یادِ رفتگاں

میری پیاری امی مکرمہ گوہر سلطانہ صاحبہ

(ناصرہ مسرت مرزا۔ لندن)

میری پیاری امی مکرمہ گوہر سلطانہ صاحبہ (اہلیہ مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب، سابق امیر ضلع راولپنڈی)7؍اکتوبر2021ء کوکنگسٹن اپان ٹیمز یو کے میں ایک سال بوجہ کینسر بیمار رہنے کے بعد اپنے بیٹے عطاء الحفیظ کے گھر میں وفات پاگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

امی 19؍جولائی 1944ء کو ڈاکٹر محمد زبیر صاحب کے گھر بمقام ڈاڈر(ایبٹ اۤباد) پیدا ہوئیں۔ میرے نانا میرے دادا کے بھتیجے لگتے تھے۔ اس طرح امی کے پڑدادا اور ہمارے پڑدادا ایک ہی شخصیت یعنی مکرم مولوی شرف دین صاحب تھے۔امی کی والدہ بھی انتہائی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیںاور خود بھی بہت عبادت گزار تھیں۔ امی نے ابتدائی تعلیم پارہ چنار کرم ایجنسی میں حاصل کی جہاں میرے نانا سول ہسپتال میں بحیثیت ڈاکٹر کام کرتے تھے۔پارہ چنار ایک پسماندہ علاقہ تھا جہاں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں تھا۔لیکن امی کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا جو کہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا اور پھر انہوں نے شادی کے کافی عرصے کے بعد پورا کیا۔ قرآن مجید کی تجوید سیکھی۔ میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا اور پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے کا امتحان دیا۔امی کی شادی سترہ سال کی عمر میں میرے والد مکرم فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ ہوئی۔ امی کا نکاح 1961ء میں مجلس مشاورت کے موقع پر ربوہ میں ہوا۔ اۤپ کا نکاح مولانا جلال الدین شمس صاحب نے پڑھایا تھا اور اس کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے دعا کروائی۔امی بیاہ کر حیدراۤباد اۤ گئی تھیں جہاں میرے والد صاحب ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری میں جنرل مینیجر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ حیدراۤباد ہی میں میرے بڑے دونوں بھائیوں کی پیدائش ہوئی۔ اس کے بعد بنوں، کوہاٹ اور راولپنڈی میں بھی قیام رہا۔

میں نے شروع سے ہی امی کو صوم و صلوٰۃ کا پابند پایا۔تہجد اور نوافل کی ادائیگی ان کا روزمرہ کا معمول تھا ۔ صبح گھر کے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد ظہر کی نماز کے لیے خاص اہتمام سے تیار ہوتیں۔ رمضان کے روزے باقاعدگی سے رکھتیں۔ چند سال پہلے اس بات کا ذکر کیاکہ ان کی یادداشت کے مطابق جو بھی روزے چھوٹے تھے وہ انہوں نے پورے کر لیے ہیں اور ساتھ ہی کہتیں کہ اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ اۤمین

جیساکہ حدیث ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ امی بلا شبہ اس پر عمل کرنے والی تھیں۔ صفائی ستھرائی کا بہت خیال رکھتیں۔ نہ صرف جسم اور لباس کی صفائی کا خیال رکھتیں بلکہ گھر کی صفائی اور کھانا پکانے میں بھی بہت محتاط ہوتیں۔ کوئی خشک برتن پانی سے دھوئے بغیر استعمال نہیں کرتی تھیں۔ بیماری کے اۤ خری دنوں میں بالکل بستر پر تھیں اور بمشکل چند نوالے ہی کھاتیں لیکن اس کے بعد لازمی دانت برش کرتیں۔انتہائی خوش لباس اور نفاست پسند تھیں۔گھر کے ملازمین کا بہت خیال رکھتیں۔رمضان میں جب گھر والوں کے لیےسحری بناتیں تو ملازمین کے لیے بھی ویسا ہی کھانا تیار کرتیں۔ اسی طرح افطاری بھی تیار کر کے طشت میں رکھ کر ان کو دیتیں۔ عید کے دن عید کی نماز کے بعد بڑے اہتمام سے عید کے لوازمات ڈرائنگ روم کے میز پر لگاتیں اور باہر سے تمام ملازمین کو اندر بلوا کران کی خاطر مدارت کرواتیں۔ جب روزمرہ کا کھانا تیار ہوتا تو سب سے پہلے ان کے لیے کھانا نکالتیں۔ گھر کی ملازمہ کی طبیعت خراب ہوتی تواپنے سامنے بٹھا کر گرم دودھ میں اوولٹین ڈال کر دیتیں۔ کبھی انڈا ابال کر دیتیں اور اپنے پاس سے دوائیاں بھی دیتیں۔ جو ملازمین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے اب کام نہیں کر سکتے تھے ان سے فون پر رابطہ رکھتیںاور ان کی مالی امداد کرتیں۔

امی کی طبیعت کی ایک بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ غیبت سے نفرت کرتی تھیں اور اگر ان کے سامنے کوئی غیبت کرتا تو اسے روکتیں یا اٹھ کر وہاں سے چلی جاتیں۔ اکثر ہمیں کہتی تھیں کہ اگر کوئی غیبت کر رہا ہے اور روکنے کے باوجود نہیں منع ہو رہا تو میں دل ہی دل میں استغفار پڑھنا شروع کر دیتی ہوں۔ لڑائی جھگڑے سے ہمیشہ دور رہتیں اور صلح صفائی والی بات کرتیں۔ ملنے ملانے والوں میں بھی اگر کوئی ایسی بات کرتا جو بعد میں لڑائی کی صورت اختیار کر سکتی تھی تو بالکل خاموش ہو جاتیں تاکہ بات وہیں ختم ہو جائے۔ بات چیت کرنے میں بہت محتاط ہوتیں۔

احمدی ہونے پر اکثر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتیں۔ خلافت سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔ میرے والد صاحب جو امیر جماعت ضلع راولپنڈی تھے کی جماعتی ذمہ داریوں میں ان کے شانہ بشانہ رہیں۔ ہر سفر میں ان کے ساتھ ہوتیں اور گھر اۤنے والے جماعتی مہمانوں کی مہمان نوازی کرتیں۔ اکثر لوگ اپنے مسائل لے کر والد صاحب کے پاس اۤتے چاہے وہ نجی ہوتے یا جماعتی ، امی ان کی رازداری کو قائم رکھنے کا بہت خیال رکھتیں۔جماعتی چندہ جات بہت باقاعدگی سے دیتی تھیں۔اس کے علاوہ حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ہی ادا کر دیا تھا۔

شروع سے امی کی عادت تھی کہ وہ ڈائری لکھا کرتی تھیں۔اۤپ کو بہت کثرت سے سچے خواب اۤتے۔ اکثر خواب میںقران پاک کے الفاظ اۤپ پڑھ رہی ہوتیں اور جب اۤنکھ کھلتی تو حقیقتاً وہ الفاظ آپ کی زبان پر ہوتے۔ اۤپ اپنے خواب ڈائری میں لکھ لیتیں پھر جب وہ خواب پورا ہوتا تو وہ بھی لکھ لیتیں۔اپنی ڈائری میں یادداشت کے طور حضور اقدس سے کی جانے والی ملاقات کی تفصیل لکھتیں۔ اس کے علاوہ قران مجید کی تجوید کے اصول، مختلف ممالک میں جن مساجد میں اۤپ گئیں ، اشعار، اقوال زریں اور گھریلو ٹوٹکے وغیرہ بھی لکھ لیتیں۔قران مجید میں مسنون دعائوں پر نشانات لگا لیتیں۔درثمین کے اکثر دعائیہ اشعار بھی لکھ لیتیں۔

اۤپ کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی جس کا ذکر اۤپ کی وفات کے بعد اکثر لوگوں نے اپنے تعزیتی پیغامات میں کیاہے۔اور اعلیٰ اخلاق کی تصدیق کی ہے۔انتہائی دھیمے مزاج کی تھیں۔ہمدرد،پُرخلوص،خیال رکھنے والی،خدمت گزار، عبادت گزار،دعا گو، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پرادا کرنے والی تھیں۔

شادی سے پہلے اپنے والدین کی خدمت اور چھوٹے بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھتیں۔سب بہن بھائیوں میں بڑی ہونے کی وجہ سے سب کے لیے ماں کا درجہ رکھتی تھیں اور ایک شفیق ماںکی طرح ہی سب کا خیال رکھتیں۔سترہ سال کی عمرمیں آپ کی شادی ہو گئی تھی۔ اۤپ نے اپنے ساس سسر کی بہت خدمت کی۔میری پھپھو جنہیں کینسر ہو گیا تھااوروہ اپنے چار معصوم بچوں کے ساتھ ہمارے والد صاحب کے پاس اۤ گئی تھیں۔اۤپ نے سب کی بے لوث خدمت کی۔پھپھو کی وفات کے بعد بچے والد صاحب کی ہی کفالت میں رہے اور سب بچوں کا امی کے ساتھ بہت پیار اور محبت کا رشتہ تھا۔

اپنی بیماری بھی انتہائی صبر اور وقار کے ساتھ گزاری۔ جب بھی ان سے حال پوچھتے تو کہتیں شکر الحمدللہ ۔ انتہائی مہمان نواز تھیں جس کا ذکر اکثر جماعتی عہدیداران کرتے۔ اۤخری ایام میں بھی جب نرسز اۤتیں یا کوئی عیادت کے لیے اۤتاتو ہمیں مہمان نوازی کرنے کا کہتیں۔ وفات سے ایک ہفتہ پہلے کہنے لگیں کہ میری طرف سے اۤخری دفعہ سب بچوں کی دعوت کر دو۔انسانی کوشش جس قدر ممکن تھی وہ ان کے علاج کے لیے کی گئی لیکن تقدیر مبرم کو کون ٹال سکا ہےچنانچہ7؍اکتوبر2021ء کو ہماری پیا ری امی صبح دس بجے اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حضور اقدس نے ازراہ شفقت حاضر نماز جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں تدفین کی اجازت مرحمت فرمائی۔امی اکثر یہ دعا کرتیں کہ خدایا! میری اۤزمائش لمبی نہ کرنا اور خاتمہ بالخیر کرنا۔اور ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کی دعائیں قبول ہوتے ہوئے دیکھیں۔امی کی وفات سے دس دن قبل Covidکی پابندیاں اٹھائی گئیں اور پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکال دیا گیا۔اور ہمارے لیے ممکن ہوا کہ ہم امی کا جنازہ لے کر ربوہ جائیں۔اور امی کی دلی خواہش کے مطابق انہیں بہشتی مقبرہ میں والد صاحب کے قریب دفن کریں۔ الحمدللہ

ہزاروں رحمتوں کے زیر سایہ

دعائوں کے لیے بھاری خزانے

ہمارے گھر کی زینت جا رہی ہے

بساط گلشن جنت سجانے

اللہ تعالیٰ ہماری پیاری امی کو اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے، اپنا دیدار نصیب فرمائےاوراپنے پیاروں کے ساتھ رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کی قبروں کو کشادہ فرمائے اور ان میں نور بھر دے۔ اۤمین

مغفرت بے حساب ہو جائے

مرحمت لا جواب ہو جائے

قرب رحمت ماۤب حاصل ہو

وصل عالی جناب ہو جائے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button