متفرق مضامین

محبت وخوف سے بھری نماز

(م۔ ا۔ شہزاد)

جسے خدا نہ مل سکا اسے بھلا مجاز کیا

بھلا اسے خبر ہی کیا نشیب کیا فراز کیا

اسے پتہ نہ چل سکا ہے بندگی کا راز کیا

جسے حضور ہی نہیں پڑھے گا وہ نماز کیا

حقیقی نماز وہی ہے جس میں توجہ الیٰ اللہ،انہماک، خشوع وخضوع،راحت،لذت،سرور،ذوق،گریہ وبکا،اور حضورقلب میسر آئے اس کے بغیر ادا کی ہوئی نمازوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ۔الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ۔(الماعون:5-6)پس ان نماز پڑھنے والوں پر ہلاکت ہو۔جو اپنی نمازسے غافل رہتے ہیں۔

خدا کو دیکھنا

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ۔اور اگر تمہاری یہ کیفیت نہیں ہے تو یہ خیال کرو کہ خداتمہیں دیکھ رہا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الایمان باب سوال جبریل)

تم نے نماز نہیں پڑھی

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی۔پھر وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا ۔حضورﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا جاؤدوبارہ نماز پڑھو کیونکہ تمہاری نماز نہیں ہوئی۔چنانچہ وہ گیا اور پھر نماز پڑھی۔اور آکر آنحضرتﷺ کو سلام کیا۔آپﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا جاؤپھر نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔وہ پھرگیا اور پھر نماز پڑھی اور آکر آنحضرتﷺ کو سلام کیا۔آپﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا جاؤپھر نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔اس آدمی نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو سچائی سے بھیجا ہے میں اس سے زیادہ بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا،اس لیے آپ ﷺ ہی مجھے نماز پڑھنے کا صحیح صحیح طریق بتائیے۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا۔جب تم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاؤ تو تکبیر کہو،پھر حسب توفیق قرآن پڑھو،پھر پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو،پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ،پھر پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو،پھر سجدہ سے اٹھ کر پوری طرح بیٹھو۔اس کے بعد دوسرا سجدہ کرو اس طرح ساری نماز ٹھہر ٹھہر کر سنوار کر پڑھو۔(بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءة للامام والماموم فی صلوات کلھا)

صحابی رسول حضرت خذیفہ ؓنے ایک شخص کو دیکھا جو نہ رکوع پورے طور پر کرتا اور نہ سجدے۔جب وہ نماز ختم کر چکا تو حضرت حذیفہ ؓنے اسے کہا تونے نماز نہیں پڑھی اگر تو مر جائے تو محمدﷺ کی سنت کے سوا کسی اور طریقہ پر مرے گا۔(صحیح بخاری کتاب الصلوٰة باب اذالم یتم السجود)

عبد شکور

حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضورﷺ ایک رات میرے پاس تشریف لائے۔ میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹے پھر آپﷺنے فرمایا اے عائشہ!کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میںاپنے رب کی عبادت کر لوں۔میں نے کہا خدا کی قسم! مجھے تو آپﷺکی خواہش کا احترام ہے اور آپﷺ کا قرب پسند ہے۔میری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔تب آپ اٹھے اور مشکیزے سے وضو کیا۔نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور نماز میں اس قدر روئے کہ آپ ﷺکے آنسو آپ ﷺ کے سینہ پر گرنے لگے۔ نماز کے بعد آپ ﷺدائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپﷺ کا دایاں ہاتھ آپﷺکے دائیں رخسار پر تھا۔آپﷺنے پھر رونا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺکے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے۔ آپﷺ اسی حالت میں تھے کہ فجر کی اذان دینے کے بعد بلال آئے جب انہوں نے آپ ﷺکو اس طرح گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ!ﷺ آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میںاللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(تفسیر روح البیان زیر تفسیر سورت آل عمران آیت 191-192)

نماز میں توجہ اور انہماک

حضرت ابوبکر صدیق ؓکی کیفیت نماز کا یہ عالم تھا کہ نماز انتہائی انہماک اور سوزوگداز سے ادا فرماتے اور اس قدر رقت طاری ہوتی کہ ہچکی بندھ جاتی۔(کنزالعمال جلد 6صفحہ312)

غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر دوصحابی ایک پڑاؤ پر پہرہ دینے کے لیے مقرر تھے ایک صحابی اپنی ڈیوٹی دے کر سوگئے۔جبکہ دوسرے نماز پڑھ رہے تھے ایک مشرک نے نماز پڑھنے والے صحابی کو تیر مارا جوان کے بدن میں پیوست ہو گیا۔اس صحابی نے تیر نکالا اور نماز میں قائم رہے۔اس مشرک نے دوبارہ تیر مارا جو انہیں لگا ۔اس کو بھی انہوں نے نکالا لیکن نماز میں مشغول رہے۔مشرک نے تیسرا تیر پیوست کر دیا انہوں نے نکال کر رکھ لیا ور رکوع و سجدہ میں چلے گئے۔اور اتنے میں سوئے ہوئے صحابی کوجگادیا اور وہ مشرک بھاگ کھڑا ہوا۔زخمی صحابی سے جب ان کے ساتھی نے دریافت کیا کہ مجھے پہلے کیوں نہ جگایا تو وہ کہنے لگے کہ میں ایک ایسی سورت پڑھ رہا تھا کہ اسے ختم کیے بغیر مجھے پسند نہ آیا کہ نماز ختم کردوں ۔جب مشرک نے مجھ پر تیراندازی کی تو میں نے رکوع کیا اور تمہیں جگادیا لیکن خدا کی قسم اگر اس پہرہ داری کے فریضہ کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو خواہ میری جان چلی جاتی میں اس سورت کو پورا کیے بغیر نماز ختم نہ کرتا۔(حیات الصحابہ جلد 3صفحہ519)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت حامد علی صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نماز میں اھدنا الصراط المستقیم کا بہت تکرار کرتے تھے اور سجدہ میں یاحی یاقیوم کا بہت تکرار کرتے۔باربار یہی الفاظ بولتے جیسے کوئی بڑے الحاح اور زاری سے کسی بڑے سے کوئی شے مانگے اور باربار روتے ہوئے اپنی مطلوبہ چیز کو دہرائے۔ایسا ہی حضرت صاحبؑ کرتے عموماً پہلی رکعت میں آیت الکرسی پڑھا کرتے تھے ۔سجدہ کو بہت لمبا کرتے اور بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتاکہ اس گریہ و زاری میں آپ پگھل کر بہ جائیں گے۔(الفضل3؍جنوری1931ء)

نماز میں سوزو گداز

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’نماز سے ایسے ادا نہ کرو جیسے مرغی دانے کے لیے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوزوگداز سے ادا کرو اور دعائیں بہت کیا کرو۔نماز مشکلات کی کنجی ہے۔ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سِوا اپنی مادری زبان میں بھی بہت دعا کیا کرو تااس سے سوز و گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوز وگداز نہ ہو اسے ترک مت کرو۔کیونکہ اس سے تزکیہ ٔنفس ہوتاہے اور سب کچھ ملتا ہے چاہیے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو ۔اگر جسمانی طور پر کھڑے ہوتو دل بھی خدا کی اطاعت کے لیے ویسے ہی کھڑا ہو۔اگر جھکو تو دل بھی ویسے ہی جھکے ۔اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے ۔دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حالت میں خدا کو نہ چھوڑے ۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ589۔590)

درد دل کی نماز

پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یادرکھو کہ اگر ….ٹکروں والی نماز ہزار برس بھی پڑھی جاوے توہر گز فائدہ نہ ہوگا۔نماز ایسی شے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے۔نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑتی ہے اگر طبیعت میں قبض اور بدمزگی ہو تو اس کے لیے بھی دعا ہی کرنی چاہیے کہ الٰہی توہی اسے دور کر اور لذت اور نور نازل فرما۔جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا۔حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوح علیہ السلام کے وقت میں یہ نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ627)

’’وہ زمانہ جس میں نمازیں سنوار کر پڑھی جاتی تھیں غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا۔ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا جب سےاسے ترک کیا وہ خودمتروک ہو گئے ہیں۔درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے۔ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کو حل اور آسان کردیا ہوا ہوتاہے۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ189)

یہی نماز ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’سو تم نمازوں کو سنوار و اور خدا تعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب کرو …. نماز میں جہاں جہاں رکوع وسجود میں دعا کا موقع ہے دعا کرواور غفلت کی نماز کو ترک کر دو۔رسمی نماز کچھ ثمرات مترتب نہیں لاتی اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے۔ نماز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع وخضوع اور حضورِقلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ وزاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سےاداکی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم یہ توہو کہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے۔اس طرح کمال ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نماز اداکرو۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ176-177)

نماز میں خیالات

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں:’’کہتے ہیں کسی مسجد کا مُلاّ ایک دن جماعت کرانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ مقتدی آسودہ حال ہیں ۔اِس پر نماز میں ہی اسے خیال پیدا ہوا کہ اگر یہ مجھے تحفے تحائف دیں تو میرے پاس بڑا مال اکٹھا ہو جائے۔پھر جب مال جمع ہو گیا تو میں اُس سے تجارتی سامان خریدوں گا خوب تجا ر ت کروں گا۔کبھی دلّی میں اپنی اشیاءلے جاؤں گا کبھی کلکتے چیزیں لے جاؤں گا۔غرض اسی طرح وہ خیالات دوڑ اتاچلا گیا۔پھر ہندوستان اور بخار ا کے درمیان اُس نے تجارت کی سکیم بنانی شروع کر دی۔اب بظاہر وہ رکوع اور سجدہ کر رہا تھا مگر خیالات کہیں کے کہیں تھے۔ ایک بز رگ بھی اُن مقتدیوں میں شامل تھے۔اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور انہیں امام کے تمام خیالات بتادئیے گئے۔اس پر وہ نماز توڑ کرا لگ ہو گئے۔جب اس مُلّا نے نماز ختم کی تو ان پر ناراض ہوا اور کہنے لگا۔تمہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ نماز امام کے پیچھے پڑھا کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے مسئلہ تو مجھے معلوم ہے مگر میری صحت کچھ کمزور ہے میں آپ کے ساتھ چلااور دلّی تک گیا۔پھر دلّی سے بخارا گیا اور میں تھک کر رہ گیا اور چونکہ اتنے لمبے سفر کی میں برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے آپ سے الگ ہو گیا۔ اس پر وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا۔اب یہ بیہودہ خیالات تھے جو اس کے دل میں پیدا ہوئے مگر….یہی حال نیک خیالات کا ہے اور وہ بھی اسی رنگ میں پیدا ہوتے ہیں بسا اوقات ایسا ہوتا ہو گا کہ مثلاًتم سجدہ میں گئے ہو اور تم سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہتے ہو تو اس وقت تمہارا دل بھی حاضر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سبوحیّت کا نقشہ تمہارے سامنے آنے لگتا ہے اس وقت گوتمہارے منہ سے دوسری اور تیسری دفعہ بھی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی نکل رہا ہوتا ہے مگر تمہارا دل پہلے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کو ہی چھوڑنے کو نہیں چاہتا۔یااَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتے ہو اور اُس وقت تمہارا دل حاضر ہوتا ہے تو اُس وقت حمد کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے احسانات تمہارے سامنے یکے بعد دیگرے آنے شروع ہو جاتے ہیں اور تم انہی احسا نا ت کی یاد میں محو ہو جاتے ہو۔ اب اگر ایسی حالت میں تم کسی کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوتو گوتم اُس کی اقتدا میں کبھی سجدہ کرو گے،کبھی رکوع میں جاؤگے اور منہ سے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمٌ۔ وغیرہ بھی کہو گے مگر تمہارے دل پر حمد ہی جاری ہو گی۔ تو قلوب پر بعض روحانی واردات آتی ہیں اور وہی حقیقی نماز ہوتی ہیں۔‘‘(فضائل القرآن نمبر6انوارالعلوم جلد14صفحہ357تا358)

نمازوں کی حالت پر غور کریں

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اس لئے بالعموم ہر فرد بشر، ہر احمدی بالغ سے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو میں بڑے عجز کے ساتھ یہ استدعا کرتا ہوں کہ اپنے گھروں میں اپنی آئندہ نسلوں کی نمازوں کی حالت پر غور کریں۔ان کا جائزہ لیں،ا ن سے پوچھیں اور روز پوچھا کریں کہ وہ کتنی نمازیں پڑھتے ہیں معلوم کریں کہ جو کچھ وہ نماز میں پڑھتے ہیں اس کا مطلب بھی ان کو آتاہے یا نہیں اور اگر مطلب آتاہے تو غور سے پڑھتے ہیں یا اس انداز سے پڑھتے ہیں کہ جتنی جلدی یہ بوجھ گلے سے اتار پھینکا جاسکے اتنی جلدی نماز سے فارغ ہو کر دنیا طلبی کے کاموں میں مصروف ہو جائیں۔اس پہلو سے اگر آپ جائزہ لیں گے اور حق کی نظر سے جائزہ لیں گے،سچ کی نظر سے جائزہ لیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ جو جواب آپ کے سامنے ابھریں گے وہ دلوں کوبے چین کر دینے والے جواب ہوں گے۔‘‘(خطبات طاہرجلد7صفحہ507)

لذت نماز کی دعا

نمازمیں لذت حاصل کرنے کےلیے حضرت مسیح موعودؑنے ہمیں ایک دعا سکھائی ہے کہ’’اے اللہ تومجھے دیکھتاہے کہ میں کیسا اندھااورنابیناہوںاورمیںاس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں میں جانتاہوں کہ تھوڑی دیرکے بعدمجھے آوازآئے گی تو میں تیری طر ف آجاؤں گااس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گالیکن میرادل اندھااور ناشناسا ہے۔ توایسا شعلہ نوراس پرنازل کرکہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیداہوجائے توایسا فضل کرکہ میں نابینانہ اٹھوں اوراندھوں میں نہ جاملوں۔‘‘(ملفوظات جلد2صفحہ616)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button