میں نے نمازِ استخارہ ادا کی اور فجر کے وقت خواب میں دیکھا کہ میں لندن گیا ہوں اور ایک محل میں داخل ہوا ہوں۔ اس میں ایک شخص کرسی پر بیٹھے ہیں جن سے نور ٹپک رہا ہے۔جب میں ان کی طرف دیکھتا ہوں تو وہ چوتھے خلیفہ نہیں کوئی اور شخص تھے۔ انہوں نے ان کا حلیہ بیان کیا جیسے انہیں خواب میں نظر آئے۔شریف عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا تو میں نے انہیں روک دیا اور میں سمجھ گیا کہ خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کی بات کر رہے ہیں۔ اپریل 2003ء میں خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کی اطلاع مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے فون کر کے دی کہ اب نئے خلیفہ کے انتخاب کے لیے مجھے لندن آنا پڑے گا۔ میں تو خود کو اس بات کا اہل ہی نہیں سمجھتا تھا کہ میں اس انتخاب کمیٹی میں شامل ہوں۔ میں نے خود بھی دعا شروع کی اور اپنے دوسرے عرب بہن بھائیوں سے بھی دعا کی درخواست کی۔ امجد صاحب وہ احمدی بھائی تھے جنہیں میں نے اپنے گھر سے جانے سے پہلے رابطہ کی کوشش کی مگر رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔ وہ اپنے گھرانے میں واحد احمدی تھے۔اگلے دن انہوں نے میرے نمائندہ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ میں انتخابِ خلافت میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہو چکا ہوں۔ امجد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان کو فون پر اپنے خواب کے بارے میں بتایا اور کہا کہ لکھ لیں جو میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون خلیفہ منتخب ہونے جا رہے ہیں کیونکہ میں نے ایک شخص کو خواب میں دیکھا ہے جو اس کردار پر پورا اترتا ہے۔ شریف صاحب کہتے ہیں کہ جب انتخابِ خلافت کا مرحلہ آیا تو ہم مسجد فضل کے باہر کھڑے تھے اور ہر شخص اپنا آئی ڈی دکھا کر اندر جا رہا تھا۔جب تک میں باہر کھڑا تھا میں برابر یہی سوچتا رہا تھا کہ ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے جو مجھے یہاں بلا لیا گیا ہے۔ میں خود کو اس مبارک کمیٹی کے ممبر کے طور پر اہل نہیں سمجھتا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں بیمار ہو رہا ہوں اور مجھے علاج کی ضرورت ہے۔ اس وقت میں نے پشت پر کھڑے شخص کو دیکھا جس کے متعلق میں نے فلسطین سے روانہ ہونے سے قبل فیصلہ کیا تھا کہ میں اس کو ووٹ دوں گا تو مجھے مناسب نہیں لگا کہ میں اس شخص کے آگے کھڑا ہوں جسے میں ووٹ دینے کا ارادہ کر چکا ہوں اور جو خلیفہ منتخب ہو سکتا ہے۔ چنانچہ میں لائن کے آخر میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ اسی دوران مجھے دو اشخاص آتے دکھائی دیے جن میں سے ایک چودھری حمید اللہ صاحب تھے جبکہ دوسرے شخص کو میں نہیں جانتا تھا مگر نور کی شعاعیں اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھیں اور میرے جسم میں داخل ہو گئیں اور میں سوچنے لگا کہ یہ کون ہے۔ اس وقت بھی مجھے اپنی حالت اچھی معلوم نہیں ہورہی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کہ میں مسجد میں داخل نہیں ہو پاؤں گا۔ بہرحال میں مسجد میں داخل ہوا اور ہمیں چار گروپس میں بٹھا دیا گیا۔ صدر مجلس چودھری حمید اللہ صاحب نے کہا کہ جو کسی کو نامزد کرنا چاہتا ہے وہ نام پیش کرے۔کچھ بھائیوں نے نام پیش کرنے شروع کیے۔ ہر نام کے پیش ہونے پر میرا دل اس کے حق میں گواہی نہیں دیتا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میرا اپنے آپ پر کنٹرول نہیں ہے۔ جس کا لاجک سے تعلق نہیں تھا محسوسات سے تعلق تھا۔ بہرحال جب انہوں نے مرزا مسرور احمد صاحب کا نام پیش کیا تو میں نہ تو انہیں جانتا تھا اور نہ ہی ان کے بارے میں کسی سے سن رکھا تھا۔ کوئی کھڑا ہوا اور اس شخص کا نام پیش کیا جس کے بارے میں میں نے فلسطین سے روانہ ہونے سے قبل سوچا تھا۔ وہ انتظار کر رہے تھے کہ کوئی دوسرا شخص اس نام کی تائید کرے مگر یہ کسی نے بھی نہیں کیا۔اور مجھے لگا کہ میری بازو مفلوج ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ اس شخص کا نام ڈراپ ہو گیا۔امیر جماعت جرمنی نے صدر مجلس سے درخواست کی کہ کیونکہ ہم میں سے ہر ایک مختلف ممالک سے تعلق رکھتا ہے اور ہم ایک دوسرے سے ناواقف ہیں چنانچہ صدر مجلس کی رضامندی سے جن کے نام پکارے گئے ہیں انہیں کھڑا کیا جائے۔ اور جب انہوں نے مرزا مسرور احمد صاحب کا نام پکارا تو میں نے اپنے سامنے دیکھا تو مجھے کوئی دکھائی نہ دیا۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے گروپ میں ہیں میری پشت کی جانب۔ میں نے اچھی طرح دیکھا اور محسوس کیا کہ یہ وہی شخص ہیں جو میرے سامنے سے گزر کر گئے تھے اور ان کے اندر سے نور پھوٹ رہا تھا۔اس وقت میں نے کہا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں۔اور ووٹ کے وقت اکثریت کے ووٹ ان کے حق میں تھے۔ اور میری اندرونی کیفیت بھی بہتر ہوتی گئی اور خوف کی حالت امن میں بدلنے کا مفہوم محسوس کیا۔ ہم نے جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر زندہ خدا اور زندہ مذہب کا نشان اپنے سامنے محسوس کیا ہے اور دیکھا کہ ناممکن کیسے ممکن ہوتا ہے اور ہمارا خلیفہ اللہ کا خلیفہ ہے اور وہی ہے جسے خدا نے چنا ہے۔پھر امجد کمال صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے موجودہ خلیفہ کی تصویر دیکھی تو مجھے لگا کہ یہ تو ہو بہو وہی شخص ہے جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا کچھ بھی فرق نہیں تھا صرف اتنا فرق تھا کہ وہ خواب میں کرسی پر دوسرے رخ پر بیٹھے تھے۔ جیسے کوئی شخص اپنا عکس آئینے میں دیکھے تو اسے اپنا رخ الٹا نظر آئے۔یا وہ کوٹ جو انہوں نے تصویر میں پہن رکھا تھا وہ دوسرے رنگ کا تھا۔ مگر ایک دوسری تصویر میں انہوں نے بالکل وہی کوٹ پہن رکھا تھا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا تو یہ دیکھ کر میرے منہ سے بے اختیار اللّٰہ اکبر نکلا۔ شریف عودہ صاحب کہتے ہیں کون ہے جس نے امجد کمال کو فلسطین کے ایک پسماندہ گاؤں میں بتایا کہ آئندہ خلیفہ کون ہوگا۔ کون ہے جو خلیفہ منتخب کرتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے خلافت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کے تازہ نشانوں کے چند واقعات پیش کیے اور خلیفہ وقت اور جماعت سے لوگوں کی محبت کو بیان کیا کہ خدا تعالیٰ کس طرح خلیفہ وقت کے قرب کی خواہش کو پورا کرنے کے سامان کرتا ہے اور اپنے فرشتوں کے ذریعے اس کی مدد کرتا ہے۔

The existence project in LA پروگرام جو کہ مجلس خدام الاحمدیہ یو ایس اے کے تعاون سے تیار کیا گیا تھا جس میں ہستی باری تعالیٰ نیزدیگر موضوعات پر بھی بات چیت کی گئی۔ اس میں مجلس خدام الاحمدیہ لاس اینجلس کے خدام نے ہستی باری تعالیٰ کے بارے میں سوالات کیے اور اپنے تجربات بھی بتائے اور مکرم صباحت علی مشنری انچارج و ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز نے ان کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس کے بعد ایک اور پروگرام جس کا نام ’ایک منٹ دعا کے لیے مختلف طریقے‘ پیش کیا گیا جس میں فخر طاہر مشنری دی ریوو آف ریلیجز نے اپنے تجربات بیان کیے۔ اس کے بعد ایک پروگرام جس نام تھا A Miracle in Nigeria پیش کیا گیا۔

خلافت کی برکت اور دعا کا اعجاز

A Miracle in Nigeria نامی پروگرام میں ایک احمدی نائجیرین خاتون مریم علی بلاگون کی والدہ شاکیرہ نے واقعہ بیان کیا جس کا ان کی تیسری بیٹی کے ساتھ تعلق ہے انہوں نے بتایا کہ جب میری تیسری بیٹی حاملہ ہوئیں ان کا ایک سکین ہوا جس میں ہر چیز ٹھیک اور نارمل تھی۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں جب میں نو ماہ کی حاملہ تھی اور آخری چیک اپ کے لیے ہسپتال گئی تو سکین میں میرا ہونے والا بچہ بالکل نارمل نظر آیا۔ مگر نیورولوجسٹ نے کہا کہ دوسری رائے لینی چاہیے۔ چنانچہ جب میں اپنا ٹیسٹ رزلٹ دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تو اس نے کہا کہ بچہ hydrocephalus ہے۔ میرے ڈاکٹر نے کہا ہوسکتا ہے کہ سکین رپورٹ میںکوئی غلطی ہوئی ہے۔ تو ہم نے تسلی کے لیے چار مختلف جگہ سے ٹیسٹ کروائے اور سب کی جانب سے یہی رپورٹ ملی کہ پہلی رپورٹ درست ہے۔ پھر میں دو بارہ اپنے ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے کہا بچہ نکالنا پڑے گا اس پر میں نے اپنے معلم صاحب سے بات کی اور حضور انور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھا کہ میرے لیے دعا کریں کہ سرجری کامیاب ہو جائے۔سرجری ہوگئی اور بچے کی ولادت ہوگئی لوگوں نے کہا بظاہر بچی نارمل لگ رہی ہے مگر اس کا سر تھوڑا سا بڑا لگ رہا تھا۔ لیکن ڈاکٹرز کے مابین ایک اختلاف تھا کچھ نے کہا کہ بچہ ٹھیک ہے آپ گھر جاسکتے ہیں مگر کچھ مُصر تھے کہ ہمیں ابھی بھی کسی کنسلٹنٹ کو دکھانا چاہیے تاکہ اگر ضرورت ہو تو درست طور پر علاج کیا جاسکے۔ وہ کہتی ہیں میں دعاؤں میں لگی رہی۔ میری والدہ نے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ بچی کی ولادت کے دو ہفتے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا اور اس فیصلے سے پہلے جب بھی کوئی نئی معلومات ملتیں تو میں ہمارے مشنری سے رابطہ کرتی اور انہیں بھی اپ ڈیٹ کرتی اس دوران ہم نے حضور انور کو تین خطوط لکھے اور ہمیں تسلی دی گئی کہ فکر نہیں کرنی چاہیے اللہ فضل کرے گا۔ اور حضور بھی ہمارے لیے دعا گو تھے۔ مگر بچے کی پیدائش سے قبل ڈاکٹرز میں سے کچھ کی رائے تھی کہ یہ بچہ تین ماہ سے زائد زندہ نہیں رہ پائے گا۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ میں بہت روئی اور میں سجدوں میں انتہائی تضرع کے ساتھ خدا کے حضور دعا کرتی۔ بیٹی کہتی ہیں کہ میں نے اپنے اہل خانہ سے خاص طور پر نماز تہجد میں اس کی صحت کے لیے دعا کرنے کو کہا ڈیلیوری کے لیے جانے سے قبل مجھے نہیں علم تھا کہ میری والدہ نے کچھ اور لوگوں کو بھی دعا کے لیے کہہ رکھا تھا۔ پیدائش کے بعد بیٹی کا سر کافی بڑا تھا تین ہفتے ہوچکے تھے اس کا جسم چھوٹا ہورہا تھا مگر سر کافی بڑا تھا۔ اس دوران میں نے ایم ٹی اے پر حضور کے خطبات سننے شروع کردیے ایک خطبہ تھا جس میں غار ثورمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ کے پناہ لینے کے بارے میں بیان کیا تھا حضور انور نے فرمایا لاتحزن تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ حضور مجھے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ لا تحزن ان اللّٰہ معنا اور میں نے اس کا ترجمہ پڑھا کہ خوف مت کرو خدا ہمارے ساتھ ہے ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ میں نے اپنے سارے بچوں کو بلایا اور بتایا کہ حضور انور نے فرمایا ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ جب کنسلٹنٹ نے رزلٹ دیکھے تو کہا کہ ڈاکٹرز نے پتا نہیں کیوں ڈرا کر رکھا ہوا ہے ٹھیک ہے سر بڑا ہے اور جسم چھوٹا ہو رہا ہے لیکن اس کی صحت ٹھیک ہے۔ والدہ کہتی ہیں انہوں نے کہا کہ سرجری کے بعد بچہ ٹھیک ہوگا۔ مگر میں نے اپنے مربی صاحب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ مجھے اس چھوٹے سے بچے کی سرجری کے حوالے سے خوف ہے۔ اس پر مشنری صاحب نے کہا آپ حضور کو لکھیں جس پر جواب موصول ہوا کہ آپ علاج کرتی رہیں اور سرجری بھی علاج کا حصہ ہے۔ اس کے بعد 6جنوری 2022ء کو سرجری کی گئی۔ ان کی والدہ کہتی ہیں سرجری کے بعد بچہ میرے حوالے کیا گیا تو میں مسلسل دعا کررہی تھی۔ اس وقت مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ میں حضور کا خطبہ دوبارہ سن رہی ہوں کہ غم نہ کر کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اور یقیناً ایسا ہی ہوا اللہ کے فضل سے بچی بہت جلد صحت یاب ہو گئی۔ اب وہ چار ماہ کی ہونے والی ہے اور الحمدللہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور خلافت کی برکت ہے۔ اس بچی کو حضور انور نے از راہِ شفقت وقف نو میں بھی شامل کرلیا ہے اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے لمبی زندگی دے صحت دے تندرست رکھے اور انسانیت اور جماعت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(باقی آئندہ…)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button