اسم اعظم، استقامت اور قبولیت دعا
دعا کرتے ہوئے بعض ایسے کلمات جنہیں مختلف مواقع پر اسم اعظم کہا گیا ہے یعنی ایسے متبرک ، مقدس او رپاکیزگی لیے ہوئے کلمات جو ہمارے رب ہمارے خالق ومالک کے پسندیدہ ہیں ، کا بار بار اظہار اور اقرار بھی مفید او رممدد ہے
دعا ایک مومن کی پہچان ہے۔ ہر ایک امر میں قادر و مطلق خدا کو مسبب الاسباب ماننا اور اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ضرورت کے لیے اسی کے آگے دستِ سوال دراز کرنا ہی ایک مومن کو زیبا ہے۔ دعاؤں کے موسم رمضان المبارک میں ایک اور انتہاء سے قرب الٰہی کے حصول کی کوشش جاری ہوتی ہے۔ اس موسم میں بندے اور خدا کے درمیان راز و نیاز کی باتوں میں جہاں بلاشبہ اضافہ ہوتا ہے وہاں مومنین ہر اس راہ سے اپنے محبوب و کریم خدا کی وسعتوں میں داخل ہونے میں کوشاں ہوتے ہیں جہاں سے وہ قبول کر لیے جائیں۔
اپنے محبوب کو پیارے ناموں سے پکار کر ا س کی توجہ کو حاصل کرنا ایک قدیمی نسخہ ہے۔ خدا کے اسمائے حسنیٰ یعنی اس کے پیارے، مقدس اور متبرک ناموں سے اس کی تقدیس کرنا اور ان راہوں سے اس کے قرب کے حصول کی کوشش کرنا جسے وہ پسندکرتا ہے، یقیناً ہر عاشق صادق کی خواہش اور تمنا ہوتی ہے۔
دعا کرتے ہوئے بعض ایسے کلمات جنہیں مختلف مواقع پر اسم اعظم کہا گیا ہے یعنی ایسے متبرک ، مقدس او رپاکیزگی لیے ہوئے کلمات جو ہمارے رب ہمارے خالق ومالک کے پسندیدہ ہیں ، کا بار بار اظہار اور اقرار بھی مفید اور ممدد ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں درج ذیل کلمات کو اسم اعظم کہا گیا ہے اور ان کے ذریعہ مانگی گئی دعا کو قبولیت عطا کی گئی ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُوْ وَهُوَ يَقُولُ اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللّٰهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔ قَالَ فَقَال وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللّٰهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِيْ إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى۔(سنن ترمذی کتاب الدعوات۔ باب ماجاء فی جامع الدعوات عن رسول اللّٰہ حدیث 3475)حضرت عبد اللہ بن بریدہ اسلمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیںکہ نبی کریمﷺ نے ایک شخص کو ان الفاظ میں دعا کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ!میں تجھ سے مانگتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ایک ہے، بے احتیاج ہے، نہ تو نے کسی کو جنا اور نہ توجنا گیا۔ اور نہ تیرا کبھی کوئی ہمسر ہوا۔ راوی کہتے ہیں پھر آنحضور ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اس (شخص) نے اللہ تعالیٰ سے اس کے اسم اعظم کے ذریعے دعا کی ہے، جب اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے ذریعے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول کرتا ہے اور جب اسم اعظم سے مانگا جاتا ہے تو وہ دیتا ہے۔
یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اُسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہوگی
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےاپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں اسم اعظم کے متعلق ہماری راہنمائی فرمائی ہے اور وہ کلمات ہمیں بتائے ہیں جن کو آپ پر القا کیا گیا۔ اور ان کلمات کے ذریعہ مانگی گئی تضرعات کو شرف قبولیت عطا ہوا۔آپؑ فرماتے ہیں :’’رات کو میر ی ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے۔ایسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک جگہ پرمیں ہوں اور وہ کوچہ سربستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں ۔ ایک ان میں سے میری طرف آیا تو میں نے اسے مار کر ہٹادیا ۔ پھردوسرا آیا تو اسے بھی ہٹادیا۔ پھر تیسراآیا اور وہ ایسا پرزور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے ۔ خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا۔ میں نے اس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں۔ میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیاکہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا ۔ مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا ۔ اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر مندرجہ ذیل دعا القا ءکی گئی:
رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِی وَارْحَمْنِی۔ یعنی اے میرے رب ! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پررحم فرما۔
اور میرے دل میں ڈالاگیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جواسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہوگی‘‘(تذکرہ صفحہ442تا443)
فرمایا:یہ دعا ایک حرز اور تعویذ ہے…مَیں اس دعا کو اب التزاماً ہر نماز میں پڑھا کروں گا۔آپ بھی پڑھا کریں۔
فرمایا کہ اس میں بڑی بات جو سچی توحید سکھاتی، یعنی اللہ جلشانہ کو ہی ضَار اور نافع یقین دلاتی ہے، یہ ہے کہ اس میں سکھایا گیا ہے کہ ہر شے تیری خادم ہے۔ یعنی کوئی مُوذی اور مُضر شے تیرے ارادے اور اِذن کے بغیر کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتی۔‘‘(الحکم مورخہ 10؍دسمبر 1902ء صفحہ10)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ’’نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے۔ اب ذرا غور کرو۔نماز کی ابتدا اذان سے شروع ہوتی ہے۔ اذان اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اوّل اور آخر میںاللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اور۔مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے ۔ پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے۔ ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے۔ اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ37 ایڈیشن1988ء)
یقیناً ان سب کلمات مبارکہ کے باوجود انسان کی اندرونی حالت کی درستگی،اور اصلاح احوال کے کوشاں رہنے کے لیے استقامت کو بہت بڑا درجہ دیا گیا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ 13؍فروری 2009ء میں اسم اعظم کےمتعلق فرماتے ہیں:’’اندرونی غلاظتیں ایک دفعہ میں اور بغیر کسی کوشش کے نہیں دھل جاتیں جیسا کہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ دعا کی ضرورت ہے اور تب ہی پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ظاہر ہوتا ہے اور پھر وہ اچانک انسان کو اپنے نور میں لپیٹ لیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’انسان کا اسم اعظم استقامت ہے‘‘ اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں‘‘۔
مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں۔ جب انسان انسانیت میں ترقی کرے تو اس کو فرمایا کہ یہ استقامت ہے اور یہی اسم اعظم ہے کہ انسان انسانیت میں ترقی کرتا چلا جائے۔ فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمْ میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ37)(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍فروری 2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍مارچ2009صفحہ9)