حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے؟

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اپریل 2010ء)

اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کے مضمون کو قرآنِ کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم: 8) اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔

پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اظہار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری اور اس کا اظہار کیا ہے؟ اس کی شکر گزاری کا اظہار اس کی کامل فرمانبرداری ہے۔ اس کے حکموں کی پابندی ہے۔ جن باتوں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے انہیں پوری توجہ سے سرانجام دینا ہے اور جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان سے کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے رُک جانا ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبدِ شکور بن کر گزارے اور عبدِ شکور بننے کے لئے اپنے دل و دماغ میں اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھے۔ اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھتے ہوئے اس کے ذکر سے تَر رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے جن انعامات سے نوازا ہے انہیں یاد رکھے اور انہیں یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری رہے اور صرف زبان پر نہ جاری ہو بلکہ ایک حقیقی مومن کا اظہار اس کے ہر عضو سے ہوتا ہو، اس کی ہر حرکت و سکون سے ہوتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ بننے کی کوشش ہو۔ یہ عاجزی اس وقت ہو سکتی ہے جب حقیقت میں تمام نعمتوں کا دینے والا خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا پیار دل میں ہو۔ جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان کا استعمال اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہو۔ صحت مند جسم دیا ہے تو عبادت اور اس کے راستے میں اس کے دین کی خدمت کر کے اس کا شکر ادا کریں۔ اگر کشائش عطا فرمائی ہے تو کسی قسم کی رعونت، تکبر اور فخر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرف توجہ کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور استعدادوں اور مال اور اولادکے صحیح مصارف خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہیں تو طبعی شکر گزاری بھی ہے اور پھر خدا تعالیٰ جو اپنے بندے پر بہت رحم کرنے والا ہے اور ایک کے بدلے کئی گنا دینے والا ہے۔ وہ استعدادیں بھی بڑھاتا ہے، صحت بھی دیتا ہے، کشائش بھی دیتا ہے، ایک عابد بندے کو اپنے قرب سے بھی نوازتا ہے۔ اس کا جو مقصدِ پیدائش ہے اس کے حصول کی بھی توفیق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان اپنے زورِ بازو سے عبادت یعنی مقبول عبادت بھی نہیں کر سکتا۔ اگر عبادت کرتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ قابلِ قبول نہیں تو ایسی عبادت بھی بے فائدہ ہے۔ پس یہ شکر گزاری کا مضمون ہے جو نیکیوں میں بڑھنے کی بھی توفیق دیتا ہے۔ تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دیتا ہے۔ کیونکہ انسان اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ قرار دے کر اس کی طرف جھکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے شکر گزار بندوں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ (آل عمران: 116) اور جو نیکی بھی وہ کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔

پس تقویٰ بھی شکر گزاری سے بڑھتا ہے کیونکہ شکر گزاری بھی ایک نیکی ہے۔ اور حقیقی نیکیوں کی توفیق بھی اپنے تمام تر وجود، مال، صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرنے سے ملتی ہے اور ایسے نیکیوں میں بڑھنے والے اور شکر گزار مومنوں کے لئے خدا تعالیٰ خودکس طرح اپنے شکور ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اس کی مزید وضاحت کے لئے اس طرح بیان فرمایا کہ لِیُوَفِّیَہُمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ (فاطر:31) یعنی تا کہ وہ انہیں ان کے اعمال کے پورے پورے اجر دے اور ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ بڑھا دے یقیناً وہ بہت بخشنے والا اور بہت قدر دان ہے۔

جب اللہ تعالیٰ اپنے لئے شکورکا لفظ استعمال کرتا ہے تو بندوں والی عاجزی اور شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جو تمام طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے وہ جب شکوربنتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی عاجزی اور شکر گزاری اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کو پسند کیا ہے اور خالص ہو کر اس کی خاطر کی گئی عبادتیں اور تمام نیکیاں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہیں۔ اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غفور کے لفظ کے ساتھ شکورکا لفظ استعمال فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے اور قدردان ہے۔ انسان جو کمزور ہے جب اس کو احساس ہو جائے کہ میں نے ہر نیکی خدا تعالیٰ کی خاطر بجا لانی ہے اور اس کا شکر گزار بندہ بننا ہے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھکنا ہے تو اللہ تعالیٰ جو بہت بخشنے والا ہے، جس کی رحمت بہت وسیع ہے وہ اپنی مغفرت کی چادر میں اپنے بندے کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اس کے گناہوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اپنی طرف بڑھنے والے اپنے بندے کے ہر قدم کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے انعامات میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ پس یہ ہمارا خدا ہے جو ہر لحاظ سے اپنے بندے کو نوازتا ہے۔ اسے دنیا بھی ملتی ہے اور اس کو نیکیوں کے اجر بھی ملتے ہیں۔ اگر ایسے مہربان اور قدر دان خدا کو چھوڑ کر بندہ اور طرف جائے تو ایسے شخص کو بیوقوف اور بدقسمت کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟

پس آپ لوگ جو اس ملک میں آکر آباد ہوئے ہیں، اپنے جائزے لیں۔ آپ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس پر نظر رکھیں تو آپ میں سے اکثر یہی جواب پائیں گے کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا ہے۔ اپنے وطن سے بے وطنی کوئی بِلاوجہ اختیار نہیں کرتا۔ یا تو ظالموں کی طرف سے زبردستی نکالا جاتا ہے یا ظلموں سے تنگ آ کر خود انسان نکلتا ہے، یا معاش کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اگر احمدی اپنے جائزے لیں تو صاف نظر آئے گا کہ جو صورتیں میں نے بیان کی ہیں ان میں سے اگر پہلی صورت مکمل طور پر نہیں تو دوسری دو صورتیں بہر حال ہیں۔ ظلموں سے تنگ آکر نکلنا بھی جیسا کہ میں نے کہا ذہنی سکون اور معاش کی تلاش کی وجہ سے ہی ہے۔ اور ان ملکوں کی حکومتوں نے آپ کے حالات کو حقیقی سمجھ کر آپ لوگوں کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ سب فضل ہم پر احمدیت کی وجہ سے کئے ہیں۔ پس یہ پھر اس طرف توجہ دلانے والی چیز ہے کہ احمدیت کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جو ایک مثال ہو تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری ہو گی۔

اگر جماعت کی قدر نہیں کریں گے اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے۔ پس غور کریں، سوچیں کہ اگر یہ دنیا آپ کو دین سے دور لے جا رہی ہے تو یہ انعام نہیں ہلاکت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے جس کے آنے کی ہر قوم منتظر ہے۔ جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیار کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جس کے لئے آنحضرتﷺ نے سلام بھیجا ہے۔

تو کیا ایسے شخص کی طرف منسوب ہونا کوئی معمولی چیز ہے؟ یقیناً یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو ایک احمدی کو ملا ہے۔ پس اس اعزاز کی قدر کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔ یہ قدر پھر ایک حقیقی احمدی کو عبدِ شکور بنائے گی اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اترتے دیکھے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button