تعارف کتاب

رسالہ الوصیت

(ابو سلطان)

تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے۔ جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں

تعارف

یہ دسمبر1905ءکی تصنیف ہے۔ اس رسالہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے وہ تمام الہامات درج فرمائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی وفات قریب ہے۔ اپنی وفات کے متعلق فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ وہ دو قدرتیں دکھاتا ہے۔ پہلی قدرت نبی کا وجود ہوتا ہے اور نبی کی وفات کے بعد قدرت ثانیہ کا ظہور ہوتا ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھڑا کیا۔ اس رسالہ میں حضور علیہ السلام نے الٰہی منشاء کے ماتحت اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن کے مقاصد کے لیے ایک دائمی اور مستقل اور روز افزوں نظام کےقیام کا اعلان فرمایاہے جو نظامِ وصیت کے نام سے مشہور ہے۔ یہی آئندہ دنیا کے مختلف اقتصادی نظاموں میں نظام نو ثابت ہوگا۔ جس کی رو سے اشاعت اسلام کی خاطر ہر وصیت کرنے والے کو اپنی آمد اور جائیداد کا کم از کم 10/1حصہ سلسلہ کو دینا ہوگا۔

مضامین کا خلاصہ

فرمایا خدائے عزوجل نے متواتر وحی سے مجھے خبر دی ہے کہ میرا زمانہ وفات نزدیک ہے اور اس بارے میں اس کی وحی اس قدر تواتر سے ہوئی کہ میری ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا اور اس زندگی کو میرے پر سرد کر دیا۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے دوستوں اور ان تمام لوگوں کو جو میرے کلام سے فائدہ اٹھانا چاہیں چند نصائح لکھوں۔

پھر عربی الہامات اور ان کا ترجمہ درج فرمایا کہ تیری اجل قریب آ گئی ہے اور ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رسوائی کا موجب ہو۔ تو اس حال میں فوت ہو گا جو میں تجھ سے راضی ہوں گا۔ خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ہم تیری نسبت ایسے ذکر باقی نہیں چھوڑیں گے جو تیری رسوائی اور ہتک عزت کا موجب ہوں۔ اس کے دو معنی ہیں اول ایسے اعتراضات کو جو رسوا کرنے کی نیت سے شائع کیے جاتے ہیں ہم دور کر دیں گے۔ دوسرا یہ کہ شکایت کرنے والوں کو جو اپنی شرارتوں کو نہیں چھوڑتے اور بدذکر سےباز نہیں آتے دنیا سے اٹھا لیں گے۔

خدا تعالیٰ نے اردو زبان میں میری وفات کی نسبت مخاطب ہوکر فرمایاکہ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں، اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی۔ یہ ہوگا، یہ ہوگا، یہ ہوگا۔ بعد اس کے تمہارا واقعہ ہوگا۔ تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا۔ حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا ہے یہی ہے کہ ہر طرف دنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے اور اس شدت سے آئیں گے کہ قیامت کا نمونہ ہوں گے۔

فرمایا :دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا، لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ میں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔

اپنے دعویٰ کے برحق ہونے کے متعلق فرمایا: اگر دنیا کی آنکھ کھلتی تو وہ دیکھتے کہ میں صدی کے سر پر ظاہر ہوا، احادیث کے عین مطابق میرے دعویٰ کے وقت رمضان کے مہینے میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہوا۔ طاعون بھی ظاہر ہوئی اور زلزلے بھی آئے۔ مگر افسوس جنہوں نے دنیا سے پیار کیا انہوں نے مجھے قبول نہ کیا۔ فرمایا: خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہےجیسا کہ فرمایا کتب اللّٰہ لاغلبن انا و رسلی۔ غلبہ سے مراد ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتابلکہ بظاہر ایک ناکامی کے خوف کے وقت میں ان کو وفات دیتا ہے اور مخالفین کو ہنسی اور ٹھٹھے کا موقع دے دیتا ہےجب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے۔ غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور دشمن خیال کرتا ہے کہ یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور کئی بد قسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اپنے اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا کہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔

اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں۔ کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے۔ جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تابعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدے کا دن ہے۔

فرمایامیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گےجو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو…اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی۔

تبلیغ کے تین ذرائع

فرمایا :خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحدپر جمع کرے۔ یہی خدا کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔

( حاشیہ میں آپؑ فرماتے ہیں )ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہو گا پس جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے۔ وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا اور چاہیے کہ وہ اپنے تئیں دوسروں کے لیے نمونہ بناوے۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میں تیری جماعت کے لیے تیری ہی ذریت میں سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریں گے۔

حقیقی تقویٰ کا حصول

فرمایا :چاہیے کہ تم بھی ہمدردی اور نفسوں کو پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدوس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو۔ دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو۔ وہ درد جس سے خدا راضی ہو اس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے۔ اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الٰہی ہو…خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتےجب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذت چھوڑ کر، اپنی عزت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر، اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے۔ لیکن اگر تم تلخی اٹھاؤ گےتو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آ جاؤ گے اور تم ان راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں…خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہیے۔ پس اگر تم دنیا کی ایک ذرہ بھی ملونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں۔ اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ۔ کینہ وری سے پرہیز کرو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک راہ میں نیکی اختیار کرو نامعلوم کس راہ سے قبول کیے جاؤ۔

ایک خوشخبری

فرمایا :تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لیے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے انعام پاویں۔

خدا تم سے کیا چاہتا ہے؟

فرمایا :اے سننے والوں سنو کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے، بس یہی کہ تم اسی کے ہو جاؤ اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو۔ نہ آسمان میں نہ زمین میں۔ ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ وہ پہلے زندہ تھا۔ اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہی… وہ عرش پر ہےمگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہےتمام محامد حقہ کا اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہےتمام طاقتوں کا اور مبدا ہے تمام فیضوں کا… اور متصف ہےہر ایک کمال کا اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے…وہ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور اس کو اسی کے ذریعے سے ہم پا سکتے ہیں اور وہ راست بازوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا ہے… اس تک پہنچنے کے لیے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے۔ اور تمام نبوتیں اور کتابیں جو پہلے گزر چکیں ان کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سب پر مشتمل اور حاوی ہے اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں۔ تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اس کے اندر ہیں۔ اس لیے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہیے تھاکیونکہ ہر چیز کے لیے ایک آغاز ہے، اس کے لیے ایک انجام بھی ہے۔ لیکن یہ نبوت محمدیہﷺ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے۔ اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے۔

فنا فی الرسول کے درجہ پرامتی کو نبوت مل سکتی ہے

فرمایا:وہ قوم جس کے لیے فرمایا گیا کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍاُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اور یہ دعا سکھائی گئی کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ اگر اس کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ (نبوت )سے محروم رہتے تو امت محمدیہ ناقص اور ناتمام رہتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوت فیضان پر بھی داغ لگتا اور ناقص ٹھہرتی۔ اور ساتھ اس دعا کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا بھی عبث ٹھہرتا۔ پس ان دونوں خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے مکالمہ مخابطہ کا شرف بعض ایسے افراد کو عطا کیا جو فنا فی الرسول کی حالت تک اتم درجہ تک پہنچ گئے اور کوئی حجاب درمیان نہ رہا۔ ایسے طور پر کہ ان کا وجود اپنا نہ رہا بلکہ ان کے محویت کے آئینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود منعکس ہوگیا۔ پس اس طرح پر بعض افراد نے باوجود امتی ہونے کے نبی ہونے کا خطاب پایا کیونکہ ایسی صورت کی نبوت، نبوت محمدیہ سے الگ نہیں بلکہ اگر غور سے دیکھو تو خود وہ نبوت محمدیہ ہی ہے جو ایک پیرایۂ جدید میں جلوہ گر ہوئی۔

وفات مسیح

فرمایا :عیسی علیہ السلام کو خدا نے وفات دے دی جیسا کہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ اس پر شاہد ہے کہ خدا قیامت کو عیسٰی علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے اپنی قوم کو تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانو۔ تو وہ کہیں گے کہ جب تک میں ان میں تھا ان پر شاہد تھا جب تو نے مجھے وفات دے دی تو، تو ہی ان پر نگران تھا مجھے کیا پتہ کہ وہ کس ضلالت میں مبتلا ہوئے۔

پس اگر عیسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ آنا ہوتا اور چالیس برس دنیا میں رہ کر عیسائیوں سے لڑائیاں کرتے اور صلیب توڑنی ہوتی تو کیا قیامت کے دن نبی ہو کر ایسا مکروہ جھوٹ بول سکتے ہیں۔ اس لئے اس آیت کی رو سے وہ قیامت تک اب آسمان پر ہی رہیں گے اور اگر وہ اس وقت آسمان پر ہیں تو لازماً فوت ہو کر ہی گئے ہیں کیونکہ آیت فیھا تموتون کے برخلاف وہ آسمان میں جا کر فوت نہیں ہو سکتے۔

آسمانی اور زمینی نشانات

فرمایا :میرے لئے خدا کے نشان آسمان پر (کسوف خسوف) ظاہر ہوئے اور زمین پر( طاعون، زلزلے)بھی۔ اور صدی کا قریباً چوتھا حصہ گزر گیا اور ہزار ہا نشان ظہور میں آگئے۔ پھر بھی حق کو قبول نہ کرنا یہ کیسی سخت دلی ہے۔ دیکھو میں بلند آواز سے کہتا ہوں کہ خدا کے نشان ابھی ختم نہیں ہوئے۔ اس پہلے زلزلے کے نشان کے بعد جو چار اپریل 1905ء کو ظہور میں آیا خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اور سخت زلزلہ آنے والا ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ بھونچال آیا اور شدت سے آیا، زمین تہ وبالا کر دی ۔ نیز فرمایا کہ میں پوشیدہ طور پر فوجوں کے ساتھ آؤں گا…کیونکہ ایک گناہ حد سے بڑھ گیا اور انسان حد سے زیادہ دنیا سے پیار کر رہے ہیں اور خدا کی راہ تحقیر کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ پھر فرمایا :زندگیوں کا خاتمہ۔

فرمایا :یاد رہے کہ یہ اعلان تشویش پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ آئندہ تشویش کی پیش بندی کے لیے ہے۔ تا کوئی بے خبری میں ہلاک نہ ہو۔ ہماری نیت دکھ دینے کی نہیں بلکہ دکھ سے بچانے کی ہے۔ وہ لوگ جو توبہ کرتے ہیں خدا کے عذاب سے بچائے جائیں گے۔

فرمایا ‘مجھے ایک جگہ دکھلائی گئی (ایک فرشتہ نے بتایا)کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی…پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی۔ تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں۔ تب سے مجھے ہمیشہ فکر رہی کہ جماعت کے لیے ایک خطہ زمین قبرستان کی غرض سے خریدا جائے… اب اخویم مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد جب کہ میری وفات کی نسبت بھی متواتر وحی الہی ہوئی، میں نے مناسب سمجھا کہ قبرستان کا جلدی انتظام کیا جائے۔ اس لیے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے جس کی قیمت ہزار روپے سے کم نہیں اس کام کے لیے تجویز کی اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اس کو بہشتی مقبرہ بنا دے۔ اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہوجنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی۔ اور خدا کے لئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ آمین یا رب العالمین

پھر میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو تو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں۔ آمین یا رب العالمین

پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتاہوں کہ اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور و رحیم تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں اور تیرے لیے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں۔ جن سے تو راضی ہےاور جن کو تو جانتا ہے کہ وہ بکلی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ آمین یا رب العالمین۔

فرمایا :اس قبرستان کے لیے مجھے بڑی بھاری بشارتیں ملی ہیں جیسا کہ فرمایا انزل فیھا کل رحمۃ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی۔ اس لیے خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لیے ایسے شرائط لگا دیے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہو سکیں جو اپنے صدق اور کامل راستبازی کی وجہ سے ان شرائط کے پابند ہوں۔ سو وہ تین شرطیں ہیں اور سب کو بجا لانا ہوگا۔

پہلی شرط یہ ہےکہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف (خوشنما کرنے کے لیے درخت لگانے، کنواں لگانے اور پل تیار کرنے وغیرہ) کے لیے چندہ داخل کرے اور یہ چندہ محض انہی لوگوں سے طلب کیا جائے نہ دوسروں سے۔ بالفعل یہ چندہ اخویم مولوی مکرم مولوی نور الدین صاحب کے پاس آنا چاہیے۔ لیکن اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا۔ اس صورت میں ایک انجمن چاہیے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتا ًفوقتاً جمع ہوتا رہے گا، اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں۔

دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسبِ ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اس سے کم نہیں ہوگا۔

فرمایا :مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے… بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے اموال کیے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں۔ سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لیے کام کریں۔

تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو۔ اور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو۔ سچا اور صاف مسلمان ہو۔

4۔ ہر ایک صالح جو اس کی کوئی بھی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لیے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے۔

فرمایا :واضح ہو کہ خدا کا ارادہ ہے کہ ایسے کامل الایمان ایک ہی جگہ دفن ہوں تا آئندہ نسلیں ایک ہی جگہ ان کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کریں اور تا ان کے کارنامے یعنی جو خدا کے لیے انہوں نے دینی کام کیے ہمیشہ کے لیے قوم پر ظاہر ہوں۔

بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کام میں ہر ایک مخلص کو مدد دےاور ایمانی جوش ان میں پیدا کرےاور ان کا خاتمہ بالخیر کرے۔ آمین۔

مناسب ہے کہ ہر ایک صاحب ہماری جماعت میں سے جن کو یہ تحریر ملے وہ اپنے دوستوں میں اس کو تشہیر کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کی اشاعت کریں اور اپنی آئندہ نسل کے لیے اس کو محفوظ رکھیں۔ اور مخالفوں کو بھی مہذب طریق پر اس سے اطلاع دیں۔ اور ہر ایک بدگوئی پر صبر کریں اور دعامیں لگے رہیں۔

حاشیہ میں فرمایا :کوئی نادان اس قبرستان اور اس کے انتظام کو بدعت میں داخل نہ سمجھے کیونکہ یہ انتظام حسب و حی الٰہی ہےاور انسان کا اس میں دخل نہیں اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیونکر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مطلب نہیں کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کر دے گی بلکہ خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا۔

اس رسالہ الوصیت کے اختتام پر ’ضمیمہ متعلقہ رسالہ الوصیت ‘شامل کیا گیا ہےجس میں قبرستان میں مدفون ہونے والوں کے لیے بیس ضروری قابل اشاعت امور تحریر کیے گئے ہیں جن کی پابندی لازمی ہے۔

آخر پر حضور تحریر فرماتے ہیں :میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے مال لوں اور اپنے قبضہ میں کر لوں بلکہ تم اشاعت دین کے لیے ایک انجمن کے حوالے اپنا مال کرو گے اور بہشتی زندگی پاؤ گے۔ بہتیرے ایسے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کرکے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کئے جائیں گے۔ تب آخری وقت میں کہیں گے کہ ھذا ما وعد الرحمن و صدق المرسلون۔

والسلام علی من تبع الھدیٰ

الراقم خاکسار میرزا غلام احمد

خدا کی طرف سے مسیح موعود (6 جنوری 1906)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button