حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عصر حاضر میں ہمیں اسلامی تعلیمات کو اپنائے رکھنے کی ضرورت ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ جنوری 2017ء)

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دین اور مذہب ان کی آزادی کو سلب کرتا ہے اور ان پر پابندیاں لگاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ۔(الحج: 79) یعنی دین کی تعلیم میں تم پر کوئی بھی تنگی کا پہلو نہیں ڈالا گیا بلکہ شریعت کی غرض تو انسان کے بوجھوں کو کم کرنا اور صرف یہی نہیں بلکہ اسے ہر قسم کے مصائب اور خطرات سے بچانا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ دین یعنی دین اسلام جو تمہارے لئے نازل کیا گیا ہے اس میں کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو تمہیں مشکل میں ڈالے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لے کر بڑے سے بڑے حکم تک ہر حکم رحمت اور برکت کا باعث ہے۔ پس انسان کی سوچ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام غلط نہیں ہو سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہو کر ہم اس کے حکموں پر نہیں چلیں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔ اگر انسان عقل نہیں کرے گا تو شیطان جس نے روز اول سے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں انسانوں کو گمراہ کر کے نقصان پہنچاؤں گا وہ انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرائے گا۔ پس اگر اس کے حملے سے بچنا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننا ضروری ہے۔ بعض باتیں بظاہر چھوٹی لگتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کو معمولی سمجھنے کی وجہ سے ان کے نتائج انتہائی بھیانک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پس ایک مومن کو کبھی بھی کسی بھی حکم کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔

آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی اکثریت دین سے دور ہٹ گئی ہے اس لئے ان کے برائی اور اچھائی کے معیار بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ مثلاً اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی اور فیشن کے نام پر عورتوں مردوں میں ننگ عام ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ کھلے عام بے حیائی کی جائے۔ حیا نام کی کوئی چیز نہیں رہی اور ظاہر ہے اس کا اثر پھر ہمارے بچوں اور بچیوں پر بھی ہو گا جو یہاں رہتے ہیں اور کچھ حد تک ہو بھی رہا ہے۔

بعض بچیاں جب جوانی میں قدم رکھنے لگتی ہیں تو مجھے لکھتی ہیں کہ اسلام میں پردہ کیوں ضروری ہے؟ کیوں ہم تنگ جین اور بلاؤز پہن کر بغیر برقع کے یا کوٹ کے گھر سے باہر نہیں جا سکتیں؟ کیوں ہم یہاں یورپ کی آزاد لڑکیوں جیسا لباس نہیں پہن سکتیں؟

پہلی بات تو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ہم نے دین پر قائم رہنا ہے تو پھر ہمیں دینی تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا۔ اگر ہم نے یہ اعلان کرنا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور دین پر قائم ہیں تو پھر پابندی بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر، ان کے حکموں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔

اسلام مخالف قوتیں بڑی شدت سے زور لگا رہی ہیں کہ مذہبی تعلیمات اور روایات کو مسلمانوں کے اندر سے ختم کیا جائے۔ یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مذہب کو آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ ضمیر کے نام پر ایسے طریقے سے ختم کیا جائے کہ ان پر کوئی الزام نہ آئے کہ دیکھو ہم زبردستی مذہب کو ختم کر رہے ہیں اور یہ ہمدرد سمجھے جائیں۔ شیطان کی طرح میٹھے انداز میں مذہب پر حملے ہوں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے سپرد ہے اور اس کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی پڑے گی اور تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں گی۔ ہم نے لڑائی نہیں کرنی لیکن حکمت سے ان لوگوں سے معاملہ بھی کرنا ہے۔ اگر آج ہم ان کی ایک بات مانیں گے جس کا تعلق ہماری مذہبی تعلیم سے ہے تو پھر آہستہ آہستہ ہماری بہت سی باتوں پر، بہت ساری تعلیمات پر پابندیاں لگتی چلی جائیں گی۔ ہمیں دعاؤں پر بھی زور دینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان شیطانی چالوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق بھی دے اور ہماری مدد بھی فرمائے۔…

ہم احمدیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھناچاہئے کہ یہ زمانہ بہت خطرناک زمانہ ہے۔ شیطان ہر طرف سے پُرزور حملے کر رہا ہے۔ اگر مسلمانوں اور خاص طور پر احمدی مسلمانوں، مَردوں اور عورتوں، نوجوانوں سب نے مذہبی اقدار کو قائم رکھنے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہم دوسروں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہوں گے کہ ہم نے حق کو سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا اور ہم نے پھر بھی عمل نہ کیا۔ پس اگر ہم نے اپنے آپ کو ختم ہونے سے بچانا ہے تو پھر ہر اسلامی تعلیم کے ساتھ پُراعتماد ہو کر دنیا میں رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ترقی یافتہ ملکوں کی یہ ترقی ہماری ترقی اور زندگی کی ضمانت ہے اور اس کے ساتھ چلنے میں ہی ہماری بقا ہے۔ ان ترقی یافتہ قوموں کی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اب جو ان کی اخلاقی حالت ہے اخلاق باختہ حرکتیں ہیں۔ یہ چیزیں انہیں زوال کی طرف لے جا رہی ہیں اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو یہ آوازیں دے رہے ہیں اور اپنی تباہی کو بلا رہے ہیں۔ پس ایسے میں انسانی ہمدردی کے تحت ہم نے ہی ان کو صحیح راستہ دکھا کر بچانے کی کوشش کرنی ہے بجائے اس کے کہ ان کے رنگ میں رنگین ہو جائیں۔ اگر ان لوگوں کی اصلاح نہ ہوئی جو ان کے تکبر اور دین سے دوری کی وجہ سے بظاہر بہت مشکل نظر آتی ہے تو پھر آئندہ دنیا کی ترقی میں وہ قومیں اپنا کردار ادا کریں گی جو اخلاقی اور مذہبی قدروں کو قائم رکھنے والی ہوں گی۔

پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں خاص طور پر نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا سے متأثر ہو کر اس کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ پردہ اور لباس کے حوالے سے مَیں نے بات شروع کی تھی اس حوالے سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں اور افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کیا اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے صرف پردہ ہی ضروری چیز ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ تعلیم اب فرسودہ ہو چکی ہے اور اگر ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو ان باتوں کو چھوڑنا ہو گا (نعوذباللہ)۔ لیکن ایسے لوگوں پر واضح ہو کہ اگر دنیا داروں کے پیچھے چلتے رہے اور ان کی طرح زندگی گزارتے رہے تو پھر دنیا کے مقابلے کی بجائے خود دنیا میں ڈوب جائیں گے۔ نمازیں بھی آہستہ آہستہ ظاہری حالت میں ہی رہ جائیں گی یا اور کوئی نیکیاں ہیں یا دین پر عمل ہیں تو وہ بھی ظاہری شکل میں رہ جائے گا اور پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہو جائے گی۔

پس اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ اسلام کی ترقی کے لئے ہر وہ چیز ضروری ہے جس کا خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ پردہ کی سختیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں۔ اسلام کی پابندیاں صرف عورتوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ مَردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے مَردوں کو حیا اور پردے کا طریق بتایا تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ۔(النور:31)مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقینا اللہ جو وہ کرتے ہیں اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پہلے کہا کہ غضّ بصر سے کام لو۔ کیوں؟ اس لئے کہ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ کیونکہ یہ بات پاکیزگی کے لئے ضروری ہے۔ اگر پاکیزگی نہیں تو خدا نہیں ملتا۔ پس عورتوں کے پردہ سے پہلے مَردوں کو کہہ دیا کہ ہر ایسی چیز سے بچو جس سے تمہارے جذبات بھڑک سکتے ہوں۔ عورتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا، ان میں مِکس اَپ ہونا، گندی فلمیں دیکھنا، نامحرموں سے فیس بُک پر یا کسی اور ذریعہ سے چَیٹ وغیرہ کرنا، یہ چیزیں پاکیزہ نہیں رہتیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں کئی جگہ بڑی کھل کر نصیحت فرمائی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button