الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

اصحابِ احمدؑ کاانفاق فی سبیل اللہ

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبر ودسمبر 2013ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ کے انفاق فی سبیل اللہ کے ایمان افروز واقعات مکرم سعد محمود باجوہ صاحب کے قلم سے شائع ہوئے ہیں۔

اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کے مصداق اصحابِ احمدؑ نے قیام توحید ، غلبۂ اسلام ، فیضانِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار اور انسانیت کی عظمت کے قیام کے لیے وہی شاندار قربانیاں اور اخلاص و فدائیت کے عظیم الشان اور قابلِ ذکر نمونے پیش کیے جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں نظر آتے ہیں۔ اس خدمت ِ اسلام کا ایک بہت نمایاں پہلو ’انفاق فی سبیل اللہ‘ ہے جس کا تذکرہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں فرمایا :

’’اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے …بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لیے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔‘‘ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر 14صفحہ 306)

اپنے صحابہ کی ایمانی حالت اور انفاق فی سبیل اللہ کے خُلق کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک معترض (جس کا کہنا تھا کہ جماعت میں صرف حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ہی ہیں جو عملی آدمی ہیں)کو اِن الفاظ میں جواب ارشاد فرمایا: ’’آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم مولوی نور الدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ دوسرے ایسے ہیں اور ایسے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ آپ اس افترا کا خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں … میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں۔ اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دست بردار ہو جاؤ تو وہ دست بردار ہوجانے کے لیے مستعد ہیں۔ پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اَور ترقیات کے لیے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا۔ مگر میں دل میں ان سے خوش ہوں ۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 165)

مندرجہ بالا ارشادات کی تصدیق کی ایک جھلک واقعات سے قارئین کی خدمت میں پیش ہے :

٭… حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکم جولائی 1900ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ منارۃ المسیح کی تعمیر کے لیے مالی قربانی کی تحریک فرمائی اور 101صحابہ کی فہرست بھی شائع کی اور ان سے کم از کم ایک ایک سو روپیہ چندہ کا مطالبہ فرمایا۔ کیونکہ کُل تخمینہ اخراجات دس ہزار روپیہ تھا۔ نیز آپ ؑ نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ اس تحریک میں مطلوبہ چندہ دینے والوں کے نام بطور یادگار منار پر کندہ کیے جائیں گے۔اس تحریک میں 211مخلصین نے کم از کم سو سو روپیہ چندہ دیا۔ حضرت اماں جان ؓ نے دہلی کا ایک ذاتی مکان فروخت کر کے ایک ہزار روپیہ چندہ اس تحریک میں ادا کیا۔

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں : منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کے لیے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت حضرت صاحب کے پاس اس رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی۔ مَیں اس وقت حضرت صاحب کے پاس آیا ہوا تھا۔آپؑ نے مجھے بلوایا اور فرمایا کہ اس وقت یہ اہم ضرورت درپیش ہے، کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کر سکے گی؟ مَیں نے عرض کیا حضرت انشاء اللہ کر سکے گی۔ اور میں جا کر روپے لاتا ہوں۔ چنانچہ مَیں فورًا کپورتھلہ گیا اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حضرت صاحب کی خدمت میں لا کر پیش کردیے۔ حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپورتھلہ کو (کیونکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے تھے کہ اس رقم کا جماعت نے انتظام کیا ہے) دعا دی۔ چند دن کے بعد منشی اروڑا صاحبؓ حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ ’’منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی۔‘‘ منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’حضرت کون سی امداد؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں۔‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ’’یہی جو منشی ظفر احمد صاحب جماعت کپورتھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے۔‘‘ منشی صاحب نے کہا ’’حضرت ! منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا۔ اور میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا۔‘‘ اس کے بعد منشی اروڑا صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی ہے اور تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا۔ میں نے کہا منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کردی، اس میں آپ کی ناراضگی کی کیا بات ہے۔ مگر منشی صاحب کا غصہ کم نہ ہوا اور وہ برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں بتایا اور پھر منشی صاحبؓ چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے۔

یہ وہ فدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا ہوئے۔ ذرا غور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں مگر ایک شخص اٹھتا ہے اور بجائے جماعت سے ذکر کرنے کے اپنی بیوی کا زیور فروخت کر کے اس رقم کو پورا کر دیتا ہے۔ اور پھر حضرت صاحب کے سامنے رقم پیش کرتے ہوئے یہ ذکر نہیں کرتا کہ یہ رقم میں دے رہا ہوں یا کہ جماعت۔ تاکہ حضرت صاحب کی دعا ساری جماعت کو پہنچے۔ اور اس کے مقابل پر دوسرا فدائی یہ معلوم کر کے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور میں اس خدمت سے محروم رہا۔ ایسا پیچ و تاب کھاتا ہے کہ اپنے دوست سے چھ ماہ تک ناراض رہتا ہے کہ تم نے حضرت صاحب کی اس ضرورت کا مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا۔یہ وہ عشّاقِ حق کا گروہ تھا جو احمدیت کے آسمان پر ستارے بن کر چمکا ۔

٭…حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ کی طبیعت میں اس امر کا بڑا جوش تھا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لیے قربانی کریں۔ خود اپنی حالت تو ان کی یہ تھی کہ نہایت عسر کے ساتھ گذارا کرتے تھے۔ بوجہ معذور ہونے کے کوئی کام بھی نہ کرسکتے تھے۔ حضرت اقدس ؑ کا ایک خادم قدیم سمجھ کر بعض لوگ محبت و اخلاص کے ساتھ کچھ سلوک ان سے کرتے تھے۔ لیکن حافظ صاحب کا ہمیشہ یہ اصول تھا کہ وہ اس روپیہ کو جو اس طرح ملتا کبھی اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ نہیں کرتے تھےبلکہ اس کو سلسلہ کی خدمت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کر دیتے۔ اور کبھی کوئی تحریک سلسلہ کی ایسی نہ ہوتی جس میں وہ شریک نہ ہوتے۔ خواہ ایک پیسہ ہی دیں۔ حافظ صاحب کی ذاتی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ان کی یہ قربانی معمولی قربانی نہ ہوتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بارہا حافظ صاحب کی ان خدمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ خود بھوکے رہ کر بھی خدمت کیا کرتے تھے۔ … حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ حافظ معین الدین صاحب کے اس طرزِ عمل کو بطور نمونہ بیان کیا ہے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ ماہوار اور مستقل چندہ کے علاوہ جب ان کے پاس کچھ آ جاتا تو فوراً جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دے آتے۔ باوجودیکہ حضرت صاحب ان کو کہتے کہ ’’حافظ! تیری ضرورتوں میں کام آئے گا، تُو رکھ‘‘۔ وہ ہمیشہ یہ عرض کرتے کہ مجھے تو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سلسلہ کی کسی ضرورت میں صرف کر دیا جائے۔

٭… حضرت میاں محمد حسن صاحبؓ کی مسجد مبارک کی تعمیر کے لیے مالی قربانی کے بارے میں حضرت عبد الرحیم صاحبؓ بطور سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’اس چندہ کی تحریک کرتے ہوئے مجھے اس بات کے اظہار کی بھی خوشی ہے کہ جماعت نے اس طرف ایک حد تک توجہ کی ہے اور بعض مخلصین نے قابلِ تقلید نمونے دکھائے ہیں۔ ان میں سے … میاں محمد حسن صاحب دفتری دفتر میگزین قادیان ہیں جنہوں نے پہلے حسبِ استطاعت نقد چندہ میں حصہ لیا پھر اس کے بچے رحمت علی نے خواب دیکھا کہ میرے والد یعنی میاں محمد حسن صاحب مذکور نے میری مرحومہ والدہ کا بقیہ زیور مسجد کے چندہ میںدے دیا ہے۔ اس پر میاں محمدحسن صاحب نےتمام زیور اسی روز مسجد مبارک کے چندہ میں دے دیا جو ایک غریب انسان کی طاقت سے بڑھ کر ہے ۔‘‘

(اخباربدر۔ 16مئی 1907ء صفحہ 10)

٭…حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کی والہانہ مالی قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اُن کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریر ی سند دی کہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔ حضرت صاحب کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپؑ پر مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ کی سخت ضرورت تھی۔ آپؑ نے دوستوں کو تحریک کی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں، لنگر خانہ دو جگہوں پر ہوگیا ہے، ایک قادیان میں اور ایک گورداسپور میں۔ اس کے علاوہ مقدمے پر خرچ ہو رہا ہے۔ لہٰذا دوست امداد کی طرف توجہ دیں۔ جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن اُن کو تنخواہ تقریباً 450روپے ملی تھی۔ انہوں نے وہ ساری تنخواہ اسی وقت آپؑ کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے کہا کہ کچھ گھر کی ضروریات کے لیے رکھ لیتے۔ تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مامور کہتا ہے کہ دین کے لیے ضرورت ہے تو پھر اَور کس لیے رکھ سکتا ہوں۔

غرض ڈاکٹر صاحب دین کے لیے اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور کہنا پڑا کہ اب ان کو قربانی کی ضرورت نہیں۔

٭…حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ نے رسالہ ’’ازالۂ اوہام ‘‘کی طباعت کے لیے تین صد روپیہ بھجوایا لیکن جب اُنہیں معلوم ہوا کہ حضرت اقدسؑ کو روپیہ کی مزید ضرورت ہے تو فوراً ایک سو روپیہ اَور بھیج دیا۔ اس حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : ’’اخویم مکرم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے علاوہ اس تین سو روپے کے جو پہلے بھیجا تھا اب ایک سو روپیہ اَور بھیج دیا۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ حکیم فضل دین صاحب اپنے مخدوم مولوی حکیم نوردین صاحب کے رنگ میں ایسے رنگین ہوگئے ہیں کہ نہایت اولوالعزمی سے ایثار کے طور پر ان سے اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ صادر ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ سو روپیہ بعض زیورات کے فروخت سے محض ابتغاءً لمرضات اللّٰہ بھیجا ہے۔ جزاہم اللہ خیرالجزاء۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 623)

٭…حضرت حاجی سیٹھ عبد الرحمٰن صاحبؓ مدراسی کی مالی قربانی کا تذکرہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں فرمایا : ’’خدا نے ایسے مخلص اور جان فشان ارادتمند ہماری خدمت میں لگا دیئے کہ جو اپنے مال کو اس راہ میں خرچ کرنا اپنی سعادت دیکھتے ہیں۔ چنانچہ منجملہ ان کے حبیّ فی اللہ حاجی سیٹھ عبد الرحمٰن اللہ رکھا صاحب تاجر مدراس ہیں۔ جو اس رسالہ کے لکھنے کے وقت بھی اس جگہ موجود ہیں۔ اور مدراس سے دور دراز سفر کر کے میرے پاس تشریف لائے ہوئے ہیں۔ سیٹھ صاحب موصوف مباہلہ کے اثر کا ایک اول نمونہ ہیں۔ جنہوں نے کئی ہزار روپیہ ہمارے سلسلہ کی راہ میں محض للہ لگا دیا ہے۔ اور برابر ایسی سرگرمی سے خدمت کر رہے ہیں کہ جب تک انسان یقین سے نہ بھر جائے اس قدر خدمت نہیں کر سکتا۔ وہ ہمارے درویش خانہ کے مصارف کے اول درجہ کے خادم ہیں اور آج تک یکمشت رقوم کثیرہ اس راہ میں دیتے رہے ہیں۔ علاوہ اس کے میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے ایک سو روپیہ ماہواری اعانت کے طور پر اپنے ذمہ واجب کر رکھا ہے۔مباہلہ کے بعد ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے اور پہنچ رہی ہے میں اس کی نظیر نہیں دیکھتا۔ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے اس درجہ کی محبت دلوں میں ڈال دی۔ یہ حاجی سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب وہی ہیں جو آتھم کو قسم دینے کے وقت اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر آتھم قسم پر روپیہ طلب کرے تو اپنے پاس سے دس ہزار روپیہ تک اس کے پاس جمع کرا دیں ۔‘‘

(انجامِ آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 312)

٭…حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحبؓ کے انفاق فی سبیل اللہ کے جذبہ کا ذکر کرتے ہوئے مکرم مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ تحریر فرماتے ہیں : ‘‘حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہٗ قاعدہ یسرنا القرآن کے موجد تھے۔ اس قاعدہ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سینکڑوں روپے ماہوار اس زمانے میں آپؓ کی آمد ہوتی لیکن آپؓ کی دین کے لیے قربانی کا یہ حال تھا کہ صرف تیس روپے ماہوار اپنے اخراجات کے لیے رکھتے اور باقی سب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میںاشاعتِ قرآن کریم اور اشاعتِ اسلام کے لیے بھیج دیتے۔ 1940ء کے بعد جب گرانی ہوئی تو 40روپے ماہوار رکھنے شروع کر دئے اور ایک سال میں دس ہزار روپیہ خدمتِ دین کے لیے دیا۔ وہ خود ٹانگوں سے معذور ہونے کی وجہ سے باہر نہیں آ سکتے تھے اس لیے یہ عاجز ان کی خدمت میں ان کے مکان پر ہی حاضر ہوتا رہتا اور ان کی باتوں سے لطف اٹھاتاتھا۔ صرف ایک کمرہ تھا جس میں ان کی چارپائی بھی ہوتی تھی اور ان کا کلرک بھی بیٹھتا تھا۔ وہی سونے کا کمرہ تھا ، وہی بیٹھک اور وہی دفتر۔ اس میں سارا پڑا ہوا سامان چالیس پچاس روپے سے زیادہ کا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک ایک سال میں دس دس ہزار روپیہ سلسلہ کی ضروریات کے لیے بھیج دیتے تھے۔ وہ اگر چاہتے تو عالیشان مکان بنا لیتے اور اُسے اچھی طرح سجا لیتے لیکن اپنی ذات کے لیے سادگی اور دین کے لیے قربانی کا جذبہ اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اسی کی تسکین میں لذت پاتے تھے اور خود کو فراموش کیے ہوئے تھے۔ ذرا اس قسم کے لوگ دنیا میں تلاش تو کر کے دیکھو، کیا کہیں مل سکتے ہیں۔

٭…حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ مالیرکوٹلہ بھی مالی قربانیوں میں قابلِ تقلید نمونہ تھے۔ آپ نے متعدد مواقع پر جماعت کی مالی اعانت فرمائی۔ ان میں سے ایک واقعہ یوں ہے کہ بمقدمہ کرم دین آتما رام مجسٹریٹ کی نیت نیک نہ تھی اور وہ حضرت اقدسؑ کو سزائے قید دینے پر آمادہ تھا۔ چنانچہ 8؍اکتوبر 1904ء کو اس نے حضرت اقدس کو پانصد جرمانہ اور حضرت حکیم مولوی فضل دین صاحب کو دو صد روپیہ جرمانہ اور عدم ادائیگی کی صورت میںچھ ماہ قید کا فیصلہ سنایا۔ اس کا منصوبہ یہ تھا کہ جرمانہ فوراً ادا نہ ہو سکے گا اور قید کی سزا دی جا سکے گی۔ لیکن یہ سات صد روپیہ جرمانہ فوراً ادا کر دیا گیا جس سے اس کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ نواب صاحب کے دل میں یہ بات ڈالی تھی کہ مجسٹریٹ کی نیت اچھی نہیں ہے اور آپ نے احتیاطاً نو صد روپیہ ایک روز پیشتر اپنے ایک آدمی کے ہاتھ گورداسپور بھیج دیا اور یہی رقم ان جرمانوں کی ادائیگی میں کام آئی۔

٭…حضرت میاں شادی خاں صاحبؓ لکڑی فروش سیالکوٹ نے منارۃ المسیح کی تعمیر کے لیے اپنے گھر کا سارا سامان فروخت کر کے تین سو روپے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیے۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا : ’’شادی خاں صاحب سیالکوٹی نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہٗ نے دکھایا تھا کہ سوائے خدا کے اپنے گھر میں کچھ نہیں چھوڑا ۔‘‘جب میاں شادی خان صاحب نے یہ سنا تو گھرمیں جو چارپائیاں تھیں ان کو بھی فروخت کر ڈالا اور ان کی رقم بھی حضرت کے حضور پیش کر دی۔(تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ 147)

٭…حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : ہمارے ایک دوست چوہدری رستم علی صاحبؓ تھے۔ پہلے وہ سپاہی تھے۔ پھر کانسٹیبل ہو گئے۔ پھر سب انسپکٹر بنے۔ پھر پراسیکیوٹنگ انسپکٹر بنے۔ اس وقت تنخواہیں بہت تھوڑی تھیں۔ آج کل تو ایک سپاہی کو مہنگائی الاؤنس وغیرہ ملا کر قریباً ساٹھ روپیہ ماہوار مل جاتے ہیں۔ لیکن اُن دنوں سپاہی کو غالباً گیارہ روپے۔ تھانیدار کو 40روپے اور انسپکٹر کو 75یا سو روپے ملتے تھے اور پراسیکیوٹنگ افسر کو سو سے کچھ زیادہ ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ حضرت مسیح موعودؑ کو بھجوایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہیں یکدم آرڈر آ گیا کہ ان کو عہدہ میں ترقی دی جاتی ہے اور تنخواہ اتنی بڑھائی جاتی ہے۔اس کے بعد ان کی تنخواہ میں جو بڑھوتی ہوئی وہ ساری کی ساری حضرت مسیح موعودؑ کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے حضرت صاحب کو جو خط لکھا وہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مجھے پڑھنے کے لیے دیا۔ میں نے پڑھ کر بتایا کہ یہ خط چوہدری رستم علی صاحب کا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ میں سو روپیہ تو پہلے ہی بھیجا کرتا تھا لیکن اب میری تنخواہ میں 80روپے کی ترقی ہوئی ہے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ محض حضور کی دعاؤں کے طفیل ہوئی ہے اور آپ کے لیے ہوئی ہے۔ اس لیے اب میں آپ کو 180روپے ماہوار بھیجا کروں گا۔ میں اس بڑھوتی کا مستحق نہیں ہوں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ میں پہلی تنخواہ کا بھی مستحق نہیں تھا۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ مجھے آ پ کی خاطر ہی دے رہا ہے۔

٭… سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز افرادِ جماعت کو مالی قربانی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’مالی قربانی اصلاحِ نفس اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس کا کئی جگہ ذکر فرمایا ہے ،مختلف پیرایوں میں اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ پس جماعتِ احمدیہ میں جو مختلف مالی قربانی کی تحریکات ہوتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور دلوں کو پاک کرنے کی کڑیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَ مَا لَکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (الحدید: 11) اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ پس اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لیے مالی قربانیوں میں حصہ لینا انتہائی ضروری ہے بلکہ یہ بھی تنبیہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے کہ فرماتا ہے وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ:196) اور اللہ کے راستے میںمال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ پس جیسا کہ میں نے کہا یہ مالی تحریکات جو جماعت میں ہوتی ہیں یا لازمی چندوں کی طرف جو توجہ دلائی جاتی ہے یہ سب خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہیں۔ پس ہر احمدی کو اگر وہ اپنے آپ کو حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور کرنا چاہتا ہے ، اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلصین کی ایک بہت بڑی جماعت اس قربانی میں حصہ لیتی ہے لیکن ابھی بھی ہر جگہ بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی حکم فرمایا ہے کہ اگر آخرت کے عذاب سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث بننا ہے تو مال و جان کی قربانی کرو۔ اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے آکر تلوار کا جہاد ختم کر دیا تو یہ مالی قربانیوں کا جہاد ہی ہے جس کو کرنے سے تم اپنے نفس کا بھی اور اپنی جانوں کا بھی جہاد کر رہے ہوتے ہو۔ یہ زمانہ جو مادیت سے پُر زمانہ ہے ہر قدم پر روپے پیسے کا لالچ کھڑا ہے۔ ہر کوئی اس فکر میں ہے کس طرح روپیہ پیسہ کمائے۔ چاہے غلط طریقے بھی استعمال کرنے پڑیں کیے جائیں … تو جہاں جہاں بھی یہ مالی قربانی ہو رہی ہے یہ ایک جہاد ہے۔ اسی طرح ہمارے ملکوں میں ایک کثیر تعداد ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ افرادِ جماعت عموماً یا تو مالی لحاظ سے کمزور ہیں یا اوسط درجہ کے ہیں۔ تو جب بھی ہم میں جماعت کا کوئی فرد مالی قربانی کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کا اپنی جان کا بھی جہاد کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانے میں بھی روایات میں نظر آتی ہیں اور آج کل بھی موجود ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کرنے کی یہ مثالیں سوائے جماعتِ احمدیہ کے اور کہیں نہیں ملیں گی … اللہ تعالیٰ ایسے بے شمار قربانیاں کرنے والے جماعت کو دیتا چلا جائے۔ اور وہ فرشتوں کی دعاؤں کے بھی وارث ہوں کہ اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس جیسے اور پیدا کرتا چلاجائے۔

پس مالی قربانی کرنے والے ہر جگہ سے دعائیں لے رہے ہوتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے اور جنت کے وارث بن رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کرے کہ جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ 7-4، خطبہ جمعہ 06جنوری 2006ء )

………٭………٭………٭………

تعارف کتاب: ’’یادوں کے جگنو‘‘

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبر ودسمبر 2013ء میں خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے مجموعہ کلام ’’یادوں کے جگنو‘‘ کا تعارف شائع ہوا ہے۔

اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہر زبان میں (اور بلاشبہ ہر زمانہ میں بھی) شاعر ی (جیسی نازک اور لطیف ادبی صنف) میں صنف نازک کی اجارہ داری صنف کثیف (…!) نے کبھی قائم ہی نہیں ہونے دی۔ چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر جب کبھی کسی خاتون کے قلم سے نکلے ہوئے اشعار نظر سے گزرتے ہیں تو یہ امر اس پہلو سے خوشی کا باعث ہوتا ہے کہ ادب کی اس نازک شاخ میں طبع نازک بھی طبع آزمائی کی کامیاب سعی کرنے کے تجربات سے گزر رہی ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ’’یادوں کے جگنو‘‘ کا مطالعہ بھی ایک ایسی ہی خوشگوار حیرت اور مسرت کا باعث تھا جب زمین کے ایک کنارے (ناروے) میں بسنے والی نبیلہ رفیق کا نام شعروادب کی دنیا میں ایک منفرد اضافہ نظر آیا۔ اس مجموعہ کلام کا انتساب موصوفہ نے اپنے مرحوم شوہر جناب رفیق فوزی کے نام کیاہے۔

یہ کتاب A5 سائز کے ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل ہے اور ظاہری طور پر بھی خوبصورتی کا ایک مرقّع ہے۔ اگرچہ اس کے رنگین سرورق میں تو نسوانیت کی جھلک نمایاں ہے ہی لیکن کلام کا بہت سا حصہ بھی صنف نازک کے ایسے ہی نازک جذبات کو عیاں کررہا ہے جو شاعری کے اسرار سے الجھنے والوں کے لیے ہی مخصوص ہیں۔ کتاب میں نظموں اور غزلوں کی کُل تعداد 60 ہے جن میں شامل ایک طویل نظم ’’شور‘‘ دل کے تاروں پر مضراب کا سا اثر رکھتی ہے۔ شاعر یا شاعرہ کا اصل تعارف چونکہ اُس کا کلام ہی ہوتا ہے اس لیے اس مجموعے میں سے ایک انتخاب نمونۃً ہدیۂ قارئین ہے:

خدایا مجھے اپنی بانہوں میں لے لے

محبت کی گہری گھٹاؤں میں لے لے

مرض لاشفا ہے میری معصیت کا

تُو شافی ہے اپنی شفاؤں میں لے لے

…٭…٭…٭…٭…٭…٭…

تُو وہ کہ ڈال دیتا ہے جھولی میں سب کی خیر

میری طرف بھی ڈال لے رحمت کی اِک نظر

دھندلا گیا ہے آئینہ میرے نصیب کا

اُمڈا ہوا طوفان ہے رستہ ہے پُرخطر

اپنے کرم سے بخش دے تُو عافیت کا دَر

رستہ نہ بھول جاؤں مَیں پُرپیچ ہے سفر

…٭…٭…٭…٭…٭…٭…

یونہی سروری ہاتھ آئی نہیں تھی

دیوں کو لہو سے جلانا پڑا تھا

طنابیں کلیسا کی ٹوٹی نہ ہوتیں

زمیں پر فلک کو جھکانا پڑا تھا

صدائے اذاں قُرطبہ نے سُنی پر

ملّاحوں کو بیڑا جلانا پڑا تھا

یونہی محفلِ عید سجتی نہیں ہے

پسر کو زمیں پر لٹانا پڑا تھا

…٭…٭…٭…٭…٭…٭…

کبھی خود سے نظریں ملا کر تو دیکھو

قرض اُلفتوں کا چُکا کر تو دیکھو

حقائق نظر میں اُلجھ سے گئے ہیں

نگاہوں کی مستی ہٹا کر تو دیکھو

…٭…٭…٭…٭…٭…٭…

سوکھی فصلوں پہ لرزہ طاری ہے

لوگ کہتے ہیں لہلہاتی ہیں

…٭…٭…٭…٭…٭…٭…

آتشِ عشق جلی ہے اسے مدھم کردو

اپنے حرفوں سے مرے سوز کو کچھ کم کردو

یہ نہ کہنا کہ ترے پاس نہیں میری دوا

بس برستے ہوئے آؤ مجھے پُرنم کردو

گر تُو سمجھے کہ یہ فریاد نہیں دھوکہ ہے

آزمانے چلے آؤ مجھے نادم کردو

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button