تعارف کتاب

خلافت حقہ (مصنفہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ) (قسط نمبر19)

(اواب سعد حیات)

یہ کتاب اپنے دلائل، زبان، بیان، ترتیب اور مثالوں کے پیش کرنے میں نہایت اعلیٰ درجہ پر تیار کی گئی ہے اور خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے روگردانی کرنے والوں کی جہاں علمی وعقلی گرفت کررہی ہے وہاں ایسے لوگوں کی دیانت کا حال بھی کھول رہی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اور اس میں پیش کردہ دلائل سے استفادہ آج قریبا ًایک صدی گزرجانے پر بھی مفید ہے

حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ وہ پاک وجود تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’غضنفر‘‘کا لقب عطا فرمایا تھا۔ آپؓ حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میں سے تھے۔ 1855ء میں پیدا ہوئے۔ تحصیل علم کی خاطر 13 سال کی عمر میں اپنے وطن سے عازم سفر ہوئے۔ 1897ء کے آغاز میں قبول احمدیت کی سعادت پائی اور 1901ء میں مستقل قادیان میں آبسے جہاں 46سال تک نہایت جلیل القدر خدمات کی توفیق پائی۔

حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقعہ پر حضرت شاہ صاحبؓ سے فرمایا کہ میں خداداد فراست سے آپؓ میں رشد و ہدایت پاتا ہوں۔ حضورؑ نے آپؓ کو مختلف مواقع پر جماعت کا نمائندہ بنا کر بھیجا، آپؓ کی اقتدا میں نماز ادا فرمائی، آپؓ کی تفسیر قرآن کو شرفِ سند بخشا اور اس کی خاص طور پر اشاعت کا اہتمام بھی کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ کئی سفروں میں رفاقت بھی آپؓ کو نصیب ہوئی۔

1907ء میں آپؓ کی وقف کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا: ’’آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں ‘‘۔

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ (امّ طاہر) اور حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ سے نکاح کے اعلانات بھی آپؓ نے ہی فرمائے۔ اسی طرح جلسہ سالانہ اور دیگر جلسوں میں سینکڑوں تقاریر کرنے کی بھی توفیق پائی اور تربیت اور تبلیغ کے لیے متعدد سفر بھی اختیار فرمائے۔

آپؓ نے ناظر تعلیم و تربیت، پرنسپل جامعہ احمدیہ، مفتی سلسلہ، امیر مقامی اور سیکرٹری بہشتی مقبرہ سمیت بہت سے عہدوں پر کام کیا۔ 3؍جون 1947ء کو آپؓ کی وفات پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، نعش کو کندھا دیا اور قبر پر مٹی ڈالی۔ 6؍جون 1947ء کے خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ کی خدمات اور کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر مجھے کسی کی محنت پر رشک آتا ہے تو وہ مولوی صاحب تھے…۔ ‘‘(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مضمون شائع شدہ روزنامہ الفضل 30؍مئی 1995ء )

حضرت سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کو جہاں خداتعالیٰ کے پاک مرسل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو پہچاننے اور ان کی مقبول خدمت کرنے کی سعادت ملی وہاں آپؓ قدر ت ثانیہ سے بھی کماحقہ چمٹے رہےاوراپنے آخری دم تک علمی، عملی اور قلمی طور پر خلافت کے سلطان نصیر بنے اور قابل رشک مقام پایا۔ آپؓ کو دو خلفائے احمدیت کا مقدس زمانہ نصیب ہوا۔ خلافت اولیٰ کے دَور میں بھی آپؓ کو متعدد نمازیں پڑھانے اور خطبات دینے کی سعادت عطا ہوئی اور مجلس نصاب مدرسہ احمدیہ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ آپؓ کی قرآن کریم کی تفسیر حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے عہد کے دوران جماعتی رسائل میں شائع ہوتی رہی۔

دَور خلافت ثانیہ میں آپؓ کی خدما ت کا سلسلہ بہت وسیع ہے، جیسا کہ اوپر اشارہ ذکر ہوچکا، آپ کی علمی خدمات میں سے ایک آپ کی زیر نظر تصنیف ’’خلافت حقہ ‘‘ ہے جو دسمبر 1939ء کو جوبلی کے موقع پر سامنے آئی۔ اس رسالہ کا پس منظر بتاتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ’’ یہ رسالہ میں نے جناب شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری کے ان ابتدائی دو اشتہاروں پر لکھا تھا جن میں سے ایک کا عنوان تھا: ’’کیا تمام خلیفے خدا ہی بناتا ہے۔ خداتعالیٰ کے حکم اور عدل کا فیصلہ‘‘ اور دوسرے کا عنوان تھا: ’’عزل خلفاء‘‘ اور اس کے اخیر پر تاریخ اشاعت 21؍دسمبر1937ء لکھی ہوئی تھی۔ ‘‘

کاتب کی لکھائی میں ایک صد سے زائد صفحات کے اس رسالہ کے شروع میں درج ’’عرض حال‘‘ کے مطالعہ سے مزید پتہ چلتا ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ کا یہ رسالہ جنوری 1938ء میں ہی لکھا گیا۔ اور فروری 1938ء کے پہلے عشرہ میں طبع ہوگیاتھا۔ لیکن بوجوہ اس کی اشاعت عام دسمبر 1939ءتک مؤخر رہی۔

ان معلومات سے ابھرتا ہے کہ جیسے ہی خلافت کے مقام کو نہ پہچاننے والےایک شخص نے اپنی نفسانی اغراض سے مغلوب ہوکر ایک اشتہار لکھ کر مومنین کی جماعت میں خلافت کے متعلق باریک درباریک وسوسے پیدا کرنے شروع کیے تو یہ شیرِ خدا فورا ًمیدان میں اترے اور بالکل مختصر سے وقت میں ایک مبسوط مقالہ تحریر کر دیا تااس سے استفادہ کرکے سعید روحوں کی حفاظت کا سامان ہو۔

خلافت حقہ کے موضوع پر اس کتاب کی تیاری کے مراحل کا مزید ذکر یوں کرتے ہیں کہ

’’ شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری کے دونوں اشتہار ’’کیا تمام خلیفے خداہی بناتا ہے؟ اور عزل خلفاء‘‘ راستہ میں کسی نے مجھے دیئے تھے۔ اور چلتے ہوئے میں نے ان دونوں کی چند چند سطریں پڑھیں اور گھر میں جا کر ان کو اپنی چارپائی پر رکھدیا۔ اور ارادہ تھاکہ فرصت کے وقت ان کو پڑھوں گا۔ لیکن کئی دن گزر گئے۔ اور میں ان کو نہ پڑھ سکا۔ ایک دن رات کے وقت جبکہ میں ایک فتوے کے لئے ایک حوالہ تلاش کر رہا تھا تو اچانک ان اشتہاروں کے جواب کے متعلق ایک مضمون میرے دل میں ڈالا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے ذہن کواس طرف پھیرا گیا کہ ان اشتہاروں میں جو یہ لکھا ہے کہ ’’مجھ پر میری غلطی واضح کرنے کے لئے جو سب سے بڑی دلیل پیش کی ہے۔ وہ یہی ہے کہ خلیفہ خداہی مقرر کر تاہے۔ اس کے بنانے میں انسانوں کادخل نہیں۔ اس لئے اس کے معزول کرنے کا بھی انہیں اختیار نہیں۔ اوراس کے ثبوت میں آیت استخلاف کو پیش کیا ہے۔ ‘‘ یہ سب سے پہلے تم نے (مراد مولوی سید سرور شاہ صاحب)ہی ایک اورشخص کی تردید کے لئے خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا جبکہ شیخ(عبدالرحمٰن مصری) صاحب ابھی جماعت میں ہی تھے اور اس وقت وہ بھی مسجد اقصیٰ میں موجود تھے اور فلاں شخص نے نماز جمعہ کے بعد کو سنایا تھا کہ شیخ صاحب کہتے تھے کہ مولوی (سیدسرور شا ہ)صاحب نے غلط کہا ہے ہم خلیفہ کو معزول کر سکتے ہیں اور یہ اشتہارتمہارے اس خطبہ کی تردید میں ہیں۔ اس کا تمہیں جواب دینا چاہئے۔

تب میں نے جناب شیخ صاحب کے دونوں اشتہاروں کو خوب غور سے پڑھا۔مگر میں جوں جوں پڑھتا جاتا تھا۔ میری حیرت بڑھتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ بعض تحریروں کو پڑھ کر مجھے یہ شبہ ہونے لگا کہ یہ شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری کی لکھی ہوئی نہیں۔ کیونکہ وہ صریح غلط اور جا ہلا نہ باتیں تھیں جوکہ ایک عالم فاضل کی شان سے بالکل بعید تھیں۔ اور بعض ایسے امور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کئے ہوئے تھے جن کو کوئی پڑھا لکھا احمدی کبھی حضورؑ کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔ مگر اس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی تھی کہ اور کوئی لکھ کر شیخ صاحب کے نام پر شائع کرے۔ تب ایک مشہور مصرع کسی قدر تغیر کے ساتھ میری زبان سے نکلا مشہور تو یوں ہے:

’’چو آشفتی الف با تا نہ دانی‘‘

(جب تومبتلا ئےمحبت ہوجائے تو الف بے بھی نہ جانے گا)

لیکن میری زبان پر یوں جاری ہوا: ع

’’چو برگشتی الف با تا نہ دانی‘‘

(جب تو پھر گیا۔ تو پھر الف۔ بے بھی نہیں جانتا)

تب مجھے سمجھ آگیا کہ ہیں تو یہ جنا ب شیخ صاحب ہی کے لکھے ہوئے…

چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد

میلش اندر طعنہ پاکاں زند

(جب خدا کسی کا پردہ پھاڑنا چاہتا ہے تو پاک بندوں پر طعن کرنے کی خواہش اس میں پیدا کردیتا ہے)

مولف رسالہ ’’خلافت حقہ‘‘ عرض حال میں مزید بتاتے ہیں کہ ’’البتہ اس سے مجھے خوشی بھی ہوئی کہ میرے پیش کردہ دو امروں میں سے ایک امر کو تو(شیخ عبدالرحمٰن مصری نے اپنے اشتہار میں )سالم تسلیم کرلیا ہے۔ اور دوسرے کا کچھ حصہ مانا ہے مگر اس کے بڑے حصہ سے انکار کیا ہے جس کو مانا ہے وہ یہ ہے۔ کہ جن خلفاء کو خدا بناتا ہے۔ ان کو انسان معزول کرنے کے مجاز نہیں۔ اور دوسرا امر میں نے تو یہ پیش کیا تھا کہ سب خلفاء کو خداہی بناتا ہے۔ مگر شیخ صاحب نے اس میں سے صرف اس قدر مانا ہے۔ کہ پہلے خلیفہ کو توخداہی بنانا ہے۔ مگر اس کے بعد کے خلفاء کو خدا نہیں بناتا بلکہ انسان بناتے ہیں۔ ‘‘

زیر نظر کتاب میں مؤلف نے پہلے اپنا دعویٰ لکھا ہے اور اس کے مقابل جناب شیخ صاحب کا دعویٰ لکھ کر مبسوط بحث اٹھائی ہے۔ اور پھر اس کے بعد منکر خلافت ثانیہ شیخ عبدالرحمن صاحب کے ان حوالہ جات کو (کہ جن کووہ جماعتی موقف کی تردیداور اپنے دعویٰ کے اثبات میں لائے تھے) درج کرکے ان پر بحث کی ہے نیز قارئین کو دکھایا ہے کہ جناب شیخ صاحب نے ان حوالہ جات سے کام لینے میں کہاں تک دیانت و امانت سے کام لیا ہے۔ نیز اس کتاب میں آیات قرآنی، احادیث نبویﷺ اور بعض مسلمہ قواعد کی رو سے جناب شیخ صاحب کی غلط فہمیوں اور کج رویوں کو درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا جماعت احمدیہ میں خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے خلاف ہونے والی سازشوں کے علمی جوابات اور ثقہ دلائل سے بھی آگا ہ ہوں۔

یاد رہے کہ جماعت احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ نبی کے سب خلفاء کو خداتعالیٰ ہی مقرر فرمایاکرتا ہے۔ لیکن جناب شیخ صاحب نے بالکل بے پَر کی اڑائی اور اپنے مذکورہ بالا اشتہار میں خلافت کے متعلق اپنا خیال اور دعویٰ ان الفاظ میں لکھا: ’’میرے نزدیک ان خلفاء میں سے جن کو قوم منتخب کرتی ہے۔ صرف پہلا خلیفہ ہی ایسا ہوتا ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا عقیدہ ہے کہ وہ آیت استخلاف کے ماتحت منتخب کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والے خلفاء کے متعلق آپ کا عقیدہ ہرگز نہیں۔ کہ ان کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ کا دخل ہوتا ہے۔ ‘‘

لگتا ہے کہ خلافت کے مقابل پر کھڑے ہونے والے اس معاند کے بھی اپنے ہی کچھ درپردہ عزائم تھے ورنہ اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے قرآن کریم کو ہی پڑھ لیتے، آیت استخلاف کو ہی ایک نظر دیکھ لیتے ہیں جہاں لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کا لفظ آیا ہے اور ھم جمع کی ضمیرہے۔ اور نہ ہی اس آیت میں کوئی اور ایسا قرینہ یا لفظ موجود ہے جو آیت استخلاف سے صرف ایک یا پہلے خلیفہ کے برحق ہونے کی دلیل بن سکے۔ مگر شیخ صاحب نے بہت ہی غضب کیا اور ظلم کمایا کہ اپنے ان بالکل نامعقول معنوں کو جو قرآن کریم کے الفاظ کے بالکل خلاف تھے، سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طرف منسوب کرکے حوالے دینے شروع کردیے، کہ دیکھواس حوالے میں خدا کا حکم و عدل مسیح موعودعلیہ السلام صاف صاف کہتا ہے کہ آیت استخلاف میں صرف پہلے خلیفہ کا ذکر ہے کہ اس کو خدا خلیفہ بنائے گا اور اس کے بعد کے خلیفوں کا اس آیت میں ذکر نہیں کہ ان کو خدا خلیفہ بنائے گا۔ لیکن کیا کوئی باور کرسکتا ہے کہ خدا کا وہ مسیح موعود جس کو خدا نے عربی زبان پر معجزانہ اقتدار بخشا تھا وہ آیت استخلاف کے ایسے معانی کرے گا۔

الغرض یہ کتاب اپنے دلائل، زبان، بیان، ترتیب اور مثالوں کے پیش کرنے میں نہایت اعلیٰ درجہ پر تیار کی گئی ہے اور خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے روگردانی کرنے والوں کی جہاں علمی وعقلی گرفت کررہی ہے وہاں ایسے لوگوں کی دیانت کا حال بھی کھول رہی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اور اس میں پیش کردہ دلائل سے استفادہ آج قریباً ایک صدی گزرجانے پر بھی مفید ہے۔

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    یہ ایک بہت اعلیٰ کتاب ہے۔ اس کتاب کے آخر میں عدم جواز عزل خلیفہ کے نو (۹) ثبوت لکھے ہیں ۔ بہت پڑھنے کے لائق ہیں۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب خلافت احمدیہ کا سلطانِ نصیر بنائے آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button