حضرت مصلح موعود ؓ

جماعت احمدیہ کے عقائد (از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) (تحریر فرمودہ مئی 1925ء) (قسط اول)

ہمارے عقائد جن کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مختصر سا نقشہ ہمارے مذہب کا ذہن میں کھنچ سکتا ہے یہ ہے:

اللہ تعالیٰ

ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہے اور ایک ہے وہ ان تمام صفات سے متصف ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں۔

ملائکة اللہ

ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور انسانوں سے علیحدہ موجود ہیں۔ خیالی یا وہمی وجود نہیں ہیں بلکہ حقیقتاً وہ ایسی ہستیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مادی اسباب کی آخری کڑی کے طور پر مقرر فرمایا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے عالم مخلوقات میں ایک ایسی حرکت پیدا کرتے ہیں جو مختلف مدارج طے کرنے کے بعد وہ نتائج پیدا کر دیتی ہیں جن کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں۔

کلام الٰہی

ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے کلام نازل کیا کرتا ہے۔ اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے (جس کی حد بندی کرنے کی ہم کوئی وجہ نہیں پاتے خواہ لاکھوں اور کروڑوں خواہ اربوں سال ہوں ) تبھی سے خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے دنیا کی راہنمائی کے لئے کلام کرتا چلا آیا ہے۔ اب بھی کرتا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔

قرآن کریم

ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کلام الٰہی کئی اقسام کا ہے۔ ایک قسم شریعت یعنی ایسا کلام جو شریعت کا حامل ہوتا ہے اور ایک قسم تفسیر اور ہدایت ہوتی ہے یعنی کلام شریعت کی تفسیر اس کے ذریعہ سے کی جاتی ہے اور اس کے سچے معنے بتائے جاتے ہیں اور لوگوں کو حقیقی راستہ کی طرف توجہ دلائی جاتی ہےخواہ وہ اس کلام کے حامل کے ذریعہ سے دنیا کو بتایا گیا ہو اور خواہ وہ اس سے پہلے کسی حامل کلام کے ذریعہ دنیا کو بتایا گیا ہو۔ اور ایک قسم الہام کی یہ ہے کہ اس کی غرض وثوق اور یقین دلانا ہوتی ہے۔ پھر ایک قسم الہام کی یہ ہے کہ اس میں اظہار محبت مدنظر ہوتا ہے۔ اور ایک قسم الہام کی یہ ہے کہ اس میں تنبیہ مدنظر ہوتی ہے اور اس قسم کا کلام کافروں اور مشرکوں پر بھی نازل ہوجاتا ہے۔ ہمارا یہ یقین ہے کہ کلام شریعت اس دنیا کے لئے قرآن کریم پر ختم ہوگیا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ حاملین شریعت کی آخری کڑی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور قرآن کریم کے بعد کوئی شرعی کتاب خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوسکتی اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی مبعوث ہوسکتاہے جو کوئی نیا حکم شریعت لائے یا کسی مٹے ہوئے حکم کو نئے طور پر دنیامیں قائم کرے۔ یعنی نہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ شریعت میں کوئی زیادتی کرے اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ پچھلے کلام کا کوئی حکم جو منسوخ ہو چکا ہو کسی نئے نبی کے ذریعہ سے قائم ہو۔

انبیاء علیھم السلام

پھر ہم یقین کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقتًا فوقتًا دنیا کی ہدایت کے لئے بعض انسانوں کو جو اس کے کلام کے حامل ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں اور جو لوگوں کے لئے نمونہ بننے کی طاقت رکھتے ہیں اپنے کلام سے مشرف کر کے دنیا کی ہدایت کے لئے مامور کرتارہا ہے جو کہ کبھی تو کلام شریعت لے کر دنیا میں آئے ہیں اور کبھی صرف ہدایت ہی لے کر آتے ہیں خود ان پر کوئی ایسا کلام نازل نہیں ہوتا جس میں کوئی نیا حکم ہو۔

غیر شرعی نبی

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ دوسری قسم کے نبی جو شریعت نہیں لاتے اور صرف پہلی شریعت کی تفسیر اور تشریح کرنے کے لئے نازل ہوتے ہیں وہ ایسے زمانہ میں نازل ہوتے ہیں جب کہ اختلافات، روحانیت سے بُعد، خدا تعالیٰ سے دوری، تقویٰ کی کمی اور نیکی کا فقدان کلام شریعت کے صحیح معنے کرنے کی قابلیت اس وقت کے لوگوں سے مٹا دیتا ہے اور کسی شخص کو یقین اور تسلی نہیں ہوسکتی کہ یہ معنی درست ہیں۔ اور جب کہ خدا تعالیٰ کی طاقت اور قدرت لوگوں کی نظر سے بالکل مخفی ہوجاتی ہے اس کا وجود قصوں اور روایتوں میں محدود ہوجاتا ہے اور اس کے تازہ بتازہ جلوے دنیا میں نہیں آتے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا نبی بھیجا جاتا ہے جو کلام الٰہی کی صحیح تفسیر جو اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے لوگوں تک پہنچا دیتا ہے اور تازہ نشانات کے ساتھ خدا تعالیٰ کے جلوے کو ظاہر کرتا ہے جس سے وراثتی ایمان جو درحقیقت ایک کوڑی کے برابر حقیقت نہیں رکھتا یقین اور وثوق کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔

انبیاء علیھم السلام کا آنا

ہمارا یہ یقین ہے کہ امت کی اصلاح اور درستی کے لئے ہر ضرورت کے موقع پر اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء بھیجتا رہے گا۔ اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث میں اس زمانہ کی نسبت خصوصیت کے ساتھ یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس وقت جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو جو صفحات کاغذ پر تو موجود ہوں گی لیکن لوگوں کے قلوب پر مفقود ہوجائے گی اور بلحاظ ایمان اور یقین کے وہ ثریا پر چلی جاوے گی آپؐ ہی کی امت میں سے ایک ایسا شخص ظاہر ہوگا جو پھر قرآن کریم کی حقیقت لوگوں پر ظاہر کرے گا اور ایمانوں کو تازہ کرے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام

ہمارا یہ یقین ہے کہ وہ شخص موعود ظاہر ہوچکا ہے اور ان کا نام مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہے۔ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہدایت اور آپؐ سے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ مسیح موعود تھے جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ عیسائیت کے فتنہ کو پاش پاش کرے گا۔ اورآپ مہدی موعود تھے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اصلاح کرنی ہے اور آپ کرشن اور دوسرے بزرگ جو مختلف اقوام میں آئے ہیں ان کے مثیل تھے جن ناموں کے ذریعہ آپ نے ان قوموں کو اسلام کی طرف لاناہے آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کا کام کرنا ہے اور وہ کررہا ہے۔

مامور کا ماننا

ہمارا یہ یقین ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس پر ایمان لانا اور اس کا ساتھ دینا اور اس کی جماعت میں داخل ہونا ضروری ہے ورنہ وہ غرض و غایت ہی مفقود ہوجاتی ہےجس کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور آیا کرتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کے مامور کی جماعت میں داخل ہونا ضروری نہ ہو تو جیسا قرآن سے ظاہر ہے کہ نبی کی مخالفت اس وقت کے بڑے لوگوں کی طرف سے ضروری ہے۔ کسی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ایک غیر ضروری کام کے لئے ساری دنیا کی مخالفت سہیڑے۔ تبھی ایک جماعت اس مقصد کو لے کر کھڑی ہوسکتی ہے کہ وہ اس مامور کی تائید کرے گی اور اس کے کام کو دنیا میں پھیلائے گی جب کہ وہ سمجھتی ہو کہ بغیر اس کے ہم خدا تعالیٰ کی رضا ء کو حاصل نہیں کر سکتے۔ پس وہ دنیا کی اشد ترین مخالفت کو جس سے بڑھ کر مخالفت نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کی رضاء کے لئے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔

دعا

ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔

جزاء و سزا

ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہر انسان جب مر جاتا ہے اس کے اعمال کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے اس عرصہ میں جس کو قبر کا زمانہ کہتے ہیں مگر جس سے مراد مٹی کی قبر نہیں بلکہ اس سے مراد وہ خاص مقام ہے جس میں مُردوں کی ارواح رکھی جاتی ہیں۔ اور اس وقت بھی جزاء و سزا ملے گی جب یہ قبر کا زمانہ ختم ہوجائے گا اور حشر کبیر کا زمانہ شروع ہوجائے گا۔

رحمتِ الٰہی

ہمارایہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب صفات کے ساتھ اپنا اثر ظاہر کرتی ہے اور اس کی رحمت عظیم کے ماتحت آخر کار ایک دن ایسا آئے گا کہ تمام کے تمام بنی نوع انسان خواہ کیسی ہی بدی اوربدکاری اور کیسے ہی فسق اور کفر میں شرک یا دہریت میں مبتلا ہوں ان کو اس کی رحمت اپنے اندر سمیٹ لے گی اوربالآخر وہ بات جو انسان کی پیدائش کے وقت خدا تعالیٰ نے ان سے کہی پوری ہوجائے گی یعنی وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)تمام کے تمام اس کے عبد بندے اور اس کے عبادت گذار ہوجائیں گے۔ ہر شخص اپنے درجے کے مطابق بدلہ پائے گا۔ نہ کسی کی کوئی نیکی ضائع ہوگی اور نہ کسی کی بدی ضائع ہوگی۔ نادان ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ آخر میں جب دوزخ کے سلسلہ کو مٹا دیا جائے گا تو پھر سزا کاہے کی ہوئی۔ دنیا میں روزانہ لوگوں کو سزا ملتی ہے پھر وہ چُھٹ جاتے میں مگر وہ سزا ہی کہلاتی ہے۔ دوزخ کی سزا تو اپنے زمانے کی وسعت میں اتنی ہے کہ اس کا خیال کر کے بھی دل کانپ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قرآن میں اَبَدکے لفظ سے ذکر کرتا ہے۔ یعنی ہمیشہ گویا اس کو یوں سمجھنا چاہیئے کہ وہ نہ ختم ہونے والی ہوگی تو کون شخص ایسا ہے جو اتنی لمبی سزا برداشت کر سکے۔ پھر اس سے زیادہ کیا سزا ہوسکتی ہے کہ ایک خدا تعالیٰ کا نافرمان اس وقت جب کہ اس کے بھائی قرب الٰہی کے میدان میں دوڑ رہے ہوں گے اور آناً فاناً روحانیت میں ترقی کر رہے ہوں گے وہ اپنی گناہ آلود روح دوزخ کی آگ میں جلا کر صاف کر رہا ہوگا کسی گھوڑ دوڑ کے سوار سے پوچھو کہ اس کو دوڑتے وقت روک لیا جائے اور بعد میں چھوڑا جائےتو اس کو کتنا صدمہ پہنچتا ہے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button