متفرق مضامین

رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس پر ایک حملہ اور اس کا جواب

(محمد سلطان ظفر۔ کینیڈا)

کوئی یہودی یا عیسائی اس بات پر اعتراض نہیں کرتا کہ کیسے ایک شیرخوار بچے کو ایک سگی ماں نے دریا میں بہادیا یا کیسے ایک باپ اپنے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر سکتا ہے بلکہ پوری دُنیا بڑے فخر سے ان واقعات کو بیان کرتی ہے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کرتی ہے کیوں کہ سب کو معلوم ہے کہ یہ الٰہی منشاء تھی نہ کہ ذاتی خواہش

مئی 2022ء میں بھارت کی حکمران پارٹی بی جے پی کی قومی ترجمان نوپور شرما نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں رسول اللہﷺ کی ہستی پر شدید اعتراضات کیے۔ان کے اعتراضات کرنے کا طریقہ انتہائی جارحانہ اور ناقابلِ برداشت تھا۔ اس پروگرام کے بعد دُنیا کے اکثر مسلمان ممالک میں بجا طور پر ایک شدید بے چینی پھیل گئی ہے اور کئی مسلمان حکومتوں نے بھارتی حکومت سے شدید احتجاج کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت نے مذکورہ لیڈر کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے۔

اس ساری صورت حال میں مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات علمی رنگ میں بھی دیں تاکہ سوشل میڈیا پر جو نام نہاد ’’غیرجانبدار‘‘ یہ نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ آخر اس سرکردہ لیڈر نے غلط کیا کہا ہے؟ ان کی بھی تشفی ہوسکے۔

رسول اللہﷺ پرجو دو اعتراضات اِس خاتون نوپورشرما نے کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

1.بچی کے ساتھ نکاح کرکے جسمانی تعلق قائم کیا

2.گھوڑے پر بیٹھ کر آسمانوں پر چلے گئےتھے

پہلااعتراض

مذکورہ بالا خاتون نے پہلا اعتراض کیا کہ ’’ ایک بچی کے ساتھ نکاح کرکے جسمانی تعلق قائم کیا‘‘۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسلامی روایات میں نکاح اور رخصتی دو مختلف امور ہیں۔نکاح ایک مذہبی اور بعض ملکوں میں قانونی ضرورت ہے جس سے مرد اور عورت کو بطور میاں بیوی اکٹھا رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔جبکہ رخصتی وہ عمل ہے جب لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ اکٹھا رہنا شروع کردیتی ہے۔ نکاح رخصتی سے پہلے بھی ہوسکتا ہے اور رخصتی بعد میں۔یہ دونوں امور اکٹھے بھی ہوسکتے ہیں اور دنوں، ہفتوں، مہینوں یا سالوں کے وقفہ سے بھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح رسول کریمﷺ سے، بعض روایات کے مطابق سات سال کی عمر میں ہوگیا تھا، جب کہ بعض روایات کےمطابق 9 سال بلکہ بعض روایات کے مطابق 17 سال کی عمر میں ہوا۔

ابن سعد نے طبقات میں یہ روایت نقل کی ہے کہ’’کَانَتْ عَائِشَۃُ وَلَدَتِ السَّنَۃَ الرَّابِعَۃَ مِنَ النُّبُّوَۃِ فِیْ اَوَّلِھَا۔‘‘یعنی حضرت عائشہ سنہ 4 نبوی کے ابتدا میں پیداہوئی تھیں۔

اورکئی روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؓ کی رخصتی 2ہجری میں ہوئی۔ اس طرح آپ کی عمر12سال بنتی ہے۔(بحوالہ سیرۃ خاتم النبیین ﷺ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صفحہ 423تا426)

مخالفینِ اسلام نے تاریخ ِاسلام میں حضرت عائشہؓ کے نکاح کے واقعہ کو ، اسلامی روایات سے بنیادی لاعلمی کی وجہ سے ، رخصتی سمجھ کر شادی قراردے دیا جو کہ خلافِ واقعہ ہے۔

معترضین کے مطابق اگر یہ شادی نفسانی خواہشات کا نتیجہ تھی تو پھر غور طلب بات یہ ہے کہ کیوں رسول اللہ ﷺ کی راتیں بسترکی بجائے رکوع و سجود میں گزرتی تھیں؟

حضرت عائشہ ؓخود فرماتی ہیں کہ نماز باجماعت کے علاوہ آنحضور ﷺ باقاعدگی سے نوافل اور نماز تہجد کا التزام فرمایا کرتے تھے۔ جب سب دنیا سورہی ہوتی آپؐ اپنے بستر کو چھوڑ کر بے قرار دل کے ساتھ اپنے خالق و مالک اور محبوب ازلی کے حضور حاضر ہو جاتے۔ اور اپنی مناجات پیش کرتے۔گویا دربار خاص لگ جاتا جس میں آپؐ ہوتے اور سامنے آپ کا ربّ ہوتا۔

آنحضرت ﷺ رات کے وقت اس قدر دعائیں کرتے اور اس قدر لمبی نماز پڑھتے کہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپؐ کے پاؤں متورم ہوجاتے اور پھٹنے لگتے۔ (بخاری کتاب التہجدباب قیام النبیﷺ)

رات کا وقت ہے ۔ حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلتی ہے۔ وہ آپؐ کو اپنے بستر پر نہیں پاتیں ۔ وہ کہتی ہیں:’’ایک رات (میری آنکھ کھلی) تو میں نے حضورؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال آیا کہ حضورؐ مجھے چھوڑ کر کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں ۔ پھر میں حضورؐ کو تلاش کرنے لگی تو کیادیکھتی ہوں کہ حضورؐ (نماز میں ) رکوع میں ہیں (یاشاید) آپؐ ا س وقت سجدہ کر رہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ تو اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہر قسم کی بزرگی کاحامل ہے( تو میرا رب ہے) تیرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپؐ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے اللہ جو کچھ میں لوگوں سے چھپ کر کرتاہوں اور جو کچھ میں ان کے سامنے کرتا ہوں ان میں سے ہر عمل کو اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ لے۔‘‘حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے حضور کو جب (نماز میں ) اس طرح اپنے مولیٰ کے حضور دعا کرتے دیکھا تو مجھے اپنی حالت پر افسوس ہوا اور میں نے دل ہی دل میں کہا تم کیاسمجھ بیٹھی خدارا ان کی توشان ہی کچھ اَور ہے۔ (نسائی کتاب عشرۃ ا لنساء باب ا لغیرۃ وکتاب ا لصلوٰۃ باب ا لدعا ء فی السجود)

ایک بار حضرت ابن عمرؓ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آپ مجھے آنحضور ﷺ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو آپ کوبہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہو۔ اس پر حضرت عائشہؓ رو پڑیں اور کافی دیر تک روتی رہیں اور جواب نہ دے سکیں۔ پھر فرمایا کہ آپؐ کی تو ہر بات ہی عجیب تھی کس کاذکر کروں اور کس کا نہ کروں ۔ایک رات میرے ہاں باری تھی۔ حضورؐ میرے پاس تشریف لائے، بستر میں داخل ہوئے اور فرمایا :’’اے عائشہ!کیا مجھے اِس بات کی اجازت دیں گی کہ مَیں اپنے رب کی عبادت میں یہ رات گزاروں۔‘‘مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ یقینا ًمجھے تو آپ کا قُرب پسند ہے اور آپؐ کی خوشنودی مقصود ہے میں آپؐ کو خوشی سے اجازت دیتی ہوں۔اس پر حضورﷺ اٹھے اور گھر میں لٹکے ہوئے ایک مشکیزہ کی طرف گئے اور وضو کیا پھر آپؐ نماز پڑھنے لگے اور قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا۔ آپؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ پھر آپؐ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد اور تعریف کی اور پھر رونا شروع کردیا پھر آپؐ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور پھر رونے لگے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپؐ کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی اور اسی حال میں وہ رات گزر گئی اور جب صبح کے وقت حضرت بلالؓ نماز کے لیے آپؐ کو بُلانے آئے تو اس وقت بھی آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !آپ رو رہے ہیں ۔کیا آپؐ کے متعلق اللہ نے یہ خوشخبری نہیں دی وَقَدْغَفَرَاللّٰہُ لَکَ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ پھر آپؐ کیوں روتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اے بلال کیامیں خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔ ‘‘(تفسیرکشاف زیرِآیت ان فی خلق السمٰوٰت والارض)

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رؤیا میں حضرت عائشہ ؓسے شادی کا اشارہ پایا تھا۔ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے الٰہی اشارہ پاکر اپنے بیٹے کو دریا میں بہادیا تھا، جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو الٰہی اشارہ پاکر پہلے لق و دق صحرا میں چھوڑ دیا اورپھر ان کے گلے پر چھری پھیرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ (اور ایک بھاری مسلم و غیرمسلم اکثریت کے مطابق چھری پھیر بھی دی تھی)۔ لیکن کوئی یہودی یا عیسائی اس بات پر اعتراض نہیں کرتا کہ کیسے ایک شیرخوار بچے کو ایک سگی ماں نے دریا میں بہادیا یا کیسے ایک باپ اپنے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر سکتا ہے بلکہ پوری دُنیا بڑے فخر سے ان واقعات کو بیان کرتی ہے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کرتی ہے کیوں کہ سب کو معلوم ہے کہ یہ الٰہی منشاء تھی نہ کہ ذاتی خواہش ۔اسی طرح حضرت عائشہؓ سے شادی الٰہی منشاء کے مطابق تھی نہ کہ رسول اللہ ﷺ کی نفسانی خواہشات کے مطا بق۔

حدثنا معلى، حدثنا وهيب، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي اللّٰه عنها، ان النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، قال لها: اريتك في المنام مرتين ارى انك في سرقة من حرير، ويقول: هذه امراتك فاكشف عنها فإذا هي انت، فاقول: إن يك هذا من عند اللّٰه يمضه

( صحیح بخاری ، كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ حدیث نمبر3895)

ہم سے معلی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم مجھے دو مرتبہ خواب میں دکھائی گئی ہو۔ میں نے دیکھا کہ تم ایک ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی ہو اور کہا جا رہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں ان کا چہرہ کھولئے۔ میں نے چہرہ کھول کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے تو وہ خود اس کو پورا فرمائے گا۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کے جن پاک گوشوں کو اجاگر کیا ہے وہ کسی اور صحابی کے لیے ناممکن تھا اورپاک شادی کی یہ بھی ایک بنیادی وجہ تھی۔ اس کم عمری کی شادی کی وجہ سے حضرت عائشہؓ کو کم عمری میں ہی رسول کریم ﷺ کے ساتھ دن رات، دس سال گزارنے کا موقع مل گیا۔ اور چونکہ چھوٹی عمر میں یادداشت اچھی ہوتی ہے لہٰذا رسول اللہﷺ کے سیرت کے جو پہلو حضرت عائشہ ؓنے ، رسول کریم ﷺ کی وفات کے 50سال بعد تک بیان فرمائے ہیں، وہ کوئی اور بیان کرہی نہیں سکتا تھا۔ یہ امتِ مسلمہ پر ایک ایسا عظیم الشان احسان ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان 50سالوں میں آپؓ نے امت مسلمہ کو سنتِ نبویؐ اوراحادیث سے روشناس کروایا اور ہم آج تک اُن سے فیض مند ہورہے ہیں اور یہ فیض انشاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا۔ حضرت ابوہریرہؓ کے بعد سب سے زیادہ روایات حضرت عائشہ ؓسے ہی مروی ہیں۔ آپؓ نے نہ صرف احادیث پہنچا کر امت پر احسانِ عظیم فرمایا بلکہ دین کی وضاحت اور تشریح بھی کی۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا! رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا تھاکہ تم آدھا دین عائشہؓ سے سیکھ سکتے ہو۔

دوسرا اعتراض

نوپور شرما نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ (رسول اللہ ﷺ) ’’ گھوڑے پر بیٹھ کر آسمانوں پر چلے گئےتھے‘‘۔

اس اعتراض کے جواب میں جماعت احمدیہ کی مرکزی ویب سائٹALISLAM.ORG پر شائع شدہ مضمون میں سے چنیدہ اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ معراج اور اسراء کے واقعات جسمانی نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کے روحانی تجربات تھے۔

پس واضح ہو کہ معراج یعنی آسمان پر جانے کا واقعہ 5نبوی میں ہوا جب آپ خانہ کعبہ یعنی مسجدِ حرام میں سورہے تھے جبکہ اسراءیعنی بیت المقدس جانے کا واقعہ 11 نبوی میں ہوا جب آپ اپنی چچا زاد بہن امّ ہانی ؓ کے گھر سورہے تھے۔ دونوں واقعات میں سونے کی حالت کا مشترک ہونا بتاتا ہے کہ یہ واقعات جسمانی نہیں بلکہ روحانی تھے۔

اگر معراج جسمانی ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کو جسمانی آنکھ سے دیکھتے لیکن قرآن و حدیث میں ذکرہے کہ جو کچھ بھی دیکھا گیا دل سے دیکھا گیا۔فرمایا: مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی‏ ( النجم : 12)ترجمہ: اور دل نے جھوٹ بیان نہیں کیا جو اس نے دیکھا۔ وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ( بنی اسرائیل : 61)اور وہ خواب جو ہم نے تجھے دکھایا اُسے ہم نے نہیں بنایا مگر لوگوں کے لئے آزمائش…۔

عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَاٰہُ بَفُوَادِہٖ مَرَّتَیْنِ۔ (مسلم کتاب الایمان)حضرت ابن عبّاس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔‘‘

حضرت عا ئشہ ؓفرماتی ہیں: ’’من زعم ان محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم رای ربہ فقد اعظم علی اللّٰہ القریة… اولم تسمع ان اللہ عزوجل یقول لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار…‘‘(مسلم کتاب الایمان) ’’جو اس بات کا قائل ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا …کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنکھیں اس تک نہیں پہنچتیں بلکہ وہ آنکھوں تک پہنچتا ہے۔‘‘

کفارِ مکّہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہمارے لیے ایک کتاب لے آئیں تب ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں سے پاک ہے۔ یعنی وہ کبھی بھی کسی انسان کو جسم سمیت اوپر نہیں لے کرگیا اور میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں۔

اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِؕ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا۔(بنی اسرائیل : 94)یا تُو آسمان میں چڑھ جائے۔ مگر ہم تیرے چڑھنے پر بھی ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تُو ہم پر ایسی کتاب اتارے جسے ہم پڑھ سکیں۔ تُو کہہ دے کہ میرا ربّ (ان باتوں سے) پاک ہے (اور) میں تو ایک بشر رسول کے سوا کچھ نہیں۔

صحیح بخاری میں مذکور مندرجہ ذیل حدیث پوری وضاحت سے یہ ثابت کررہی ہے کہ یہ سارا نظارہ روحانی تھا۔ اس حدیث کے شروع میں کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ حرام میں سورہے تھے۔ آپ کی آنکھیں تو بند تھیں لیکن دل جاگ رہا تھا۔ پھر اس حدیث کا اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ پھر حضورؐ جاگ گئے اور آپ مسجدِ حرام میں ہی تھے۔ چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سارا نظارہ دل نے دیکھا جو جاگ رہا تھا جبکہ آنکھیں سورہی تھیں۔

’’و ھو نائم فی المسجد الحرام… یریٰ قلبہ و تنام عینہ ولا ینام قلبہ…واستیقظ و ھو فی المسجد الحرام‘‘(بخاری کتاب التوحید) ’’اور آپ مسجدِ حرام میں سو رہے تھے …آپ کا دل دیکھ رہاتھا اور آپ کی آنکھیں سو رہی تھیں لیکن دل نہیں سورہا تھا …اور آپ بیدار ہوئے تو مسجدِ حرام میں تھے۔‘‘

حضرت عائشہ صدیقہؓ خدا کی قسم کھا کر بیان فرماتی ہیں کہ معراج میں حضوؐر کا جسم غائب نہیں ہوا تھا: وَ اللّٰہِ مَا فُقِدَ جَسَدَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَلٰکِن عُرِجَ بِرُوحِہ ۔(تفسیر کشّاف)اللہ کی قسم (معراج میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کی روح کے ذریعے معراج ہوئی تھی۔

روزِ اوّل سے اسلام اور رسول اللہ ﷺ پر بڑے سخت، گھٹیا اور جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر لحظہ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لیے تیار رہیں اور ان کے خلاف ہر حملہ کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں۔ نیز اسلام کا پُرامن پیغام دُنیا کے ہر کونے تک پہنچادیں تاکہ وہ اعتراضات جو ابھی بیج ہیں اگنے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button