متفرق مضامین

جماعت کی حفاظت کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ کی ایک مبشر رؤیا اور اس کی تعبیر

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

تمہارا دشمن تمہیں کاٹنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے، اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے ایمان کی یہ سر سبزی سدا قائم رہے تو اپنے آپ کو خلافت کے ساتھ وابستہ رکھو کیونکہ شجرِ خلافت سے پیوستگی میں ہی اُمید بہار ہے

اِس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کے غلامِ صادق حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مسیح موعود و مہدی معہود کے طور پر مبعوث فرمایا تو آپؑ کے مشن کی کامیابی اور کامرانی کا یقین دلاتے ہوئے الہاماً ہزاروں بشارات دیں جن میں سے ایک کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ کے الفاظ میں بھی تھی۔ حضرت اقدس علیہ السلام اس پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’براہین احمدیہ میں اس جماعت کی ترقی کی نسبت یہ پیشگوئی ہے کزرع اخرج شطأہ فاٰزرہ فاستغلظ فاستویٰ علیٰ سُوْقہٖ یعنی پہلے ایک بیج ہوگا کہ جو اپنا سبزہ نکالے گا، پھر موٹا ہوگا پھر اپنی ساقوں پر قائم ہوگا۔ یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی جو اِس جماعت کے پیدا ہونے سے پہلے اور اُس کے نشوو نما کے بارہ میں آج سے پچیس برس پہلے کی گئی تھی …. مَیں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح تھا جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے بویا گیا پھر میں ایک مدت تک مخفی رہا پھر میرا ظہور ہوا اور بہت سی شاخوں نے میرے ساتھ تعلق پکڑا۔ سو یہ پیشگوئی محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پوری ہوئی۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 241)

اپنی تحریرات میں دیگر جگہوں پر بھی آپؑ نے بفضلہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے اس تخم افشانی اور آئندہ اِس تخم کے جم جانے، نشو و نما پانے، سر سبز ہونے اور پھلوں پھولوں سے لدنے کا ذکر فرمایا ہے، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں، سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66تا67)

یہ واشگاف اعلان آپؑ نے متعدد مرتبہ فرمایا کیونکہ پہلے دن سے ہی حاسدین اور مخالفین کا ایک گروہ اس آسمانی درخت کی مخالفت میں اِسے کاٹ ڈالنے اور نابود کرنے کے منصوبوں میں کوشاں تھا، آپ نے ان فسادیوں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا:

اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر

از باغباں بترس کہ مَن شاخ مثمرم

اے وہ جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑا ہے، باغبان سے ڈر کیونکہ میں ایک پھلدار شاخ ہوں۔

ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں:’’یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ مَیں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے، جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکریوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے۔‘‘(اربعین، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 400)

1905ء میں جب حضرت اقدس علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں اپنے بعد خلافت کی پیشگوئی فرمائی تو اسی تخمریزی کا ایک مرتبہ پھر ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے …. کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے …. اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخمریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے …. پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کرتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں …. جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا….‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304تا305)حضور علیہ السلام کے اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ نبی کے ہاتھ سے بویا گیا بیج اپنے بعد جاری ہونے والی خلافت کے ذریعے کمال کو پہنچتا ہے۔ اس نکتے کو گذشتہ مفسرین نے سورۃالفتح کی آخری آیت کی تفسیر میں اور معنوں کے علاوہ یوں بھی بیان فرمایا ہے:قوله: كَزَرْعٍ يعني النبي صلى اللّٰه عليه وسلم أخرج شطأه بأبي بكر فآزره بعمر فاستغلظ بعثمان فاستوى على سوقه بعليّ بن أبي طالب۔(تفسير التسهيل لعلوم التنزيل / ابن جزي الغرناطي ۔ تفسير زاد المسير في علم التفسير/ ابن الجوزي ) یعنی کھیتی سے مراد آنحضرتﷺ ہیں جس نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ذریعے روئیدگی نکالی، پھر حضرت عمر فاروق ؓکے ذریعے مضبوطی بخشی پھر حضرت عثمانؓ کے ذریعے اُس کو موٹا کیا اور پھر حضرت علی بن ابی طالبؓ کے ذریعے اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہوگئی۔

لیکن اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ہاتھوں لگائی گئی یہ کھیتیاں اور باغ پروان چڑھتے ہوئے مخالفت اور حسد کی شدید تپش اور مصائب و شدائد کی سخت آندھیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ غول بدذات ہمیشہ اِن کھیتیوں کی تباہی کے درپے رہتا ہے مگر انجام کار مخالفین اور حاسدین ناکام و نامراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت ان کو سر سبز و شاداب رکھتی ہے اور بقول حضرت مسیح ناصری علیہ السلام :’’ ہَوا کے پرندے آکر اُس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔‘‘(متی باب 13 آیت 32)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اپنی اس الٰہی جماعت کے عظیم الشان درخت بننے اور ساری دنیا میں اس کی شاخیں پھیلنے کی پیشگوئی فرمائی ہے وہاں اپنی جماعت کو شدید مخالفت سے بھی آگاہ فرمایا ہےچنانچہ آپؑ رسالہ الوصیت میں ہی فرماتے ہیں:’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا، تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت بن جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)

اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں ہی حضور علیہ السلام کو ایک رؤیا کے ذریعے باغِ احمدؑ کی تباہی چاہنے والوں کی تباہی اور ہلاکت کی خبر دے دی تھی جس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’مدت کی بات ہے مَیں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ مَیں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور باغ کی طرف جاتا ہوں اور مَیں اکیلا ہوں، سامنے سے ایک لشکر نکلا جس کا یہ ارادہ ہے کہ ہمارے باغ کو کاٹ دیں۔ مجھ پر اُن کا کوئی خوف طاری نہیں ہوا اور میرے دل میں یہ یقین ہے کہ مَیں اکیلا ان سب کے واسطے کافی ہوں۔ وہ لوگ اندر باغ میں چلے گئے اور ان کے پیچھے مَیں بھی چلا گیا۔ جب مَیں اندر گیا تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سب کے سب مرے پڑے ہیں اور اُن کے سر اور ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہوئے ہیں اور اُن کی کھالیں اُتری ہوئی ہیں۔ تب خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا نظارہ دیکھ کر مجھ پر رِقت طاری ہوئی اور مَیں رو پڑا کہ کس کا مقدور ہے کہ ایسا کر سکے۔

فرمایا: اس لشکر سے ایسے ہی آدمی مراد ہیں جو جماعت کو مرتد کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے عقیدوں کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے باغ کے درختوں کو کاٹ ڈالیں۔ خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کے ساتھ اُن کو ناکام کرے گا اور اُن کی تمام کوششوں کو نیست و نابود کر دے گا۔‘‘(بدر 7؍جون 1906ء صفحہ 3۔ ملفوظات جلد پنجم صفحہ 25)

آندھی اُٹھتی رہی، برق گرتی رہی، جہل کی گود میں فتنے پلتے رہے

ایک پودا تناور شجر بن گیا، بے بسی سے عدُو ہاتھ ملتے رہے

پس اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سر سبز شاخو! تمہارا دشمن تمہیں کاٹنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہے، اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے ایمان کی یہ سر سبزی سدا قائم رہے تو اپنے آپ کو خلافت کے ساتھ وابستہ رکھو کیونکہ شجرِ خلافت سے پیوستگی میں ہی اُمید بہار ہے۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button