الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 30؍اگست 2013ء میں مکرم ریاض احمد ملک صاحب امیر ضلع چکوال کے قلم سے محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے ساتھ ایک یادگار ملاقات کا ذکرشامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ چکوال کی تاریخ لکھنے کا کام میرے سپرد ہوا تو راہنمائی کے لیے محترم مولانا صاحب کے دفتر میں حاضر ہوا۔ آپ کتابوں کے ڈھیر میں بیٹھے لکھنے میں مصروف تھے لیکن نہایت انہماک سے مجھے خوش آمدید کہا۔ میری حاضری کا مقصد جان کر بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ تاریخ لکھنا بہت زیادہ تحقیق کا کام ہے، جگہ جگہ جاکر کتابوں کو کھنگالنا پڑے گا اور حوالہ جات اکٹھے کرنے پڑیں گے۔ پھر میرے مصمّم ارادے کو دیکھتے ہوئے آپ نے پنسل کاغذ دے کر زبانی ضلع چکوال کے حوالہ جات لکھوانے شروع کردیے اور تقریباً پچیس منٹ تک لگاتار حوالہ جات لکھواتے رہے۔ مجھے احساس ہوا کہ آپ واقعی ’’تاریخ احمدیت‘‘ کے انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ ضلع چکوال کے مختلف دیہات میں رہنے والے صحابہ کے نہ صرف نام آپ کو یاد تھے بلکہ مختلف کتب کے نام اور اخبارات کی تاریخ اور صفحہ نمبر تک لکھوادیا۔ آپ نے پہلے امیر جماعت احمدیہ دوالمیال کے بارے میں پوری تفصیل بیان کی اور ایسے گاؤں کے نام بتائے جنہیں اُس وقت بھی مَیں نہیں جانتا تھا۔ پھر بتایا کہ کس طرح نوٹس بنانے ہیں اور پھر دعا کے ساتھ نہایت گرمجوشی سے یہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ جب بھی ضرورت پڑے اُن کے پاس آجاؤں۔ چنانچہ بعد میں بھی کئی ملاقاتیں اور خط و کتابت آپ سے جاری رہی۔ محترم مولانا صاحب کی اس راہنمائی کی بدولت 763 صفحات پر مشتمل ضلع چکوال کی تاریخ شائع ہوئی جس میں قریباً ایک سو صحابہ کرام اور دیگر بزرگان کے حالات اور تصاویر شامل تھے۔

………٭………٭………٭………

محترم حاجی محمد عیسیٰ صاحب کھرل

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ4؍ستمبر2013ء میں محترم حاجی محمد عیسیٰ صاحب کھرل کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم محمد یوسف صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مکرم شہابل خان صاحب کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے تیسرے نمبر پر مکرم حاجی محمد عیسیٰ صاحب تھے۔ آپ نے رواج کے مطابق عام تعلیم حاصل نہیں کی لیکن قرآن کریم پڑھ لیا۔ اپنے حالات کے مطابق زمیندارہ کرتے۔ کالیہ میں 45 مرلے کی وسیع و عریض حویلی بنائی۔ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی قرآن کریم پڑھایا اور کچھ سورتیں بھی یاد کروائیں۔ جوانی میں خود بھی حج کیا اور ایک بہن نے بھی حج کیا تو یہ حاجیوں کا گھرانہ مشہور ہوگیا۔ دونوں بھائی اپنی زمین کے ساتھ بنے ہوئے کنویں پر نمازیں ادا کرتے۔ ایک روز موضع آنبہ کے پرائمری سکول کے احمدی ماسٹر پیر لال شاہ صاحب نے آپ کے کنویں پر آکر نہایت محبت سے تبلیغ کی تو آپ پر شاہ صاحب کی محبت کا اتنا اثر ہوا کہ اُن کے ساتھ مسلسل تین سال جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کے لیے جاتے رہے اور آخر 1935ء میں بیعت کرلی۔ پھر خود بھی تحریک جدید کے مالی جہاد میں شامل ہوئے اور اپنے گھرانے کے دیگر افراد کو بھی شامل کیا۔ چاروں افراد کے نام پانچ ہزاری فہرست میں درج ہیں۔ سارے گھر والوں کی وصیت بھی کروائی۔ زکوٰۃ اور چندے باقاعدگی سے حساب کرکے دیتے۔ آپ کی شادی کے کچھ عرصے بعد بیٹی کی پیدائش ہوئی لیکن آپ کی بیوی کی وفات ہوگئی تو پھر آپ نے دوسری شادی کرلی۔ بڑے بھائی اور بھابھی بھی جوانی میں ہی ایک بیٹا چھوڑ کر وفات پاگئے تو اُس یتیم بچے کو بھی آپ نے پالا۔

نماز تہجد کے عادی تھے۔ تبلیغی پروگراموں میں شوق سے جایا کرتے اور اپنے گھر پر بھی ایسے پروگرام رکھتے۔ وقف عارضی بھی کرتے رہتے۔ گھر میں نمازوں کا جائزہ لیتے اور کہتے کہ بےنماز کا ہمارے گھر میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ کہا کرتے کہ یتیم وہ نہیں جس کے ماں باپ فوت ہوگئے ہوں بلکہ یتیم وہ ہے جس کی تربیت نہ ہوئی ہو۔

خدمت خلق شوق سے کرتے۔ ایک گھوڑی بھی رکھی جسے ضرورت مند مانگ کر لے جاتے۔ احمدی ہوئے تو خاندان میں ہونے والی شادی کی پہلی تقریب میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ مَیں احمدی ہوگیا ہوں، آج کے بعد میرا آپ کی رسومات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مَیں نے کسی سے قرض لینا تھا تو مَیں نے چھوڑ دیا اور کسی نے اگر مجھ سے قرضہ لینا ہے تو حساب کرلے۔ پھر آپ نے اپنے گاؤں میں نماز کے لیے ایک مکان خرید کر اُسے مسجد کے طور پر وقف کردیا۔ اُس کے ساتھ چھ کنال کا رقبہ برادری کے عام استعمال اور بچوں کے کھیلنے کے لیے وقف کیا۔

آپ نے محسوس کیا کہ اولاد اگر زمیندارہ میں پھنس گئی تو عبادت، آرام اور ترقیات حاصل نہ کرسکے گی۔ چنانچہ آپ نے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ذمہ داری اٹھائی اور جلد ہی قادیان میں مکان بناکر اولاد کو وہاں پڑھنے بھیج دیا۔ تقسیم ہند کے بعد ربوہ کی بنیاد رکھی گئی تو آغاز میں ہی آپ نے یہاں بھی پلاٹ خریدا اور مکان بناکر بچوں کو یہاں بھیج دیا۔

1975ء میں آپ کے چھوٹے بھائی کی وفات ہوگئی تو آپ اداس ہوگئے اور اپنے گاؤں سے اپنے بیٹے کے پاس شرقپور ڈیرہ چلے گئے۔ وہیں 6؍دسمبر 1981ء کو 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔

………٭………٭………٭………

محترمہ ناصرہ طاہرہ صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍ستمبر2013ء میں مکرم منور احمد تنویر صاحب کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ ناصرہ طاہرہ صاحبہ اہلیہ مکرم چودھری بشیر احمد صاحب مرحوم (ریٹائرڈ ریلوے انسپکٹر) کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

محترمہ ناصرہ طاہرہ صاحبہ کی پیدائش مکرم پیر شیرعالم صاحب ریٹائرڈ ہیڈماسٹر کے ہاں 28؍مئی 1928ء کو گولیکی ضلع گجرات میں ہوئی۔ گھریلو ماحول علمی اور مذہبی تھا۔ آپ نے آٹھویں تک تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ آپ کے ایک بھائی مکرم پیر سلطان عالم صاحب نے سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر زندگی وقف کردی تھی۔ تقسیم ہند کے وقت وہ حفاظت مرکز کرتے ہوئے قادیان میں شہید ہوگئے۔ دوسرے بھائی مکرم پیر محمد عالم صاحب کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں قریباً انیس برس خدمت کی توفیق ملی۔

1946ء میں شادی کے بعد مکرمہ ناصرہ طاہرہ صاحبہ اپنے شوہر کے ہمراہ مختلف مقامات پر مقیم رہیں۔ نہ صرف اپنے شوہر کا بہت احترام کرتیں بلکہ کثرت سے آنے والے سرکاری مہمانوں کے لیے بھی لکڑی کی آگ پر بہت مشقّت سے کھانا تیار کرتیں۔ اگرچہ سرکاری ملازم بھی کام کے لیے میسّر تھے لیکن اپنے گھر کے کاموں کے لیے کسی کو تکلیف نہ دیتیں۔ بچوں کو نصیحت کرتیں کہ ملازم بھی ہماری طرح کے ہی انسان ہیں اس لیے ہمیشہ ادب کے دائرے میں رہنا اور کسی کی عزت نفس مجروح نہ کرنا۔ آپ کے شوہر کو زندگی کے آخری چند سال سانس کی تکلیف کی وجہ سے کھانا نگلنے میں مشکل پیش آتی تھی تو آپ اُن کے لیے خاص طور پر روٹی اور سالن تیار کرتیں۔ 1987ء میں آپ کے شوہر کی وفات ہوگئی۔

آپ کے ہاںدو بیٹے اور ایک بیٹی پیداہوئے۔ بچوں کو قرآن کریم پڑھایا اور نماز کی بروقت ادائیگی کی طرف توجہ دلاتی رہتیں۔ دینی کتب کے مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ ماہ رمضان میں قرآن کریم کے کئی دَور مکمل کرتیں۔ رمضان کے علاوہ شوال کے روزے بھی باقاعدگی سے رکھتیں۔ اپنے شوہر کی ریٹائرمنٹ کے بعد 1972ء میں آپ ربوہ آبسیں۔ ربوہ میں اپنا مکان 1965ء میں ہی تعمیر کروالیا تھا۔

7؍جنوری 2013ء کو آپ کی وفات ربوہ میں ہوئی اور مرحومہ کی خواہش کے مطابق تدفین اُن کے گاؤں گولیکی کے آبائی قبرستان میں کی گئی۔

………٭………٭………٭………

ڈپریشن

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ6؍ستمبر2013ء میں مکرم یاسر حیات صاحب کے قلم سے ڈپریشن کی علامات، وجوہات اور علاج سے متعلق ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔

ڈپریشن ایک کیفیت کا نام ہے جو عموماً ناامیدی اور پریشانیوں کے تسلسل سے جنم لیتی ہے۔ جب کوئی شخص حقیقی اور غیرحقیقی واقعات اور خیالات میں تفریق نہ کرپائے تو یہ ایک مرض کی صورت اختیار کرلیتا ہے جسے سائنسی زبان میں کلینیکل ڈپریشن کہتے ہیں۔

ڈپریشن کی علامات میں ہروقت نقاہت اور کمزوری کا احساس۔ خصوصاً صبح اٹھنے کے بعد سستی، کاہلی اور بےچینی۔ دوستوں عزیزوں سے لاتعلقی، تنہا رہنے کی عادت۔ کسی کام پر بھرپور توجہ نہ دے پانا اور روزمرّہ امورزندگی میں عدم دلچسپی، قوّت فیصلہ میں نمایاں کمی۔ عدم برداشت۔ بےخوابی یا نیند کا غلبہ جس پر کنٹرول نہ رہ سکے۔ وزن میں نمایاں کمی یا زیادتی۔ بھوک کا بڑھنا اور کم ہونا۔

زیادہ تر اٹھارہ سے تیس سال کے نوجوان خصوصاً منشیات استعمال کرنے والے اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ خواتین کے متاثر ہونے کے امکانات مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ دنیا میں ہونے والی خودکشیوں میں تقریباً نصف ڈپریشن کے مریض ہوتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کے مطابق ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ انسان کا اپنے ماضی پر پچھتاوا اور ہر ناکامی کے لیے خود کو کوسنا ہے۔ نتیجۃًانسان ہر واقعہ اور بات کو منفی رنگ میں دیکھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ہرکوئی اس کا نقصان کرنے کے درپے ہے۔ بچپن کی تکلیف دہ یادیں یا ذہنی اور جسمانی تشدّد بھی جوانی میں ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں۔

ماہرین حیاتیات کے مطابق یہ ایک موروثی مرض بھی ہے جو والدین سے اولاد میں منتقل ہوسکتا ہے۔

ڈپریشن کا بہترین علاج صلاح و مشورہ اور ترغیب دلانا ہے۔ یعنی متاثرہ فرد سے بات چیت کرکے اُسے اپنائیت کا احساس دلاکر اُس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مریض سے اُس کے خیالات پوچھے جائیں اور اُس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بہتر مستقبل کی امید دلانے سے یقینی اور واضح فرق پڑتا ہے اور مریض کا خود پر اعتماد بڑھتا ہے۔

بعض اوقات ادویات کا استعمال بھی ناگزیر ہوتا ہے جو خیالات کو قابو کرکے مریض کو غیرحقیقی سے حقیقی زندگی میں لانے کا کام دیتی ہیں۔

کھیل یا ورزش میں شرکت سے اس مرض میں کمی ہوتی ہے۔ نماز کی باقاعدگی اور ذکرالٰہی کی عادت (تعلق باللہ) سے ڈپریشن کے مرض کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button