حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ کی راہ میں گن گن کر دو گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کی مالی قربانیوں کا (صحیح رُخ )ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر چلتے ہوئے جب قربانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھ کر ہی قربانی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو کسی فرد پر یا جماعت پر احسان کا رنگ رکھتے ہوئے قربانی کرتے ہیں، نہ ہی کسی کو تکلیف پہنچانے کی نیت سے یہ قربانی کرتے ہیں۔ نیت ہوتی ہے تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام دنیامیں پہنچانے کے لئے ہم بھی حصہ لیں۔ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہم بھی کچھ پیش کریں اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔ اِن لوگوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر مالی قربانی کرنے والے ہیں، چندے دینے والے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو بڑی مالی قربانیاں پیش کرنے والے ہیں۔ اپنے باقاعدہ چندوں کے علاوہ بھی کروڑوں روپے کی قربانی کر دیتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ لگے۔ پس یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنے ربّ سے ان قربانیوں کا اجر پانے والے لوگ ہیں۔ ان کو ان قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے۔ ان کے غموں کو خوشیوں میں بدل دیتا ہے۔ ان کے خوفوں کو اپنے فضل سے دور فرما دیتا ہے۔ ان کی اولادوں کو ان کی آنکھ کی ٹھنڈک بنا دیتا ہے اور آئندہ زندگی میں خدا تعالیٰ نے ان کو جن نعمتوں سے نوازنا ہے اس کا تو حساب ہی کوئی نہیں ہے۔ تویہ اللہ والے یہ قربانیاں اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں خداتعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے۔ یہ قربانیاں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا ادراک ہے کہ اپنے پیسوں کی تھیلی کا منہ بند کرکے نہ رکھو ورنہ خداتعالیٰ بھی رزق بند کر دے گا۔ اللہ کی راہ میں گن گن کر دو گے تو خداتعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس بات کا یقین ہے اور خدائی وعدہ پر مکمل ایمان ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلِاَنۡفُسِکُمۡؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ اللّٰہِ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یُّوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ(البقرہ: 273) یعنی جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدے میں ہے۔ جبکہ تم اللہ کی رضا جوئی کے سوا (کبھی) خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہیں بھرپور واپس کر دیا جائے گااور ہرگز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍ جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍ جون 2005ء صفحہ 5)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button