حضرت مصلح موعود ؓ

صداقتِ اسلام اور ذرائع ترقیٔ اسلام (قسط نمبر 5)

(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، فرمودہ 22؍فروری 1920ءبمقام بندے ماترم ہال (امرتسر))

حضرت مرزا صاحبؑ کے ذریعہ اشاعتِ اسلام

اب ہم پوچھتے ہیں کیا جس طرح حضرت مرزا صاحبؑ نے قبل از وقت بتایا تھا اسی طرح ہوا یا نہیں؟اور ضرور ہوا۔ وہی اقوام جو یہ کہتی تھیں کہ اسلام ایک صدی کے اندر اندر مٹ جائے گا انہوں نے حضرت مرزا صاحبؑ کے ذریعہ اسلام قبول کیا۔ یورپ کے لوگ جو بوجہ مسلمانوں کے علوم اور تمدنی ترقی میں بہت پیچھے رہنے کے کہتے تھے کہ اسلام جہالت کا مذہب ہے اور اسلام کو ست نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ان میں سے کئی ایک نے خود اسلام قبول کیا جب دُنیا فتویٰ دے چکی تھی کہ اسلام مِٹ جائے گا۔ اور ایسے وقت میں اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے جبکہ اسلام لوگوں کے سامنے پیش کرنا تو الگ رہا مسلمان کہلانے والے اسے خود چُھپا رہے تھے۔ کیا اس سے وہ بات ثابت ہوگئی یا نہیں جو حضرت مرزا صاحبؑ نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر بتلائی تھی کہ میرے ذریعہ دُنیا میں اسلام پھیلے گا۔ اس کے لئے جب ہم اس بیس پچیس سال کے عرصہ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ انہیں لوگوں میں سے جو اسلام کے خطرناک دشمن ہیں ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نہیں سوتے جب تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں بھیج لیتے۔ اور وہ ملک جہاں سے ہمارے کانوں میں یہ صدا آتی تھی کہ اسلام سو سال تک برباد ہوجائے گا اور وہ ملک جو اپنے خیال میں ہم پر رحم کھا کر کروڑوں روپے اس لئے خرچ کرتا تھا کہ ہم سے ایک خدا کی پرستش چھڑا کر تین خداؤں کا حلقہ بگوش بنائے اور وہ لوگ جو ہمیں اپنا شکار سمجھ کر ہم پر للچائی ہوئی نظریں ڈالتے تھےاور وہی مذاہب جو اسلام کو جہالت اور بیوقوفی کا مذہب قرار دیتے تھے انہی کے مقابلہ میں حضرت مرزا صاحبؑ کے غلاموں نے کھڑے ہو کر انہیں شکست فاش دی اور ان کے گھر پہنچ کر لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کے نعرے بلند کئے۔ اب ولایت میں دیکھ لو۔ وہی لوگ جو ہمیں تثلیث پرستی میں جکڑنا چاہتےتھے انہی میں سے بعض کے گھروں میں لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ کی آواز گونج رہی ہے اور ان کے علاوہ اب یہ آواز امریکہ کی طرف بھی منتقل ہوچکی ہے۔ چنانچہ ہم اپنا ایک مبلغ امریکہ بھیج چکے ہیں تاکہ وہ جا کر امریکہ والوں کی توجہ اسلام کی طرف پھیرے جو اس کے لئے تیار پائے جاتے ہیں۔ پھر وہی جرمنی جو مادیات کی طرف سے سے زیادہ جُھکا ہوا تھا اب ادھر سے بیزار ہو کر روحانیت کی طرف متوجہ ہورہا ہے۔ اس کا ایک قنصل چند روز ہوئے مسلمان ہوا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ جرمنی میں السلام کی بہت ترقی ہوگی۔ پھر روس کے کئی ایک آدمی مسلمان ہوچکے ہیں اور ان لوگوں نے مجھے لکھا ہے کہ جب ہمارے ملک میں امن و امان ہوجائے گا تو ہم اپنی زندگیاں اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دیں گے اور جہاں آپ بھیجیں گے وہاں جانے کے لئے تیار رہیں گے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اور کئی مقامات پر رکھی جاچکی ہے اور بیج کی طرح اسلام کئی جگہوں میں پہنچ چکا ہے۔ یہ سوائے اس کے اور کیونکر ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو بات بتائی تھی وہ پوری ہو رہی ہے۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی حکومت سینکڑوں سال سے چلی آتی ہے لیکن کیا کسی مسلمان حکومت کے ذریعہ یہ بات حاصل ہوئی ؟ ہرگز نہیں۔ مگر ایک شخص بے سروسامانی کی حالت میں خبر دیتا ہے کہ ایسا ہوگا اور چند ہی سال میں اس طرح ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

حضرت مرزا صاحب کی مخالفت

پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا ہوا اگر کچھ مسلمان ہوگئے۔ یہ کون سی بڑی بات ہے، لیکن حضرت مرزا صاحبؑ نے یہی نہیں کہا تھا کہ اسلام دُنیا میں پھیل جائے گا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ دُنیا اس کی مخالفت کرے گی اور باوجود اس کے اسلام پھیلے گا۔ چنانچہ دُنیا نے مخالفت کی اور وہ لوگ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور بڑائی پر ایمان لانے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی رکاوٹیں ڈالیں۔ دوسروں نے تو ڈالنی ہی تھیں بعض کے گھر کے لوگوں نے بھی سختی سے مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے ظلم کئے پتھر مارے گالیاں دیں اور ہر قسم کی سختیاں کیں مگر پھر بھی وہ یہی کہتا رہا

اے دل تُو نیز خاطر ایناں نگاہ دار

کآخر کند دعویٔ حبّ پیمبرم

کہ یہ لوگ خواہ مجھ سے کیسا ہی بُرا سلوک کریں اور باوجود اس کے کہ مَیں اس تعلیم کو پھیلانے کے لئے کھڑا ہوا ہوں جس سے وہ خود محبت کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں پھر بھی میں ان کی خاطر کو نگاہ میں رکھتا ہوں۔ کیونکہ آخریہ اس پیغمبر کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں جس کا مَیں غلام ہوں۔

تو گھر کے لوگوں نے اس کا مقابلہ کیا اس کے آگے رکاوٹیں ڈالیں اس کے پیروؤں کو گھروں سے نکال دیا۔ ہر قسم کی تکلیفیں اور دُکھ دیئے مگر پھر بھی وہ غریب اور مفلس لوگ ایک ایک کر کے بڑھنے لگے انہوں نے اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے خرچ بند کر کے اسلام کی اشاعت کے لئے خرچ دیئے اور باوجود مخالفتوں کے ترقی کی۔ لوگوں نے چاہا کہ اسلام نہ پھیلے مگر خدا تعالیٰ نے چاہا کہ روشن ہو اس لئے روشن ہوا۔ پس اسلام دُنیا میں پھیلا اور پھیل رہا ہے اور اسلام نے دُنیا کو منور کیا اور کر رہا ہے جو کہ اس شخص کے سچے اور خدا تعالیٰ کا برگزیدہ ہونے کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے۔

حضرت مرزا صاحبؑ کی کامیابی

امریکہ کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ دنیا میں کام کرنے والے لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو دوسروں کو اپنے پیچھے چلاتے ہیں اور دوسرے وہ جو لوگوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی ملک میں تعلیم نہ ہو اس میں ایک ایسا شخص کھڑا ہوجائے جو تعلیم کو پھیلانا اپنا مقصد قرار دے لے۔ گو ابتداء میں اس کی مخالفت ہوگی اور اس کے خلاف بعض لوگ کھڑے ہوں گے لیکن آخر کار وہ کامیاب ہوجائے گا۔ کیونکہ لوگوں کو حالات اور واقعات مجبور کر دیں گے کہ تعلیم حاصل کریں لیکن ایک ایسا شخص جو ایسی باتیں لے کر کھڑا ہو جن کے ماننے کے لئے حالات مجبور نہ کریں بلکہ ان کے خلاف اُکسائیں اس کی کامیابی بہت مشکل ہوتی ہے۔ حضرت مرزا صاحبؑ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے کیونکہ جو کچھ انہوں نے آکر کہا سب کے سب اس کے خلاف کھڑے ہوگئے اور زمانہ کے حالات بالکل اس کے مخالف تھے۔ لوگ یہ تو مانتے تھے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کلام کرتا رہا ہے لیکن یہ نہ مانتے تھے کہ اس زمانہ میں بھی کوئی انسان ایسا ہوسکتا ہے جس سے خدا تعالیٰ کلام کرے اور مرزا صاحبؑ یہی منوانا چاہتے تھے۔ کیونکہ آپؑ دُنیا کی اصلاح کے لئے آئے تھے نہ کہ اہل دُنیا جس طرف چل رہے تھے اسی طرف چلانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ اس لئے آپ کا کامیاب ہونا ایک عظیم الشان بات اور آپؑ کی صداقت کا بہت بڑا ثبوت ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب ہے۔

زار روس کے متعلق حضرت مرزا صاحبؑ کی پیشگوئی

پھر اس نے قبل از قت بتایا کہ دُنیا میں ایک خطرناک جنگ ہوگی اور اس میں زار کی حالت خراب ہو جائے گی۔ چنانچہ فرمایا’’زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار‘‘ (تذکرہ صفحہ 540 ایڈیشن چہارم)اور ایسا ہی ہوا پھر اس پیشگوئی میں اس نے جنگ کا تمام نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔ یہاں تک کہ بعض اشتہارات میں ان میدانوں کی ہو بہو تصویر کھینچ دی جہاں بڑی بڑی خطرناک لڑائیاں ہوئیں اس پیشگوئی کا ایک شعر یہ ہے۔

رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمین

صبح کر دے گی انہیں مثل درختانِ چنار

(تذکرہ صفحہ 539 ایڈیشن چہارم)

چنانچہ فرانس کی وہ جنگ عظیم جس میں جرمنی کو پَسپا ہونا پڑا اس کی جائے وقوع وہ تھی جہاں کثرت سے چنار کے درخت تھے۔ ادھر تو خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور ادھر چنار کے سُرخ پتے جمے ہوئے خون کی مانند تھے جو اس نقشہ کو اور زیادہ بھیانک بنا رہے تھے۔

غرض اس نے قبل از وقت بتایا کہ ایک عظیم الشان جنگ ہوگی اور اس میں زار کی حالت خطرناک ہوگی چنانچہ اس کی وفات کے بعد ہم نے دیکھا کہ لڑائی ہوئی اور اس میں سب سے خطرناک اور عبرت انگیز زارِ روس کی حالت ہوئی۔ یورپ کے اور بادشاہ بھی اپنے ملک میں اختیارات رکھتے تھے لیکن زار ان سب سے بڑا با اختیار بادشاہ تھا۔ چنانچہ جن الفاظ میں وہ دستخط کیا کرتا تھا ان کے یہ معنی تھے کہ خدا کا نائب۔ تو حضرت مرزا صاحبؑ کو بتایا گیا کہ ایک بہت بڑی جنگ ہوگی اور اس میں زار روس پر بہت بڑی مصیبت آئے گی۔ اور وہ مصیبت کوئی ایسی نہیں ہوگی جس سے وہ فوراً مر جائے گا بلکہ اس کی حالت نہایت دردناک ہوگی اور نہایت دردناک حالت سے گذر کر مرے گا اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح ہوا یا نہیں؟ زار روس پوری شان و شوکت کے ساتھ حکمران ہے کہ ایک علاقہ سے بغاوت کی اسے خبرملی وہ اس طرف روانہ ہوتا ہے اور فوج کے کمانڈر کو لکھتا ہے کہ باغیوں کو سخت سزا دو۔ مَیں بھی آتا ہوں۔ لیکن ابھی وہ چند ہی سٹیشن گزرتا ہے کہ اسے تار کے ذریعہ خبر ملتی ہے کہ حالت نازک ہوگئی ہے۔ وہ کمانڈر کو لکھتا ہے کہ فلاں کو انتظام کی باگ دے دو۔ پھر چند سٹیشن اور آگے جاتا ہے کہ خبر ملتی ہے کہ حالت اور بھی خراب ہوگئی ہے اس پر لکھتا ہے کہ نرمی اختیار کرو۔ پھر سٹیشن پر ہی ہے کہ کچھ لوگ آتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ تمام اختیارات سے دستبردار ہوجاؤ۔ اس کے بعد اس کی جو حالت ہوئی وہ آپ لوگوں نے اخباروں،میں پڑھی ہی ہوگی۔ اس سے بڑھ کر اس کی اور کیا حالت زار ہوسکتی تھی کہ اس کی لڑکیوں کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سامنے شرمناک سلوک کیا گیا۔ پھر اس کو ہلاک کر کے اس کی حالت زار کو انتہاء تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہ واقعات روز روشن کی طرح ثبوت دے رہے ہیں کہ جس شخص نے یہ خبر دی تھی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور خدا تعالیٰ سے اس کا بہت بڑا تعلق ہے اور اس سے ثابت ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں اب بھی ایسا انسان پیدا ہوتا ہے جس کے دل میں خدا تعالیٰ سے محبت پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس سے اپنی محبت کا ثبوت دیتا ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button