متفرق مضامین

مسلمان کی تعریف… اللہ اور رسولﷺ کیا کہتے ہیں

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

قرآن کی واضح ہدایات اور سنت رسولﷺ اور حدیث و تاریخ اسلام سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلم کہلانے کے لیے اللہ اور رسولﷺ پر ایمان کا اقرار ہی کافی ہے

عالم اسلام کے سلگتے ہوئے مسائل میں سے ایک سوال یہ ہے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ اور کون شخص مسلمان کہلانے کا مستحق ہے؟ کیونکہ اسی تعریف کے فرق کے نتیجے میں کفر کے فتاویٰ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے جو تھمنے میں نہیں آتا۔ ہر فرقہ کے نزدیک دوسرا فرقہ کافر ہے اور اگر بعض فرقے مل کر کسی کو کافر کہتے ہیں تو دوسروں کے نزدیک وہ کافر ہیں۔ اور یہی بات فسادات پنجاب پاکستان 1953ء کی تحقیقاتی عدالت نے بڑے غور و فکر کے بعد لکھی اور یہ بھی ذکر کیا کہ اگر ہم کسی کو مسلمان کہتے بھی ہیں تو دوسروں کے نزدیک ہم خود کافر ہیں۔ پس تمام مسلمان فرقوں کا اندرونی رشتہ کفر کا ہی ہے۔ اس سوال کو حل کرنے کے لیے ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں غور کرنا چاہیے۔

قرآن کس کو مسلمان کہتا ہے؟

قرآن میں رسول کریمﷺ کے لائے ہوئے دین کو اسلام کا نام دیا گیا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيْنًا۔ (المائدۃ: 4)اور اس کے مادہ (س۔ ل۔ م)سے اسم اور فعل کے متعدد صیغوں میں اس کا ذکر آیا ہے۔ قرآن کریم اللہ اور رسولﷺ کو نہ ماننے والوں کو عمومی طور پر کافر قرار دیتا ہے جن میں اہل کتاب بھی ہیں اور مشرکین بھی۔ لیکن کافر کے مقابلے پر قرآن دو اصطلاحیں استعمال کرتا ہے۔ مسلم اور مومن۔ اسلام عمومی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے یعنی فرمانبرداری اور اطاعت جیسے مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ (البقرۃ: 113)اور ان معنوں میں اپنے وقت کے تمام نبیوں اور اور ان کے سچے متبعین کو مسلمان کہا گیا ہے۔ جیسے فرمایا: هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هٰذَا(الحج: 79)اور اصطلاحی معنوں میں بھی جیسے فرمایا: إِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ(الاحزاب: 36)رسول کریمﷺ کے بعد صرف آپ کے ماننے والے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔

سورۃ الحجرات میں اسلام اور ایمان کے فرق کو خوب کھولا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک پہلو سے اسلام محض لفظی اظہار کا نام ہے اور ایمان دل کی کیفیت بیان کرتا ہے۔

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ…(الحجرات: 15)

اگلی آیت میں فرمایا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ آمَنُوا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا (الحجرات: 16)اس کے بعد جہاد کا ذکر ہے۔آیت18 میں فرمایا: يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ…(الحجرات: 18)گویا دونوں کی بنیادی اکائی ایک ہی ہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت کا زبانی اظہار اسلام ہے اور پھر یہ اسلام دلی کیفیت کے ساتھ مل کر ایمان میں تبدیل ہو جاتا ہے اس طرح پہلے مرحلے میں اسلام اور ایمان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اسلام کے سچے اقرار کے بعد ایک شخص مومن کا نام پاتا ہے۔

قرآن سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اسلام کے مقابل پر ایمان قلبی واردات کا نام ہے أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوْبِهِمُ الْإِيْمَانَ (المجادلة: 23) جو مسلسل ترقی پذیر رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں ایمان میں بڑھنے اور بڑھانے کا کم از کم 9 بار ذکر ملتا ہےمثلاً: هُوَ الَّذِيْٓ أَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْٓا إِيمَانًا مَّعَ إِيْمَانِهِمْ(الفتح:5)فَأَمَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ إِيْمَانًا(التوبة: 124)اسی طرح مومنوں کو یہ بھی کہا گیا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ(النسا٫: 137)یعنی اے مومنو۔ اللہ اور رسول پر ایمان لاؤیعنی اپنے ایمان کو بڑھاتے چلے جاؤ۔

قرآن نے جہاں رسول اللہﷺ کی عالمگیر رسالت کا ذکر کیا ہے وہاں صرف ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کا مطالبہ کیا ہے: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا… فَآمِنُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهٖ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۔ (الاعراف: 159) إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۔ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ وَتُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا۔ (الفتح:9تا10) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ(النور:63) آمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَأَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِيْنَ۔ (الحديد: 8)

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سارے قرآن میں مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا…کہہ کر 89 دفعہ خطاب کیا گیا ہے۔ نیز أَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ (النور: 32)بھی کہا ہے۔ مگر کسی جگہ بھی مسلمانوں کو خطاب نہیں کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے بہت بڑے دائرہ کے اندر ایمان کے متعدد دائرے ہیں نچلے درجہ سے اسلام شروع ہوتا ہے جس کے ساتھ ہی ایمان کی پہلی پرت کھلتی ہے اور یہی اسلام ایمان کی ساری پرتیں طے کرتے ہوئے اسلام کے آخری دائرہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَافَّةً(البقرۃ: 209)اس میں ایمان والوں کو کلی طور پر اسلام میں داخل ہونے کا حکم ہے۔ اسی لیے رسول کریمﷺ کو اوّلُ الْمُسْلِمِیْن (الانعام: 164)کہا گیا ہےیعنی آغاز میں بھی اوّل اور آخری بلند ترین درجہ میں بھی اول۔ سورت البقرۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے تمام ایمانیات کی تفصیل بھی بیان کر دی ہے آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ (البقرة: 286)اور سورۃ النسا٫ میں ان کے انکار کا نام گمراہی رکھا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَالۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَالۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا۔ (النساء: 137)

قرآن کریم کی کئی آیات نیکو کاروں کی متعدد صفات اور مدارج کا ذکر کرتی ہیں اور نیکی کا آغاز ایمان سے کرتی ہیں مثلاً: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ۔ (البقرة: 178)اس کے بعد نیک اعمال کا ذکر ہے۔ مندرجہ ذیل آیت میں بھی پہلے مسلمانوں اور پھر مومنوں کا ذکر کیا ہے اور پھر اعمال صالحہ کا۔ فرمایا: اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَالۡمُسۡلِمٰتِ وَالۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡقٰنِتِیۡنَ وَالۡقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالۡخٰشِعِیۡنَ وَالۡخٰشِعٰتِ وَالۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَالۡمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیۡنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَالۡحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّالذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّاَجۡرًا عَظِیۡمًا۔ (الاحزاب: 36)

قرآن میں مومنوں کی اور بھی بے شمار صفات بیان کی گئی ہیں اور أُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا (الانفال: 5) یعنی حقیقی مومن کہہ کر ان کے کردار کی نشان دہی کی ہے۔ پس قرآن کی روشنی میں ایک شخص محض اللہ اور رسولﷺ کو قبول کر کے اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اللہ اسے مسلمان کہلانے کا حق دیتا ہے۔ قر آن تو یہاں تک کہتا ہے کہ کوئی سلام بھی کرے تو اس کو غیر مومن نہ کہ وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا۔ (النساء: 95)

اسلام اور ایمان پرقرآن جو تسلی بخش روشنی ڈالتا ہے اس کی عملی تائید سنت رسولﷺ کرتی ہے۔

رسول کریمﷺ نے اپنے قول وفعل سے مسلمان کس کوکہا ہے؟

مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان کی جتنی بھی تعریفیں کی گئی ہیں وہ سب احادیث سے مستنبط ہیں جومختلف پس منظر رکھتی ہیں اور بعض تعریفیں نہیں صفات ہیں۔ تنبیہات ہیں۔ ان پر تعریف کا لفظ صادر نہیں آتا۔ ہمارا یہ مسئلہ سنت رسولؐ حل کر دیتی ہےرسول اللہﷺ کے دَور کی تاریخ واضح طور پر یہ بیان کرتی ہے کہ رسول اللہﷺ پر لوگ کس طرح ایمان لاتے تھے اور کیسے مسلمان ہوتے تھے۔ رسول اللہﷺ کس بات کا اقرار کراتے تھے؟کیا تلقین فرماتے تھے؟ اس لحاظ سے یہ ایک کھلی تاریخ ہے جو امت کو بہت سے جھگڑوں سے نجات دلا سکتی ہے۔

حضرت خدیجہؓ، ابو بکرؓ اور علیؓ کیسے ایمان لائے تھے؟ یاد رہے کہ اس وقت تک ابھی صرف سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہوئی تھیں اور ان میں نبی یا رسول یا قرآن یا توحید کا کوئی لفظ نہیں تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں اور دشمنوں سب کی تفہیم یہ تھی کہ آپ نبی ہیں اور توحید کے منادی ہیں پہلی وحی کے بعد ورقہ بن نوفل سے جب رسول اللہﷺ کی پہلی ملاقات ہوئی تو ورقہ نے سارے حالات سن کر کہا وَاَلَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إنَّكَ لَنَبِيُّ هٰذِهِ الْأُمَّةِ۔ (سيرة ابن هشام باب خَدِيْجَةُ بَيْنَ يَدَيْ وَرَقَةَ 1جلدصفحہ 238) اور حضرت خدیجہ نے بھی یہی کہا أَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيُّ هٰذِهِ الْأُمَّةِ۔ (السيرة النبويةؐ لابن كثيرجلد1صفحہ 408)

رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو دعوت اسلام دیتے ہوئے فرمایا: فأدعوك إلى اللّٰه وحده، وإلى عبادته، وكفر باللات والعزى۔ (سيرة ابن اسحاق، السير والمغازي صفحہ137)

حضرت محمدﷺ کو نبی ماننے کا مطلب ہی توحید کا اقرار تھا۔ اور توحید ماننے کا مطلب محمدﷺ کی نبوت کا اقرار تھا چنانچہ جن لوگوں نے اس دعویٰ کو قبول کر لیا وہ مسلم کہلائے اور انکار کرنے والے کافر۔ اور یہ تفریق نبوت کے پہلے دن سے ہو گئی۔ مسلمین اور کافر کا لفظ پہلی دفعہ سورۃ القلم(آیت 36، 52) میں آیا ہے جو نزولِ قرآن کی ترتیب سےدوسری سورت ہے۔ رسول کا لفظ پہلی دفعہ سورۃ المزمل میں آیا ہے(آیت 16)جو نزولِ قرآن کی ترتیب سےتیسری سورت ہے۔

بعد میں جوں جوں قرآن مجید نازل ہوتا گیا اور مختلف صداقتوں مثلاً فرشتوں، نبیوں الٰہی کتب وغیرہ کا اضافہ ہوتا گیا نیز اعمال صالحہ کی تفصیل بیان ہوتی گئی تو وہ ایمانیات کا حصہ بنتی رہی۔ اسی لیے قرآن نے ہمیشہ ایمان کو اعمال صالحہ سے باندھا ہے اور 50 کے قریب آیات میں اٰمَنُوۡاوَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

مگر اسلام کی بنیادی شرائط اللہ اور رسول پر ایمان ہی ہیں۔ چنانچہ حضرت بلالؓ کے تمام دکھوں کی وجہ آپ کا اَحد اَحدکہنا ہی تھا۔ کئی مکی صحابہ کو رسول اللہﷺ کی دعوت اسلام کا ذکر کرتےہوئے سیرت کی کتب میں لکھا ہے: قرأ عليهم القرآن، فأسلموا وشهدوا أنه على هدى ونور۔ (سيرة ابن اسحاق السير والمغازي صفحہ 143)

ابتدائی مسلمانوں کے بعد 6نبوی میں حضرت عمرؓ اسلام لائے جب ان کا دل اسلام کی طرف مائل ہوا تو انہوں نے اپنی مسلمان بہن اور بہنوئی سے پوچھا کہ اسلام کیسے قبول کیا جا تا ہے تو انہوں نے کہا اشهدان ألا إله إلا اللّٰه وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله اور یہی فقرات انہوں نے رسول اللہﷺ کے سامنے دہرائے۔ ( سيرة ابن اسحاق السير والمغازي صفحہ184، 183)

رسول اللہﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کو دعوت اسلام دیتے ہوئے فرمایا: أَيْ عَمِّ، قُلْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللّٰهِ۔ (صحیح البخاری کتا ب مناقب الانصار باب قصۃ ابی طالب حدیث نمبر3884)

رسول اللہﷺ کا یہی پیغام حج کے موقع پر بھی ہوتا تھا۔ ایک صحابی حضرت ربیعہ اسلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسلام لانے سے پہلے رسول اللہﷺ کو حج کے موسم میں قائم ہونے والے بازاروں میں یہ کہتے ہوئے سنا۔ أَيُّهَا النَّاسُ قُوْلُوْا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ تُفْلِحُوْا۔ اور آپ کے پیچھے ابو لہب تھا جو کہتا تھا لوگو اس کی بات نہ سنو۔ (مسند احمدجلد 25صفحہ 405 حدیث نمبر 16023)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’يَا خَالِ قُلْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ …..قَالَ: فَخَيْرٌ لِيْ أَنْ أَقُوْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نعم۔ (السيرة النبويةؐ لابن كثيرجلد 2صفحہ 189)

حضرت ثمامہ بن اثالؓ نے جب اسلام قبو ل کیا تو کہا فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفہ حدیث نمبر 4372)

حضرت جریرؓ کہتےہیں کہ میں نے ان باتوں پر بیعت کی بَايَعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ، اس کے بعد نماز۔ زکوٰۃ اور اطاعت…۔

نبوت کے 11 ویں سال مدینہ کے 12آدمیوں نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی۔ اس واقعہ کوبیعت عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے جن الفاظ میں رسول اللہﷺ نے بیعت لی وہ صحابہ کے الفاظ میں محفوظ ہیں: بَايِعُوْنِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوْا، وَلَا تَزْنُوْا، وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَكُمْ وَلَاتَأْتُوْا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُوْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيْكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُوْا فِي مَعْرُوفٍ۔ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب علامۃ الایمان حدیث نمبر 18)

یہ الفاظ قرآن کی سورۃ الممتحنہ میں ہیں جوبعد میں مدینہ میں نازل ہوئی: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّلَا یَسۡرِقۡنَ وَلَا یَزۡنِیۡنَ وَلَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَلَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَاَرۡجُلِہِنَّ وَلَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ…۔ (الممتحنۃ: 13)شایدیہ الفاظ وحی خفی کے طور پر پہلے نازل ہو چکے تھے۔ اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی اقرار توحید و رسالت کا ہے اس کے بعد اعمال صالحہ کا ذکر ہے

اس آیت سے 2آیات پہلے مومنات مہاجرات کے امتحان کا بھی ذکر ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ  فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ ؕاَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ…۔(الممتحنۃ: 11)

یہ امتحان کیسے لیا جاتا تھا حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں كان امتحانهنّ أن يشهدن أن لا إله إلا اللّٰه وأن محمدًا عبده ورسوله۔ (تفسیر طبری جلد 23صفحہ 328)

یاد رہے کہ قرآن مجید میں کلمہ طیبہ کا اکٹھا ذکر نہیں ہے لاالٰہ الااللّٰہ الگ ہے اور محمد رسول اللّٰہ الگ۔ مگر مسلمان ہونے کے لیے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کا اقرار کراتےتھے کہیں صرف یہ کلمہ طیبہ ہے اور کہیں اس کے ساتھ اشھدکے الفاظ ہیں یعنی میں گواہی دیتا ہوں۔ مضمون ایک ہی ہے۔ غالباً وحی خفی سے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائے ہیں۔ اور اس سے بہتر کلمات ہو بھی نہیں سکتے۔

ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالإِسْلاِمِ مِنَ النَّاسِ فَكَتَبْنَا لَهُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةِ رَجُلٍ۔ ( صحيح البخاري کتاب الجہاد باب کتابۃ الامام الناس حدیث نمبر 3060)

کچھ علما ءکا خیال ہےکہ یہ واقعہ جنگ احد کا ہے اور بعض کے خیال میں حدیبیہ کا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری)اس سے واضح ہے کہ جو اپنے آپ کو منہ سے مسلمان کہتا ہے وہ ہمارے نزدیک مسلمان ہے۔

ایک صحابیؓ نے جنگ میں ایک ایسے دشمن کو قتل کر دیا جس نے موت کے خوف سے لاالہ الااللّٰہ کہہ دیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن خدا کو کیا جواب دو گے۔ ( صحيح البخاري کتاب المغازی باب بعث النبیؐ اسامۃحدیث نمبر 4269)

ایک اور صحابیؓ نے پوچھا کہ اگر جنگ میں دشمن میرا ہاتھ کاٹ دے اور پھر میرے وار سے بچنے کے لیے دشمن اسلمت للّٰہ کہہ دےکیا مَیں اسے قتل کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام لانے کے بعد وہ مسلمان ہو کر مرے گا اور تو کافر ہو جائے گا۔ لَا تَقْتُلْهُ، فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَّقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِيْ قَالَ۔ (صحيح البخاري کتاب المغازی غزوہ بدرحدیث نمبر 4019)

حضرت سعد بن معاذؓ مدینہ میں اسلام لائے تو اپنے قبیلے سے کہا کہ جب تک تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان نہیں لاتے تم سے بات کرنا میرے لیے حرام ہے۔ ان کی پارسائی کا اتنا اثر تھا کہ اسی روز ان کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ (سیرت ابن کثیر جلد 2صفحہ184)

مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن سلامؓ حاضر ہوئے اور کہا أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللّٰهِ حَقًّا۔ (عيون الاثر جلد1صفحہ 238)

رسول اللہﷺ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا: ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللّٰهِ۔ (صحیح البخاری کتاب الزکوۃ باب وجوب الزکوٰۃ حدیث نمبر 1395)

فتح مکہ کے موقع پر ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے وہ بھی صرف توحید ورسالت کے اقرار سے ہوئے تھے۔

الغرض قرآن کی واضح ہدایات اور سنت رسولﷺ اور حدیث و تاریخ اسلام سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلم کہلانے کے لیے اللہ اور رسولﷺ پر ایمان کا اقرار ہی کافی ہے باقی سب ایمان کے درجات اور مراتب ہیں۔ جس قدر کوئی اعمال صالحہ میں ترقی کرے گا وہ ایمان میں بڑھتاچلا جائے گا اور کسی عمل کی کمی کی وجہ سے اسے کمزور ایمان تو کہا جا سکتا ہے اسے غیر مسلم یا کافر نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کا کوئی ایسا قول یا عمل جس کے ذریعہ وہ اپنے اسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہو اسے بھی قبول کیا جائے گا جیسے سلام کرنے کا ذکر گزر چکا ہے۔

ایک جنگ میں دشمنوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اَسْلَمْنَا کی بجائے صَبَأْنَا صَبَأْنَا کے الفاظ کہہ دیے مگر حضرت خالدؓ نے ان کی بدنیتی پر محمول کر کے لڑائی جاری رکھی تو رسول اللہﷺ نے ان پر ناراضگی فرمائی۔ (صحيح البخاري کتاب المغازی غزوہ بعث النبیؐ خالد حدیث نمبر 4339)

جنگ کے دوران اگر کہیں سے اذان کی آواز آتی تورسول اللہؐ اس قوم پر حملہ نہ کرتے فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا كَفَّ عَنْهُمْ، وَإِنْ لَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَيْهِمْ۔ (صحيح البخاري کتاب الاذان باب ما یحقن بالاذان من الدما٫ حدیث نمبر 610)اذان بھی توحید ورسالت پر ہی مشتمل ہے۔

رسول کریمﷺ نے متعدد جگہوں پر اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کے حقوق و فرائض کا ذکر کیا ہے۔ ان کی مختلف صفات بیان فرمائی ہیں: بُنِيَ الْإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔ ( صحيح البخاري کتاب الایمان باب بنی الاسلام علی خمس حدیث نمبر 8)

ظاہر ہے کلمہ طیبہ کے بعد نیک اعمال کا ذکر ہے مشہورحدیث جبریل کے مطابق حضرت جبریل نے رسول کریمﷺ سے پوچھا: مَا الْإِسْلاَمُ؟ قَالَ: اَلْإِسْلاَمُ: أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ، وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا۔ اس کے بعد نماز، روزہ اور زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب سوال جبریل حدیث نمبر 50)

اسی طرح فرمایا: مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيْحَتَنَا فَذٰلِكَ المُسْلِمُ الَّذِيْ لَهُ ذِمَّةُ اللّٰهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللّٰهَ فِي ذِمَّتِهِ۔ ( صحيح البخاري کتاب الصلوۃ باب فضل استقبال القبلۃ باب حدیث نمبر391)

یہ سب مسلمان کی مختلف علامات ہیں۔ ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔ المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ۔ ( صحيح البخاري کتاب الایمان باب بنی الاسلام علی خمس حدیث نمبر 10)

پوچھاگیا أَيُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟فَقَالَ:إِيمَانٌ بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ۔ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب الایمان ھو العمل حدیث نمبر 26)

اسی طرح رسول کریمﷺ نے بعض ایسی ناپسندیدہ باتوں کا بھی ذکرکیا جن کے حاملین سے آپ نے لا تعلقی کا اظہار فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا۔

(مسند الدارمی کتاب البیوع باب فی النھی عن الغش حدیث نمبر2583 )

سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ۔ (صحيح البخاري کتاب الایمان باب خوف المؤمن حدیث نمبر 48)مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ متعمدًافَقَدْ كفر( صحيح ابن حبان جلد 4صفحہ 323) مگر کبھی بھی رسول اللہﷺ نے ان کو عالم اسلام سے باہر قرار نہیں دیااور امت مسلمہ کا تعامل بھی یہی ہے کسی فرقہ نے اپنے بے نمازی یا دھوکا باز کو باہر نہیں نکالا۔ اس کی مثال بہت آسان ہے کسی بھی ادارے مثلاً یونیورسٹی میں طالب علم بنیادی شرائط پوری کر کے داخل ہوتا ہے۔ داخلے کے بعد تعلیم بنیادی فرض ہے لیکن اس کے علاوہ بھی طالب علم سے بہت سی توقعات ہوتی ہیں۔ اچھے کردار کا مظاہرہ کرے ڈسپلن کی پابندی کرے کھیلوں اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل ہو۔ نیک نامی کا موجب ہو۔ ان سب کو فرائض، واجبات، مستحبات اور نوافل میں شمار کیا جا سکتا ہے وہ اعلیٰ اور ادنی طالب علم ہو سکتا ہے مگر وہ اس ادارہ کا ممبر ضرور ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ عالم اسلام اختلافات کی جنگ میں الجھنے کی بجائے قدر واحد پر اکٹھا ہو۔ مسلمان ہونے کے لیے رسو ل اللہﷺ صرف اللہ اور رسول پر ایمان لانے کی تلقین کرتے تھے۔سارے صحابہ اسی طرح مسلمان ہوئے تھے تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے۔ کسی کودین میں اضافہ کی کیا ضرورت ہے یا کیاحق ہے؟ اگر اس بات پرسب فرقے اکٹھے ہو جائیں کہ جو اللہ اور رسولﷺ پر ایمان لاتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے اس کے بعد اس کا اور خدا کا معاملہ ہےتو کتنے ہی مسلمان گویا نئے سرے سے اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور عالم اسلام کتنی بڑی طاقت بن کر ابھرے گا۔ مگرآخری اور بڑا سوال یہ ہےکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ واقعی آسان نہیں۔ مذہب کو اصلی اور سچی بنیادوں پر قائم کرنا، ٹوٹے دلوں کو جوڑنا اور باہمی دشمنیوں کو ختم کرنا کسی عالم، فلاسفراور دانشور کا کام نہیں۔ سنت اللہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام صرف اور صرف خدا کے مامور ہی کر سکتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button